مزارات اور قبور پر عمارت بنانے پر آلِ نجد کے اعتراضات کے جوابات
محترم قارئین !
آلِ نجد کے اِس مسئلہ پر صرف دو ہی اعتراض ہیں۔
پہلا اعتراض:
اول تو یہ کہ مشکوٰۃ باب الدفن میں بروایت مسلم ہے :
نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان یجصص القبور وان یبنی علیہ وان یقعد علیہ
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منع فرمایا اس سے کہ قبروں پر گچ کی جاوے اور اس سے کہ اس پر عمارت بنائی جاوے اور اس سے کہ اس پر بیٹھا جاوے۔
نیز عام فقہاء فرماتے ہیں کہ یکرۃ البناء علی القبور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین کام حرام ہیں قبر کو پختہ بنانا۔ قبر پر عمارت بنانا، اور قبر پر مجاور بن کر بیٹھنا ۔
پہلے اعتراض کا جواب:
(1) قبر کو پختہ کرنے سے منع ہونے کی تین صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ قبر کا اندرونی حصہ جو کہ میت کی طرف ہے اس کو پختہ کیا جاوے ۔ اسی لیئے حدیث میں فرمایا گیا ۔ ان یجصص القبور یہ نہ فرمایا گیا علی القبور ۔
(2) یہ کہ عامۃ المسلمین کی قبور پختہ کی جاویں کیونکہ یہ بے فائدہ ہے تو معنٰی یہ ہوئے کہ ہر قبر کو پختہ بنانے سے منع فرمایا ۔
(3) یہ کہ قبر کی سجاوٹ ، تکلف یا فخر کے لیے پختہ کیا ۔
یہ تینوں صورتیں منع ہیں اور اگر نشان باقی رکھنے کے لیئے کسی ولی اللہ کی قبر پختہ کی جاوے تو جائز ہے ۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عثمان کی قبر پختہ پتھر کی بنائی ۔ لمعات میں اسی ان یخصص القبور کے ماتحت ہے لما فیہ من الزینۃ والتکلف کیونکہ اس میں محض سجاوٹ اور تکلف ہے ۔ جس سے معلوم ہوا کہ اگر اس لیئے نہ ہو تو جائز ہے ان ینی علیہ یعنی قبر پر عمارت بنانا منع فرمایا ۔ اس کے بھی چند معنٰی ہیں اولاً تو یہ کہ خود قبر پر عمارت بنائی جاوے اس طرح کہ قیر دیوار میں شامل ہو جاوے ۔
چنانچہ شامی باب الدفن میں ہے :
وتکرہ الزیادۃ علیہ لما فی المسلم نھی رسول اللہ علیہ السلام ان یجصص القبر وان یبنی علیہ ۔
ترجمہ : قبر کو ایک ہاتھ سے اونچا کرنا منع ہے کیونکہ مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے قبر کو پختہ کرنے اور اس پر کچھ بنانے سے منع فرمایا ۔
درمختار اسی باب میں ہے :
وتکرہ الزیادۃ علیہ من التراب لانہ بمنزلۃ البناء ۔
ترجمہ : قبر پر مٹی زیادہ کرنا منع ہے کیونکہ یہ عمارت بنانے کی درجہ میں ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ قبر پر بنانا یہ ہے کہ قبر دیوار میں آجاوے اور گنبد بنانا یہ حول القبر یعنی قبر کے اردگرد بنانا ہے یہ ممنوع نہیں ۔ دوسرے یہ کہ یہ حکم عامۃ المسلمین کے لیے قبروں کے لیے ہے ۔ تیسرے یہ کہ اس بنانے کی تفسیر خود دوسری حدیث نے کردی جوکہ مشکوٰۃ باب المساجد میں ہے :
اللھم لا تجعل قبری ووثنا یعبد اشتد غضب اللہ علی قوم ن اتخذوا قبور انبیاءھم مسجد ۔
ترجمہ : اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی پوجا کی جاوے اس قوم پر خدا کا سخت غضب ہے جس نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجد بنا لیا ۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی قبر کو مسجد بنانا اس پر عمارت بنا کر اس طرف نماز پڑھنا حرام ہے یہ ہی اس حدیث سے مراد ہے ۔ قبروں پر کیا نہ بناؤ مسجد ۔ قبر کو مسجد بنانے کے یہ معنٰی ہیں کہ اس کی عبادت کی جاوے ۔ یا کم از کم اس کو قبلہ بناکر اس کی طرف سجدہ کیا جاوے ۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ فتح الباری شرح بخاری میں فرماتے ہیں :
قال البیضاوی لما کانت الیھود والنصری یسجدون لقبور الانبیاء تعظیما لشانھم ویجعلونھا قبلۃ یتوجھون فی الصلوٰۃ ونحوھا واتخذوھا اوثانا لعنھم ومنع المسلمون عن مثل ذلک ۔
ترجمہ : امام بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہود و نصارٰی پیغمبروں علیہم السّلام کی قبروں کو تعظیماً سجدہ کرتے تھے اور اس کو قبلہ بناکر اس کی طرف نماز پڑھتے تھے اور ان قبور کر انہوں نے بت بنا کر رکھا تھا لہٰذا اس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لعنت فرمائی اور مسلمانوں کو اس سے منع فرمایا گیا ۔
یہ حدیث آلِ نجد کی پیش کردہ حدیث کی تفسیر ہوگئی ۔ معلوم ہوگیا کہ قبہ بنانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا ۔ چوتھا یہ کہ یہ ممانعت حکم شرعی نہیں ہے ۔ بلکہ زہد و تقوٰی کی تعلیم ہے جیسے کہ ہم پہلے عرض کرچکے کہ رہنے کے مکانات کو پختہ کرنے سے بھی روکا گیا ۔ بلکہ گرا دئیے گئے پانچویں یہ کہ جب بنانے والے کا یہ اعتقاد ہو کہ اس عمارت سے میت کو راحت یا فائدہ پہنچتا ہے تو منع ہے کہ غلط خیال ہے اور اگر زائرین کی آسائش کے لیے عمارت بنائی جاوے تو جائز ہے ۔
ہم نے توجہیں اس لیئے کیں کہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خاص خاص قبروں پر عمارت بنائی ہیں یہ فعل سنت صحابہ ہے چنانچہ حضرت فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر انور کے گرد عمارت بنائی ۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس پر خوبصورت عمارت بنائی ۔ حضرت امام حسن مثنی رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر کی قبر پر قبہ ڈالا جس کو ہم بحوالہ مشکوٰۃ باب البکاء سے بیان کر چکے ۔
زوجہ حسن مثنی رضی اللہ عنہما کے اس فعل کے ماتحت امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح مشکوٰۃ باب البکاء میں فرماتے ہیں :
الظاھر انہ لاجتماع الاحباب للذکر والقراءۃ وحضور بالمغفرۃ اما حمل فعلھا علی العبث المکروہ فغیر لائق لصنیع اھل البیت ۔
ترجمہ : ظاہر یہ ہے کہ یہ قبہ دوستوں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے جمع ہونے کے لیئے تھا تاکہ ذکر اللہ اور تلاوت قراٰن کریں اور دعائے مغفرت کریں ۔ لیکن ان بی بی کے اس کام کو معض بے فائدہ بنانا جو کہ مکروہ ہے یہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شان کے خلاف ہے ۔
صاف معلوم ہوا کہ بلا فائدہ عمارت بنانا منع اور زائرین کے آرام کے لیئے جائز ہے ۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر پر قبہ بنایا ۔
متقٰے شرح مؤطاء امام مالک میں ابو عبد سلیمان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :
وضربہ عمر علی قبر زینب جحش وضربۃ عائشۃ علے قبر اخیھا عبدالرحمٰن وضربہ محمد ابن الحنیفۃ علی قبر ابن عباس وانما کرھہ لمن ضربہ علی وجہ السمعۃ والمباھات ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی قبر پر قبہ بنایا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کی قبر پر قبہ بنایا محمد ابن حنیفہ (ابن حضرت علی رضی اللہ عنہما) نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قبر پر قبہ بنایا اور جس نے قبہ بنانا مکروہ کہا ہے تو اس کے لیے جو کہ اس کو فخر دریا کے لیے بنائے ۔
بدائع الصنائع جلد اول 320 میں ہے :
روی ان عباس لما مات بالطائف صلے علیہ محمد ابن الحنیفۃ وجعل قبرہ مسنما وضرب علیہ فساطا ۔
ترجمہ : جبکہ طائف میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا انتقال ہوا تو ان پر محمد ابن حنیفہ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی اور ان کی قبر ٍڈھلوان بنائی اور قبر پر قبہ بنایا ۔
عینی شرح بخاری میں ہے:
ضربہ محمد ابن الحنیفۃ علی قبر ابن عباس
ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ فعل کیئے اور ساری اُمت روضۃ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر جاتی رہی ۔ کسی محدث کسی فقیہ کسی عالم نے اس روضہ پر اعتراض نہ کیا لہٰذا اس حدیث کہ وہ ہی توجہیں کی جاویں جو کہ ہم نے کیں ۔ قبر پر بیٹھنے کے معنٰے ہیں قبر پر چڑھ کر یہ منع ہے نہ کہ وہاں مجاور بننا ۔ مجاور بننا تو جائز ہے ۔ مجاور اسی کو تو کہتے ہیں جو قبر کا انتظام رکھے کھولنے بند کرنے کی چابی اپنے پاس رکھے وغیرہ وغیرہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مسلمانوں کی والدہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر انور کی منتظمہ اور چابی والی تھیں ۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو زیارت کرنی ہوتی تو ان سے ہی کھلوا کر زیارت کرتے ۔ دیکھو مشکوٰۃ باب الدفن ۔ آج تک روضہ مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر مجاور رہتے ہیں کسی نے ان کو ناجائز نہ کہا ۔