''ایک روز ایک شخص نے سوال کیا کہ دلائل الخیرات کا ورد پڑھنا کیسا ہے؟ فرمایا دلائل خیرات مین جتنا وقت خرچ کرتے ہو اگر نماز اور قرآن شریف کی تلاوت میں خرچ ہو تو کتنا فائدہ ہوتا ہے، یہ کتابیں قرآن شریف اور نماز سے روک دیتی ہیں، یہ خدا تعالی کا کلام اور حکم ہے اور انسانوں کا بناوٹی وظیفہ ہے۔ فرمایا قرآن مجید کی آیتوں اور سورتوں کا بھی لوگ وظیفہ کرتے ہیں اور یہ بدعت ہے اور ناسمجھی سے ایسا کرتے ہیں'' (تذکرہ المہدی حصہ اول صفحہ 183)
اب یہ دیکھیں
” بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ سنوری نے کہ جب آتھم کی میعاد میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تو حضرت مسیح موعود نے مجھ سے اور میاں حامد علی سے فرمایا کہ اتنے چنے (مجھے تعداد یاد نہیں رہی کہ کتنے چنے آپ نے بتائے تھے) لے لو اور ان پر فلاں سورۃ کا وظیفہ اتنی تعداد میں پڑھو۔ (مجھے وظیفہ کی تعداد یاد نہیں رہی) میاں عبداﷲ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے وہ سورۃ یا د نہیں رہی مگر اتنا یاد ہے کہ وہ کوئی چھوٹی سی سورۃ تھی۔ جیسے ’’الم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل‘‘ اور ہم نے یہ وظیفہ قریب ساری رات صرف کر کے ختم کیا تھا۔ وظیفہ ختم کرنے پر ہم وہ دانے حضرت صاحب (مرزاقادیانی) کے پاس لے گئے۔ کیونکہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ وظیفہ ختم ہونے پر یہ دانے میرے پاس لے آنا۔ اس کے بعد حضرت صاحب ہم دونوں کو قادیان سے باہر غالباً شمال کی طرف لے گئے اور فرمایا دانے کسی غیرآباد کنویں میں ڈالے جائیں گے اور فرمایا کہ جب میں دانے کنویں میں پھینک دوں تو ہم سب کو سرعت کے ساتھ منہ پھیر کر واپس لوٹ آنا چاہئے اور مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ حضرت صاحب نے ایک غیرآباد کنویں میں ان دانوں کو پھینک دیا اور پھر جلدی سے منہ پھیر کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا۔‘‘(سیرت المہدی نیا ایڈیشن جلد اول روایت نمبر 160 صفحہ 162-163)
اب یہ دیکھیں
” بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ سنوری نے کہ جب آتھم کی میعاد میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تو حضرت مسیح موعود نے مجھ سے اور میاں حامد علی سے فرمایا کہ اتنے چنے (مجھے تعداد یاد نہیں رہی کہ کتنے چنے آپ نے بتائے تھے) لے لو اور ان پر فلاں سورۃ کا وظیفہ اتنی تعداد میں پڑھو۔ (مجھے وظیفہ کی تعداد یاد نہیں رہی) میاں عبداﷲ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے وہ سورۃ یا د نہیں رہی مگر اتنا یاد ہے کہ وہ کوئی چھوٹی سی سورۃ تھی۔ جیسے ’’الم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل‘‘ اور ہم نے یہ وظیفہ قریب ساری رات صرف کر کے ختم کیا تھا۔ وظیفہ ختم کرنے پر ہم وہ دانے حضرت صاحب (مرزاقادیانی) کے پاس لے گئے۔ کیونکہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ وظیفہ ختم ہونے پر یہ دانے میرے پاس لے آنا۔ اس کے بعد حضرت صاحب ہم دونوں کو قادیان سے باہر غالباً شمال کی طرف لے گئے اور فرمایا دانے کسی غیرآباد کنویں میں ڈالے جائیں گے اور فرمایا کہ جب میں دانے کنویں میں پھینک دوں تو ہم سب کو سرعت کے ساتھ منہ پھیر کر واپس لوٹ آنا چاہئے اور مڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ حضرت صاحب نے ایک غیرآباد کنویں میں ان دانوں کو پھینک دیا اور پھر جلدی سے منہ پھیر کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا۔‘‘(سیرت المہدی نیا ایڈیشن جلد اول روایت نمبر 160 صفحہ 162-163)