مرزائیوں کو حیاتِ عیسی علیہ السلام کے موضوع پر دلچسپی کیوں ہے
سوال … مرزائیوں کو اس مسئلہ سے کیوں دلچسپی ہے؟ مرزا تو مدعی نبوت ہے۔ پھر ان کو مسئلہ حیات عیسیٰ علیہ السلام سے کیا سروکار؟ وضاحت سے لکھیں؟
جواب … مرزا غلام احمد قادیانی ابتداء میں خود حیات عیسیٰ علیہ السلام کا قائل تھا اور قرآن مجید کی آیات سے مسیح علیہ السلام کی حیات پر استدلال کرتا تھا۔
’’یہ آیت (ھو الذی ارسل رسولہ) جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے۔ وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔ ‘‘
(براہین احمدیہ ج ۱،خزائن ج۱ ص ۵۹۳، ومثلہ بادنیٰ تغیرچشمہ معرفت خزائن ج۲۳ ص۹۱)
حیات مسیح علیہ السلام کا ابتدا میں مرزا قائل تھا۔ لیکن دعویٰ نبوت کے لئے اس نے بتدریج مراحل طے کئے۔ پہلے خادم اسلام، پھر مبلغ اسلام، مامورمن اﷲ، مجدد ہونے کے دعوے کئے۔ اصل مقصود دعویٰ نبوت تھا۔ منصوبہ بندی یہ کی کہ پہلے مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا جائے۔ مسیح بننے کے لئے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا عقیدہ رکاوٹ تھا۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے وفات مسیح کا عقیدہ تراشا۔ پھر کہا چونکہ احادیث میں مسیح علیہ السلام کا آنا ثابت ہے۔ وہ فوت ہوگئے ہیں۔ تو ان کی جگہ میں مثیل مسیح بن کر آیا ہوں اور میں ان سے افضل ہوں۔ اس کا مشہور شعر ہے:
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
(دافع البلاء ص ۲۴، خزائن ج۱۸ص ۲۴۰)اس سے بہتر غلام احمد ہے
جب مرزا اپنے خیال فاسد میں مسیح بن گیا۔ تو کہا کہ مسیح علیہ السلام نبی تھے۔ تو اب مسیح ثانی (مرزا قادیانی) جو ان سے افضل ہے۔ وہ کیوں نبی نہیں؟ لہٰذا میں نبی ہوں۔ اس طرح دجل کرکے محض نبوت کا دعویٰ کرنے کے لئے اس نے وفات مسیح کا عقیدہ اختیار کیا۔ اصل میں وہ تدریجاً دعویٰ نبوت کی طرف جارہا تھا۔ تو یوں دجل در دجل کا مرتکب ہوتا گیا۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ: ’’میرے بعد جو نبوت کا دعویٰ کریں گے وہ دجال ہوں گے۔‘‘
دجل: دھوکہ، تلبیس، حق و باطل کے اختلاط کا نام ہے۔ جو مرزا قادیانی میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ اس دجال اعظم، مفتری اکبر نے اپنے دجل سے اسلام کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت و حیات مسیح علیہ السلام پر اپنے الحاد و زندقہ کی کلہاڑی چلائی۔ معاذاﷲ!