ایک مرزائی واؤیلا: مسلمانوں! عیسی علیہ السلام کو آسمان سے اتار لاؤ
قادیانی جب جل بھن جاتے تو ایک اعتراض کرتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو آسمانوں سے اتار لاؤ۔ عرصہ ہوا ایک بار قادیانیوں نے ''منہ مانگا انعام'' مقر رکر کے اشتہار شائع کیا۔ اس کا مولانا محمد اکرم طوفانی کی طرف سے ایک جواب شائع ہوا۔ مولانا کے اشتہار کا مفہوم کچھ اس طرح تھا۔
سیدنا عیسی علیہ السلام قرآن و سنت و اجماعِ امت کی رو سے آسمانوں پر زندہ ہیں۔ انکو آسمانوں پر لے جانے والی ذات اللہ تعالی کی ہے۔ کسی انسان سے نازل کرنے کے مطالبہ کے بجائے اللہ تعالی سے کریں۔ تاکہ قادیانیوں کا کفار مکہ کی سنت پر عمل ہو جائے جنھوں نے حضور ﷺ سے کہا تھا کہ ہمارے سامنے آپ ﷺ اسمانوں سے اتر کر کتاب ہمراہ لائیں جو ہمارے نام لکھی گئ ہو اسے پڑھ کر ہم ایمان لائیں گے۔ سیدنا عیسی علیہ السلام کا نزول من السماء قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ہے۔ جیسے دابتہ الارض کا خروج، دجال کا خروج وغیرہ۔ یہ تب قادیانی کہ سکتے تھے جب قیامت آ جاتی یہ علامات پوری ہو جاتی اور عیسی علیہ السلام نہ لاتے۔ تب قادیانی واویلا سمجھ آ سکتا تھا، مگر جب قیامت کی علامات کبری ظاہر ہی نہیں ہوئیں تو اس پر واویلا کرنا، قبل از مرگ واویلا والی بات ہے۔
آؤ غور کرو کے کسی کا آسمان پر لے جانا یا واپس لانا انسان کے بس کی بات ہے یا نہیں؟ یہ اللہ کی قدرت کے فیصلے ہیں، ان میں انسان دخل نہیں کر سکتا۔ البتہ کسی انسان کی زندگی غلط یا صحیح، کردار غلط یا درست پر بحث کرنا انسان کے لیے آسان ہےقادیانی آئیں! مرزا غلام قادیانی کو نبی تو درکنار شریف انسان ثابت کر دیں اور ہم مرزا کو بد کردار، شراب کا پاپی، غیر محرم عورتوں سے مٹّھیاں بھروانے والا، کبھی کبھی زنا کرنے والا، بد دیانت، بد اخلاق، بد زبان، جھوٹا، مکار عیّار، فریبی، دغا باز ثابت کریں گے، تم اسے شریف انسان ثابت کرو تو ''ایک کروڑ" روپیہ انعام تمھیں ملے گا۔ آئیں شرائط طے کر لیں، گفتگو ہو جائے جو انسانی بس میں ہے۔
چونکہ مولانا طوفانی صاحب نے اس اشتہار کو چناب نگر(سابق ربوٰہ) کی گلی گلی میں تقسیم کیا تو قادیانی پریس نے الفضل لندن تک اس پر گالیوں کی بوچھاڑ کی۔ مگر قادیانی مرد میدان نہ بنے۔ سیدنا عیسی علیہ السلام کا نزول من السماء الی الارض الدنیا قیامت کی نشانی ہے اور قیامت کے قریب سب کچھ ہو گا۔ قیامت کب آئے گی اسکا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ اس کے وقوع سے قبل اس قسم کے اعتراضات سنت کفار ہے، نہ کہ اخیار!