مرزا مسرور احمد کی آف شور کمپنیاں
ویسے اگر بالفرض محال مرزا مسرور فرط غیرت میں ڈوب کر اعلان کردے کہ ہاں یہ آف شور کمپنیاں میری ہی ہیں اور یہ میں نے قادیانیوں کے چندوں سے ہی بنائی ہیں ورنہ میں کونسا کوئی کام کرتا ہوں ہاں میں چور بھی ہوں اور ڈاکو بھی ،
تو مرزائیوں نے پھر بھی اس پہ لعنت ڈالنے کی بجائے اسکے بیان کی تاویلیں کردینی ہیں
اوہ مولویو تم لوگ کبھی روحانی باتیں نہیں سمجھ سکتے یہ حجور نے استعارے کے رنگ میں بیان دیا ہے، مولویوں کا تو کام ہے الزام لگانا، جاہل مولوی
آف شور سے مراد کم بولنے کی عادت ہے کمپنی سے مراد یقینی فتح اور قادیانیوں سے مراد یہودی اور عیسائی اقوام ہیں اصل میں حجور یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی کم بولنے کی عادت سے عیسائیوں اور یہودیوں پر روحانی سبقت حاصل کرلیں گے یعنی روحانی فتح، مولویو تم کیا جانو روحانیت کیا ہوتی ہے،
اور چندوں کا مطلب وہ چندہ نہیں جو ہم چندہ ٹیکس دیتے ہیں بلکہ یہاں چندوں سے مراد دو چندائیں یعنی دو عورتیں ہیں اور کام کرنے سے مراد نکاح کرنا ہے اور چور سے مراد کنواری اور ڈاکو سے مراد بیوہ ہے، جس طرح کنواری عورت نازک ہوتی ہے چور بھی اسی طرح نازک ہوتا ہے اسی لیے چھپ چھپ کے چوری کرتا ہے اور بیوہ عورت تجربہ کار ہوتی ہے اسی طرح ڈاکو بھی تجربہ کار ہوتا ہے تبھی سرعام ڈاکہ ڈالتا ہے تو اس نسبت کی بنا پر حجور نے کنواری اور بیوہ کو چور اور ڈاکو سے تشبیع دی ہے ان کا فرمانا ہے کہ دو عورتیں ان کے نکاح میں لائی جائیں گی ایک کنواری ہوگی اور ایک بیوہ یعنی دو عدد چندہ رانیاں اور خود کو چور ڈاکو کہنے کا مطلب کہ وہ ایک کنواری والا اور ایک بیوہ والا ہوجائے گا ۔ مولویو تم لوگ الزام ہی لگاتے رہنا، اب اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ حجور نے کسی آف شور کمپنی کا اقرار کیا ہے؟ اب دلیل کا جوتا پڑھا ہے نا تو مولوی بھاگ گیا