شہزاد سرور
رکن ختم نبوت فورم
مرزائی فتنہ سورہ النساء کی آیت 69 کا غلط ترجمہ کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ یہ آیت صاف طور پر مرزئیت کا دجل پاش پاش کر رہی ہے۔
وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا 69ۭ
اور جو اطاعت کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے۔ یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور کیا ہی اچھے ہیں یہ سب ساتھی۔
تفسیر:
(٦٩) ۔ (آیت)” ومن یطع اللہ “۔۔۔۔ الخ وعدہ مطیعین ۔ ربط آیات : ۔۔۔۔ اوپر اللہ تعالیٰ اور ش کی اطاعت پر خاص مخاطبین سے اجر عظیم کا وعدہ تھا اب آگے بطور قاعدہ کلیہ کے اللہ تعالیٰ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت پر عام وعدے کا ذکر ہے ، شان نزول : ۔۔۔ حافظ ابن کثیر (رح) اور علامہ سیوطی (رح) نے متعدد اساندی کے ساتھ روایت کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان (رض) اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہمیں ہماری جانوں اور اولاد سے زیادہ محبوب ہیں اور ہماری حالت یہ ہے کہ جب کبھی گھر میں آپ یاد آجاتے ہیں تو ہم بےچین ہوجاتے ہیں اور جب تک آپ کو دیکھ نہیں لیتے تو صبر نہیں آتا خیر یہاں تو دیکھ لیتے ہیں مگر جب آخرت کا خیال آجاتا ہے تو دل بےچین ہوجاتے ہیں اور جب تک آپ کو دیکھ نہیں لیتے تو صبر نہیں آتا خیر یہاں تو دیکھ لیتے ہیں مگر جب آخرت کا خیال آجاتا ہے تو دل بےچین ہوجاتا ہے کہ وہاں آپ کو کیسے دیکھ سکیں گے اس لئے کہ آپ تو اعلی علین اور جنت کے اعلی درجوں میں ہوں گے وہاں حاضر ہو کر ہم آپ کو کیسے دیکھ سکیں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، جنت میں ساتھ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ سب ایک درجہ میں ہوں گے کیونکہ یہ تو محال ہے ۔ (آیت)” وھم درجت عند اللہ “۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں لوگوں کے مختلف درجات ہوں گے ، ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نیچے کے درجہ والے اوپر کے درجے والوں سے ملتے رہیں گے ، درجات اور مراتب کا فرق زیارت اور ملاقات سے مانع نہ ہوگا جس طرح دنیا میں تفاوت درجات ملاقات سے مانع نہیں ہوتا (آیت)” فاولئک مع الذین “۔ تشریح وعدہ وطبقات انعام یافتہ : طبقات اربعہ کی تفسیر سورة فاتحہ میں گذر چکی ہے ۔
(١) الطبرانی وابن مردویہ وابو نعیم نے الحلیہ میں والضیاء المقدسی نے صفہ الجنۃ میں (اور اس کو حسن کہا) حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ! میں اپنی جان سے زیادہ آپ سے محبت کرتا ہوں میں اپنی اولاد سے زیادہ آپ سے محبت کرتا ہوں جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کو یاد کرتا ہوں تو مجھے صبر نہیں آتا یہاں تک کہ میں آپ کو دیکھ نہ لوں۔ اور جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو میں اس بات کو جانتا ہوں کہ جب آپ جنت میں داخل ہوں گے تو نبیوں کے ساتھ بلند مرتبہ میں ہوں گے اور جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو میں ڈرتا ہوں کہ آپ کو نہ دیکھ سکوں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابھی اس بات کا جواب نہیں دیا تھا کہ جبرئیل (علیہ السلام) اس آیت کو لے کر نازل ہوئے لفظ آیت ” ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم “۔
ہر شخص اپنے محبوب کے ساتھ ہوگا
(٢) الطبرانی وابن مردویہ نے شعبی کے طریق سے ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں آپ سے محبت کرتا ہوں یہاں تک کہ میں آپ کو یاد کرتا ہوں پھر میں آجاتا ہوں اور آپ کی طرف دیکھ لیتا ہوں۔ پھر میں یہ خیال کرتا ہوں کہ میری روح نکل جائے گی (یعنی موت آئے گی) تو میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ میں آپ کے ساتھ درجہ میں رہوں۔ ابھی آپ نے اس کا جواب نہیں دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ومن یطع اللہ والرسول “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بلایا اور اس پر یہ آیتیں نازل فرمائیں۔
(٣) سعید بن منصور وابن المنذر نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی انصار میں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم میرے نزدیک آپ زیادہ محبوب ہیں میری جان سے میری اولاد سے میرے گھر والوں سے اور میرے مال سے اور جب میں آپ کے پاس آتا ہوں تو آپ کو دیکھ لیتا ہوں پھر میں یہ خیال کرتا ہوں کہ عنقریب میں مرجاؤں گا اور انصاری رونے لگے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا کیوں روتے ہو ؟ اس نے عرض کیا کہ میں اس بات کو یاد کرتا ہوں کہ آپ بھی اور ہم بھی عنقریب مرجائیں گے اور آپ نبیوں کے ساتھ بلند درجہ میں چلے جائیں گے اور ہم جنت میں آپ سے کم مرتبہ میں ہوں گے (تو وہاں ملاقات کیسے ہوگی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابھی کوئی جواب عنایت نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم “ سے لے کر ” علیما “ تک آپ نے فرمایا اے فلاں تجھے بشارت ہو۔
(٤) ابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی انصار میں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور غمگین تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا اے فلانے ! میں تجھ کو غمگین کیوں دیکھ رہا ہوں عرض کیا اے اللہ کے نبی ! ایک چیز کا مجھ فکر ہے۔ آپ نے فرمایا وہ کیا ہے عرض کیا ہم صبح کو اور شام کو آکر آپ کے چہرہ مبارک کی زیارت کرلیتے ہیں اور آپ کی مجلس میں بیٹھ لیتے ہیں کل کو جب آپ نبیوں کے ساتھ بلند میں ہوں گے۔ اور ہم آپ تک پہنچ نہیں سکیں گے (تو پھر کیا ہوگا) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابھی اس کو کوئی جواب نہ دیا تھا کہ جبرئیل یہ آیت لے کر آئے لفظ آیت ” ومن یطع اللہ والرسول “ سے لے کر ” رفیقا “ تک تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بھیجا اور اس کو خوشخبری دی۔
(٥) عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یا رسول اللہ ! ہم نہیں چاہتے کہ ہم آپ سے دنیا میں جدا ہوجائیں گے اگر آپ ہم سے پہلے (اس دنیا سے) چلے گئے اور آپ ہم سے مرتبہ میں بہت ہوں گے) تو ہم آپ کو نہ دیکھ سکیں گے (تو پھر کیسے ہوگا) تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” ومن یطع اللہ والرسول “ (الآیہ) ۔
(٦) عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک نوجوان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر اے اللہ کے نبی ! دنیا میں تو ہم آپ کو دیکھ لیتے ہیں اور قیامت کے دن ہم آپ کو نہیں دیکھ پائیں گے اس لئے کہ آپ جنت میں اونچے درجوں میں ہوں گے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ” ومن یطع اللہ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا تو انشاء اللہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔
(٧) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ کچھ لوگوں نے کہا یہ اللہ کے نبی جن کو ہم دنیا میں دیکھ لیتے ہیں لیکن آخرت میں اپنی فضیلت کی وجہ سے بلند مرتبہ پر ہوں گے تو ہم ان کو نہ دیکھ سکیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ومن یطع اللہ والرسول “ سے لے کر ” رفیقا “ تک۔
(٨) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انصار میں سے کچھ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! جب اللہ تعالیٰ آپ کے مشتاق ہیں تو ہم کس طرح کریں گے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ومن یطع اللہ والرسول “ (الآیہ) ۔
(٩) ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے عرض کیا ہم نے جان لیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے فضیلت ہوگی ہر اس شخص پر جو آپ پر ایمان لایا جنت کے درجات میں ان لوگوں نے جنہوں نے آپ کی تابعداری کی اور آپ کی تصدیق کی پھر کس طرح ہوگا جب ہم لوگ جمع ہوگے جنت میں تو کیسے ایک دوسرے کو دیکھیں گے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اس بارے میں نازل کی (اور) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اونچے درجات والے لوگ ان میں سے نیچے والوں پر اتریں گے اور ان کے باغات میں داخل ہوں گے اور وہ لوگ یاد کریں گے ان چیزوں کو جو اللہ تعالیٰ نے ان پر انعام فرمایا اور اس بات پر اس کی ثناء بیان کریں گے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت ذریعہ نجات ہے
(١٠) مسلم وابو داؤد والنسائی نے ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) سے روایت کیا کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رات گزارا کرتا تھا اور میں آپ کے لئے وضو کا پانی اور دوسری ضروریات لایا کرتا تھا آپ نے فرمایا مجھ سے سوال کر میں نے کہا یا رسول اللہ ! میں جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں آپ نے فرمایا اس کے علاوہ دوسرا سوال کر، میں نے کہا وہی سوال ہے آپ نے فرمایا پھر میری مدد کر اپنی جان پر سجود کی کثرت کے ساتھ (یعنی نفل نمازوں کی کثرت کر) ۔
(١١) احمد نے عمرو بن مرہ جہنی (رض) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ! میں لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہوں اور اس بات کی بھی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں میں پانچ نمازیں پڑھتا ہوں، زکوٰۃ ادا کرتا ہوں، رمضان کے روزے رکھتا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص ان اعمال پر مرے گا تو وہ نبیوں، صدیقوں اور شہداء کے ساتھ ہوگا قیامت کے دن اسی طرح اور آپ نے اپنی انگلیوں کو کھڑا جب تک وہ والدین کی نافرمانی نہ کرے۔
(١٢) احمد واحاکم نے (اس کو صحیح کہا) معاذ بن انس (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ کے راستہ میں ایک ہزار آیتیں پڑھ لے تو قیامت کے دن لکھا جائے گا نبیوں صدیقوں اور شہداء اور صالحین کے ساتھ اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں (ان شاء اللہ ) ۔
(١٣) بخاری ومسلم وابن ماجہ نے عائشہ (رض) سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کوئی نبی بیمار ہوتا ہے تو اس کو دنیا اور آخرت کا اختیار دیا جاتا ہے۔ اور آپ اسی بیماری میں تھے جس میں آپ کی وفات ہوئی آپ کو گلے کی تکلیف ہوئی میں نے آپ کو یہ پڑھتے ہوئے سنا۔ لفظ آیت ” مع الذین انعم اللہ علیہم من النبین والصدقین والشھداء والصلحین “ تو میں نے جان لیا کہ آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔
(١٤) ابن جریر نے مقداد (رض) سے روایت کیا کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ نے اپنی بیوی کے بارے میں فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ میرے بعد ان کے لئے صدیقین ہوں گے پھر فرمایا تمہاری مراد صدیقین سے کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا ہمارے وہ اولاد جو چھوٹی عمر میں فوت ہوگئیں آپ نے فرمایا نہیں لیکن صدیقین سے مراد ہے تصدیق کرنے والے۔
وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا 69ۭ
اور جو اطاعت کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے۔ یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور کیا ہی اچھے ہیں یہ سب ساتھی۔
تفسیر:
(٦٩) ۔ (آیت)” ومن یطع اللہ “۔۔۔۔ الخ وعدہ مطیعین ۔ ربط آیات : ۔۔۔۔ اوپر اللہ تعالیٰ اور ش کی اطاعت پر خاص مخاطبین سے اجر عظیم کا وعدہ تھا اب آگے بطور قاعدہ کلیہ کے اللہ تعالیٰ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت پر عام وعدے کا ذکر ہے ، شان نزول : ۔۔۔ حافظ ابن کثیر (رح) اور علامہ سیوطی (رح) نے متعدد اساندی کے ساتھ روایت کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان (رض) اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہمیں ہماری جانوں اور اولاد سے زیادہ محبوب ہیں اور ہماری حالت یہ ہے کہ جب کبھی گھر میں آپ یاد آجاتے ہیں تو ہم بےچین ہوجاتے ہیں اور جب تک آپ کو دیکھ نہیں لیتے تو صبر نہیں آتا خیر یہاں تو دیکھ لیتے ہیں مگر جب آخرت کا خیال آجاتا ہے تو دل بےچین ہوجاتے ہیں اور جب تک آپ کو دیکھ نہیں لیتے تو صبر نہیں آتا خیر یہاں تو دیکھ لیتے ہیں مگر جب آخرت کا خیال آجاتا ہے تو دل بےچین ہوجاتا ہے کہ وہاں آپ کو کیسے دیکھ سکیں گے اس لئے کہ آپ تو اعلی علین اور جنت کے اعلی درجوں میں ہوں گے وہاں حاضر ہو کر ہم آپ کو کیسے دیکھ سکیں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، جنت میں ساتھ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ سب ایک درجہ میں ہوں گے کیونکہ یہ تو محال ہے ۔ (آیت)” وھم درجت عند اللہ “۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں لوگوں کے مختلف درجات ہوں گے ، ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نیچے کے درجہ والے اوپر کے درجے والوں سے ملتے رہیں گے ، درجات اور مراتب کا فرق زیارت اور ملاقات سے مانع نہ ہوگا جس طرح دنیا میں تفاوت درجات ملاقات سے مانع نہیں ہوتا (آیت)” فاولئک مع الذین “۔ تشریح وعدہ وطبقات انعام یافتہ : طبقات اربعہ کی تفسیر سورة فاتحہ میں گذر چکی ہے ۔
(١) الطبرانی وابن مردویہ وابو نعیم نے الحلیہ میں والضیاء المقدسی نے صفہ الجنۃ میں (اور اس کو حسن کہا) حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ! میں اپنی جان سے زیادہ آپ سے محبت کرتا ہوں میں اپنی اولاد سے زیادہ آپ سے محبت کرتا ہوں جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کو یاد کرتا ہوں تو مجھے صبر نہیں آتا یہاں تک کہ میں آپ کو دیکھ نہ لوں۔ اور جب میں اپنی اور آپ کی موت کو یاد کرتا ہوں تو میں اس بات کو جانتا ہوں کہ جب آپ جنت میں داخل ہوں گے تو نبیوں کے ساتھ بلند مرتبہ میں ہوں گے اور جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو میں ڈرتا ہوں کہ آپ کو نہ دیکھ سکوں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابھی اس بات کا جواب نہیں دیا تھا کہ جبرئیل (علیہ السلام) اس آیت کو لے کر نازل ہوئے لفظ آیت ” ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم “۔
ہر شخص اپنے محبوب کے ساتھ ہوگا
(٢) الطبرانی وابن مردویہ نے شعبی کے طریق سے ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں آپ سے محبت کرتا ہوں یہاں تک کہ میں آپ کو یاد کرتا ہوں پھر میں آجاتا ہوں اور آپ کی طرف دیکھ لیتا ہوں۔ پھر میں یہ خیال کرتا ہوں کہ میری روح نکل جائے گی (یعنی موت آئے گی) تو میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ میں آپ کے ساتھ درجہ میں رہوں۔ ابھی آپ نے اس کا جواب نہیں دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ومن یطع اللہ والرسول “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو بلایا اور اس پر یہ آیتیں نازل فرمائیں۔
(٣) سعید بن منصور وابن المنذر نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی انصار میں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم میرے نزدیک آپ زیادہ محبوب ہیں میری جان سے میری اولاد سے میرے گھر والوں سے اور میرے مال سے اور جب میں آپ کے پاس آتا ہوں تو آپ کو دیکھ لیتا ہوں پھر میں یہ خیال کرتا ہوں کہ عنقریب میں مرجاؤں گا اور انصاری رونے لگے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا کیوں روتے ہو ؟ اس نے عرض کیا کہ میں اس بات کو یاد کرتا ہوں کہ آپ بھی اور ہم بھی عنقریب مرجائیں گے اور آپ نبیوں کے ساتھ بلند درجہ میں چلے جائیں گے اور ہم جنت میں آپ سے کم مرتبہ میں ہوں گے (تو وہاں ملاقات کیسے ہوگی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابھی کوئی جواب عنایت نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم “ سے لے کر ” علیما “ تک آپ نے فرمایا اے فلاں تجھے بشارت ہو۔
(٤) ابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی انصار میں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور غمگین تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا اے فلانے ! میں تجھ کو غمگین کیوں دیکھ رہا ہوں عرض کیا اے اللہ کے نبی ! ایک چیز کا مجھ فکر ہے۔ آپ نے فرمایا وہ کیا ہے عرض کیا ہم صبح کو اور شام کو آکر آپ کے چہرہ مبارک کی زیارت کرلیتے ہیں اور آپ کی مجلس میں بیٹھ لیتے ہیں کل کو جب آپ نبیوں کے ساتھ بلند میں ہوں گے۔ اور ہم آپ تک پہنچ نہیں سکیں گے (تو پھر کیا ہوگا) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابھی اس کو کوئی جواب نہ دیا تھا کہ جبرئیل یہ آیت لے کر آئے لفظ آیت ” ومن یطع اللہ والرسول “ سے لے کر ” رفیقا “ تک تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بھیجا اور اس کو خوشخبری دی۔
(٥) عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یا رسول اللہ ! ہم نہیں چاہتے کہ ہم آپ سے دنیا میں جدا ہوجائیں گے اگر آپ ہم سے پہلے (اس دنیا سے) چلے گئے اور آپ ہم سے مرتبہ میں بہت ہوں گے) تو ہم آپ کو نہ دیکھ سکیں گے (تو پھر کیسے ہوگا) تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” ومن یطع اللہ والرسول “ (الآیہ) ۔
(٦) عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک نوجوان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر اے اللہ کے نبی ! دنیا میں تو ہم آپ کو دیکھ لیتے ہیں اور قیامت کے دن ہم آپ کو نہیں دیکھ پائیں گے اس لئے کہ آپ جنت میں اونچے درجوں میں ہوں گے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ” ومن یطع اللہ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا تو انشاء اللہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔
(٧) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ کچھ لوگوں نے کہا یہ اللہ کے نبی جن کو ہم دنیا میں دیکھ لیتے ہیں لیکن آخرت میں اپنی فضیلت کی وجہ سے بلند مرتبہ پر ہوں گے تو ہم ان کو نہ دیکھ سکیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ومن یطع اللہ والرسول “ سے لے کر ” رفیقا “ تک۔
(٨) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انصار میں سے کچھ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! جب اللہ تعالیٰ آپ کے مشتاق ہیں تو ہم کس طرح کریں گے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ومن یطع اللہ والرسول “ (الآیہ) ۔
(٩) ابن جریر نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے عرض کیا ہم نے جان لیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے فضیلت ہوگی ہر اس شخص پر جو آپ پر ایمان لایا جنت کے درجات میں ان لوگوں نے جنہوں نے آپ کی تابعداری کی اور آپ کی تصدیق کی پھر کس طرح ہوگا جب ہم لوگ جمع ہوگے جنت میں تو کیسے ایک دوسرے کو دیکھیں گے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اس بارے میں نازل کی (اور) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اونچے درجات والے لوگ ان میں سے نیچے والوں پر اتریں گے اور ان کے باغات میں داخل ہوں گے اور وہ لوگ یاد کریں گے ان چیزوں کو جو اللہ تعالیٰ نے ان پر انعام فرمایا اور اس بات پر اس کی ثناء بیان کریں گے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت ذریعہ نجات ہے
(١٠) مسلم وابو داؤد والنسائی نے ربیعہ بن کعب اسلمی (رض) سے روایت کیا کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رات گزارا کرتا تھا اور میں آپ کے لئے وضو کا پانی اور دوسری ضروریات لایا کرتا تھا آپ نے فرمایا مجھ سے سوال کر میں نے کہا یا رسول اللہ ! میں جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں آپ نے فرمایا اس کے علاوہ دوسرا سوال کر، میں نے کہا وہی سوال ہے آپ نے فرمایا پھر میری مدد کر اپنی جان پر سجود کی کثرت کے ساتھ (یعنی نفل نمازوں کی کثرت کر) ۔
(١١) احمد نے عمرو بن مرہ جہنی (رض) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ! میں لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہوں اور اس بات کی بھی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں میں پانچ نمازیں پڑھتا ہوں، زکوٰۃ ادا کرتا ہوں، رمضان کے روزے رکھتا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص ان اعمال پر مرے گا تو وہ نبیوں، صدیقوں اور شہداء کے ساتھ ہوگا قیامت کے دن اسی طرح اور آپ نے اپنی انگلیوں کو کھڑا جب تک وہ والدین کی نافرمانی نہ کرے۔
(١٢) احمد واحاکم نے (اس کو صحیح کہا) معاذ بن انس (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ کے راستہ میں ایک ہزار آیتیں پڑھ لے تو قیامت کے دن لکھا جائے گا نبیوں صدیقوں اور شہداء اور صالحین کے ساتھ اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں (ان شاء اللہ ) ۔
(١٣) بخاری ومسلم وابن ماجہ نے عائشہ (رض) سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کوئی نبی بیمار ہوتا ہے تو اس کو دنیا اور آخرت کا اختیار دیا جاتا ہے۔ اور آپ اسی بیماری میں تھے جس میں آپ کی وفات ہوئی آپ کو گلے کی تکلیف ہوئی میں نے آپ کو یہ پڑھتے ہوئے سنا۔ لفظ آیت ” مع الذین انعم اللہ علیہم من النبین والصدقین والشھداء والصلحین “ تو میں نے جان لیا کہ آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔
(١٤) ابن جریر نے مقداد (رض) سے روایت کیا کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ نے اپنی بیوی کے بارے میں فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ میرے بعد ان کے لئے صدیقین ہوں گے پھر فرمایا تمہاری مراد صدیقین سے کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا ہمارے وہ اولاد جو چھوٹی عمر میں فوت ہوگئیں آپ نے فرمایا نہیں لیکن صدیقین سے مراد ہے تصدیق کرنے والے۔