آج ایک کتاب "کشف الحقائق" پڑھ رہا تھا(احتساب قادیانیت جلد ۱۹ صفحہ ۱۰۶) جو کہ دراصل مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کی تحریر کردہ ہے اور اس میں انہوں قادیانیوں سے ہوئے مختلف مناظروں کی روئیدادیں لکھی ہیں. ایک مناظرے میں مرزائی مناظر عبد الرحمن بی اے (غالباﹰ مصنفہ مرزائی پاکٹ بک) نے مدعی نبوت کے لیے دعوی نبوت کے بعد ۲۳ سال تک زندہ رہنے کو معیار نبوت قرار دیا اور اس پر مرزا قادیانی کو سچا لکھا تو مسلمان مناظر مولوی لال حسین لاہوری رحمہ اللہ نے اسکا بہت خوب جواب دیا. خلاصہ جواب یہ تھا کہ قرآن مجید میں دعوی نبوت کے بعد تئیس سال کی زندگی کا لازم ہونا کہیں مذکور نہیں(نہ کوئی حدیث اس امر میں وارد ہوئی) اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اسکے بعد تئیس سال زندہ رہے تو یہ مخص ایک اتفاقی بات ہے کہ ایک شخص کی عمر اتنی ہوئی. کیونکہ ہر شخص میں بعض ایسے امور ہو سکتے ہیں جو دوسرے میں نہ ہوں. ورنہ کوئی شخص بھی یہ کہنے کا بھی حق رکھ سکے گا کہ چونکہ حضورﷺ دعوی نبوت کے بعد تئیس سال زندہ رہے اسلئے نبی صادق کے لیے لازم ہے کہ وہ دعوی نبوت کے بعد تئیس سال ہی زندہ رہے، نہ ہی کم اور نہ ہی زیادہ. اگر تم کہو کہ زیادہ کا لحاظ نہیں تو ہم کہتے ہیں کہ کم کا بھی لحاظ نہیں. بات یہ ہے کہ علم منطق میں مسلم ہے کہ "
قضية عين لا عموم لها
" یعنی قضیہ شخصیہ میں عموم نہیں ہوتا. اسلیے اس سے عام قاعدے کا استنباط نہیں ہو سکتا ہے....کتاب ھذا میں کئی اور اہم نکات بھی بیان ہیں جو مناظرین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں.