بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کےآسمانی معجزات میں سے معراج کا معجزہ بہت زیادہ اہمیت کاحامل اور ہماری مادی دنیا سے بالکل ہی ماوراء اور عقل انسانی کے قیاس و گمان کی سرحدوں سے بہت زیادہ بالاتر ہے. جہاں مرزا قادیانی اور مرزائیت نے انبیاء کرام علیھم السلام کے دیگر معجزات کا انکار کیا کچھ کو صرف مسمریز کہا وہاں معراج کو صرف ایک اعلی درجے کا کشف کہا ہے. اسی کو ثابت کرنے کے لیے قادیانی آفیشل ویب سائٹ(website) پر ایک آرٹیکل بنام ”الاسراءوالمعراج“ موجود ہے جو دجل و فریب کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے. اس آرٹیکل میں کیا علمی دھوکے دیے گئے ہیں ان کو نشاندہی کے لیے ہم یہ تحریر لکھ رہے ہیں. اس کا طریق کار یہ ہو گا کہ ہم معراج شریف کا بیان کر تے جائے گے اور جہاں جہاں اُس آرٹیکل میں دجل کیا گیا ہے اس کو واضح کرتے ہیں. اس سے پہلے ہم مرزائیوں کا معراج کے متعلق کیا عقیدہ ہے بتا دیتے ہیں. مرزا قادیانی لکھتا ہے
” معراج کے لئے رات اس لئے مقرر کی گئی کہ معراج کشف کی قسم تھا. “ (روحانی خزائن . کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 310)
”سیر معراج اس جسم کثیف کے ساتھ نہیں تھا بلکہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کا کشف تھا جس کو درحقیقت بیداری کہنا چاہیئے. ایسے کشف کی حالت میں انسان ایک نوری جسم کے ساتھ حسبؔ استعداد نفس ناطقہ اپنے کے آسمانوں کی سیر کر سکتا ہے پس چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس ناطقہ کی اعلیٰ درجہ کی استعداد تھی اور انتہائی نقطہ تک پہنچی ہوئی تھی اس لئے وہ اپنی معراجی سیر میں معمورہ عالم کے انتہائی نقطہ تک جوعرش عظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے پہنچ گئے سو درحقیقت یہ سیر کشفی تھا جو بیداری سے اشد درجہ پر مشابہ ہے بلکہ ایک قسم کی بیداری ہی ہے. میں اس کانام خواب ہرگز نہیں رکھتا اور نہ کشف کے ادنیٰ درجوں میں سے اس کو سمجھتا ہوں بلکہ یہ کشف کا بزرگ ترین مقام ہے جو درحقیقت بیداری بلکہ اس کثیف بیداری سے یہ حالت زیادہ اصفٰی اور اجلٰی ہوتی ہے اور اس قسم کے کشفوں میں مؤلف خود صاحب تجربہ ہے.“ (روحانی خزائن . کمپیوٹرائزڈ: جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 126)
مرزا قادیانی نے معراج کو ایک ”اعلیٰ درجہ کا کشف“ کہا ہے اور یہ بھی کہ یہ حالت بیداری میں ہوا مزید یہ کہ یہ ہرگز خواب نہیں تھا. اور کشف کی تعریف مرزا قادیانی یوں کرتے ہیں:
کشف کیا ہے اسی بیداری کے ساتھ کسی عالم اور عالم کا تداخل ہو جاتا ہے اس میں حواس کے معطل ہونے کی ضرورت نہیں دنیا کی بیداری بھی ہوتی ہے اور ایک عالم غیوبت بھی ہوتا ہے یعنی حالت بیداری ہوتی ہے اور اسرارِ غیبی بھی نظر آتے ہیں. (ملفوظات جلد 3 صفحہ 261 پانچ جلدوں والا ایڈیشن)
قصہ معراج
پہلا شبہ یہ دیا گیا ہے ” اسراء اور معراج دو الگ الگ واقعات تھے. “
قارئین! عام استعمالات میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام مبارک سیر و عراج یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصی اور وہاں سے آسمانوں اور لامکان تک تشریف لے جانے کو معراج کہا جاتا ہے. محد ثین و مفسرین کی اصطلاح میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک تشریف لے جانا اسراء کہلاتا ہے اور مسجد اقصیٰ سے آسمانوں کی طرف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا عروج فرمانا معراج کہلاتا ہے اور بعض اوقات پورے واقعہ کو صرف اسراء کہہ دیا جاتا ہے یا صرف معراج کہہ دیا جاتا ہے. احادیث اور روایات جن میں سفر اسراء اور معراج بیان ہوا ہے ان میں اسراء و معراج دونوں کا ایک رات میں ہونا بھی بیان ہے. تاریخ میں اس قدر اختلاف ضرور ہے آیا کہ یہ اسراء و معراج 27 رجب کو ہی ہوا تھا یا پہلے یا بعد میں۔ مگر اس اختلاف کی بنیاد پر کسی نے ان دونوں واقعات کا الگ الگ راتوں میں ہونا نہیں لکھا . معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تاریخ میں دشواری کا سبب یہ ہے کہ ہجرت سے قبل سن اور تاریخ نہیں تھے، قاضی سلیمان منصور پوری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی 23 سالہ سیرت مبارکہ کا کلینڈر تیار کیا ہے جس کے مطابق 52 ولادت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم 27 رجب المرجب کو شب معراج ہوئی. 27 رجب المرجب کے بعد طلوع ہونے والا دن بُدھ تھا. اس لحاظ سے بدھ کی شب 27 رجب المرجب 52 ولادت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم شب معراج ہوئی. (رحمت للعالمین جلد2 صفحہ451)
ایک ضروری بات: بعض مفسرین کا قول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو 3 یا اس سے زائد مرتبہ ”معراج“ کرائی گئی، جس میں سے ایک مرتبہ بجسد عنصری (جو کہ ہمارا موضوع ہے) اور باقی روحانی کروائیں گئیں. زہن میں رہے کہ کسی نے بھی معراج بمع جسم کے ہونے میں اختلاف نہیں کیا. اس متعلق عظیم مفسر علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ لکھتے ہیں
وإذا حصل الوقوف على مجموع هذه الأحاديث صحيحها وحسنها وضعيفها، يحصل مضمون ما اتفقت عليه من مسرى رسول الله صلى الله عليه وسلم من مكة إلى بيت المقدس، وأنه مرة واحدة، وإن اختلفت عبارات الرواة في أدائه، أو زاد بعضهم فيه أو نقص منه، فإن الخطأ جائز على من عدا الأنبياء عليهم السلام، ومن جعل من الناس كل رواية خالفت الأخرى مرة على حدة، فأثبت إسراءات متعددة، فقد أبعد وأغرب، وهرب إلى غير مهرب، ولم يتحصل على مطلب. ( تفسیر ابن کثیر جلد 5 صفحہ 42)
” تمام روایات(جن میں صحیح اور ضعیف بھی ہیں) کو جمع کرنے سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ واقعہ معراج صرف ایک ہی مرتبہ پیش آیا . اور راویوں کی عبارت کے بعض حصص کا ایک دوسرے سے مختلف اور تفصیلات میں کم و بیش ہونا وحدت واقعہ پر اثر انداز نہیں ہوتا . جن علماء نے ان روایات کے جزوی اختلاف کی وجہ سے ہر ایک مختلف روایت کو الگ الگ واقعہ بنا دیا اور دعویٰ کر دیا کہ معراج کا واقعہ متعدد بار پیش آیا ہے یہ دعویٰ بالکل بعید از قیاس ہے اور قطعاً غلط راہ روی اختیار کر لی ہے اور وہ حقیقت حال سے بہت دور چلے گئے ہیں . “
دوسرا شبہ یہ دیا گیا ہے ”دونوں واقعات میں سونے کی حالت کا مشترک ہونا بتاتا ہے کہ یہ واقعات جسمانی نہیں بلکہ روحانی تھے “ حالانکہ اس کی اصل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مقام اور معراج روانگی سے پہلے کی کیفیت کا تعین کیا ہے اور اس کے بعد پورا واقعہ بیان فرمایا مزید تفصیل آگے آ رہی ہے.