مرزا غلام احمد قادیانی روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 121میں لکھتے ہیں
"دوسری نکتہ چینی یہ ہے کہ مالیخولیا یا جنون ہو جانے کی وجہ سے مسیح موعودہونے کا دعویٰ کر دیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یُوں تو میں کسی کے مجنون کہنے یا دیوانہ نام رکھنے سے ناراض نہیں ہو سکتا بلکہ خوش ہوں۔کیونکہ ہمیشہ سے ناسمجھ لوگ ہر ایک نبی اور رسول کا بھی اُن کے زمانہ میں یہی نام رکھتے آئے ہیں اور قدیم سے ربّانی مصلحوں کو قوم کی طرف سے یہی خطاب ملتا رہا ہے اور نیز اس وجہ سے بھی مجھے خوشی پہنچی ہے کہ آج وہ پیشگوئی پور ی ہوئی جو براھین میں طبع ہو چکی ہے کہ تجھے مجنون بھی کہیں گے"
مرزا جی آپ ناحق خوش ہو رہے ہیں کیونکہ گزشتہ انبیا، کو تو کافر مجنون وغیرہ کہا کرتے تھے وہ خود اپنے آپ کو مجنون نہیں کہا کرتے تھے لیکن آپ تو خود اپنے مراقی ہونے کا اقرار کر رہے ہیں اور آپ کی اپنی زوجہ آپ کو ہسٹیریا کا مریض بتا رہی ہیں ۔
لہذا اسی بنا پر مسلمانوں کا کامل یقین ہے کہ آپ کے یہ سارے دعوے مراق کا نتیجہ ہیں ۔
تعریف مراق:
(۱) نَوْعٌ من المالیخولیا یسمی المراق۔(شرح اسباب ص۷۴، ج۱)
'' مراق مالیخولیا کی ایک نوع ہے۔''
(۲) '' مراق مالیخولیا کی ایک شاخ ہے۔''( بیاض حکیم نور الدین ص۲۱۱، ج۱ طبعہ وزیر ہند پریس ۱۹۲۸ء)
(۳) قَالَ الشیخُ اِنَّمَا یقالُ مَا لیخولَیَا لِمَا کَانَ حَدُوْثُہٗ عَنْ سَوْدائٍ غَیْرَ مُحَتَرِقَۃٍ تَسْمِیَۃً لَہٗ بِاِسم السَّبَبِ لِاَنَّ معناہ بالیونانیۃ الخلط الاسود وقال یُوْحَنَا بِنْ سَرَا فیون معناہ الفرعُ فَیَکُوْنَ تَسْمِیَۃً بِاسْمِ عَرَضِہٖ۔(حدود الامراض ص۵۱ طبعہ مجتبائی دہلی)
'' شیخ الرئیس فرماتے ہیں اس کو مالیخولیا اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا حدوث غیر محترقہ سودا سے ہوتا ہے اور یوحنا ابن سرافیون نے کہا ہے کہ اس کے معنی ڈر، خوف کے ہیں (یہ اس کے عوارض ہیں) اس لیے بسبب ان عوارض کے اس کا نام مراق رکھا گیا ہے۔ ''
حقیقت و اسباب و اقسام مرض:
(۱) تَغَیُّرُ الظُنُوْنِ وَالْفِکِرْ عَنِ الْمُجْرِیْ الطَّیْعْی اِلَی الْفَسَادِ وَالخَوْفِ لِمَزاجٍ سَوْدَاوِیٍّ وَتَوَحُّشُ الرُّوْحِ وَیَفْزَعُ وَلَا یُؤْذِیْ اَحَدًا بِخَلَافِ جَنُوْنِ السَّبْعِیّ وَنَوْعٌ مِّنْہُ یُقَالُ لَہُ الْمَرَاق وَھُوَ اَنْ یَکُوْنَ بِشِرْکَۃِ الْمَراقِ۔( ایضاً)
سو داوی مزاج انسان کے ظنون و افکار طبعی، خوف و فساد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اس کا روح وحشت و خوف محسوس کرتا ہے یہ مرض کسی کو کوئی ایذا نہیں دیتی بخلاف جنون سبعی کے (کہ وہ مریض کو سخت تکلیف دیتا ہے) مالیخولیا کی ایک قسم وہ ہے جسے مالیخولیا مراقی کہتے ہیں۔ یہ مرض مراق کی شرکت سے ہوتا ہے۔
(۲) مالیخولیا بحسب محل سبب تین قسم پر ہے اول دماغی جس کا محل وقوع دماغ ہے۔ اطبا اس کو شر الاصناف کہتے ہیں۔ دوم قلب اور دماغ کے سوا جس کا محل تمام بدن ہو۔ بخارات دماغ کی طرف چڑھیں۔ سوم امعاء میں ردیہ فضلات سے یا معدہ کے سوداوی ورم سے یا باب الکبد کے ورم سے یا جگر اور امعاء دونوں سے یا عروق د قاق سے یا ماساریقا کے سوداوی بلا ورم سدہ سے یا ما ساریقا کے ورم سے بخارات نکل کر غشا مراق تک پہنچیں اور مراق سے اٹھ کر دماغ کی طرف جائیں اور مالیخولیا پیدا کریں اس کو مالیخولیا مراقی کہتے ہیں چونکہ مالیخولیا جنون کا ایک شعبہ ہے اور مراق مالیخولیا کی ایک شاخ اور مالیخولیا مراقی میں دماغ کو ایذا پہنچتی ہے اس لیے مراق کو سر کے امراض میں لکھا ہے۔( بیاض نور الدین ص۲۱۱)
مرزا صاحب کو مراق تھا:
(۱) '' دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی تھی جو اس طرح وقوع میں آئی ہے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح جب آسمان سے اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہوئی ہوں گی سو اس طرح مجھ کو دو بیماریاں ہیں ایک اوپر کے دھڑ کی یعنی مراق اور (ایک نیچے کے دھڑ کی) کثرت بول۔(بدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ جون ۱۹۰۶ء ص۵ وتشحیذ الاذہان جلد ۱ نمبر۲ مورخہ جون ۱۹۰۶ء وملفوظات مرزا ص۳۳، ج۵)
(۲) میرا تو یہ حال ہے کہ دو بیماریوں میں ہمیشہ مبتلا رہتا ہوں تا ہم مصروفیت کا یہ حال ہے کہ بڑی بڑی رات تک بیٹھا کام کرتا رہتا ہوں۔ حالانکہ زیادہ جاگنے سے مراق کی بیماری ترقی کرتی ہے اور دورانِ سر کا دورہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ تاہم میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کام کو کئے جاتا ہوں۔( الحکم جلد ۵ نمبر ۴۰ مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۱ء و ملفوظات مرزا ص۵۶۵، ج۱)
مرزا صاحب کو مراق کے علاوہ ہسٹریا کے دورے بھی پڑا کرتے تھے
مرزا صاحب کا بیٹا مرزا بشیر ایم۔ اے کتاب '' سیرۃ المہدی'' حصہ اول ص۱۳ پر لکھتا ہے:
'' بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعودہ علیہ السلام کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹریا کا دورہ بشیر اول کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا۔ رات کو سوتے ہوئے آپ کو اُتھو آیا پھر اس کے کچھ عرصہ بعد طبیعت خراب ہوگئی مگر یہ دورہ خفیف تھا، پھر اس کے کچھ عرصہ بعد طبیعت خراب ہوگئی (فرمایا) میں نماز پڑھ رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی ہے پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا۔ اور غشی کی سی حالت ہوگئی۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس کے بعد سے آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہوگئے۔''
ڈاکٹر شاہ نواز مرزائی رسالہ ریویو اگست پر راقم ہیں:
'' ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسٹریا مالیخولیا یا مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعویٰ کی تردید کے لیے کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ و بن سے اکھیڑ دیتی ہے۔''(ریویو آف ریلجنز جلد ۲۵ نمبر ۸ مورخہ اگست ۱۹۲۶ء ص۶)
"دوسری نکتہ چینی یہ ہے کہ مالیخولیا یا جنون ہو جانے کی وجہ سے مسیح موعودہونے کا دعویٰ کر دیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یُوں تو میں کسی کے مجنون کہنے یا دیوانہ نام رکھنے سے ناراض نہیں ہو سکتا بلکہ خوش ہوں۔کیونکہ ہمیشہ سے ناسمجھ لوگ ہر ایک نبی اور رسول کا بھی اُن کے زمانہ میں یہی نام رکھتے آئے ہیں اور قدیم سے ربّانی مصلحوں کو قوم کی طرف سے یہی خطاب ملتا رہا ہے اور نیز اس وجہ سے بھی مجھے خوشی پہنچی ہے کہ آج وہ پیشگوئی پور ی ہوئی جو براھین میں طبع ہو چکی ہے کہ تجھے مجنون بھی کہیں گے"
مرزا جی آپ ناحق خوش ہو رہے ہیں کیونکہ گزشتہ انبیا، کو تو کافر مجنون وغیرہ کہا کرتے تھے وہ خود اپنے آپ کو مجنون نہیں کہا کرتے تھے لیکن آپ تو خود اپنے مراقی ہونے کا اقرار کر رہے ہیں اور آپ کی اپنی زوجہ آپ کو ہسٹیریا کا مریض بتا رہی ہیں ۔
لہذا اسی بنا پر مسلمانوں کا کامل یقین ہے کہ آپ کے یہ سارے دعوے مراق کا نتیجہ ہیں ۔
تعریف مراق:
(۱) نَوْعٌ من المالیخولیا یسمی المراق۔(شرح اسباب ص۷۴، ج۱)
'' مراق مالیخولیا کی ایک نوع ہے۔''
(۲) '' مراق مالیخولیا کی ایک شاخ ہے۔''( بیاض حکیم نور الدین ص۲۱۱، ج۱ طبعہ وزیر ہند پریس ۱۹۲۸ء)
(۳) قَالَ الشیخُ اِنَّمَا یقالُ مَا لیخولَیَا لِمَا کَانَ حَدُوْثُہٗ عَنْ سَوْدائٍ غَیْرَ مُحَتَرِقَۃٍ تَسْمِیَۃً لَہٗ بِاِسم السَّبَبِ لِاَنَّ معناہ بالیونانیۃ الخلط الاسود وقال یُوْحَنَا بِنْ سَرَا فیون معناہ الفرعُ فَیَکُوْنَ تَسْمِیَۃً بِاسْمِ عَرَضِہٖ۔(حدود الامراض ص۵۱ طبعہ مجتبائی دہلی)
'' شیخ الرئیس فرماتے ہیں اس کو مالیخولیا اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا حدوث غیر محترقہ سودا سے ہوتا ہے اور یوحنا ابن سرافیون نے کہا ہے کہ اس کے معنی ڈر، خوف کے ہیں (یہ اس کے عوارض ہیں) اس لیے بسبب ان عوارض کے اس کا نام مراق رکھا گیا ہے۔ ''
حقیقت و اسباب و اقسام مرض:
(۱) تَغَیُّرُ الظُنُوْنِ وَالْفِکِرْ عَنِ الْمُجْرِیْ الطَّیْعْی اِلَی الْفَسَادِ وَالخَوْفِ لِمَزاجٍ سَوْدَاوِیٍّ وَتَوَحُّشُ الرُّوْحِ وَیَفْزَعُ وَلَا یُؤْذِیْ اَحَدًا بِخَلَافِ جَنُوْنِ السَّبْعِیّ وَنَوْعٌ مِّنْہُ یُقَالُ لَہُ الْمَرَاق وَھُوَ اَنْ یَکُوْنَ بِشِرْکَۃِ الْمَراقِ۔( ایضاً)
سو داوی مزاج انسان کے ظنون و افکار طبعی، خوف و فساد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اس کا روح وحشت و خوف محسوس کرتا ہے یہ مرض کسی کو کوئی ایذا نہیں دیتی بخلاف جنون سبعی کے (کہ وہ مریض کو سخت تکلیف دیتا ہے) مالیخولیا کی ایک قسم وہ ہے جسے مالیخولیا مراقی کہتے ہیں۔ یہ مرض مراق کی شرکت سے ہوتا ہے۔
(۲) مالیخولیا بحسب محل سبب تین قسم پر ہے اول دماغی جس کا محل وقوع دماغ ہے۔ اطبا اس کو شر الاصناف کہتے ہیں۔ دوم قلب اور دماغ کے سوا جس کا محل تمام بدن ہو۔ بخارات دماغ کی طرف چڑھیں۔ سوم امعاء میں ردیہ فضلات سے یا معدہ کے سوداوی ورم سے یا باب الکبد کے ورم سے یا جگر اور امعاء دونوں سے یا عروق د قاق سے یا ماساریقا کے سوداوی بلا ورم سدہ سے یا ما ساریقا کے ورم سے بخارات نکل کر غشا مراق تک پہنچیں اور مراق سے اٹھ کر دماغ کی طرف جائیں اور مالیخولیا پیدا کریں اس کو مالیخولیا مراقی کہتے ہیں چونکہ مالیخولیا جنون کا ایک شعبہ ہے اور مراق مالیخولیا کی ایک شاخ اور مالیخولیا مراقی میں دماغ کو ایذا پہنچتی ہے اس لیے مراق کو سر کے امراض میں لکھا ہے۔( بیاض نور الدین ص۲۱۱)
مرزا صاحب کو مراق تھا:
(۱) '' دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی تھی جو اس طرح وقوع میں آئی ہے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح جب آسمان سے اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہوئی ہوں گی سو اس طرح مجھ کو دو بیماریاں ہیں ایک اوپر کے دھڑ کی یعنی مراق اور (ایک نیچے کے دھڑ کی) کثرت بول۔(بدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ جون ۱۹۰۶ء ص۵ وتشحیذ الاذہان جلد ۱ نمبر۲ مورخہ جون ۱۹۰۶ء وملفوظات مرزا ص۳۳، ج۵)
(۲) میرا تو یہ حال ہے کہ دو بیماریوں میں ہمیشہ مبتلا رہتا ہوں تا ہم مصروفیت کا یہ حال ہے کہ بڑی بڑی رات تک بیٹھا کام کرتا رہتا ہوں۔ حالانکہ زیادہ جاگنے سے مراق کی بیماری ترقی کرتی ہے اور دورانِ سر کا دورہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ تاہم میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کام کو کئے جاتا ہوں۔( الحکم جلد ۵ نمبر ۴۰ مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۱ء و ملفوظات مرزا ص۵۶۵، ج۱)
مرزا صاحب کو مراق کے علاوہ ہسٹریا کے دورے بھی پڑا کرتے تھے
مرزا صاحب کا بیٹا مرزا بشیر ایم۔ اے کتاب '' سیرۃ المہدی'' حصہ اول ص۱۳ پر لکھتا ہے:
'' بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعودہ علیہ السلام کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹریا کا دورہ بشیر اول کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا۔ رات کو سوتے ہوئے آپ کو اُتھو آیا پھر اس کے کچھ عرصہ بعد طبیعت خراب ہوگئی مگر یہ دورہ خفیف تھا، پھر اس کے کچھ عرصہ بعد طبیعت خراب ہوگئی (فرمایا) میں نماز پڑھ رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی ہے پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا۔ اور غشی کی سی حالت ہوگئی۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس کے بعد سے آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہوگئے۔''
ڈاکٹر شاہ نواز مرزائی رسالہ ریویو اگست پر راقم ہیں:
'' ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسٹریا مالیخولیا یا مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعویٰ کی تردید کے لیے کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ و بن سے اکھیڑ دیتی ہے۔''(ریویو آف ریلجنز جلد ۲۵ نمبر ۸ مورخہ اگست ۱۹۲۶ء ص۶)