نبوت کا دعوےٰ کرنے والے بہا ء اللّہ اور انکی قوم بہائیوں کا مختصر تعارف
نبی کریم صلی ا للّہ علیہ وسلم نے امام مھدی کے بارے میں اتنی تاکید کی ہے اور اتنی اہمیت نقل کی ہے کہ ایک جگہ توصاف صاف یہ ملتا ہے کہ نبی کریم صلی ا للّہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ” تمہارے ایک خزانے کے پاس تین خلفائے کے بیٹے قتل کئے جائیں گے لیکن ان میں سے کسی کو بھی وہ خزانہ میسر نہ ہوگا۔ اسکے بعد مشرق کی جانب سے سیاہ نشان نمودارہوں گے وہ تمہیں ایسا قتل کریں گے کہ اس سے پہلے کسی نے نہ کیا ہوگا۔“ اسکے بعد راوی ابوالماء الرجی ثوبان کہتا ہے کہ حضورنے کچھ اور بیان فرمایا جسے میں یاد نہ رکھ سکا۔ اسکے بعد حضور نے ارشاد فرمایا” ا للّہ کا خلیفہ مہدی ظاہر ہوگا۔ جب تم اسے ظاہرہوتے دیکھو تو گھٹنوں کے بل برف پر گھسیٹ کر بھی جانا ہو تو اسکی بیعت کرلینا کیونکہ وہ مہدی خدا کا خلیفہ ہوگا۔“ (سنن ابن ماجہ باب۷۴۵ خروج المھدی حدیث ۱۸۸۵ صفحہ ۵۲۷ اردو) یہ حدیث اور ان جیسی بہت ساری دوسری متواتر احادیث کا مطالعہ کرنے کے بعد دشمنان اسلام نے مسلمانوں کے ایمان خریدنے کیلئے یکے بعد دیگرے کئی جھوٹے یا مدعیان مہدویت کو فروغ دیا جنکی تعداد صرف ہندوستان سے۱۸/(اٹھارہ) بتائی جاتی ہے۔ اسکے علاوہ بھی دیگر مسلم ممالک سے انہیں دعوے کروائے۔ وہ چند حستیاں جنہوں نے ہندوستان سے دعوے کئے ان میں مرزا غلام احمد قادیانی، سیّد محمّد جونپوری، سیّد محمّدگجراتی (جنہوں نے مہدی جونپوری سے پہلے ساتویں صدی ہجری میں دعوا کیا تھا۔) شیخ حسن عالی (نویں صدی ہجری) مہدی بنگالی (تیرھویں صدی ہجری) سیّد یاسین علی شاہ سر فہرست نظر آتے ہیں اسکے علاوہ ایران سے مرزا علی محمد باب نے پہلے تواپنے آپکو خلیفہ مہدی اور لوگوں کے درمیان فیض قرار دیا (کیونکہ شیعہ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ خلیفہ مہدی پیدا ہو چکے ہیں نہ کہ پیدا ہوں گے) اور پھر اس نے خود اپنے آپ کو مہدی کہا۔ حکومت ایران نے انکی جانچ کے بعد انہیں قتل کر دیا۔اور چونکہ یہ اسرائیل کی ایک سازش کے ذریعے اٹھے تھے انکے ماننے والوں نے اسلام کے اختتام کا اعلان کیا اور نئے الٰہی مذہب نئے نبی اور نئی آسمانی کتاب کا اعلان کیا۔ وہ نیا الٰہی مذہب مذہب”بہائی“ ہے (نعوذباللّہ من ذالک) نئے نبی مرزا حسین علی بہاوٴا للّہ ہیں(نعوذ باللّہ من ذالک) اور نئی آسمانی کتاب ” ایقان“ (نعوذ باللّہ من ذالک)ہے۔یورپ میں بہائیوں کی ۲۹/قومی اور ۶۳/مقامی اسمبلیاں قائم ہیں۔ دس ممالک ان کے مذہبی تہواروں پر اور چودہ انکی شادیوں کوتسلیم کرتے ہیں۔ انڈونیشیا پہلا جنوب ایشیائی ملک ہے جہاں ۱۹۶۲ء میں مرحو م صدر سوئیکارنو کے دور میں ایک صدارتی حکم نمبر ۶۴/کے تحت بہائیوں پر مکمل پابندی عائد کردی تھی کہ وہ کسی طور پر اپنے عقائد کی تبلیغ نہیں کر سکتے کیونکہ بہائیوں کی تعلیمات اور عقائد اسلام اور پیغمبر اسلام صلی ا للّہ علیہ و سلم کی تعلیمات کے قطعاً منافی ہیں۔ یہ حکم آج بھی موثر ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے ایک اسرائیلی منصوبے کے تحت بہائیوں کو انڈونیشیا میں بڑی تعداد میں بسایا۔ اور جب امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل جیسی بڑی اسلام مخالف طاقتیں متحد ہو کر بہائیوں کو انڈونیشیا میں فروغ دینے کیلئے جٹ گئیں تو انکی تعداد وہاں دن دوگنی رات چوگنی بڑھنے لگی۔ شروع میں وہاں بسنے والے بہائیوں نے اپنے آپ کو مسلمان ہی کہا نتیجہ میں انڈونیشیا کے ہر شعبے زندگی میں گھس گئے اور اپنی سرگرمیوں کو زور و شور سے منظم کرنا شروع کردیا۔ برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل کی مددسے بھولے بھالے مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اور بہائیوں کے یہ ساتھی چند سکوں میں اپنا ایمان بیچ بیٹھے جن میں مذہبی رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی اسطرح یہ دشمنان اسلام طاقتیں مسلمانوں کے ہاتھوں ہی اسلام کے خلاف تحریک کو آگے بڑھاتی رہیں۔
انڈونیشیا کے بعد ان اسلام دشمن طاقتوں نے یہی طریقہ کار ہندوستان کے لئے اختیارکیا ہے۔ اورآج ہندوستان میں اپنی تعداد ۲۲/ لاکھ بتا رہے ہیں۔
بہائیوں کا طریقہ تبلیغ صاف شفاف لباس میں ملبوس اتحاد و عدل و انصاف کا نغمہ لئے ہوئے نہایت نرم سخن کبھی کچھ عورتوں کے ساتھ اتحاد بین المذاہب کی شیدائی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ آپ بہائی بھی رہےئے۔ آپ مسلمان بھی رہےئے۔ ہم دنیا میں ایک ہی زبان قائم کرنے کا عظم رکھتے ہیں۔ مذہب بہائیت میں مرد و عورت سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ہم کسی بھی مذہب کے لوگوں سے شادی بیاہ کرسکتے ہیں۔ (اور پھر اس خاندان میں اپنی تبلیغ کرنا شروع کرتے ہیں) بہاء ا للّہ دنیامیں سکون عدل وانصاف قائم کرنے آئے تھے۔ حالانکہ۔
بہائیوں کا دنیا بھر میں فساد برپا کرنا(۱) ایران کے بادشاہ ناصر ا لدین شاہ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ (۲)ایران میں یکے بعد دیگرے تین جنگیں لڑیں۔ (۳) جب ناصر ا لدین شاہ نے ان کو دربدر کرنے کا حکم دیا تو ان لوگوں نے پڑوس کے گاوٴں کو لوٹنا شروع کیا۔ مرزا جانی جو ایک بہائی مصنف ہیں اپنی کتاب ” نقطةالقاف“ میں لکھتے ہیں صفحہ ۱۶۱/ پر کہ ” ایک رات میں بہائیوں نے ۱۳۰/آدمیوں کو جان سے ختم کیا اور کھانے پینے کے تمام سامان چھین لئے۔۔۔۔“ تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات مشہور ہیں ۔ جنکا یہاں ذکر کرنا مقصود نہیں ان واقعات کے علاوہ جب مرزا حسین علی عرف بہاء ا للّہ اور ان کے بھائی مرزا یحیٰ نوری عرف صبح ازل میں اتفاق رائے نہ رہا اور چھوٹے سے عرصے میں دونوں ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوگئے تو پھر دنیا بھر میں عدل و انصاف اور اتحاد کا نغمہ انسانیت کو دھوکا تو دے سکتا ہے انسانیت کی پیاس کو شدت تو بخش سکتا ہے سیراب نہیں کر سکتا۔
بہائیوں کے عقائد (۱)اسلام صرف ایک ہزار سال کے لئے تھا (نعوذ با ا للّہ من ذالک)(۲) مرزا علی محمد باب امتہ مسلمہ کے لئے مہدی بن کر آئے تھے۔ (۳) مرزا حسین علی بہاء ا للّہ نہ صرف نبی ہونیکا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ کتاب اقدس بہاء ا للّہ میں وزن کا خیال رکھتے ہوئے بہاء ا للّہ نے صاف لفظوں میں ” لا ا لہ ا لا انا“ جیسے الفاظ ادا کئے یعنی ”نہیں ہے کوئی خدا سوائے میرے “ (نعوذ با ا للّہ من ذالک)(۴)بہائیوں کا مہینہ ۱۹/ دنوں کا ہوتا ہے اور سال میں چار دن انکو آزادی ہوتی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں اسکا حساب وکتاب نہیں ہوتا۔(۵) بہائیوں کا قبلہ ”عکا“ یعنی اسرائیل میں ہے جہاں بہاء ا للّہ کی قبر ہے۔ (۶) اسرائیل اور بہائی ایک سکہ کے دو رخ ہیں۔ (۷) لوگوں کی بیویاں دوسرے دوستوں کے لئے جائز ہیں۔
علمائے اسلام کے فتوے۔ علماء اسلام کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ گو کہ یہ لوگ ابتدائے تبلیغ میں نبی کریم صلی ا للّہ علیہ و سلم کی نبوت کا انکار نہیں کرتے اور ان کایہ اقرار بالکل ہمارے اس اقرار کی طرح ہے جو ہم حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ السلام کیلئے کرتے ہیں لیکن چونکہ یہ نبی کریم کی ختم نبوت اور ختم رسالت کے قائل نہیں۔ لہٰذا یہ کافر ہیں اور انکے کسی بھی مرد و عورت سے شادی کرنا ناجائز ہے انکی کتابیں پڑھنا ایک عام مسلمان کیلئے اور انکے جلسوں میں شرکت کرنا حرام ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء کا ایک گروہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے نبی کریم صلی ا للّہ علیہ و سلم کے ان دشمنوں سے لوگوں کو آگاہ کرے۔ اور کچھ مسلمان جو کسی وجہ سے انکے شکنجے میں پھنس چکے ہیں انہیں انکے شکنجے سے باہر نکالیں ۔ واقعاً آج کے دور میں جب کہ نہ نبی کریم ہی اس دنیا میں موجود ہیں اور نہ ہی صحابہ کرام یہ ذمہ داری مخصوصاً علماء کرام اور پھر ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے کہ ہم آپکی نبوت کے دشمن سے خود بھی آگاہ رہیں اور دوسروں کو بھی آگاہ کریں تاکہ انہیں حقیقی شکست دے سکیں۔ والحمد للّہ ا لذی ھدینالھذاساری تعریفیں اس خدا کیلئے جس نے ہمیں اسکی طرف ہدایت کی۔