• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

منکوحہ آسمانی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
محمدی بیگم کا بیوہ ہو کر مرزے کے نکاح میں آنا، یہ کوئی عام پیشنگوئی نہیں

ابوعبیدہ: مرزاقادیانی! یہ باتیں میری سمجھ میں تو آتی نہیں۔ کیا واقعی اس کا بیوہ ہونا پھر آپ کے نکاح میں آنا مقدر تھا؟
مرزاقادیانی: آپ پہلے بھی میرے بہت سے اقوال اس سے متعلق ملاحظہ کر چکے ہیں۔ اگر مزید اطمینان چاہئے تو اور لیجئے۔
قول:۳۶… ’’خداتعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ احمد بیگ کی دختر کلاں (محمدی) کو ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز کے نکاح میں لائے گا۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۱ ص۱۱۶، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۵۸)
قول:۳۷… ’’خداتعالیٰ ان سب تدارک کے لئے جو اس کام (محمدی کے نکاح بامرزا) کو روک رہے ہیں۔ تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا۔ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے تو میرے ساتھ ہے اور میں تیرے ساتھ ہوں۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۱ ص۱۱۶، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۵۸)
قول:۳۸… ’’(اے مرزا تو ان پوچھنے والوں کو) کہہ دے کہ مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ (محمدی بیگم کے ساتھ میرے نکاح ہونے کی پیش گوئی) سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۲ ص۸۵)
قول:۳۹… اے مرزا! ’’ہم نے خود اس (محمدی بیگم) سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے۔ میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۲ ص۸۵، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۰۱)
ابوعبیدہ: جناب من! میرا تو خیال ہے کہ یہ پیش گوئی انذاری پیش گوئیوں کی طرح غالباً تقدیر معلق ہوگی۔
مرزاقادیانی: نہیں صاحب! مذکورہ بالا الہامات سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ یہ انذاری پیش گوئی نہیں ہے۔ الہام کی رو سے تو میرا دعویٰ ہے کہ:
قول:۴۰… ’’کہ نفس پیش گوئی یعنی اس عورت (محمدی بیگم) کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لئے الہام الٰہی میں فقرہ موجود ہے کہ ’’ لا تبدیل لکلمات اﷲ ‘‘ یعنی میری یہ بات ہرگز نہ ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خداتعالیٰ کا کلام باطل ہوتا ہے… خدا نے فرمایا ہے کہ میں اس عورت (محمدی بیگم) کو اس کے نکاح کے بعد واپس لاؤں گا اور تجھے دوں گا اور میری تقدیر کبھی نہیں بدلے گی اور میرے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور میں سب روکوں کو اٹھادوں گا۔ جو اس حکم کے نفاذ سے مانع ہوں۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۳ ص۱۱۵، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۳)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
محمدی بیگم کا شوہر کئی سال بعد بھی نہ مرا،اورعزت بی بی کو طلاق دینے کی وجہ کیا تھی؟

ابوعبیدہ: صاحب یہ تو بڑے پکے وعدے وعید ہیں۔ مگر بہت مدت گزر گئی ہے کہ محمدی بیگم سلطان محمد آف پٹی بیاہ لے گیا۔ اڑھائی سال تو ایک طرف، کئی اڑھائی سال گزر گئے وہ مرنے میں نہیں آتا۔ شاید آپ کو پیش گوئی سمجھنے میں اجتہادی غلطی لگ رہی ہو۔ اس محمدی بیگم سے مراد اس کی کوئی لڑکی یا لڑکی در لڑکی ہو اور آپ کی ذات شریفہ سے آپ کا کوئی لڑکا یا لڑکا در لڑکا مراد ہو۔
مرزاقادیانی: واہ ماسٹر صاحب! میرے مذکورہ بالا ۴۰اقوال کے ہر ہر لفظ سے ثابت ہوتا ہے کہ محمدی بیگم آخرکار میرے نکاح میں آنا ہے۔ یہ بات آپ کو کیا سوجھی۔ کیونکہ:
قول:۴۱… ’’اس پیش گوئی کی تصدیق کے لئے جناب رسول کریمﷺ نے بھی پہلے سے ایک پیش گوئی فرمائی ہوئی ہے کہ: ’’ یتزوج ویولد لہ ‘‘ یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا اور نیز وہ صاحب اولاد ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں۔ کیونکہ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے۔ اس میں کچھ خوبی نہیں۔ بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا اور اولاد سے مراد وہ خاص اولاد ہے۔ جس کی نسبت اس عاجز کی پیش گوئی موجود ہے گویا اس جگہ رسول کریمﷺ ان سیاہ دل منکروں کو ان کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷)
ابوعبیدہ: جناب! رسول پاکﷺ کی اس پیش گوئی سے تو واقعی آپ کی تفریح کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ مرزامحمود احمد جو اس خاص اولاد کا مصداق بن رہا ہے۔ اس دعویٰ میں وہ معہ آپ کی جماعت کے جھوٹ پر ہیں۔ مگر میں حیران ہوں کہ آخر یہ نکاح ہوگا کب؟ سلطان محمد آف پٹی تو مرنے میں نہیں آتا اور محمدی بیگم کے بطن سے غالباً ۱۲عدد فرزند نرینہ بھی پیدا ہوچکے ہیں۔ آپ کی عمر بھی غالباً اب ستر سے اوپر ہوچکی ہوگی۔ غالباً ’’ من نعمرہ ننکسہ فی الخلق ‘‘ کا مصداق بن چکے ہوں گے۔ آخر یہ امید کب تک؟
مرزاقادیانی: ماسٹر صاحب! واقعی انتظار کرتے کرتے تو میں بھی بوڑھا ہوگیا ہوں اور واقعی جب ایک دفعہ:
قول:۴۲… ’’اس عاجز کو ایک سخت بیماری آئی۔ یہاں تک کہ قریب موت کے نوبت پہنچ گئی ۔ بلکہ موت کو سامنے دیکھ کر وصیت بھی کر دی گئی۔ اس وقت گویا یہ پیش گوئی آنکھوں کے سامنے آگئی اور یہ معلوم ہورہا تھا کہ اب آخری دم ہے اور کل جنازہ نکلنے والا ہے۔ تب میں نے اس پیش گوئی کی نسبت خیال کیا کہ شاید اس کے اور معنی ہوں گے جو میں سمجھ نہیں سکا۔ تب اسی حالت میں قریب الموت مجھے الہام ہوا… یعنی یہ بات تیرے رب کی طرف سے ہے تو کیوں شک کرتا ہے… تو نومید مت ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۹۸، خزائن ج۳ ص۳۰۶)
ابوعبیدہ: پھر اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ محمدی بیگم نے ضرور آپ کے نکاح میں آنا تھا۔ مگر ادھر جب تک سلطان محمد اس کا خاوند اس کو طلاق نہ دے یا خود فوت نہ ہو جائے۔ محمدی بیگم آپ کے نکاح میں نہیں آسکتی۔ اب کیا سوچ رہے ہیں؟
مرزاقادیانی: ماسٹر صاحب! مجھے الہام ہوا تھا کہ خدا نے فرمایا:
قول:۴۳… ’’زوجناکہا یعنی ہم نے خود (خدا نے) خود اس (محمدی بیگم) سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۲ ص۸۵، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۰۱)
ابوعبیدہ: اچھا صاحب! نکاح کے بارہ میں پھر بحث کریں گے۔ آئیے دیکھیں اس نکاح کی پیش گوئی کی لپیٹ میں کون کون معصوم آدمی مارے گئے۔ کہتے ہیں کہ مطابق مثل ’’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘ یا موافق مثل ’’کرے ڈاڑھی والا اور پکڑا جائے مونچھوں والا‘‘ اور بہت سے بے گناہ اس سلسلہ میں تباہ وبرباد ہو گئے۔ مثلاً سنا ہے کہ آپ نے اسی پیش گوئی کے سلسلہ میں اپنی ایک پاکباز بیوی کو طلاق دے دی اور دو لائق وشریف لڑکوں کو عاق کر دیا اور عزت بی بی (محمدی بیگم کی پھوپھی زادہ بہن) کو طلاق دلوادی۔ کیا یہ سب باتیں صحیح ہیں؟
مرزاقادیانی: ماسٹر صاحب سنئے! اس سلسلہ میں جو کچھ میں نے کیا وہ مندرجہ ذیل ہے۔ باقی سب غلط۔
قول:۴۴… ’’میرا بیٹا سلطان احمد نام جو لاہور میں نائب تحصیلدار ہے… وہی اس مخالفت پر آمادہ ہوگئے ہیں اور یہ سارا کام اپنے ہاتھ میں لے کر اس تجویز میں ہیں کہ عید کے دن یا اس کے بعد اس لڑکی (محمدی بیگم) کا کسی سے نکاح کر دیا جائے۔‘‘ چند سلطان احمد کو سمجھایا اور بہت تاکیدی خط لکھے کہ تو اور تیری والدہ اس کام سے الگ ہو جاؤ مگر انہوں نے میرے خط کا جواب تک نہ دیا۔ لہٰذا میں آج کی تاریخ کہ دوسری مئی ۱۸۹۱ء ہے۔ عوام اور خواص پر بذریعہ اشتہار ہذا ظاہر کرتا ہوں کہ اگر یہ لوگ اس ارادہ سے باز نہ آئے… اور جس شخص کو انہوں نے نکاح کے لئے تجویز کیا ہے۔ اس کو رد نہ کردیا (اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود پیش گوئی کے پورا ہونے کی مخالفت کر رہے تھے۔ پیش گوئی میں تو محمدی کا بیوہ ہونا ضروری تھا اور بیوہ ہو کر آپ کے نکاح میں آنے کے واسطے نکاح اوّل ضروری تھا۔ (قول مرزا نمبر۴۶) مجھے اس معمہ کی سمجھ نہیں آئی۔ ابوعبیدہ) بلکہ اس شخص کے ساتھ نکاح ہوگیا تو اسی نکاح کے دن سے سلطان احمد (میرا بیٹا) عاق اور محروم الارث ہوگا اور اسی روز سے اس کی والدہ پر میری طرف سے طلاق ہے اور اگر اس کا بھائی فضل احمد جس کے گھر میں محمدی بیگم کے والد مرزا احمد بیگ کی بھانجی ہے۔ اپنی اس بیوی کو اسی دن جو اس کو (محمدی بیگم کے) نکاح کی خبر ہو طلاق نہ دے تو پھر وہ بھی عاق اور محروم الارث ہوگا اور آئندہ ان سب کا کوئی حق میرے پر نہیں ہوگا… اب ان سے کچھ تعلق رکھنا قطعاً حرام… اور ایک دیوثی کام ہے۔ مؤمن دیوث نہیں ہوتا۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۲ ص۹تا۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۱۹تا۲۲۱)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
محمدی بیگم سے پہلے کتنی بیویاں تھیں؟ محمدی بیگم سے نکاح کے لیے اس کے ماموں کو لالچ دیا

ابوعبیدہ: جناب والا محمدی بیگم کے نکاح سے پہلے آپ کے نکاح میں کتنی بیویاں تھیں؟
قول:۴۵… ’’میری کل تین بیویاں بیاہ ہوئی تھی۔ جن کے متعلق میرے الہامات ذیل شاہد عدل ہیں۔ ’’ یا آدم اسکن انت وزوجک الجنۃ یا مریم اسکن انت وزوجک الجنۃ یا احمد اسکن انت وزوجک الجنۃ ‘‘ اس جگہ تین جگہ زوج کا لفظ آیا ہے اور تین نام اس عاجز کے رکھے گئے ہیں۔ پہلا نام آدم، یہ وہ ابتدائی نام ہے جب کہ خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس عاجز کو روحانی وجود بخشا۔ اس وقت پہلی زوجہ کاذکر فرمایا۔ (اس بیوی کو باوجود مبشرہ بالجنۃ ہونے کے مرزاقادیانی نے بعد میں محمدی بیگم کے نکاح کی زد میں لاکر طلاق دے دی تھی۔ ناقل) پھر دوسری زوجہ کے وقت میں (خدا نے میرا نام) مریم رکھا… اور تیسری زوجہ (محمدی بیگم ہے۔ ناقل) جس کا انتظار ہے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۴، خزائن ج۱۱ ص۳۳۸)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی آپ کے اس الہام کی رو سے تو پہلی بیوی قطعاً دین دار اور جنتی معلوم ہوتی ہے۔ مگر آپ نے اس الہام الٰہی کے خلاف اس کو دشمن دین سمجھ کر طلاق دے دی۔ میں اس معمہ کو حل نہیں کر سکا۔ جمع بین النقیضین معلوم ہوتی ہے۔
آمدم برسرمطلب۔ میرا خیال ہے کہ شاید آپ کو محمدی بیگم کی پیش گوئی میں غلطی لگ رہی ہے۔ جب خدا نے اس کا نکاح سلطان محمد کے ساتھ کر دیا تو اب آپ کیا امید رکھتے ہیں؟
مرزاقادیانی: صاحب! مجھے بھی الہام در الہام کے ذریعہ خدا نے بتایا ہے کہ وہ بیوہ ہوکر میرے نکاح میں ضرور آئے گی۔ دیکھو میرا الہام ذیل اور اس کی بحث۔
قول:۴۶… ’’(الہام) ’’ بکر وثیب ‘‘ یعنی مقدریوں ہے کہ ایک بکر (کنواری) سے شادی ہوگی اور پھر بعدہ ایک بیوہ سے۔ میں اس الہام کو یاد رکھتا ہوں۔‘‘
(اس بیوہ سے مراد محمدی بیگم کے سوا اور کون ہوسکتی ہے۔ ناقل)
(ضمیمہ انجام آتھم ص۱۴، خزائن ج۱۱ ص۲۹۸)
ابوعبیدہ: جناب! کہتے ہیں کہ ایسے مشکل کاموں میں متعلقین کو انعام واکرام دینے سے بہت دفعہ کام نکل جاتا ہے۔ آپ نے اگر محمدی بیگم کے ماموں مرزاامام الدین صاحب کو کچھ انعام دیا ہوتا تو وہ ضرور آپ کا کام کرادیتا۔ کیونکہ وہ بہت بارسوخ آدمی تھا۔ (مرزاامام الدین۔ مرزاقادیانی کا چچازاد بھائی تھا)
مرزاقادیانی: ماسٹر صاحب! اس کا جواب میرے مرید میاں عبداﷲ سنوری اور میرے صاحبزادے مرزابشیر احمد کی زبانی سنئے:
قول میاں عبداﷲ سنوری ’’ایک دفعہ حضرت صاحب جالندھر جاکر قریباً ایک ماہ ٹھہرے تھے اور ان دنوں میں محمدی بیگم کے ایک حقیقی ماموں نے محمدی بیگم کا حضرت صاحب سے رشتہ کرادینے کی کوشش کی تھی۔ مگر کامیاب نہ ہوا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب محمدی بیگم کا والد مرزااحمد بیگ ابھی زندہ تھا اور ابھی محمدی بیگم کا سلطان محمد سے رشتہ نہیں ہوا تھا۔ محمدی بیگم کا یہ ماموں… حضرت صاحب سے کچھ انعام کا خواہاں بھی تھا اور چونکہ محمدی بیگم کے نکاح کا عقدہ زیادہ تر اسی شخص کے ہاتھ میں تھا۔ اس لئے حضرت صاحب نے اس سے کچھ انعام کا وعدہ بھی کر لیا تھا۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۹۲،۱۹۳، روایت نمبر۱۷۹)
قول مرزا بشیر احمد ولد مرزاقادیانی
’’یہ شخص (مرزا امام الدین ماموں محمدی بیگم) اس معاملہ میں بدنیت تھا اور حضرت صاحب سے صرف کچھ روپیہ اڑانا چاہتا تھا۔ کیونکہ بعد میں یہی شخص اور اس کے دوسرے ساتھی اس لڑکی کے دوسری جگہ بیاہے جانے کا موجب ہوئے۔ (صاحب! اس طرح تو وہ پیش گوئی کو پورا کر رہا تھا۔ یعنی اس کی بیوگی کا سامان مہیا کر رہا تھا۔ محمدی کا پہلے کہیں نکاح ہوتا تو وہ بیوہ ہوکر آپ کے والد کے نکاح میں آتی نا۔ پس وہ تو اچھا کر رہا تھا نہ کہ بدنیت کہلانے کا مستحق تھا۔ ابوعبیدہ) مگر مجھے والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا کہ حضرت صاحب نے بھی اس شخص کو روپیہ دینے کے متعلق بعض حکیمانہ احتیاطیں (باوجود کوشش کے ہمیں وہ احتیاطیں معلوم نہیں ہوسکیں، افسوس۔ ابوعبیدہ) ملحوظ رکھی ہوئی تھیں۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۹۲،۱۹۳، روایت نمبر۱۷۹)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
1901ء عدالت میں بیان حلفی، مرزا کی نکاح کے لیے دعائیں،نکاح نہ ہوا تومرزا ہر ایک سے بدتر

ابوعبیدہ: مرزاقادیانی! آپ نے غلطی کی۔ ایسے موقعہ پر جب کہ عزت اور بے عزتی بلکہ صداقت اور بطالت کا سوال درپیش ہو۔ آپ نے بے جا کنجوسی کی۔ روپے کو ایسے موقعہ پر پانی کی طرح بہا دینا چاہئے تھا۔ غالباً آپ کی بے جا کفایت شعاری نے کام خراب کر دیا تھا۔ چونکہ آپ نے ابھی تک دامن امید کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ کیا آپ نے ۱۹۰۱ء میں اس عورت کے متعلق عدالت میں کوئی حلفی بیان دیا تھا؟
مرزاقادیانی: ہاں صاحب! مندرجہ ذیل بیان میں نے عدالت میں حلفی دیا تھا اور ہمارے اخبار الحکم قادیان مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۱ء میں شائع بھی ہوگیا تھا۔
قول:۴۷… ’’یہ سچ ہے کہ محمدی بیگم میرے ساتھ بیاہی نہیں گئی۔ مگر میرے ساتھ اس کا بیاہ ضرور ہوگا۔ جیسا کہ پیش گوئی میں درج ہے اور وہ سلطان محمد سے بیاہی گئی۔ جیسا کہ پیش گوئی میں تھا۔ (پھر آپ نے پیش گوئی کے اس جزو کی مخالفت کیوں کی۔ یعنی سلطان محمد کے نکاح کرانے والوں کو عذاب کا مستحق قرار دیا۔ بیوی کو چھوڑ دیا۔ بیٹا عاق کر دیا۔ ابوعبیدہ) عورت اب تک زندہ ہے۔ میرے نکاح میں وہ عورت ضرور آئے گی۔ امید کیسی یقین کامل ہے۔ یہ خدا کی باتیں ہیں۔ ٹلتی نہیں ہوکر رہیں گی۔‘‘ (یہ تو ٹل گئیں۔ آپ کے نکاح کو خدا نے فسخ کر دیا۔ دیکھو قول نمبر۵۵۔ ابوعبیدہ)
(منظور الٰہی ص۲۴۵)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی! اس پیش گوئی کی عظمت تو اسی سے ظاہر ہے کہ یہ تقدیر مبرم ہے۔ تاہم اس کے متعلق آپ نے کوئی دعا کی ہو تو وہ بھی فرمادیجئے۔
مرزاقادیانی: ماسٹر صاحب! یہ دعا ضرور کرتا رہا ہوں۔
قول:۴۸… ’’میں دعا کرتا ہوں کہ اے خدائے قادر وعلیم! اگر احمد بیگ کی دختر کلاں (محمدی بیگم) کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا تیری طرف سے ہے تو ان کو ایسے طور سے ظاہر فرما جو خلق اﷲ پر حجت ہو اور کور باطن حاسدوں کا منہ بند ہو جائے اور اگر اے خداوندا یہی پیش گوئی تیری طرف سے نہیں ہے تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر۔ اگر میں تیری نظر میں مردود اور ملعون اور دجال ہی ہوں۔ جیسا کہ مخالفوں نے سمجھا ہے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۳ ص۱۸۶، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۱۶)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی! آپ تو بڑے مخلص معلوم ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزاسلطان محمد آف پٹی نے آپ کی موجودگی میں ضرور ہلاک ہوجانا تھا اور اس طرح آپ کے نکاح کے لئے محمدی بیگم کو بیوہ کر دینا تھا۔ مگر میرا خیال ہے کہ آپ بوڑھے ہوچکے ہیں اور وہ ابھی تک دندناتا پھرتا ہے۔ اس کا آپ سے پہلے مرنا طبعاً قرین قیاس نہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے اور اگر وہ آپ سے پہلے نہ مرا تو پھر تو کوئی جواب اور تاویل نہ چل سکے گی۔
مرزاقادیانی! واقعی ٹھیک ہے۔ سنئے!
قول:۴۹… ’’میں باربار کہتا ہوں کہ نفس پیش گوئی داماد احمد بیگ کی (موت کی) تقدیر مبرم ہے۔ اس کی انتظار کرو۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیش گوئی پوری نہیں ہوگی۔ (یعنی سلطان محمد میری زندگی میں فوت نہیں ہوگا اور محمدی بیگم میرے نکاح میں نہیں آئے گی۔ ناقل) اور میری موت آجائے گی۔‘‘
(انجام آتھم ص۳۱ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۳۱ حاشیہ)
قول:۵۰… ’’یاد رکھو کہ اس پیش گوئی کی دوسری جزو پوری نہ ہوئی (یعنی مرزاسلطان محمد آف پٹی نہ مرا اور میرے لئے محمدی کو بیوہ نہ کر گیا۔ ناقل) تو میں ہر ایک بد سے بدتر ٹھہروں گا۔ اے احمقو! یہ انسان کا افتراء نہیں ہے۔ یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں۔ یقینا سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۴، خزائن ج۱۱ ص۳۳۸)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
محمدی بیگم کا شوہرپیشنگوئی کے مطابق کیوں نہ مرا؟، مرزا کا نکاح زمین پر ہی ہونا تھا۔

ابوعبیدہ: جناب عالیٰ! آپ کی پیش گوئی کے مطابق احمد بیگ کے داماد صوبیدار میجر سلطان محمد آف پٹی نے ۱۸۹۵ء میں فوت ہوجانا تھا۔ مگر وقت مقررہ پر کیوں نہیں مرا؟
مرزاقادیانی: ماسٹر صاحب! مرزاسلطان محمد آف پٹی کی پیش گوئی تو انذاری تھی۔
قول:۵۱… ’’وہ اپنے خسر کی موت کے بعد بہت ڈرگیا کہ قریب تھا کہ وہ اس حادثہ کے معلوم ہونے پر مر جاتا اور اس کو اپنی جان کا فکر لگ گیا اور محمدی بیگم کے ساتھ نکاح ہوجانے کو وہ ایک آسمانی آفت (اس آفت کو دور کرنے کا آسان علاج تھا۔ محمدی بیگم کو طلاق دے کر آپ کے حوالے کر دیتا اور عیش کرتا رہتا۔ ٹھیک ہے نا صاحب۔ ابوعبیدہ) سمجھنے لگ گیا۔ اس واسطے اس کی موت میں تأخیر واقع ہوگئی۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۲۰،۲۲۱، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
ابوعبیدہ: جناب کی پیش گوئی بابت موت سلطان محمد خاوند محمدی بیگم واقعی انذاری تھی۔ جس کا ملخص یہ ہے کہ جو شخص محمدی بیگم کے ساتھ نکاح کرے گا۔ وہ اڑھائی سال کے اندر اندر مر جائے گا۔ ٹھیک ہے نا مرزاقادیانی! کیونکہ آپ نے اپنے قول نمبر۳۲ میں یہی فرمایا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ محمدی بیگم کا خاوند پیش گوئی کی زد میں صرف محمدی بیگم کے ساتھ نکاح کر لینے کی وجہ سے آیا تھا۔ ورنہ نکاح سے پہلے تو آپ کو سلطان محمد آف پٹی سے غالباً کوئی جان پہچان بھی نہ تھی۔ سلطان محمد کا جرم صرف یہی تھا کہ اس نے ایک ایسی لڑکی سے نکاح کر لیا۔ جس کے ساتھ خدا نے آپ کا نکاح آسمان پر باندھا ہوا تھا اور آپ کے قول کے مطابق چونکہ محمدی بیگم کا آپ کے نکاح میں آنا تقدیر مبرم تھا۔ اس واسطے اس کے خاوند کا مرنا بھی تقدیر مبرم ہونا چاہئے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
مرزاقادیانی: ہاں صاحب! بالکل ٹھیک ہے۔ میرے مذکورہ بالا اقوال اس پر شاہد عادل کا حکم رکھتے ہیں۔
ابوعبیدہ: صاحب! میری عرض یہ ہے کہ سلطان محمد کی موت میں تاخیر ازروئے پیش گوئی ہو نہیں سکتی تھی۔ اس کا جرم تھا آپ کی آسمانی بیوی کے ساتھ نکاح کر لینا۔ اس کی سزا موت کی صورت میں مقدر ہوچکی تھی۔ سلیس اردو میں یوں سمجھیں کہ اگر سلطان محمد سے محمدی کے ساتھ نکاح کرنے کا جرم سرزد ہوا تو وہ اڑھائی سال کے اندر اندر مر جائے گا۔ اس نے موت کی پرواہ نہ کی اور نکاح کر لیا۔ اب پیش گوئی کے مطابق اسے ضرور اڑھائی سال کے اندر مرنا چاہئے تھا۔
مرزاقادیانی: (خاموش ہوگئے)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی مدت کے سوال کو جانے دیجئے اور سلطان محمد کا اپنی موت سے بے پرواہ ہوکر محمدی کے ساتھ نکاح کر لینا بھی تسلیم سہی۔ ہم آپ کا یہ عذر بھی تسلیم کر لیتے ہیں کہ سلطان محمد بعد میں موت سے ڈرگیا۔ لہٰذا نہ مرا۔ اب اگر وہ ساری عمر موت سے ڈرتا رہا تو پھر تو آپ کے اصول سے ہمیشہ موت کا شکار ہونے سے بچتا رہے گا اور اس طرح انذاری پیش گوئی کی اس خاصیت سے وہ فائدہ اٹھاتا رہا۔ تاآنکہ جناب اس دنیا سے تشریف لے جائیں۔ اس صورت میں محمدی بیگم کا نکاح جناب سے کیسے ہو سکے گا؟ میرے خیال میں آپ میری اس دلیل کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔
مرزاقادیانی: ماسٹر صاحب! میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب سلطان محمد آف پٹی میری زندگی میں نہیں مرے گا۔ ذرا میرے الہامات سابقہ کا پھر مطالعہ کیجئے۔ بالخصوص ’’ فسیکفیکہم اﷲ ویردھا الیک لا تبدیل لکلمات اﷲ ‘‘ اگر سلطان محمد میری زندگی میں نہ مرے تو الہام میں ’’ یردھا ‘‘ کے الفاظ بالکل بے معنی ٹھہرتے ہیں۔ باقی رہا سلطان محمد کا ہمیشہ ڈر ڈر کر جان بچاتے رہنا سو یہ ناممکن ہے۔ سنئے!
قول:۵۲… ’’تحقیق میرے رشتہ دار بالخصوص سلطان محمد وغیرہ۔ دوبارہ فساد کریں گے اور خبث وعناد میں ترقی کریں گے۔ پس اس وقت خداتعالیٰ اس مقدر امر کو نازل کرے گا۔ کوئی آدمی اس کی قضا کو رد نہیں کر سکتا اور میں دیکھتا ہوں کہ وہ پھر پہلی عادتوں کی طرف مائل ہورہے ہیں اور ان کے دل سخت ہوگئے ہیں… اور خوف کے دنوں کو پھر بھلا دیا ہے اور ظلم اور تکذیب کی طرف پھر عود کر رہے ہیں۔ پس عنقریب خدا کا امر ان پر نازل ہوکر رہے گا۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۲۳،۲۲۴، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
قول:۵۳… ’’میں نے تمہیں یہ نہیں کہا کہ بس اسی جگہ سارا معاملہ ختم ہو جائے گا۔ (یعنی سلطان محمد کے ڈرنے اور پھر موت سے بچ جانے پر ہی معاملہ ختم نہیں ہوجاتا۔ ناقل) اور بس یہی نتیجہ تھا جو ظاہر ہوگا اور محمدی بیگم اور اس کے خاوند کی پیش گوئی بس اس پر ختم ہوگئی۔ بلکہ اصلی پیش گوئی اپنے حال پر قائم ہے اور کوئی آدمی کسی حیلہ یا مکر سے اسے روک نہیں سکتا اور یہ پیش گوئی خدائے بزرگ کی طرف سے تقدیر مبرم ہے اور عنقریب وہ وقت آئے گا۔ مجھے قسم ہے خدا کی کہ محمدی بیگم کے خاوند کے مرنے اور اس کے بعد محمدی بیگم کے میرے نکاح میں آنے کی پیش گوئی سچی ہے۔ پس عنقریب تم دیکھ لو گے۔ میں اس پیش گوئی کو اپنے سچایا جھوٹا ہونے کے لئے معیار قرار دیتا ہوں اور میں نے جو کچھ کہا الہام اور وحی سے معلوم کر کے کہا ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی! ماشاء اﷲ آپ کو تو اپنے الہام اور وحی پر پورا پورا اعتماد بلکہ ایمان ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ واقعات کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ پیش گوئی پوری نہ ہوگی۔ کیسا اچھا ہوتا۔ اگر محمدی بیگم کی پیش گوئی اس بیچاری کو بیوہ کر کے آپ کے نکاح میں لانے کی بجائے کنواری حالت میں ہی آپ کے ساتھ نکاح ہو جانے تک محدود رہتی نہ سلطان محمد درمیان میں آتا نہ اس کی موت کا سوال پیدا ہوتا۔
مرزاقادیانی: ماسٹر صاحب! میرا خدا بڑا قادر مطلق اور حکیم ہے۔ سنئے اصل حقیقت۔
قول:۵۴… ’’خداتعالیٰ نے لفظ ’’ فسیکفیکہم اﷲ ‘‘ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ میں احمد بیگ کی بیٹی کو تمام رکاوٹیں دور کر کے واپس لاؤں گا۔ اصل مقصود ہی پیش گوئی کا محمدی بیگم کے خاوند کو ہلاک کرنا ہے اور باقی رہا محمدی بیگم کا اس قدر زبردست رکاوٹ کو دور کر کے میرے نکاح میں لانا۔ یہ پیش گوئی کی عظمت کو بڑھانے کے واسطے ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۱۶،۲۱۷، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
محمدی بیگم کی ایک درجن سے زیادہ اولاد ہو چکی، خاوند بھی صحت مند

ابوعبیدہ: جناب والا! اب ۱۹۰۷ء میں تو جناب کی عمر حسب الہام ’’ ثمانین حولاً ‘‘ اور ’’ قریباً من ذالک ‘‘ کم وبیش ۸۰،۸۵سال ہونے والی ہوگی۔ سنا ہے کہ وہ لڑکی (محمدی بیگم) اس وقت تک ایک درجن تک اولاد نرینہ بھی پیدا کر چکی ہے۔ اس کے خاوند کا یہ حال ہے کہ اس کی صحت ابھی تک بہت ہی عمدہ ہے۔ بظاہر تو مرتا نظر نہیں آتا۔ ابھی پورے زور پر ہے اور ادھر آپ کا یہ حال ہے کہ ذیابیطس، دوران سر، بدہضمی اور مراق وغیرہ امراض نے جسم کو ویسے بے حد کمزور کر دیا ہے۔ اب یہ پیش گوئی کیسے پوری ہوگی۔ آپ کی پیش گوئی کی رو سے تو وہ عظیم الشان لڑکا جس کی شان آپ نے ازالہ اوہام میں یہ لکھی ہے: ’’ کان اﷲ نزل من السماء ‘‘ یعنی گویا کہ خود خدا ہی آسمان سے نازل ہوگیا۔ نیز جو آپ کی مسیحیت کی نشانی بننے والا تھا۔ آپ کے قول کے مطابق محمدی کے بطن سے پیدا ہونا تھا۔ پیش گوئی کے اس حصہ کا کیا جواب ہوگا؟ اب تو حالت یاس تک پہنچ چکی ہے۔ قصہ ختم کرنا چاہئے۔ شاید آسمان پر محمدی کے ساتھ آپ کا نکاح پڑھا جانا قوت متخیلہ کا نتیجہ ہو۔ آپ نے اجتہاد سے تخیل کا نام الہام رکھ لیا ہو۔ اس میں آپ معذور بھی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ اجتہادی غلطی تو آپ سے ہوسکتی ہے۔
قول:۵۵… ’’یہ امر کہ الہام میں یہ بھی تھا کہ اس عورت کا نکاح آسمان پر میرے ساتھ پڑھاگیا ہے۔ یہ درست ہے مگر جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ اس نکاح کے ظہور کے لئے ایک شرط بھی تھی۔ جو اسی وقت شائع کی گئی تھی اور وہ یہ کہ: ’’ ایتہا المرأۃ توبی توبی ان البلاء علیٰ عقبک ‘‘ پس جب ان لوگوں نے اس شرط کو پورا کر دیا تو نکاح فسخ ہوگیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘

(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۲، خزائن ج۲۲ ص۵۷۰)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
بیس سال انتظار کے باوجود محمدی بیگم نکاح میں نہ آئی

ابوعبیدہ: خوب! آپ کے ان چند فقرات نے تو آپ کے دعوی کی حقیقت الم نشرح کر دی۔ ۱۸۸۶ء سے شروع کر کے ۱۹۰۷ء تک برابر ۲۰سال آپ نے صرف محمدی بیگم کے نکاح کی امید ہی میں بیٹھے رہے۔ بلکہ اسے تقدیر مبرم قرار دیتے رہے۔ آپ کے بیسیوں اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ محمدی بیگم کے خاوند کا نہ مرنا گویا آپ کے جھوٹا ہونے پر مہر ہوگی۔ پھر محمدی بیگم کا آپ کے نکاح میں آنا تقدیر مبرم تھا جو ٹکل نہیں سکتی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے سب دعاوی معہ اس پیش گوئی کے غلط ہیں۔
مرزاقادیانی: (سرجھکائے ہوئے) ماسٹر صاحب! ہماری جماعت میں سب سے بڑے فلسفی ومنطقی حکیم نورالدین صاحب ہی ہیں۔ شاید وہ کچھ اس معمہ کے حل کرنے میں ہماری مدد کر سکیں۔ کیوں مولوی جی!
حکیم نورالدین قادیانی: ماسٹر صاحب! ہمارے حضرت صاحب کا ایک نکتہ کی طرف خیال نہیں گیا۔ ورنہ آپ کے تمام اعتراضات کا جواب صرف ایک فقرہ میں ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے۔
قول حکیم نور الدین قادیانی
’’جب مخاطبت میں مخاطب کی اولاد مخاطب کے جانشین اور اس کے مماثل داخل ہو سکتے ہیں تو احمد بیگ کی لڑکی یا اس لڑکی کی لڑکی کیا داخل نہیں ہوسکتی… اور کیا مرزاقادیانی کی اولاد مرزاقادیانی کی عصبہ نہیں۔ میں نے باربار عزیز میاں محمود کو کہا کہ اگر حضرت کی وفات ہو جائے اور یہ لڑکی (محمدی بیگم) نکاح میں نہ آئے۔ میری عقیدت میں تزلزل نہیں آسکتا۔ پس اگر محمدی حضرت کے نکاح میں نہ آئی تو پرواہ نہیں۔ اس کی لڑکی یا لڑکی درلڑکی اگر حضرت کے لڑکے یا لڑکے در لڑکے کے نکاح میں آ گئی تو بھی پیش گوئی پوری ہو جائے گی۔‘‘
(ریویو آف ریلیجنز ج۷ ش۷ ص۲۷۹، جولائی ۱۹۰۸ء)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی! واقعی آپ کے صحابی حضرت مولوی نورالدین قادیانی ایسے منطقی عالم ہیں کہ اپنے علم اور منطق کے زور سے آدمی کو گدھا اور گدھے کو آدمی ثابت کر سکتے ہیں۔ مگر ان کی منطق ہمارے سامنے نہیں چل سکتی۔ خیال کریں کہ آپ کے کم وبیش ۵۰اقوال سے ثابت ہورہا ہے کہ محمدی بیگم ہی آنجناب کی بیوی بنیں گی اور پھر آپ کے ہاں وہ لڑکا پیدا ہوگا۔ جس کے متعلق آپ کی پیش گوئی موجود ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مولوی نورالدین قادیانی آپ کی پیش گوئی کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
مرزاقادیانی: اچھا! دیکھیں مولانا محمد علی صاحب ایم۔اے ، ایل ایل بی وکیل ہیں۔ شاید کوئی حیلہ اور تاویل کر کے آپ کی تشفی کر سکیں۔ کیونکہ مولانا؟
مولوی محمد علی مرزائی لاہوری ماسٹر صاحب! یہ سچ ہے کہ مرزاقادیانی نے کہا تھا کہ نکاح ہوگا اور یہ بھی سچ ہے کہ نکاح نہیں ہوا… مگر میں کہتا ہوں کہ ایک بات کو لے کر سب باتوں کو چھوڑ دینا ٹھیک نہیں۔ کسی امر کا فیصلہ مجموعی طور پر کرنا چاہئے۔ جب تک سب کو نہ لیا جائے ہم نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے۔ صرف ایک پیش گوئی لے کر بیٹھ جانا اور باقی پیش گوئیوں کو چھوڑ دینا… یہ طریق انصاف نہیں۔
(اخبار پیغام صلح لاہور مورخہ ۱۶؍جنوری ۱۹۲۱ء)
ابوعبیدہ: مرزاقادیانی! میں تو مولانا محمد علی قادیانی کے جواب پر کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ کیا آپ کچھ فرمائیں گے؟
مرزاقادیانی: ماسٹر صاحب! میں تو کہہ چکا ہوں۔ ’’میں اس پیش گوئی کو اپنے صدق یا کذب کا معیار بناتا ہوں۔‘‘
پس مولانا محمد علی صاحب جو کچھ کہہ رہے ہیں۔ بامر مجبوری کہہ رہے ہیں اور غلبہ محبت میں کہہ رہے ہیں۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔
ابوعبیدہ: اچھا جناب عالیٰ! چند اور معروضات بیان کر کے رخصت ہوتا ہوں۔ چند ایک سوالات میرے دل میں پیدا ہورہے ہیں۔ میں بیان کرتا ہوں آپ غور کیجئے اور اگر کوئی جواب معقول ہو تو بیان کر کے ممنون فرمائیے۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
محمدی بیگم کے متعلق قادیانیوں سے دس سوالات

سوال:۱…آپ نے قول نمبر۵۵ میں فرمایا ہے کہ اس پیش گوئی کے ساتھ ایک شرط بھی تھی جو اسی وقت شائع کر دی گئی تھی۔ جہاں تک میں نے آپ کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ آپ نے پیش گوئی کے اشتہارات میں کہیں اس فقرہ کو محمدی بیگم کے ساتھ نکاح والی پیش گوئی کے لئے شرط قرار نہیں دیا۔ اگر ایسا ہے تو براہ کرم پیش گوئی کے ساتھ اس کا بطور شرط شائع ہونا ثابت کریں۔ ہم آپ کے بہت ہی ممنون ہوں گے۔ کیونکہ آپ ہمارے علم میں اضافہ کا باعث ہوں گے۔
سوال:۲… ’’ توبی توبی ‘‘ توبہ کر، اے عورت! توبہ کر، اے عورت! ’’ ان البلاء علیٰ عقبک ‘‘ بے شک بلا تیرے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ ’’ ای علیٰ بنتک وبنت بنتک ‘‘ یعنی بلا تیری بیٹی (احمد بیگ کی بیوی) اور تیری بیٹی کی بیٹی (محمدی بیگم) کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۱۴، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
آپ فرماتے ہیں کہ یہ شرط تھی جو اسی وقت شائع کر دی گئی تھی۔ اگر یہ شرط موجود تھی تو پیش گوئی مشروط ہوئی۔ اگر پیش گوئی مشروط تھی تو آپ نے اپنے مذکورہ بالا بیسیوں اقوال میں کیوں اس پیش گوئی کو تقدیر مبرم قرار دیا۔ کیا یہ محض دھوکا اور جھوٹ ثابت نہیں ہوتا؟
سوال:۳… اگر مان لیا جائے کہ انہوں نے توبہ کی اور عذاب میں تاخیر ہوگئی۔ مگر خود آپ قول نمبر۵۲ میں اعلان کر رہے ہیں کہ وہ پھر توبہ توڑ چکے ہیں اور عنقریب عذاب کا شکار ہوں گے۔ پس جب وہ توبہ توڑ چکے ہیں تو پیش گوئی کا پورا ہونا ضروری تھا۔ اب تو یہ عذر بھی نہ رہا کہ وہ توبہ کر رہے ہیں۔
سوال:۴… ان کا گناہ تو محمدی بیگم کا آپ سے چھین لینا تھا۔ جب انہوں نے محمدی بیگم کو آپ کے نکاح میں نہ دیا تو توبہ کہاں ہوئی۔ پس جب تو بہ ہی ثابت نہیں تو عذاب کیوں نہ آیا؟
سوال:۵… شرط توبی توبی سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ توبہ نہ کرتے تو پھر محمدی بیگم ضرور آپ کے نکاح میں آجاتی۔ چونکہ انہوں نے توبہ کر لی۔ اس واسطے ان کی توبہ کی وجہ سے محمدی بیگم آپ کے نکاح میں آنے سے بچ گئی۔ پس صاف ثابت ہوا کہ توبہ نہ کرنے کی صورت میں ان پر بلا نازل ہو جاتی۔ گویا محمدی بیگم کا آپ کے نکاح میں آنا محمدی بیگم کے لئے ایک ذلت والا عذاب تھا جو ان کی توبہ سے ٹل گیا۔ مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک ’’نبی‘‘ کے نکاح میں آنا تو رحمت ہوتا ہے۔ عذاب کیوں کر ہوگیا۔ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ ان کی توبہ اس طرح تھی کہ وہ محمدی بیگم آپ کو دے دیتے۔ پھر وہ عذاب سے بچ جاتے۔ مگر آپ اس کے خلاف نادانستہ طور پر خود اپنی توہین کر رہے ہیں کہ ان کی توبہ سے محمدی بیگم آپ سے بچ گئی۔ اگر یہ صحیح ہے تو واقعی پھر محمدی بیگم اور اس کے اقارب قابل تبریک ہیں کہ وہ آپ کے نکاح میں آنے کے عذاب سے بچ گئی۔
سوال:۶… آپ اپنے قول نمبر۲۰ میں فرمارہے ہیں کہ یہ نکاح محمدی بیگم اور اس کے اقارب کے لئے ایک رحمت کا نشان ہوگا۔ مگر قول نمبر۵۵ میں محمدی بیگم کا آپ سے بچ نکلنا باعث رحمت قرار دیا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی توبہ تھی۔ پس آپ کا کون سا قول سچا سمجھا جائے۔
سوال:۷… آپ نے تسلیم کیا ہے کہ خود خدا نے آپ کا نکاح آسمان پر محمدی بیگم کے ساتھ باندھ دیا تھا۔ یہ بھی آپ تسلیم کرتے ہیں کہ پھر سلطان محمد نے اس کو اپنے نکاح میں لے لیا۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا سلطان محمد کا نکاح محمدی بیگم کے ساتھ جائز تھا یا ناجائز؟ ہمارے خیال میں آسمانی نکاح زمینی نکاح سے زیادہ مضبوط اور پکا ہونا چاہئے۔
پس سوال یہ ہے کہ باوجود محمدی بیگم کے سلطان محمد کے ساتھ آباد ہونے کے وہ آپ کی منکوحہ بھی تھی یا نہ۔ اگر منکوحہ تھی تو آپ نے اس کا بازو لینے کی کوئی قانونی جارہ جوئی کیوں نہ کی؟
سوال:۸… ’’نکاح فسخ ہوگیا یا تاخیر میں پڑ گیا۔‘‘ فسخ ہونا اور تاخیر میں پڑ جانا دو متضاد چیزیں ایک واقعہ پر کس طرح منطبق ہوسکتی ہیں؟ کیونکہ نکاح فسخ اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب پہلے نکاح ہو بھی چکا ہو۔ پس اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا نکاح ہوچکا تھا۔ تاخیر میں پڑ گیا سے ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح ابھی ہونا تھا۔ ملتوی ہوگیا۔ یعنی نکاح ابھی ہوا ہی نہیں تھا۔ پس یہ تو بتلائیے کہ کون سا پہلو سچا ہے؟
سوال:۹… جب آپ کا نکاح محمدی بیگم کے ساتھ ہوچکا تھا۔ اس کے بعد سلطان محمد نے جبراً نکاح پر نکاح پڑھا لیا۔ باوجود اپنی منکوحہ ہونے کے آپ محمدی بیگم کی بیوگی کا انتظار کیوں کرتے رہے؟ وہ تو آپ کی بیوی بن چکی تھی۔ دیکھئے رسول کریمﷺ کا نکاح بھی حضرت زینبؓ کے ساتھ خدا نے انہیں الفاظ سے پڑھایا تھا۔ جن الفاظ کو آپ خدا کی طرف منسوب کر رہے ہیں۔ یعنی ’’ زوجنا کھا ‘‘ وہ تو فوراً زمین پر وقوع پذیر ہوگیا۔ مگر محمدی بیگم کے ساتھ اسی قسم کا نکاح آپ کے ساتھ بیس سال تک رہا اور آپ اس سے استفادہ نہ کر سکے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
سوال:۱۰… اگر فرض کر لیا جائے کہ نکاح فسخ ہوگیا تو اس کی وجہ جو آپ نے بیان فرمائی ہے۔ وہ تو جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آے ہیں۔ بالکل عقل ونقل کے خلاف ہے۔ ہاں فسخ نکاح کی اور بھی کئی صورتیں ہیں۔ غور کیجئے! شاید ان میں سے کوئی وجہ واقع ہوگئی ہو اور جناب کو اس کے سمجھنے میں اجتہادی غلطی لگ گئی ہو۔
اوّل… نان ونفقہ نہ دینے سے نکاح فسخ کرایا جاسکتا ہے۔
دوم… مرد کو کوئی متعددی خبیث بیماری لگی ہو تو عورت نکاح فسخ کراسکتی ہے۔
سوم… اگر خاوند نامرد ہو جائے تو عورت غالباً نکاح فسخ کراسکتی ہے۔
چہارم… مرد اگر مرتد ہو جائے تو نکاح فسخ ہو جاتا ہے۔ کیا آپ مہربانی کر کے فرمائیں گے کہ ان وجوہات میں سے تو کوئی وجہ نہیں ہے؟
تلک عشرۃ کاملۃ!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top