مرزائی صاحبان ہمیشہ مناظرات میں ڈینگ مارا کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کو معیار انبیاء پر پرکھ لو خود مرزا صاحب بھی لکھتے ہیں:
'' میں اپنے دعویٰ کو منہاج نبوت پر پیش کرتا ہوں۔ منہاج نبوت پر جو طریق ثبوت کا رکھا ہوا ہے وہ مجھ سے جس کا جی چاہے لے لے۔'' (مفہوم الحکم جلد ۷ نمبر ۷ مورخہ ۲۱ ؍ فروری ۱۹۰۳ء ، ص۳ و ملفوظات مرزا قادیانی ص۳۸۴، ج۲)
'' میرا سلسلہ منہاج نبوت پر قائم ہوا ہے اس منہاج کو چھوڑ کر جو اس کو آزمانا چاہے وہ غلطی کرتا ہے۔''(الحکم جلد ۸ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰ ؍ اپریل ۱۹۰۴ء ص۷ والبدر جلد ۳ نمبر ۲۰، ۲۱ مورخہ ۲۴؍ مئی ویکم جون)
تو آئیے مرزا غلام احمد قادیانی کا یہ شوق بھی پورا کر دیتے ہیں ۔
معیار اوّل:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَّا اُنْزِلَ عَلَیْہِ مِنْ رَّبِہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَۃِ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۔ الآیہ (البقرہ 286)
مانا رسول نے جو اس پر نازل ہوا اور مومنوں نے سب کے سب ایمان لائے ہیں ساتھ اللہ کے اور فرشتوں کے اور کتابوں کے اور رسولوں کے آیت ہذا شاہد ہے کہ سب سے پہلے رسول اپنی وحی پر ایمان لاتا ہے خاص کر عہدہ رسالت پر اور بات بھی معقول ہے کہ جب تک کسی شخص کو اپنے عہدہ اور حیثیت پر خود اطلاع نہ ہو وہ اپنے اختیارات کو کیا برت سکتا ہے۔ یہ بات نہایت ہی بودی بلکہ لغو ہے کہ گورنمنٹ کسی کو وائسراے تو بنا دے اور اسے ڈیوٹی پر کھڑا بھی کردے مگر اُسے اس کے عہدہ پر اطلاع نہ دے یا وہ خود اپنی حیثیت کو نہ سمجھتا ہو۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں:
'' نبی کے لیے اس کے دعویٰ اور تعلیم کی مثال ایسی ہے جیسا کہ قریب سے آنکھ چیزوں کو دیکھتی ہے اور ان میں غلطی نہیں کرتی اور بعض اجتہادی امور میں غلطی ایسی ہے جیسے دور کی چیزوں کو دیکھتی ہے ۔( اعجاز احمدی ص25 و روحانی ص134، ج19)
اصل بات یہ ہے کہ جس یقین کو نبی کے دل میں اس کی نبوت کے بارے میں بٹھایا جاتا ہے وہ دلائل تو آفتاب کی طرح چمک اٹھتے ہیں اور اس قدر تواتر سے جمع ہوئے ہیں کہ وہ امر بدیہی ہو جاتا ہے۔ پھر بعض دوسری جزئیات میں اگر اجتہادی غلطی ہو بھی تو وہ اس یقین کو مضر نہیں ہوتی، نبیوں اور رسولوں کو ان کے دعویٰ کے متعلق بہت نزدیک سے دکھایا جاتا ہے اور اس میں اس قدر تواتر ہوتا ہے جس میں کچھ شک باقی نہیں رہتا۔''،( اعجاز احمدی ص26 و روحانی ص136، ج19)
اس عبارت سے مہر نیم روز کی طرح روشن کہ انبیاء کرام کو اپنی نبوت کے بارے میں ہرگز ہرگز کسی قسم کا شک و شبہ نہیں رہتا۔ بخلاف اس کے مرزا صاحب کا یہ حال ہے کہ انہیں ابتدا سے ہی نبی اور رسول کہا گیا ہے جیسا کہ لکھتے ہیں:
'' براہین احمدیہ میں بھی یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں۔ چنانچہ ۴۹۸ میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کرکے پکارا گیا پھر اسی کتاب میں یہ وحی ہے کہ خدا کا رسول نبیوں کے حلوں میں ، پھر اسی کتاب میں یہ وحی اللہ ہے محمد رسول اللہ الخ اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی اسی طرح گئی جگہ رسول کے لفظ سے اس عاجز کو یاد کیا گیا۔''(شتہار مرزا مورخہ ۵؍ نومبر ۱۹۰۱ء بنام ، ایک غلطی کا ازالہ، مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا قادیانی ص۴۳۲، ج۳ و روحانی ص۲۰۷، ج۱۸)
مگر مرزا صاحب برابر نبوت سے انکار کرتے رہے۔ بلکہ برملا کہتے رہے کہ مدعی نبوت:
'' مسیلمہ کذاب کا بھائی، کافر، خبیث ہے۔''( انجام آتھم ص۲۸ و روحانی ص۲۸، ج۱۱)
''ہم مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت کے ہم قائل ہیں۔''(ملحضا اشتہار مرزا مورخہ ۲۰؍ شعبان ۱۳۱۴ھ مندرجہ مجموعہ اشتھارات مرزا قادیانی ص۲۹۷، ج۲ و تبلیغ رسالت ص۲، ج۶)
'' میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔''( آسمانی فیصلہ ص۳ و روحانی ص۳۱۳ ، ج۴)
'' تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ فتح الاسلام، توضیح المرام، ازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنے سے نبی ہوتا ہے۔ یا محدثیت جزوی نبوت یا نا قصہ نبوت ہے یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی رو سے بیان کئے گئے ہیں ورنہ حاشا و کلا مجھے نبوت حقیقی کا ہرگز دعویٰ نہیں بلکہ میرا ایمان ہے کہ ہمارے سید و مولا محمد مصطفی خاتم الانبیاء ہیں۔ سو تمام مسلمان اگر ان لفظوں سے ناراض ہیں (جن میں جزوی نبوت وغیرہ کا دعویٰ ہے) تو ان الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرما کر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ لفظ نبی سے مراد صرف محدث ہے جس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متکلم مراد لیے ہیں قال النبی ﷺ قَدَ کَانَ فِیْمَنْ قَبْلَکُمْ مِن بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ رجال یکلمون من غیران یکونوا انبیاء اور لفظ نبی کو کاٹا ہوا خیال فرمائیں۔''(اشتھار مرزا مورخہ ۳؍ فروری ۱۸۹۳ء مندرجہ ، مجموعہ اشتھارات مرزا قادیانی ۳۱۳ تا ۳۱۴، ج۱ و حقیقت النبوۃ ص۹۱ تا ۹۲)
ان تمام مذکورہ بالا تحریرات سے ثابت ہے کہ مرزا صاحب باوجود بقول خود نبی ہونے کے اپنی نبوت سے انکاری رہے۔ میاں محمود احمد پسر مرزا خلیفہ قادیانی اپنی کتاب حقیقۃ النبوۃ پر لکھتے ہیں:
'' آپ کو براہین احمدیہ کے زمانہ سے جو وحی ہو رہی تھی اس میں آپ کو ایک دفعہ بھی مسیح (ابن مریم علیہ السلام نبی اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کم نہیں کہا گیا بلکہ افضل ہی بتایا گیا تھا۔ لیکن آپ چونکہ اپنے آپ کو غیر نبی سمجھتے تھے اس کے معنی اور کرتے رہے بعد کی وحیوں نے آپ کی توجہ اس طرف پھیری کہ ان (پہلی) وحیوں کا یہی مطلب تھا کہ آپ مسیح سے افضل اور نبی ہیں۔''
'' نبوت کا مسئلہ آپ پر ۱۹۰۰ء یا ۱۹۰۱ء میں کھلا ہے۔ ۱۹۰۱ء میں آپ نے اپنے عقیدے میں تبدیلی کی ہے۔ ۱۹۰۱ء سے پہلے کہ وہ حوالے جن میں آپ نے نبی ہونے سے انکار کیا ہے اب منسوخ ہیں۔''() حقیقت النبوۃ ص۱۲۱)
خلاصہ یہ کہ انبیاء کرام کو اپنے دعویٰ نبوت میں کبھی اور کسی قسم کا شک نہیں ہوسکتا۔ مگر مرزا صاحب نت نئے رنگ بدلتے رہے پس وہ معیار نبوت پر پورے نہیں اترے۔
(جاری ہے)
'' میں اپنے دعویٰ کو منہاج نبوت پر پیش کرتا ہوں۔ منہاج نبوت پر جو طریق ثبوت کا رکھا ہوا ہے وہ مجھ سے جس کا جی چاہے لے لے۔'' (مفہوم الحکم جلد ۷ نمبر ۷ مورخہ ۲۱ ؍ فروری ۱۹۰۳ء ، ص۳ و ملفوظات مرزا قادیانی ص۳۸۴، ج۲)
'' میرا سلسلہ منہاج نبوت پر قائم ہوا ہے اس منہاج کو چھوڑ کر جو اس کو آزمانا چاہے وہ غلطی کرتا ہے۔''(الحکم جلد ۸ نمبر ۱۲ مورخہ ۱۰ ؍ اپریل ۱۹۰۴ء ص۷ والبدر جلد ۳ نمبر ۲۰، ۲۱ مورخہ ۲۴؍ مئی ویکم جون)
تو آئیے مرزا غلام احمد قادیانی کا یہ شوق بھی پورا کر دیتے ہیں ۔
معیار اوّل:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَّا اُنْزِلَ عَلَیْہِ مِنْ رَّبِہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَۃِ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۔ الآیہ (البقرہ 286)
مانا رسول نے جو اس پر نازل ہوا اور مومنوں نے سب کے سب ایمان لائے ہیں ساتھ اللہ کے اور فرشتوں کے اور کتابوں کے اور رسولوں کے آیت ہذا شاہد ہے کہ سب سے پہلے رسول اپنی وحی پر ایمان لاتا ہے خاص کر عہدہ رسالت پر اور بات بھی معقول ہے کہ جب تک کسی شخص کو اپنے عہدہ اور حیثیت پر خود اطلاع نہ ہو وہ اپنے اختیارات کو کیا برت سکتا ہے۔ یہ بات نہایت ہی بودی بلکہ لغو ہے کہ گورنمنٹ کسی کو وائسراے تو بنا دے اور اسے ڈیوٹی پر کھڑا بھی کردے مگر اُسے اس کے عہدہ پر اطلاع نہ دے یا وہ خود اپنی حیثیت کو نہ سمجھتا ہو۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں:
'' نبی کے لیے اس کے دعویٰ اور تعلیم کی مثال ایسی ہے جیسا کہ قریب سے آنکھ چیزوں کو دیکھتی ہے اور ان میں غلطی نہیں کرتی اور بعض اجتہادی امور میں غلطی ایسی ہے جیسے دور کی چیزوں کو دیکھتی ہے ۔( اعجاز احمدی ص25 و روحانی ص134، ج19)
اصل بات یہ ہے کہ جس یقین کو نبی کے دل میں اس کی نبوت کے بارے میں بٹھایا جاتا ہے وہ دلائل تو آفتاب کی طرح چمک اٹھتے ہیں اور اس قدر تواتر سے جمع ہوئے ہیں کہ وہ امر بدیہی ہو جاتا ہے۔ پھر بعض دوسری جزئیات میں اگر اجتہادی غلطی ہو بھی تو وہ اس یقین کو مضر نہیں ہوتی، نبیوں اور رسولوں کو ان کے دعویٰ کے متعلق بہت نزدیک سے دکھایا جاتا ہے اور اس میں اس قدر تواتر ہوتا ہے جس میں کچھ شک باقی نہیں رہتا۔''،( اعجاز احمدی ص26 و روحانی ص136، ج19)
اس عبارت سے مہر نیم روز کی طرح روشن کہ انبیاء کرام کو اپنی نبوت کے بارے میں ہرگز ہرگز کسی قسم کا شک و شبہ نہیں رہتا۔ بخلاف اس کے مرزا صاحب کا یہ حال ہے کہ انہیں ابتدا سے ہی نبی اور رسول کہا گیا ہے جیسا کہ لکھتے ہیں:
'' براہین احمدیہ میں بھی یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں۔ چنانچہ ۴۹۸ میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کرکے پکارا گیا پھر اسی کتاب میں یہ وحی ہے کہ خدا کا رسول نبیوں کے حلوں میں ، پھر اسی کتاب میں یہ وحی اللہ ہے محمد رسول اللہ الخ اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی اسی طرح گئی جگہ رسول کے لفظ سے اس عاجز کو یاد کیا گیا۔''(شتہار مرزا مورخہ ۵؍ نومبر ۱۹۰۱ء بنام ، ایک غلطی کا ازالہ، مندرجہ مجموعہ اشتہارات مرزا قادیانی ص۴۳۲، ج۳ و روحانی ص۲۰۷، ج۱۸)
مگر مرزا صاحب برابر نبوت سے انکار کرتے رہے۔ بلکہ برملا کہتے رہے کہ مدعی نبوت:
'' مسیلمہ کذاب کا بھائی، کافر، خبیث ہے۔''( انجام آتھم ص۲۸ و روحانی ص۲۸، ج۱۱)
''ہم مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت کے ہم قائل ہیں۔''(ملحضا اشتہار مرزا مورخہ ۲۰؍ شعبان ۱۳۱۴ھ مندرجہ مجموعہ اشتھارات مرزا قادیانی ص۲۹۷، ج۲ و تبلیغ رسالت ص۲، ج۶)
'' میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔''( آسمانی فیصلہ ص۳ و روحانی ص۳۱۳ ، ج۴)
'' تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ فتح الاسلام، توضیح المرام، ازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنے سے نبی ہوتا ہے۔ یا محدثیت جزوی نبوت یا نا قصہ نبوت ہے یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی رو سے بیان کئے گئے ہیں ورنہ حاشا و کلا مجھے نبوت حقیقی کا ہرگز دعویٰ نہیں بلکہ میرا ایمان ہے کہ ہمارے سید و مولا محمد مصطفی خاتم الانبیاء ہیں۔ سو تمام مسلمان اگر ان لفظوں سے ناراض ہیں (جن میں جزوی نبوت وغیرہ کا دعویٰ ہے) تو ان الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرما کر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ لفظ نبی سے مراد صرف محدث ہے جس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متکلم مراد لیے ہیں قال النبی ﷺ قَدَ کَانَ فِیْمَنْ قَبْلَکُمْ مِن بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ رجال یکلمون من غیران یکونوا انبیاء اور لفظ نبی کو کاٹا ہوا خیال فرمائیں۔''(اشتھار مرزا مورخہ ۳؍ فروری ۱۸۹۳ء مندرجہ ، مجموعہ اشتھارات مرزا قادیانی ۳۱۳ تا ۳۱۴، ج۱ و حقیقت النبوۃ ص۹۱ تا ۹۲)
ان تمام مذکورہ بالا تحریرات سے ثابت ہے کہ مرزا صاحب باوجود بقول خود نبی ہونے کے اپنی نبوت سے انکاری رہے۔ میاں محمود احمد پسر مرزا خلیفہ قادیانی اپنی کتاب حقیقۃ النبوۃ پر لکھتے ہیں:
'' آپ کو براہین احمدیہ کے زمانہ سے جو وحی ہو رہی تھی اس میں آپ کو ایک دفعہ بھی مسیح (ابن مریم علیہ السلام نبی اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کم نہیں کہا گیا بلکہ افضل ہی بتایا گیا تھا۔ لیکن آپ چونکہ اپنے آپ کو غیر نبی سمجھتے تھے اس کے معنی اور کرتے رہے بعد کی وحیوں نے آپ کی توجہ اس طرف پھیری کہ ان (پہلی) وحیوں کا یہی مطلب تھا کہ آپ مسیح سے افضل اور نبی ہیں۔''
'' نبوت کا مسئلہ آپ پر ۱۹۰۰ء یا ۱۹۰۱ء میں کھلا ہے۔ ۱۹۰۱ء میں آپ نے اپنے عقیدے میں تبدیلی کی ہے۔ ۱۹۰۱ء سے پہلے کہ وہ حوالے جن میں آپ نے نبی ہونے سے انکار کیا ہے اب منسوخ ہیں۔''() حقیقت النبوۃ ص۱۲۱)
خلاصہ یہ کہ انبیاء کرام کو اپنے دعویٰ نبوت میں کبھی اور کسی قسم کا شک نہیں ہوسکتا۔ مگر مرزا صاحب نت نئے رنگ بدلتے رہے پس وہ معیار نبوت پر پورے نہیں اترے۔
(جاری ہے)