محاربہٴ ۱۸۵۷ء
(1)
۱۸۵۷/ ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ قدیم وجدید کے درمیان یہی وہ منزل ہے جہاں سے ماضی کے نقوش بھی پڑھے جاسکتے ہیں اورمستقبل کے امکانات کا جائزہ بھی لیا جاسکتا ہے۔ مغلیہ سلطنت جس کے دامن میں ایک ایسی تہذیب نے پرورش پائی تھی جور نگ و نسل اور مذہب وملت کے سارے امتیازات سے بالا تر ہوکر ایک عرصہ تک ہندوستان کی سیاسی وحدت کی ضامن رہی تھی، یہاں پہنچ کر دم توڑ دیتی ہے۔اور اس کے ساتھ تاریخ کا ایک دور ختم ہوجاتاہے۔ پُرانا سماجی نظام اور پرانے نظریات وقت کے نئے تقاضوں کے سامنے سرنگوں ہوجاتے ہیں اور نئی سماجی قوتیں صرف فکر و نظر کے سانچے ہی توڑنے پراکتفا نہیں کرتیں بلکہ زندگی کے سارے محور بدل دیتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۸۵۷/ میں صرف ایک سیاسی نظام ہی کا جنازہ نہیں نکلتا بلکہ ہندی قرون وسطیٰ کا سارا تہذیبی سرمایہ بھی نیست و نابود ہوجاتا ہے۔ دہلی جو صدیوں تک علم و ہنر کا مرکز اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہی تھی اس طرح تباہ و برباد ہوجاتی ہے کہ دیکھنے والے بے اختیار پکار اُٹھتے ہیں۔
مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو
اے فلک! اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز
اس سیاسی اور تمدنی بربادی کی داستان مورخین نے مختلف نقطئہ ہائے نظر سے ترتیب دی ہے۔ بعض نے اس کا مطالعہ محض سپاہیوں کے ہنگامہ کی حیثیت سے کیاہے، بعض نے پوری تحریک میں صرف چند رجعت پسند عناصر کی سرگرمی دیکھی ہے اور کچھ مصنّفین نے اس کو ایک ڈوبتے ہوئے جاگیردارانہ نظام کے سنبھالے کی کوشش سے تعبیر کیا ہے۔ یہ اوراس طرح کی تمام تعبیریں حقیقت کے صرف ایک پہلو کو سامنے لاتی ہیں اس لیے جزوی طور پر صحیح لیکن کلی طور پر غلط ہیں۔
دنیا کی کسی تحریک کا بھی بے تعصبی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضع ہوجائے گی کہ اُس میں حصہ لینے والے سب لوگوں کے مقاصد اور مطمح ہائے نظر ایک نہیں ہوتے۔ ”فرانس“ میں جب Cahiers ذریعہ فرانسیسی باشندوں کی شکایات اور مطالبات کا پتہ لگانے کی جستجو کی گئی تو معلوم ہوا کہ جہاں کچھ لوگ مطلق العنان شخصی حکومت سے نالاں تھے، وہاں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کو صرف یہ شکایت تھی کہ اُن کے محلہ میں روشنی کا کوئی معقول انتظام نہ تھا
ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تا بکجا
تاریخ عالم شاہد ہے کہ کسی محکم سیاسی نظام کو توڑنے کے لیے جو تحریک بھی اٹھتی ہے اُسے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے کتنی ہی پُرپیچ وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی وقتی جذبات اور عارضی مصالح، بنیادی مقاصد اورحقیقی نصب العین کو شکست دیتے ہوئے نظر آئے ہیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تحریک اُن ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جو اپنے افکار کی پستی اور کردار کی درماندگی کی بنا پر قیادت کی اہلیت نہیں رکھتے، لیکن بایں ہمہ تحریک کے مقصد و منہاج کا جو نقش معاصرین کے ذہنوں میں قائم ہوجاتا ہے وہی اس کی نوعیت کو متعین کرتاہے اور اُسی سے اُس کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ انقلابِ فرانس کا مقصد شہنشاہیت کا استیصال اورایک ایسے نظام کی تشکیل تھا جس کی عمارت حُریت، احوت اورمساوات کی محکم بنیادوں پر قائم ہو، لیکن کیا انقلاب ”فرانس“ کی تاریخ میں صرف یہی مرکزی نقطئہ نظر ہمیشہ اورہر طبقہ کا رہا ہے؟- مورخوں نے تسلیم کیا ہے کہ انقلاب کے دوران میں بارہا ایسے عناصر برسراقتدار آئے جو تحریک کی قیادت کی اہلیت نہ رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود تحریک کا دھارا Scum white scum red, کو اپنی سطح پر لیے اپنے مقصد کی جانب بڑھتا رہا۔
۱۸۵۷/ میں سپاہیوں کی بغاوت بھی ہوئی اور رجعت پسند عناصر نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد بھی کی، لیکن مجموعی حیثیت سے تحریک کی نوعیت غیرملکی اقتدار کے خلاف قومی تحریک ہی کی رہی اور اس کا احساس ”انگلستان“ کے بعض معاصر صحافیوں اور مدبروں کو بھی تھا۔ لارڈ ”سالسبری“ نے ایوان عام میں تقریر کرتے ہوئے کہاتھا کہ یہ کیسے تسلیم کرلیا جائے کہ اتنی وسیع اور زبردست تحریک صرف کارتوسوں کی وجہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ”لندن“ کے ایک اخبار نے اسی زمانہ میں لکھا تھا:
”اگر بے اطمینانی صرف سپاہیوں تک ہی محدود ہے اور عام لوگ ہمارے ساتھ ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت ہند کیوں بار بار انگریزی فوجیں طلب کرتی ہے اور تار پر تار کیوں کھڑکاتی ہے؟ اگر لوگ حکومت کے ساتھ ہیں جیسا کہ وزیر اور کمپنی کے ڈائرکٹر بیان کرتے ہیں تو اُنھیں وہیں سے اتنے آدمی مل سکتے ہیں کہ وہ اُن سے دس فوجیں کھڑی کرلیں“
انگریز نے اپنا تسلط قائم کرلینے کے بعد جس بہیمیت اور بربریت کے ساتھ ہندوستانیوں کو سزائیں دی تھیں اورہزاروں بے گناہ انسانوں کو محض انتقامی جذبے کے ماتحت موت کے گھاٹ اُتارا تھا اُس سے ملک میں خوف اور دہشت کی ایک عام کیفیت پیدا ہوگئی۔ ہندوستانیوں میں اتنی ہمت تک نہ رہی کہ تحریک کی نوعیت کے متعلق ایک حرف بھی نوک زبان پرلاسکیں۔ انگریز نے تحریک کو ”غدر“ کہا تو وہ خود بھی اُسے ”غدر“ کہنے لگے۔
جوں جوں دلوں سے خوف کے پردے ہٹے، تحریک کی صحیح نوعیت کا احساس بھی بیدار ہونے لگا اور اُسی کے ساتھ ساتھ زاویہ نگاہ میں تبدیلی بھی پیدا ہونے لگی۔ ”غدر“ سے ”رستخیز بے جا“ ہوا، اور ”رستخیز بے جا“ سے ”ہنگامہ ۱۸۵۷/“ اورآزادی کے بعد ”آزادی کی پہلی جنگ“ یا ”قومی تحریک“۔ گو یہ سب الفاظ بدلتی ہوئی سیاسی فضا کے آئینہ دار ہیں،لیکن یہ شبہ ذہن میں پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ معاصرین ۱۸۵۷/ کے ہنگامہ کو ”قومی تحریک“ یا ”آزادی کی جدوجہد“ سے تعبیر نہیں کرتے تھے صحیح ہے کہ قومیت کا موجودہ تصور اس دور میں نہ تھا، لیکن انگریزوں کے خلاف پورے ”ہندوستان“ کے ایک ہونے کا تصور ”غدر“ سے بہت پہلے ہندوستانی ذہن میں کام کرنے لگا تھا۔ ”سیداحمد شہید“ نے ”ہندو راؤ“ کو جو خط لکھا تھا اُس میں ”بیگانوں“ کے ”ہندوستان“ پر قابض ہوجانے کی شکایت تھی! گویا وہ ایک ہی گھر کے آدمی کو مشترکہ دشمن کے خلاف اشتراک عمل کی دعوت دے رہے تھے۔ رسالہ ”اسباب بغاوت ہند“ میں گو مصلحت وقت نے بعض مقامات پر ”سرسید“ کا قلم پکڑلیاہے لیکن پھر بھی اُنھوں نے تحریک کی نوعیت کو واضح کرنے میں سرمو کوتاہی نہیں کی۔ اُن کا ایک طرف یہ لکھنا کہ:
”بہت سی باتیں ایک مدّت دراز سے لوگوں کے دل میں جمع ہوتی جاتی تھیں اور بہت بڑا میگزین جمع ہوگیا تھا صرف اس کے شتابے میں آ گ لگانی باقی تھی۔ کہ سال گزشتہ میں فوج کی بغاوت نے اس میں آگ لگادی۔“(۱)
اور دوسری طرف یہ کہنا کہ:
”سب لوگ تسلیم کرتے چلے آئے ہیں کہ واسطے اسلوبی اور خوبی اورپائداری گورنمنٹ کے مداخلت رعایا کی حکومت ملک میں واجبات میں سے ہے․․․ اور یہ بات نہیں حاصل ہوتی جب تک کہ مداخلت رعایا کی حکومتِ ملک میں نہ ہو ․․․ پس یہی ایک بات ہے جو جڑ ہے تمام ”ہندوستان“ کے فساد کی اور جتنی باتیں اور جمع ہوتی گئیں وہ سب اُس کی شاخیں ہیں۔“(۲)
صاف ظاہرکرتا ہے کہ وہ تحریک کی عوامی حیثیت کے پورے طور پر معترف تھے۔ خود انگریزوں نے اس تحریک کو دبانے کے لیے جو طریقہٴ کار اختیار کیاتھا اور جس طرح ہندوستانیوں کو سزائیں دی تھیں اُس سے بھی یہ ظاہر ہوتاہے کہ وہ اس تحریک کو ”قومی تحریک“ سمجھتے تھے۔(۳) اوراسی طرح اُنھوں نے اس کا مقابلہ بھی کیا تھا۔ ہندوستانیوں نے اس ہنگامے کو جس نگاہ سے دیکھا تھا اوراس میں شرکت کرنے والوں کو قومی تاریخ میں جو درجہ دیا تھا اس کا اندازہ منیر شکوہ آبادی کے اُن اشعار سے لگایا جاسکتا ہے جو اُنھوں نے نوابانِ ”فرخ آباد“ اورمولوی ”محمد باقر“ کی پھانسی کے سلسلے میں کہے ہیں۔ لکھتے ہیں۔
تاریخ اُن کے قتل کی کافی ہے یہ منیر
دونوں شہیدِ راہِ خدا آہ آہ ہائے
-----------------
خدا کی راہمیں مقتول ہوکے آخر کار
گئے جہان سے وہ سوئے روضہٴ رضواں
کہی منیر نے یہ اُن کی مرگ کی تاریخ
شہید ومتقی و عالمِ علومِ نہاں
محض یہ حقیقت کہ ۱۸۵۷/ کے ہنگامہٴ داروگیر سے گزرنے والوں کو(۱۲۷۴ھ) ”مجاہدین فی سبیل اللہ“ اور ”شہداءِ راہ خدا“ کا درجہ دیاگیا تھا۔ ہندوستانیوں کی تحریک سے گہری وابستگی کو سمجھنے کے لیے بس کرتی ہے!
۱۸۵۷/ کی تحریک میں سکھوں اور پارسیوں کے علاوہ ہر مذہب وملت کے لوگوں نے حصہ لیا تھا۔ تحریک کی ہمہ گیری کا عالم یہ تھا کہ تین ہفتوں کے اندر اندر سارے ملک میں ہنگامے شروع ہوگئے تھے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ”ہندوستان“ کے بعض علاقے تحریک سے علیحدہ رہے اور بعض نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ لیکن اس سے تحریک کی نوعیت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ کسی بھی قومی تحریک یا جنگِ آزادی میں تمام علاقوں اور تمام طبقات نے شرکت نہیں کی ہے۔ انقلاب ”فرانس“ کے وقت ملک میں ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو شہنشاہیت کو قائم رکھنا چاہتاتھا اور اس کی موافقت میں کام کررہا تھا۔ اسی طرح ”امریکہ“ کی جنگِ آزادی میں بہت سے لوگ تاجِ برطانیہ کے مددگار رہے تھے۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۱۸۵۷/ کی تحریک عوامی ہوتے ہوئے بھی ناکام کیوں رہی۔ اس سلسلہ میں تاریخِ انقلاب کا ایک راز فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ انقلابی جذبات کے بیدار ہونے کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ عوام کے دل میں کسی نظام کے خلاف شدید بے چینی ہو وہاں اس کی کامیابی کے لیے ازبس لازمی ہے کہ مستقبل کی تعمیر کا ایک واضح خاکہ ذہن میں ہو۔ ۱۸۵۷/ میں انگریزوں کے خلاف شدید نفرت اور برطانوی طریق کار سے سخت بیزاری ضرور نظر آتی ہے لیکن کسی ایک شخص کے ذہن میں بھی تشکیل جدید کا نقشہ نہیں ملتا! یہی نہیں؛ بلکہ اُس وقت جتنی طاقتیں بھی میدان میں سرگرم عمل تھیں اُن میں سے کوئی بھی ایک کُل ہند نظام کا بوجھ سنبھالنے کی صلاحیت نہ رکھتی تھی۔ یہ ایسی محرومی تھی جس نے ساری تحریک کی روح کو مضمحل کردیا تھا۔ اور ہر فوجی مہم کسی مقصد تک رہبری کرنے کے بجائے وقتی ہنگامہ آرائی میں ختم ہوجاتی تھی۔ جمہوریت اور خود اختیاری کے افکار ابھی سیاسی شعور میں داخل نہیں ہوئے تھے اس لیے سیاسی زندگی کی تعمیرِ نو کا سوال بے معنی تھا۔ شخصی حکومت کا تصور اس طرح رگ وریشہ میں پیوست ہوچکا تھا کہ ہر مقام پر لوگ ایک ”بہادر شاہ“، ایک ”نانا صاحب“، ایک ”رانی لکشمی بائی“، ایک ”برجیس قدر“ کی تلاش کرتے تھے۔ اور چاہتے تھے کہ ان ہی کے سہارے کوئی ایسا نظام تشکیل پاجائے جو اُن کے مصائب کا علاج اور اُن کے درد کا مداوابن سکے۔ مغل بادشاہ، ”ہندوستان“ کا تو سوال کیا، ”لال قلعہ“ کو بھی قابو میں رکھنے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا۔(۴) ”مرہٹوں“ کی اجتماعی طاقت کا عرصہ ہوا خاتمہ ہوچکاتھا۔ ”روہیلوں“ کے چند سردار جو اس وقت مختلف مقامات پر اپنی طاقت کا استحکام کررہے تھے، مقامی طور پرمدافعت اور کاربرآری کی صلاحیت تو رکھتے تھے، لیکن ایک وسیع علاقہ پر حکومت کرنے کے لیے جس دوراندیشی، تدبر اور انتظامی صلاحیت کی ضرورت تھی اس کا دُور دُور کہیں پتہ نہ تھا۔ پھر اس شخصی عقیدت کے نازک رشتوں کو بھی توڑنے کے لیے کتنے ہی عناصر کام کررہے تھے۔ ”دہلی“ میں ”بخت خاں“ کو نہ صرف مغل شہزادوں کا تعاون حاصل نہ ہوسکا بلکہ اس کا اثر توڑنے کے لیے یہ پروپیگنڈا کیاگیا کہ ”شیرشاہ“ کی طرح اس کا اقتدار بھی مغلیہ خاندان کے لیے مہلک ثابت ہوگا۔ ”لکھنوٴ“ میں ”حضرت محل“ کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی کہ اگر ”احمداللہ شاہ“ کی مدد سے اقتدار قائم ہوا تو سنیوں کا غلبہ ہوجائے گا۔ اسی طرح ”روہیلوں“ کے علاقوں میں ہندو زمینداروں کو ”روہیلہ“ سرداروں سے برگشتہ کیاگیا۔ ”لارنس“ نے سکھوں کو ”بہادر شاہ“ سے بدظن کرکے ”دہلی“ کے ساتھ سکھوں کے اشتراکِ عمل کے امکانات کو ختم کردیا۔ ان تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود اگر ۱۸۵۷/کا ہندوستان اپنی بہترین صلاحیتوں کو یکجا کردیتا تو یقینا غلامی کی زنجیریں اتنی آسانی سے نہ پہنائی جاسکتیں!
(جاری ہے)