• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

پادری عبداللہ آتھم والی پیشگوئی کا انجام

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
1893 میں مرزا غلام احمد قادیانی اور پادری عبداللہ آتھم کے درمیان 15 روزہ مباحثہ ہوا ۔ اس مباحثہ میں مرزا صاحب کی کارکردگی کچھ زیادہ جاندار نہیں تھی ۔ مباحثہ کے آخری دن مرزا صاحب نےحسب ذیل الفاظ کے ساتھ ایک پیشگوئی کر دی ۔
'' آج رات جو مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے کہ جبکہ میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے تیرے ہیں تو اس نے مجھے یہ نشان دیا کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اس کو سخت ذلت پہنچنے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے، اس کی عزت ظاہر ہوگی۔''

(روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 292)
اس پیشگوئی کی مزید تشریح اگلے صفحہ پر مرزا صاحب کی طرف سے یوں مندرج ہے:
'' میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلے یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے پندرہ ماہ کے عرصے میں آج کی تاریخ (۵ ؍ جون ۱۸۹۳ء) سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ایک سزا کے اٹھانے کے لیے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے رو سیاہ کیا جاوے میرے گلے میں رسا ڈال دیا جاوے مجھ کو پھانسی دی جاوے ہر ایک بات کے لیے تیار ہوں۔ اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ضرور وہ ایسا ہی کرے گا۔ ضرور کرے گا، ضرور کرے گا زمین و آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی۔
اب میں ڈپٹی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ نشان پورا ہوگیا تو کیا یہ سب آپ کے منشاء کے موافق خدا کی پیشگوئی ٹھہرے گی یا نہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کے بارے میں جن کو اندر و نہ بائیبل میں دجال کے لفظ سے آپ نامزد کرتے ہیں، محکم دلیل ہو جائے گی یا نہیں۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لیے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔''

الفاظ مذکورہ بالا صاف ہیں کہ ڈپٹی عبداللہ آتھم ۵؍ جون ۱۸۹۳ء سے پندرہ ماہ (۵؍ ستمبر ۱۸۹۴ء) تک بصورت الوہیت مسیح کے نہ چھوڑنے اور سچے خدا کے نہ ماننے کے فوت ہو جائے گا۔ اگر نہ ہو تو مرزا صاحب ایسے اور ویسے، چونکہ مرزا صاحب یہ پیشگوئی کرنے میں مفتری علی اللہ تھے اس لیے یہ پوری نہ ہوئی اور ''مسٹر عبداللہ آتھم بچ گیا''
الغرض مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی حرف بہ حرف غلط نکلی
نہ آتھم نے مسحیت سے تائب ہو کر رجوع الحق کیا
نہ وہ 15 ماہ میں مرا
نہ اس کی ذلت ہوئی
نہ مرزا صاحب کی عزت ہوئی بلکہ الٹا خوب رسوا ہوئے
نہ بعض اندھے سوجاکھے ہوئے
نہ بعض لنگڑے چلنے لگے اور
نہ بعض بہرے سننے لگے ۔
مرزا صاحب نے خود اس ذلت و رسوائی کا جو نقشہ کھینچا وہ کچھ یوں ہے ۔
"لیکن پادریوں نے خدا تعالیٰ کا خوف نہ کیا اور امرتسر کے بازاروں میں اس کو لئے پھرے کہ دیکھو آتھم صاحب زندہ موجود ہے اور پیشگوئی جھوٹی نکلی۔ بہت سے پلید طبع مولوی جو نام کے مسلمان تھے اور چند نالائق اور دنیا پرست اخبار والے ان کے ساتھ ہوگئے اور لعن طعن اور تکذیب اور تبراؔ بازی میں ان کے بھائی بن بیٹھے اور بڑے جوش سے اسلام کی خفت کرائی۔ پھر کیا تھا عیسائیوں کو اور بھی موقعہ ہاتھ لگا۔ پس انہوں نے پشاور سے لیکر الہ آباد اور بمبئی اور کلکتہ اور دور دور کے شہروں تک نہایت شوخی سے ناچنا شروع کیا اور دین اسلام پر ٹھٹھے کئے اور یہ سب مولوی یہودی صفت اور اخباروں والے ان کے ساتھ خوش خوش اور ہاتھ میں ہاتھ ملائے ہوئے تھے۔" (خ ج 12 ص 54)
مرزا بشیر احمد سیرۃ المہدی جلد اول ص 166میں لکھتا ہے
" پندرہ ماہ کی آخری رات گزرنے کے بعد جب صبح ہوئی تو آتھم کے دوستوں نے ان کے گلے میں ہار پہنا کر اور ان کو گاڑی میں بٹھا کر سارے شہر میں خوشی کا جلوس پھرایا اور اس دن لوگوں میں شور تھا کہ مرزے کی پیشگوئی جھوٹی نکلی۔"
مرزا صاحب نے آتھم کو مارنے کے لئے ایک دلچسپ ٹوٹکا بھی کیا تھا جس کا احوال سیرت المہدی میں بیان ہوا ہے اس کا سکین پوسٹ کے اینڈ پر لگا دیا جائے گا۔
اب اصولی طور پر تو مرزا صاحب کو اپنی تجویز کردہ سزاوں پر عمل کرنا چاہئے تھا یہ نہ بھی کرتے تو کم ازکم کچھ ندامت کا اظہار ہی کر دیتے لیکن حسب معمول مرزا صاحب نے نہایت ہی نا انصافی سے کام لے کر انتہائی درجہ کے بودے جوابات سے اپنی پیشگوئی کی صداقت پر اصرار کیا اور مندرجہ ذیل عذرات بیان کیے۔

عذرا اوّل:
ابؔ یاد رہے کہ’’ پیشگوئی میں فریق مخالف کے لفظ سے جس کے لئے ہاویہ یا ذلت کا وعدہ تھا ایک گروہ مراد ہے۔ جو اس بحث سے تعلق رکھتا تھا خواہ خود بحث کرنے والا تھا یا معاون یا حامی یا سرگروہ تھا۔ ہاں مقدم سب سے ڈپٹی عبد اللہ آتھم تھا ۔(روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 2)
اس تاویل سے جو مقصود مرزا صاحب کا تھا اسے یوں لکھا ہے کہ '' اس عرصہ میں پادری رائٹ مر گیا جس کی موت سے ڈاکٹر مارٹن کلارک (جو اس مباحثہ میں نہ صرف عیسائیوں کا پریزیڈنٹ تھا، بلکہ ایک دن کا مباحثہ بھی اس نے کیا تھا۔ ناقل) اور اس کے دوستوں کو سخت صدمہ پہنچا۔ (ایضاً صفحہ 59)
جواب:
(۱) مرزا صاحب نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ میں صاحب مجسٹریٹ بہادر ضلع گورداسپور کے سامنے اس معاملے کو بایں الفاظ صاف کردیا ہے کہ:
'' عبداللہ آتھم کی درخواست پر پیشگوئی صرف اس کے واسطے تھی کل متعلقین مباحثہ کی بابت پیشگوئی نہ تھی۔''(خ ج 13 ص 279)
اسی طرح ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
ابتدا سے ہمارا علم یہی تھا کہ اس پیشگوئی کا مصداق صرف آتھم ہے۔ ہماری نیت میں کبھی کوئی اور نہ تھا۔ ہاں دوسروں پر ہم نے اثر دیکھا ورنہ یہ کہیں نہیں لکھا کہ جیسا عبداللہ آتھم اس پیشگوئی میں شریک ہے دوسرے بھی شریک ہیں۔ اس لیے ہماری پوری اور اصل توجہ صرف آتھم کی طرف رہی اور اب تک اسی کو اصل مصداق پیشگوئی کا سمجھتے ہیں۔(خ ج13 ص 299)

معاملہ صاف ہوگیا کہ مرزا صاحب کا انوار الاسلام میں دیگر عیسائیوں کو اس پیشگوئی میں لپیٹنا محض دفع الوقتی کے لیے کذب بیانی تھی۔
(۲) اگر ایک طرف مارٹن کلاک کا دوست مر گیا تو دوسری طرف انہی دنوں میں مرزا صاحب کے مقرب اور اخص حواری مولوی نورالدین کا لڑکا بھی مر گیا۔ (خ ج 9 ص 299)
حساب برابر
عذر دوم از مرزا صاحب:
'' آتھم کی موت کی پیشگوئی ہماری ذاتی رائے تھی۔ اصل پیشگوئی میں ہاویہ کا لفظ ہے اور پیشگوئی کے دنوں میں عبداللہ آتھم کا ڈرتے رہنا اور شہر بہ شہر بھاگتے پھرنا یہی اس کا ہاویہ ہے۔''(مفہوماً خ ج 9 ص 5،2)
اگر ہاویہ کے لفظ سے الہام میں موت مراد نہ تھی تو پھر مرزا صاحب نے یہ کیسے لکھا کہ،
1: الہامی عبارت میں شرطی طور پر عذاب موت کا وعدہ تھا۔ (خ ج 9 ص 5)
2: آتھم نے رجوع کا حصہ لے لیا جس حصہ نے اس کے وعدۂ موت میں تاخیر ڈال دی۔ (خ ج 9 ص 2)
3: نفس پیشگوئی تو اس کی موت تھی۔ (خ ج 22 ص 194)
اب فرمائیں '' یہ موت کا وعدہ'' نفس پیشگوئی موت یہ کس کی طرف سے تھے؟

یہ تو ہوا موت والی تشریح کا ذکر! اب سنیے آتھم کے دلی رجوع اور خوف کا جواب۔
مرزا صاحب کا یہ مباحثہ اسلام و عیسائیت کی صداقت پر تھا جس کو آخری دن ان الفاظ میں ختم کیا کہ:
'' جو فریق عمداً جھوٹ اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ ۱۵ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا۔''
ان سے جو ظاہر ہوتا ہے وہ ہر دانا بلکہ معمولی دماغ والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ جب تک مسٹر آتھم ''جھوٹے خدا یعنی اعتقاد الوہیت مسیح'' کو نہ چھوڑیں گے اور سچے معبود خالق السموت والارض وما بینھما پر ایمان نہ لائیں گے یقینا موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ اسی مضمون کو مرزا صاحب نے اپنی دیگر تصانیف میں یوں ادا کیا ہے:
۱: پیشگوئی میں یہ بیان تھا کہ فریقین میں جو شخص اپنے عقیدہ کی رو سے جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ (خ ج 19 ص 6)
۲: پیشگوئی میں صاف شرط موجود تھی کہ اگر وہ عیسائیت پر مستقیم رہیں گے اور ترک استقامت کے آثار نہیں پائے جائیں گے اور ان کے افعال یا اقوال سے رجوع الی الحق ثابت نہیں ہوگا تو صرف اس حالت میں پیشگوئی کے اندر فوت ہوں گے۔ (خ ج 13 ص 11)
۳: ''وَانْ یسلمن یَسْلم والا فمیت۔'' یعنی اگر وہ اسلام لائے گا تو بچے گا ورنہ مر جائے گا۔(خ ج 7 ص 82)

اس کے مقابل مسٹر عبداللہ آتھم کے الفاظ پڑھئے۔ ڈپٹی صاحب کا بیان اخبار وفادار ۱۵ ستمبر ۹۴ء میں درج ہے کہ:
'' مرزا صاحب کہتے ہیں کہ آتھم نے دل میں اسلام قبول کرلیا ہے اس لیے نہیں مرا، ان کو اختیار ہے جو چاہیں کہیں اس کو خدا نے جھوٹا کیا جو تاویل کریں کون روک سکتا ہے مرزا صاحب بھی یہی لکھتے ہیں کہ بے حیا جو چاہے بکے کون اس کو روکتا ہے (ص ۳ اعجاز احمدی۔ ناقل) میں دل سے اور ظاہراً پہلے بھی عیسائی تھا اور اب بھی ہوں اب میری عمر ۶۸ سال سے زیادہ ہے اور جو کوئی چاہے پیشگوئی کرسکتا ہے کہ ایک سو سال کے اندر اندر اس وقت کے جو باشندے دنیا پر میں سب مر جاویں گے۔''
اس خط میں مسٹر آتھم نے نہ صرف کسی قسم کے رجوع سے ہی انکار کیا ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اور مرزا صاحب کی آئندہ گول مول پیشگوئی پر بھی چبتا ہوا حملہ کیا ہے یعنی مرزا صاحب جو کہتے ہیں کہ اگرچہ آتھم میعاد میں نہیں مرا مگر مر ضرور جائے گا۔ خدا اس کو نہیں چھوڑے گا وغیرہ یہ سب ڈھکو سلے اب کام نہیں آسکتے کیونکہ میں نے آخر کو تو مرنا ہے۔
بہرحال مسٹر آتھم رجوع سے انکاری ہے اس خط پر کیا موقوف ہے خود مرزا صاحب نے آتھم کے انکاری بیانات کو اپنے اشتہارات انعامی تین ہزار ص ۱۳ وغیرہ میں نقل کیا ہے۔ پس ان ظاہری اور صاف بینات سے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ وہ دل سے ڈر گیا تھا سوائے ڈھٹائی کے اور کچھ نہیں۔ (جاری ہے)



 
آخری تدوین :

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا صاحب کی ایک عجیب چالاکی:
جب مرزا صاحب نے دیکھا کہ آتھم علی الاعلان میری تکذیب پر کمر بستہ ہے تو یہ چال چلی کہ اگر آتھم دل میں ہماری پیش گوئی سے نہیں ڈرا تو قسم کھائے۔ ہم اس کو ایک ہزار دو ہزار، بلکہ چار ہزار تک انعام دینے کو تیار ہیں۔(شتہار مرزا ، مورخہ 5؍ ستمبر1894ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص23،ج 2)
اس میں ایک بڑا راز مخفی تھا وہ یہ کہ مرزا صاحب جانتے تھے کہ عیسائیوں کے مذہب میں قسم کھانی شرعاً ممنوع ہے۔ جیسا کہ مرزا صاحب کشتی نوح میں پر لکھتے ہیں:
'' (اے مسلمانو!) قرآن تمہیں انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ ہرگز قسم نہ کھاؤ۔''(خ ج 19 ص 29)
اس لیے مرزا صاحب نے قسم کا مطالبہ کیا مراد یہ تھی اگر وہ قسم کھا گیا تو ہم کہہ دیں گے دیکھ لو ہماری بات سچی نکلی۔ آتھم عیسائیت سے دست بردار ہوچکا۔ اس کے مذہب میں قسم ممنوع ہے مگر اس نے اٹھا لی ہے۔
اگر اس نے قسم نہ کھائی جیسا کہ یقین ہے کہ وہ خلاف مذہب ہرگز نہ کھائے گا تو بھی ''پوں بارہ''؟ میں ہم خوب شور مچائیں گے۔ آسمان سر پر اٹھائیں گے کہ دیکھ لو، وہ جھوٹا ہے تبھی تو قسم نہیں کھاتا۔

دوسری چالاکی:
اس قسم کے معاملہ میں مرزا صاحب کی یہ عادت تھی کہ وہ صرف قسم کھانے پر ہی روپیہ ادا کرکے اپنی کذب گوئی کا اقرار کرنے کو تیار نہیں تھے بلکہ ساتھ ہی یہ پچ لگا رہے تھے:
''اگر عبداللہ آتھم قسم کھا لے پھر اگر ایک سال تک فوت نہ ہو تو جو مولوی لوگ ہمارا نام رکھیں سب سچ ہوگا۔'' (خ ج 9 ص 25)
بھائیو! یہ ہے اصلی راز قسم دینے کا۔ مطلب یہ کہ کسی طرح ایک سال اور مہلت مل جائے اور موجودہ ذلت اور رسوائی کا سیاہ داغ مٹانے کا بہانہ پیدا ہو جائے۔ رہا سال کے بعد کا معاملہ۔ سو کون جئے کون مرے۔ ممکن ہے قسمت کی دیوی مہربان ہو جائے اور آتھم مر جائے۔ یہ بھی نہ ہوا تو سال بھر میں سو تجویزیں، بیسیوں چالیں چلی جاسکتی ہیں۔
ادھر آتھم بھی ایک جہاں دیدہ سرد گرم چشیدہ تھا وہ بھلا ان چالوں میں کب آنے والا تھا۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ:
'' قریب ستر برس کے تو میری عمر ہے۔ اب آئندہ سال بڑھانا کیا معنی، کیا جناب کے خونی فرشتوں کو پہلے موقع میرے مارنے کا نہیں ملا، ایک سال اور طلب ہوتی ہے۔'' (مکتوب آتھم مورخہ 17؍ ستمبر 1894ء مندرجہ اشاعۃ السنۃ ص122تا 114 ، ج 16)
سو اس چال میں بھی مرزا صاحب کو ناکامی ہوئی۔
مرزا صاحب کا ایک اور عذر
آتھم کے دل میں ڈر جانے کا یہ ثبوت ہے کہ اس نے پیشگوئی سننے کے بعد اسلام کے خلاف لکھنا چھوڑ دیا۔ یہی اس کا رجوع ہے۔(مفہوم خ ج 9 ص 16)
جواب:
آتھم پہلے کب ہمیشہ اسلام کے خلاف لکھا کرتا تھا۔ مرزا صاحب کی شہادت موجود ہے کہ:
'' مسٹر عبداللہ آتھم صاحب عیسائیوں میں سے شریف اور سلیم المزاج ہیں۔'' ( خ ج 2 ص 310)
علاوہ اس کے یہ بھی جھوٹ ہے کہ اس نے پیشگوئی کے بعد اسلام کے خلاف ''ایک سطر'' نہیں لکھی۔ اس مباحثہ کے بعد مسٹر آتھم نے ''خلاصہ مباحثہ'' شائع کیا جس میں برابر اس نے اسلام اور مرزا صاحب کے خلاف حسبِ اعتقاد خود اعتراض کئے ہیں۔ ملاحظہ ہو ص 4،3بلکہ صفحاتِ آخر میں تو اس نے کھلم کھلا مرزا صاحب کو ''دہریہ اور ممتحن ایمان'' یعنی ''جھوٹا نبی'' لکھا ہے۔
عذر:
آتھم نے عین جلسہ مباحثہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں سخت لفظ کہنے سے رجوع کیا تھا۔ پس یہ بھی اس کا رجوع تھا۔ (تفہیمات ربانیہ ص 579)
آتھم نے مباحثہ کی مجلس میں ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال کہا تھا سو (اسوقت میں نے کہا تھا-ناقل) تم اگر اس لفظ سے رجُوع نہیں کرو گے تو پندرہ مہینہ ؔ میں ہلاک کئے جاؤ گے. سو آتھم نے اسی مجلس میں رجوع کیا“ (روحانی خزائن جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 108-109) مولفہ 1902

الجواب:
اگر اس نے اسی دن رجوع کرلیا تھا تو پھر پندرہ ماہ والی پیشگوئی کیوں بحال رکھی گئی۔ کیوں نہ کہہ دیا کہ بس تم نے رجوع کرلیا ہے اب پیشگوئی منسوخ ہے۔ کیوں پندرہ ماہ تک انتظار کیا اور میعاد گزرنے کے بعد طرح طرح کے حیلے بہانوں سے جوا وپر مذکور ہوچکے ہیں ''جان چھڑانے'' کی ناکام سعی کی۔ پھر یہ بھی غلط ہے کہ اس نے سخت لفظ سے رجوع کیا تھا۔ رجوع نہیں انکار کیا تھا۔ یعنی اس نے بقول مرزا صاحب یہ کہا تھا کہ:
'' میں نے آنجناب کی شان میں ایسا کوئی لفظ نہیں کہا۔'' (خ ج 19 ص 109)

افسوس مرزا صاحب سلطان المتکلمین اور رئیس المناظرین تو کہلاتے ہیں مگر انہیں اتنا بھی پتہ نہیں کہ رجوع اور انکار میں کیا فرق ہے؟
بالآخر ہم اس پیشگوئی کے متعلق وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو مرزا صاحب نے خود لکھا ہے کہ:
'' میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر وہ فریق پندرہ ماہ میں نہ مرے تو میں ہر ایک سزا اٹھانے کو تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے۔ روسیاہ کیا جاوے میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جائے۔ مجھ کو پھانسی دیا جائے میرے لیے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔''
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
24azlkw.jpg
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا صاحب کی اس ناکام پیشگوئی کا نتیجہ یہ نکلا کہ مرزا صاحب کے متعدد پیروکاروں نے مرزائیت سے ناطہ توڑ کر صلیب پرستی اختیار کر لی اور جب مولوی سعد اللہ لدھیانوی نے مرزا صاحب کو اس کا طعنہ دیا تو مرزا صاحب یوں گویا ہوئے ۔
"اور یہ کہنا کہ بعض مسلمان اس الہام کے بعد عیسائی ہوگئے اس سے بھی عیسائیوں کی صداقت پر ایک دلیل سمجھنا صرف ایک خباثت ہے اس سے زیادہ نہیں۔ اے نادان عدوّ اللہ اگر اس عرصہ میں دو چار فاسق نام کے مسلمانوں میں سے جن کو ہم نے بدمعاش پاکر اپنی جماعت سے پہلے ہی خارج کر دیا تھا۔مُردار دنیا کے لئے عیسائی ہوگئے۔۔۔"(خ ج 9 ص 28)

لیکن مرزا صاحب کا یہ بیان درست نہیں کیونکہ قادیانی لٹریچر میں ان لوگوں کے خارج از جماعت کئے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔
منشی اسمعیل ساکن جنڈیالہ ضلع امرتسر جو مناظرہ قادیانی و آتھم تھا بھی عیسائی ہو گیا تھا ۔
میر محمد سعید جوکہ مرزا صاحب کی زوجہ کا خالہ زاد بھائی تھا وہ بھی عیسائی ہو گیا تھا (خ ج 13 ص 173)

لوگوں کے پھرنے کا مرزا صاحب کا ایک کشفی اقرار بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
"چنانچہ ایک کشف میں میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے سامنے آیا اور وہ کہتا ہے کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں۔ تب میں نے اس کو کہا کہ تم کہاں سے آئے تو اس نے عربی زبان میں جواب دیا اور کہا کہ جئت من حضرۃ الوتر۔ یعنی میں اس کی طرف سے آیا ہوں جو اکیلا ہے تب میں اس کو ایک طرف خلوت میں لے گیا۔ اور میں نے کہا کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں مگر کیا تم بھی پھر گئے تو اس نے کہا کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔" (خ ج 9 ص 54)
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا محمود کا بیان
”جب آتھم کی پیش گوئی کا آخری دن آیا تو کتنے کرب و اضطراب سے دعائیں کی گئیں. میں نے تو محرم کا ماتم بھی اتنا سخت کبھی نہیں دیکھا. حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد-ناقل) ایک طرف دعا میں مشغول تھے اور دوسری طرف بعض نوجوان...اکٹھے ہوگئے اور جس طرح عورتیں بین ڈالتی ہیں اس طرح انہوں نے بین ڈالنے شروع کر دئیے. ان کی چیخیں سوسوگز تک سنی جاتی تھیں اور ان میں سے ہر ایک کی زبان پر یہ دعا جاری تھی کہ یا اﷲ آتھم مر جائے. یا اﷲ آتھم مر جائے. یا اﷲ آتھم مر جائے. مگر اس کہرام اور آہ و زاری کے نتیجہ میں آتھم تو نہ مرا.‘‘ (الفضل قادیان 29 جولائی 1940ء صفحہ 4)


آتھم کی پیشگوئی کے آخری دن ماتم.jpg
 
Top