غلام نبی قادری نوری سنی
رکن ختم نبوت فورم
مذہبی مباحث پر ایک یادداشت
انیسویں صدی کے آخر میں عیسائی مشنریوں اور آریہ سماجیوں نے اسلام کے خلاف جاہلانہ اور جارحانہ حملوں کا سیلابی دروازہ کھول دیا۔ انہوں نے مرزا صاحب کی طرف سے ان کے رہنماؤں پر کی گئی تنقید، آپکی تحریروں اور پیش گوئیوں میں کی جانے والی اہانت کو جواز بنا لیا۔برطانوی افسر شاہی کے خفیہ ہاتھ نے صورتحال کو خر اب کرنے میں خطرناک کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر احمد شاہ نامی ایک مرتد لندن میں رہائش پذیر تھا اس سے پہلے انگریزوں نے اسے لداخ میں ایک میڈیکل افسر مقرر کیا۔اس نے ازواج مطہرات کے متعلق ایک غلیظ کتاب لکھی۔برطانوی محکمہ خفیہ نے آر پی تبلیغی پریس گو جرانوالہ پنجاب میں کئی ہزار کاپیاں طبع کروائیں۔کتاب کا نام ”امہات المؤمنین”رکھا گیا۔ اس کی ایک ہزار کاپیاں مفت تقسیم کی گئیں تاکہ مسلمانوں کے جذبات کو بر انگیختہ کیا جا سکے اور ہندوستان کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کشیدگی اور نفرت کو اور زیادہ بھڑکایا جائے۔
٢٦ اپریل ١٨٩٨ ء کو انجمن حمایت اسلام لاہور نے حکومت کو ایک یاد داشت ارسال کی جس میں اس کتاب کی ضبطی کے احکامات کا مطالبہ کیا گیا۔ (حکومت پنجاب۔روداد محکمہ داخلہ۔نمبر ١٣ تا ٢٦ فائل نمبر ١٣٥۔جون ١٨٩٨ انڈیاآفس لائبریری لندن )مرزا صاحب نے مورخہ چار مئی ١٨٩٨ کو حکومت سے استدعا کی کہ اس کتاب کو ممنوع قرار نہ دے۔آپ نے یہ تجویز پیش کی کہ مسلمان اس کا جواب تیار کریں۔ آپ نے انجمن کے اس اقدام پر تنقید کی اور حکومت سے ان کی یاد داشت کو نظر انداز کرنے کو کہا۔ (”تبلیغ رسالت”۔جلد ٧۔ صفحہ نمبر ٢٧۔روداد محکمہ داخلہ۔جون ١٨٩٨۔ انڈیا آفس لائبریری لندن)
ہندوستان میں مذہبی جوش و خروش بڑھتا گیا۔ مذہبی رہنماؤں نے اپنے مخالفین کی شخصیات و عقائد پر بے دردی سے حملے شروع کر دئیے اورکسی طرح کی شائستگی کا کوئی خیال نہ رکھا۔اس تناؤ کے ماحول میں اکتوبر ١٨٩٨ ء میں مرزا صاحب نے وائسرائے ہند لارڈ ایلکن کو ایک یادداشت ارسال کی۔آپ نے ایک ضابطہ اخلاق کی تجویز پیش کی جس کی رُو سے مخالفین کو مذہبی تنازعات میں بد کلامی اختیار کرنے سے روکنا اور قانون کے دائرے میں لانا تھا۔ (حکومت پنجاب محکمہ داخلہ کارروائی نمبر ١٧٤ تا ١٨٢۔فائل نمبر ١٣٥۔ اکتوبر ١٨٩٨۔مرزا غلام احمد قادیانی کی یادداشت۔مذہبی تنازعات کے بارے میں انڈیا آفس لائبریری۔لندن۔حکومت پنجاب کارروائی۔محکمہ داخلہ۔اکتوبر ١٨٩٨ ء۔انجمن حمایت اسلام لاہور اور مونگھیر کی جانب سے پیش کردہ یادداشت۔”امہات المؤمنین ”نامی کتاب کی اشاعت کے خلاف مولوی ابو سعید محمدحسین کا لکھا ہوا ایک مضمون جس کے ساتھ مرزا غلام احمد کی یاد داشت بھی تھی۔جس میں کئی تجاویز دی گئیں تھیں کہ کس طرح مذہبی مخالفین کو ضابطے کا پابند بنایا جائے کہ وہ جرم کے مرتکب نہ ہو سکیں۔انڈیا آفس لائبریری لندن )
آپ نے خدشہ کا اظہار کیا کہ مذہبی تنازعات سے نکلنے والی حد درجہ حرارت برطانوی حکومت کے پُر امن راج کے لیے خطرہ کھڑا کر دے گی اور ایک سیاسی بے چینی کی طرف بھی لے جا سکتی ہے۔ مذہبی اشتعال پر مبنی تحریریں مسلمان جنونیوں کو برطانوی حکومت کے خلاف ہتھیار اُٹھانے پر اُکسا سکتی ہیں جس طرح ١٨٥٧ ء کی شورش میں ہوا تھا۔اس یادداشت کا مقصد سیاسی بغاوت کو روکنا اور اپنے سامراجی آقاؤں کو تجویز پیش کرنا تھا کہ وہ ابھرتے ہوئے سیاسی حالات کی روشنی میں مذہبی معاملات میں اپنی غیر جانبدارانہ حکمت عملی پر نظر ثانی کریں۔یہ تجویز برطانوی آقاؤں کے لیے شدید محبت اور وفاداری کے تحت دی گئی تھی مگر برطانوی حکومت نے آپ کی تجویز مسترد کر دی اور اس پر کوئی کارروائی نہ کی۔(حکومت ہند۔محکمہ داخلہ کہتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے پیش کردہ یادداشت پر گورنر جنرل کی کونسل کوئی اقدام اُٹھانے کو تیار نہیں جو کہ ”امہات المؤ منین” نامی کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں ہے۔ (مراسلہ نمبر ٦٠٢ ٢۔بتاریخ ١٨٩٨۔١٢۔٣١ )کمشنر لاہور سے درخواسست کی گئی کہ وہ مرزا کو اس بارے میں مطلع کر دے۔حکومت پنجاب۔محکمہ داخلہ کی روداد۔فائل نمبر ٣٥۔اکتوبر ١٨٩٨۔انڈیا آفس لائبریری لندن )
عبدالرحیم درد مرزا صاحب کی اس سیاسی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
”اس تجویز پر عمل درآمد حکومت کے اپنے لیے مفید تھا۔سیاسی طور پر گمراہ کن عناصر لوگوں کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کے لیے مذہبی جھگڑوں کا فائدہ اُٹھا سکتے تھے۔اسی بات کا احساس کر کے حکومت نے ١٨٩٧ ء میں بغاوت ایکٹ منظور کیا تھا مگر اس کے نفاذ کے باوجود ملک قانونی پابندی سے پھسل کر بے اطمینانی کی طرف جا رہا تھا۔چونکہ ہندوستان مستقل طور پر ایک مذہبی سرزمین رہی ہے اور اس کے لوگ سیاسی مسائل کے بجائے مذہبی مسائل پر بہت جلدی اُ ٹھ کھڑے ہوتے ہیں لہٰذا اس قانون سے بھی در حقیقت حکومت کو مثبت نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ ١٨٩٧ ء کے بغاوت ایکٹ سے بھی مذہبی لڑائیوں کی روک تھام نہ ہو سکی اور جب اس کی میعاد گزر گئی تو حکومت نے ایسی کسی دفعہ کی کوئی پروا نہ کی۔”
A.R. Dard, The life Of Ahmad,Lahore,1948,P.433
مرزا صاحب نے مخالفین کے خلاف اپنی گھٹیا اور گندی زبان کے استعمال کی دلچسپ توجیہ پیش کی جسے آپ متواترعیسائیت اور پادریوں کے خلاف استعمال کر رہے تھے۔آپ نے اپنے عیسائیت مخالف طرز عمل اور حضرت مسیح علیہ السلام کی ذات پر رکیک حملوں کا یہ جواز پیش کیا کہ آپ کی غیر شائستہ تحریریں سر پھرے مسلمانوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تھیں۔وہ ان تحقیر آمیز اور سخت تحریروں کو پڑھ کر مطمئن ہو گئے اور اپنے انتقام آور رویہ سے باز آ گئے جو بصورت دیگر ملکی امن کے لیے پُر خطر ثابت ہو سکتا تھا دوسرے آپ نے یہ موقف اختیار کیا کہ عیسائیت مخالف تحریریں مسلمان ممالک میں سیاسی اہمیت کی حامل قرار دی جاتی ہیں ،ایسی تحریری پڑھ کر مسلمان برطانوی حکومت کی مذہبی حکمت عملی کو پسند کرتے ہیں اور ان کے لیے محبت بھرے جذبات رکھتے ہیں۔
Mirza Ghulam Ahmad ,Tarryaq-ul-Qalub, Qadian1899,P.317
ان کا یہ خیال تھا کہ برطانوی مسلمانوں پر مائل بہ کرم ہیں اور ان کے اقتدار سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر بھاری مقدار میں قادیانی مذہبی لٹریچر مسلمان ممالک میں بھجوایا گیا تاکہ سامراجی پروپیگنڈہ کیا جا سکے۔مرزا صاحب یہ بات کہنے کی جرأت نہ کرسکے کہ عیسائی تبلیغی مراکز کی جڑیں سامراجی توسیع پسندی میں پیوست ہیں اور جب تک سامراج برداشت کرے، اس کے مذہبی دُم چھلے قائم رہ سکتے ہیں اور جب تک سامراج زندہ ہے دجال نہیں مارا جا سکتا۔آپ نے سامراجیت کی تعریف کے نغمے گائے لیکن اس کے بچے کو مذموم قرار دیا۔آپ گڑ کھاتے رہے اور گلگلوں سے پرہیز کرتے رہے ٧ مرزا غلام احمد کی سخت تحریروں اور ناشائستہ طرز عمل پر مسلمانوں علماء کی ایک جماعت نے آپ کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کی ٹھانی۔ (حکومت پنجاب۔محکمہ داخلہ کی کارروائی۔ فائل نمبر ٢٩۔مئی ١٨٩٨ ء۔”مرزا غلام احمد کے پیرو کاروں کی ”جعفر زٹلی ” کے مدیر کے خلاف شکایت۔انڈیا آفس لائبریری لندن )۔
Phoenix His Holiness,P.68
جس سے آپ کے لہجے کی سختی میں مزید اضافہ ہوا۔ تاہم مخالف حملے نے آپ کو ان مولویوں کے خلاف جو آپ کے لیے سدراہ بن گئے تھے،قانون کا سہارا لینے پر مجبور کر دیا۔ دراصل مرزا صاحب حکومت کی مدد سے ا پنے لیے ایک دفاعی حصار قائم کرنا چاہتے تھے کیونکہ آپ کی نبوت میں قوت برداشت کی کمی تھی۔ آپ انگریز کی بھر پور سرپرستی کے خواہاں تھے۔ تحریک احمدیت کا صحیح نصب العین نہ تھا۔اسی لیے مرزا صاحب اپنی بقاء کی جدوجہد میں ہمہ تن مصروف اور خوفزدہ رہتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ آپ کی نبوت آنے والے طوفان کا مقابلہ نہ کر سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ انگریزوں کے تلوے چاٹتے رہے اور تحفظ کے لیے گڑ گڑاتے رہے۔ آپ یہ اُمّید رکھتے تھے کہ انگریز آپ کی نبوت کو اپنے متبنی اور لے پالک بچے کی طرح پالیں گے اور آپ ان کے سیاسی مفادات کا مذہبی انداز سے تحفظ کریں گے۔
Phoenix His Holiness, P.121
انیسویں صدی کے آخر میں عیسائی مشنریوں اور آریہ سماجیوں نے اسلام کے خلاف جاہلانہ اور جارحانہ حملوں کا سیلابی دروازہ کھول دیا۔ انہوں نے مرزا صاحب کی طرف سے ان کے رہنماؤں پر کی گئی تنقید، آپکی تحریروں اور پیش گوئیوں میں کی جانے والی اہانت کو جواز بنا لیا۔برطانوی افسر شاہی کے خفیہ ہاتھ نے صورتحال کو خر اب کرنے میں خطرناک کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر احمد شاہ نامی ایک مرتد لندن میں رہائش پذیر تھا اس سے پہلے انگریزوں نے اسے لداخ میں ایک میڈیکل افسر مقرر کیا۔اس نے ازواج مطہرات کے متعلق ایک غلیظ کتاب لکھی۔برطانوی محکمہ خفیہ نے آر پی تبلیغی پریس گو جرانوالہ پنجاب میں کئی ہزار کاپیاں طبع کروائیں۔کتاب کا نام ”امہات المؤمنین”رکھا گیا۔ اس کی ایک ہزار کاپیاں مفت تقسیم کی گئیں تاکہ مسلمانوں کے جذبات کو بر انگیختہ کیا جا سکے اور ہندوستان کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کشیدگی اور نفرت کو اور زیادہ بھڑکایا جائے۔
٢٦ اپریل ١٨٩٨ ء کو انجمن حمایت اسلام لاہور نے حکومت کو ایک یاد داشت ارسال کی جس میں اس کتاب کی ضبطی کے احکامات کا مطالبہ کیا گیا۔ (حکومت پنجاب۔روداد محکمہ داخلہ۔نمبر ١٣ تا ٢٦ فائل نمبر ١٣٥۔جون ١٨٩٨ انڈیاآفس لائبریری لندن )مرزا صاحب نے مورخہ چار مئی ١٨٩٨ کو حکومت سے استدعا کی کہ اس کتاب کو ممنوع قرار نہ دے۔آپ نے یہ تجویز پیش کی کہ مسلمان اس کا جواب تیار کریں۔ آپ نے انجمن کے اس اقدام پر تنقید کی اور حکومت سے ان کی یاد داشت کو نظر انداز کرنے کو کہا۔ (”تبلیغ رسالت”۔جلد ٧۔ صفحہ نمبر ٢٧۔روداد محکمہ داخلہ۔جون ١٨٩٨۔ انڈیا آفس لائبریری لندن)
ہندوستان میں مذہبی جوش و خروش بڑھتا گیا۔ مذہبی رہنماؤں نے اپنے مخالفین کی شخصیات و عقائد پر بے دردی سے حملے شروع کر دئیے اورکسی طرح کی شائستگی کا کوئی خیال نہ رکھا۔اس تناؤ کے ماحول میں اکتوبر ١٨٩٨ ء میں مرزا صاحب نے وائسرائے ہند لارڈ ایلکن کو ایک یادداشت ارسال کی۔آپ نے ایک ضابطہ اخلاق کی تجویز پیش کی جس کی رُو سے مخالفین کو مذہبی تنازعات میں بد کلامی اختیار کرنے سے روکنا اور قانون کے دائرے میں لانا تھا۔ (حکومت پنجاب محکمہ داخلہ کارروائی نمبر ١٧٤ تا ١٨٢۔فائل نمبر ١٣٥۔ اکتوبر ١٨٩٨۔مرزا غلام احمد قادیانی کی یادداشت۔مذہبی تنازعات کے بارے میں انڈیا آفس لائبریری۔لندن۔حکومت پنجاب کارروائی۔محکمہ داخلہ۔اکتوبر ١٨٩٨ ء۔انجمن حمایت اسلام لاہور اور مونگھیر کی جانب سے پیش کردہ یادداشت۔”امہات المؤمنین ”نامی کتاب کی اشاعت کے خلاف مولوی ابو سعید محمدحسین کا لکھا ہوا ایک مضمون جس کے ساتھ مرزا غلام احمد کی یاد داشت بھی تھی۔جس میں کئی تجاویز دی گئیں تھیں کہ کس طرح مذہبی مخالفین کو ضابطے کا پابند بنایا جائے کہ وہ جرم کے مرتکب نہ ہو سکیں۔انڈیا آفس لائبریری لندن )
آپ نے خدشہ کا اظہار کیا کہ مذہبی تنازعات سے نکلنے والی حد درجہ حرارت برطانوی حکومت کے پُر امن راج کے لیے خطرہ کھڑا کر دے گی اور ایک سیاسی بے چینی کی طرف بھی لے جا سکتی ہے۔ مذہبی اشتعال پر مبنی تحریریں مسلمان جنونیوں کو برطانوی حکومت کے خلاف ہتھیار اُٹھانے پر اُکسا سکتی ہیں جس طرح ١٨٥٧ ء کی شورش میں ہوا تھا۔اس یادداشت کا مقصد سیاسی بغاوت کو روکنا اور اپنے سامراجی آقاؤں کو تجویز پیش کرنا تھا کہ وہ ابھرتے ہوئے سیاسی حالات کی روشنی میں مذہبی معاملات میں اپنی غیر جانبدارانہ حکمت عملی پر نظر ثانی کریں۔یہ تجویز برطانوی آقاؤں کے لیے شدید محبت اور وفاداری کے تحت دی گئی تھی مگر برطانوی حکومت نے آپ کی تجویز مسترد کر دی اور اس پر کوئی کارروائی نہ کی۔(حکومت ہند۔محکمہ داخلہ کہتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے پیش کردہ یادداشت پر گورنر جنرل کی کونسل کوئی اقدام اُٹھانے کو تیار نہیں جو کہ ”امہات المؤ منین” نامی کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں ہے۔ (مراسلہ نمبر ٦٠٢ ٢۔بتاریخ ١٨٩٨۔١٢۔٣١ )کمشنر لاہور سے درخواسست کی گئی کہ وہ مرزا کو اس بارے میں مطلع کر دے۔حکومت پنجاب۔محکمہ داخلہ کی روداد۔فائل نمبر ٣٥۔اکتوبر ١٨٩٨۔انڈیا آفس لائبریری لندن )
عبدالرحیم درد مرزا صاحب کی اس سیاسی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
”اس تجویز پر عمل درآمد حکومت کے اپنے لیے مفید تھا۔سیاسی طور پر گمراہ کن عناصر لوگوں کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کے لیے مذہبی جھگڑوں کا فائدہ اُٹھا سکتے تھے۔اسی بات کا احساس کر کے حکومت نے ١٨٩٧ ء میں بغاوت ایکٹ منظور کیا تھا مگر اس کے نفاذ کے باوجود ملک قانونی پابندی سے پھسل کر بے اطمینانی کی طرف جا رہا تھا۔چونکہ ہندوستان مستقل طور پر ایک مذہبی سرزمین رہی ہے اور اس کے لوگ سیاسی مسائل کے بجائے مذہبی مسائل پر بہت جلدی اُ ٹھ کھڑے ہوتے ہیں لہٰذا اس قانون سے بھی در حقیقت حکومت کو مثبت نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ ١٨٩٧ ء کے بغاوت ایکٹ سے بھی مذہبی لڑائیوں کی روک تھام نہ ہو سکی اور جب اس کی میعاد گزر گئی تو حکومت نے ایسی کسی دفعہ کی کوئی پروا نہ کی۔”
A.R. Dard, The life Of Ahmad,Lahore,1948,P.433
مرزا صاحب نے مخالفین کے خلاف اپنی گھٹیا اور گندی زبان کے استعمال کی دلچسپ توجیہ پیش کی جسے آپ متواترعیسائیت اور پادریوں کے خلاف استعمال کر رہے تھے۔آپ نے اپنے عیسائیت مخالف طرز عمل اور حضرت مسیح علیہ السلام کی ذات پر رکیک حملوں کا یہ جواز پیش کیا کہ آپ کی غیر شائستہ تحریریں سر پھرے مسلمانوں کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تھیں۔وہ ان تحقیر آمیز اور سخت تحریروں کو پڑھ کر مطمئن ہو گئے اور اپنے انتقام آور رویہ سے باز آ گئے جو بصورت دیگر ملکی امن کے لیے پُر خطر ثابت ہو سکتا تھا دوسرے آپ نے یہ موقف اختیار کیا کہ عیسائیت مخالف تحریریں مسلمان ممالک میں سیاسی اہمیت کی حامل قرار دی جاتی ہیں ،ایسی تحریری پڑھ کر مسلمان برطانوی حکومت کی مذہبی حکمت عملی کو پسند کرتے ہیں اور ان کے لیے محبت بھرے جذبات رکھتے ہیں۔
Mirza Ghulam Ahmad ,Tarryaq-ul-Qalub, Qadian1899,P.317
ان کا یہ خیال تھا کہ برطانوی مسلمانوں پر مائل بہ کرم ہیں اور ان کے اقتدار سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر بھاری مقدار میں قادیانی مذہبی لٹریچر مسلمان ممالک میں بھجوایا گیا تاکہ سامراجی پروپیگنڈہ کیا جا سکے۔مرزا صاحب یہ بات کہنے کی جرأت نہ کرسکے کہ عیسائی تبلیغی مراکز کی جڑیں سامراجی توسیع پسندی میں پیوست ہیں اور جب تک سامراج برداشت کرے، اس کے مذہبی دُم چھلے قائم رہ سکتے ہیں اور جب تک سامراج زندہ ہے دجال نہیں مارا جا سکتا۔آپ نے سامراجیت کی تعریف کے نغمے گائے لیکن اس کے بچے کو مذموم قرار دیا۔آپ گڑ کھاتے رہے اور گلگلوں سے پرہیز کرتے رہے ٧ مرزا غلام احمد کی سخت تحریروں اور ناشائستہ طرز عمل پر مسلمانوں علماء کی ایک جماعت نے آپ کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کی ٹھانی۔ (حکومت پنجاب۔محکمہ داخلہ کی کارروائی۔ فائل نمبر ٢٩۔مئی ١٨٩٨ ء۔”مرزا غلام احمد کے پیرو کاروں کی ”جعفر زٹلی ” کے مدیر کے خلاف شکایت۔انڈیا آفس لائبریری لندن )۔
Phoenix His Holiness,P.68
جس سے آپ کے لہجے کی سختی میں مزید اضافہ ہوا۔ تاہم مخالف حملے نے آپ کو ان مولویوں کے خلاف جو آپ کے لیے سدراہ بن گئے تھے،قانون کا سہارا لینے پر مجبور کر دیا۔ دراصل مرزا صاحب حکومت کی مدد سے ا پنے لیے ایک دفاعی حصار قائم کرنا چاہتے تھے کیونکہ آپ کی نبوت میں قوت برداشت کی کمی تھی۔ آپ انگریز کی بھر پور سرپرستی کے خواہاں تھے۔ تحریک احمدیت کا صحیح نصب العین نہ تھا۔اسی لیے مرزا صاحب اپنی بقاء کی جدوجہد میں ہمہ تن مصروف اور خوفزدہ رہتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ آپ کی نبوت آنے والے طوفان کا مقابلہ نہ کر سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ انگریزوں کے تلوے چاٹتے رہے اور تحفظ کے لیے گڑ گڑاتے رہے۔ آپ یہ اُمّید رکھتے تھے کہ انگریز آپ کی نبوت کو اپنے متبنی اور لے پالک بچے کی طرح پالیں گے اور آپ ان کے سیاسی مفادات کا مذہبی انداز سے تحفظ کریں گے۔
Phoenix His Holiness, P.121