• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

مرزا قادیانی کی کتاب ایک غلطی کا ازالہ کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ

عبیداللہ لطیف

رکن ختم نبوت فورم
عنوان : مرزا قادیانی کی کتاب ایک غلطی کا ازالہ کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
براہین احمدیہ کے الہامات اور مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوی نبوت
حضرات گرامی قدر! مرزا صاحب قادیانی اپنی کتاب ایک غلطی کا ازالہ کے پہلے صفحے پر ہی لکھتے ہیں کہ
”ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعوے اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنے معلومات کی تکمیل کر سکے۔ وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے۔ اس لئے باوجود اہل حق ہونے کے ان کو ندامت اُٹھانی پڑتی ہے۔ چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مُرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ۔ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے۔“
(ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ206)
قادیانی حضرات! مرزا صاحب قادیانی کی اس تحریر سے جو ہم سمجھے ہیں وہ نقل کیے دیتے ہیں امید ہے ہر ذی شعور میری بات سے اتفاق کرے گا
مرزا صاحب کے بیعت کنندگان کو جب مرزا صاحب کے مخالفین کہتے ہیں کہ انہوں نے دعوی نبوت کیا ہے تو وہ نفی میں جواب دیتے ہیں جو درست نہیں۔ بلکہ ان کا یہ غلط جواب تین وجوہات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
1۔ وہ مرزا صاحب کے دعوے اور دلائل سے پوری طرح واقف نہیں
2۔ اور انہیں مرزا صاحب کی کتب کو بغور نہیں پڑھا۔
3۔وہ مرزا صاحب کی صحبت میں ایک معقول مدت تک رہ کر اپنی معلومات کی تکمیل نہیں کر سکے۔
قادیانی حضرات! جب انہی الہامات کی بنیاد پر جن میں لفظ نبی مرسل اور رسول ہے علمائے اسلام نے مرزا جی کی تکفیر کی تو مرزا صاحب قادیانی نے 1894 میں شائع ہونے والی اپنی ایک کتاب حمامۃ البشری جو عربی تصنیف ہے میں لکھا کہ
”ومن اعتراضات المکفرین انہم قالوا ان ھذارجل ادعی النبوۃ و قال انی من النبیین۔ اما الجواب فاعلم یا اخی انی ما ادعیت النبوۃ وما قلت لھم انی نبی ولکن تعجلوا واخطاوا فی فھم قولی وما فکروا حق الفکر بل اجتروا علی تھت بہتان مبین۔“
ترجمہ: مکفرین کے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور کہتا ہے کہ میں نبیوں میں سے ہوں اس کا جواب یہ ہے کہ اے میرے بھائی تو جان لے کہ نہ تو میں نے نبوت کو دعوی کیا اور نہ ہی میں نے انہیں کہا ہے کہ میں نبی ہوں لیکن ان لوگوں نے جلد بازی سے کام لیا اور میری بات سمجھنے میں غلطی کھائی ہے۔ اور پوری طرح سے غوروفکر نہیں کیا بلکہ کھلی کھلی بہتان تراشی کی جرات کی ہے۔''
(حمامۃ البشری مترجم صفحہ 290 روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 296)
اب آپ ہی بتائیے جب مرزا صاحب کے الہامات سے نتیجہ اخذ کیا کہ مرزا جی نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور ان کی تکفیر کی تو مرزا جی نہ صرف دعوی نبوت سے انکاری ہوئے بلکہ اسے بہتان عظیم قرار دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ انہوں نے جلدبازی کی ہے میری بات کو سمجھا نہیں۔ جبکہ دوسری طرف جب مرزا جی کے مریدین کے سامنے لوگوں نے اعتراض کیا تو ان کے نفی میں جواب دینے کو غلط قرار دیا اور کہا کہ وہ میرے دعوے اور دلائل سے واقف نہیں اور نہ ہی انہوں نے میری کتابوں کو غور سے پڑھا ہے۔
قادیانی حضرات! آپ اب خود غوروفکر کیجیے کہ مرزا صاحب نے حمامۃ البشری میں غلط بیانی کی تھی یا ایک غلطی کا ازالہ میں کذب بیانی کی ہے؟
آئیے اب آپ کے سامنے مرزا صاحب قادیانی کی طرف سے صریح لفظوں میں دعوی نبوت سے انکار کے مزید ثبوت پیش کیے دیتے ہیں۔
مرزا غلام احمد کادیانی نے 1308ہجری میں توضیح مرام کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا جس کے ٹائٹل پیج پر رسالے کا سن اشاعت 1891 ء درج ہے یہ رسالہ روحانی خزائن کی جلد3 کے شروع میں موجود ہے محترم قارئین! جب مرزا صاحب قادیانی نے اپنے خودساختہ الہامات کی بنا پر اپنے حیات مسیح کے عقیدے میں تبدیلی کرتے ہوئے مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا تو تب علمائے اسلام کی طرف سے اعتراض کیا گیا کہ مسیح علیہ السلام تو نبی تھے کیا تم بھی مدعی نبوت ہو تب مرزا صاحب قادیانی نے اپنی اس کتاب میں لکھا کہ
”اس جگہ اگر یہ اعتراض پیش کیا جائے کہ مسیح کا مثیل بھی نبی ہونا چاہئے تو اس کا اول جواب تو یہی ہے کہ آنیوالے مسیح کے لئے ہمارے سید و مولیٰ نے نبوت شرط نہیں ٹھہرائی بلکہ صاف طور پر یہ لکھا ہے کہ وہ ایک مسلمان اور عام مسلمانوں کے موافق شریعت فرقانی کا پابند ہو گا۔“
(توضیح مرام ص 11 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 59)
1891ء میں ہی مرزا غلام احمد کادیانی نے ایک اشتہار شائع کیا جس میں وہ لکھتا ہے کہ
”میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ اہلسنت جماعت کا عقیدہ ہے ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن اور حدیث کی روسے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا و مولانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت و رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں میرا یقین ہے کہ وحی رسالت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی اور جناب محمد مصطفےٰ ﷺ پر ختم ہو گئی۔“
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 214 مورخہ 2 اکتوبر 1891ء طبع جدید)
”میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائکہ اور لیلۃ القدر وغیرہ سے منکر۔۔۔۔۔اور سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب و کافر جانتا ہوں“
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ232 مورخہ 2 اکتوبر 1891ء طبع جدید)
محترم قارئین! 1891ء میں ہی شائع ہونے والی اپنی کتاب ازالہ اوہام میں وفات مسیح کے دلائل دیتے ہوئے مرزا صاحب قادیانی لکھتے ہیں کہ
”مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّیْنَ۔“
یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں، مگر وہ رسول اللہ ہے اور ختم کرنے والا نبیوں کا یہ آیت بھی صاف دلالت کر رہی ہے کہ بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی رسول دنیا میں نہیں آئے گا۔“
(زالہ اوہام مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ431، و تفسیر مرزاجلد 7صفحہ52)
اپنی اسی کتاب میں مزید لکھا کہ
”ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النبیین میں وعدہ دیا گیا ہے اور جو حدیثوں میں بتصریح بیان کیا گیا ہے اور جو حدیثوں میں بتصریح بیان کیا گیا ہے کہ اب جبرائیل بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کے لیے وحی نبوت لانے سے منع کیا گیا ہے یہ تمام باتیں سچ اور صحیح ہیں، تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہرگز نہیں آسکتا۔“
(روحانی خزائن جلد3ص412)
”قرآن کریم بعد '' خاتم النبیین'' کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا، خواہ نیا ہو یا پرانا کیونکہ رسول کو علم دین بتوسط جبرائیل ملتا ہے۔ اور باب نزول جبرائیل پہ پیرا یہ وحی رسالت مسدود ہے اور یہ بات خود متمنع ہے کہ رسول تو آوے مگر سلسلہ وحی رسالت نہ ہو۔“
(روحانی خزائن جلد3صفحہ511)
اسی طرح مرزا غلام احمد کادیانی کی ایک عربی تصنیف حمامۃالبشری ہے جو 1894ء میں شائع ہوئی جس کے ٹائٹل پیج پر سن اشاعت1311 ہجری درج ہے اس میں مرزا غلام احمد کادیانی رقمطراز ہے کہ.
((الاتعلم ان الرب الرحیم المتفضل سمّٰی نبیّنا صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء بغیر استثناء وفسرہ نبیّنا فی قولہ لانبیّ بعدی ببیان واضح للطالبین؟ ولو جوزنا ظہور نبیّ بعد نبینا صلی اللہ علیہ وسلم لجوزنا انفتاح باب وحی النبوہ بعد تغلیقھا و ھذا خلف کما لایخفی علی المسلمین و کیف یجء نبیّ بعد رسولنا صلی اللہ علیہ وسلم وقدانقطع الوحی بعد وفاتہ و ختم اللہ بہ النبیین))
ترجمہ:_ کیا تو نہیں جانتا کہ اس محسن رب نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خاتم الانبیاء رکھا ہے اورکسی کو مستثنیٰ نہیں کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طالبوں کے لئے بیان واضح سے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور اگر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا ظہور جائز رکھیں تو یہ لازم آتا ہے کہ وحی نبوت کے دروازہ کا انفتاح بھی بند ہونے کے بعدجائز خیال کریں اور یہ باطل ہے جیسا کہ مسلمانوں پر پوشیدہ نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کیونکر آوے حالانکہ آپکی وفات کے بعد وحی نبوت منقطع ہو گئی ہے اور اللہ نے آپ کے ساتھ نبیوں کو ختم کر دیا ہے
(حمامۃ البشریٰ مترجم صفحہ 81،82)
((وماکان لی ان الدعی النبوۃ واخرج من الاسلام والحق بقوم الکافرین))
ترجمہ:_ اور میرے لیے یہ جائز نہیں کہ میں دعویٰ نبوت کروں اور اسلام سے خارج ہو جاوں اور کافروں سے جاملوں _
(حمامۃالبشریٰ مترجم صفحہ 291 شائع کردہ صدر نظارت اشاعت صدر جماعت احمدیہ پاکستان ربوہ)
محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی نے 1896 ء میں انجام آتھم نامی کتاب لکھی اس میں وہ لکھتا ہے کہ
”صاحب انصاف طلب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طورپر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیر حقیقی طورپر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لغت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم کفر نہیں مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھوکہ لگ جانے کا احتمال ہے“
(انجام آتھم صفحہ 27 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 27)
1898ء میں مرزا صاحب قادیانی کی کتاب بعنوان ''کتاب البریہ'' شائع ہوئی اس میں مرزا جی لکھتے ہیں کہ
”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرما دیا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، اور حدیث لا نبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا، اور قرآن شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے اپنی آیت ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین سے بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ فی الحقیقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔“
(کتاب البریہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 ص 217) اسی طرح جنوری 1899ء میں مرزا صاحب کتاب بعنوان ''ایام الصلح'' شائع ہوئی اس میں مرزا صاحب قادیانی لکھتے ہیں کہ
”حدیث لا نبی بعدی میں بھی (لا) نفی عام ہے پس یہ کس قدر دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کرکے نصوص صریحہ قرآن کو عمداً چھوڑ دیا جاوے اور خاتم الانبیاء کے بعد ایک نبی کا آنا مان لیا جاوے۔“
(ایام الصلح مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 ص 393)
مرزا صاحب ایام الصلح کی مندرجہ بالا تحریر میں حدیث کے الفاظ ''لانبی بعدی'' میں لا کو نفی عام قرار دے رہے ہیں جس سے شرعی، غیرشرعی، ظلی اور بروزی الغرض ہر قسم کی نبوت کو بند قرار پاتی ہے۔
محترم قارئین! مندرجہ بالا تحریریں پڑھ کر آپ خود غوروفکر کریں کہ آن تحریروں میں کس تحریر سے واضح ہوتا ہے کہ مرزا صاحب قادیانی شرعی نبوت سے انکار کر رہے ہیں غیرشرعی سے نہیں؟ کیا ان تحریروں سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ مرزا صاحب قادیانی مطلقا دعوی نبوت سے انکاری ہیں؟
 

عبیداللہ لطیف

رکن ختم نبوت فورم
اگر اب بھی تسلی نہ ہوتی ہو تو ہم مرزا صاحب قادیانی کی وہ تحریر پیش کیے دیتے ہیں جس میں مرزا صاحب اپنی وحی کی کیفیت بیان کر رہے ہیں۔ تاکہ کرشن قادیانی جی کا دجل مزید کھل کر سامنے آجائے۔
قارئین کرام! مرزا غللام احمد قادیانی صاحب 1897ء میں مولانا غلام دستگیر قصوری صاحب کے اشتہار کے جواب میں اپنی وحی کی ڈیفینیشن واضح کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
”ان پر واضح رہے کہ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں اور لالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے قائل ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اور وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت جو زیرسایہ نبوت محمدیہ اور باتباع آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم اولیاء اللہ کو ملتی ہے اس کے ہم قائل ہیں اور اس سے زیادہ جو شخص ہم پر الزام لگاوے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑتا ہے اور اگر قرآنی الہامات سے کوئی کافر ہو جاتا ہے تو پہلے یہ فتویٰ کفر سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ پر لگانا چاہئے کہ انہوں نے بھی قرآنی الہامات کا دعویٰ کیا ہے۔غرض جبکہ دعویٰ نبوت اس طرف بھی نہیں صرف ولایت اور مجددیت کا دعویٰ ہے۔“
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 2 اشتہار بعنوان مولوی غلام دستگیر صاحب کے اشتہار کا جواب طبع جدید)
اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ مرزا صاحب تو یہاں اپنی وحی کی کیفیت تک بیان کر رہے ہیں کہ وحی نبوت نہیں وحی ولایت اور مجددیت ہے اب ہم مرزا جی کو ان کی ایک غلطی کا ازالہ کی اس تحریر کو کذب بیانی قرار نہ دیں تو کیا کریں؟
اب مزید آگے بڑھتے ہیں مرزا صاحب قادیانی نے اپنی اسی کتاب میں براہین احمدیہ میں شائع ہونے والے الہامات جن میں نبی و رسول کے الفاظ آئے ہیں اپنی نبوت و رسالت پر دلیل قرار دیا ہے چنانچہ مرزا صاحب قادیانی لکھتے ہیں کہ
”حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے لفظ رسول اور مُرسل اور نبی کے موجود ہیں نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ۔ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں اور براہین احمدیہ میں بھی جس کو طبع ہوئے بائیس برس ہوئے یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں ہیں چنانچہ وہ مکالمات الٰہیہ جو براہین احمدیہ میں شائع ہو چکے ہیں اُن میں سے ایک یہ وحی اللہ ہے ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ دیکھو صفحہ 498 براہین احمدیہ۔ اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کر کے پکارا گیا ہے۔ پھر اس کے بعد اِسی کتاب میں میری نسبت یہ وحی اللہ ہے جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء یعنی خدا کا رسول نبیوں کے حلوں میں دیکھو براہین احمدیہ صفحہ504 پھر اسی کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اللہ ہے مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ۔ اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔ پھر یہ وحی اللہ ہے جو صفحہ 557 براہین میں درج ہے ”دنیا میں ایک نذیر آیا“ اس کی دوسری قرات یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا۔ اسی طرح براہین احمدیہ میں اور کئی جگہ رسول کے لفظ سے اس عاجز کو یاد کیا گیا۔“
(ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 206,207)
قارئین کرام! آئیے اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ جس وقت مرزا صاحب قادیانی نے اپنے یہ الہامات براہین احمدیہ میں درج کئے تھے اس وقت اس کا کیا موقف تھا مرزا صاحب قادیانی براہین احمدیہ کے صفحہ 499 پر اپنا الہام ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ“ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے۔ اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔ اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اسؔ دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں۔“
(براہین احمدیہ جلد1 صفحہ 499، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 593 از مرزا غلام احمد صاحب)
براہین احمدیہ میں مرزا صاحب قادیانی ایک تو اسے آیت قرار دے رہے ہیں نہ کہ اپنا الہام میری اس بات پر مرزا صاحب کے یہ الفاظ ''یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے۔'' شاہد ہیں پھر اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے مرزا صاحب قادیانی حیات مسیح کا عقیدہ اور عیسی علیہ السلام کا دوبارہ نزول بیان کر رہے ہیں۔اب آپ خود ہی غور کیجیے کہ مرزا صاحب کا ایک غلطی کا ازالہ میں اسے اپنا الہام قرار دینا اور اس آیت سے اپنا رسول ہونا کیونکر ثابت کر سکتے ہیں فتدبروا۔
مرزا صاحب قادیانی اپنے دوسرے الہام جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے براہین احمدیہ میں لکھتے ہیں کہ
”جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء جری اللہ نبیوں کے حلوں میں۔ اس فقرہ الہامی کے یہ معنے ہیں کہ منصب ارشاد و ہدایت اور مورد وحی الٰہی ہونے کا دراصل حلل الانبیاء ہے اور ان کے غیر کوبطور مستعار ملتا ہے اور یہ حلل الانبیاء امت محمدیہ کے بعض افراد کوبغرض تکمیلِ ناقصین عطا ہوتا ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عُلَمَآءُ اُمَّتِیْ کَأَنْبِیَآءِ بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ۔ پس یہ لوگ اگرچہ نبی نہیں پر نبیوں کا کام ان کو سپرد کیا جاتا ہے۔“
(براہین احمدیہ مندرجہ روحانی خزائن جلد اول حاشیہ صفحہ 601)
مرزا صاحب کی یہ تشریح بالکل واضح ہے کہ وہ نبی نہیں ہیں بلکہ غیر نبی ہیں اور مرزا جی واضح لکھتے ہیں کہ یہ لوگ اگرچہ نبی نہیں پر نبیوں کا کام ان کو سپرد کیا جاتا ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ مرزا جی کس طرح اپنی کتاب ایک غلطی کا ازالہ میں کس طرح غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔
قارئین کرام! مرزا صاحب قادیانی اپنی کتاب براہین احمدیہ میں اپنے الہام محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینھم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینھم۔ رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللّٰہ۔ متع اللّٰہ المسلمینببرکا تھم۔ فانظروا الی اٰ ثار رحمۃ اللّٰہ۔ وانبؤنی من مثل ھؤلآء ان کنتم صادقین۔ ومن یبتغ غیر الاسلام دینا لن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخاسرین۔ محمد ؔ خدا کا رسول ہے۔ اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت ہیں یعنی کفار ان کے سامنے لاجواب اور عاجز ہیں اور اُن کی حقانیت کی ہیبت کافروں کے دلوں پر مستولی ہے اور وہ لوگ آپس میں رحم کرتے ہیں وہ ایسے مرد ہیں کہ ان کو یادِ الٰہی سے نہ تجارت روک سکتی ہے اور نہ بیع مانع ہوتی ہے یعنی محبت الٰہیہ میں ایسا کمال تام رکھتے ہیں کہ دنیوی مشغولیاں گو کیسی ہی کثرت سے پیش آویں ان کے حال میں خلل انداز نہیں ہوسکتیں۔ خدائے تعالیٰ اُن کے برکات سے مسلمانوں کو متمتع کرے گا۔ سو اُن کا ظہور رحمت الٰہیہ کے آثار ہیں۔ سو ان آثار کو دیکھو۔ اور اگر ان لوگوں کی کوئی نظیر تمہارے ہم مشربوں اور ہم مذہبوں میں سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ جو اسی طرح تائیدات الٰہیہ سے مؤید ہوں۔ سو تم اگر سچے ہو تو ایسے لوگوں کو پیش کرو۔ اور جو شخص بجز دین اسلام کے کسی اَور دین کا خواہاں اور جویاں ہوگا وہ دین ہرگز اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور آخرت میں وہ زیان کاروں میں ہوگا۔''
(براہین احمدیہ مندرجہ روحانی خزائن جلد اول حاشیہ صفحہ 616,617)
مرزا صاحب قادیانی نے اپنا یہ الہام براہین احمدیہ کے جس باب میں نقل کیا ہے اس کا نام ہے ''ان براہین کے بیان میں جو قرآن کریم کی حقیت اور افضلیت پر بیرونی شہادتیں '' ہے اسی طرح مرزا صاحب کی اپنی تشریح اور وضاحت سے کہیں بھی یہ عندیہ نہیں ملتا کہ مرزا صاحب قادیانی کو اس الہام میں محمدرسول اللہ ﷺکا لقب دیا گیا ہو۔
محترم قارئین! میری اس بات کی تائید مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ کے براہین احمدیہ پر لکھے گئے اس ریویو سے بھی ہوتی ہے جس کے بعض مندرجات پیش کرکے قادیانی مرزا جی کی صداقت بیان کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں مولانا بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ اس ریویو میں لکھتے ہیں کہ
”اور فریق دوم (لدھیانوی مدعیان اسلام) اپنی تکفیر کی یہ توجیہ پیش کرتے ہیں کہ ان الہامات میں مولف نے پیغمبری کا دعوی کیا ہے اور اپنے آپ کو ان کمالات کا جو انبیاء سے مخصوص ہیں محل ٹھہرایا ہے اور ان آیات قرآنیہ کا جو خاص آنحضرت ﷺ اور انبیائے سابقین کے خطاب میں وارد ہیں مورد نزول قرار دیا ہے ازانجملہ چند آیات مع ترجمہ و تفسیر نشان محل بیان از قرآن و براہین احمدیہ پیش کی جاتی ہیں۔“
(اشاعۃ السنہ جلد 7 نمبر 6 صفحہ 172)
قارئین کرام! اس کے بعد مولانا بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ 11 آیات قرآنی جو براہین احمدیہ میں بطور الہام درج ہیں پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
”ان آیات و فقرات کو دیکھ کر فریق مکفر کو یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ مولف کتاب ان آیات قرآنی کا جو انبیاء کے شان و خطاب میں وارد ہیں اپنے آپ کو مخاطب ٹھہراتا ہے اور ان کمالات کا جو(آیات یا عربی فقرات میں مذکور اور وہ انبیاء سے مخصوص ہیں) محل ہونے کا مدعی ہے پھر اس کے دعوی نبوت میں کیا کسر رہی۔“
(اشاعۃ السنہ جلد 7 نمبر 6 صفحہ 174)
مزید مولانا بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
”ہماری تحقیق و تجربہ، یقین و مشاہدہ کی رو سے یہ سب نکتہ چینیاں (مذہبی ہوں یا پولیٹیکل) از سر تا پاء سوء فہمی یا دیدہ دانستہ دھوکہ دہی پر مبنی ہیں اور بجز دعوی الہام جو کچھ مولف کی نسبت کہا گیا ہے محض بے اصل ہے نہ مولف کو نبوت کا دعوی ہے نہ حصول خصوصیات و کمالات انبیاء کا۔“
(اشاعۃ السنہ جلد 7 نمبر 6 صفحہ 175)
مولانا بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ آگے لکھتے ہیں کہ
”فریق دوم کی استدلال کا ماحصل یہ ہے کہ مولف براہین احمدیہ نے اپنے آپ کو بہت سی آیات قرآن کا (جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ،آدم و عیسی و ابراہیم علیہم السلام کے خطاب میں وارد ہیں اور ازانجملہ گیارہ آیات بذیل وجہ انکار فریق دوم بصفحہ 173 منقول ہو چکی ہیں مخاطب و مورد و نزول ٹھہرایا ہے اور ان کمالات کا جو انبیاء سے مخصوص ہیں (جیسے وجوب اتباع، نزول قرآن، وحی رسالت، فتح مکہ، حوض کوثر زندہ آسمان کی طرف اٹھایا جانا وغیرہ) محل قرار دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولف براہین احمدیہ کو درہردہ نبوت کا دعوی ہے۔
اس کے جواب دو ہیں اول یہ کہ مولف براہین احمدیہ نے ہرگز یہ دعوی نہیں کیا کہ قرآن میں ان آیات کا مورد نزول و مخاطب میں ہوں اور جو کچھ قرآن یا پہلی کتابوں میں محمد رسول اللہﷺ، عیسی،ابراہیم و آدم علیہم السلام کے خطاب میں خدا نے فرمایا ہے اس میرا خطاب مراد ہے اور نہ ہی یہ دعوی کیا ہے کہ جو خصوصیات و کمالات ان انبیاء میں پائی جاتی ہیں وہ مجھ میں پائی جاتی ہیں کلا واللہ ثم باللہ ثم تاللہ اس کتاب میں یا خارجْا مولف نے یہ دعاوی نہیں کیے اور ان کو کامل یقین اور صاف اقرار ہے کہ قرآن اور پہلی کتابوں میں ان آیات میں مخاطب و مراد وہی انبیاء ہیں جن کی طرف ان میں خطاب ہے اور ان کمالات کے محل وہی حضرات ہیں جن کو خداتعالی نے ان کمال کا محل ٹھہرایا ہے۔
اپنے اوپر ان آیات کا الہام یا نزول کے دعوی سے ان کی مراد جس کو وہ صریح الفاظ یا آیات سے خداتعالی نے قرآن یا پہلی کتابوں میں انبیاء علیہم السلام کو مخاطب فرمایا ہے ان ہی الفاظ (آیات) سے دوبارہ مجھے بھی شرف خطاب بخشا ہے پر میرے خطاب میں ان الفاظ سے اور معانی مراد رکھے ہیں جو معانی مقصود و قرآن اور پہلی کتابوں سے کچھ مغائرت اور کسی قدر مناسبت رکھتے ہیں اور وہ معانی ان معانی کے اظلال و آثار ہیں۔“
(اشاعۃ السنہ جلد 7 نمبر 7 صفحہ 218,219)
قارئین کرام! مولانا محمد حسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں کہ
”بالجملہ جو اہل اسلام میں قرآن کہلاتا ہے اس کے نزول کا مولف کو دعوی نہیں ہے اور نہ ان کمالات کے حصول کا دعوی ہے جو انبیاء سے مخصوص ہے اور نہ معانی آیات قرآن سے ان کو تعرض ہے جس کے نزول و حصول کا ان کو دعوی ہے اور اس کی تفسیر و تاویل سے انہوں نے تعرض کیا ہے وہ بلحاظ مخاطب قرآن نہیں کہلاتا اور نہ ہی اس کا حصول خاصہ انبیاء ہے۔“
میرا یہاں پر قادیانی حضرات سے سوال ہے کہ اگر مرزا صاحب کی ان کے ان الہامات سے دعوی نبوت مراد تھا تو انہوں نے اس وقت مولانا بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ کے لکھے گئے ریویو میں موجود ان تحریروں کی تردید کیوں نہ کی؟
اب مرزا صاحب کے الہام محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینھم پر مزید تبصرہ کرتے ہیں۔ قادیانی حضرات! مرزا صاحب کی اس تحریر پر میرا سوال یہ ہے کہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالی انہی الفاظ میں فرماتا ہے کہ مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء بَیْنَہُمْ اس آیت میں تو محمد رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سے مراد تو وہی محمد ﷺہیں جن کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں تو مرزا صاحب پر انہی الفاظ میں وحی نازل ہوئی تو مرزا صاحب نے دعوی کیا کہ محمد رسول اللہﷺسے مراد میں ہوں۔ تو مجھے بتائیے جب آپ کلمہ پڑھتے ہیں تو کیا اس وقت بھی محمدرسول اللہﷺسے مراد مرزا صاحب کو لیتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں جبکہ مرزا صاحب خود کہہ رہے ہیں کہ ان کی وحی کے مطابق وہ خود محمدرسول اللہﷺ ہیں۔ اگر کوئی شخص کلمہ میں محمدرسول اللہﷺسے مراد مرزا صاحب کو بھی لے تو اس کا ایسا کرنا گستاخی اور کفر ہوگا یا کہ نہیں؟
اسی حوالے سے دوسرا سوال یہ ہے کہ مرزا صاحب نے خود کو عیسی ابن مریم بھی قرار دیا ہے عیسی علیہ السلام تو بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کے والد محترم کا نام عبداللہ تھا اور مرزا صاحب کے والد کا نام غلام مرتضی تھا اس اعتبار سے یہ تینوں وجود الگ الگ ثابت ہوتے ہیں تو آپ بتائیے مرزا صاحب کیا تھے غلام احمد قادیانی یا محمد رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم یا عیسی ابن مریم؟ اگر آپ کہو کہ مرزا صاحب روحانی طور پر تینوں شخصیات کے حامل تھے تو قادیانی حضرات! ہم اس بات کا ثبوت بھی پیش کریں گے مرزا صاحب قادیانی نے واضح الفاظ میں اپنے وجود کو محمد رسول اللہ ﷺکا وجود قرار دیا ہے۔
قارئین کرام مرزا صاحب قادیانی نے اپنے نبی ہونے پر براہین احمدیہ میں شائع ہونے والے ایک اور الہام کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے چنانچہ مرزا جی لکھتے ہیں کہ
”پھریہ وحی اللہ ہے 557 براہین پر ''دنیا میں ایک نزیر آیا جس کی دوسری قرات یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا۔“
(ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 207)
محترم قارئین! جب ہم براہین احمدیہ مندرجہ روحانی خزائن جلد اول صفحہ 665 پر مرزا جی کا الہام دیکھتے ہیں تو وہاں پر ہمیں وضاحت کے لیے مرزا جی کی کسی دوسری قرآت کا ذکر نہیں ملتا مرزا جی کے مکتوبات پڑھنے سے معلوم ہوا کہ 1899 میں نواب مالیر کوٹلوی کو خط لکھتے ہوئے اپنا الہام پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”دنیا میں ایک نبی آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ نوٹ:۔ایک قرات اس الہام کی یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک قدیر آیا اور یہی قرات براہین احمدیہ میں درج ہے اور فتنہ سے بچنے کے لئے یہ دوسری قرات درج نہیں کی گئی۔''
قارئین کرام! مرزا صاحب قادیانی نے اپنے اس خط میں اپنے اس الہام کو چھپانے کی وجہ بیان کی ہے وہیں پر نبی اور رسول ہونے کا دعوی بھی کیا ہے اور ساتھ ان الفاظ (نبی و رسول) کو استعارہ کے رنگ میں اور مجازی معنوں میں قرار دیا ہے اور عام بول چال میں یہ الفاظ بیان کرنے سے بھی منع کیا ہے آئیے اب اس مکمل خط کو ملاحظہ کریں
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم!محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ تعالیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حال یہ ہے اگرچہ عرصہ بیس سال سے متواتر اس عاجز کو جو الہام ہوا ہے اکثر دفعہ ان میں رسول یا نبی کا لفظ آ گیا ہے۔ جیسا کہ یہ الہام ھوالذی ارسل رسولہ یالھدی و دین الحق اورجیسا کہ یہ الہام جری اللہ فی حلل الانبیاء اور جیسا کہ یہ الہام دنیا میں ایک نبی آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ نوٹ:۔ایک قرات اس الہام کی یہ بھی ہے کہ دنیا میں ایک نزیر آیا اور یہی قرات براہین احمدیہ میں درج ہے اور فتنہ سے بچنے کے لئے یہ دوسری قرات درج نہیں کی گئی۔ ایسے ہی بہت سے الہام ہیں۔ جن میں اس عاجز کی نسبت نبی یا رسول کا لفظ آیا ہے۔ لیکن وہ شخص غلطی کرتا ہے۔ جو ایسا سمجھتا ہے کہ اس نبوت اور رسالت سے مراد حقیقی نبوت اور رسالت ہے۔ جس سے انسان خود صاحب شریعت کہلاتا ہے۔ بلکہ رسول کے لفظ سے تو صرف اس قدر مراد ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا اور نبی کے لفظ سے صرف اس قدر مراد ہے کہ خد ا سے علم پا کر پیشگوئی کرنے والا یا معارف پوشیدہ بتانے والا۔ سو چونکہ ایسے لفظوں سے جو محض استعارہ کے رنگ میں ہیں۔ اسلام میں فتنہ ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ سخت بد نکلتا ہے۔ اس لئے اپنی جماعت کی معمولی بول چال اور دن رات کے محاورات میں یہ لفظ نہیں آنے چاہئیں اور دلی ایمان سے سمجھ لینا چاہئے کہ نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین اور اس آیت کا انکار کرنا یا استحفاف کی نظر سے اس کو دیکھنا درحقیقت اسلام سے علیحدہ ہونا ہے۔ جو شخص انکار میں حد سے گزر جاتا ہے۔ جس طرح کہ وہ ایک خطرناک حالت میں ہے۔ ایسا ہی وہ بھی خطرناک حالت میں ہے۔ شیعوں کی طرح اعتقاد میں حد سے گزر جاتا ہے۔ جاننا چاہئے کہ خداتعالیٰ اپنی تمام نبوتوں اور رسالتوں کو قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا ہے اور ہم محض دین اسلام کے خادم بن کر دنیا میں آئے اور دنیا میں بھیجے گئے نہ اس لئے کہ اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور دین بناویں۔ ہمیشہ شیاطین کی راہزنی سے اپنے تیئں بچانا چاہئے اور اسلام سے سچی محبت رکھنی چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو پھیلانا چاہئے۔ ہم خادم دین اسلام ہیں اور یہی ہمارے آنے کی علت غائی ہے اور نبی اور رسول کے لفظ استعارہ اور مجاز کے رنگ میں ہیں۔ رسالت لغت عرب میں بھیجے جانے کو کہتے ہیں اور نبوت یہ ہے کہ خدا سے علم پا کر پوشیدہ باتوں یا پوشیدہ حقائق اور معارف کو بیان کرنا۔ سو اس حد تک مفہوم کو زہن میں رکھ کر دل میں اس کے معنی کے موافق اعتقاد کرنا مذموم نہیں ہے۔ مگر چونکہ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں۔ یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں۔ یا نبی سابق کی امت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفاضہ کسی نبی کے خداتعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے ہوشیار رہنا چاہئے کہ اس جگہ بھی یہی معنی نہ سمجھ لیں۔ کیو نکہ ہماری کوئی کتاب بجز قرآن شریف نہیں ہے اور ہمارا کوئی رسول بجز محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں ہے اور ہم بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے۔ سو دین کو بچوں کا کھیل نہیں بنانا چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں بجز خادم اسلام ہونے کے اور کوئی دعویٰ بالمقابل نہیں ہے اور جو شخص ہماری طرف یہ منسوب کرے۔ وہ ہم پر افتراء کرتا ہے۔ ہم اپنے نبی کریم کے ذریعہ فیض برکات پاتے ہیں اورقرآن کریم کے ذریعہ سے ہمیں فیض معارف ملتا ہے۔ سو مناسب ہے کہ کوئی شخص اس ہدایت کے خلاف کچھ بھی دل میں نہ رکھے۔ ورنہ خد اتعالیٰ کے نزدیک اس کا جواب دہ ہو گا اگر ہم اسلام کے خادم نہیں ہیں تو ہمارا سب کاروبار عبث اور مردود اور قابل مواخذہ ہے۔ زیادہ خیریت ہے۔
والسلام
خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان 7 اگست 1899ء
(مکتوبات احمدیہ جلد دوم صفحہ 248,249 جدید ایڈیشن، مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر چہارم صفحہ 101 تا 104 پرانا ایڈیشن)
محترم قارئین! ویسے بھی اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ
وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیرًا وَنَذِیرًا وَلَٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ (سورۃ سبا: 28)
ترجمہ: اور نہیں بنا کر بھیجا ہم نے مگر تمام لوگوں کے لیے بشیر (خوشخبری دینے والا) اور نذیر (ڈرانے والا)۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
قادیانی حضرات! اس آیت کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ نبی صﷺتمام لوگوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر کے بھیجے گئے ہیں۔ اب اگر ہم نبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے بعد قیامت تک کسی دوسرے کو بشیر و نذیر مانتے ہیں تو واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے آپ کو نبیﷺکے تمام لوگوں کے لیے بشیرونذیر ہونے پر اعتبار نہیں اور آپ قرآن کریم کی اس آیت پر مکمل ایمان نہیں رکھتے بلکہ شکوک و شبہات کا شکار ہیں یا پھر آپ یہ نہیں جانتے کہ نبی ﷺ تمام لوگوں کے لیے بشیرونذیر بنا کر بھیجیے گئے جیساکہ آیت کے الفاظ وَلَٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ سے ظاہر ہوتا ہے۔
اب ہمارا سوال قادیانی حضرات سے یہ ہے کہ آپ لوگوں نے مرزا صاحب کو نزیر مان لیا کیا آپ کو نبی ﷺکے تمام لوگوں کے لیے بشیر و نزیر ہونے میں کوئی شک ہے یا قرآن کریم پر اعتبار نہیں یا آپ جانتے نہیں ہیں کہ نبی ﷺتمام لوگوں کے لیے بشیرونزیر بنا کر بھیجے گئے ہیں؟
مرزا غلام احمد قادیانی اپنی اسی کتاب میں مزید لکھتا ہے کہ
”جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پا کر اس کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت کے۔ اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ہے سو اب بھی میں ان معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔ اور میرا یہ قول کہ ”من نیستم رسول و نیا وردہ اَم کتاب“ اس کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ میں صاحب شریعت نہیں ہوں۔“
(ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ210،211)
قارئین کرام! یہاں پر بھی مرزا جی صریحًا غلط بیانی سے کام لیا میں نے مرزا قادیانی کے انکار نبوت کے حوالے سے اوپر جتنی بھی تحریریں پیش کی ہیں کسی ایک تحریر سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مرزا جی نے صرف اور صرف مستقل طورپر شریعت لانے والا نبی ہونے سے انکار کیا ہو۔ان تحریرات سے مرزا جی کانہ صرف مطلقًا انکار نبوت ثابت ہوتا ہے بلکہ اس نے تو اپنی وحی کی کیفیت تک بیان کی ہے کہ اس پر نازل ہونے والی وحی وحی نبوت نہیں وحی ولایت تھی۔ میرے موقف کی تائید بشیرالدین محمود اور مولوی سرور شاہ کے بیانات سے بھی ہوتی ہے چنانچہ مرزا قادیانی کا بڑا بیٹا قادیانیوں کا دوسرا خلیفہ اور مصلح موعود بشیرالدین محمود اپنی کتاب حقیقۃ النبوۃمیں لکھتا ہے کہ
”ہم نے سب سے پہلے اس مسئلہ پر بحث کی ہے کہ حضرت مسیح موعود کا عقیدہ نبوت کے متعلق ایک ہی رہا ہے یا اس میں کبھی تبدیلی بھی پیدا ہوئی ہے اور اللہ تعالی کے فضل سے ثابت کیا ہے کہ اس عقیدہ میں 1900ء کے بعد تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور سب سے آخری کتاب جس میں پہلے عقیدہ کا اظہار کیا گیا تھا تریاق القلوب ہے جو 1899ء کی ہے اور جو بعض موانعات کی وجہ سے 1902ء میں شائع ہوسکی۔“
(حقیقۃ النبوۃ حصہ اول مندرجہ روحانی خزائن جلد 2صفحہ 398)
مرزا بشیر الدین محمود الفضل اخبار میں لکھتا ہے کہ
”سیدنا حضرت مسیح موعود کی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی اور وفات کے بارے میں آپ کے عقیدہ میں تبدیلی ہوئی یعنی ایک زمانہ تک حضرت مسیح موعود ان کو زندہ سمجھتے رہے اور پھر ان کے فوت شدہ ہونے کا اعلان کیا اسی طرح اپنی نبوت کے بارے میں بھی حضور کے خیالات میں تغیر ہوا یعنی ایک زمانہ تک آپ اپنے آپ کو نبی کا خیال نہیں فرماتے تھے لیکن پھر اپنے آپ کو نبی یقین کرنے لگے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ حضور (مرزا صاحب قادیانی) کی پہلے زمانہ کی تحریرات یہ ظاہر کرتی ہیں کہتے ہیں کے آپ نبوت کے مدعی نہیں لیکن آخری زمانہ کی تحریرات و تقریرات یہ ثابت کرتی ہیں آپ نبوت کے دعوے دار تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے مسئلہ نبوت میں اپنے عقیدہ کو 1901 کے قریب تبدیل کیا ہے اور یہ عمل اس قدر واضح ہے کہ اس میں شک کرنے کی گنجائش بھی باقی نہیں ہے چنانچہ مندرجہ ذیل امور ہمارے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔
حضرت مسیح سے افضل ہونے کا دعویٰ:
اول ایک زمانہ میں حضور اپنے آپ کو حضرت مسیح علیہ السلام سے افضل نہیں سمجھتے تھے بلکہ اگر کوئی عمر آپ کی فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو اسے جزئی فضیلت قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک غیر نبی کو نبی پر جزئی فضیلت ہو سکتی ہے لیکن اس کے بعد آپ پر ایسا زمانہ آیا جب آپ نے فرمایا کہ میں ہر شان میں مسیح سے افضل ہوں اور ان دونوں باتوں میں تطبیق دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلے میں سمجھتا تھا کہ میں نبی نہیں لیکن خدا تعالی کی وہی نے مجھے اس خیال پر نہ رہنے دیا اور بار بار نبی کا خطاب دیا تو میں نے اپنے آپ کو مسیح سے افضل قرار دیا ہے چنانچہ جب حضور کے ان دو بیانات پر جن میں سے ایک میں آپ نے فرمایا تھا کہ حضرت مسیح پر مجھے جزئی فضیلت ہے اور دوسرے میں فرمایا کہ میں ہر شان میں مسیح علیہ سلام سے بڑھ کر ہوں تناقض کا اعتراض ہوا تو حضرت نے اس کے جواب میں تحریر میں فرمایا کہ
”اس بات کو توجہ کر کے سمجھ لو کہ یہ اسی قسم کا تناقض ہے کہ جیسے براہین احمدیہ میں میں نے نے یہ لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہو گا مگر بعد میں یہ لکھا کہ آنے والا مسیح میں ہی ہوں۔ اس تناقض کا بھی یہی سبب تھا کہ اگرچہ خداتعالی نے براہین احمدیہ میں میرا نام عیسی رکھا اور یہ بھی فرمایا کہ تیرے آنے کی خبر خدا اور رسول نے دی تھی مگر چونکہ ایک گروہ مسلمانوں کا ان عقائد پر جما ہوا تھا اور میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسی آسمان پر سے نازل ہو گے۔ اس لیے میں نے خدا کی وحی کو ظاہر پر حمل کرنا نہ چاہا بلکہ اس وحی کی تاویل کی اور اہنا اعتقاد وہی رکھا جو عام مسلمانوں کا تھا اور اسی کو براہین احمدیہ میں شائع کیا لیکن بعد اس کے اس بارہ میں بارش کی طرح وحی نازل ہوئی کہ وہ مسیح موعود جو آنے والا تھا وہ تو ہی ہے اور۔۔۔۔۔۔ کہ درحقیقت مسیح ابن مریم فوت ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ اسی طرح صدہا نشانیوں اور آسمانی شہادتوں اور قرآن شریف کی قطعیۃ الدلالت آیات اور نصوص صریحہ حدیث نے مجھے اس بات کے لئے مجبور کر دیا کہ میں اپنے تئیں مسیح موعود ہوں۔۔۔،۔۔۔۔۔ اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا مگر بعد میں جو خدا تعالی کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔“
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 152تا 154)
اس جگہ حضرت مسیح موعود نے جس وضاحت سے نبوت کے بارہ میں اپنے عقیدہ کی تبدیلی بیان فرمائی اس کے متعلق کسی تشریح کی ضرورت نہیں۔“
(الفضل 13جون 1940ء)
آئیے اب آخر میں مرزا صاحب قادیانی کے ایک صحابی مولوی شیر علی کی تقریر کا اقتباس الفضل اخبار سے پیش کرتے لیکن پہلے یہ بتا دوں کہ مولوی شیر علی صاحب وہی شخصیت ہے جس کو مرزا صاحب قادیانی نے اپنی جگہ پر مولانا ثنائاللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مباحثہ مد کے لیے تعینات کیا تھا اور مولوی شیر علی صاحب کی بدترین شکست کے اثرات اور تکلیف کو کچھ کم کرنے کے لیے اعجاز احمدی کتاب لکھنا پڑی۔ چنانچہ مولوی شیرعلی صاحب کہتے ہیں کہ
”حضرت مسیح موعود کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ جیسے آپ کو حضرت مسیح کی حیات کے عقیدہ میں بارش کی طرح نازل ہونے والی وحی الہی نے جبرا تبدیلی پیدا کرائی اسی طرح اپنے آپ کو نبی سمجھنے پر بھی بارش کی طرح وحی الہی نے مجبور کیا گویا ان دونوں عقیدوں ایک ہی جیسی طبیعت کام کر رہی تھی دعوی مسیحیت کی بابت تبدیلی بذریعہ جبرا ہوئی اور نبوت کے متعلق بھی سابقہ عقیدہ میں وحی نے جبراً تبدیلی کرائی ورنہ اس سے قبل جس طرح عام مسلمانوں کی طرح حضرت مسیح کے بارے میں آپ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ زندہ آسمان پر ہیں اور دوبارہ آئیں گے اسی طرح نبوت اور تعریف نبوت کے متعلق بھی عام مسلمانوں کی طرح عقیدہ رکھتے تھے۔“
(اخبار الفضل 6 ستمبر 1941صفحہ 4 کالم 3 شمارہ نمبر 25)
نوٹ: alislam.org پر یہ اخبار 8 ستمبر 1941 کی تاریخ میں موجود ہے جبکہ اس اخبار کے ٹا
ٹائیٹل پیج پر تاریخ 6 ستمبر ہی درج ہے
 

عبیداللہ لطیف

رکن ختم نبوت فورم
باب دوم
عقیدہ نزول مسیح عقیدہ ختم نبوت کے منافی ہے ایک مغالطہ اور اس کا جواب
محترم قارئین!مرزا صاحب قادیانی لکھتے ہیں کہ
”اگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتم النبیّٖن ہیں پھر آپ کے بعد اور نبی کس طرح آ سکتا ہے۔ اس کا جواب یہی ہے کہؔ بے شک اُس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہو یا پُرانا نہیں آ سکتا جس طرح سے آپ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخری زمانہ میں اُتارتے ہیں اور پھر اس حالت میں اُن کو نبی بھی مانتے ہیں بلکہ چالیس برس تک سلسلہ وحی نبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے۔ بے شک ایسا عقیدہ تومعصیت ہے اور آیت وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ اورحدیث لَانَبِیَّ بَعْدِیْ اس عقیدہ کے کذب صریح ہونے پر کامل شہادت ہے۔ لیکن ہم اس قسم کے عقائد کے سخت مخالف ہیں اور ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں۔“
(ایک غلطی کاازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ207)
محترم قارئین! مرزا صاحب قادیانی کی اس تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام کا دوبارہ نزول آیت خاتم النبیین کے خلاف ہے۔ اور یہ عقیدہ رکھنا کہ وہی عیسی علیہ السلام دوبارہ نازل ہوں گے معصیت ہے۔ حالانکہ مرزا صاحب قادیانی کی یہ بات یا تو ان کی کم علمی اور جہالت کا شاخسانہ ہے یا پھر عمدا دجل و فریب دینے کی کوشش۔
قارئین کرام! مرزا صاحب قادیانی نے نزول عیسی علیہ السلام کو معصیت قرار دے کر اپنی خودساختہ نبوت کو بھی باطل ثابت کر دیا ہے۔ آپ سوال کر سکتے ہیں کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے تو پہلے مرزا صاحب کے دعوی نبوت اور اس کی بنیاد کو دیکھتے ہیں چنانچہ مرزا صاحب قادیانی لکھتے ہیں کہ
”یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوے میں نبی کا نام سن کر دھوکہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اُس نبوت کا دعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا۔ اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمّتی اور میری نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوت۔ اِسی وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیسا کہ میرا نام نبی رکھا گیا ایسا ہی میرا نام اُمتی بھی رکھا ہے تا معلوم ہو کہ ہر ایک کمال مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے۔''
(حقیقۃ الوحی مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 154)
قارئین کرام! مرزا صاحب قادیانی کی اسی نوعیت کی مزید تحریریں بھی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مرزا جی کا دعوی کامل اطاعت کی بنا پر نبوت ملنے کا تھا۔ آئیے اسی ضمن میں مرزا صاحب قادیانی کی ایک اور تحریر ملاحظہ کریں چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ
”مگر میں ساتھ ہی خدائے کریم و رحیم کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اسلام ایسا مذہب نہیں بلکہ دنیا میں صرف اسلام ہی یہ خوبی اپنے اندر رکھتا ہے کہ وہ بشرط سچی اور کامل اتباع ہمارے سیّد و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکالماتِ الٰہیہ سے مشرف کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے کہ خدا تعالیٰ کے صفات کبھی معطل نہیں ہوتے۔ پس جیسا کہ وہ ہمیشہ سنتا رہے گا ایسا ہی وہ ہمیشہ بولتا بھی رہے گا۔ اس دلیل سے زیادہ تر صاف اور کونسی دلیل ہو سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے سُننے کی طرح بولنے کا سِلسلہ بھی کبھی ختم نہیں ہو گا۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک گروہ ہمیشہ ایسا رہے گا جن سے خدا تعالیٰ مکالمات و مخاطبات کرتا رہے گا۔ اور مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ نبی کے نام پر اکثر لوگ کیوں چِڑ جاتے ہیں جس حالت میں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ آنے والا مسیح اسی اُمّت میں سے ہو گاپھر اگر خدا تعالیٰ نے اس کا نام نبی رکھ دیا تو حرج کیا ہوا۔ ایسے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ اِسی کا نام امّتی بھی تو رکھا گیا ہے اور اُمّتیوں کی تمام صفات اس میں رکھی گئی ہیں۔ پس یہ مرکّب نام ایک الگ نام ہے اور کبھی حضرت عیسیٰ اسرائیلی اس نام سے موسوم نہیں ہوئے اور مجھے خدا تعالیٰ نے میری وحی میں بار با اُمّتی کر کے بھی پکارا ہے اور نبی کر کے بھی پکارا ہے۔ اور اِن دونوں ناموں کے سُننے سے میرے دل میں نہایت لذّت پیدا ہوتی ہے۔ اور میں شکر کرتا ہوں کہ اس مرکب نام سے مجھے عزت دی گئی۔ اور اس مرکب نام کے رکھنے میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ تا عیسائیوں پر ایک سرزنش کا تازیانہ لگے کہ تم عیسیٰ بن مریم کو خدا بناتے ہو۔ مگر ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ کا نبی ہے کہ اُس کی اُمّت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور عیسیٰ کہلا سکتا ہے۔ حالانکہ وہ اُمّتی ہے۔ ''
(براہین احمدیہ حصہ پنجم مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 354,355)
محترم قارئین! ایک طرف کامل اتباع کی بنا پر نبوت ملنے کا دعوی اور دوسری طرف 1890ء تک خود عقیدہ حیات مسیح پر برقرار رہنا اور بعد میں اسی عقیدہ کو معصیت اور شرک عظیم قرار دینا کیا اسی کا نام کامل اتباع ہے؟
قارئین کرام! آئیے اب مرزا جی کی طرف سے 1890ء تک عقیدہ حیات مسیح پر قائم رہنے کے ثبوت بھی ملاحظہ فرمائیں چنانچہ مرزا صاحب قادیانی اپنی کتاب براہین احمدیہ میں لکھتا ہے کہ
”ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ“ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے۔ اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔ اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں۔“
(براہین احمدیہ جلد1 صفحہ 499، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 593 از مرزا غلام احمدقادیانی)
مندرجہ بالا عبارت میں خاص طور پر لائق توجہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیت قطعی الثبوت ہے اور مرزا صاحب نے ”اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے“ کہہ کر اس کی الہام تفسیر کی ہے۔ وہ بھی ان کے نزدیک قطعی ہے کہ یہ آیت حضرت عیسی علیہ السلام کی ظاہری و جسمانی آمد کی پیشگوئی ہے۔ پس قرآن مجید کی آیت اور مرزا صاحب کی الہامی تفسیر دونوں مل کر حضرت عیسی علیہ السلام کی ظاہری اور جسمانی آمد ثانی کو قطعی بنا دیتے ہیں، جس کے بعد مرزا صاحب کے ماننے والوں کے لئے کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔
اسی کتاب میں مرزا صاحب قادیانی مزید ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ
”عَسَی رَبُّکُمْ أَنْ یَرْحَمَ عَلَیْکُمْ وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَہَنَّمَ لِلْکَافِرِینَ حَصِیرًا۔خدائے تعالیٰ کا ارادہ اس بات کی طرف متوجہ ہے جو تم پر رحم کرے اور اگر تم نے گناہ اور سرکشی کی طرف رجوع کیا تو ہم بھی سزا اور عقوبت کی طرف رجوع کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا رکھا ہے۔ یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف احسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے۔ تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خدائے تعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں اور اور اس کی آنکھیں ہوگیا سڑکوں کو خس و خاشاک سے صاف کردیں گے اور کج اور ناراست کا نام و نشان نہ رہے گا۔ اور جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست و نابود کردے گا۔“
(براہین احمدیہ صفحہ 505،506 روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 601، 602 از مرزا صاحب قادیانی)
لیجیے حضرات! مرزا صاحب مندرجہ بالا تحریروں میں نہ صرف قرآنی آیت سے بلکہ اپنے الہام سے بھی سیدنا عیسی ابن مریم علیہم السلام کے دوبارہ نزول کا اپنا عقیدہ بیان کر رہے ہیں۔ لیکن جب حیات مسیح کا عقیدہ ترک کر کے وفات مسیح کا عقیدہ اپنایا تو موصوف نے لکھا کہ
”بلکہ میں بھی تمھاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسیٰ ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میں نے وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طور پر لکھ دیا اور شائع کر دیا۔“
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص 111 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ111)
حالانکہ اسی براہین احمدیہ کے تعارف میں قلابے ملاتے ہوئے مرزا جی لکھتے ہیں کہ
”کتاب براہین احمدیہ جس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مؤلف نے ملہم اور مامور ہو کر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیا ہے جس کے ساتھ دس ہزار روپیہ کا اشتہار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اول تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان و شوکت اور قدر و منزلت سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی مخالف اسلام ان دلائل کو توڑ دے تو دس ہزار روپیہ دینے کا اشتہار دیا ہوا ہے“
(مجموعہ اشتہارات جلد اول ص 27 طبع جدید)
مزید ایک مقام پر مرزا قادیانی ”ہم اور ہماری کتاب“ کے عنوان سے اشتہار شائع کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
”سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتمم ظاہر اًو باطناًحضرت رب العالمین ہے“
(مجموعہ اشتہارات جلد اول ص 77طبع جدید)
ایک اور مقام پر آنجہانی مرزا قادیانی اپنی اسی کتاب کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
”اسی زمانے کے قریب کہ جب یہ ضعیف اپنی عمر کے پہلے حصہ میں ہنوز تحصیل علم میں مشغول تھا جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کو دیکھ کر عربی زبان میں پوچھا کہ تو نے اس کتاب کا کیا نام رکھا ہے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اس کا نام میں نے قطبی رکھا ہے جس نام کی تعبیر اب اس اشتہاری کتاب کی تالیف ہونے پر کھلی کے وہ ایسی کتاب ہے کہ جوقطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے جس کے کامل استحکام کو پیش کر کے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا گیا ہے۔ غرض آنحضرت نے وہ کتاب مجھ سے لے لی اورجب وہ کتاب حضرت مقدس نبوی کے ہاتھ میں آئی تو آنجناب کا ہاتھ مبارک لگتے ہی ایک نہایت خوش رنگ اور خوبصورت میوہ بن گئی کہ جو امرود سے مشابہ تھا مگر بقدر تربوز تھا۔ آنحضرت نے جب اس میوہ کو تقسیم کرنے کے لیے قاش قاش کرنا چاہا تو اس قدر اس میں سے شہد نکلا کہ آنجناب کا ہاتھ مبارک مرفق تک شہد سے بھر گیا تب ایک مردہ کہ جو دروازہ سے باہر پڑا تھا۔ آنحضرت کے معجزہ سے زندہ ہو کر اس عاجز کے پیچھے آکھڑا ہوا اور یہ عاجز آنحضرت کے سامنے کھڑا تھا جیسے ایک مستغیث حاکم کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آنحضرت بڑے جاہ و جلال اور حاکمانہ شان سے ایک زبردست پہلوان کی طرح کرسی پر جلوس فرما رہے تھے۔ پھر خلاصہ کلام یہ کہ ایک قاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس غرض سے دی کہ تا میں اس شخص کو دوں جو نئے سرے سے زندہ ہوا اور باقی تمام قاش میرے دامن میں ڈال دیں اور وہ ایک قاش میں نے اس نئے زندہ کو دے دی۔اور اس نے وہیں کھالی۔ پھر جب وہ نیا زندہ اپنیقاش کھا چکا تو میں نے دیکھا کہ آنحضرت کی کرسی مبارک اپنے پہلے مکان سے بہت ہی اونچی ہو گئی اور جیسے آفتاب کی کرنیں چھوٹتی ہیں ایسا ہی آنحضرت کی پیشانی مبارک متواتر چمکنے لگی کہ جو دین اسلام کی تازگی اور ترقی کی طرف اشارت تھی تب اسی نور کے مشاہدہ کرتے کرتے آنکھ کھل گئی۔ والحمد للہ علی ذالک
یہ وہ خواب ہے کہ تقریباً دو سو آدمی کو انہیں دنوں میں سنائی گئی تھی جن میں سے پچاس یا کم و بیش ہندو بھی ہیں کہ جو اکثر ان میں سے ابھی تک صحیح و سلامت ہیں اور وہ تمام لوگ خوب جانتے ہیں کہ اس زمانے میں براہین احمدیہ کی تالیف کا ابھی نام و نشان نہ تھا اور نہ یہ مرکوز خاطر تھا کہ کوئی دینی کتاب بنا کر اس کے استحکام اور سچائی ظاہر کرنے کے لیے دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیا جائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اب وہ باتیں جن پر خواب دلالت کرتی ہے کسی قدر پوری ہو گئیں اور جس قطبیت کے اسم سے اس وقت کی خواب میں کتاب کو موسوم کیا گیا تھا۔ اسی قطبیت کو اب مخالفوں کے مقابلے پر بو عدہ انعام کثیر پیش کر کے حجت اسلام ان پر پوری کی گئی ہے۔ اور جس قدر اجزاء اس خواب کے ابھی تک ظہور میں نہیں آئے ان کے ظہور کا سب کو منتظر رہنا چاہئے کہ آسمانی باتیں کبھی ٹل نہیں سکتیں۔
(براہین احمدیہ ص 249-250 مندرجہ روحانی خزائن جلد 1ص 275-276)
قادیانی دوستو! ذرا ٹھنڈے دل سے سوچتے ہوئے خود ہی انصاف کرو کہ جو کتاب مرزا غلام احمدقادیانی کے بقول اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر لکھی ہو اور جس کا متولی اور مہتمم خود رب العالمین ہو اور جس کتاب کو دیکھ کر بقول مرزا قادیانی خواب میں نبی کریم علیہ السلام نے خوشی کا اظہار کیا ہو کیا اس کتاب میں بیان کئے گئے عقائد غلط ہو سکتے ہیں اور پھر اس کتاب میں بیان دلائل کا ر د کرنے کے لے 1884ء کا دس ہزار روپے انعام بھی مقرر کیا گیا ہو۔
قادیانی حضرات! ذرا سوچیے کہ اگر حیات مسیح کا عقیدہ غلط تھا تو مرزا قادیانی نے اسے اپنی کتاب میں کیوں شائع کیا جبکہ مرزا قادیانی کا دعوی ہے کہ
”اللہ تعالیٰ اسے ایک پلک جھپکنے کے برابر بھی خطا پر قائم نہیں رہنے دیتا اور مجھے ہرایک غلط بات سے محفوظ رکھتا ہے“
(نور الحق ص 86مندرجہ روحانی خزائن جلد 8ص 272)
”واللہ یعلم انی ما قلت الا ماقال اللہ تعالیٰ ولم أقل کلمۃ قط یخالفہ وما مسہا قلمی فی عمری“
یعنی اللہ جانتا ہے کہ میں جو کچھ کہتا رہا وہ وہی کہتا ہوں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور میں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جو خلاف خداوندی ہو اور مخالف خداوندی میری قلم سے کبھی سرزد نہیں ہوئی۔
(حمامۃ البشری ص 10مندرجہ روحانی خزائن جلد 7ص 186)
جبکہ جو عقائد و نظریات مرزا قادیانی نے اس کتاب میں درج کیے ہیں ان کے بارے میں خود ہی رقمطراز ہے کہ
”پانچواں اس کتاب میں یہ فائدہ ہے کہ اس کے پڑھنے سے حقائق اور معارف کلام ربانی کے معلوم ہو جائیں گے اور حکمت اور معرفت اس کتاب مقدس کی کہ جس کے نور روح افروز سے اسلام کی روشنی ہے سب پہ منکشف ہو جائے گی کیونکہ تمام وہ دلائل اور براہین جو اس میں لکھی گئی ہیں اور وہ تمام کامل صداقتیں جو اس میں دکھائی گئی ہیں وہ سب آیات بینات قرآن شریف سے ہی لی گئی ہیں اور ہر ایک دلیل عقلی وہی پیش کی گئی ہے جو خدا نے اپنی کلام میں آپ پیش کی ہے اور اسی التزام کے باعث سے تقریباً باراں سیپارہ قرآن شریف کے اس کتاب میں اندراج پائے ہیں اس حقیقت میں یہ کتاب قرآن شریف کے دقائق اور حقائق اور اس کے اسرار عالیہ اور اس کے علوم حکمیہ اور اس کے اعلیٰ فلسفہ ظاہر کرنے کے لیے ایک عالی بیان تفسیر ہے کہ جس کے مطالعہ سے ہر ایک طالب صادق پر اپنے مولیٰ کریم کی بے مثل و مانند کتاب کا عالی مرتبہ مثل آفتاب عالمتاب کے روشن ہو گا۔“ (براہین احمدیہ مندرہ روحانی خزائن جلد 1ص 130،131)
قادیانی حضرات! اس کتاب میں جو عقیدہ حیات مسیح بیان کیا گیا ہے اگرغلط ہے تو پھر مرزا قادیانی کے دعویٰ ماموریت کو بھی غلط ماننا پڑے گا کیا آپ اس بات کو قبول کریں گے کہ مرزا قادیانی نے اس دور میں مامورمن اللہ اور مجدد ہونے کا جو دعویٰ کیا تھا وہ باطل تھا کیا آپ یہ کہنا پسند کریں گے مرزا قادیانی نے اس کتاب کے حوالہ سے جو خواب نبوی کی بشارت بیان کی ہے محض دھوکہ اور پراپیگنڈہ تھا؟
محترم قارئین!اب ہم آپ پر یہ واضح کرتے ہیں کہ عقیدہ نزول مسیح علیہ السلام امت مسلمہ کے عقیدہ ختم نبوت کے قطعًا منافی نہیں۔ لیکن اس سے پہلے مرزاصاحب قادیانی کی تحریر دوبارہ پیش کرتے ہیں تاکہ آپ کو پتہ چل سکے کہ کرشن قادیانی صاحب نے کس طرح مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ مرزا جی لکھتے ہیں کہ
”اگر یہ کہا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتم النبیّٖن ہیں پھر آپ کے بعد اور نبی کس طرح آ سکتا ہے۔ اس کا جواب یہی ہے کہؔ بے شک اُس طرح سے تو کوئی نبی نیا ہو یا پُرانا نہیں آ سکتا جس طرح سے آپ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آخری زمانہ میں اُتارتے ہیں اور پھر اس حالت میں اُن کو نبی بھی مانتے ہیں بلکہ چالیس برس تک سلسلہ وحی نبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے۔ بے شک ایسا عقیدہ تومعصیت ہے اور آیت وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ اور حدیث لَانَبِیَّ بَعْدِیْ اس عقیدہ کے کذب صریح ہونے پر کامل شہادت ہے۔ لیکن ہم اس قسم کے عقائد کے سخت مخالف ہیں اور ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں۔“
(ایک غلطی کاازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ207)
قارئین کرام!مرزا جی نے جو یہ لکھا ہے کہ ”اور پھر اس حالت میں اُن کو نبی بھی مانتے ہیں بلکہ چالیس برس تک سلسلہ وحی نبوت کا جاری رہنا اور زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ جانا آپ لوگوں کا عقیدہ ہے“ تو اس کی ایک وجہ امت مسلمہ کا سیدنا عیسی ابن مریم علیہما السلام کو اللہ کا نبی تسلیم کرنا دوسرا فرمان رسول ﷺ کے مطابق نزول کے بعد چالیس سال زندہ رہنے کا عقیدہ رکھنا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی کا نبی ماننے کا تو یاد رکھنا چاہیے کہ انہیں نبوت نبی ﷺ سے پہلے ملی ہے نہ کہ بعد میں اور سابقہ نبیوں پر ایمان لانا ایک مومن کی نشانی ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں مومنین اور متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَااُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ(سورۃ البقرہ:۴)
اور جو اس پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور آخرت پر مکمل یقین رکھتے ہیں
قُوْلُوٓا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرَاہِیْمَ وَاِسْمَاعِیْلَ وَاِسْحَاقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی وَمَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ وَنَحْنُ لَہ مُسْلِمُوْنَ (136)
کہہ دو ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہم پر اتارا گیا اور جو ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد پر اتارا گیا اور جو موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا اور جو دوسرے نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا، ہم کسی ایک میں ان میں سے فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔
الغرض عیسی علیہ السلام کے نبی ہونے پر ایمان لائے بغیر کوئی بھی شخص مسلمان اور مومن نہیں ہو سکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عیسی علیہ السلام رسول کس قوم کی طرف بنا کر بھیجے گئے تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ
وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرَاۃَ وَالْاِنْجِیْلَ O وَرَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ اِنِّیْ قَدْ جِءْتُکُمْ بِاَیَۃٍ مِّن رَّبِّکُمْ اِنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْءَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُبْرِئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُنَبِّءُکُمْ بِمَا تَأْکُلُوْنَ وَمَا تَدِّخُرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتمْ مُؤْمِنِیْنO
اللہ تعالیٰ اسے لکھنا حکمت تورات اورانجیل سکھلائے گا اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا۔کہ میں تمھارے پاس تمھارے رب کی نشانیاں لایا ہوں۔ میں تمھارے لیے پرندے کی شکل کی طرح مٹی کا پرندہ بناتا ہوں۔ پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہوں اور مردے کو زندہ کر دیتاہوں اور جو کچھ تم کھاؤ اوراپنے گھروں میں ذخیرہ کرو میں بتا دیتا ہوں۔ اس میں تمھارے لیے بڑی نشانی ہے۔ اگر تم ایماندار ہو۔
(سورہ آل عمران:49۔48)
یعنی عیسی علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف نبی اور رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں نہ کہ امت محمدیہ کی طرف۔ جب ان کا نزول ہو گا تو وہ شریعت محمدیہ کے تابع زندگی بسر کریں گے نہ کہ اپنی شریعت کے مطابق۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت ان پر نازل ہونے والی وحی وحی نبوت نہیں کہلائے گی بلکہ وہ وحی ولایت کہلائے گی اس کی مثال اس طرح سمجھ لیں کہ جب صدر پاکستان کسی دوسرے ملک کے دورے پر جاتا ہے تو پاکستان کی صدارت سے معزول نہیں ہوتا بلکہ صدر پاکستان ہوتے ہوئے بھی اس ملک کے قانون کا پابند ہو گا جس ملک میں وہ گیا ہے نہ کہ کسی دوسرے ملک میں رہتے ہوئے پاکستانی آئین پر عملدرآمد کرے گا بالکل اسی طرح جب عیسی علیہ السلام کا نزول ہو گا تو وہ بھی شریعت محمدیہ کے تابع ہوں گے۔
محترم قارئین!حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
یَمْکُثُ عِیْسٰی فِی الْاَرْضِ بَعْدَ مَا یَنْزِلُ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یَمُوْتُ وَیُصَلِّیْ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ وَیَدْفِنُوْنَہ‘
(مسند ابی داود طیالسی حدیث 2664)
ترجمہ: عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد چالیس سال زمین پر رہیں گے پھر آپ فوت ہوجائیں گے۔ مسلمان آپ کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور دفن کریں گے۔
محترم قارئین!مرزا قادیانی نے اسی روائت کو بنیاد بناکر یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ مسلمان نزول عیسیٰ علیہ السلام کے بعد چالیس سال وحی نبوت کو جاری مانتے ہیں۔ یہ بات تو میں واضح کر چکا کہ عیسیٰ علیہ السلام پر بعد از نزول نازل ہونے والی وحی وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت کہلائے گی۔
قارئین کرام! مندرجہ بالا روایت کو مرزا جی بھی صحیح تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”حدیث سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود اپنے دعوے کے بعد چالیس برس تک دنیا میں رہے گا“
(تحفہ گولڑویہ ص 127مندرجہ روحانی خزائن جلد 17ص 311)
اسی کتاب میں مرزا قادیانی اپنے آپ کو مسیح موعود قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہے کہ
”میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں وہ مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں خدا تعالیٰ کی تمام پاک کتابوں میں پیش گوئیاں ہیں کہ وہ آخری زمانے میں ظاہر ہو گا“
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص 118 مندرجہ روحانی خزائن جلد 17ص 295ٌ)
قادیانی حضرات!آئیے اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ مرزا قادیانی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کب کیا تھا اور اس کے بعد موصوف کتنا عرصہ زندہ رہے۔ مرزا قادیانی نے سب سے پہلے جو کتاب لکھی وہ براہین احمدیہ ہے جو 1297 ہجری میں چھپی جس میں وہ عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھایا جانا مانتا ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم ہی قیامت کے قریب دوبارہ نازل ہوں گے اسی کتاب میں درج عقیدے کے بارے میں بعد میں وضاحت کرتے ہوئے لکھتاہے کہ
”بلکہ میں بھی تمہاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسیٰ ابن مریم آسمان سے نازل ہو گا۔ اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میں نے وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طور پر لکھ دیا اور شائع کر دیا“
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص 111مندرجہ روحانی خزائن جلد 21ص 111)
سب سے پہلی کتاب جس میں مسیح موعود کا دعویٰ کیا گیا وہ ”فتح اسلام“ ہے جس کے سرورق پر 1308ھ لکھا ہے اس رسالہ کی اشاعت پر امت مسلمہ کی طرف سے اعتراضات ہوئے تو مرزا صاحب نے اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے ”ازالہ اوہام“ نامی کتاب طبع کروائی جس کے سرورق پر بھی 1308 ھ لکھا ہے ان دو کتابوں سے پہلے مرزا صاحب کی کسی تحریر میں دعویٰ مسیحیت نہیں ملتا اور مرزا صاحب 1326ھ میں فوت ہوئے تو بتائیے اپنے دعویٰ مسیحیت کے بعد کتنا عرصہ زندہ رہے چالیس سال نہیں بلکہ اٹھارہ سال تک زندہ رہے تو ماننا پڑے گا کہ مرزا صاحب کا دعویٰ غلط تھا کیونکہ وہ خود ہی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ مسیح موعود اپنے دعویٰ کے بعد چالیس سال تک زندہ رہیں گے فاعتبروایا اولی الابصار
محترم قارئین!اب ہم ایک اور طریقے سے آپ پر واضح کرتے ہیں کہ نزول مسیح علیہ السلام کا عقیدہ آیت وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ اور حدیث لَانَبِیَّ بَعْدِیْ کے قطعًامنافی نہیں ہے۔
قارئین کرام!آئین پاکستان کے تحت ہر پاکستانی پر فرض ہے کہ جب بھی عدلیہ عدالت میں طلب کرے عدالت میں حاضر ہو۔ یہ ایک عمومی قانون ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 248کے تحت صدر پاکستان کو اس عمومی قانون سے استثنی دے دیا گیا ہے۔عمومی قانون سے خصوصی استثنی کی مثالیں قرآن کریم سے بھی ملتی ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ایک عام اصول بیان فرمایاہے کہ
کُلُّ نَفسٍ ذَآءِقَۃُ المَوتِ وَ نَبلُوکُم بِالشَّرِّ وَ الخَیرِ فِتنَۃً وَ اِلَینَا تُرجَعُونَ (الانبیاء:35)
ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
جبکہ دوسری جگہ پر اللہ تعالی نے اپنی ذات کے لئے بھی نفس کا لفظ استعمال کیا ہے چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ
لَا یَتَّخِذِ المُومِنُونَ الکٰفِرِینَ اَولِیَآءَ مِن دُونِ المُومِنِینَ وَ مَن یَّفعَل ذٰلِکَ فَلَیسَ مِنَ اللّٰہِ فِی شَیءٍ اِلَّا اَن تَتَّقُوا مِنہُم تُقٰیۃً وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفسَہٗ وَ اِلَی اللّٰہِ المَصِیرُ (آلعمران:28)
مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالٰی کی کسی حمایت میں نہیں مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو اور اللہ تعالٰی خود تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالٰی ہی کی طرف لوٹ جانا ہے۔
یَومَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِن خَیرٍ مُّحضَرًا وَّ مَا عَمِلَت مِن سُوٓءٍ تَوَدُّ لَو اَنَّ بَینَہَا وَ بَینَہٗ اَمَدًا بَعِیدًا وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفسَہٗ وَ اللّٰہُ رَءُوفٌ بِالعِبَادِ (آلعمران: 30)
جس دن ہر نفس (شخص) اپنی کی ہوئی نیکیوں کو اور اپنی کی ہوئی برائیوں کو موجود پالے گا، آرزو کرے گا کہ کاش! اس کے اور برائیوں کے درمیان بہت ہی دوری ہوتی۔ اللہ تعالٰی تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے۔
قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ قُلْ لِّلّٰہِ کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْا اَنْفُسَہُم فَہُمَا یُومِنُونَ (الانعام:12)
آپ کہئے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجود ہے یہ سب کس کی ملکیت ہے، آپ کہہ دیجئے کہ سب اللہ ہی کی ملکیت ہے، اللہ نے مہربانی فرمانا اپنے اوپر لازم فرما لیا ہے تم کو اللہ قیامت کے روز جمع کرے گا، اس میں کوئی شک نہیں، جن لوگوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا ہے سووہ ایمان نہیں لائیں گے۔
وَ اِذَا جَآءَکَ الَّذِیْنَ یُوْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْءً ابِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (الانعام: 54)
یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو (یوں) کہہ دیجئے کہ تم پر سلامتی ہے تمہارے رب نے مہربانی فرمانا اپنے ذمہ مقرر کر لیا ہے کہ جو شخص تم میں سے برا کام کر بیٹھے جہالت سے پھر وہ اس کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح رکھے تو اللہ (کی یہ شان ہے کہ وہ) بڑی مغفرت کرنے والا ہے بڑی رحمت والا ہے۔
محترم قارئین! میں نے چار آیات آپ کے سامنے پیش کی ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنی ذات کے لئے نفس کا لفظ استعمال کیا ہے اب عمومی قانون کے تحت تو ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے لیکن اللہ تعالی کو کبھی بھی موت نہیں آئے گی اللہ تعالی نے اپنی ذات کو موت سے استثنی دیتے ہوئے فرمایا کہ
کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍoوَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِکْرَامِo زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں۔ صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی۔
(سورۃ الرحمن:26،27)
محترم قارئین!ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کا عمومی قانون بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
یٰاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی (الحجرات:13)
اے لوگو! ہم نے تم سب کو مرد و عورت سے پیدا کیا ہے
محترم قارئین! آپ سب جانتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بغیر باپ سے پیدا کرکے اور آدم علیہ السلام کو بغیر ماں باپ کے پیدا کر کے اس عمومی قانون سے استثنیٰ دے دیا بالکل اسی طرح عمومی قانون تو یہی ہے جو آیت وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ اور حدیث لَانَبِیَّ بَعْدِیْ میں بیان ہوا ہے۔ لیکن نبی کریم ﷺنے اپنی زبان مبارک سے نزول عیسیٰ علیہ السلام کی خبر دے کر اس عمومی قانون سے استثنیٰ دے دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام عقیدہ ختم نبوت کے منافی نہیں۔
 

عبیداللہ لطیف

رکن ختم نبوت فورم
باب سوم
سیرت صدیقی اور مرزا قادیانی کا دعوی نبوت
محترم قارئین! مرزا صاحب قادیانی مزید لکھتے ہیں کہ
”ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّین اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دیئے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے۔ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلّی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔“
(ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 207،208)
قارئین کرام!قرآن کریم کی اس آیت میں کسی بھی قسم کی کسی پیشگوئی کا کوئی ذکر نہیں ہے نہ ہی اس سے قبل کسی مفسر یا محدث نے اس آیت کی ایسی کوئی تفسیر کی ہے۔ یہ صرف اور صرف مرزا جی نے اپنی خودساختہ نبوت کو جواز بخشنے کے لئے پنکچر لگایا ہے۔ دوسری بات مرزا جی نے لکھی کہ
”نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلّی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔“
اب اگر مرزا جی کی بات کو درست تسلیم کیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرزا جی نے اپنے دست راست حکیم نوردین کو خود صدیق قرار دیا ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ
”فاشکراللہ علی ما اعطانی کمثل ھذالصدیق الصدوق۔ الفاضل، الجلیل الباقر، دقیق النظر، عمیق الفقر المجاہد للہ“۔
یعنی میں اللہ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا اعلی درجہ کا صدیق دیا جو راست باز اور جلیل القدر فاضل ہے اور باریک بین اور نکتہ رس اور اللہ کے لیے مجاہدہ کرنے والا ہے۔“
(حمامۃ البشری مترجم صفحہ 30,31)
اسی طرح قادیانیوں کے آفیشل اخبار الفضل 14 مارچ 1946 کے شمارے میں عبدالحمید آصف قادیانی کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں وہ لکھتا ہے کہ
”مبارکہ بیگم نے ایک خواب دیکھا کہ حضرت مولوی نور دین صاحب ایک کتاب لیے بیٹھے ہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اور میں ابوبکر ہوں۔“
مزید آگے چل کر مضمون نگار لکھتا ہے کہ
”کتنی شاندار صداقت ہے کہ حضرت مسیح موعود کا آنا رسول کریم کا آنا ہے اور آپ کے بعد خلیفہ اول یعنی حضرت مولوی نور دین کا وجود نبی اکرم ﷺکے بعد ابوبکر صدیقؓ کا وجود ہے حضرت مولوی صاحب کی وفات 13 مارچ 1914کو ہوئی اس وقت جماعت ایک یتیم کی طرح رہ گئی مگر وہ خداتعالی جس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ مومنین کی جماعت میں سے خلفاء چنتا رہے گا اس نے اپنے فضل سے اپنے وعدہ کو پورا کر کے دکھا دیا حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) فوت ہوئے تو اس نے ہمیں صدیق عطا فرمایا اور جب صدیق فوت ہوا تو اپنے فضل سے ہمیں عمر عطا فرمایا۔“
(الفضل 14 مارچ 1946)
اسی طرح بھارت شائع ہونے والے قادیانی میگزین ماہنامہ مشکوۃ جون 2011ء کے شمارے میں برہان احمد ظفر کی سالانہ جلسہ قادیاں پرکی جانے والی ایک تحریر شائع ہوئی جس میں حکیم نوردین کی بہت سارے معاملات میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مشابہت بیان کی گئی ہے۔ b ان تمام باتوں کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر نبوت کے لئے صرف سیرت صدیقی کی کھڑکی کھلی ہے تو حکیم نوردین جسے مرزا جی خود صدیق قرار دے رہے ہیں نبی کیوں نہ بنے؟ اس سے بڑھ کر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خود کیوں نہ نبی بنے۔ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ سیرت صدیقی کے راستے نبوت کا دعوی کرنے والا (مرزا قادیانی) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کیسے بڑھ گیا جبکہ وہ خود لکھتا ہے کہ
”میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابو بکر کے درجہ پر ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ابو بکر تو کیا بعض انبیاء سے بہتر ہے“
(مجموعہ اشتہارات جلد دوئم ص 396طبع چہارم از مرزاقادیانی)
 

عبیداللہ لطیف

رکن ختم نبوت فورم
باب سوم
سیرت صدیقی اور مرزا قادیانی کا دعوی نبوت
محترم قارئین! مرزا صاحب قادیانی مزید لکھتے ہیں کہ
”ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّین اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے جس کی ہمارے مخالفوں کو خبر نہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیشگوئیوں کے دروازے قیامت تک بند کر دیئے گئے اور ممکن نہیں کہ اب کوئی ہندو یا یہودی یا عیسائی یا کوئی رسمی مسلمان نبی کے لفظ کو اپنی نسبت ثابت کر سکے۔ نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلّی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔“
(ایک غلطی کا ازالہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 207،208)
قارئین کرام!قرآن کریم کی اس آیت میں کسی بھی قسم کی کسی پیشگوئی کا کوئی ذکر نہیں ہے نہ ہی اس سے قبل کسی مفسر یا محدث نے اس آیت کی ایسی کوئی تفسیر کی ہے۔ یہ صرف اور صرف مرزا جی نے اپنی خودساختہ نبوت کو جواز بخشنے کے لئے پنکچر لگایا ہے۔ دوسری بات مرزا جی نے لکھی کہ
”نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئیں مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنافی الرسول کی۔ پس جو شخص اس کھڑکی کی راہ سے خدا کے پاس آتا ہے اس پر ظلّی طور پر وہی نبوت کی چادر پہنائی جاتی ہے جو نبوت محمدی کی چادر ہے۔“
اب اگر مرزا جی کی بات کو درست تسلیم کیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرزا جی نے اپنے دست راست حکیم نوردین کو خود صدیق قرار دیا ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ
”فاشکراللہ علی ما اعطانی کمثل ھذالصدیق الصدوق۔ الفاضل، الجلیل الباقر، دقیق النظر، عمیق الفقر المجاہد للہ“۔
یعنی میں اللہ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا اعلی درجہ کا صدیق دیا جو راست باز اور جلیل القدر فاضل ہے اور باریک بین اور نکتہ رس اور اللہ کے لیے مجاہدہ کرنے والا ہے۔“
(حمامۃ البشری مترجم صفحہ 30,31)
اسی طرح قادیانیوں کے آفیشل اخبار الفضل 14 مارچ 1946 کے شمارے میں عبدالحمید آصف قادیانی کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں وہ لکھتا ہے کہ
”مبارکہ بیگم نے ایک خواب دیکھا کہ حضرت مولوی نور دین صاحب ایک کتاب لیے بیٹھے ہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اور میں ابوبکر ہوں۔“
مزید آگے چل کر مضمون نگار لکھتا ہے کہ
”کتنی شاندار صداقت ہے کہ حضرت مسیح موعود کا آنا رسول کریم کا آنا ہے اور آپ کے بعد خلیفہ اول یعنی حضرت مولوی نور دین کا وجود نبی اکرم ﷺکے بعد ابوبکر صدیقؓ کا وجود ہے حضرت مولوی صاحب کی وفات 13 مارچ 1914کو ہوئی اس وقت جماعت ایک یتیم کی طرح رہ گئی مگر وہ خداتعالی جس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ مومنین کی جماعت میں سے خلفاء چنتا رہے گا اس نے اپنے فضل سے اپنے وعدہ کو پورا کر کے دکھا دیا حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) فوت ہوئے تو اس نے ہمیں صدیق عطا فرمایا اور جب صدیق فوت ہوا تو اپنے فضل سے ہمیں عمر عطا فرمایا۔“
(الفضل 14 مارچ 1946)
اسی طرح بھارت شائع ہونے والے قادیانی میگزین ماہنامہ مشکوۃ جون 2011ء کے شمارے میں برہان احمد ظفر کی سالانہ جلسہ قادیاں پرکی جانے والی ایک تحریر شائع ہوئی جس میں حکیم نوردین کی بہت سارے معاملات میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مشابہت بیان کی گئی ہے۔ b ان تمام باتوں کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر نبوت کے لئے صرف سیرت صدیقی کی کھڑکی کھلی ہے تو حکیم نوردین جسے مرزا جی خود صدیق قرار دے رہے ہیں نبی کیوں نہ بنے؟ اس سے بڑھ کر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خود کیوں نہ نبی بنے۔ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ سیرت صدیقی کے راستے نبوت کا دعوی کرنے والا (مرزا قادیانی) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کیسے بڑھ گیا جبکہ وہ خود لکھتا ہے کہ
”میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابو بکر کے درجہ پر ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ابو بکر تو کیا بعض انبیاء سے بہتر ہے“
(مجموعہ اشتہارات جلد دوئم ص 396طبع چہارم از مرزاقادیانی)
 
Top