• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

نزول مسیح کا عقیدہ، عقیدئہ ختم نبوت کے منافی نہیں ( سورۃ النساء آیت 159)، (زخرف: ۶۱)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
نزول مسیح کا عقیدہ، عقیدئہ ختم نبوت کے منافی نہیں ( سورۃ النساء آیت 159)، (زخرف: ۶۱)
سوال … نزول مسیح کے دلائل ذکر کرتے ہوئے مرزا کے اس استدلال فاسدہ کا رد کریں کہ ’’میں مثیل مسیح ہوں‘‘ نیز ثابت کریں کہ نزول مسیح کا عقیدہ، عقیدئہ ختم نبوت کے منافی نہیں؟
جواب …

آیات قرآنیہ سے نزول عیسیٰ کا ثبوت
نزول عیسیٰ کا مضمون دو آیتوں میں اشارۃ قریب بصراحت کے موجود ہے:
’’ وان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ (نسائ: ۱۵۹) ‘‘
ترجمہ: ’’اور اہل کتاب میں سے کوئی نہ رہے گا۔ مگر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی موت سے پہلے ضرور ایمان لائے گا۔‘‘
’’ وانہ لعلم للساعۃ (زخرف: ۶۱) ‘‘
ترجمہ: ’’اور بے شک وہ قیامت کی ایک نشانی ہیں۔‘‘
چنانچہ ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں:
’’ ونزول عیسیٰ من السماء کما قال اﷲتعالیٰ وانہ ای عیسیٰ لعلم للساعۃ ای علامۃ القیامۃ و قال اﷲتعالیٰ و ان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ای قبل موت عیسیٰ بعد نزولہ عند قیام الساعۃ فیصیرالملل واحدۃ و ھی ملۃ الاسلام ‘‘
(شرح فقہ اکبر ۱۳۶)
ترجمہ: ’’آسمان سے نزول عیسیٰ، قول باری تعالیٰ کہ عیسیٰ قیامت کی علامت ہیں، سے ثابت ہے۔ نیز اس ارشاد سے ثابت ہے کہ اہل کتاب ان کی آسمان سے تشریف آوری کے بعد اور موت سے پہلے قیامت کے قریب ان پر ایمان لائیں گے۔ پس ساری ملتیں ایک ہوجائیں گی اور وہ ملت‘ ملت اسلام ہے۔‘‘
بہرحال اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قبل موتہ میں ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جیسا کہ لیؤمنن بہ میں ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔
چنانچہ ’’ارشاد الساری‘‘ شرح بخاری میں ہے:
’’ وان من اھل الکتاب احد الا لیؤمنن بعیسیٰ قبل موت عیسیٰ وھم اھل الکتاب الذین یکونون فی زمانہ فتکون الملۃ واحدۃ وھی ملۃ الاسلام وبھذا جزم ابن عباس فیما رواہ ابن جریر من طریق سعید بن جبیر عنہ باسناد صحیح ‘‘
(ارشاد الساری ج۵ ص ۵۱۸،۵۱۹)
ترجمہ: ’’یعنی اہل کتاب میں سے کوئی بھی نہ ہوگا۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر عیسیٰ کی موت سے پہلے ایمان لے آئے گا اور وہ اہل کتاب ہوں گے۔ جو ان (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کے زمانہ (نزول) میں ہوں گے۔ پس صرف ایک ہی ملت اسلام ہوجائے گی اور حضرت ابن عباسؓ نے اس پر جزم کیا ہے۔ اس روایت کے مطابق جو ابن جریر نے ان سے سعید ابن جبیر کے طریق سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کی۔‘‘
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حیات و نزول عیسیٰ پر امت کا اجماع ہے
آیات کریمہ واحادیث مرفوعہ متواترہ کی بناء پر حضرات صحابہؓ سے لے کر آج تک امت کا حیات و نزول عیسیٰ علیہ السلام کے قطعی عقیدئہ پر اجماع چلا آرہا ہے۔ ائمہ دین میں سے کسی سے بھی اس کے خلاف مروی نہیں ہے۔ معتزلہ جو بہت سے مسائل کلامیہ میں اہل سنت والجماعت سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ بھی یہی ہے جیسا کہ کشاف میں علامہ زمخشری نے اس کی تشریح کی ہے۔ چنانچہ ابن عطیہؒ فرماتے ہیں:
’’ حیاۃ المسیح بجسمہ الی الیوم و نزولہ من السماء بجسمہ العنصری ھما اجمع علیہ الامۃ وتواتربہ الاحادیث ‘‘
ترجمہ: ’’تمام امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اس وقت آسمان پر زندہ ہیں اور قرب قیامت میں بجسم عنصری پھر تشریف لانے والے ہیں۔ جیسا کہ احادیث متواترہ سے ثابت ہے۔‘‘
یہ ایک سو سے زیادہ احادیث تیس صحابہ کرامؓ سے مختلف انداز سے مروی ہیں جن کے اسماء گرامی یہ ہیں:
(۱)حضرت ابوہریرہؓ، (۲)حضرت جابر بن عبداﷲؓ، (۳)حضرت نواس بن سمعانؓ،(۴)حضرت ابن عمرؓ،(۵)حضرت حذیفہ بن اسیدؓ،(۶)حضرت ثوبانؓ، (۷)حضرت مجمعؓ، (۸)حضرت ابوامامہؓ، (۹)حضرت ابن مسعودؓ، (۱۰)حضرت ابونضرہؓ، (۱۱)حضرت سمرہؓ، (۱۲)حضرت عبدالرحمن بن خبیرؓ، (۱۳)حضرت ابوالطفیلؓ، (۱۴)حضرت انسؓ، (۱۵)حضرت واثلہؓ، (۱۶)حضرت عبداﷲ بن سلامؓ، (۱۷)حضرت ابن عباسؓ، (۱۸)حضرت اوسؓ، (۱۹)حضرت عمران بن حصینؓ، (۲۰)حضرت عائشہؓ،(۲۱)حضرت سفینہؓ،(۲۲)حضرت حذیفہؓ، (۲۳)حضرت عبداﷲ بن مغفلؓ، (۲۴)حضرت عبدالرحمن بن سمرہؓ، (۲۵)حضرت ابوسعید خدریؓ، (۲۶)حضرت عمار،ؓ (۲۷)حضرت ربیعؓ، (۲۸)حضرت عروہ بن رویمؓؓ، (۲۹)حضرت حسنؓ، (۳۰)حضرت کعبؓ۔
ان حضرات کی تفصیلی روایات ’’ التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ‘‘ میں ملاحظہ کی جائیں۔ یہ کتاب درحقیقت زہریٔ وقت حضرت علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہ سابق صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کی املاء کردہ ہے۔ جس کو ان کے شاگر د رشید حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ مفتی اعظم پاکستان نے بہترین انداز میں مرتب فرماکر اہل اسلام کی ایک گراں قدر خدمت انجام دی ہے۔ (فجزاہ اﷲ وافیا) اور اس کتاب پر اس زمانہ کے محقق نامور عالم حضرت شیخ عبدالفتاح ابوغدہؒ نے تحقیقی کام کیا ہے اور مزید تلاش و جستجو کے بعد بیس احادیث کا اضافہ ’’استدراک ‘‘کے نام سے فرمایا ہے۔ حضرت لدھیانوی شہیدؒ کا رسالہ ’’ نزول عیسیٰ علیہ السلام ‘‘ مشمولہ تحفہ قادیانیت قارئین کے لئے مفید ہوگا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حضرت مسیح ابن مریم علیہما السلام کا نزول احادیث متواترہ سے ثابت ہونا از مرزا قادیانی
حضرت مسیح ابن مریم علیہما السلام کا نزول احادیث متواترہ سے ثابت ہونا… یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ خود مرزا قادیانی بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مسیح ابن مریم کے آنے کی پیشگوئی ایک اوّل درجہ کی پیشگوئی ہے۔ جس کو سب نے باتفاق قبول کرلیا ہے اور جس قدر صحاح میں پیشگوئیاں لکھی گئی ہیں۔ اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتیں۔ تواتر کا اوّل درجہ اس کو حاصل ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام ص ۵۵۷،خزائن ج۳ص۴۰۰)

اس سے چند سطریں پہلے مرزا قادیانی اپنی اسی کتاب میں لکھتے ہیں:
’’حال کے نیچری جن کے دلوں میں کچھ عظمت قال اﷲ اور قال الرسول کی باقی نہیں رہی۔ یہ بے اصل خیال پیش کرتے ہیں کہ جو مسیح ابن مریم کے آنے کی خبریں صحاح میں موجود ہیں۔ یہ تمام خبریں غلط ہیں … لیکن وہ اس قدر متواترات سے انکار کرکے اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالتے ہیں۔‘‘

(ازالہ اوہام ص ۲۳۰)

یہ الگ بات ہے کہ مرزا قادیانی ان احادیث کو توڑ مروڑ کر مسیح موعود کا مصداق اپنے آپ کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
مثیل مسیح کا قادیانی ڈھونگ (ان میں سے ایک بھی نشانی مرزا میں نہیں پانی جاتی پھر بھی کیا وہ مسیح ہے؟)

ایک بے سروپا بات ہے۔ پیدائش مسیح سے رفع تک اور نزول سے وفات تک۔ وہاں کسی ایک بات میں مرزا قادیانی کو مماثلت نہیں۔ مسیح علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ ساری عمر مکان نہیں بنایا۔ ساری عمر شادی نہیں کی۔ نزول کے بعد حاکم، عادل ہوں گے۔ دجال کو قتل کریں گے۔ ان کے زمانہ میں تمام ادیان باطلہ مٹ جائیں گے۔ صلیب پرستی کا خاتمہ ہوکر خدا پرستی رہ جائے گی، دمشق جائیں گے بیت المقدس جائیں گے۔ حج کریں گے، عمرہ کریں گے، مدینہ طیبہ حاضری دیں گے۔ نزول کے بعد پینتالیس سال زندہ رہ کر پھر وفات پائیں گے۔ یہ چند بڑی، بڑی علامات ہیں۔ ان میں سے ایک بھی مرزا قادیانی میں نہ پائی جاتی تھی۔ اس کے باوجود دعویٰ مثیل ہونے کا۔ کیا اس سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی ڈھٹائی ہوسکتی ہے؟
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول عقیدئہ ختم نبوت کے منافی نہیں
مرزائیت کی تمام تر بنیاد دجل و فریب پر ہے۔ چنانچہ وہ اس جگہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے ایک اعتراض پیش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ تشریف آوری کے بعد منصب نبوت پر فائز ہوں گے یا نہیں؟ اگر وہ بحیثیت نبی آئیں گے تو ختم نبوت پر زد پڑتی ہے۔ اگر نبی نہیں ہوں گے تو ایک نبی کا نبوت سے معزول ہونا لازم آتا ہے اور یہ بھی اسلامی عقائد کے خلاف ہے‘ تو سنئے:
جواب… علامہ محمود آلوسیؒ نے اپنی تفسیر ’’روح المعانی‘‘ میں لکھا ہے:

’’وکونہ خاتم الانبیاء ای لا ینبأ احد بعدہ واما عیسیٰ ممن نبئ قبلہ‘‘
۱… آپﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپﷺ کے بعد کسی شخص کو نبی نہیں بنایا جائے گا۔ عیسیٰ علیہ السلام تو آنحضرتﷺ سے پہلے نبی بنائے جاچکے۔ پس عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری رحمت عالمﷺ کی ختم نبوت کے منافی نہیں۔ آپﷺ وصف نبوت کے ساتھ اس دنیا میں سب سے آخر میں متصف ہوئے۔ اب کوئی شخص وصف نبوت حاصل نہیں کرسکے گا۔ نہ یہ کہ پہلے کے سارے نبی فوت ہوگئے۔
۲… پہلے حوالہ گزرچکا ہے کہ مرزا قادیانی اپنے آپ کو اپنے والدین کے لئے خاتم الاولاد کہتا ہے۔ حالانکہ اس کا بڑا بھائی مرزا غلام قادر زندہ تھا۔ مرزا غلام قادر کے زندہ ہونے کے باوجود اگر مرزا کے خاتم الاولاد ہونے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ تو عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے سے رحمت عالمﷺ کی ختم نبوت میں کوئی فرق نہیں آتا۔
۳… ابن عساکر میں حدیث ہے کہ آدم علیہ السلام نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا کہ محمدﷺ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا:
’’ اخرولدک من الانبیائ ‘‘

(کنزالعمال ص۴۵۵ ج۱۱ حدیث نمبر ۱۳۹ بحوالہ ابن عساکر)
ترجمہ: ’’انبیاء میں سے آپﷺ کے آخرالاولاد ہیں۔‘‘
اس حدیث نے بالکل صاف کردیاکہ خاتم النبیین کی مراد یہی ہے کہ آپﷺ انبیاء میں سے آخرالاولاد ہیں اور یہ معنی کسی نبی کے باقی رہنے کا معارض نہیں۔ لہٰذا آپﷺ کا آخرالاانبیاء وخاتم الانبیاء ہونا نزول عیسیٰ علیہ السلام کے کسی طرح مخالف نہیں ہوسکتا۔
۴… مرزا غلام احمد قادیانی اپنی کتاب (تریاق القلوب ص ۱۵۶، خزائن ج ۱۵ ص ۴۷۹) پر لکھتا ہے:
’’ضرور ہوا کہ وہ شخص جس پر بکمال و تمام دورئہ حقیقت آدمیہ ختم ہو وہ خاتم الاولاد ہو۔ یعنی اس کی موت کے بعد کوئی کامل انسان کسی عورت کے پیٹ سے نہ نکلے۔ ‘‘
جب خاتم الاولاد کے معنی مرزا قادیانی کے نزدیک یہ ہیں کہ عورت کے پیٹ سے کوئی کامل انسان اس کے بعد پیدا نہ ہو تو خاتم النبیین کے بھی یہ معنی کیوں نہ ہوں گے کہ آپﷺ کے بعد کوئی نبی عورت کے پیٹ سے پیدا نہ ہوگا۔ جس سے تین فائدے حاصل ہوئے۔
اوّل… تو یہ کہ ختم نبوت اور نزول مسیح علیہ السلام میں تعارض نہیں۔ خاتم النبیین چاہتا ہے کہ عورت کے پیٹ سے اس کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہو اور مسیح علیہ السلام آپﷺ سے پہلے پیدا ہوچکے ہیں۔
دوسرے… یہ بھی صاف معلوم ہوا کہ اگر مرزا قادیانی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں۔ تو ان کی نبوت خاتم النبیین کے خلاف ہے۔
تیسرے… یہ بھی متعین ہوگیا کہ جس مسیح کے نزول کی خبر احادیث میں دی گئی ہے۔ وہ اس وقت ماں کے پیٹ سے پیدا نہ ہوں گے۔ ورنہ خاتم النبیین کے خلاف ہوگا اور اس بناء پر مرزا قادیانی مسیح موعود بھی نہیں ہوسکتے۔ مکرر واضح ہو کہ آپﷺ کے بعد کسی نبی کے نہ آنے کا یہ مطلب ہے کہ کسی کو آپﷺ کے بعد منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو آپﷺ کی آمد سے صدیوں پہلے منصب نبوت پر فائز ہوچکے ہیں۔
مذکورہ بالا اعتراض کا ایک عقلی جواب بھی سن لیجئے۔
ایک شخص کسی ملک کا فرماں روا ہے۔ وہ کسی دوسرے ملک کے سرکاری دورے پر جاتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ اپنی صدارت، بادشاہی یا وزارت عظمیٰ کے منصب سے معزول نہیں ہوا۔ لیکن دوسرے ملک میں جاکر اس کا حکم نہیں چلے گا۔ وہاں پر حکم اسی ملک کے صدر یا وزیراعظم کا چلے گا۔ اسی طرح پر حضرت عیسیٰ مسیح ابن مریم علیہما السلام جب تشریف لائیں گے، تو وہ منصب نبوت سے معزول نہیں ہوں گے۔ لیکن جیسا کہ قرآن پاک میں فرمادیا گیا ہے: ’’ و رسولاً الی بنی اسرائیل ‘‘ ان کی رسالت بنی اسرائیل کے لئے تھی۔ اب امت محمدیہ میں ان کی نبوت کا قانون نافذ نہیں ہوگا۔ امت محمدیہ پر قانون سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ ہی کا نافذ ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد سے یہود کی بھی اصلاح ہوجائے گی اور نصاریٰ کی غلط فہمی بھی دور ہوجائے گی۔ یوں وہ سب دین قیّم (اسلام) کے حلقہ بگوش ہوجائیں گے اور ’’ لیظھرہ علی الدین کلہ ‘‘ کا فرمان پورا ہوجائے گا۔
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلیل (وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا)(الزخرف:۶۱)
قرآنی دلیل نمبر:۵…’’ وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا (الزخرف:۶۱)‘‘
معزز ناظرین! مذکورہ بالا آیت بھی دیگر آیات کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع جسمانی پر ببانگ دہل اعلان کر رہی ہے۔ ہم اپنی طرف سے کچھ کہنا نہیں چاہتے۔ بلکہ جیسا کہ ہمارا اصول ہے۔ اس آیت کی تفسیر بھی ہم مرزاغلام احمد قادیانی اور اس کی جماعت کے مسلمات ہی سے پیش کریں گے۔تا کہ ان کے لئے کوئی جگہ بھاگنے کی نہ رہے۔

۱…تفسیر بالقرآن
۱… ہم پہلی آیات سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع جسمانی اور نزول جسمانی قرب قیامت میں ثابت کر آئے ہیں۔ پس ان آیات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں اور بالیقین کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام (قرب) قیامت کے لئے ایک نشانی ہے۔ ’’انہ‘‘ میں ’’ہ‘‘ کی ضمیرکو بعض نے قرآن کریم کی طرف پھیرا ہے۔ مگر یہ بہت ہی بڑی بے انصافی ہے۔ (اس کی تائید میں ملاحظہ ہو قول ابن کثیر مجدد صدی ششم فہویأتی) آخر ضمیر کا مرجع معلوم کرنے کا بھی کوئی قانون ہے یا نہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہورہا ہے اور ان کی خوبیاں بیان ہورہی ہیں۔ انہیں میں سے ایک یہ خوبی ہے کہ ان کی ذات شریف ہر لحاظ سے قیامت کے پہچاننے کی نشانی ہے۔ تفصیل اس کی یوں ہے۔
ان کی پیدائش بے باپ محض کلمہ ’’کن‘‘ سے اور ان کے معجزات ’’احیاء موتی او خلق طیرو غیرہا‘‘ خدا کی قدرت احیاء موتیٰ کا عملی ثبوت ہو کر وقوع قیامت پر دلالت قطعیہ پیش کرتا ہے اور ان کا اس وقت تک زندہ رہ کر دوبارہ آنا خدا کی طرف سے لوگوں کی راہنمائی کے لئے قرب قیامت کی علامت ہے۔

۲…تفسیر آیت از حدیث
’’حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے سنن ابن ماجہ میں موقوفاً اور مسند امام احمد میں مرفوعاً مروی ہے کہ جس رات رسول کریمﷺ کو معراج ہوئی اس رات آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام وموسیٰ علیہ السلام وعیسیٰ علیہ السلام سے ملے تو قیامت کے متعلق تذکرہ ہوا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سوال شروع ہوا تو ان کو قیامت کا کوئی علم نہ تھا۔ (کہ کب ہوگی) پھر موسیٰ علیہ السلام سے سوال ہوا تو ان کو بھی اس کا کوئی علم نہ تھا۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نوبت آئی۔ تو آپ نے کہا کہ قیامت کے وقوع کا علم تو سوائے خدا کے کسی کو نہیں۔ لیکن خداتعالیٰ نے مجھے قیامت کے نزدیک کا عہد کیا ہوا ہے۔ پس آپ نے دجال کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ میں نازل ہوں گا تو اس کو قتل کروں گا۔‘‘
دیکھو مسند احمد ج۱ ص۳۷۵، ابن ماجہ ص۲۹۹، باب فتنۃ الدجال وخروج عیسیٰ بن مریم، ابن جریر، حاکم وبیہقی، بحوالہ درمنثور اور بھی بہت سی احادیث اس کی تائید میں وارد ہیں۔ جن میں سے کچھ پہلے بیان ہوچکی ہیں اور بقیہ ’’حیات عیسیٰ از احادیث‘‘ کے ذیل میں بیان کی جائیں گی۔

۳…تفسیر از صحابہ کرام وتابعین عظام
حضرت ابن عباسؓ کی تفسیر ’’ عن ابن عباسؓ فی قولہ وانہ لعلم للساعۃ قال خروج عیسیٰ علیہ السلام قبل یوم القیامۃ (درمنثور ج۶ ص۲۰)‘‘
حضرت ابن عباسؓ ’’ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ’’ قیامۃ ‘‘ سے پہلے تشریف لانا ہے۔
ب… حضرت ابوہریرہؓ کی تفسیر ’’ عن ابی ہریرہؓ وانہ لعلم للساعۃ قال خروج عیسیٰ علیہ السلام یمکث فی الارض اربعین سنۃ… یحج ویعتمر (درمنثور ج۶ ص۲۰)‘‘
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ: ’’ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہے۔ وہ زمین میں ۴۰ سال رہیں گے… حج کریں گے اور عمرہ بھی کریں گے۔
ج… ’’ عن مجاہدؓ وانہ لعلم للساعۃ قال آیۃ للساعۃ خروج عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم قبل یوم القیامۃ (درمنثور ج۶ ص۲۰)‘‘
حضرت مجاہدؓ جو شاگرد ہیں حضرت ابن عباسؓ کے۔ وہ بھی اس آیت میں فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنا قیامت سے پہلے قیامت کے لئے ایک نشان ہے۔
د… ’’ عن الحسنؓ وانہ لعلم للساعۃ قال نزول عیسیٰ علیہ السلام (درمنثور ج۶ ص۲۰)‘‘
حضرت امام حسنؓ مجددین امت واولیاء امت کے سرتاج فرماتے ہیں کہ مراد اس آیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہے۔

۴…تفسیر از مجددین امت محمدیہؓ
۱… امام حافظ ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں بذیل آیت کریمہ فرماتے ہیں:
’’ وقولہ سبحانہ وتعالیٰ وانہ لعلم للساعۃ تقدم تفسیر ابن اسحاق ان المراد من ذالک ما یبعث بہ عیسیٰ علیہ السلام من احیاء الموتیٰ وابراء الاکمہ والابرص وغیر ذالک من الاسقام وفی ہذا نظر وابعد منہ ماحکاہ قتادہ عن الحسن البصری وسعید ابن جبیر ان الضمیر فی انہ عائد الی القرآن بل الصحیح انہ عائد الیٰ عیسیٰ علیہ السلام فان السیاق فی ذکرہ ثم المراد بذالک نزولہ قبل یوم القیامہ کما قال تبارک وتعالیٰ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ای قبل موت عیسیٰ علیہ السلام ثم یوم القیامۃ یکون علیہم شہیدا ویؤید ہذا المعنی القرأۃ الاخریٰ وانہ لعلم للساعۃ ای امارۃ ودلیل علی وقوع الساعۃ قال مجاہد وانہ لعلم للساعۃ ای آیۃ للساعۃ خروج عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام قبل یوم القیامۃ وہکذا روی عن ابی ہریرہ وابن عباس وابی العالیہ وابی مالک وعکرمہ والحسن وقتادہ والضحاک وغیرہم وقد تواترت الاحادیث عن رسول اﷲﷺ انہ اخبر بنزول عیسیٰ علیہ السلام قبل یوم القیامۃ اماماً عادلاً وحکماً مقسطاً ‘‘
اﷲتعالیٰ کے قول ’’ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ کے متعلق ابن اسحاق کی تفسیر گذر چکی ہے کہ مراد اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات مثل مردوں کا زندہ کرنا، کوڑھوں اور برص والوں کو تندرست کرنا اور علاوہ اس کے دیگر امراض سے شفا دینا ہے۔ اس میں اعتراض اور اس سے زیادہ ناقابل قبول وہ ہے جو قتادہ نے حسن بصری ، سعید ابن جبیر سے بیان کیا ہے کہ انہ کی ضمیر قرآن کریم کی طرف راجع ہے۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ ’’انہ‘‘ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے۔ کیونکہ سیاق وسباق انہیں کے ذکر میں ہے۔ پس مراد اس سے ان کا قیامت سے پہلے نازل ہونا ہے۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ نے ’’ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ‘‘ فرمایا ہے۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے… اور ان معنوں کی دوسری قرأت تائید کرتی ہے جو یہ ہے۔ ’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ یعنی عیسیٰ علیہ السلام نشانی ہے اور دلیل ہے۔ قیامت کے واقع ہونے پر۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں۔ ’’قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنا قیامت کی نشانی ہیں۔‘‘
اسی طرح ابوہریرہؓ، ابن عباسؓ، ابوعالیہؓ، ابومالکؓ، عکرمہؓ، حسنؓ، قتادہؓ، ضحاکؓ وغیرہم بزرگان دین سے روایت ہے۔ حدیثیں رسول کریمﷺ سے حد تواتر تک پہنچ چکی ہیں کہ رسول کریمﷺ نے قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے امام عادل، حاکم اور منصف کی حالت میں نازل ہونے کی خبر دی ہے۔

۵…تفسیر آیت از امام فخرالدین رازیؒ مجدد صدی ششم
۱… ’’ وان عیسیٰ علیہ السلام (لعلم للساعۃ) شرط من اشراطہا تعلم بہ فسمی الشرط الدال علی الشیٔ علما لحصول العلم بہ وقرأ ابن عباس لعلم وھو العلامۃ… وفی الحدیث ان عیسیٰ علیہ السلام ینزل علیٰ ثنیۃ فی الارض المقدسۃ یقال لہا افیق وبیدہ حربۃ وبہا یقتل الدجال فیأتی بیت المقدس فی الصلوٰہ الصبح والامام یؤم بہم فیتأخر الامام فیقدمہ عیسیٰ علیہ السلام ویصلی خلفہ علیٰ شریعۃ محمدﷺ ‘‘
(تفسیر کبیر ج۲۷ ص۲۲۲، بذیل آیت کریمہ)
’’عیسیٰ علیہ السلام قیامت معلوم کرنے کی شرطوں میں سے ایک شرط ہے… ابن عباسؓ نے اس کو ’’لعلم للساعۃ‘‘ پڑھا ہے۔ جس کے معنی نشانی کے ہیں… اور حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ارض مقدس میں افیق کے مقام پر نازل ہوں گے۔ ان کے ہاتھ میں ایک حربہ ہوگا اور اس سے دجال کو قتل کریں گے۔ پس وہ بیت المقدس میں آئیں گے۔ درآنحالیکہ لوگ صبح کی نماز میں ہوں گے اور امام ان کو نماز پڑھا رہا ہوگا۔ پس وہ پیچھے ہٹیں گے۔ پس عیسیٰ علیہ السلام ان کو آگے کر دیں گے اور ان کے پیچھے نماز ادا کریں گے۔ اسلامی طریقہ سے۔‘‘
تفسیر از امام لغت صاحب لسان العرب
’’ وفی التنزیل فی صفۃ عیسیٰ صلوات اﷲ علیٰ نبینا وعلیہ (وانہ لعلم للساعۃ) وھی قرأۃ اکثر القراء وقراء بعضہم (انہ لعلم للساعۃ) والمعنی ان ظہور عیسیٰ علیہ السلام ونزولہ الیٰ الارض علامۃ تدل علیٰ اقتراب الساعۃ
(لسان العرب ج۹ ص۳۷۲، بحرف علم)‘‘
قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفت میں آیا ہے۔ ’’انہ لعلم للساعۃ‘‘ اور یہ اکثر قاریوں کی قرأت ہے اور ان میں سے بعض نے اس کو ’’ لعلم للساعۃ ‘‘ بھی پڑھا ہے۔ جس کے معنی ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور اور ان کا نازل ہونا زمین کی طرف ایسا نشان ہے جو قیامت کے نزدیک ہونے پر دلالت کرے گا۔
لسان العرب کی عظمت واہمیت معلوم کرنا ہوتو مرزامحمود احمد قادیانی کا بیان ذیل ملاحظہ کریں۔
’’پس ان لغات (لغت کی چھوٹی چھوٹی کتب) کا اس معاملہ میں کوئی اعتبار نہیں۔ بلکہ اعتبار انہیں لغات کا ہوگا۔ جو بڑی ہیں اور جن میں تفصیل سے معنی بتائے جاتے ہیں اور عربی کی سب سے بڑی لغت تاج العروس ہے اور دوسرے نمبر پر لسان العرب ہے۔‘‘

(حقیقت النبوۃ ص۱۱۵، ۱۱۶ حاشیہ)
معزز ناظرین! ہم نے اپنی تائید میں مندرجہ زیل بزرگ ہستیوں کے بیانات پیش کئے ہیں۔
۱… اﷲ تبارک وتعالیٰ۔
۲… حضرت سید المرسلین محمد مصطفیﷺ۔
۳… حضرات صحابہ کرام بالخصوص حضرت ابن عباسؓ۔
۴… امام احمد، مجدد صدی دوم۔
۵… امام ابن جریرؒ۔
۶… امام حاکم نیشاپوری، مجدد صدی چہارم۔
۷… امام بیہقی مجدد صدی چہارم۔
۸… صاحب درمنثور امام جلال الدین سیوطی مجدد صدی نہم۔
۹… امام ابن کثیر مجدد صدی ششم۔
۱۰… امام فخر الدین رازی مجدد صدی ششم۔ ’’ تلک عشرۃ کاملۃ ‘‘
یہ وہ اصحاب ہیں کہ حسب فتویٰ مرزاقادیانی ان افراد کے فیصلہ سے انحراف کرنے پر فوراً دائرہ اسلام سے خارج ہوکر مرتد، ملحد اور فاسق ہو جائیں گے۔ دیکھو قادیانی اصول وعقائد مندرجہ تمہید۔
قادیانی جماعت ذرا ہوش سے ہمارے دلائل پر غور کرے۔ اگر خلوص سے کام لیں گے تو انشاء اﷲ حق کا قبول کرنا آسان ہو جائے گا۔
اب ہم قادیانی اعتراضات پیش کرتے ہیں۔ جو فی الواقع ہم پر نہیں بلکہ مذکورۃ الصدر بزرگ ہستیوں پر وارد کر کے اس بات کا اعلان کرنا ہے کہ قادیانی خدا کو مانتے ہیں نہ رسول کو۔ صحابہ کرامؓ کو مانتے ہیں نہ مجددین امت کو۔ یوں ہی ٹٹی کی آڑ میں شکار کھیلنے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ ہم ان سب کا ماننا اور مطیع رہنا اپنے ایمان کا جزو قرار دیتے ہیں۔

قادیانی اعتراض نمبر:۱
از مرزاغلام احمد قادیانی ’’حق بات یہ ہے کہ ’’ انہ ‘‘ کا ضمیر قرآن شریف کی طرف پھرتا ہے اور آیت کے یہ معنی ہیں کہ قرآن شریف مردوں کے جی اٹھنے کے لئے نشان ہے۔ کیونکہ اس سے مردہ دل زندہ ہوتے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۴۲۴، خزائن ج۳ ص۳۲۲)
مرزاقادیانی نے کوئی دلیل ’’انہ‘‘ کی ضمیر کو قرآن شریف کے لئے متعین کرنے کے حق میں بیان نہیں کی۔ سوائے اس کے کہ ’’ ہ ‘‘ کی ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ماننے سے مرزاقادیانی کی مسیحیت معرض ہلاکت میں آجاتی ہے۔ اگر ہم ثابت کر دیں کہ ’’انہ‘‘ کی ضمیر قرآن کریم کی طرف راجع نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے تو مرزاقادیانی کی یہ ’’حق بات ہے‘‘ کی حقیقت الم نشرح ہوکر رہ جائے گی۔ سنئے!
جواب نمبر:۱…
سیاق وسباق میں بحث صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہستی سے ہے نہ قرآن کریم سے۔ پس جس کا ذکر ہی نہیں۔ اس کی طرف خواہ مخواہ ضمیر کو پھیرنا اگر سکھا شاہی نہیں تو اور کیا ہے۔
جواب نمبر:۲…
ہم نے قادیانی مسلمات کی رو سے ثابت کر دیا ہے کہ ’’انہ‘‘ سے مراد حضرت مسیح علیہ السلام کا نزول ہے۔ اگر مرزاقادیانی اس کا انکار کریں گے تو حسب فتویٰ خود کافر وفاسق ہو جائیں گے۔
جواب نمبر:۳…
حضرت ابن عباسؓ ’’ انہ ‘‘ کی ضمیر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھیرتے ہیں۔ جن کے متعلق مرزاقادیانی کا ارشاد ہے۔ ’’ناظرین پر واضح ہوگا کہ حضرت ابن عباسؓ قرآن کریم کے سمجھنے میں اوّل نمبر والوں میں سے ہیں اور اس بارہ میں ان کے حق میں آنحضرتﷺ کی ایک دعا بھی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۴۷، خزائن ج۳ ص۲۲۵)
اب کس کا منہ ہے جو حضرت ابن عباسؓ جیسی عظیم الشان ہستی کا فیصلہ رد کرے۔
جواب نمبر:۴…
مرزاقادیانی یا ان کی جماعت اپنی تائید میں اور ہماری مخالفت میں ۸۶گذشتہ مجددین مسلمہ قادیانی میں سے کسی ایک کو بھی پیش نہیں کر سکتے۔
جواب نمبر:۵…
خود مرزاقادیانی نے ’’ انہ ‘‘ کی ضمیرکو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہونا قبول کیا ہے۔
(حمامتہ البشریٰ ص۹۰، خزائن ج۷ ص۳۱۶)
جواب نمبر:۶…
خود مرزاقادیانی کے مرید ’’انہ‘‘ کی ضمیر کے قرآن کی طرف پھیرنے سے منکر ہیں۔ چنانچہ سرور شاہ قادیانی ضمیمہ اخبار بدر قادیان مورخہ ۶؍اپریل ۱۹۱۱ء میں لکھتے ہیں۔ ’’ہمارے نزدیک تو اس کے آسان معنی یہ ہیں کہ وہ (مثیل مسیح) ساعت کا علم ہے۔‘‘
نوٹ:
قادیانی سرور شاہ کا مبلغ علم اسی بات سے اظہر من الشمس ہوا جاتا ہے کہ مسیح کے ساتھ مثیل کی دم اپنی طرف سے بڑھا دی ہے۔ اگر ایسا کرنا جائز قرار دیا جائے تو قرآن شریف کی تفسیر ہر ایک آدمی اپنے حسب منشاء کر سکتا ہے۔ مثلاً جہاں رسول کریمﷺ کا اسم مبارک ہے۔ وہاں بھی کہہ دیا جائے کہ اس سے مثیل محمد مراد ہیں جو قادیانیوں کے نزدیک (نعوذ باﷲ) مرزاقادیانی ہیں۔

جواب نمبر:۷…
مرزاقادیانی کے بڑے فرشتہ احسن امروہی مرزاقادیانی کی تردید میں یوں فرماتے ہیں:
الف…
’’دوستو! یہ آیت ’’ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ سورۃٔ زخرف میں ہے اور بالاتفاق تمام مفسرین کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کے واسطے ہے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں۔‘‘
(اخبار الحکم مورخہ ۲۸؍فروری ۱۹۰۹ئ)
ب…
’’آیت دوم میں تسلیم کیا کہ ضمیر ’’انہ‘‘ کی طرف قرآن شریف یا آنحضرتﷺ کے راجع نہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کی طرف راجع ہے۔‘‘
(اعلام الناس حصہ دوم ص۵)
اعتراض نمبر:۲…
ازمرزاقادیانی ’’ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ اس آیت کو پیش کر کے قیامت کے منکرین کوملزم کرنا چاہتا ہے کہ تم اس نشان کو دیکھ کر پھر مردوں کے جی اٹھنے سے کیوں شک میں پڑے ہو… اگر خداتعالیٰ کا اس آیت میں یہ مطلب ہے کہ جب حضرت مسیح آسمان سے نازل ہوں گے تب ان کا آسمان سے نازل ہونا مردوں کے جی اٹھنے کے لئے بطور دلیل یا علامت کے ہوگا۔ تو پھر اس دلیل کے ظہور سے پہلے خداتعالیٰ لوگوں کو کیوںکر ملزم سکتا ہے۔ کیااس طرح اتمام حجت ہوسکتا ہے؟ کہ دلیل تو ابھی ظاہر نہیں ہوئی اور کوئی نام ونشان اس کا پیدا نہیں ہوا اور پہلے سے ہی منکرین کو کہا جاتا ہے کہ اب بھی تم کیوں یقین نہیں کرتے۔ کیا ان کی طرف سے یہ عذر صحیح طور پر نہیں ہوسکتا کہ یا الٰہی ابھی دلیل یا نشان قیامت کا کہاں ظہور میں آیا۔ جس کی وجہ سے ’’فلا تمترن بہا‘‘ کی دھمکی ہمیں دی جاتی ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۴۲۳، خزائن ج۳ ص۳۲۱،۳۲۲)
جواب…
مرزاقادیانی کا یہ اعتراض ناشی ازجہالت ہے۔ اپنی کم علمی سے ’’وانہ لعلم للساعۃ‘‘ کو ’’ فلا تمترن بہا ‘‘ کے لئے دلیل ٹھہرا لیا اور پھر اس دلیل کے غلط ہونے پر منطقی بحث شروع کر دی۔
کاش! مرزاقادیانی نے تفسیر اتقان اپنے مسلمہ مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطیؒ کی کتاب ہی میں کلمہ ’’ ف ‘‘ کی بحث پڑھ لی ہوتی۔ پھر یقینا ایسا مجہول اعتراض نہ کرتے۔ اس کا جواب ہم کئی طرز سے دیں گے۔
اس آیت کا شان نزول جو مرزاقادیانی نے خط کشیدہ الفاظ میں ظاہر کیا ہے۔ وہ محض ایجاد مرزاہے۔ ورنہ اصلی شان نزول ملاحظہ ہو اور کلام اﷲ کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ ہو۔
’’ ولما ضرب ابن مریم مثلاً اذا قومک منہ یصدون وقالوا الہتنا خیرام ہو ماضربوہ لک الا جدلا بل ہم قوم خصمون ان ہوالا عبد انعمنا علیہ وجعلناہ مثلاً لبنی اسرائیل۰ ولو نشاء لجعلنا منکم ملئکۃ فی الارض یخلفون۰ وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا واتبعون ہذا صراط مستقیم (الزخرف:۵۷تا۶۱)‘‘
{اور جب عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کے متعلق (معترض کی طرف سے) ایک عجیب مضمون بیان کیاگیا۔ تو یکایک آپ کی قوم کے لوگ (مارے خوشی کے) چلانے لگے اور کہنے لگے کہ ہمارے معبود زیادہ بہتر ہیں۔ یا عیسیٰ علیہ السلام۔ ان لوگوں نے جو یہ مضمون بیان کیا ہے تو محض جھگڑنے کی غرض سے بلکہ یہ لوگ (اپنی عادت سے) ہیں ہی جھگڑالو۔ عیسیٰ علیہ السلام تو محض ایک ایسے بندے ہیں جن پر ہم نے (کمالات نبوت سے اپنا) فضل کیا تھا اور ان کو بنی اسرائیل کے لئے ہم نے (اپنی قدرت کا) ایک نمونہ بنایا تھا اور اگر ہم چاہتے تو ہم تم میں سے فرشتوں کو پیدا کر دیتے کہ وہ زمین پر یکے بعد دیگرے رہا کرتے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو قیامت (کے قرب) کا نشان ہیں۔ پس تم لوگ اس میں شک مت کرو اور تم لوگ میرا اتباع کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔}
معزز ناظرین! مرزاقادیانی کی چالاکی ملاحظہ ہو کہ بمطابق مثل ’’چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد‘‘ خود شان نزول اس آیت کی کلام اﷲ کی انہیں آیات میں موجود ہے اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مشرکین کے بتوں کے متعلق ایک مثال ہے۔ باوجود اس کے مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ یہاں بحث قیامت سے ہے۔ قیامت کی بحث تو یہاں ہے ہی نہیں۔ وہ تو یونہی جملہ معترضہ کے طور پر مذکور ہے۔ چنانچہ ہم مرزاقادیانی کے اپنے مانے ہوئے مجدد صدی نہم امام جلال الدین سیوطیؒ کی روایت سے مرزاقادیانی کے تسلیم کردہ حبرالامت امام المفسرین ابن عباسؓ کا بیان کردہ شان نزول پیش کرتے ہیں۔
’’آنحضرتﷺ نے ایک روز سورۂ انبیاء کی آیت ’’ انکم وما تعبدون من دون اﷲ حصب جہنم (انبیائ:۹۸)‘‘ کے موافق یہ فرمایا کہ مشرک جن چیزوں کو پوجتے ہیںَ وہ اور مشرک دونوں قیامت کے دن دوزخ میں جھونکے جائیں گے۔ اس پر عبداﷲ بن زبعری نامی ایک شخص نے کہا کہ نصاریٰ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پوجتے ہیں اور تم عیسیٰ علیہ السلام کو نبی اور ہمارے بتوں سے اچھا سمجھتے ہو۔ اس لئے جو حال ہمارے بتوں کا ہوگا وہی حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہوگا۔ عبداﷲ بن زبعری کے اس جواب کو مشرک لوگوں نے بڑا شافی جواب جانا اور سب خوش ہوئے۔ اس پر اﷲتعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔
باوجود اس قدر تصریح کے اگر پھر بھی قادیانی اپنی اس نامعقول دلیل پر جمے رہیں تو ہمارا جواب بھی الزامی رنگ میں سن لیں اور کان کھول کر سنیں۔‘‘
۱… مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’قرآن شریف میں ہے: ’’ انہ لعلم للساعۃ ‘‘ یعنی اے یہودیو! عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تمہیں قیامت کا پتہ لگ جائے گا۔‘‘

(اعجاز احمدی ص۲۱، خزائن ج۱۹ ص۱۳۰)
۲… اﷲتعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے مصدق رسول کو بھی بطور ہدایت فرماتا ہے۔
’’ ان الساعۃ آتیۃ فلا یصدنک عنہا من لا یؤمن بہا (طہ:۱۶)‘‘
اے موسیٰ علیہ السلام! قیامت بے شک وشبہ آنے والی ہے۔ خبردار کوئی بے ایمان تجھے اس کے ماننے سے روک نہ دے۔ یہاں اگر قادیانی طرز کلام کا اتباع کیا جائے تو سوال پیدا ہوگا۔ موسیٰ علیہ السلام کے سامنے قیامت کے آنے کی دلیل یا نشانی تو بیان نہیں کی گئی۔ صرف اس کے آنے کا اعلان کیاگیا ہے۔ پھر یہ اعلان اگلے حصہ آیت کے لئے دلیل ہوسکتا ہے۔ قادیانی جو جواب اس سوال کا دیں گے وہی جواب ہمارا بھی سمجھ لیں۔
۳… ’’مرزاقادیانی نے ۱۸۸۶ء میں پیش گوئی کی کہ محمدی بیگم دختر احمد بیگ ہوشیارپوری ضرور بضرور میرے نکاح میں آئے گی۔ پھر اس کے متعلق الہامات بھی شائع کئے۔ جن میں سے ایک یہ بھی تھا۔ ’’ انا زوجناکہا ‘‘ یعنی اے مرزا ہم نے تیرا نکاح محمدی بیگم سے کر دیا ہے۔‘‘

(انجام آتھم ص۶۰، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
انتظار کرتے کرتے مرزاقادیانی تھک گئے۔ آخر ۱۸۹۱ء میں مرزاقادیانی سخت بیمار ہوئے۔ موت کے خیال پر جب محمدی بیگم والی پیش گوئی میں جھوٹا ہونے کا خیال گزرا تو الہام ہوا۔
’’ الحق من ربک فلا تکونن من الممترین ‘‘ یعنی یہ بات تیرے رب کی طرف سے سچ ہے تو کیوں شک کرتا ہے۔
دیکھئے! یہاں مرزاقادیانی کے خدا نے مرزاقادیانی کو یقین دلانے کو صرف اتنا ہی کہا۔ ’’ الحق من ربک ‘‘ حالانکہ ابھی نکاح نہیں ہوا۔ پہلے ہی سے اس کے ہونے کا اعلان کر کے محض اعلان ہی کو دلیل قرار دیا جارہا ہے۔ جس دلیل سے مرزاقادیانی کے لئے ایک پیش گوئی کا اعلان دلیل ہوگیا آئندہ حکم کے حق ہونے کا۔ اسی دلیل سے یہاں بھی ’’ انہ لعلم للساعۃ ‘‘ دلیل سمجھ لیں۔ ’’ فلاتمترن بہا ‘‘ کی (ذرا غور سے سمجھئے) مگر یہ سب بیان ہمارا الزامی رنگ میں ہے۔ ورنہ مرزاقادیانی کا یہ اعتراض مبنی ہے علوم عربیہ سے جہالت مطلقہ پر۔

مضحکہ خیز تفسیر قادیانی: تفسیر از مرزاغلام احمد قادیانی
۱… ’’یہ کیسی بدبودار نادانی ہے جو اس جگہ لفظ ’’ ساعۃ ‘‘ سے قیامت سمجھتے ہیں۔ اب مجھ سے سمجھو کہ ’’ ساعۃ ‘‘ سے مراد اس جگہ وہ عذاب ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد طیطوس رومی کے ہاتھ سے یہودیوں پر نازل ہوا تھا۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۲۱، خزائن ج۱۹ ص۱۲۹)
۲… ’’حق بات یہ ہے کہ ’’انہ‘‘ کی ضمیر قرآن شریف کی طرف پھرتا ہے اور آیت کے یہ معنی ہیں کہ قرآن شریف مردوں کے جی اٹھنے کے لئے نشان ہے۔ کیونکہ اس سے مردہ دل زندہ ہوتے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۴۲۴، خزائن ج۳ ص۳۲۲)
۳… ’’ ان فرقۃ من الیہود اعنی الصدوقین کانوا کافرین بوجود القیامۃ فاخبرہم اﷲ علیٰ لسان بعض انبیاء ان ابنا من قومہم یولد من غیر اب وہذا یکون آیۃ لہم علی وجود القیامۃ فالی ہذا اشار فی آیۃ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘
یہود کا ایک فرقہ صدوقین نامی قیامت کے وجود سے منکر تھا۔ پس اﷲتعالیٰ نے بعض نبیوں کے واسطے سے انہیں خبر دی کہ ان کی قوم میں سے ایک لڑکا بغیر باپ کے پیدا ہوگا اور وہ قیامت کے وجود پر دلیل ہوگا۔ پس اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اس آیت ’’ وانہ لعلم للساعۃ ‘‘ میں۔

(حمامتہ البشریٰ ص۹۰، خزائن ج۷ ص۳۱۶)
نوٹ:
مرزاقادیانی نے اسلامی تفسیر کی تردید میں جو دلیل بیان کی ہے۔ (دیکھو اعتراض نمبر۲ از مرزاقادیانی) اگر وہ صحیح قرار دی جائے تو ناظرین وہی عبارت تھوڑے سے تغیر کے ساتھ مرزاقادیانی کی اس تفسیر کے رد میں پڑھ لیں۔ اجمالاً ہم لکھ دیتے ہیں۔ صدوقین منکر قیامت تھے۔ قیامت کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ آئندہ زمانہ میں ایک لڑکا بغیر باپ کے پیدا ہوگا۔ جب تک دلیل موجود نہ ہو۔ دعویٰ کے تسلیم کر لینے کا مطالبہ کرنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟
۴… ’’ ان المراد من العلم تولدہ من غیر اب علی طریق المعجزۃ کما تقدم ذکرہ فی الصحف السابقۃ ‘‘

(تتمہ حقیقت الوحی ص۴۹، خزائن ج۲۲ ص۶۷۲)
العلم سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونا ہے۔ بطور معجزہ کے جیسا کہ پہلے کتابوں میں اس کا ذکر ہوچکا ہے۔
نوٹ:
مرزاقادیانی معلوم ہوتا ہے۔ فن مناظرہ اور اس کے اصولوں سے جاہل مطلق تھے۔ دلیل تو وہ قابل قبول ہوتی ہے۔ جو مخالفت کے ہاں قابل قبول ہو بلکہ جس کا رد کرنا مخالف سے آسان نہ ہو۔ ایسی دلیل کو پیش کرنا جس کو مخالف صحیح تسلیم نہیں کرتا۔ یہ مرزاقادیانی جیسے پنجابی نبی ہی کی شان ہوسکتی ہے۔ ورنہ دلیل تو ایسی ہو کہ مخالف کے نزدیک بھی وہ قابل قبول اور حجت ہوسکے۔ جیسا کہ ہم حیات عیسیٰ علیہ السلام کے ثبوت میں قادیانی مسلمات پیش کر کے قادیانی افراد سے قبول حق کی اپیل کر رہے ہیں۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ بقول مرزاقادیانی یہودی (صدوقین) قیامت کے وجود سے منکر تھے۔ ان کے سامنے بقول مرزاقادیانی قیامت کے وجود پر دلیل یہ پیش کی جاتی ہے۔ دیکھو ہم نے ایک لڑکا (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا کیا ہے۔ یہودی تو اس دلیل ہی کے ٹھیک اور حجت ہونے سے منکر تھے۔ وہ تو کہتے تھے اور عقیدہ رکھتے تھے اور اب بھی رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام (نعوذ باﷲ نقل کفر کفر نباشد) ولد الزنا تھے۔ جو دلیل خودمحتاج دلیل ہو۔ وہ دلیل کیا ہوئی۔ پس مرزاقادیانی کی تفسیر بھی قرآن کریم کے ساتھ تلعب ثابت ہوئی۔
۵…تفسیر سرور شاہ قادیانی (نام نہاد) صحابی مرزا
مرزاقادیانی کا ایک بہت بڑا نام نہاد صحابی سرور شاہ قادیانی اپنے نبی مرزاقادیانی کی تردید عجیب طرز سے کرتا ہے۔ لکھتا ہے:
’’مسیح کے بے باپ ولادت دلیل کس طرح بن سکتی ہے۔ ہمارے نزدیک تو اس کے آسان معنی یہ ہیں کہ وہ مثیل مسیح ساعۃ (قیامت) کا علم ہے۔‘‘

(ضمیمہ اخبار بدر قادیانی ۱۹۱۱ئ، ۴،۶)
۶… تفسیر از احسن امروہی جو مرزاقادیانی کا (نام نہاد) صحابی تھا اور مرزاقادیانی کا فرشتہ کہلاتا تھا۔
(دیکھو نمبر۷ جواب اعتراض نمبر۱ کی ذیل میں)
محترم ناظرین! میں نے قادیانی جماعت کی چھ تفسیریں جن میں سے چار مرزاقادیانی کی اپنی ہیں۔ آپ کے سامنے پیش کی ہیں۔ ان کا باہمی تضاد اور مخالفت اظہر من الشمس ہے۔ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا۔ کلام اﷲ سے دو آیتیں اور مرزاقادیانی اور ان کے حواری کے اقوال اور انجیل کی تصدیق پیش کر کے اس بحث کو ختم کرتا ہوں۔
۱… پہلی آیت (سورۂ حجر:۷۲) کی ہے: ’’ انہم لفی سکرتہم یعمہون ‘‘ وہ اپنی بیہوشی میں گمراہ پھر رہے ہیں۔
۲… دوسری آیت (نسائ:۸۲) میں ہے: ’’ ولو کان من عند غیر اﷲ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراً ‘‘ اگر یہ کلام اﷲ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو ہمیں بہت اختلاف پاتے۔
مرزاقادیانی اور ان کی جماعت اپنی خود غرضی کے لئے اسلامی تفسیر کو چھوڑ کر گمراہی میں سرگرداں ہیں۔ کبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ۔
مرزاقادیانی کہتے ہیں:
۱… ’’ظاہر ہے کہ ایک دل سے دو متناقض باتیں نہیں نکل سکتیں۔ کیونکہ ایسے طریق سے یا انسان پاگل کہلاتا ہے یا منافق۔‘‘

(ست بچن ص۳۱، خزائن ج۱۰ ص۱۴۳)
۲… ’’جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵)
۳… ’’اس شخص کی حالت ایک مخبوط الحواس انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۸۴، خزائن ج۲۲ ص۱۹۱)
نوٹ:
مرزاقادیانی نے اس آیت کی جس قدر تفسیریں کی ہیں۔ ان میں سے ہم نے صرف چار پیش کی ہیں اور دو ان کے حواریوں کی درج کی ہیں۔ سب کی سب کا آپس میں تضاد وتناقض ظاہر ہے۔ پس مرزاقادیانی معہ اپنے جانشینوں کے اپنے ہی فتویٰ کی رو سے پاگل، منافق، جھوٹے اور مخبوط الحواس ثابت ہوئے۔ مرزاقادیانی کے حواری مرزاخدا بخش مصنف ’’عسل مصفیٰ‘‘ میں لکھتے ہیں اور علماء اسلام کی تفسیر میں اختلاف مذعومہ کے بارہ میں لکھتے ہیں۔
’’یہ چھ قسم کے معنی علماء متقدمین ومتاخرین نے کئے ہیں اور یہی معانی میری نظر سے گزرے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر علماء ومفسرین کو یقینی معنی معلوم ہوتے تو وہ کیوں اس قدر چکر کھاتے اور کیوں دور از قیاس آرائیں ظاہر کرتے۔ جب ہم غور سے ان معانی پر نظر کرتے ہیں تو سیاق کلام اور نیز مشاہدہ کے خلاف پاتے ہیں۔‘‘
(عسل مصفیٰ حصہ اوّل ص۴۱۹)
ناظرین! قادیانی تفسیر کے متعلق یہی عبارت پڑھ دیں۔ صرف ’’علماء متقدمین ومتاخرین‘‘ کی بجائے ’’مرزاقادیانی اور ان کے حواری‘‘ سمجھ لیں۔

(جاری ہے)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
بقیہ : حیات عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلیل (وانہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا)(الزخرف:۶۱)

تصدیق از انجیل
حضرات! یہ تو آپ بخوبی سمجھتے ہیں کہ کلام اﷲ، انجیل یا توریت کی نقل نہیں ہے۔ بلکہ ایک بالکل الگ اور براہ راست سلسلہ وحی ہے۔ پس جہاں کہیں قرآن کریم اور انجیل کے مضمون میں مطابقت لفظی یا معنوی عرصہ ظہور میں آجائے وہاں وہی معنی قابل قبول ہوں گے جو متفق علیہ ہیں۔ خود مرزاقادیانی ہماری تصدیق میں لکھ گئے ہیں۔
’’ فاسئلو اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون ‘‘
یعنی اگر تمہیں ان بعض امور کا علم نہ ہو جو تم میں پیدا ہوں تو اہل کتاب کی طرف رجوع کرو اور ان کی کتابوں کے واقعات پر نظر ڈالو۔ تااصل حقیقت تم پر منکشف ہو جائے۔

(ازالہ اوہام ص۶۱۶، خزائن ج۳ ص۴۳۳)
سو ہم نے جب موافق اس حکم کے نصاریٰ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا تو مندرجہ ذیل عبارت پر نظر پڑی۔
’’جب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا تو اس کے شاگرد الگ اس کے پاس آکر بولے۔ ہمیں بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی اور تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان۔ ’’انہ لعلم للساعۃ (قرآن کریم)‘‘ یسوع نے جواب میں ان سے کہا خبردار کوئی تمہیں گمراہ نہ کر دے۔ کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے اور کہیں گے کہ میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے… اس وقت اگر تم میں سے کہے کہ دیکھو مسیح یہاں ہے یا وہاں ہے تو یقین نہ کرنا۔ کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے… میں نے پہلے ہی تم سے کہہ دیا ہے… پس اگر وہ تم سے کہیں کہ دیکھو وہ بیابان میں ہے تو باہر نہ جانا۔ دیکھو وہ کوٹھڑیوں میں ہے۔ تو یقین نہ کرنا۔ کیونکہ جیسے بجلی پورب سے کوندھ کر پچھم تک دکھائی دیتی ہے۔ ویسے ہی ابن مریم کا آنا ہوگا… ابن مریم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے۔‘‘

(انجیل متی باب:۲۴، آیت:۳۱تا۳۳)
یہی مضمون (انجیل مرقس باب:۱۳) اور (انجیل لوقا باب:۲۱) میں مرقوم ہے۔ انجیل کے اس مضمون سے مندرجہ ذیل نتائج نکلتے ہیں۔
۱… حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام خود دوبارہ نازل ہوں گے۔ کیونکہ اپنے تمام مثیلوں سے بچنے کی ہدایت کر رہے ہیں۔
۲… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ آنا قیامت کی نشانی ہے۔
۳… جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے۔
۴… حضرت مسیح علیہ السلام آسمان سے اچانک نازل ہوں گے۔
۵… حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہونے کے بعد بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آئیں گے۔ یہی مضمون کلام اﷲ میں موجود ہے۔ جیسا کہ ہم تصریح کر چکے ہیں۔ پس قادیانی جماعت پر لازم ہے کہ مرزاقادیانی کے بیان کردہ معیار کے مطابق حق کو قبول کر کے مرزائیت سے اپنی بیزاری کا اعلان کر دیں۔

نتیجہ
مرزاقادیانی اپنی کتاب ازالہ اوہام میں لکھتے ہیں:
’’اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مسیح کا جسم کے ساتھ آسمان سے اترنا اس کے جسم کے ساتھ چڑھنے کی فرع ہے۔ لہٰذا یہ بحث بھی (کہ مسیح اسی جسم کے ساتھ آسمان سے اترے گا۔ جو دنیا میں اسے حاصل تھا) اس دوسری بحث کی فرع ہوگی جو مسیح جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھایا گیا تھا۔‘‘

(ازالہ اوہام ص۲۶۹، خزائن ج۳ ص۲۳۶)
ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم کے ساتھ آسمان سے اترنا ثابت کر دیا ہے۔ پس حسب قول مرزاقادیانی ثابت ہوگیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام اسی جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے۔ کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کا دوبارہ نازل ہونا جبھی مانا جاسکتا ہے۔ جب کہ ان کا آسمان پر اسی جسم کے ساتھ جانا تسلیم کر لیا جائے۔ ’’ فالحمد ﷲ علیٰ ذالک ‘‘
 
Top