حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں مرزا غلام احمدقادیانی نے نہایت توہین آمیز زبان استعمال کی ۔
مرزا قادیانی اور اس کے متبعین کے مطابق یہ زبان عیسائیوں کے مقابلے میں بطور الزام کے استعمال کی گئی کیونکہ عیسائی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی کرتے تھے ۔۔
لیکن مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے ایک تحریر میں واضح کردیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا
صفحہ 490 اور 491 پر مرزا قادیانی لکھتے ہیں
"۔اور میں اِس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جبکہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہوگئی اور حدِّ اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پرچہ نُورافشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں۔ اور ان مؤلفین نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت نعوذ باللہ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکوتھا چور تھا زناکار تھااور صدہا پرچوں میں یہ شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بدنیتی سے عاشق تھا اور با ایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اُس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دِلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو۔ تب میں نے اُن جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیّتؔ سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تا سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی کیونکہ میرے کانشنس نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں ان کے غیظ و غضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہوگا کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔ سو یہ میری پیش بینی کی تدبیر صحیح نکلی اوران کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزارہا مسلمان جو پادری عما د الدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آچکے تھے یکدفعہ اُن کے اشتعال فرو ہوگئے کیونکہ انسان کی یہ عادت ہے کہ جب سخت الفاظ کے مقابل پر اُس کا عوض دیکھ لیتا ہے تواُس کا وہ جوش نہیں رہتا۔ باایں ہمہ میری تحریر پادریوں کے مقابل پر بہت نرم تھی گویا کچھ بھی نسبت نہ تھی۔ ہماری محسن گورنمنٹ خوب سمجھتی ہے کہ مسلمان سے یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اگر کوئی پادری ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو ایک مسلمان اُس کے عوض میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوگالی دے کیونکہ مسلمانوں کے دِلوں میں دُودھ کے ساتھ ہی یہ اثر پہنچایا گیا ہے کہ وہ جیسا کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے ہیں ایسا ہی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے محبت رکھتے ہیں۔ سو کسی مسلمان کا یہ حوصلہ ہی نہیں کہ تیز زبانی کو اس حد تک پہنچائے جس حد تک ایک متعصّب عیسائی پہنچا سکتا ہے اور مسلمانوں میں یہ ایک عمدہ سیرت ہے جو فخر کرنے کے لائق ہے کہ وہ تمام نبیوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہوچکے ہیں ایک عزت کی نگہ سے دیکھتے ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام سے بعض وجوہ سے ایک خاص محبت رکھتے ہیں جس کی تفصیل کے لئے اس جگہ موقع نہیں۔ سو مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیا گیا۔ اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں میں سے اوّل درجہ کا خیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیر خواہی میں اوّل درجہ پر بنا دیا ہے۔ (۱) اوّل والد مرحوم کے اثر نے۔ (۲) دوم اِس گورنمنٹ عالیہ کے احسانوں نے۔ (۳) تیسرے خدا تعالیٰ کے الہام نے۔ اب میں اِس گورنمنٹ محسنہ کے زیر سایہ ہر طرح سے خوش ہوں"
مرزا قادیانی اور اس کے متبعین کے مطابق یہ زبان عیسائیوں کے مقابلے میں بطور الزام کے استعمال کی گئی کیونکہ عیسائی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی کرتے تھے ۔۔
لیکن مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے ایک تحریر میں واضح کردیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا
صفحہ 490 اور 491 پر مرزا قادیانی لکھتے ہیں
"۔اور میں اِس بات کا بھی اقراری ہوں کہ جبکہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہوگئی اور حدِّ اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پرچہ نُورافشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے نہایت گندی تحریریں شائع ہوئیں۔ اور ان مؤلفین نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت نعوذ باللہ ایسے الفاظ استعمال کئے کہ یہ شخص ڈاکوتھا چور تھا زناکار تھااور صدہا پرچوں میں یہ شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بدنیتی سے عاشق تھا اور با ایں ہمہ جھوٹا تھا اور لوٹ مار اور خون کرنا اُس کا کام تھا تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دِلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو۔ تب میں نے اُن جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنی صحیح اور پاک نیّتؔ سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لئے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تا سریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی کیونکہ میرے کانشنس نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں ان کے غیظ و غضب کی آگ بجھانے کے لئے یہ طریق کافی ہوگا کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔ سو یہ میری پیش بینی کی تدبیر صحیح نکلی اوران کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزارہا مسلمان جو پادری عما د الدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آچکے تھے یکدفعہ اُن کے اشتعال فرو ہوگئے کیونکہ انسان کی یہ عادت ہے کہ جب سخت الفاظ کے مقابل پر اُس کا عوض دیکھ لیتا ہے تواُس کا وہ جوش نہیں رہتا۔ باایں ہمہ میری تحریر پادریوں کے مقابل پر بہت نرم تھی گویا کچھ بھی نسبت نہ تھی۔ ہماری محسن گورنمنٹ خوب سمجھتی ہے کہ مسلمان سے یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اگر کوئی پادری ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو ایک مسلمان اُس کے عوض میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوگالی دے کیونکہ مسلمانوں کے دِلوں میں دُودھ کے ساتھ ہی یہ اثر پہنچایا گیا ہے کہ وہ جیسا کہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے ہیں ایسا ہی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے محبت رکھتے ہیں۔ سو کسی مسلمان کا یہ حوصلہ ہی نہیں کہ تیز زبانی کو اس حد تک پہنچائے جس حد تک ایک متعصّب عیسائی پہنچا سکتا ہے اور مسلمانوں میں یہ ایک عمدہ سیرت ہے جو فخر کرنے کے لائق ہے کہ وہ تمام نبیوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہوچکے ہیں ایک عزت کی نگہ سے دیکھتے ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام سے بعض وجوہ سے ایک خاص محبت رکھتے ہیں جس کی تفصیل کے لئے اس جگہ موقع نہیں۔ سو مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیا گیا۔ اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں میں سے اوّل درجہ کا خیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیر خواہی میں اوّل درجہ پر بنا دیا ہے۔ (۱) اوّل والد مرحوم کے اثر نے۔ (۲) دوم اِس گورنمنٹ عالیہ کے احسانوں نے۔ (۳) تیسرے خدا تعالیٰ کے الہام نے۔ اب میں اِس گورنمنٹ محسنہ کے زیر سایہ ہر طرح سے خوش ہوں"
![Ruhani-Khazain-Vol-15_Page_517.png Ruhani-Khazain-Vol-15_Page_517.png](http://www.khatmenbuwat.org/data/attachments/2/2753-02fe5f7c78871e197f3c055e42796bb0.jpg)
![Ruhani-Khazain-Vol-15_Page_518.png Ruhani-Khazain-Vol-15_Page_518.png](http://www.khatmenbuwat.org/data/attachments/2/2754-375d19890afb9fc9870d064b5dcebf71.jpg)