• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا غلام قادیانی کے کاذب ہونے پر دلیل مراقِ مرزا

خادمِ اعلیٰ

رکن عملہ
ناظم
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
تعریف مراق:
(۱) نَوْعٌ من المالیخولیا یسمی المراق۔ (شرح اسباب ص۷۴، ج۱)
'' مراق مالیخولیا کی ایک نوع ہے۔''
(۲) '' مراق مالیخولیا کی ایک شاخ ہے۔'' (بیاض حکیم نور الدین ص۲۱۱، ج۱ طبعہ وزیر ہند پریس ۱۹۲۸ء)
(۳) قَالَ الشیخُ اِنَّمَا یقالُ مَا لیخولَیَا لِمَا کَانَ حَدُوْثُہٗ عَنْ سَوْدائٍ غَیْرَ مُحَتَرِقَۃٍ تَسْمِیَۃً لَہٗ بِاِسم السَّبَبِ لِاَنَّ معناہ بالیونانیۃ الخلط الاسود وقال یُوْحَنَا بِنْ سَرَا فیون معناہ الفرعُ فَیَکُوْنَ تَسْمِیَۃً بِاسْمِ عَرَضِہٖ ۔(حدود الامراض ص۵۱ طبعہ مجتبائی دہلی)
'' شیخ الرئیس فرماتے ہیں اس کو مالیخولیا اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا حدوث غیر محترقہ سودا سے ہوتا ہے اور یوحنا ابن سرافیون نے کہا ہے کہ اس کے معنی ڈر، خوف کے ہیں (یہ اس کے عوارض ہیں) اس لیے بسبب ان عوارض کے اس کا نام مراق رکھا گیا ہے۔ ''
حقیقت و اسباب و اقسام مرض:
(۱) تَغَیُّرُ الظُنُوْنِ وَالْفِکِرْ عَنِ الْمُجْرِیْ الطَّیْعْی اِلَی الْفَسَادِ وَالخَوْفِ لِمَزاجٍ سَوْدَاوِیٍّ وَتَوَحُّشُ الرُّوْحِ وَیَفْزَعُ وَلَا یُؤْذِیْ اَحَدًا بِخَلَافِ جَنُوْنِ السَّبْعِیّ وَنَوْعٌ مِّنْہُ یُقَالُ لَہُ الْمَرَاق وَھُوَ اَنْ یَکُوْنَ بِشِرْکَۃِ الْمَراقِ ۔(ایضاً)
سو داوی مزاج انسان کے ظنون و افکار طبعی، خوف و فساد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اس کا روح وحشت و خوف محسوس کرتا ہے یہ مرض کسی کو کوئی ایذا نہیں دیتی بخلاف جنون سبعی کے (کہ وہ مریض کو سخت تکلیف دیتا ہے) مالیخولیا کی ایک قسم وہ ہے جسے مالیخولیا مراقی کہتے ہیں۔ یہ مرض مراق کی شرکت سے ہوتا ہے۔
(۲) مالیخولیا بحسب محل سبب تین قسم پر ہے اول دماغی جس کا محل وقوع دماغ ہے۔ اطبا اس کو شر الاصناف کہتے ہیں۔ دوم قلب اور دماغ کے سوا جس کا محل تمام بدن ہو۔ بخارات دماغ کی طرف چڑھیں۔ سوم امعاء میں ردیہ فضلات سے یا معدہ کے سوداوی ورم سے یا باب الکبد کے ورم سے یا جگر اور امعاء دونوں سے یا عروق د قاق سے یا ماساریقا کے سوداوی بلا ورم سدہ سے یا ما ساریقا کے ورم سے بخارات نکل کر غشا مراق تک پہنچیں اور مراق سے اٹھ کر دماغ کی طرف جائیں اور مالیخولیا پیدا کریں اس کو مالیخولیا مراقی کہتے ہیں چونکہ مالیخولیا جنون کا ایک شعبہ ہے اور مراق مالیخولیا کی ایک شاخ اور مالیخولیا مراقی میں دماغ کو ایذا پہنچتی ہے اس لیے مراق کو سر کے امراض میں لکھا ہے۔(بیاض نور الدین ص۲۱۱)
مرزا صاحب کو مراق تھا:
(۱) '' دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی تھی جو اس طرح وقوع میں آئی ہے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح جب آسمان سے اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہوئی ہوں گی سو اس طرح مجھ کو دو بیماریاں ہیں ایک اوپر کے دھڑ کی یعنی مراق اور (ایک نیچے کے دھڑ کی) کثرت بول۔ (بدر جلد ۲ نمبر ۲۳ مورخہ جون ۱۹۰۶ء ص۵ وتشحیذ الاذہان جلد ۱ نمبر۲ مورخہ جون ۱۹۰۶ء وملفوظات مرزا ص۳۳، ج۵)
(۲) میرا تو یہ حال ہے کہ دو بیماریوں میں ہمیشہ مبتلا رہتا ہوں تا ہم مصروفیت کا یہ حال ہے کہ بڑی بڑی رات تک بیٹھا کام کرتا رہتا ہوں۔ حالانکہ زیادہ جاگنے سے مراق کی بیماری ترقی کرتی ہے اور دورانِ سر کا دورہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ تاہم میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا اور اس کام کو کئے جاتا ہوں۔ (الحکم جلد ۵ نمبر ۴۰ مورخہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۱ء و ملفوظات مرزا ص۵۶۵، ج۱)
(۳) حضرت مسیح موعود نے بیشک مراق کا لفظ اپنی نسبت بولا ہے۔(احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۰ طبعہ ۱۹۳۲ء)
مراقی نبی ہوسکتا اور نہ اس کی کوئی بات قابلِ اعتبار ہے
مرزا صاحب حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے عقیدہ پر لکھتے ہیں:
(۱) '' یہ بات تو بالکل جھوٹا منصوبہ ہے اور یا کسی مراقی عورت کا وہم۔'' (حاشیہ کتاب البریہ ص۲۵۶ و روحانی ص۲۷۴ ، ج۱۳)
صاف عیاں ہے کہ مراقی شخص کی کسی بات کا اعتبار نہیں اس کی باتیں وہم ہی وہم ہوتی ہیں نہ حقیقت۔
(۲) ڈاکٹر شاہ نواز مرزائی رسالہ ریویو اگست پر راقم ہیں:
'' ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسٹریا مالیخولیا یا مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعویٰ کی تردید کے لیے کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ و بن سے اکھیڑ دیتی ہے۔''
(۳) '' اس مرض میں تخیل بڑھ جاتا ہے اور مرگی اور ہسٹریا والوں کی طرح مریض کو اپنے جذبات اور خیالات پر قابو نہیں رہتا۔'' (ریویو آف ریلجنز جلد ۲۵ نمبر ۸ مورخہ اگست ۱۹۲۶ء ص۶)
(۴) '' نبی میں اجتماع توجہ بالا رادہ ہوتا ہے جذبات پر قابو رہتا ہے۔'' (ایضاً جلد ۲۶؍ مورخہ مئی ۱۹۲۷ء ص۳۰)
مرزا صاحب کو مراق کے علاوہ ہسٹریا کے دورے بھی پڑا کرتے تھے
مرزا صاحب کا بیٹا مرزا بشیر ایم۔ اے کتاب '' سیرۃ المہدی'' حصہ اول ص۱۳ پر لکھتا ہے:
'' بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعودہ علیہ السلام کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹریا کا دورہ بشیر اول کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا۔ رات کو سوتے ہوئے آپ کو اُتھو آیا پھر اس کے کچھ عرصہ بعد طبیعت خراب ہوگئی مگر یہ دورہ خفیف تھا، پھر اس کے کچھ عرصہ بعد طبیعت خراب ہوگئی (فرمایا) میں نماز پڑھ رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی ہے پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا۔ اور غشی کی سی حالت ہوگئی۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں اس کے بعد سے آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہوگئے۔'' (سیرت المھدی ص۱۳، ج۱ طبعہ اول ص۱۶ تا ۱۷ طبعہ دوم ۱۹۳۵ء قادیان ملخصًا)
مرزائی عذر:
مراق والا حوالہ ڈائری کا ہے۔ اس لیے قابل اعتبار نہیں۔(احمدیہ پاکٹ بک ص۱۰۶۴ طبعہ ۱۹۴۵)
الجواب:
یہ عبارت مرزا صاحب کی زندگی میں ان کے سامنے ان کے اپنے اخباروں میں شائع ہوئی اور مرزا صاحب کے قلم سے، جیسا کہ صیغۂ متکلم سے ظاہر ہے۔ اگر یہ افترا ہوتا تو یقینا مرزا صاحب اس کی تردید کردیتے، چونکہ مرزا صاحب نے اس کی تردید نہیں کی لہٰذا یہ انہی کے الفاظ میں اس کے علاوہ اس تحریر کی تردید ان کی جماعت میں سے بھی کسی نے نہ کی حتیٰ کہ خلیفہ نور دین کا زمانہ بھی گزر گیا۔
(۲) ڈائری کی عبارت قابل اعتبار اس لیے ہے کہ مرزا محمود خلیفہ قادیانی نے بھی اپنی کتاب ''حقیقت النبوۃ'' میں جا بجا ڈائری کے حوالے بطور شہادت نقل کیے ہیں، اگر ڈائری ناقابل اعتبار تھی تو پھر خلیفہ ثانی جیسا ذمہ دار آدمی کیوں اس جرم کا مرتکب ہوا۔(حقیقت النبوۃ ۲۵، ۲۶، ۶۱، ۷۳)
مرزائی عذر:
حضرت نے بیشک مراق کا لفظ اپنی نسبت بولا ہے مگر اس سے مراد سوائے دوران سر کے اور کچھ نہیں۔ حضرت نے کب کہا ہے کہ مجھے ہسٹریا ہے۔ میاں بشیر احمد نے حضرت ام المومنین کی زبانی ہسٹریا لکھا ہے۔ مگر آپ کوئی ڈاکٹر نہیں ہیں کہ جو ترجمہ مراق کا کیا ہے وہ درست ہو۔ ڈاکٹر شاہ نواز ایم۔ بی ۔ بی۔ ایس نے ریویو اگست ۱۹۲۶ء میں لکھا ہے بلکہ ثابت کیا ہے کہ مراق کا ترجمہ قطعاً ہسٹریا نہیں۔ ڈاکٹر شاہ نواز نے طبئی نقطہ نگاہ سے ثابت کردیا ہے کہ حضرت کو قطعاً ہسٹریا نہ تھا۔(احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۰ طبعہ ۱۹۳۲ء وایضاً ص۱۰۶۶ طبعہ ۱۹۴۵ء)
الجواب:
مرزا صاحب کو دوران سر بھی تھا اور مراق بھی۔ دونوں کو ایک بنانا نہ صرف علم طب سے کورا پن ہے بلکہ خود تحریرات مرزا کے بھی خلاف ہے۔ کتاب منظور الٰہی کی تحریر جو ہم پہلے نقل کر آئے ہیں، اس کو بغور پڑھو۔ مرزا صاحب اپنے حق میں مراق اور دوران سر دونوں بیماریاں مانتے ہیں۔ ڈاکٹر شاہ نواز بھی یہی لکھتے ہیں کہ:
'' واضح رہے کہ حضرت صاحب کی تمام تکلیف مثلاً دورانِ سر درد، کمی خواب، تشنج دل اور بد ہضمی، اسہال، کثرت پیشاب اور مراق وغیرہ کا صرف ایک ہی باعث کمزوری تھا۔''(ریویو آف ریلجنز جلد ۲۶ نمبر ۵ مورخہ ؍ مئی ۱۹۲۷ ص۲۶)
دیکھئے ڈاکٹر صاحب دورانِ سر اور مراق کو علیحدہ علیحدہ مرض شمار کرتے ہیں:
(۲) آپ کی ام المؤمنین بیشک ڈاکٹر نہیں ہوں گی۔ مگر مرزا صاحب تو حکیم تھے اور حکیم بھی بقول خود ایسے کہ ہزار سے زیادہ کتب طب پڑھے ہوئے تھے۔ جیسا کہ لکھتے ہیں:
'' میں نے خود طب کی کتابیں پڑھی ہیں اور ان کتابوں کو ہمیشہ دیکھتا رہا اس لیے میں اپنی ذاتی واقفیت سے بیان کرتا ہوں کہ ہزار کتاب سے زیادہ ایسی کتاب ہوگی جن میں مرہم عیسیٰ کا ذکر ہے (یہ قطعاً جھوٹ دروغ بے فروغ ہے۔ مرزائی اگر سچے ہیں تو ہزار کتب طب کا نام بتا دیں جن میں ایسا لکھا ہے ناقل) اور ان میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ مرہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے بنائی تھی ۔'' (راز حقیقت ص۶ و روحانی ص۱۵۸، ج۱۴)
اس کے علاوہ مرزا صاحب کی اپنی اہلیہ محترمہ بھی اسی مراق کی مرض میں مبتلا تھیں ۔(الحکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۰؍ اگست ۱۹۰۱ء ومنظور الٰہی ص۲۴۴) اس سے ثابت ہوا کہ مرزا صاحب مراق کی حقیقت اور اصلیت سے بخوبی واقف تھے اور اس مرض کے متعلق ان کا علم تجربے پر مبنی تھا۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ام المومنین نے جو ''ڈاکٹر نہیں'' ضرور مرزا صاحب سے ہسٹریا کا نام سنا ہے ماسوا اس کے جب خود مرزا صاحب مانتے ہیں کہ مجھے مراق کی بیماری ہے تو معاملہ بالکل صاف ہو جاتا ہے۔
(۳) مراق کا ترجمہ ہسٹریا ہو یا نہ ہو۔ یہ سوال تو یہاں پیدا ہی نہیں ہوتا جبکہ مرزا صاحب خود مانتے ہیں کہ مجھے مراق ہے اور ان کی بیوی راوی ہے کہ ہسٹریا کے دورے بکثرت پڑا کرتے تھے، نتیجہ ظاہر ہے۔
(۴) اگر ڈاکٹر شاہ نواز نے طبی نقطہ نگاہ سے ثابت کردیا تھا کہ مرزا صاحب کو ہسٹریا نہ تھا تو آپ نے اس قیمتی نقطہ نگاہ کو پاکٹ بک میں درج کیوں نہ کردیا کہ لوگ اس کی حقیقت پر مطلع ہو جاتے۔ اے جناب! دنیا کو دھوکا مت دو، وہ بیچارے باوجود ہاتھ پیر مارنے کے رتی بھر اپنے دعویٰ کو مدلل نہیں کرسکے۔ علاوہ جب خود مرزا صاحب کی بیوی راوی ہے کہ ہسٹریا تھا تو اب کسی اور غیر واقف حال کا خواہ مخواہ ہسٹریا سے بچانے کی ناکام سعی کرنا وہی بات ہے کہ
پدرنتواند پسر تمام کند
عذر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی کفار نے ایسے ایسے طومار باندھے تھے۔(احمدیہ پاکٹ بک ص۱۰۶۷ طبعہ ۱۹۴۵)
الجواب:
کجا کسی کا بہتان باندھنا اور کجا خود مرزا صاحب کا اپنی نسبت مراق کا لکھنا اور اعلیٰ وجہ البصیرت اقرار کرنا۔
عذر:
ہسٹریا مردوں کو نہیں ہوا کرتا صرف عورتوں کو ہوا کرتا ہے۔
جواب:
مرزا صاحب مرد تھے اور ان کو ہسٹریا تھا۔
کتاب مخزن حکمت طبع چہارم ص۹۶۹ جلد دوم لکھا ہے:
'' یہ مرض عموماً عورتوں کو ہوا کرتا ہے اگرچہ شاذ و نادر مرد بھی اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔''(مخزن حکمت ص۹۶۹، ج۲ طبعہ چہارم)
'' جن مردوں کو یہ مرض ہسٹریا ہو ان کو مراقی کہتے ہیں۔'' (مرزے محمود کا خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍ اپریل ۱۹۲۳ء مندرجہ الفضل ۳۰؍ اپریل ۱۹۲۳ء و خطبات محمود ص۷۵، ج۸)
ایک اور طرز سے
چونکہ مراق ایک ایسا مرض ہے جو بعض دفعہ کئی پشتوں تک اپنا اثر پہنچاتا ہے اس لیے اس جگہ بھی خدا تعالیٰ نے مرزا صاحب کامراتی ہونا ہر طور سے ثابت کرنے کے لیے ان کی ہم جلیس بیوی صاحبہ اور اولاد کو بھی اس میں مبتلا کردیا تاکہ اور نہیں تو اسی دلیل سے مرزا صاحب کامراقی ہونا پایۂ تکمیل تک پہنچ جائے۔
'' ایں خانہ ہمہ آفتاب است''
مرزا صاحب تو مراقی تھے ہی، مگر آپ کی بیوی بچہ مراقی سے اس لیے اگر ہم مرزا صاحب کے خاندان کو ''مراقی کنبہ'' کے نام سے یاد کریں تو غلط نہیں۔
مرزا صاحب کی بیوی کو بھی مراق تھا
مرزا صاحب کا اپنے جدی بھائیوں کے ساتھ مقدمہ تھا انہوں نے بطور گواہ مرز صاحب کا بیان عدالت میں دلوایا۔ آپ نے اس میں یہ بھی فرمایا:
'' میری بیوی کو مراق کی بیماری ہے کبھی کبھی وہ میرے ساتھ ہوتی ہے کیونکہ طبی اصول کے مطابق اس کے لیے چہل قدمی مفید ہے۔'' (الحکم جلد ۵ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۰؍ اگست ۱۹۰۱ء ومنظور الٰہی ص۲۴۴)
مرزا صاحب کے فرزند خلیفہ قادیان بھی مراقی ہیں
ڈاکٹر شاہ نواز مرزائی لکھتے ہیں:
جب خاندان سے اس کی ابتدا ہوچکی تو پھر اگلی نسل میں بیشک یہ مرض منتقل ہوا۔ چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح ثانی نے فرمایا کہ مجھ کو بھی کبھی کبھی مراق کا دورہ ہوتا ہے۔'' (ریویو آف ریلجنز جلد ۲۵ نمبر ۸ مورخہ اگست ۱۹۲۶ء ص۱۱)
---------------------------------------------------------------------------------------------
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
بہت عمدہ ماشا اللہ سیر حاصل تحقیقی ہے امید ہے مرزائیوں کو بھی اس سے کافی فائدہ ہو گا
 

ہاشم علی

رکن ختم نبوت فورم
ان تمام حوالہ جات کے سکین مل جائیں تو بات بہت بنتی ہے۔ جزاکہ اللہ
 
Top