• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

چالیس روزہ ختم نبوت کورس

محمد عبداللہ امانت

رکن ختم نبوت فورم
*سبق نمبر 1*

*"عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت"*
ٖ*عقیدہ ختم نبوت کیا ہے؟*
عقیدہ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ نبیوں کی تعداد حضورﷺ کے دنیا میں تشریف لانے سے پوری ہوچکی ہے ۔ حضورﷺ کے بعد نبوت اور رسالت ختم ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کسی بھی انسان کو نبوت یا رسالت نہیں ملے گی۔ یعنی تاقیامت نبیوں کی تعداد میں کسی ایک نبی کا اضافہ نہیں ہوگا۔
*"قرآن مجید کا اسلوب "*
قرآن مجید نے جہاں اللہ تعالٰی کی وحدانیت، فرشتوں پر ایمان ،قیامت پر ایمان کو جزو ایمان قرار دیا ہے۔ وہاں سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کی نبوت و رسالت پر ایمان بھی ایمان کا جزو قرار دیا ہے۔
لیکن پورے قرآن میں ایک جگہ بھی یہ نہیں فرمایا کہ حضورﷺ کے بعد بھی کسی نئے نبی کی وحی یا نبوت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ نبوت و رسالت حضورﷺ کے تشریف لانے کے بعد منقطع ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔ کیونکہ اگر کسی نئے نبی یا رسول نے آنا ہوتا تو قرآن جیسی جامع کتاب میں اس کا ذکر ضرور موجود ہوتا۔
اب ہم چند آیات آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں جن میں سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام اور ان پر ہونے والی وحی پر ایمان لانے کا ذکر ہے۔ لیکن حضورﷺ کے بعد کسی نئے نبی پر ہونے والی وحی پر یا نئے نبی کی نبوت پر ایمان لانے کا کوئی ذکر اشارتا، کنایتا بھی نہیں ہے۔

*آیت نمبر 1*
وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ۔

اور(ایمان والے وہ ہیں)جو اس (وحی) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی ۔اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں۔
(سورۃ البقرۃ آیت نمبر 4)

*آیت نمبر 2*
لٰکِنِ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ مِنۡہُمۡ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ وَ الۡمُقِیۡمِیۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ الۡمُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ اُولٰٓئِکَ سَنُؤۡتِیۡہِمۡ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ۔

البتہ ان (بنی اسرائیل) میں سے جو لوگ علم میں پکے ہیں اور مومن ہیں وہ اس (کلام) پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو (اے پیغمبر) تم پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیا گیا تھا اور قابل تعریف ہیں وہ لوگ جو نماز قائم کرنے والے ہیں ، زکوٰۃ دینے والے ہیں اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم اجر عظیم عطا کریں گے۔
(سورۃ النساء آیت نمبر 162)

*آیت نمبر 3*
وَ لَقَدۡ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ وَ اِلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ لَئِنۡ اَشۡرَکۡتَ لَیَحۡبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ۔

اور یہ حقیقت ہے کہ تم سے اور تم سے پہلے تمام پیغمبروں سے وحی کے ذریعے یہ بات کہہ دی گئی تھی کہ اگر تم نے شرک کا ارتکاب کیا تو تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے گا ۔ اور تم یقینی طور پر سخت نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہوجاؤ گے۔
(سورۃ الزمر آیت نمبر 65)

*آیت نمبر 4*
قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ ہَلۡ تَنۡقِمُوۡنَ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنۡ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اَنَّ اَکۡثَرَکُمۡ فٰسِقُوۡنَ۔

تم (ان سے) کہو کہ : اے اہل کتاب ! تمہیں اس کے سوا ہماری کون سی بات بری لگتی ہے کہ ہم اللہ پر اور جو کلام ہم پر اتارا گیا اس پر اور جو پہلے اتارا گیا تھا اس پر ایمان لے آئے ہیں ، جبکہ تم میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں۔
(سورۃ المائدہ آیت نمبر 59)

*آیت نمبر 5*
کَذٰلِکَ یُوۡحِیۡۤ اِلَیۡکَ وَ اِلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۙ اللّٰہُ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ۔

(اے پیغمبر) اللہ جو عزیز و حکیم ہے ، تم پر اور تم سے پہلے جو (پیغمبر) ہوئے ہیں ، ان پر اسی طرح وحی نازل کرتا ہے۔
(سورۃ الشوری آیت نمبر 3)
ان تمام آیات میں بلکہ پورے قرآن میں حضور ﷺ اور حضور ﷺ سے پہلے نازل ہونے والی وحی کا ہی ذکر ہے۔ حضورﷺ کے بعد کسی نئے نبی پر نازل ہونے والی وحی کا ذکر نہیں۔
عقیدہ ختم نبوت اتنا ضروری اور اہم عقیدہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے عالم ارواح میں، عالم دنیا میں، عالم برزخ میں، عالم آخرت میں، حجتہ الوداع کے موقع پر ،درود شریف میں اور معراج کے موقع پر اس کا تذکرہ کروایا۔

*"عالم ارواح میں عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ "*
وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَخَذۡتُمۡ عَلٰی ذٰلِکُمۡ اِصۡرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ؕ قَالَ فَاشۡہَدُوۡا وَ اَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ۔

اور (ان کو وہ وقت یاد دلاؤ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں ، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس (کتاب) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے ، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے ، اور ضرور اس کی مدد کرو گے ۔ اللہ نے (ان پیغمبروں سے) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے کہا : تو پھر (ایک دوسرے کے اقرار کے) گواہ بن جاؤ ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں۔
(آل عمران آیت نمبر 81)
اس آیت کریمہ میں بھی حضورﷺ کی آمد کا ذکر ہے کہ اگر وہ آخری نبی کسی دوسرے نبی کے زمانہ نبوت میں آ گئے تو اس نبی کو اپنی نبوت چھوڑ کر نبی آخر الزماںﷺ کی پیروی کرنی پڑے گی ۔ یعنی عالم ارواح میں بھی حضور ﷺ کی ختم نبوت کا تذکرہ ہورہا ہے۔

*"عالم دنیا میں عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ"*
عالم دنیا میں سب سے پہلے سیدنا آدمؑ پیدا ہوئے لیکن حضورﷺ نے فرمایا کہ
"انی عنداللہ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طیینتہ"

میں اس وقت بھی (لوح محفوظ میں) آخری نبی لکھا ہوا تھا جب آدمؑ ابھی گارے میں تھے۔
(مشکوۃ حدیث نمبر 5759 ، باب فضائل سید المرسلینﷺ)
(کنزالعمال حدیث نمبر 31960 ٬ باب فی فضائل متفرقة تنبی عن التحدث بالنعم و فیه ذکر ذکر نسبه ﷺ)
اللہ تعالٰی نے دنیا میں جس نبی کو بھی بھیجا اس کے سامنے حضور ﷺ کے آخری نبی ہونے کا ذکر یوں فرمایا ۔
"لم یبعث اللہ نبیا آدم ومن بعدہ الا اخذ اللہ علیہ العھد لئن بعث محمدﷺ وھو حی لیومنن بہ ولینصرنہ "

حق تعالی نے انبیاء کرامؑ میں سے جس کو بھی مبعوث فرمایا تو یہ عہد ان سے ضرور لیا کہ اگر ان کی زندگی میں محمدﷺ تشریف لے آئیں تو وہ ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔
(تفسیر ابن جریر (عربی) جلد 5 صفحہ 540 تفسیر آیت نمبر 80 سورہ آل عمران طبع مصر 2001ء)
اس کے علاوہ حضورﷺ نے فرمایا کہ
"بین کتفی آدم مکتوب محمد رسول اللہ خاتم النبیین"
آدمؑ کے دونوں کندھوں کے درمیان محمد رسول اللہﷺ آخری نبی لکھا ہوا تھا ۔
(خصائص الکبری جلد 1 صفحہ 19 طبع ممتاز اکیڈمی لاہور )
اس کے علاوہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ
عن ابی ھریرۃ ؓ قال قال رسول اللہﷺ لما نزل آدم بالھند واستوحش فنزل جبرائیل ۔ فنادی باالاذان اللہ اکبر مرتین۔ اشھد ان لا الہ الااللہ مرتین۔ اشھد ان محمد الرسول اللہ مرتین۔ قال آدم من محمد۔ فقال ھو آخر ولدک من الانبیاء ۔
حضرت ابوہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ آدمؑ جب ہند میں نازل ہوئے تو ان کو (بوجہ تنہائی) وحشت ہوئی تو جبرائیلؑ نازل ہوئے اور اذان پڑھی۔ اللہ اکبر 2 بار پڑھا ۔ اشھد ان لا الہ الااللہ 2 بار پڑھا ۔ اشھد ان محمد الرسول اللہ 2 بار پڑھا۔ آدمؑ نے جبرائیلؑ سے پوچھا محمدﷺ کون ہیں تو جبرائیلؑ نے فرمایا کہ انبیاء کرامؑ کی جماعت میں سے آپؑ کے آخری بیٹے ہیں۔
(کنزالعمال حدیث نمبر 32139 ٬ باب فی فضائل متفرقة تنبی عن التحدث بالنعم و فیه ذکر ذکر نسبه ﷺ)
*"عالم برزخ یعنی عالم قبر میں عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ"*
قبر میں جب فرشتے مردے سے سوال کریں گے کہ تیرا رب کون ہے اور تیرا دین کیا ہے اور تیرے نبی کون سے ہیں۔ تو مردہ جواب دے گا کہ
ربی اللہ وحدہ لاشریک لہ الاسلام دینی محمد نبی وھو خاتم النبیین فیقولان لہ صدقت۔

میرا رب وحدہ لاشریک ہے ۔ میرا دین اسلام ہے ۔ اور محمدﷺ میرے نبی ہیں اور وہ آخری نبی ہیں۔ یہ سن کر فرشتے کہیں گے کہ تو نے سچ کہا ۔
(تفسیر درمنثور (عربی)جلد 14 صفحہ 235 تفسیر سورة الواقعہ آیت نمبر 83 مطبوعہ مصر 2002ء)
(تفسیر درمنثور (اردو ترجمہ) جلد 6 صفحہ 404 تفسیر سورة الواقعہ آیت نمبر 83 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور 2006ء)
*"عالم آخرت میں بھی عقیدہ ختم نبوت کا تذکرہ"*
"عن ابی ھریرۃ فی حدیث الشفاعتہ فیقول لھم عیسی علیہ السلام ۔۔۔‏‏‏‏‏‏اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ يَا مُحَمَّدُ، ‏‏‏‏‏‏أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتِمُ الْأَنْبِيَاءِ"

حضرت ابو ھریرۃ ؓ سے ایک طویل روایت میں ذکر کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ۔ جب لوگ حضرت عیسیٰؑ سے قیامت کے روز شفاعت کے لئے عرض کریں گے تو وہ کہیں گے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس جاؤ ۔ لوگ میرے پاس آیئں گے اور کہیں گے اے اللہ کے رسول محمدﷺ آخری نبی۔
(بخاری حدیث نمبر 4712 ٬ کتاب التفسیر٬ باب ذریة من حملنا مع نوح)
لیجئے قیامت کے دن بھی حضورﷺ کی ختم نبوت کا تذکرہ ہوگا۔
*"حجتہ الوداع میں ختم نبوت کا تذکرہ"*
"عن ابی امامتہ ؓ قال قال رسول اللہﷺ فی خطبتہ یوم حجتہ الوداع ایھاالناس انہ لانبی بعدی ولا امتہ بعدکم"

(حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنے خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا اے لوگو! نہ میرے بعد کوئی نبی ہوگا اور نہ تمہارے بعد کوئی امت ہوگی)
(کنزالعمال حدیث نمبر 12918 ٬ باب حجة الوداع)

*خلاصہ*
ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ نبیوں کی تعداد حضور ﷺ کے تشریف لانے سے پوری ہوچکی ہے۔ ختم نبوت کا عقیدہ اتنا ضروری اور اہم عقیدہ ہےکہ عالم ارواح ہو یا عالم دنیا ،عالم برزخ ہو یا عالم آخرت ، ہر جگہ اللہ تعالٰی نے حضورﷺ کے آخری نبی ہونے کے تذکرے کروائے ہیں۔
 
مدیر کی آخری تدوین :

محمد عبداللہ امانت

رکن ختم نبوت فورم
*سبق نمبر 2*

*"آیت خاتم النبیین کی علمی تحقیقی تفسیر"*
قرآن مجید میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔
* مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا ۔*
( محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں ، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے )
*(سورۃ الاحزاب آیت نمبر 40)*

*"آیت کا شان نزول "*
عرب معاشرے میں یہ قبیح رسم موجود تھی کہ وہ لےپالک بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھتے تھے اور اس لےپالک کو تمام احوال و احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی سمجھتے تھے اور مرنے کے بعد وراثت،حلت و حرمت ،رشتہ ناطہ وغیرہ تمام احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی تصور کرتے تھے ۔
جس طرح نسبی بیٹے کے مرجانے یا طلاق دینے کے بعد باپ کے لئے حقیقی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے اسی طرح وہ لےپالک بیٹے کی طلاق یافتہ یا بیوہ بیوی سے نکاح کو حرام سمجھتے تھے ۔
اس آیت میں اللہ تعالٰی نے ان کی قبیح رسم کا خاتمہ فرمایا ۔
حضرت زید ؓ بن حارث حضورﷺ کے غلام تھے ۔ حضورﷺ نے انہیں آزاد کرکے اپنا بیٹا بنالیا۔ اور صحابہ کرام ؓ نے بھی ان کو زید ؓ بن حارث کی بجائے زید ؓ بن محمد کہنا شروع کردیا تھا ۔
حضرت زید ؓ بن حارث کی اپنی بیوی حضرت زینب ؓ سے ناچاتی ہوگئی اور انہوں نے حضرت زینب ؓ کو طلاق دے دی ۔
تو اللہ تعالٰی نے حضورﷺ کو حکم فرمایا کہ آپ حضرت زینب ؓ سے نکاح فرمالیں۔ تاکہ اس قبیح رسم کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے۔
جب حضور ﷺ نے حضرت زینب ؓ سے نکاح فرمالیا تو مشرکین نے اعتراض شروع کر دیا کہ آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے۔
چنانچہ جواب میں اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمایئں۔ اس ایک فقرے میں ان تمام اعتراضات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے جو مخالفین نبیﷺ کے اس نکاح پر کر رہے تھے ۔
ان کا اولین اعتراض یہ تھا کہ آپﷺ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے حالانکہ آپﷺ کی اپنی شریعت میں بھی بیٹے کی منکوحہ باپ پر حرام ہے ۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ محمّد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، یعنی جس شخص کی مطلقہ سے نکاح کیا گیا ہے وہ بیٹا تھا کب کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا ؟ تم لوگ تو خود جانتے ہو کہ محمدﷺ کا سرے سے کوئی بیٹا ہے ہی نہیں ۔
ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اچھا ، اگر منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہے تب بھی اس کی چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کر لینا زیادہ سے زیادہ بس جائز ہی ہو سکتا تھا ، آخر اس کا کرنا کیا ضرور تھا ۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا مگر وہ اللہ کے رسولﷺ ہیں ، یعنی رسول ہونے کی حیثیت سے ان پر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصبات کا خاتمہ کر دیں اور اس کی حلت کے معاملے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں ۔
پھر مزید تاکید کے لیے فرمایا اور وہ خاتم النبیین ہیں ، یعنی ان کے بعد کوئی رسول تو درکنار کوئی نبی تک آنے والا نہیں ہے کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح ان کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسر پوری کر دے ، لہٰذا یہ اور بھی ضروری ہو گیا تھا کہ اس رسم جاہلیت کا خاتمہ وہ خود ہی کر کے جائیں ۔
اس کے بعد مزید زور دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ اس وقت محمد ﷺ کے ہاتھوں اس رسم جاہلیت کو ختم کرا دینا کیوں ضروری تھا اور ایسا نہ کرنے میں کیا قباحت تھی ۔
وہ جانتا ہے کہ اب اس کی طرف سے کوئی نبی آنے والا نہیں ہے لہٰذا اگر اپنے آخری نبی کے ذریعہ سے اس نے اس رسم کا خاتمہ اب نہ کرایا تو پھر کوئی دوسری ہستی دنیا میں ایسی نہ ہو گی جس کے توڑنے سے یہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے ۔ بعد کے مصلحین اگر اسے توڑیں گے بھی تو ان میں سے کسی کا فعل بھی اپنے پیچھے ایسا دائمی اور عالمگیر اقتدار نہ رکھے گا کہ ہر ملک اور ہر زمانے میں لوگ اس کا اتباع کرنے لگیں ، اور ان میں سے کسی کی شخصیت بھی اپنے اندر اس تقدس کی حامل نہ ہو گی کہ کسی فعل کا محض اس کی سنت ہونا ہی لوگوں کے دلوں سے کراہیت کے ہر تصور کا قلع قمع کر دے ۔

*"آیت خاتم النبیین کی تفسیر القرآن بالقرآن"*
قرآن پاک میں 7 جگہ پر ختم کے مادے سے الفاظ آئے ہیں ۔
*1۔* *خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ۔*
اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے ۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے ۔
*(سورۃ البقرۃ آیت نمبر 7)*
*2۔* *قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَخَذَ اللّٰہُ سَمۡعَکُمۡ وَ اَبۡصَارَکُمۡ وَ خَتَمَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمۡ مَّنۡ اِلٰہٌ غَیۡرُ اللّٰہِ یَاۡتِیۡکُمۡ بِہٖ ؕ اُنۡظُرۡ کَیۡفَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ ثُمَّ ہُمۡ یَصۡدِفُوۡنَ ۔*

( اے پیغمبر ! ان سے ) کہو : ذرا مجھے بتاؤ کہ اگر اللہ تمہاری سننے کی طاقت اور تمہاری آنکھیں تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے ، تو اللہ کے سوا کونسا معبود ہے جو یہ چیزیں تمہیں لاکر دیدے؟ دیکھو ہم کیسے کیسے مختلف طریقوں سے دلائل بیان کرتے ہیں ، پھر بھی یہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں ۔
*(سورۃ الاعراف آیت نمبر 46)*
*3۔* *اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلۡمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمۡعِہٖ وَ قَلۡبِہٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً ؕ فَمَنۡ یَّہۡدِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اللّٰہِ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ ۔*

پھر کیا تم نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہے ، اور علم کے باوجود اللہ نے اسے گمراہی میں ڈال دیا ، اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ، اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ۔ اب اللہ کے بعد کون ہے جو اسے راستے پر لائے؟ کیا پھر بھی تم لوگ سبق نہیں لیتے؟
*(سورۃ الجاثیہ آیت نمبر 23)*
*4۔* *اَلۡیَوۡمَ نَخۡتِمُ عَلٰۤی اَفۡوَاہِہِمۡ وَ تُکَلِّمُنَاۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ تَشۡہَدُ اَرۡجُلُہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ۔*
آج کے دن ہم ان کے منہ پر مہر لگادیں گے ، اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے ، اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ کیا کمائی کیا کرتے تھے ۔
*(سورۃ یس آیت نمبر 65)*
*5۔* *اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا ۚ فَاِنۡ یَّشَاِ اللّٰہُ یَخۡتِمۡ عَلٰی قَلۡبِکَ ؕ وَ یَمۡحُ اللّٰہُ الۡبَاطِلَ وَ یُحِقُّ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ۔*
بھلا کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ کلام خود گھڑ کر جھوٹ موٹ اللہ کے ذمے لگا دیا ہے ؟ حالانکہ اگر اللہ چاہے تو تمہارے دل پر مہر لگا دے ، اور اللہ تو باطل کو مٹاتا ہے ، اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعے ثابت کرتا ہے ، یقینا وہ سینوں میں چھپی ہوئی باتوں تک کو جانتا ہے ۔
*(سورۃ الشوری آیت نمبر 24)*
*6۔*
*یُسۡقَوۡنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخۡتُوۡمٍ ۔*
انہیں ایسی خالص شراب پلائی جائے گی جس پر مہر لگی ہوگی ۔
*(سورۃ المطففین آیت نمبر 25)*
*7۔* *خِتٰمُہٗ مِسۡکٌ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ ۔*

اس کی مہر بھی مشک ہی مشک ہوگی ۔ اور یہی وہ چیز ہے جس پر للچانے والوں کو بڑھ چڑھ کر للچانا چاہیے ۔
*(سورۃ المطففین آیت نمبر 26)*
ان سات جگہ پر معنی میں قدر مشترک یہ ہے کہ اس کا معنی یہ کیا جاتا ہے کہ *کسی چیز کو اس طرح بند کرنا کہ اندر والی چیز باہر نہ جاسکے اور باہر والی اندر نہ جاسکے۔*
مثلا *"ختم اللہ علی قلوبھم"* اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار کے دلوں پر اللہ نے مہر لگادی ہے۔ اب ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوسکتا اور کفر ان کے دل سے باہر نہیں جاسکتا۔
اسی طرح ہماری زیر بحث آیت میں بھی *"خاتم النبیین" کا مطلب یہ ہے کہ دائرہ نبوت میں جتنے نبی آنے تھے وہ آچکے ۔ اب دائرہ نبوت میں نیا نبی نہیں آسکتا۔ اسی طرح دائرہ نبوت سے کوئی نبی باہر نہیں جاسکتا ۔*
تفسیر القرآن بالقرآن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضورﷺ کے تشریف لانے سے نبیوں کی تعداد پوری ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت نیا نبی نہیں آسکتا ۔

*"تفسیر "خاتم النبیین " بالحدیث"*
*عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي۔*
حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا!
"میرے بعد میری امت میں 30 جھوٹے پیدا ہوں گے ان میں سے ہرایک کہے گا کہ میں نبی ہوں۔ لیکن میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں "
*(ترمذی حدیث نمبر 2219 ، باب ما جاء لا تقوم الساعة حتی یخرج کذابون)*
اس کے علاوہ ایک اور روایت میں یوں فرمایا۔

*"عن أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ "*
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
"بیشک رسالت اور نبوت ( مجھ پر) منقطع ہوچکی ہے۔ اب میرے بعد نہ کوئی نبی ہے اور نہ کوئی رسول ہے۔"
*(ترمذی حدیث نمبر 2272 ، باب ذھبت النبوة بقیت المبشرات)*
ان روایات سے پتہ چلا کہ حضور ﷺنے خود ہی خاتم النبیین کی تشریح فرمادی کہ میرے اوپر رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے اور میرے بعد نہ کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ کوئی نیا رسول آئے گا ۔ یعنی نبیوں کی تعداد حضور ﷺ کے تشریف لانے سے مکمل ہوچکی ہے۔

*"خاتم النبیین کی صحابہ کرام ؓ سے تفسیر "*
تفسیر در منثور میں امام ابن جریرؒ نے حضرت ابوسعید خدری ؓ کی ایک روایت نقل کی ہے۔ جس میں حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ
حضورﷺ نے فرمایا:

*"مثلی و مثل النبیین کمثل رجل بنی دارا فأتمھا إلا لبنة واحدة ، فجئت انا فأتممت تلک اللبنة."*
"میری اور انبیاء کی مثال ایسے ہے۔ جیسے ایک آدمی گھر بنائے اسے مکمل کردے۔ مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دے۔ میں آیا تو اس اینٹ کو مکمل کردیا۔"
*(درمنثور (عربی)جلد 12 صفحہ 63 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع مصر 2003ء)*
*(درمنثور (اردو)جلد 5 صفحہ 577 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع ضیاء القرآن پبلیکیشنز 2006ء)*
تفسیر در منثور میں امام ابن جریرؒ نے حضرت جابر ؓ کی ایک روایت یوں نقل کی ہے۔
*"قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ كَمثل رَجُلٍ بَنَى دَارًا فَأَكْمَلَهَا وَأَحْسَنَهَا إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ،فکان من دخلھا فنظر الیھا قال : ما احسنھا إلا موضع اللبنة فأنا موضع اللبنة، ختم بی الانبیاء"*
"حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری اور انبیاء کی مثال ایسے آدمی جیسی ہے۔جو گھر بنائے جیسے ایک آدمی گھر بنائے اسے مکمل کردے۔ اور اسے اچھا بنائے۔ مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دے۔ جو بھی اس گھر میں داخل ہو اسے دیکھے تو کہے کہ کتنا اچھا ہے مگر ایک اینٹ کی جگہ، میں اس اینٹ کی جگہ ہوں۔ مجھ پر انبیاء کو ختم کیا گیا۔"
*(درمنثور (عربی)جلد 12 صفحہ 63 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع مصر 2003ء)*
*(درمنثور (اردو)جلد 5 صفحہ 577 تفسیر در آیت نمبر 40 سورة الأحزاب طبع ضیاء القرآن پبلیکیشنز 2006ء)*
صحابہ کرام ؓ کی خاتم النبیین کی تفسیر سے بھی پتہ چلا کہ نبیوں کی تعداد حضورﷺ کے تشریف لانے سے مکمل ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔
*"خاتم النبیین اور اصحاب لغت"*
آیئے اب لغت سے خاتم النبیین کا معنی متعین کرتے ہیں۔
امام راغب اصفہانی کی لغات القرآن کی کتاب مفردات القرآن کی تعریف امام سیوطیؒ نے کی ہے۔ اور امام سیوطیؒ قادیانیوں کے نزدیک مجدد بھی ہیں۔ لہذا یہ کتاب قادیانیوں کے نزدیک بھی معتبر ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں۔

*"وخاتم النبیین لانہ ختم النبوۃ ای تممھا بمجیئه"*
"آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے نبوت کو ختم کردیا۔ یعنی آپﷺ نے تشریف لاکر نبوت کو تمام فرمادیا۔"
*(مفردات راغب صفحہ 275 بحث در لفظ ختم)*
لسان العرب عربی لغت کی مشہور و معروف کتاب ہے۔یہ کتاب عرب و عجم میں مستند سمجھی جاتی ہے۔اس میں خاتم النبیین کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے۔

*"خاتمھم و خاتمھم آخرھم عن اللحیانی و محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء علیہ وعلیھم الصلوۃ والسلام "*
"خاتم القوم زیر کے ساتھ اور خاتم القوم زبر کے ساتھ ، اس کے معنی آخرالقوم ہیں ۔ اور انہیں معانی پر لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے۔ محمدﷺ خاتم الانبیاء ہیں یعنی آخری نبی ہیں"
یہ تو صرف لغت کی 2 کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے جبکہ لغت کی تقریبا تمام کتابوں میں خاتم النبیین کا یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے۔
لیجئے لغت سے بھی خاتم النبیین کا یہی مطلب ثابت ہوا کہ حضورﷺ کے تشریف لانے سے نبیوں کی تعداد مکمل ہوگئی ہے اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔

*"خاتم النبيين پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"*
*قادیانی اعتراض نمبر 1*
" کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ لفظ " خاتم " کی اضافت " جمع " کی طرف ہو اور وہاں اس کا معنی
" آخری " آیا ہو ، یہ چیلنج سو سال سے دیا جارہا ہے لیکن کوئی اس کو توڑ نہیں سکا "

*قادیانی اعتراض کا جواب*
مرزاصاحب نے لکھا ہے کہ
"خاتم الخلفاء یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر میں آنے والا ہے۔ "
(چشمہ معرفت صفحہ 318 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 333 )
یہاں " خاتم " کی اضافت " جمع " کی طرف ہے اور مرزا صاحب نے اسکا ترجمہ کیا ہے " آخری خلیفہ " واضح رہے یہ کتاب مرزا صاحب کی زندگی کی آخری کتابوں میں سے ہے۔

*قادیانی اعتراض نمبر 2*
" ہم نے مرزا جی کی تحریروں سے نہیں پوچھا ، ہم نے لغت کی کتابوں اور عرب محاوارات سے پوچھا ہے اس لئے ہمارے سامنے مرزا جی کی تحریریں نہ پیش کریں۔"
*قادیانی اعتراض کا جواب*
آپ کی تسلی کے لئے لغت سے بھی ثابت کر دیتے ہیں ، غور سے پڑھیے گا۔
1۔" تاج العروس" میں ہے کہ :

*" والخاتم آخر القوم کالخاتم ومنه قوله تعالیٰ خاتم النبیین أی آخرھم "*
خاتم کا مطلب ہوتا ہے قوم کا آخری آدمی (یعنی جب خاتم القوم بولا جائے ) اور اسی سے اللہ کا یہ فرمان ہے کہ وخاتم النبیین جسکا مطلب ہے آخری نبی۔
*( تاج العروس جلد 32 صفحہ 45 )*
2۔"لسان العرب" میں ہے کہ

*" وختام القوم وخاتَمھم وخاتِمھم آخرھم "*

جب ختام القوم یا خاتَم القوم یا خاتِم القوم بولا جائے تو اسکا معنی ہوتا ہے قوم کا آخری آدمی
پھر آگے لکھا ہے " ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین أی آخرھم " خاتم النبیین کا مطلب ہے آخری نبی۔
*( لسان العرب جلد 12 صفحہ 162 )*
3۔"کلیات ابی البقاء" میں ہے کہ

*"وتسمیة نبینا خاتم الانبیاء لآن الخاتم آخر القوم "*

ہمارے نبی کریمﷺ کا نام خاتم الانبیاء رکھا گیا ، کیونکہ خاتم کسی بھی قوم کے آخری فرد کو کہتے ہیں۔
*( کلیات ابی البقاء صفحہ 431 )*

*قادیانی اعتراض نمبر 3*
"ہم نے پوچھا تھا کوئی ایسا حوالہ دکھاؤ جہاں
" خاتم " کی اضافت " جمع " کی طرف ہو ، تم نے
" خاتم القوم " دکھایا ، یہ " قوم " تو واحد ہے جمع نہیں ، اسکی جمع تو " اقوام " آتی ہے."

*قادیانی اعتراض کا جواب*
" قوم " واحد نہیں بلکہ " اسم جمع " ہے ، قوم ایک آدمی کو نہیں کہتے بلکہ بہت سے افراد کے مجموعے کو قوم کہتے ہیں ، اس لئے قران کریم اور جہاں بھی " قوم " کا لفظ آیا ہے وہاں اسکے بعد اسکے لئے جمع کی ضمیریں اور جمع کے صیغے ہی لائیں گئے ہیں ، تاج العروس میں جہاں " خاتم القوم " لکھا ہے اسکے بعد لکھا ہے " آخرھم " یعنی انکا آخری ،
یہاں " ھم " کی ضمیر " قوم " کی طرف لوٹائی گئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ " قوم " جمع ہے ، آئیے اب قران کریم سے کچھ مثالیں دیکھتے ہیں۔

*آیت نمبر 1*
حضرت نوح علیہ اسلام کے بارے میں آیا ہے کہ
*" لقد ارسلنا نوحاََ الی قومه فقال یا قوم اعبدوا اللہ مالکم من اله غیرہ انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم۔"*
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا پس آپ نے ان سے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اسکے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
*( سورۂ الاعراف 59 )*
اس جگہ نوح علیہ اسلام فرماتے ہیں " یاقوم " اے قوم اور آگے انھیں جمع کے صیغے سے خطاب کرتے ہیں ، " اعبدوا " ، " مالکم " اور " علیکم " کے ساتھ ، ثابت ہوا قوم جمع ہے۔

*آیت نمبر 2*
ایک جگہ ارشاد ہے
*" وما ارسلنا من رسول الابلسان قومه لیبین لھم "*
نہیں بیجھا ہم نے کوئی رسول مگر وہی زبان بولنے والا جو اسکی قوم کی ہو تاکہ وہ ان کے لئے ( اللہ کی بات ) کھول کر بیان کر سکے
*( سورۂ ابراھیم 4 )*
یہاں قوم کا ذکر کر کے " لیبین لھم " میں " ھم " کی ضمیر جمع لائی گئی جو اس بات کی دلیل ہے کہ قوم جمع ہے۔

*آیت نمبر 3*
ایک اور جگہ نوح علیہ اسلام کا ذکر ہے ۔
*" لقد ارسلنا نوحاََ الی قومه فلبث فیھم الف سنة الا خمسین عاما "*
پس ہم نے بیجھا نوح علیہ اسلام کو انکی قوم کی طرف پس وہ رہے ان میں پچاس کم ہزار سال ۔
*( سورۂ العنکبوت 14 )*
یہاں بھی " قوم " کا ذکر کرکے فرمایا " فیھم " اور یہ " ھم " کی ضمیر جمع کی ہے جو قوم کی طرف لوٹائی گئی۔
قران کریم ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے ، قوم کا لفظ جہاں بھی آیا ہے اسکی طرف لوٹائی جانے والی ضمیر اور صیغے جمع ہی آئے ہیں اس لئے اسمیں کوئی شک نہیں کہ یہ اسم جمع ہے جو ایسے گروہ کے لئے بولا جاتا ہے جس کے بہت سے افراد ہوں ، اور " اقوام " اسکی جمع الجمع ہے۔

*قادیانی اعتراض نمبر 4*
" عرب محاورے میں جہاں بھی " خاتم" کی اضافت " جمع " کی طرف آئی ہے وہاں اسکا معنی آخری ہو ہی نہیں سکتا بہت سے لوگوں کو خاتم المحدثین ، خاتم الفقہاء یا خاتم المفسرین کا خطاب دیا گیا ہے ، کیا انکے بعد محدثین ، فقہاء ، مفسرین آنا بند ہو گئے تھے ؟
*قادیانی اعتراض کا جواب*
" اگر کسی انسان نے کسی انسان کے بارے میں یہ لفظ بولا ہے تو چونکہ انسان عالم الغیب نہیں ہے اس لئے یہی دلیل ہے کہ وہ صرف اپنے زمانے کے بارے میں بات کر رہا ہے ورنہ اسے معلوم ہی نہیں کہ بعد میں اس سے بڑا محدث ، فقیہ ، یا مفسر بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
نیز یہاں تو سب سے زیادہ " افضل " والا معنی بھی نہیں ہو سکتا اور نہ اسکا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اب اس محدث یا فقیہ یا مفسر کی مہر سے ظلی بروزی مفسر یا محدث بنے گے ، اب مرزائی متعرض ہی بتائے کہ جہاں کسی انسان نے کسی دوسرے انسان کے بارے میں " خاتم المحدثین یا خاتم المفسرین " لکھا ہے تو اس کے وہ کیا معنی کرتے ہیں ؟ سب آخری مفسر ، سب سے افضل مفسر ، یا ایسا مفسر جس کی مہر سے محدث یا مفسر بنے گے ؟؟؟
آپ اپنے معنی بیان کرو تاکہ بات اس پر آگے چلے ، ہمارے نزدیک تو صرف یہ تمام مبالغہ کے لئے ہے اور کچھ نہیں ، اور کوئی انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ آج کے بعد کوئی مفسر یا کوئی محدث ایسا پیدا ہو ہی نہیں سکتا جو اسکے زمانے کے محدثین یا مفسرین سے بڑا ہو ، لیکن اللہ عالم الغیوب ہے جب کسی کے بارے میں فرمائے " خاتم النبیین " تو وہاں خاتم کا معنی حقیقی لینے میں کوئی خرابی نہیں کیوں کا اللہ کو علم ہے اب قیامت تک کوئی نبی نہیں پیدا ہونے والا۔

*قادیانی اعتراض نمبر 5*
جب قادیانیوں کو کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب نے خاتم الاولاد کا مطلب آخری اولاد لیا ہے تو ان کی من گھرٹ دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ لفظ خاتِم ہےخاتَم نہیں ہے ۔
(یاد رہے کہ مرزا صاحب نے جہاں بھی خاتم لکھا وہاں اس کی کوئی وضاحت نہیں کی)

*قادیانی اعتراض کا جواب*
*خاتَم اور خاتِم کا معنی*
پہلی بات تو یہ ہے کہ خاتَم اور خاتِم کا یہ من گھرٹ فرق جو مرزائی کرتے ہیں کیا لغت عرب میں اس کا وجود ہے ؟؟؟
دو تین کتابوں کے حوالے پیش خدمت ہیں ورنہ پچاسوں کتابیں ہیں جو اس معنی کی تائید میں پیش کی جا سکتی ہیں۔


صاحبِ لسانُ العرب علام ابن منظور جو ساتویں صدی میں کے بہترین عالم گزرے ہیں۔
انہوں نے اپنی کتاب میں یہ تشریح کی ہے
*" والخَتُمُ ، الخَاتِم ، الخَاتَمُ ، والخَيْتَامُ كُلَّها بعنى واحدٍ و معناها أخيرها"*
اور ان تمام کا معنی ایک ہی ہے اور وہ کیا کسی چیز کا اخیر۔ختم کرنے والا۔۔
کہتے ہیں " خِتامُ الودای ،خاتَم الوادى ،خاتِم الوادى، أخير الوادى " --
وادی کا اخری کنارہ ۔جہاں وادی ختم ہو جاتی ہے ان الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے
اور مزید لکھتے ہیں کہ

*" خِتَامُ القوم خاتِمُهُمْ و القوم وخَاتَمُهُم أخرهم*
* ( لسانُ العرب جلد 12 صفحہ 164)*

ختمام القوم خاتِم القوم خاتَم القوم سب کا ایک معنی اخر القوم ۔۔۔۔
*" والخاتَم والخاتِم:من أسماه النبىﷺ معناہ: آخر الانبیاء :وقال اللہ تعالی ☆ خاتَم النبین☆ "*

*(تہذیب اللغہ جلد 7 صفحہ 316)*
*(لسانُ العرب جلد12 صفحہ 164)*
(تا كے زیر سے) خاتِم اور (تا کے زبر سے) خاتَم دونوں کا معنی آخر الانبیاء ہے اور اللہ تعالی نے فرمایا خاتَم النبین ۔
معلوم ہوا خاتَم هو یا خاتِم دونوں کا معنی ایک ہی ہے ۔کسی چیز کا کنارہ ،کسی چیز کی انتہا ، جہاں پر کوئی چیز ختم ہو جاتی ہے اس کو خاتَم بھی کہتے ہیں خاتِم بھی کہتے ہیں ،ختام، اور ختم بھی کہتے ہیں یہ تمام کے تمام الفاظ ہم معنی ہیں مترادف ہیں ۔۔۔
یہ معنی آج کے علماء نے نہیں لکھا کہ مرزا صاحب کے تعصب میں مولویوں نے کتابوں میں لکھ دیا ہو بلکہ یہ معنی ان علماء کرام نے لکھا جو مرزا صاحب کے آنے سے ہزاروں برس پہلے گزر چکے ہیں اور جن کی کتابیں لغت عرب میں سند کی حثییت رکھتی ہیں ۔جن کی زبان میں قران نازل ہوا ان علماء کرام کی تحقیق ہے کہ خاتَم ہو یا خاتِم معنی ایک ہی ہے آخر الشئ اور پھر اس کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں جس طرح اللہ تعالی فرماتا "خاتم النبین" "آخرالنبین" سب نبیوں کے آخر میں آنے والا ۔۔۔
اس تحقیق کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ خاتَم کے معنی آخری ہی ہیں اس کے بعد یہ محض دھوکہ فریب اور دجل و تلبیس ہے اگر یہ کہا جائے کہ خاتَم کے معنی اور خاتِم کے معنی اور ہیں
ہمارے نزدیک علماء حق اور ائمہ لغت کی تحقیق کے مطابق لفظ خاتَم ہو یا خاتِم اللہ کے محبوبﷺ کے بعد اب اور کوئی نبی نہیں ہو سکتا ۔
*"خاتم النبیین کا ترجمہ اور قادیانی جماعت "*
معزز قارئین ہم نے آیت خاتم النبیین پر علمی ،تحقیقی گفتگو سے ثابت کیا کہ خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کے تشریف لانے سے نبیوں کی تعداد مکمل ہوچکی ہے اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔
اب ہم قادیانی جماعت کے اس آیت کے ترجمے اور مفہوم کا جائزہ لیتے ہیں اور آپ کو بتاتے ہیں کہ قادیانیوں کا ترجمہ کیوں غلط ہے۔
مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
*"خاتم النبیین کا مطلب ہے کہ حضورﷺ کی کامل اتباع سے نبی بنیں گے "*
*(حقیقة الوحی صفحہ 97 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 100)*
قادیانیوں کے خاتم النبیین کے کئے گئے ترجمے کے غلط ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

*وجہ نمبر 1*
*مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ*
*"مجھے نبوت تو ماں کے پیٹ میں ہی ملی تھی۔ "*
*(حقیقة الوحی صفحہ 67 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 70)*
ایک طرف تو کہتے ہیں کہ نبوت حضورﷺ کی اتباع سے ملتی ہے جبکہ یہاں تو مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے نبوت ماں کے پیٹ میں ہی ملی تھی۔ اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ مرزا صاحب کی کون سی بات درست ہے۔

*وجہ نمبر 2*

*مرزا صاحب نے خود خاتم النبیین کا ایک جگہ ترجمہ لکھا ہے کہ*
*"ختم کرنے والا ہے سب نبیوں کا"*
*(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 614 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 431)*
اگر یہ ترجمہ غلط ہے تو مرزا صاحب نے یہ ترجمہ کیوں لکھا؟؟

*وجہ نمبر 3*
*مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ*
*"میرے پیدا ہونے کے بعد میرے والدین کے گھر میں کوئی اور لڑکا یا لڑکی نہیں ہوئی ۔ گویا میں اپنے والدین کے لئے خاتم الاولاد تھا"*
*(تریاق القلوب صفحہ 157 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 479)*
اگر خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کی مہر سے نبی بنتے ہیں تو خاتم الاولاد کا بھی یہی مطلب ہونا چاہیے کہ مرزا صاحب کی مہر سے مرزا صاحب کے والدین کے گھر میں اولاد پیدا ہوگی۔ کیا قادیانی یہ معنی خاتم الاولاد کا کریں گے؟
یقینا یہ ترجمہ نہیں کریں گے تو پتہ چلا کہ قادیانیوں کا کیا گیا ترجمہ سرے سے ہی باطل ہے۔

*وجہ نمبر 4*
ایک طرف قادیانی کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کی مہر سے ایک سے زائد نبی بنیں گے۔ جبکہ دوسری طرف مرزا صاحب اور قادیانی جماعت کا موقف ہے کہ صرف مرزاقادیانی کو ہی حضورﷺ کی کامل اتباع سے نبوت ملی ہے۔
*(حقیقة الوحی صفحہ 391 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 406 )*
مرزا صاحب کے بعد خلافت ہے نبوت نہیں۔ تو اس طرح حضورﷺ خاتم النبی ہوئے، خاتم النبیین نہ ہوئے۔ اس لئے خود یہ ترجمہ قادیانیوں کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔

*وجہ نمبر 5*
اگر خاتم النبیین کا یہ مطلب لیا جائے کہ حضورﷺ کی اتباع سے نبوت ملےگی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور ﷺ،حضرت آدم علیہ السلام سے لےکر حضرت عیسی علیہ السلام تک انبیاء کے خاتم نہیں بلکہ اپنے سے بعد آنے والے نبیوں کے خاتم ہیں۔ اور یہ بات قرآن و حدیث کی منشاء کے خلاف ہے۔
*وجہ نمبر 6*
یہ معنی محاورات عرب کے بھی بالکل خلاف ہے کیونکہ پھر خاتم القوم اور خاتم المھاجرین کے بھی یہی معنی کرنے پڑیں گے کہ اس کی مہر سے قوم بنتی ہے اور اس کی مہر سے مھاجر بنتے ہیں۔ اور یہ ترجمہ خود قادیانیوں کے نزدیک بھی باطل ہے۔

*قادیانیوں کو چیلنج*
*اگر کوئی قادیانی قرآن پاک کی کسی ایک آیت سے یا کسی ایک حدیث سے یا کسی صحابی یا تابعی کے قول سے خاتم النبیین کا یہ معنی دکھا دے کہ حضورﷺ کی مہر سے یعنی کامل اتباع سے نبی بنتے ہیں تو اس قادیانی کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا ۔*
لیکن

*نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے*
*یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں*
 
مدیر کی آخری تدوین :

محمد عبداللہ امانت

رکن ختم نبوت فورم
سبق نمبر 3

"عقیدہ ختم نبوت ازروئے احادیث اور عقیدہ ختم نبوت پر قادیانی عقیدے کا جائزہ"
ویسے تو عقیدہ ختم نبوت تقریبا 210 سے زائد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے لیکن اس سبق میں ہم عقیدہ ختم نبوت پر 10 احادیث مبارکہ پیش کریں گے ۔
حدیث نمبر1
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهُ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ: هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا مگر اس کے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس کے گرد گھومنے اور عش عش کرنے لگے ۔ اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ لگادی گئ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی اینٹ ہوں اور نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر 5961)

حدیث نمبر 2
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً، وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ.
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مجھے 6 چیزوں پر انبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ۔
1۔ مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ۔ 2۔ رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی۔ 3۔ مال غنیمت میرے لئےحلال کردیا گیا۔ 4۔ روئے زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنادیاگیا ۔ 5۔ مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ۔ 6۔ مجھ پر تمام نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر 1167)

حدیث نمبر 3
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ: «أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي»
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون علیہ السلام کو موسی علیہ السلام سے تھی مگر میرے بعد کوئ نبی نہیں ۔ ایک اور روایت کے مطابق میرے بعد نبوت نہیں ۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر6217 )

حدیث نمبر 4
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ،
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کہ بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیاء کرتے تھے جب کسی نبی کی وفات ہوجاتی تھا تو دوسرا نبی اس کی جگہ آجاتا تھا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہونگے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر 3455 )

حدیث نمبر 5
‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي۔
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
میری امت میں 30 جھوٹے پیدا ہوں گے ان میں سے ہر ایک کہے گا کہ میں نبی ہوں ۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں ۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔
(جام ترمذی حدیث نمبر 2219)

حدیث نمبر 6
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی۔
(جام ترمذی حدیث نمبر 2272)

حدیث نمبر 7
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ""نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَأُوتِينَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ۔
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ہم سب کے بعد آئے اور قیامت کے دن سب سے آگے ہونگے۔ صرف اتنا ہوا کہ ان کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی ۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر 896)

حدیث نمبر 8
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے ۔
(جام ترمذی حدیث نمبر 3686)

حدیث نمبر 9
"عن جبیر بن مطعم قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول ان لی اسماء، وانا محمد، وانا احمد،وانا الماحی الذی یمحواللہ بی الکفر، وانا الحاشر الذی یحشرالناس علی قدمی، وانا العاقب الذی لیس بعدہ نبی"
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
میرے چند نام ہیں ۔ میں محمد ہوں ۔ میں احمد ہوں ۔ میں ماحی یعنی مٹانے والا ہوں کہ میرے ذریعے اللہ کفر کو مٹائیں گے۔ اور میں حاشر یعنی جمع کرنے والا ہوں۔ کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جایئں۔ اور میں عاقب ہوں یعنی سب کے بعد آنے والا ہوں۔ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔
(مشکوٰۃ صفحہ 515)

حدیث نمبر 10
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ""بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ هَكَذَا"
میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے۔
(یعنی جس طرح شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی اور نبی نہیں)
(صحیح بخاری حدیث نمبر 6503 )
ان دس احادیث مبارکہ سے بھی یہ بات اظہر من الشمس ہوگئ کہ نبیوں کی تعداد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پوری ہوگئ ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبیوں کی تعداد میں کسی ایک نبی کا اضافہ بھی نہیں ہوگا۔

"عقیدہ ختم نبوت اور قادیانی دھوکہ"
عقیدہ ختم نبوت پر ہمارا یعنی مسلمانوں کا اور قادیانیوں کا اصل اختلاف یہ ہے کہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ نبیوں کی تعداد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے مکمل ہوئی ۔
جبکہ قادیانی کہتے ہیں کہ نبیوں کی تعداد نعوذ باللہ مرزاقادیانی کے آنے سے مکمل ہوئی ۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ مانتے ہیں جبکہ قادیانی نعوذباللہ مرزاقادیانی کو نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ مانتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا جبکہ قادیانی کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ مرزاقادیانی کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا۔
ذیل میں چند حوالے پیش خدمت ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قادیانی مرزاقادیانی کو نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ اور آخری نبی سمجھتے ہیں۔

حوالہ نمبر 1
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"مسیح موعود کے کئی نام ہیں منجملہ ان میں سے ایک نام خاتم الخلفاء ہے یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر میں آنے والا ہے"
(روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 333)

حوالہ نمبر 2
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیشگوئی کو پورا کرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بناء کو کمال تک پہنچا دے ۔ پس میں وہی اینٹ ہوں"
(روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 178)

حوالہ نمبر 3
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا وہ میں ہوں۔ اس لئے بروزی نبوت مجھے عطاکی گئی۔اور اس نبوت کے مقابل پر تمام دنیا اب بےدست و پا ہے۔ کیونکہ نبوت پر مہر ہے۔
ایک بروز محمدی جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانے کے لئے مقدر تھا سو وہ ظاہر ہوگیا۔ اب بجز اس کھڑکی کے کوئی اور کھڑکی نبوت کے چشمہ سے پانی لینے کے لئے باقی نہیں رہی"
(روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 215)

حوالہ نمبر 4
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء، قطب ،ابدال وغیرہ اس امت میں سے گزر چکے ہیں ۔ ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا ۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے صرف میں ہی محسوس کیا گیا ہوں۔اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں"
(روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 406)

حوالہ نمبر 5
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"ہلاک ہوگئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہیں کیا ۔ مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا۔ میں خدا کی راہوں میں سب سے آخری راہ ہوں۔ اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے ۔ کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے"
(روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 61)
 
مدیر کی آخری تدوین :

محمد عبداللہ امانت

رکن ختم نبوت فورم
*سبق نمبر 4*

*"عقیدہ ختم نبوت ازروئے اجماع صحابہ ؓ و اجماع امت"*
عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے اسی طرح عقیدہ ختم نبوت صحابہ کرام ؓ اور امت محمدیہ کے اجماع سے بھی ثابت ہے۔ جس طرح کسی بھی مسئلے پر قرآن اور حدیث بطور دلیل ہیں۔ اسی طرح صحابہ کرام ؓ کا اجماع یا امت کا اجماع بھی کسی مسئلے پر دلیل ہیں۔
آیئے پہلے اجماع کی حقیقت اور اہمیت دیکھتے ہیں اور پھر عقیدہ ختم نبوت پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع اور امت کا اجماع دیکھتے ہیں۔

*"اجماع کی حقیقت"*
اللہ تعالٰی نے ہمارے آقا و مولی سیدنا محمد مصطفیﷺ کو جو بےشمار انعامات دیئے ہیں ان میں سے ایک انعام "اجماع امت" بھی ہے۔
اجماع کی حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی مسئلے کے حکم پر امت کے علماء مجتہدین اتفاق کرلیں تو اس مسئلے پر عمل کرنا بھی اسی طرح واجب ہوجاتا ہے۔ جس طرح قرآن اور احادیث پر عمل کرنا واجب ہے۔
چونکہ حضورﷺ کے بعد کسی نئے نبی نے نہیں آنا تھا ۔ اور آپﷺ کے بعد کوئی ایسی ہستی امت میں موجود نہیں تھی جس کے حکم کو غلطی سے پاک اور اللہ تعالٰی کی طرف سے سمجھا جائے ۔ اس لئے اللہ تعالٰی نے امت محمدیہﷺ کے علماء مجتہدین کے اجتہاد کو یہ درجہ دیا کہ ساری امت کے علماء مجتہدین کسی چیز کے اچھے یا برے ہونے پر متفق ہوجایئں وہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ چیز اللہ تعالٰی کے ہاں بھی ایسی ہی ہے جیسے اس امت کے علماء مجتہدین نے سمجھا ہے۔
اسی بات کو حضورﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
*"عن أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمَّتِي لَنْ تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ،‏‏‏‏ فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ"*
"حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا۔ میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی، لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (یعنی بڑی جماعت) کو لازم پکڑو"
*(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 3950 ٬ باب سواد الأعظم)*
اصول کی کتابوں میں اجماع امت کے حجت شرعیہ ہونے اور اس کے لوازمات اور شرائط کے بارے میں مفصل بحثیں موجود ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ احکام شرعیہ کی حجتوں میں قرآن اور حدیث کے بعد تیسرے نمبر پر اجماع کو رکھا گیا ہے۔
اور جس مسئلے پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع ہوجائے تو وہ اسی طرح قطعی اور یقینی ہے جس طرح کسی مسئلے پر قرآن کی آیات قطعی اور یقینی ہیں۔
چنانچہ علامہ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ
*"واجماعھم حجتہ قاطعتہ یجب اتباعھا بل ھی اوکد الحجج وھی مقدمتہ علی غیرھا ولیس ھذا موضع تقریر ذلک فان ھذا الاصل مقرر فی موضعہ ولیس فیہ بین الفقھاء ولا بین سائر المسلمین الذین ھم المومنون خلاف"*
"اجماع صحابہ ؓ حجت قطعیہ ہے بلکہ اس کا اتباع فرض ہے۔ بلکہ وہ تمام شرعی حجتوں میں سب سے زیادہ موکد اور سب سے زیادہ مقدم ہے ۔ یہ موقع اس بحث کا نہیں ۔ کیونکہ ایسے مواقع (یعنی اصول کی کتابوں میں ) یہ بات اہل علم کے اتفاق سے ثابت ہوچکی ہے۔ اور اس میں تمام فقہاء اور تمام مسلمانوں میں جو واقعی مسلمان ہیں کسی کا اختلاف نہیں "
*(بیان الدلیل علی بطلان التحلیل جلد صفحہ 240)*

*"عقیدہ ختم نبوت پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع"*
اسلامی تاریخ میں یہ بات حد تواتر کو پہنچ چکی ہے کہ مسیلمہ کذاب نے حضورﷺ کی موجودگی میں نبوت کا دعوی کیا اور ایک بڑی جماعت نے اس کے دعوی نبوت کو تسلیم بھی کر لیا۔
ایک دفعہ مسیلمہ کذاب کا ایلچی حضورﷺ کے پاس آیا تو حضورﷺ نے اس سے مسیلمہ کذاب کے دعوی کے بارے میں پوچھا تو ایلچی نے کہا کہ میں مسیلمہ کذاب کو اسکے تمام دعووں میں سچا سمجھتا ہوں۔ تو جواب میں حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو میں تمہیں قتل کروادیتا۔
کچھ عرصے بعد ایک صحابی ؓ نے اس مسیلمہ کذاب کے ایلچی کو ایک مسجد میں دیکھا تو اس کو قتل کروادیا۔
حدیث کے الفاظ اور ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔
*عَنْ أَبِيهِ نُعَيْمٍ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُمَا حِينَ قَرَأَ كِتَابَ مُسَيْلِمَةَ:‏‏‏‏ مَا تَقُولَانِ أَنْتُمَا ؟ قَالَا:‏‏‏‏ نَقُولُ كَمَا قَالَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا وَاللَّهِ لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَكُمَا۔*
حضرت نعیم بن مسعود اشجعی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو جس وقت آپ نے مسیلمہ کا خط پڑھا اس کے دونوں ایلچیوں سے کہتے سنا: تم دونوں مسیلمہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ ان دونوں نے کہا: ہم وہی کہتے ہیں جو مسیلمہ نے کہا ہے ،(یعنی اس کی تصدیق کرتے ہیں) آپﷺ نے فرمایا: اگر یہ نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہ کئے جائیں تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا ۔
*(ابوداؤد حدیث نمبر 2761 ٬ باب فی الرسل)*
مسیلمہ کذاب کے ایلچی کو عبداللہ ابن مسعود ؓ نے قتل کروایا ۔ یہ واقعہ درج ذیل روایت میں ہے۔
*"عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ أَتَى عَبْدَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ مِنْ الْعَرَبِ حِنَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي مَرَرْتُ بِمَسْجِدٍ لِبَنِي حَنِيفَةَ فَإِذَا هُمْ يُؤْمِنُونَ بِمُسَيْلِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِفَجِيءَ بِهِمْ فَاسْتَتَابَهُمْ غَيْرَ ابْنِ النَّوَّاحَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لَهُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏لَوْلَا أَنَّكَ رَسُولٌ لَضَرَبْتُ عُنُقَكَ فَأَنْتَ الْيَوْمَ لَسْتَ بِرَسُولٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ قَرَظَةَ بْنَ كَعْبٍ فَضَرَبَ عُنُقَهُ فِي السُّوقِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى ابْنِ النَّوَّاحَةِ قَتِيلًا بِالسُّوقِ"*
"حضرت حارث بن مضرب سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آ کر کہا: میرے اور کسی عرب کے بیچ کوئی عداوت و دشمنی نہیں ہے، میں قبیلہ بنو حنیفہ کی ایک مسجد سے گزرا تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ مسیلمہ پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سن کر عبداللہ بن مسعود ؓ نے ان لوگوں کو بلا بھیجا، وہ ان کے پاس لائے گئے تو انہوں نے ابن نواحہ کے علاوہ سب سے توبہ کرنے کو کہا، اور ابن نواحہ سے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے: اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا آج تو ایلچی نہیں ہے ۔ پھر انہوں نے قرظہ بن کعب کو حکم دیا تو انہوں نے بازار میں اس کی گردن مار دی، اس کے بعد عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا: جو شخص ابن نواحہ کو دیکھنا چاہے وہ بازار میں جا کر دیکھ لے وہ مرا پڑا ہے"
*(ابوداؤد حدیث نمبر 2762 ٬ باب فی الرسل)*
جب حضورﷺ کی وفات ہوئی تو اس کے بعد بہت سے فتنوں نے سراٹھایا جن میں منکرین زکوۃ کا فتنہ بھی تھا ۔ صحابہ کرام ؓ نے منکرین زکوۃ کے خلاف بھی جہاد کیا لیکن جہاد کرنے سے پہلے اس پر بحث و مباحثہ بھی ہوا کہ منکرین زکوۃ کے خلاف جہاد کیا جائے یا جہاد نہ کیا جائے۔ جب صحابہ کرام ؓ متفق ہوگئے تو پھر منکرین زکوۃ کے خلاف جہاد ہوا۔
لیکن جب مسیلمہ کذاب کے خلاف حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جہاد کا حکم دیا تو کسی ایک صحابی نے یہ نہیں کہا کہ وہ کلمہ گو ہے اس کے خلاف جہاد نہیں ہونا چاہئے ۔ بلکہ تمام صحابہ کرام ؓ نے مسیلمہ کذاب اور اس کے پیروکاروں کو کفار سمجھ کر کفار کی طرح ان سے جہاد کیا۔ اور مسیلمہ کذاب کو قتل کرنے کی وجہ صرف اس کا دعوی نبوت تھا کیونکہ ابن خلدون کے مطابق صحابہ کرام ؓ کو اس کی دوسری گھناونی حرکات کا علم اس کے مرنے کے بعد ہوا۔
اور یہی صحابہ کرام ؓ کا عقیدہ ختم نبوت پر اجماع ہے۔

*"عقیدہ ختم نبوت پر اجماع امت"*
عقیدہ ختم نبوت پر اجماع امت کے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں ۔
*حوالہ نمبر1*
ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں۔
"دعوی النبوۃ بعد نبیناﷺ کفرا بالاجماع"
ہمارے نبیﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کرنے والا امت کے اجماع سے کافر ہے۔
*(الفقہ الاکبر صفحہ 150)*
*حوالہ نمبر 2*
امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ
*"ان الامتہ فھمت بالاجماع من ھذا الفظ
ومن قرائن احوالہ انہ افھم عدم نبی بعدہ ابدا۔
وانہ لیس فیہ تاویل ولا تخصیص فمنکر ھذا لایکون الا منکرالاجماع"*

"بیشک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین ) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کوئی رسول ہوگا۔ اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں ۔ پس اس کا منکر یقینا اجماع امت کا منکر ہے"
*(الاقتصاد فی الاعتقاد صفحہ 178 ٬ الباب الرابع ٬بیان من یجب تکفیرہ من الفرق ٬طبع بیروت 2003ء)*

*حوالہ نمبر 3*
علامہ آلوسیؒ ختم نبوت پر امت کےاجماع کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
"وکونهﷺ خاتم النبیین مما نطقت بہ الکتاب وصدعت بہ السنتہ واجمعت علیہ الامتہ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصر"
"آنحضرتﷺ کا خاتم النبیین ہونا ان مسائل میں سے ہے جس پر کتاب(قرآن)ناطق ہے اور احادیث نبویﷺ اس کو بوضاحت بیان کرتی ہیں۔ اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے۔ پس اس کے خلاف کا مدعی کافر ہے اگر وہ توبہ نہ کرے تو قتل کر دیا جائے"
*(روح المعانی جلد 22 صفحہ 41 تفسیر آیت نمبر 40 سورة الاحزاب)*
*حوالہ نمبر 4*
قاضی عیاضؒ نے خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ اس کے دور میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا ۔ تو خلیفہ نے وقت کے علماء جو تابعین میں سے تھے ان کے فتوی سے اس کو قتل کروادیا ۔ قاضی صاحب اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
"وفعل ذالک غیر واحد من الخلفاء والملوک باشباھھم واجمع علماء وقتھم علی صواب فعلھم والمخالف فی ذالک من کفرھم کافر "
"اور بہت سے خلفاء سلاطین نے ان جیسے مدعیان نبوت کے ساتھ یہی معاملہ کیا ہے ۔ اور اس زمانے کے علماء نے ان سے اس فعل کے درست ہونے پر اجماع کیا ہے۔ اور جو شخص ایسے مدعیان نبوت کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے"
*(شرح الشفاء جلد 2 صفحہ 534 طبع بیروت 2001ء)*
عقیدہ ختم نبوت کے بارے میں قرآن ،حدیث اور اجماع امت کی بحث کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
*1۔* عقیدہ ختم نبوت قرآن پاک کی 99 آیات سے ثابت ہے۔
*2۔* عقیدہ ختم نبوت 210 سے زائد احادیث سے ثابت ہے۔
*3۔* عقیدہ ختم نبوت تواتر سے ثابت ہے۔
*4۔* عقیدہ ختم نبوت صحابہ کرام ؓ کے اجماع اور امت کے اجماع سے بھی ثابت ہے۔
*5۔* مسئلہ ختم نبوت پر امت کا سب سے پہلا اجماع منعقد ہوا۔
*6۔* عقیدہ ختم نبوت کی وجہ سے قرآن پاک کی حفاظت کا اللہ تعالٰی نےوعدہ فرمایا۔
 
مدیر کی آخری تدوین :

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
"سبق نمبر 5"

"عقیدہ ختم نبوت پر قادیانی دھوکہ اور ظلی بروزی نبوت کی بحث"
مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ نبوت کی 2 قسمیں ہیں۔
1۔ نبی 2۔ رسول
"نبی"
نبی اس کو کہتے ہیں جو پرانے نبی کی کتاب اور شریعت پر عمل کرے۔
"رسول"
رسول اس نبی کو کہتے ہیں جو نئی کتاب اور نئی شریعت لے کر آئے۔
کچھی کبھار قادیانی کہتے ہیں کہ نبی اور رسول کی جو تعریف آپ کرتے ہیں وہ درست نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی اور رسول کا یہی فرق جو ہم بیان کرتے ہیں٬وہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد ایم اے نے بھی لکھا ہے۔ملاحظہ فرمایئں:
"دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی گزرے ہیں جن میں شریعت لانے والے رسول صرف 315 تھے۔"
(ختم نبوت کی حقیقت صفحہ 106)
ختم نبوت پر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ نبیوں اور رسولوں کی تعداد حضورﷺ پر مکمل ہوچکی ہے ۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔
جبکہ قادیانی نبوت کی 3 اقسام مانتے ہیں۔
1۔ تشریعی نبوت 2۔ غیر تشریعی نبوت 3۔ ظلی نبوت

"تشریعی نبوت"
قادیانی کہتے ہیں کہ نئی شریعت کے ساتھ جو نبوت ہے اس کو تشریعی نبوت کہتے ہیں۔
"غیر تشریعی نبوت"
قادیانی کہتے ہیں کہ بغیر شریعت کے ساتھ جو نبوت ملتی ہے اس کو غیر تشریعی نبی کہتے ہیں۔
"ظلی نبوت"
قادیانی کہتے ہیں کہ حضورﷺ کی اتباع سے جو نبوت ملتی ہے اس کو ظلی نبوت کہتے ہیں۔
قادیانیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ تشریعی اور غیر تشریعی نبیوں کی تعداد تو حضورﷺ کے آنے سے مکمل ہوچکی ہے جبکہ ظلی نبوت کا دروازہ تاقیامت کھلا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ظلی نبوت صرف مرزاقادیانی کو ملی ہے ۔
(کلمتہ الفصل صفحہ 112)

"قادیانیوں سے ایک سوال"
دعوی جب خاص ہوتو دلیل بھی خاص ہوتی ہے۔ آپ قادیانیوں نے نبوت کی تیسری قسم یعنی ظلی نبوت کو ایک مستقل نبوت قرار دیا ہے۔
ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ سب سے پہلے تو ہمیں قرآن اور حدیث سے وہ دلائل بتایئں جن سے پتہ چلے کہ شریعت والی نبوت بھی بند ہے اور بغیر شریعت کے نبوت بھی بند ہے۔
اور سب سے آخر میں ہمیں قرآن اور حدیث سے وہ دلائل بتایئں جہاں لکھا ہوکہ شریعت اور بغیر شریعت کے نبوت کا دروازہ تو بند ہے لیکن ظلی نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔
قیامت تو آسکتی ہے لیکن قادیانی قیامت کی صبح تک کوئی قرآن کی آیت یا کوئی ایک حدیث بھی ایسی پیش نہیں کر سکتے جہاں یہ لکھا ہوکہ حضورﷺ کے آنے سے شریعت والے اور بغیر شریعت والے نبیوں کی تعداد تو مکمل ہوچکی ہے لیکن ظلی نبی تاقیامت آسکتے ہیں۔
قادیانی قیامت تک اپنے من گھڑت دعوی پر دلیل نہیں پیش کر سکتے۔
ھاتو برھانکم ان کنتم صدقین

"ظلی نبوت"
قادیانی کہتے ہیں کہ ظل سائے کو کہتے ہیں اور مرزاقادیانی نے حضورﷺ کی اتنی کامل اتباع کی کہ مرزاقادیانی نعوذ باللہ حضورﷺ کا ظل بن گیا۔ اور ظلی نبی بن گیا۔ لیکن یہ قادیانیوں کا دھوکہ ہے۔ قادیانی دراصل مرزاقادیانی کو نعوذباللہ حضورﷺ جیسا بلکہ نعوذباللہ حضورﷺ سے بڑھ کر درجہ دیتے ہیں۔
آیئے قارئین مرزاقادیانی کی کی ایک تحریر کا جائزہ لیتے ہیں جہاں مرزاقادیانی ظل اور اصل کی وضاحت کر رہا ہے۔
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"خدا ایک اور محمدﷺ اس کا نبی ہے۔ اور وہ خاتم الانبیاء ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں ۔ مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمدیت کی چادر پہنائی گئی۔
جیسا کہ تم آیئنہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے بلکہ ایک ہی ہو۔ اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں ۔ صرف ظل اور اصل کا فرق ہے"
(کشتی نوح صفحہ 15 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 16)
معزز قارئین مرزاقادیانی کا کفر یہاں ننگا ناچ رہا ہے مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ میں ظلی طور پر محمد ہوں اس کا مطلب ہے کہ نعوذباللہ اگر آیئنے میں حضورﷺ کو دیکھا جائے تو وہ مرزاقادیانی نظر آئیں گے ۔ اور جو مرزاقادیانی آیئنے میں نظر آرہا ہے وہ مرزاقادیانی نہیں ہے بلکہ نعوذ باللہ حضورﷺ ہیں۔
اگر دونوں ایک ہی ہیں تو پھر ظل اور بروز کی ڈھکوسلہ بازی کیوں کرتے ہو؟؟؟ یہ تو صرف لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں اور کچھ نہیں ۔
اب مرزاقادیانی کے ظل اور بروز کے فلسفے کو مرزاقادیانی کی ہی تحریرات سے باطل ثابت کرتے ہیں۔
1)مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"نقطہ محمدیہ ایسا ہی ظل الوہیت کی وجہ سے مرتبہ الہیہ سے اس کو ایسی ہی مشابہت ہے جیسے آیئنے کے عکس کو اپنی اصل سے ہوتی ہے۔ اور امہات صفات الہیہ یعنی حیات،علم،ارادہ،قدرت، سمع ،بصر کلام مع اپنے جمیع فروع کےاتم و اکمل طور پر اس(آنحضرتﷺ) میں انعکاس پذیر ہیں"
(سرمہ چشم آریہ صفحہ 224 مندرجہ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 224)
2)مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"حضرت عمر ؓ کا وجود ظلی طور پر گویا آنجنابﷺ کا ہی وجود تھا۔"
(ایام الصلح صفحہ 35 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 265)
3)مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"خلیفہ دراصل رسول کا ظل ہوتا ہے۔"
(شہادة القرآن صفحہ 57 مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 353)
مرزاقادیانی کے اگر ظل اور بروز کے فلسفے کو تسلیم کرلیں تو پھر حضورﷺ کو بھی خدا تسلیم کرنا پڑے گا ۔ اور حضرت عمر ؓ اور تمام خلفائے راشدین ؓ کو رسول تسلیم کرنا پڑے گا۔
کیا کوئی قادیانی ایسا ایمان رکھتا ہے کہ حضورﷺ خدا ہیں اور حضرت عمر ؓ اور تمام خلفائے راشدین ؓ رسول ہیں؟؟
اگر مرزاقادیانی کے فلسفے کے مطابق حضورﷺ خدا کے ظل ہوکر بھی خدا نہیں ہوسکتے اور حضرت عمر ؓ اور دیگر خلفاء رسول اللہﷺ کے ظل ہوکر بھی رسول نہیں ہوسکتے تو مرزاقادیانی کیسے نبی اور رسول ہوسکتا ہے؟؟
ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ظلی اور بروزی نبوت کی اصطلاح صرف لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ہے۔ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔

"قادیانیوں کے نزدیک معیار نبوت"
نبوت کا معیار ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
حضرت ابو سفیان ؓ زمانہ جاہلیت میں تجارتی سفر پرروم گئے۔اور قیصر روم نے انہیں اپنے دربار میں بلاکر سوال پوچھے جن میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ جنہوں نے نبوت کا دعوی کیا ہے ان کا خاندان کیسا ہے؟؟
حضرت ابوسفیان ؓ نے جواب دیا تھا کہ وہ عالی نسب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
قیصر روم نے اس پر یوں تبصرہ کیا تھا کہ انبیاء عالی نسب قوموں سے ہی مبعوث کئے جاتے ہیں۔
(بخاری شریف حدیث نمبر 7 ، باب کیف جانب کان بدؤالوحی الی رسول اللہﷺ)
نبی کا عالی نسب خاندان سے مبعوث ہونا ایسی بات ہےجس پر کافروں کو بھی اتفاق ہے لیکن مرزاقادیانی جیسے بدترین کافر کے نزدیک چور ،زانی ، بدکار ،ذلیل و کمینے بھی نبی ہوسکتا ہے۔
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"ایک شخص جو قوم کا چوہڑہ یعنی بھنگی ہے اور ایک گاؤں کے شریف مسلمانوں کی تیس چالیس سال سے یہ خدمت کرتا ہے کہ دو وقت ان کے گھروں کی گندی نالیوں کو صاف کرنے آتا ہے۔ اور ان کے پائخانوں کی نجاست اٹھاتا ہے۔ اور ایک دو دفعہ چوری میں بھی پکڑا گیا اور چند دفعہ زنا میں بھی گرفتار ہوکر اس کی رسوائی ہوچکی ہے۔اور چند سال جیل خانہ میں قید بھی رہ چکا ہے۔
اور چند دفعہ ایسے برے کاموں پر گاؤں کے نمبرداروں نے اس کو جوتے بھی مارے ہیں۔ اور اس کی ماں اور دادیاں اور نانیاں ایسے ہی نجس کام میں مشغول رہی ہیں اور سب مردار کھاتے اور گوہ اٹھاتے ہیں۔
اب خدا تعالٰی کی قدرت پر خیال کرکے ممکن توہے کہ وہ اپنے کاموں سے تائب ہوکر مسلمان ہوجائے اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالٰی کا ایسا فضل اس پرہو کہ وہ رسول اور نبی بھی بن جائے ۔ اور اسی گاؤں کے شریف لوگوں کی طرف دعوت کا پیغام لےکر آوے۔ اور کہے کہ جو شخص تم میں سے میری اطاعت نہیں کرے گا خدا اسے جہنم میں ڈالے گا ۔ لیکن باوجود اس امکان کے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کبھی خدا نے ایسا نہیں کیا"
(تریاق القلوب صفحہ 67,68 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 280)
 

محمد عبداللہ امانت

رکن ختم نبوت فورم
*سبق نمبر 6*


*"قادیانیوں کے عقیدہ ظل و بروز کا علمی تحقیقی جائزہ"*

مرزاقادیانی نے نئے عقیدہ ظل اور بروز کی بنیاد رکھی۔ دراصل مرزاقادیانی نے عقیدہ ظل اور بروز ہندوؤں کے عقیدہ حلول اور تناسخ سے چوری کیا۔ قادیانیوں کے عقیدہ ظل اور بروز کو سمجھنے سے پہلے ہندوؤں کا عقیدہ حلول اور تناسخ سمجھنا ضروری ہے۔

*"ہندوؤں کا عقیدہ تناسخ و حلول"*

ہندوؤں کا عقیدہ تناسخ اور حلول کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بندہ ایک دفعہ مرجاتا ہے تو اس کی روح دوسری دفعہ کسی میں حلول کر جاتی ہے اور اسی انسان کا دوسرا جنم ہوجاتا ہے۔ جو پہلے مرچکا ہوتا ہے۔

لیکن ہندوؤں کے اس عقیدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جب کوئی انسان دوسری دفعہ جنم لے لیتا ہے تو وہ دوسری دفعہ جنم لے لینے کے بعد پہلے جنم کے والدین کو اپنا والدین نہیں کہ سکتا۔ اور پہلے جنم کی بیوی کو اپنی بیوی نہیں کہ سکتا۔ اور پہلے جنم کے بچوں کو اپنا بچہ نہیں کہ سکتا۔ اسی طرح جس زمین و جائیداد کا پہلے جنم میں وارث اور مالک ہوتا ہے دوسرے جنم میں اس زمین و جائیداد کا وارث اور مالک نہیں کہلا سکتا۔

*"مرزاقادیانی کا عقیدہ ظل اور بروز"*

مرزاقادیانی نے عقیدہ ظل اور بروز کے بارے میں لکھا ہے کہ

"اگر کوئی شخص اسی خاتم النبیین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آیئنہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہوگیا ہو تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہلائے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے گو ظلی طور پر۔
پس باوجود اس شخص کے دعوی نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا ۔پھر بھی سیدنا محمدﷺ خاتم النبیین ہی رہا۔کیونکہ یہ محمد ثانی اسی محمدﷺ کی تصویر اور اسی کا نام ہے۔"
*(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 209)*

ایک اور جگہ مرزاقادیانی نے ظل اور بروز کی مزید وضاحت کی ہے۔
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"خدا ایک اور محمدﷺ اس کا نبی ہے۔اور وہ خاتم الانبیاء ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہے۔اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں۔مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمدیت کی چادر پہنائی گئی۔ جیسا کہ تم آیئنہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے بلکہ ایک ہی ہو۔ اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں۔صرف ظل اور اصل کا فرق ہے۔"
*(کشتی نوح صفحہ 15 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 16)*

مرزاقادیانی کی ان تحریرات سے پتہ چلا کہ جو شخص حضورﷺ کی کامل اتباع کرے گا اسے نبوت مل جائے گی ۔
مرزاقادیانی کے اس عقیدے کے باطل ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ملاحظہ فرمائیں۔

*وجہ نمبر 1*

مرزا قادیانی اور قادیانی جماعت یہ کہتی ہے کہ اگر حضورﷺ کی کامل اتباع کی جائے تو نبوت ملتی ہے۔ تو ان کا یہ کہنا ہی کفر ہے۔
کیونکہ نبوت کسبی چیز نہیں ہے بلکہ وہبی چیز ہے۔ یعنی نبوت اپنی محنت کرنے اور ارادہ کرنے سے نہیں ملتی بلکہ اللہ تعالٰی جس کو عطا کریں اس کو ملتی ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے۔

*"وَ اِذَا جَآءَتۡہُمۡ اٰیَۃٌ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ حَتّٰی نُؤۡتٰی مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ ؕ ۘ ؔ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ ؕ سَیُصِیۡبُ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا صَغَارٌ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ عَذَابٌ شَدِیۡدٌۢ بِمَا کَانُوۡا یَمۡکُرُوۡنَ"*

"اور جب ان (اہل مکہ) کے پاس (قرآن کی) کوئی آیت آتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ : ہم اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ اس جیسی چیز خود ہمیں نہ دے دی جائے جیسی اللہ کے پیغمبروں کو دی گئی تھی ۔(حالانکہ) اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی پیغمبری کس کو سپرد کرے ۔ جن لوگوں نے ( اس قسم کی ) مجرمانہ باتیں کی ہیں ان کو اپنی مکاریوں کے بدلے میں اللہ کے پاس جاکر ذلت اور سخت عذاب کا سامنا ہوگا۔"
*(سورۃ الانعام آیت نمبر 124)*

*وجہ نمبر 2*
قادیانی کہتے ہیں کہ ظل سائے کو کہتے ہیں اور مرزاقادیانی نے حضورﷺ کی اتنی کامل اتباع کی کہ مرزاقادیانی نعوذ باللہ حضورﷺ کا ظل بن گیا۔ اور ظلی نبی بن گیا۔ لیکن یہ قادیانیوں کا دھوکہ ہے۔ قادیانی دراصل مرزاقادیانی کو نعوذباللہ حضورﷺ جیسا بلکہ نعوذباللہ حضورﷺ سے بڑھ کر درجہ دیتے ہیں۔
سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ مرزا قادیانی نے کیا حضورﷺ کی اتنی کامل اتباع کی ہے یا ویسے ہی ڈھنڈورا پیٹا ہے کہ میں عاشق رسولﷺ ہوں۔

1)مرزاقادیانی نے حج نہیں کیا۔حالانکہ مرزا قادیانی پر حج فرض بھی تھا۔
2)مرزاقادیانی نے ہجرت نہیں کی۔
3)مرزاقادیانی نے جہاد بالسیف نہیں کیا۔ بلکہ الٹا اس کو حرام کہا۔
4)مرزاقادیانی نے کبھی پیٹ پر پتھر نہیں باندھے۔
5)مرزاقادیانی نے کبھی بھی کسی چور کے ہاتھ نہیں کٹوائے۔حالانکہ مرزا قادیانی کے دور میں کتنی چوریاں ہوئیں۔بلکہ الٹا مرزا قادیانی نے لوگوں سے فراڈ کئے۔
6)مرزاقادیانی نے کسی زانی کو سنگسار نہیں کروایا۔حالانکہ ہندوستان کے قحبہ خانوں میں زنا ہوتا رہا۔ بلکہ الٹا مرزا قادیانی کے پیروکاروں نے مرزاقادیانی اور اس کے خاندان پر زنا کے الزام لگائے۔

اگر مرزاقادیانی اور قادیانی جماعت نبوت ملنے کے لئے اطاعت کو ہی معیار بناتے ہیں تو مرزاقادیانی تو اس معیار پر بھی پورا نہیں اترتا ۔

*وجہ نمبر 3*
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"خدا ایک اور محمدﷺ اس کا نبی ہے۔ اور وہ خاتم الانبیاء ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں ۔ مگر وہی جس پر بروزی طور سے محمدیت کی چادر پہنائی گئی۔جیسا کہ تم آیئنہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے بلکہ ایک ہی ہو۔ اگرچہ بظاہر دو نظر آتے ہیں۔صرف ظل اور اصل کا فرق ہے۔"
*(کشتی نوح صفحہ 15 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 16)*
معزز قارئین مرزاقادیانی کا کفر یہاں ننگا ناچ رہا ہے مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ میں ظلی طور پر محمد ہوں اس کا مطلب ہے کہ نعوذباللہ اگر آیئنے میں حضورﷺ کو دیکھا جائے تو وہ مرزا قادیانی نظر آئیں گے۔اور جو مرزاقادیانی آیئنے میں نظر آرہا ہے وہ مرزاقادیانی نہیں ہے بلکہ نعوذ باللہ حضورﷺ ہیں۔
اگر دونوں ایک ہی ہیں تو پھر ظل اور بروز کی ڈھکوسلہ بازی کیوں کرتے ہو؟؟؟
اور یہی کہنا حضورﷺ کی توہین ہے اور کفر ہے۔

*وجہ نمبر 4*
مرزاقادیانی کے ظل اور بروز کے فلسفے کو مرزاقادیانی کی ہی تحریرات سے باطل ثابت کرتے ہیں۔


1۔مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"نقطہ محمدیہ ایسا ہی ظل الوہیت کی وجہ سے مرتبہ الہیہ سے اس کو ایسی ہی مشابہت ہے جیسے آیئنے کے عکس کو اپنی اصل سے ہوتی ہے۔ اور امہات صفات الہیہ یعنی حیات،علم،ارادہ،قدرت، سمع ،بصر کلام مع اپنے جمیع فروع کےاتم و اکمل طور پر اس(آنحضرتﷺ) میں انعکاس پذیر ہیں۔"
*(سرمہ چشم آریہ صفحہ 224 مندرجہ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 224)*
2۔ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"حضرت عمر ؓ کا وجود ظلی طور پر گویا آنجنابﷺ کا ہی وجود تھا۔"
*(ایام الصلح صفحہ 35 روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 265)*
3۔ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"خلیفہ دراصل رسول کا ظل ہوتا ہے۔"
*(شہادة القرآن صفحہ 57 روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 353)*
4۔ مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ
"صحابہ کرام ؓ آنخضرتﷺ کی عکسی تصویریں تھے۔"
*(فتح اسلام صفحہ 36 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 21)*
مرزاقادیانی کے اگر ظل اور بروز کے فلسفے کو تسلیم کرلیں تو پھر حضورﷺ کو بھی خدا تسلیم کرنا پڑے گا ۔ اور حضرت عمر ؓ اور تمام خلفائے راشدین کو رسول تسلیم کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ تمام صحابہ کرام ؓ کو بھی رسول تسلیم کرنا پڑے گا ۔
کیا کوئی قادیانی ایسا ایمان رکھتا ہے کہ حضورﷺ خدا ہیں اور حضرت عمر ؓ اور تمام خلفائے راشدین رسول ہیں اور تمام صحابہ کرام ؓ رسول ہیں؟؟
اگر مرزاقادیانی کے فلسفے کے مطابق حضورﷺ خدا کے ظل ہوکر بھی خدا نہیں ہوسکتے اور حضرت عمر ؓ اور دیگر خلفاء رسول اللہﷺ کے ظل ہوکر بھی رسول نہیں ہوسکتے اور تمام صحابہ کرام ؓ حضورﷺ کا عکس ہو کر بھی رسول نہیں ہوسکتے تو مرزاقادیانی کیسے نبی اور رسول ہوسکتا ہے؟؟
ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ظلی اور بروزی نبوت کی اصطلاح صرف لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ہے۔حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

*وجہ نمبر 5*

قادیانی قرآن پاک کی اس آیت سے استدلال کرکے کہتے ہیں کہ حضورﷺ کی کامل اتباع کرنے سے ظلی نبوت ملتی ہے۔

*"وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا"*

اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے ، یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین ۔ اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔
*(سورۃ النساء آیت نمبر 69)*
اس آیت میں دراصل اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے کو یہ خوشخبری ہے کہ وہ جنت میں نبیوں ،صدیقوں، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر قادیانی فلسفے کو تسلیم کرلیں کہ حضورﷺ کی کامل اتباع کرنے سے ظلی نبوت مل جاتی ہے تو کیا دوسرے انعام جن کا اس آیت میں ذکر ہے یعنی صدیق،شھید اور صالح ہونا، کیا یہ درجے بھی ظلی طور پر ملتے ہیں یا حقیقی طور پر ملتے ہیں؟؟
کیونکہ اگر قادیانی فلسفے کو تسلیم کیا جائے تو یہ درجے بھی ظلی طور پر ملنے چاہیئں۔
اور اگر یہ درجے حقیقی طور پر ملتے ہیں ظلی طور پر نہیں ملتے تو پھر نبوت کو بھی حقیقی طور پر ملنا چاہیے ۔
حالانکہ شریعت کے ساتھ نبوت کا ملنا اور مستقل نبوت کا ملنا یہ تو قادیانی بھی تسلیم نہیں کرتے۔ تو پتہ چلا کہ قادیانیوں کا ظل اور بروز کا فلسفہ محض ایک ڈھکوسلا ہے۔حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

*وجہ نمبر 6*
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"صدہا لوگ ایسے گزرے ہیں جن میں حقیقت محمدیہ متحقق تھی اور عنداللہ ظلی طور پر ان کا نام محمد یا احمد تھا۔"
*(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 346 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 346)*

جبکہ دوسری جگہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا ہوں۔اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔"
*(حقیقة الوحی صفحہ 391 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 406)*

مرزاقادیانی کی ان تحریرات سے پتہ چلا کہ امت محمدیہ میں سینکڑوں لوگ ایسے گزرے ہیں جو ظلی طور پر محمد یا احمد تھے لیکن نبی نہیں تھے۔ اور نہ انہوں نے نبوت کا دعوی کیا اور نہ اپنی علیحدہ جماعت بنائی اور نہ ہی اپنے منکرین کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ اتنے بڑے بڑے متبعین خدا و رسول تو اس نعمت سے محروم رہے اور مرزاقادیانی جیسا کوڑھ مغز آدمی ظلی نبی بن گیا بلکہ ظلی نبی کے ساتھ حقیقی نبی بن گیا۔

*وجہ نمبر 7*
مرزا قادیانی نے ظل اور بروز کا عقیدہ ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ و حلول سے چوری کرکے لیا۔
ہندوؤں کا عقیدہ تناسخ اور حلول کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بندہ ایک دفعہ مرجاتا ہے تو اس کی روح دوسری دفعہ کسی میں حلول کر جاتی ہے اور اسی انسان کا دوسرا جنم ہوجاتا ہے۔ جو پہلے مرچکا ہوتا ہے۔
لیکن ہندوؤں کے اس عقیدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جب کوئی انسان دوسری دفعہ جنم لے لیتا ہے تو وہ دوسری دفعہ جنم لے لینے کے بعد پہلے جنم کے والدین کو اپنا والدین نہیں کہ سکتا۔ اور پہلے جنم کی بیوی کو اپنی بیوی نہیں کہ سکتا۔ اور پہلے جنم کے بچوں کو اپنا بچہ نہیں کہ سکتا۔ اسی طرح جس زمین و جائیداد کا پہلے جنم میں وارث اور مالک ہوتا ہے دوسرے جنم میں اس زمین و جائیداد کا وارث اور مالک نہیں کہلاسکتا۔
لیکن مرزاقادیانی نے ہندوؤں کے اس عقیدہ تناسخ اور حلول کا بھی بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ۔ مرزاقادیانی نے جس شخص کو دوسرے کا ظل بنایا اس کو پہلے شخص کا وارث بھی بنادیا۔
مرزاقادیانی اپنے آپ کو حضورﷺ کا ظل کہتا ہے۔ اور حضورﷺ کی ازواج مطہرات کو ام المومنین کہا جاتا ہے۔جبکہ مرزاقادیانی کے پیروکار بھی مرزاقادیانی کی بیوی کو ام المومنین کہتے ہیں۔
حضورﷺ کے صحابہ ؓ کی طرح مرزا قادیانی اپنے مریدوں کو صحابی کہتا ہے۔
حضورﷺ کی طرح مرزاقادیانی بھی اپنے آپ کو نبی اور رسول کہتا ہے اور نہ ماننے والوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے ظل اور بروز کا عقیدہ چوری تو ہندوؤں کے عقیدہ حلول اور تناسخ سے کیا ۔ لیکن ہندوؤں کے عقیدے کا بھی بیڑہ غرق کر دیا ۔

*وجہ نمبر 8*
مرزاقادیانی اور قادیانی جماعت کی تحریرات ملاحظہ فرمائیں اور خود فیصلہ کریں کہ کیا ظل اور بروز کا فلسفہ انسانی عقل اور فہم میں آتا ہے؟؟

1)مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"محمد رسول اللہ والذین معہ"
*(سورۃ الفتح آیت نمبر 29)*
اس وحی الہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔
*(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 1 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 207)*
2)مرزاقادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے کہ
"پس مسیح موعود (مرزاقادیانی) خود محمد رسول اللہ ہے۔جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔"
*(کلمتہ الفصل صفحہ 158)*
3)قادیانی اخبار الفضل میں لکھا ہے کہ
"مسیح موعود(مرزاقادیانی) کا آنا بعینیہ محمد رسول اللہ کا دوبارہ آنا ہے۔ یہ بات قرآن سے صراحتہ ثابت ہے کہ محمد رسول اللہ دوبارہ مسیح موعود(مرزاقادیانی) کی بروزی صورت اختیار کر کے آئیں گے۔"
*(الفضل جلد 2 نمبر 24)*
4)قادیانی اخبار الفضل میں لکھا ہے کہ
"پھر مثیل اور بروز میں بھی فرق ہے۔ بروز میں وجود بروزی اپنے اصل کی پوری تصویر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ نام بھی ایک ہوجاتا ہے۔۔۔ بروز اور اوتار ہم معنی ہیں۔"
*(الفضل 20 اکتوبر 1931ء)*
5)قادیانی اخبار الفضل میں لکھا ہے کہ
"میں احمدیت میں بطور بچہ تھا جو میرے کانوں میں یہ آواز پڑی ۔
مسیح موعود محمد است و عین محمد است"
*(الفضل 17 اگست 1915ء)*
6)مرزاقادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے کہ
"اس میں کیا شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اللہ تعالٰی نے پھر محمدﷺ کو اتارا۔"
*(کلمتہ الفصل صفحہ 105)*
مرزا قادیانی اور دوسرے قادیانیوں کی ان تحریرات سے پتہ چلتا ہے کہ نعوذ باللہ محمدﷺ اور مرزاقادیانی ایک ہی ہیں۔

اس کی 3 صورتیں ہیں۔
1)پہلی صورت یہ ہے کہ کیا حضورﷺ کا جسم مبارک اور روح مبارک نعوذ باللہ مرزاقادیانی کی شکل میں دوبارہ دنیا میں تشریف لائے؟
یہ صورت تو غلط ہے کیونکہ حضورﷺ کا جسم مبارک تو مدینہ شریف میں روضہ مبارک میں مدفون ہے۔
2)دوسری صورت یہ ہے کہ کیا نعوذباللہ حضورﷺ کی روح مبارک مرزاقادیانی کے جسم میں حلول کر گئی؟
یہ صورت بھی غلط ہے کیونکہ یہ عقیدہ تو ہندوؤں کا ہے کہ ایک فوت شدہ انسان دوسرے جنم میں آتا ہے۔
یہ ہندوؤں کا عقیدہ تو ہوسکتا ہے لیکن اسلام میں اس عقیدے کی کوئی گنجائش نہیں ۔
کیونکہ یہ عقیدہ قرآن و حدیث کے صراحتا خلاف ہے۔
3)اس کی تیسری صورت یہ ہے کہ نعوذ باللہ مرزاقادیانی میں حضورﷺ کے اوصاف و کمالات ہوں۔
یہ صورت بھی غلط ہے کیونکہ

1)حضورﷺ امی تھے اور مرزاقادیانی کئی کتابوں کا مصنف تھا۔
2)حضورﷺ عربی تھے اور مرزاقادیانی عجمی تھا۔
3)حضورﷺ قریشی تھے اور مرزاقادیانی مغل قوم سے تعلق رکھتا تھا ۔
4)حضورﷺ دنیاوی لحاظ سے بےبرگ و بےنوا تھے جبکہ مرزاقادیانی کو رئیس قادیان کہلانے کا شوق تھا۔
5)حضورﷺ نے مدنی زندگی کے 10 سالوں میں سارا عرب زیرنگیں کرلیا تھا۔جبکہ مرزاقادیانی غلامی کی زندگی کو پسند کرتا تھا۔اور جہاد اور فتوحات کا قائل نہیں تھا۔
6)حضورﷺ کے ہاں اسلام کو آزادی کا مترادف قرار دیا گیا ہے۔اور مرزاقادیانی کے ہاں اسلام غلامی کا مترادف ہے۔
7)حضورﷺ کی صداقت کی گواہی غیروں نے بھی دی تھی۔جبکہ مرزاقادیانی کو آج تک قادیانی سچا ثابت نہیں کر سکے۔
8)حضورﷺ کا کردار ایسا پاکیزہ اور صاف ستھرا تھا کہ غیر بھی اس پر انگلی نہیں اٹھا سکے۔ اور مرزاقادیانی کا کردار ایسا ہے کہ خود مرزاقادیانی کے ماننے والے مرزا قادیانی پر زنا کے الزام لگاتے رہے۔
9)حضورﷺ کے مالی معاملات اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بےمثال زندگی دنیا بھر کے لئے نمونہ ہے۔جبکہ مرزاقادیانی کی خیانت اور لوگوں کے حقوق ادا نہ کرنا آج بھی قادیانیوں کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضورﷺ اور مرزاقادیانی میں نہ وحدت جسم ہے اور نہ وحدت روح ہے۔ اور نہ ہی وحدت کمالات ہے اور نہ ہی وحدت اوصاف ہے۔
پھر یہ کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ نعوذباللہ مرزاقادیانی حضورﷺ ہی ہے ۔ اور نعوذ باللہ حضورﷺ ہی دوبارہ مرزاقادیانی کی شکل میں آ گئے ہیں۔

*وجہ نمبر 9*
مرزاقادیانی نے جو ظل اور بروز کا عقیدہ گھڑا ہے یہ عقیدہ نہ قرآن کی کسی آیت سے ثابت ہے اور نہ کسی حدیث سے ثابت ہے۔ بلکہ یہ عقیدہ ہندوؤں کے عقیدہ حلول اور تناسخ سے چوری شدہ ہے۔ اس لئے ایسا عقیدہ جو اسلام کے بنیادی عقیدے کے ہی خلاف ہو وہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔

*"خلاصہ کلام"*

ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی کا عقیدہ ظل و بروز قرآن و احادیث کے خلاف ہے۔ ہندوؤں کے عقیدہ حلول اور تناسخ سے چوری کیا گیا ہے۔
اور خود مرزاقادیانی کی تحریرات سے بھی باطل ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ ایسا جھوٹا عقیدہ ہے جو عقل و فہم سے بھی بالاتر ہے۔
 
آخری تدوین :

محمد عبداللہ امانت

رکن ختم نبوت فورم


*"ختم نبوت کورس"*


*سبق نمبر 7*


*"قرآن مجید کی 2 آیات پر اجرائے نبوت کے موضوع پر قادیانی شبہات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"*

*"آیت نمبر 1"*

قادیانی قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبوت حضورﷺ پر ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ جاری ہے اور قیامت تک نئے نبی آسکتے ہیں۔
آیئے پہلے آیت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں اور پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا علمی رد کرتے ہیں۔

*آیت نمبر 1*

*یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ ۙ فَمَنِ اتَّقٰی وَ اَصۡلَحَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ۔*
ترجمہ:
اے آدمؑ کے بیٹے اور بیٹیو! اگر تمہارے پاس تم میں سے ہی کچھ پیغمبر آیئں جو تمہیں میری آیات پڑھ کر سنائیں ،تو جو لوگ تقوی اختیار کر لیں گے اور اپنی اصلاح کر لیں گے ،ان پر نہ کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔
*(سورۃ الاعراف آیت نمبر 35)*

قادیانیوں کا باطل استدلال =
قادیانی اس آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیت میں تمام بنی آدمؑ کو مضارع کے صیغے کے ساتھ خطاب کیا گیاہے۔
اس لئے اس آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ قیامت تک بنی آدم میں سے رسول آتے رہیں گے ۔

قادیانیوں کے باطل استدلال کا جواب =
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔

*جواب نمبر 1*

قرآن مجید کے اسلوب سے یہ بات ثابت ہے کہ پورے قرآن میں جہاں بھی امت محمدیہؑ کو اللہ تعالٰی نے خطاب کیا ہے تو وہاں 2 طریقوں سے خطاب کیا ہے۔
1)امت محمدیہؑ کو اجابت کے لئے *"یاایھاالذین آمنو"* کے الفاظ سے خطاب کیا گیا ہے۔
2)امت محمدیہؑ کو دعوت کے لئے *"یاایھاالناس"* کے الفاظ سے خطاب کیا گیا ہے۔
پورے قرآن میں امت محمدیہؑ کو *"یبنی آدم"* کے الفاظ سے خطاب نہیں کیا گیا ۔
پس ثابت ہوا کہ اس آیت میں امت محمدیہؑ کو خطاب نہیں کیا گیا ۔ بلکہ امت محمدیہؑ سے پہلے تمام اولاد آدمؑ کو جو خطاب کیا گیا تھا اس آیت میں اس کا ذکر ہے ۔

ایک ضروری وضاحت =

*یبنی آدم* کے الفاظ سے جہاں بھی اولاد آدمؑ کو خطاب کیا گیا ہے وہاں اگر کوئی احکام نازل کئے جانے کا ذکر ہوتو اگر وہ احکام امت محمدیہؑ میں منسوخ نہ کئے گئے ہوں یا کوئی ایسا حکم ہو جو شریعت محمدیہؑ کو اس حکم کے پورا کرنے سے مانع نہ ہوتو امت محمدیہؑ بھی اس حکم میں شامل ہوتی ہے۔
جبکہ اس آیت میں جس بات کو ذکر کیا گیا ہے وہ سابقہ امتوں کے لئے اس لئے ہے کیونکہ قرآن و سنت کے مطابق آپﷺ کو آخری نبی قرار دیا گیا ہے۔ اور آخری نبی کے آنے کے بعد نبوت جاری نہیں رہتی۔
قادیانی *"یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ"* کے لفظ پر اعتراض کرتے ہوئے ایک اور آیت بھی پیش کرتے ہیں
*"یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ"* کہ اس آیت میں *"یبنی آدم"* کے لفظ سے خطاب کیا گیا ہے اور اس میں مسجد کا ذکر ہے اور مسجدیں امت محمدیہؑ کے ساتھ خاص ہیں۔
حالانکہ قادیانی علمی یتیموں کو یہ پتا نہیں کہ مسجد کا ذکر پہلی امتوں کے لئے بھی قرآن میں
کیا گیا ہے۔
جیسا کہ اس آیت میں ذکر ہے۔
*"قَالَ الَّذِیۡنَ غَلَبُوۡا عَلٰۤی اَمۡرِہِمۡ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیۡہِمۡ مَّسۡجِدًا"*
انہوں نے کہا کہ : ہم تو ان کے اوپر ایک مسجد ضرور بنائیں گے۔
*(سورۃ الکھف آیت نمبر 21)*

*جواب نمبر 2*

اولاد بنی آدم میں ہندو، سکھ،عیسائی اور یہودی تمام شامل ہیں۔ کیا ہندوں، سکھوں ،عیسائیوں اور یہودیوں میں سے بھی رسول آسکتا ہے؟؟؟
اگر ان میں سے رسول نہیں آسکتا تو ان کو اس آیت کے عموم سے کس دلیل کے ساتھ قادیانی خارج کرتے ہیں؟؟؟
اس کے علاوہ اولاد بنی آدم میں عورتیں اور ہیجڑے بھی شامل ہیں ۔
کیا عورتوں اور ہیجڑوں میں سے بھی رسول آسکتا ہے؟؟؟؟؟
اگر قادیانی اس کے جواب میں کہیں کہ عورتیں پہلے نبی نہیں بنی تو اب بھی نہیں بن سکتیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح کوئی عورت نبی نہیں بنی اسی طرح پہلے کسی نبی کی اطاعت کرنے سے کوئی مرد بھی نبی نہیں بنا۔
اگر نبوت جاری ہے اور اطاعت سے کوئی انسان نبی بن سکتا ہے تو اطاعت سے عورت بھی نبی بن سکتی ہے۔
پس ثابت ہوا کہ اس آیت کی رو سے جس طرح عورت نبی نہیں بن سکتی اسی طرح کوئی مرد بھی نبی نہیں بن سکتا۔

*جواب نمبر 3*
اگر اس آیت *"یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ َ"* سے رسولوں کے آنے کا وعدہ ہے تو اس آیت *" اما یاتینکم منی ھدی "* سے صاحب شریعت رسولوں کے آنے کا وعدہ بھی ہے۔کیونکہ اس آیت میں وہی یاتینکم ہے جو * "یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ "* والی آیت میں ہے۔
لیکن قادیانی صاحب شریعت رسولوں کے آنے کے منکر ہیں پس جس طرح آیت *"یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ"* سے آپ قادیانی صاحب شریعت رسولوں کے آنے کے منکر ہیں اسی طرح اس آیت سے غیر تشریعی رسول بھی نہیں آسکتے۔

*جواب نمبر 4*
اس آیت *"یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ"* میں لفظ *"اِمَّا"* ہے ۔ اور *"اِمَّا"* حرف شرط ہے۔ جس کا تحقق ضروری نہیں جس طرح مضارع کے لئے استمرار ضروری نہیں ۔
جیسا کہ اس آیت سے وضاحت ہوتی ہے۔
*"َاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الۡبَشَرِ اَحَدًا"*
*(سورہ مریم آیت 26)*
ترجمہ = اگر لوگوں میں سے کسی کو آتا دیکھو

اس آیت کا اگر قادیانی اصول کے مطابق ترجمہ کریں تو یوں بنے گا کہ مریمؑ قیامت تک آدمی کو دیکھتی رہیں گی۔
حالانکہ یہ ترجمہ قادیانی نہیں مانتے۔
پس جس طرح اس آیت کی رو سے مریمؑ قیامت تک کسی آدمی کو نہیں دیکھ سکتیں۔
اسی طرح اس آیت *"یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ"* سے بھی حضورﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آسکتا ۔

*جواب نمبر 5*

اس آیت کا شان نزول قادیانیوں کے تسلیم کردہ مجدد امام سیوطیؒ نے یوں بیان کیا ہے۔
"ابی یسار سلمی سے روایت ہے کہ اللہ رب العزت نے سیدنا آدمؑ اور ان کی اولاد کو(اپنی قدرت و رحمت کی)مٹھی میں لیا اور فرمایا *"یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ اِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ۔۔۔"* پھر رسولوں پر نظر رحمت ڈالی تو فرمایا یایھاالرسل۔۔۔۔۔
پس ثابت ہوا کہ قادیانیوں کے تسلیم کر دہ مجدد کے نزدیک یہ آیت عالم ارواح کے واقعہ کی حکایت ہے۔
اس لئے اس آیت سے نبوت کا جاری رہنا کسی صورت بھی ثابت نہیں ہوتا۔

*جواب نمبر 6*

جس رکوع میں یہ آیت ذکر ہے اس میں اس آیت سے پہلے 3 دفعہ آدمؑ اور ان کی اولاد کو یبنی آدم کے الفاظ سے اللہ تعالٰی نے خطاب کیا ہے۔
اس لئے اگر سیاق و سباق کو بھی دیکھا جائے تو بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں اولین اولاد آدمؑ کے خطاب کو اللہ تعالٰی نے بیان فرمایا ہے۔

*جواب نمبر 7*

بالفرض محال اگر تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اس آیت کی رو سے حضورﷺ کے بعد انسانوں میں سے رسول آسکتے ہیں تو مرزاقادیانی پھر بھی رسول ثابت نہیں ہوتا۔
کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ میں تو انسان ہی نہیں ۔
کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
*(روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 127)*

خلاصہ کلام=

تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے بلکہ قرآن مجید کی کسی آیت سے بھی نبوت کا جاری ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ بلکہ اس آیت میں اولین اولاد آدمؑ سے اللہ تعالٰی کے خطاب کو بیان کیا گیا ہے۔

*"دوسری آیت"*
قادیانی قرآن مجید کی درج ذیل آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد بھی نبوت جاری ہے اور قیامت تک نئے نبی اور رسول آسکتے ہیں۔
آیئے پہلے آیت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں ۔ پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا علمی رد کرتے ہیں۔
*آیت نمبر 2*

*"وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا"*
ترجمہ
اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے ۔جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے ، یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین ۔ اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں ۔
*(سورۃ النساء آیت نمبر 69)*

قادیانیوں کا باطل استدلال
قادیانی اس آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے سے کوئی بھی انسان نبی ،صدیق، شہید اور صالح بن سکتا ہے۔ یعنی یہ 4 درجے ایسے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے سے مل سکتے ہیں۔
قادیانیوں کے اس آیت سے کئے گئے باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

*جواب نمبر 1*

کوئی بھی ذی شعور اور صاحب عقل آدمی اس آیت کا صرف ترجمہ پڑھ لے تو اسے خود پتہ چل جائے گا کہ اس آیت سے نبوت کے جاری ہونے کا قطعا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
بلکہ یہ آیت اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرنے والوں کو یہ خوشخبری سنا رہی ہے کہ آپ قیامت کے بعد نبیوں،صدیقوں ،شہدا اور صالحین کے ساتھ ہوں گے۔
جیسا کہ اس آیت کے آخری الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ یعنی نبی، صدیقین، شھدا اور صالحین بہترین ساتھی ہیں ۔
پس ثابت ہوا کہ یہ آیت قیامت کی معیت کے بارے میں ہے۔

*جواب نمبر 2*

اس آیت کا شان نزول قادیانیوں کے تسلیم کردہ 10 صدی کے مجدد امام جلال الدین سیوطیؒ یوں لکھتے ہیں۔
پڑھئے اور سر دھنئے۔
"بعض صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ آپ جنت کے بلند و بالا مقامات پر ہوں گے اور ہم جنت کے نچلے درجات میں ہوں گے تو آپﷺ کی زیارت کیسے ہوگی؟؟؟
تو یہ آیت نازل ہوئی ۔
*مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ۔۔۔۔۔۔۔ *
*(تفسیر جلالین صفحہ 80)*
یہاں رفاقت سے مراد جنت کی رفاقت ہے کہ انبیاء کرامؑ اگرچہ جنت کے بالاخانوں میں ہوں گے لیکن پھر بھی صحابہ کرام ؓ اور دوسرے نیک لوگ انبیاء کرامؑ کی زیارت سے فیض یاب ہوں گے۔
اس کے علاوہ مرزا قادیانی سے پہلے تقریبا تمام تفاسیر میں اس آیت کا یہی شان نزول لکھا ہے۔
لیجئے میرے حضورﷺ کی بیان کردہ تفسیر نے بھی بتا دیا کہ اس آیت میں معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔

*جواب نمبر 3*
اماں عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ
"میں نے آپﷺ سے سنا کہ آپﷺ فرماتے تھے کہ ہر نبی کو مرض وفات میں اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں رہنا چاہتا ہے یا عالم آخرت میں۔
جس مرض میں آپﷺ کی وفات ہوئی اس مرض میں آپﷺ فرماتے تھے ۔
*"مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ"*
یعنی ان نبیوں کے ساتھ جن پر تو نے انعام فرمایا
اماں جان ؓ فرماتی ہیں کہ اس سے میں سمجھ گئی کہ آپﷺ کو دنیا اور آخرت میں سے ایک کا اختیار دیا جارہا ہے۔
*(مشکوۃ شریف جلد 2 صفحہ 547)*
اس روایت سے بھی ثابت ہوگیا کہ معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔

*جواب نمبر 4*
دو روایات اور ملاحظہ فرمائیں جن میں بھی معیت کا ذکر ہے لیکن اس معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔

*حدیث نمبر 1*

*"قال رسول اللہﷺ من قرء الف آیتہ فی سبیل اللہ کتب یوم القیامۃ مع النبیین والصدیقین والشھداء والصلحین"*
حضورﷺ نے فرمایا:
جو شخص ایک ہزار آیات روزانہ اللہ کی رضا کے لئےتلاوت کرے وہ قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں، شہدا اور صالحین کے ساتھ بہترین رفاقت میں ہوگا۔
*(مسند احمد جلد 1 صفحہ 363)*
*حدیث نمبر 2*

*قال رسول اللہﷺ التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشھداء۔*
حضورﷺ نے فرمایا:
سچا امانت دار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شھداء کے ساتھ ہوگا۔
*(مسند احمد جلد 2 صفحہ 209)*
اب قادیانی یہ بتایئں کہ کیا کوئی سچا تاجر یا 1000 آیات روزانہ پڑھنے والا نبی بن سکتا ہے؟؟؟؟
یقینا قادیانی یہی کہیں گے کہ سچا تاجر اور 1000 آیات روزانہ پڑھنے والا قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں، شھداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔
جس طرح سچا تاجر اور 1000 آیات روزانہ پڑھنے والا نبی نہیں بن سکتا بلکہ قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا ۔ اسی طرح اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والا بھی نبی یا رسول نہیں بن سکتا بلکہ قیامت کے دن وہ نبیوں، صدیقوں، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔

*جواب نمبر 5*
مندرجہ بالا آیت میں قیامت کے دن معیت کا ذکر ہے ۔ جن آیات میں دنیا میں درجات ملنے کا ذکر ہے ان میں سے کسی ایک آیت میں بھی نبوت ملنے کا ذکر نہیں ہے ۔
مثلا *سورۃ العنکبوت* میں *اللہ* فرماتے ہیں۔
*"وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدۡخِلَنَّہُمۡ فِی الصّٰلِحِیۡنَ"*
(وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے وہ نیک لوگوں میں داخل ہوں گے)
*(سورۃ العنکبوت آیت نمبر 9)*
اس کے علاوہ ایک اور جگہ پر اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ۔
*"وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖۤ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصِّدِّیۡقُوۡنَ"*
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں وہ اللہ کے نزدیک صدیق اور شھید ہیں۔
*(سورۃ الحدید آیت نمبر 19)*
ان آیات میں جو لوگ مخاطب ہیں اور ان کو جو درجات ملنے کا ذکر ہے ان میں نبوت ملنے کا دور دور تک بھی ذکر نہیں ہے۔ اور صحابہ کرام ؓ سے زیادہ کامل ایمان والا امت میں کون ہوسکتا ہے؟؟؟
اگر صحابہ کرام ؓ جیسے کامل ایمان والے لوگوں کو نبوت نہیں مل سکتی تو پھر امت میں کسی کو کیسے نبوت مل سکتی ہے جبکہ اللہ نے نبوت کا دروازہ بھی بند کردیا ہوا ہے۔
خلاصہ=

پس ثابت ہوا کہ قادیانیوں کا مندرجہ بالا آیت پر استدلال باطل ہے کیونکہ اس آیت میں قیامت کے بعد نیک لوگوں کو جو معیت ملے گی اس کا ذکر ہے۔ کہ نیک لوگ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوں گے۔
 
آخری تدوین :

محمد عبداللہ امانت

رکن ختم نبوت فورم
*سبق نمبر 8*

*"مسئلہ اجرائے نبوت پر چند آیات پر قادیانیوں کے باطل شبہات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"*

*"آیت نمبر 1"*

قادیانی قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امت محمدیہﷺ میں قرب قیامت ایک اور نیا رسول قادیان میں پیدا ہوگا۔ اور وہ لوگوں کی اصلاح کرے گا ۔
آیئے پہلے آیات اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا علمی رد کرتے ہیں۔

آیات =
*ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ۔*
*وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ۔*

آیت کا ترجمہ =

وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنایئں اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں۔ اور ان میں سے کچھ اور بھی ہیں جو ابھی آکر ان سے نہیں ملے ۔ وہ بڑے اقتدار والا بڑی حکمت والا ہے۔
*(سورۃ الجمعہ آیت 2،3)*

قادیانیوں کا باطل استدلال =
قادیانی قرآن مجید کی اس آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امت محمدیہؑ میں قرب قیامت ایک اور نیا رسول قادیان میں پیدا ہوگا۔ اور وہ لوگوں کی اصلاح کرے گا۔
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں۔

*جواب نمبر 1*

اگر اس آیت کی تفسیر "تفسیر القرآن بالقرآن " دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ
یہ آیت کریمہ دراصل اس دعا کا جواب ہے جو حضرت ابراهیمؑ نے اپنی اولاد کے لئے مانگی تھی ۔
وہ دعا یہ ہے ۔
*"رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ "*
ہمارے پروردگار! ان میں سے ایک ایسا رسول بھی بھیجنا جو انہی میں سے ہو ۔ جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاکیزہ بنائے۔
*(سورۃ البقرۃ آیت نمبر 129)*
اللہ تعالٰی نے ابراہیمؑ کی اس دعا کو قبول کرتے ہوئے حضورﷺ کو مبعوث فرمایا جیسا کہ زیر بحث آیت میں ذکر ہے ۔

*"ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ"*
وہی ہے جس امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنایئں اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں۔
*(سورۃ الجمعہ آیت نمبر 2)*
مبعوث تو آپﷺ عرب کے لوگوں میں ہوئے لیکن آپﷺ ہادی و برحق اور نبی و رسول قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے ہیں۔ جیسا کہ قرآن پاک کی اور آیات سے بھی ظاہر ہے۔
*"یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا"*
(اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا گیا رسول ہوں)
*(سورۃ الاعراف آیت نمبر 158)*
پس چونکہ آپﷺ قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے رسول ہیں لہذا آپ کے زمانہ نبوت میں کسی نئے رسول یا نبی کی کوئی گنجائش نہیں ۔

*جواب نمبر 2*
‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ""كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْجُمُعَةِ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يُرَاجِعْهُ حَتَّى سَأَلَ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏وَفِينَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ ""لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ"".
"حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپﷺ پر سورہ جمعہ نازل ہوئی ۔ "وآخرین منھم لما یلحقو بھم " تو میں نے عرض کی کہ یارسول اللہﷺ وہ کون ہیں؟ تو آپﷺ نے خاموشی اختیار فرمائی۔ حتی کہ تیسری بار سوال عرض کرنے پر آپﷺ نے ہم میں بیٹھے ہوئے سلمان فارسی ؓ پر ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو یہ لوگ (اہل فارس) اس کو پالیں گے "۔
*(بخاری حدیث نمبر 4897، کتاب التفسیر٬ باب یأتی من بعدی اسمه احمد٬ مسلم حدیث نمبر 6498، ترمذی حدیث نمبر 3310)*
اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل فارس کی ایک جماعت ہوگی جو اسلام کی تقویت کا باعث بنے گی ۔
چنانچہ اس حدیث کے مصداق عجم و فارس میں بڑے بڑے محدثین، فقھاء ،مفسرین، مجدین، صوفیاء اور اولیاء کرام پیدا ہوئے ہیں۔ جو اسلام کی تقویت کا باعث بنے ہیں۔
اس حدیث نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ آپﷺ ہر حاضر اور غائب کے نبی ہیں اور قیامت تک جتنے بھی لوگ آیئں گے آپﷺ ان سب کے نبی ہوں گے ۔ مزید کسی نئے نبی کی گنجائش نہیں ۔

*جواب نمبر 3*
امام رازیؒ جو مرزا قادیانی سے پہلے کے مفسر ہیں اور مرزا صاحب نے ان کو عسل مصفی میں چھٹی صدی کا مجدد بھی تسلیم کیا ہوا ہے وہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
ابن عباس ؓ اور مفسرین کی جماعت کہتی ہے کہ آخرین سے مراد عجمی ہیں(یعنی آپﷺ عرب و عجم کے لئے معلم و نبی ہیں )مقاتل رح کہتے ہیں کہ اس سے تابعین مراد ہیں،
سب اقوال کا حاصل یہ ہے کہ امیین سے عرب مراد ہیں اور آخرین سے مراد وہ تمام اقوام ہیں جو قیامت تک اسلام میں داخل ہوں گی۔
*(تفسیر کبیر جلد 3 صفحہ 4)*
لیجئے مرزا صاحب کے تسلیم کئے گئے مفسرین کے مطابق اس آیت سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو قیامت تک اسلام میں داخل ہوں گے آپﷺ ان تمام لوگوں کے نبی ہیں۔

*جواب نمبر 4*
اس آیت کے بارے میں جو کچھ مرزاقادیانی نے لکھا ہے مرزاقادیانی اس کے مطابق بھی نبی ثابت نہیں ہوتا بلکہ "کذاب" ثابت ہوتا ہے۔
آیئے مرزاقادیانی کی اس تحریر کا جائزہ لیتے ہیں جو مرزاقادیانی نے زیر بحث آیت کے متعلق لکھی ہے۔

مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"خدا وہ ہے جس نے امیوں میں سے انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے۔ اور انہیں کتاب اور حکمت سکھلاتا ہے اگرچہ پہلے وہ صریح گمراہ تھے۔
اور ایسا ہی وہ رسول جو ان کی تربیت کررہا ہے ایک دوسرے کی بھی تربیت کرے گا جو انہی میں سے ہوجایئں گے ۔
گویا تمام آیت معہ اپنے الفاظ مقدرہ یوں ہے ۔
*"ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ "*

یعنی ہمارے خالص اور کامل بندے بجز صحابہ کرام ؓ کے اور بھی ہیں۔ جن کا گروہ کثیر آخری زمانہ میں پیدا ہوگا ۔ اور جیسے نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام ؓ کی تربیت فرمائی۔ اسی طرح آنحضرتﷺ اس گروہ کی بھی باطنی طور پر تربیت فرمائیں گے۔
*(آیئنہ کمالات اسلام صفحہ 208٬209 مندرجہ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 208،209)*
مرزاقادیانی کی اس تحریر سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہویئں۔
1۔ اخیر زمانہ میں ایک گروہ کثیر پیدا ہوگا۔
2۔ وہ گروہ خالص اور کامل بندوں پر مشتمل ہوگا۔
3۔ اس گروہ کی باطنی طور پر تربیت خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے ۔
لیجئے مرزاقادیانی کی تحریر کے مطابق بھی آخرین کی تربیت خود حضورﷺ فرمائیں گے ۔
نہ کہ کوئی ایسا شخص جو قادیان میں پیدا ہو اور خود کو نبی اور رسول کہتا ہو۔

خلاصہ =
پس ثابت ہوا کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ حضورﷺ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے نبی ہیں۔ اب نہ کسی نئے نبی کی ضرورت ہے اور نہ گنجائش ۔
*"آیت نمبر 2"*
قادیانی قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے تمام انبیاء کرامؑ سے اور خود رسول اللہﷺ سے یہ عہد لیا تھا کہ سب انبیاء اور رسولوں کے بعد ایک رسول آئے گا ۔ اور تمام انبیاء کرامؑ کی زندگی میں اگر وہ رسول آگیا تو تمام انبیاء کرامؑ کو اس کی تصدیق اور مدد کرنی پڑے گی ۔ قادیانی کہتے ہیں کہ جس رسول کے آنے کی بات اس آیت میں ہورہی ہے اس سے مراد نعوذ باللہ مرزاقادیانی ہے۔
آیئے پہلے آیات اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا علمی رد کرتے ہیں۔

*وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَخَذۡتُمۡ عَلٰی ذٰلِکُمۡ اِصۡرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ؕ قَالَ فَاشۡہَدُوۡا وَ اَنَا مَعَکُمۡ مِّنَ الشّٰہِدِیۡنَ۔*
اور جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں ، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس ( کتاب ) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے ، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے ، اور ضرور اس کی مدد کرو گے ۔ اللہ نے (ان پیغمبروں سے) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے کہا : تو پھر (ایک دوسرے کے اقرار کے) گواہ بن جاؤ ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں ۔
*(سورۃ آل عمران آیت نمبر 81)*
اس کے علاوہ درج ذیل آیت بھی ہے۔
*"وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیۡثَاقَہُمۡ وَ مِنۡکَ وَ مِنۡ نُّوۡحٍ وَّ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ ۪ وَ اَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا ۙ "*
اور (اے پیغمبر) وہ وقت یاد رکھو جب ہم نے تمام نبیوں سے عہد لیا تھا اور تم سے بھی ، اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم سے بھی ۔ اور ہم نے ان سے نہایت پختہ عہد لیا تھا ۔
*(سورۃ الاحزاب آیت نمبر 7)*
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

*جواب نمبر 1*
اس آیت کی تفسیر خود مرزاقادیانی نے لکھی ہے اور اس تفسیر میں مرزاقادیانی نے آنے والے رسول سے مراد حضورﷺ کو لیا ہے۔
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"اور یاد کرجب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں گا ۔ اور پھر تمہارے پاس آخری زمانے میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا ۔ تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا۔ اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔۔۔
اب ظاہر ہے کہ انبیاءؑ تو اپنے اپنے وقت پر فوت ہوگئے تھے۔ یہ حکم ہر نبیؑ کی امت کے لئے ہے۔ کہ جب وہ رسول ظاہر ہوتو اس پر ایمان لاو۔ اب بتایئں میاں عبد الحکیم خان نیم ملا خطرہ ایمان! کہ اگر صرف توحید خشک سے نجات ہوسکتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ ایسے لوگوں سے کیوں مؤاخذہ کرے گا جو گو آنحضرتﷺ پر ایمان نہیں لاتے مگر توحید باری تعالیٰ کے قائل ہیں۔
*(حقیقة الوحی صفحہ 130٬131 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 133،134)*
جب خود مرزاقادیانی نے اس آیت کی تفسیر میں آنے والے نبی سے مراد "محمدﷺ" کو لیا ہے۔ تو پھر قادیانیوں کی تاویل تو خود ہی باطل ہوجاتی ہے۔

*جواب نمبر 2*

مرزا صاحب سے پہلے کے تمام مفسرین کرام نے اس آیت میں "ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ" سے مراد حضورﷺ کی ذات اقدس کو لیا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے اس آیت کی تفسیر یوں کی ہے۔

"مابعث اللہ نبیا من الانبیاء الا اخذ علیہ المیثاق لئن بعث اللہ محمدا وھو حئ لیئومنن بہ ولینصرنہ وآصرہ ان یاخذ المیثاق علی امتہ لئن بعث محمد وھم احیاء لیئومنن بہ ولینصرنہ"
اللہ تعالٰی نے جس نبیؑ کو بھی مبعوث فرمایا اس سے یہ عہد لیا کہ اگر تمہاری زندگی میں اللہ تعالٰی نے نبی کریمﷺ کو مبعوث کیا تو ان پر ضرور ایمان لایئں اور ان کی مدد کریں ۔ اس طرح اللہ نے ہر اس نبیؑ کو حکم دیا کہ آپ اپنی امت سے پختہ عہد لیں۔ کہ اگر اس امت کے ہوتے ہوئے وہ نبی(آخرالزماںﷺ) تشریف لے آئیں تو وہ امت ضرور ان پر ایمان لائے اور ان کی مدد کرے۔
*(تفسیر ابن کثیر صفحہ 177 ،جامع البیان صفحہ 55)*

*جواب نمبر 3*
قادیانی کہتے ہیں کہ اس آیت میں رسول کا لفظ نکرہ ہے۔ تو اس سے کیسے معرفہ مراد ہوسکتی ہے؟؟اسکا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے خود نکرہ کو معرفہ بناکر اس کی تخصیص کردی ہے۔
اس کے علاوہ درج ذیل آیات میں بھی رسول کا لفظ نکرہ ہے ۔
*1۔ ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا
(الجمعہ آیت نمبر 4)*
*2۔ رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا (البقرۃ آیت نمبر 129)*
*3۔ لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ (التوبہ آیت 128)*
اگر ان آیات میں نکرہ میں تخصیص کرکے رسول کو معرفہ بنایا جاسکتا ہے تو ہماری زیر بحث آیت میں رسول کو معرفہ کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟؟
*"خلاصہ کلام"*

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہماری زیر بحث آیت میں جس نبی کے آنے کے بارے میں تمام انبیاء کرامؑ سے وعدہ لیا جارہا ہے۔ وہ نبی حضرت محمد مصطفیﷺ ہیں۔
اس بات کو 14 صدیوں کے تمام مفسرین کرام نے بیان کیا ہے۔ اور خود مرزاقادیانی نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ قادیانیوں کی تاویل باطل ہے۔

*"آیت نمبر 3"*

قادیانی اجرائے نبوت کے موضوع پر قرآن مجید کی ایک اور آیت پیش کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ اس آیت میں ذکر ہے کہ ایمان والوں کی ایک نشانی بیان ہوئی ہے کہ وہ حضورﷺ کے بعد آنے والے نبی پر ایمان رکھتے ہیں۔ پس پتہ چلا کہ حضورﷺ کے بعد بھی نبی آسکتے ہیں۔
آیئے پہلے آیت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں اور پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا علمی رد کرتے ہیں۔

"آیت"
*"ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ "*
"ترجمہ "
"اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں"

*جواب نمبر 1*

اس آیت میں حضورﷺ کے بعد کسی نئے نبی پر ایمان لانے کا بیان نہیں ہورہا بلکہ قیامت کے دن پر ایمان لانے کا بیان ہورہا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کی اگر اس آیت کی تفسیر القرآن بالقرآن کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قیامت کے دن پر ایمان کو اس آیت میں بیان کیا جارہا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل آیت ہماری زیر بحث آیت کی تفسیر القرآن بالقرآن ہے۔
*"وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ"*
"اور حقیقت یہ ہے کہ دار آخرت ہی اصل زندگی ہے"
اس آیت سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ آخرت سے مراد قیامت اور قیامت کے بعد کی زندگی ہے۔

*جواب نمبر 2*

قرآن پاک میں 50 سے زائد مرتبہ آخرت کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ہرجگہ آخرت کے لفظ سے قیامت اور قیامت کے بعد کی زندگی مراد ہے۔ لہذا قرآن کے اسلوب کے مطابق ہماری زیر بحث آیت میں بھی قیامت اور قیامت کے بعد یعنی آخرت کی زندگی مراد ہے۔

*جواب نمبر 3*

اس آیت سے مرزاقادیانی نے بھی آخرت کی زندگی مراد لی ہے۔
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ

"طالب نجات وہ ہے جو خاتم النبیین پیغمبر آخرالزمانﷺ پر جو کچھ اتارا گیا اس پر ایمان لائے۔ *وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ۔* اور طالب نجات وہ ہے جو پچھلی آنے والی گھڑی یعنی قیامت پر یقین رکھے اور جزا اور سزا کو مانتا ہو"
*(تفسیرمرزا غلام احمد قادیانی جلد 2 صفحہ 75، الحکم 10 اکتوبر 1904ء)*
مندرجہ بالا حوالے میں مرزاقادیانی نے خود تسلیم کیا ہے کہ آخرت سے مراد قیامت اور قیامت کے بعد کی زندگی ہے۔ لہذا قادیانیوں کا باطل استدلال ان کے گرو مرزاقادیانی کے نزدیک بھی باطل ہے۔

*جواب نمبر 4*

قادیانیوں کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین نے بھی آخرت سے مراد آخرت کی گھڑی لی ہے۔
*(البدر 4 فروری 1909ء)*

"خلاصہ کلام "
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قادیانیوں کا اس آیت سے کیا گیا استدلال خود مرزاقادیانی اور حکیم نورالدین کے نزدیک بھی باطل ہے اور آخرت سے مراد قیامت اور قیامت کے بعد کی زندگی ہے۔

*"آیت نمبر 4"*

*"ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمۡ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعۡمَۃً اَنۡعَمَہَا"*
"یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اللہ کا دستور یہ ہے کہ اس نے جو نعمت کسی قوم کو دی ہو۔"
*(سورۃ الانفال آیت نمبر 53)*
قادیانی اس آیت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبوت اللہ تعالٰی کی نعمت ہے ۔ اور امت محمدیہﷺ اس نبوت والی نعمت سے کیوں محروم ہوسکتی ہے۔
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

*جواب نمبر 1*
جس طرح نبوت اللہ تعالٰی کی نعمت ہے اسی طرح شریعت بھی اللہ تعالٰی کی نعمت ہے۔ پس اگر قادیانیوں کے نزدیک شریعت والی نعمت ختم ہوسکتی ہے تو بغیر شریعت کے نعمت کیوں ختم نہیں ہوسکتی۔
(یاد رہےقادیانی کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد شریعت والا نبی نہیں آسکتا)

*جواب نمبر 2*
اگر نبوت کو قادیانی نعمت سمجھتے ہیں تو پھر اس نعمت کو مرزاقادیانی کے بعد بھی جاری رہنا چاہیے تھا حالانکہ قادیانی مرزاقادیانی کے بعد نبوت کو بند سمجھتے ہیں۔ اگر قادیانیوں کے نزدیک نبوت نعمت ہے تو مرزاقادیانی کے بعد کیوں بند ہے؟

*جواب نمبر 3*
ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ نبوت کی تکمیل ہوچکی ہے ۔ جس طرح سورج کے نکلنے کے بعد کسی چراغ کی ضرورت نہیں رہتی اسی طرح حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد کسی بھی قسم کی نئی نبوت کی ضرورت نہیں ہے۔
چنانچہ قرآن مجید میں اسلام کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے۔
*"تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍۭ بِاِذۡنِ رَبِّہَا"*
"اپنے رب کے حکم سے وہ ہر آن پھل دیتا ہے"
*(سورۃ ابراہیم آیت نمبر 25)*
یعنی شجرہ اسلام قیامت تک سرسبز و شاداب اور فیضان رساں رہے گا۔ اسلام کا فیضان قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔
پس اللہ تعالٰی نے خود بتادیا کہ اسلام کا فیضان قیامت تک منقطع نہیں ہوگا تو اس اس سے نئے نبی کی گنجائش خودبخود ہی ختم ہوجاتی ہے۔

*"خلاصہ کلام"*
نبوت ایک نعمت ہے لیکن حضورﷺ کے تشریف لانے سے اس نعمت کی تکمیل ہوچکی ہے۔ اور حضورﷺ کی نبوت ایسی کامل نبوت ہے کہ اب تاقیامت حضورﷺ کی نبوت ہی چلے گی۔
 
آخری تدوین :

محمد عبداللہ امانت

رکن ختم نبوت فورم

*سبق نمبر 9 پارٹ (1)*


*"اجرائے نبوت پر6 احادیث کے بارے میں قادیانی شبہات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"*

*"حدیث نمبر 1"*

"قادیانیوں کا باطل استدلال "
قادیانی ابن ماجہ کی درج ذیل روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبوت جاری ہے اور حضورﷺ کے بعد قیامت تک نئے نبی آسکتے ہیں۔
آیئے پہلے حدیث اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر قادیانیوں کے باطل استدلال کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔

*عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ عَاشَ لَعَتَقَتْ أَخْوَالُهُ الْقِبْطُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا اسْتُرِقَّ قِبْطِيٌّ.*
ترجمہ

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہﷺ کے بیٹے ابراہیم ؓ کا انتقال ہو گیا، تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، اور فرمایا: جنت میں ان کے لیے ایک دایہ ہے، اور اگر وہ زندہ رہتے تو صدیق اور نبی ہوتے، اور ان کے ننہال کے قبطی آزاد ہو جاتے، اور کوئی بھی قبطی غلام نہ بنایا جاتا ۔
*(ابن ماجہ حدیث نمبر 1511، باب ما جاء فی الصلاۃ علی ابن رسول اللہﷺ)*

قادیانی اس روایت سے باطل استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر نبوت جاری نہ ہوتی ختم ہوچکی ہوتی تو حضورﷺ یہ کیوں فرماتے کہ اگر ابراہیم ؓ زندہ رہتے تو نبی ہوتے۔ آپﷺ کا اس طرح فرمانا ہمیں بتاتا ہے کہ نبوت جاری ہے اور نئے نبی آسکتے ہیں۔

قادیانیوں کے باطل استدلال کے جوابات

قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔

*جواب نمبر 1*
ابن ماجہ میں ہی ایک اور روایت موجود ہے جو اس روایت کی واضح تشریح کرتی ہے۔ وہ روایت درج ذیل ہے۔

*حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى:‏‏‏‏ رَأَيْتَ إِبْرَاهِيمَ ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ مَاتَ وَهُوَ صَغِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَكُونَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيٌّ لَعَاشَ ابْنُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ.*

ترجمہ
(روایت کرنے والے راوی اسماعیل کہتے ہیں کہ)میں نے عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے پوچھا: آپ نے رسول اللہﷺ کے صاحب زادے ابراہیم ؓ کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: ابراہیم ؓ بچپن ہی میں انتقال کر گئے، اور اگر نبی اکرمﷺ کے بعد کسی کا نبی ہونا مقدر ہوتا تو آپ کے بیٹے زندہ رہتے، لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
*(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1510، باب ما جاء فی الصلاۃ علی ابن رسول اللہﷺ)*
اس روایت سے پتہ چلا کہ حضورﷺ کے صاحبزادے اس لئے فوت ہوگئے کیونکہ نبوت جاری نہیں ہے ختم ہوگئی ہے۔
کیونکہ اگر وہ زندہ رہتے تو ان میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی ۔

*جواب نمبر 2*
اس روایت پر محدثین نے کلام کیا ہے اور اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس لئے قرآن کی نص اور صحیح روایات کے ہوتے ہوئے ایک ضعیف اور کمزور روایت کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔
چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں جہاں محدثین نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔

1۔ شیخ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ اس قول کے کیا معنی ہیں کیوں کہ یہ کہاں ہے کہ ہر نبی کا بیٹا نبی ہو۔ اس لئے کہ حضرت نوحؑ کے بیٹے نبی نہیں تھے۔
*(انجاح صفحہ 108)*
2۔ علامہ ابن حجرؒ نے فرمایا ہے کہ اس روایت کا راوی "ابوشیبہ ابراهیم بن عثمان" متروک الحدیث ہے۔
*(تقریب التہذیب صفحہ 25)*
3۔ امام نوویؒ نے تہذیب الاسماء میں لکھا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے۔ غیب کی باتوں پر جسارت ہے ۔ بڑی بےتکی بات ہے۔
*(موضوعات کبیر صفحہ 58)*
4۔ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں۔اس کی سند میں ابوشیبہ ابراهیم بن عثمان ہے جو ضعیف ہے۔
*(مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 677)*
5۔ امام ترمذیؒ کی رائے یہ ہے کہ یہ منکر الحدیث ہے۔
*(تہذیب التہذیب جلد 1 صفحہ 144،145)*

جواب نمبر 3
اگر یہ روایت صحیح بھی ہوتی اور اس کے راوی پر بھی جرح نہ ہوتی پھر بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر حضورﷺ کے بعد نبوت جاری ہوتی اور حضرت ابراہیم ؓ زندہ رہتے تو ان میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی۔ جس طرح حضرت عمر ؓ میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی لیکن وہ نبی نہیں تھے کیونکہ نبوت کا دروازہ بند ہے۔

*جواب نمبر 4*
اس روایت میں ایک حرف "لو" استعمال ہوا ہے۔ اور حرف "لو" وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں یہ معنی ہوکہ یہ کام نہیں ہوسکتا لیکن بطور مثال کے بیان کیا گیا ہو۔ جیسے قرآن پاک میں ارشاد ہے۔

*لَوۡ کَانَ فِیۡہِمَاۤ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعَرۡشِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ۔*
اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے ۔ لہذا عرش کا مالک اللہ ان باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں ۔
*(سورہ الانبیاء آیت نمبر 22)*
اس آیت میں حرف "لو" استعمال کرکے یہ بیان کیا گیا ہے اگر اللہ کے علاوہ کوئی اور الہ زمین و آسمان میں ہوتا تو زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ اب یہ تو یقینی بات ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور الہ نہیں لیکن حرف "لو" استعمال کر کے اس کو بطور مثال ذکر کیا گیا ہے۔

اسی طرح اس روایت میں بھی بطور مثال ذکر ہے کہ ویسے تو نبوت کا دروازہ بند ہے لیکن بالفرض اگر نبوت کا دروازہ کھلا ہوتا تو حضرت ابراہیم ؓ میں نبی بننے کی صلاحیت موجود تھی ۔

*"حدیث نمبر 2"*
قادیانی کہتے ہیں کہ:حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں:
’’ قولوا خاتم النبیین ولا تقولوا لانبی بعدہ"
"یہ تو کہو کہ حضورﷺ خاتم النبیین ہیں لیکن یہ نہ کہو کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔"
*(مجمع البحار صفحہ 85، تفسیر درمنثور جلد 12 صفحہ 64 طبع مصر)*

قادیانی کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک نبوت جاری تھی۔
"قادیانیوں کے باطل استدلال کے علمی تحقیقی جوابات "
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں۔

*جواب نمبر 1*
اماں عائشہ صدیقہ ؓ کے جس قول پر قادیانی اعتراض کرتے ہیں اسی طرح کا ایک قول حضرت مغیرہ ؓ سے بھی منقول ہے۔
قول اماں عائشہ صدیقہ ؓ اور قول حضرت مغیرہ ؓ کی دونوں مکمل عبارتیں بمع ترجمہ وتشریح ملاحظہ فرمائیں۔

*"وفے حدیث عیسیٰ انہ تقتل الخنزیر ویکسر الصلیب ویزید فے الحلال اے یزید فی حلال نفسہ بان یتزوج ویولد لہ وکان لم یتزوج قبل رفعہ الی السماء فزاد بعد الہبوط فی الحلال فہینذ یومن کل احد من اھل الکتب یتیقن بانہ بشروعن عائشہ قولوا انہ خاتم الانبیاء ولا تقولو الانبی بعدہ وھذا ناظر الی نزول عیسیٰ وھذا ایضالا ینافی حدیث لانبی بعدہ لانہ اراد لانبی ینسخ شرعہ۔*
*(تکلمہ مجمع البحار صفحہ 85)*

حضرت عیسیٰؑ کے قصہ میں ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نزول کے بعد خنزیر کو قتل کریں گے۔ اور صلیب کو توڑیں گے اور اپنے نفس کی حلال چیزوں میں اضافہ کریں گے یعنی نکاح کریں گے اور آپ کی اولاد ہوگی ۔ کیونکہ حضرت عیسیٰؑ نے آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے نکاح نہیں فرمایا تھا۔ آسمان سے اترنے کے بعد نکاح فرمائیں گے۔ (جو لوازم بشریت سے ہے) پس اس حال کو دیکھ کر ہر شخص اہل کتاب میں سے ان کی نبوت پر ایمان لے آئے گا اور اس بات کا یقین کرے گا کہ عیسیٰؑ بلاشبہ ایک بشر ہیں۔ خدا نہیں جیسا کہ نصاریٰ اب تک سمجھتے رہے۔ اور عائشہ صدیقہ ؓ سے جو یہ منقول ہے کہ وہ فرماتی تھیں کہ آپ ﷺ کو خاتم النبیین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ ان کا یہ ارشاد حضرت عیسیٰؑ کے نزول کو پیش نظر رکھ کر تھا۔ اور حضرت عیسیٰؑ کا دوبارہ دنیا میں آنا حدیث لانبی بعدی کے منافی نہیں کیونکہ حضرت عیسیٰؑ نزول کے بعد حضور ﷺ ہی کی شریعت کے متبع ہوں گے۔ اور لانبی بعدی کی مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا نبی نہ آئے گا جو آپ کی شریعت کا ناسخ ہو۔

اور اسی قسم کا قول حضرت مغیرہ ابن شعبہ ؓسے منقول ہے:
"عن الشعبی قال قال رجل عند المغیرۃ بن شعبۃ صلی اﷲ علی محمد خاتم الانبیاء لانبی بعدہ فقال المغیرہ بن شعبۃ حسبک اذا قلت خاتم الانبیاء فانا کنا نحدث ان عیسیٰ علیہ السلام خارج ھو خرج فقد کان قبلہ وبعدہ"۰
*(تفسیر درمنثور جلد 12 صفحہ 64 طبع مصر)*

شعبی ؒ سے منقول ہے کہ ایک شخص نے حضرت مغیرہ ؓ کے سامنے یہ کہا کہ ﷲ تعالیٰ رحمت نازل کرے محمد ﷺ پر جو خاتم الانبیاء ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔ حضرت مغیرہ ؓ نے فرمایا خاتم الانبیاء کہہ دنیا کافی ہے۔ یعنی لانبی بعدہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہم کو یہ حدیث پہنچی ہے کہ عیسیٰؑ پھر تشریف لائیں گے۔ پس جب وہ آئیں گے تو ایک ان کا آنا محمدﷺ سے پہلے ہوا اور ایک آنامحمد ﷺ کے بعد ہوگا۔
پس جس طرح مغیرہ ؓ ختم نبوت کے قائل ہیں مگر محض عقیدہ نزول عیسیٰ بن مریمؑ کی حفاظت کے لئے لانبی بعدی کہنے سے منع فرمایا اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ختم نبوت کے عقیدہ کو تو خاتم النبیین کے لفظ سے ظاہر فرمایا اور اس موہم لفظ کے استعمال سے منع فرمایا کہ جس لفظ سے عیسیٰؑ کے نزول کے خلاف کا ابہام ہوتا تھا۔ ورنہ حاشایہ مطلب ہر گز نہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضور ﷺ کے بعد کسی قسم کی نبوت کو جائز کہتی ہیں۔

*جواب نمبر 2*
رحمت دو عالم ﷺ فرماتے ہیں : ’’ انا خاتم النبیین لانبی بعدی۰‘‘ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا قول:’’ ولا تقولوا لانبی بعدہ۰‘‘ یہ صریحاً اس فرمان نبوی ﷺ کے مخالف ہے۔
قول صحابہ ؓ وقول نبویﷺ میں تعارض ہوجائے تو حدیث وفرمان نبوی کو ترجیح ہوگی۔ پھر لانبی بعدی حدیث شریف متعدد صحیح اسناد سے مذکور ہے۔ اور قول عائشہ صدیقہ ؓ ایک موضوع اور بے سند قول ہے۔ صحیح حدیث کے مقابلہ میں یہ کیسے قابل حجت ہوسکتا ہے؟

*جواب نمبر 3*
خود حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ایک صحیح روایت منقول ہے۔
*"لم یبق من النبوۃ بعدہ شیٔ الا مبشرات"*
"(حضورﷺ کے بعد ) اچھے خوابوں کے علاوہ نبوت میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہا"
*(کنزالعمال حدیث نمبر 41423)*
اس واضح فرمان کے بعد اس بے سند قول کو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف منسوب کرنے کا کوئی جواز باقی رہ جاتا ہے؟

*جواب نمبر 4*
قادیانی دجل ملاحظہ ہو کہ وہ اس قول کو جو مجمع البحار میں بغیر مرفوع متصل سند کے نقل کیا گیا ہے استدلال کرتے وقت بھی آدھا قول نقل کرتے ہیں۔ اس میں ہے ۔
*" ھذا ناظر الی نزول عیسیٰؑ علیہ السلام تکملہ "*
یعنی اماں عائشہ صدیقہ ؓ سیدنا عیسیؑ کے نزول کو ذہن میں رکھ کر یہ فرمارہی ہیں کہ سیدنا عیسیٰؑ نے بھی تشریف لانا ہے۔
(سیدنا عیسیؑ کا مقام نبوت باقی ہے۔ اور دور نبوت ختم ہوچکا ہے۔ اب وہ امتی اور خلیفہ کی حیثیت سے آیئں گے)
*(مجمع البحار صفحہ 85)*
اماں عائشہ صدیقہ ؓ کا مقصد یہی ہے کہ ان کے ذہن میں حضرت عیسیٰؑ کے نزول کا مسئلہ تھا۔ یہ نہ کہو کہ آپ ﷺ کے بعد نبی کوئی نہیں(آئے گا) اس لئے کہ حضرت عیسیٰؑ کا نزول ہوگا۔ یہ کہو کہ آپ ﷺ خاتم النبیین یعنی آپ ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی بنایا نہیں جائے گا۔ اس لئے عیسیٰؑ وہ آپ ﷺ سے پہلے نبی بنائے جا چکے ہیں۔

*جواب نمبر 5*
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے اس قول کے محدثین نے بہت سے مطلب بیان کئے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
*"پہلا معنی"*

اس قول میں بعدہ خبر کے مقام پرآیا ہے۔ اور خبر افعال عامہ یا افعال خاصہ سے مخدوف ہے۔ اس لئے اس کا پہلا معنی یہ ہوگا :’’ لانبی مبعوث بعدہ۰‘‘ حضورﷺ کے بعد کسی کو نبوت نہیں ملے گی۔ مرقات حاشیہ مشکوٰۃ شریف پر یہی ترجمہ مراد لیا گیا ہے جو صحیح ہے۔

*"دوسرا معنی"*

’’لانبی خارج بعدہ۰‘ حضورﷺ کے بعد کسی نبی کا ظہور نہیں ہوگا۔ یہ غلط ہے اس لئے کہ حضرت عیسیٰؑ نزول فرمائیں گے۔ حضرت مغیرہ ؓ نے ان معنوں سے : ’’ لاتقولوا لا نبی بعدہ۰‘‘ کی ممانعت فرمائی ہے۔ جو سوفیصد ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے۔

*"تیسرا معنی"*
’’ لانبی حیی بعدہ۰‘‘ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی زندہ نہیں۔ ان معنوں کوسامنے رکھ کرحضرت عائشہ ؓنے: ’’ لاتقولوا لانبی بعدہ۰‘‘ فرمایا۔ اس لئے کہ خود ان سے حضرت عیسیٰؑ کے نزول کی روایات منقول ہیں۔

*جواب نمبر 6*
مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ
"دوسری کتب حدیث (بخاری ومسلم کے علاوہ)صرف اس صورت میں قبول کے لائق ہوں گے کہ قرآن اور بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث سے مخالف نہ ہوں۔"
*(آریہ دھرم صفحہ 54 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 60)*
جب صحیحین کے مخالف مرزا کے نزدیک کوئی حدیث کی کتاب قابل قبول نہیں تو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف منسوب بے سند قول صحیحین کے مخالف قابل قبول ہوگا؟
نیز مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
’’ حدیث لانبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا۔‘‘
*(کتاب البریہ صفحہ 184 مندرجہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 217)*
کیا یہ ممکن ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ایسی مشہور وصحیح حدیث کے مخالف یہ قول ارشاد فرمایا ہو؟
 

محمد عبداللہ امانت

رکن ختم نبوت فورم
*سبق نمبر 9 پارٹ (2)*

*جواب نمبر 7*
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا یہ قول اگر صحیح ہوتا توبھی مرزائیت کے منہ پر جوتا تھا۔ اس لئے کہ بخاری شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ہی روایت ہے کہ
*عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ ""سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَدْرِ أَمِنَ الْبَيْتِ؟،‏‏‏‏ هُوَ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَمَا لَهُمْ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِي الْبَيْتِ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمُ النَّفَقَةُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَعَلَ ذَلِكَ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِالْجَاهِلِيَّةِ فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ أَنْ أُدْخِلَ الْجَدْرَ فِي الْبَيْتِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ أُلْصِقَ بَابَهُ بِالْأَرْضِ"".*
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کیا حطیم بھی بیت اللہ میں داخل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں، پھر میں نے پوچھا کہ پھر لوگوں نے اسے کعبے میں کیوں نہیں شامل کیا؟ آپﷺ نے جواب دیا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی پڑ گئی تھی۔ پھر میں نے پوچھا کہ یہ دروازہ کیوں اونچا بنایا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ بھی تمہاری قوم ہی نے کیا تاکہ جسے چاہیں اندر آنے دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم کی جاہلیت کا زمانہ تازہ تازہ نہ ہوتا اور مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دل بگڑ جائیں گے تو اس حطیم کو بھی میں کعبہ میں شامل کر دیتا اور کعبہ کا دروازہ زمین کے برابر کر دیتا۔
*(بخاری حدیث نمبر 1584 ، باب فضل مکة وبنیانھا)*
آپ ﷺ نے فرمایا کہ قوم تازہ تازہ ایمان لائی ہے ورنہ میں بیت ﷲ کو توڑ کر اس کے دو دروازے کردیتا۔ ایک سے لوگ داخل ہوتے دوسرے سے نکل جاتے۔
یہ روایت حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے بخاری میں موجود ہے۔ کوئی شخص لانبی بعدی کی روایت سے قادیانی دجالوں کی طرح حضرت عیسیٰؑ کی آمد کا انکار نہ کردے۔ اس لئے فرمایا کہ یہ نہ کہو کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔

*جواب نمبر 8*
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف اس قول کی نسبت صریحاً بے اصل وبے سند ہے۔ دنیا کی کسی کتاب میں اس کی متصل مرفوع سند مذکور نہیں۔ ایک بے سند قول سے نصوص قطعیہ اور احادیث متواترہ کے خلاف استدلال کرنا صرف قادیانی دجل وفریب ہے۔

*جواب نمبر 9*
اماں عائشہ صدیقہ ؓ سے منسوب اس قول کی تفصیلی تحقیق ملاحظہ فرمائیں ۔

معزز قارئین! اللہ کے آخری نبی محمدﷺ کی مرفوع ، متصل اور صحیح احادیث مختلف کتب احادیث میں ماجود ہیں جنکے اندر آپﷺ نے فرمایا کہ " لانبی بعدی " میرے بعد کوئی نبی نہیں ،

*(یہ الفاظ آنحضرتﷺ سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے صحیح بخاری حدیث نمبر 3455 ، صحیح مسلم حدیث نمبر 1842 میں ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے صحیح مسلم حدیث نمبر 2404 میں اور حضرت ثوبان بن بجداد ؓ رضی اللہ عنہ نے سنن ترمذی حدیث نمبر 2219 ، سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4252 اور مستدرک حاکم میں حدیث نمبر 8390 میں صحیح اسناد کے ساتھہ بیان کی)*

جب خود نبی کریمﷺ نے یہ الفاظ فرمائے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کے بعد کوئی کہے کہ " لانبی بعدی " نہ کہو ؟ اور کیا آنحضرتﷺ کے واضح اور صریح الفاظ کے بعد کسی صحابی کی طرف منسوب علم اصول احادیث کی رو قابل قبول رہ جاتی ہے ؟؟ جس میں کسی صحابی کا اپنا قول فرمان رسول اللہﷺ سے ٹکراتا ہو ؟؟ ہرگز نہیں

بلکہ اصول حدیث ہے کہ آنحضرتﷺ کی مرفوع متصل صحیح حدیث کے مقابلے میں اگر کسی صحابی کا اپنا قول چاہے بظاہر متصل اور صحیح سند کے ساتھہ بھی ملے تو حدیث رسول اللہﷺ کے آگے اسے قبول نہیں کیا جائے گا . چہ جائیکہ وہ قول غیر مستند ہو۔
مرزائی دھوکے باز اور شعبدہ باز ہمیشہ دجل وفریب دیتے رہتے ہیں ، انہیں وہ احادیث نبویہ نظر نہیں آتی یا وہ دیکھنا نہیں چاہتے جنکے اندر خود خاتم الانبیاء نے فرمایا *"لانبی بعدی"* انہیں اگر کسی کتاب سے غیر مستند بات نظر آجائے جو کسی صحابی کی طرف منسوب ہو تو وہ اس کو اچھال اچھال کر دھوکے دیں گے ۔
ایسا ہی ایک دھوکہ یہ دیا جاتا ہے کہ "امام جلال الدین سیوطیؒ نے تفسیر درمنشور میں ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ اپ نے فرمایا صرف یہ کہا کرو کہ آنحضرتﷺ خاتم النبیین ہیں اور یہ مت کہا کرو کے *"لانبی بعدی"* یعنی اپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔"
اگرچہ امام سیوطیؒ نے اسی جگہ اس سے پہلے متعدد مستند اور صحیح روایات لکھی ہیں جو مرزائی عقیدہ کا پاش پاش کرتی ہیں ، نیز حضرت عائشہ ؓ کی طرف منسوب اس قول کے بعد وہیں امام سیوطیؒ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کا قول بھی ذکر کیا ہے جسکے اندر اس بات کی وضاحت ہے کہ لانبی بعدی کیوں نہ کہا کرو وہ اس وجہ سے تھا کہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ حضرت عیسیٰؑ نے دوبارہ نہیں آنا ، لیکن مرزائی اس روایت کا ذکر نہیں کریں گے۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب یہ قول سند اور علم اصول حدیث کے مطابق صحیح ہے؟
تفسیر درمنشور میں امام سیوطیؒ نے خود تو اس روایت کی کوئی سند نہیں بیان کی ، وہاں مصنف ابن ابی شیبہ کا حوالہ دیا ہے ، جب ہم نے مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف رجوع کیا تو وہاں اس کتاب کے مختلف نسخوں اور اڈیشنوں میں اس روایت کی سند مختلف ہے ، پرانے زمانے کے نسخوں میں اس روایت کی سند میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کرنے والے راوی کا نام "جریر بن حازم" ہے یعنی جریر بن حازم اور حضرت عائشہ ؓ کے درمیان کوئی اور راوی نہیں ہے،
بعد میں کچھ نسخوں میں اس روایت کی سند میں" جریر بن حازم" اور حضرت عائشہ ؓ رضی اللہ عنہا کے درمیان مزید راوی "محمد" کا اضافہ ہے (جس سے مراد مشہور تابعی محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ ہے)

مصنف ابن ابی شیبہ کے جن ایڈیشنوں میں راوی جریر بن حازم اور حضرت عائشہ ؓ کے علاوہ کوئی اور راوی نہیں ہے وہاں یہ روایت منقطع ٹھہرتی ہے .کیونکہ" یہ جریر بن حازم تقریباً 90 ہجری میں پیدا ہوۓ"
*(بحوالہ تہذیب التہذیب جلد 1 ص 295 )*
اور "حضرت عائشہ ؓ کی وفات تقریباً 58 ہجری میں ہو چکی تھی۔"
اس طرح جریر بن حازم تو پیدا ہی حضرت عائشہ ؓ کی وفات کے تقریباً 30 سال بعد ہوۓ ،
لہذا ایسا ممکن ہی نہیں کہ انہوں نے یہ روایت حضرت عائشہ ؓ سے سنی ہو. اسی وجہ سے یہ روایت نہ قابل اعتبار ہے.
مصنف ابن ابی شیبہ کے دوسرے نسخوں میں جن میں جریر بن حازم کے بعد ایک راوی " محمد " کا ذکر ہے اس سے مراد تابعی محمد بن سرینؒ رحمتہ اللہ علیہ ہیں ،
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ محمد بن سرین کی بھی ملاقات بھی حضرت عائشہ ؓ سے ثابت نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی حدیث حضرت عائشہ ؓ سے سنی ہے ، مشہور امام جرح وتعدیل ابن ابی حاتم لکھتے ہیں "ابن سیرین لم یسمع من عائشة شیئاََ" ابن سرین نے حضرت عائشہ ؓ سے کچھ نہیں سنا۔
*(کتاب المراسیل لابن ابی حاتم صفحہ 188)*
یہی بات حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے بھی نقل کی ہے
*(تہذیب التہذیب جلد 3 ص 587)*
اس طرح ثابت ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ کی طرف منسوب یہ روایت منقطع یا مرسل ہے اور اصول احادیث کی رو سے قابل اعتبار نہیں ، بلکہ مرفوع اور متصل احادیث کے ہوتے ہوۓ مردود اور ناقابل اعتماد ہے .
پھر مزے کی بات ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ خود آنحضرتﷺ سے روایت فرماتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

*" لایبقی بعدی من النبوة الا المبشرات ، قالو یا رسول اللہ وما المبشرات ؟ قال : الرؤیا الصالحة یراھا الرجل أو تری له "*
میرے بعد مبشرات کے علاوہ نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ، صحابہ ؓ نے عرض کی یا رسول اللہﷺ مبشرات کیا ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : نیک آدمی جو خواب دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتا ہے
*(مسند احمد حدیث نمبر 25490)*
ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے منسوب اس قول کی کوئی مرفوع متصل سند نہیں ہے اور ایک بے سند قول کو کیسے صحیح احادیث کے مقابلے میں قبول کیا جاسکتا ہے۔
اور دوسری بات یہ کہ بالفرض محال اگر اس قول کو صحیح بھی تسلیم کر لیں تو اماں عائشہ صدیقہ ؓ نے یہ بات اس لئے فرمائ ہے کیونکہ سیدنا عیسیؑ نے تشریف لانا ہے۔ اور ان کے آنے سے نبیوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوگا۔

*حدیث نمبر 3*
قادیانی ایک اور حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ
حضرت محمدﷺ نے مسجد نبوی کے بارے میں فرمایاکہ "مسجدی آخر المساجد" یعنی یہ مسجد آخری مسجد ہے۔
توظاہر ہے کہ اپکی مسجد کے بعد دنیا میں ہر روز مسجدیں بن رہی ہیں تو اپنے خاتم النبیین ہونے کا بھی یہی مطلب ہوگا کہ اپ کے بعد نبی بن سکتے ہیں۔


قادیانیوں کے اس باطل استدلال کا جواب ملاحظہ فرمائیں ۔



*جواب نمبر 1*
اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ سارے انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت مبارکہ تھی کہ وہ مسجد بناتے تھے ۔ اور جب حضورﷺ نے مسجد نبوی بنوائی تو ظاہر ہے کہ حضورﷺ کے بعد کسی نئے نبی نے نہیں آنا تھا اور انبیاء کرام علیہم السلام کی جو مسجد بنانے کی سنت تھی اس پر عمل نہیں ہونا تھا اس لئے حضورﷺ نے فرمایا کہ مسجد نبوی انبیاء کرام علیہم السلام کی آخری مسجد ہے۔
یہ حدیث تو ختم نبوت کی دلیل بنتی ہے نہ کہ اجرائے نبوت کی دلیل ہے۔


*جواب نمبر 2*

اس حدیث میں جہاں مسجدی آخر المساجد کے الفاظ آئے ہیں وہاں احادیث میں آخر مساجد الانبیاء کے الفاظ بھی آئے ہیں ۔
*(الترغیب والترہیب)*
اس کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ

*"قال رسول اللہﷺ انا خاتم الانبیاء ومسجدی خاتم مساجد الانبیاء"*
"رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں انبیاء کو ختم کرنے والا ہوں اور میری مسجد انبیاء کی مساجد کو ختم کرنے والی ہے۔"
*(کنزالعمال حدیث نمبر 34999،باب فضل الحرمین و مسجد اقصیٰ من الاکمال)*
لیجئے اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے بات بالکل واضح ہوگئی کہ اس روایت سے مراد یہی ہے کہ مسجد نبوی انبیاء کی آخری مسجد ہے۔

*"خلاصہ کلام"*
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس روایت سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ نبوت جاری ہے اور نئے نبی آسکتے ہیں۔ بلکہ اس روایت میں تو حضورﷺ نے اپنی ختم نبوت کو بیان فرمایا ہے کہ جس طرح میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔ اور میرے بعد نبیوں کی تعداد میں کسی ایک نبی کا بھی اضافہ نہیں ہوگا۔
اسی طرح میری مسجد بھی انبیاء کرام علیہم السلام کی مساجد کو ختم کرنے والی ہے۔ اب انبیاء کرام علیہم السلام کی بنوائی گئی مساجد میں بھی کسی ایک مسجد کا اضافہ نہیں ہوگا۔

*حدیث نمبر 4*
قادیانی ایک اور حدیث پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روایت میں حضورﷺ نے حضرت عباس ؓ کو خاتم المہاجرین فرمایا ہے۔
اور ہجرت تو تاقیامت جاری رہے گی ۔اسی طرح حضورﷺ نے اپنے آپ کو خاتم النبیین فرمایا ہے۔ اور نبوت بھی تاقیامت جاری رہے گی۔
سب سے پہلے حدیث اور اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔

*"اطمئن یا عم فانک خاتم المہاجرین فی الہجرۃ کما انا خاتم النبیین فی النبوۃ"*
(حضورﷺ نے فرمایا اے چچا آپ اطمینان رکھیں کیونکہ آپ مہاجرین کو ختم کرنے والے ہیں۔ جس طرح میں نبوت میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں)
اب اس باطل استدلال کے جوابات ملاحظہ فرمائیں ۔

*جواب نمبر 1*
سب سے پہلے حضورﷺ نے حضرت عباس ؓ سے جو الفاظ ارشاد فرمائے وہ ملاحظہ فرمائیں۔
*"اطمئن یا عم فانک خاتم المہاجرین فی الہجرۃ کما انا خاتم النبیین فی النبوۃ"*
حضورﷺ نے فرمایا اے چچا آپ اطمینان رکھیں کیونکہ آپ مہاجرین کو ختم کرنے والے ہیں۔ جس طرح میں نبوت میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔
اب اصل واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت عباس ؓ کو خاتم المھاجرین اس لئے کہا گیا تھا کیونکہ مکہ فتح ہونے سے پہلے وہ آخری مھاجر تھے جو مکہ مکرمہ سے ہجرت کر رہے تھے لیکن جب دیکھا کہ آپﷺ اپنی فوج کے ہمراہ مکہ فتح کرنے کے لئے تشریف لا رہے ہیں تو حضرت عباس ؓ نے افسوس ظاہر کیا کے میں ہجرت کی فضیلت سے محروم رہا۔
حضورﷺ نے حضرت عباس ؓ کو تسلی اور حصول ثواب کی بشارت دیتے ہوۓ فرمایا کہ آپ خاتم المھاجرین ہیں۔
اس لئے کے مکہ مکرمہ سے واقعی ہجرت کرنے والے آخری مهاجر حضرت عباس ؓ تھے ، مکہ مکرمہ حضرتﷺ کے ہاتھوں ایسا فتح ہوا جو قیامت کی صبح تک دارالسلام رہے گا تو مکہ مکرمہ سے آخری مہاجر حضرت عباس ؓ ہی ہوئے۔

*جواب نمبر 2*
ہجرت دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف کی جاتی ہے۔ اور مکہ مکرمہ قیامت تک دارالسلام رہے گا۔ مکہ مکرمہ سے قیامت تک ہجرت نہیں ہوگی۔
اس لئے حضرت عباس ؓ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے والے آخری مہاجر تھے۔ کیونکہ ان کے بعد قیامت تک مکہ مکرمہ سے کوئی ہجرت نہیں کرے گا۔ کیونکہ مکہ مکرمہ قیامت تک دارالاسلام رہے گا۔

*حدیث نمبر 5*

قادیانی ترمذی کی درج ذیل روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس روایت میں خواب کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دیا گیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ نبوت جاری ہے۔ اور نئے نبی بھی آسکتے ہیں۔
سب سے پہلے ترمذی کی روایت اور اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔

*عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ۔*
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:"مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔"
*(ترمذی حدیث نمبر 2271)*

*"قادیانیوں کے باطل استدلال کا جواب"*
قادیانیوں کے اس باطل استدلال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح دھاگے کو کپڑا نہیں کہ سکتے۔ جس طرح اینٹ کو مکان نہیں کہ سکتے۔ جس طرح آدمی کے کٹے ہوئے ناخن کو انسان نہیں کہ سکتے اسی طرح سچے خوابوں کو نبوت بھی نہیں کہ سکتے۔

*حدیث نمبر 6*
قادیانی مندرجہ ذیل حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد 30 جھوٹے دجال نبوت کا دعوی کریں گے ۔ اور اب 30 جھوٹے مدعیان نبوت کی تعداد پوری ہوچکی ہے۔ لہذا اب سچے انبیاء آیئں گے ۔
سب سے پہلے حدیث اور اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ۔

*عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ ثَلَاثُونَ دَجَّالُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ.*
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تیس دجال ظاہر نہ ہو جائیں، وہ سب یہی کہیں گے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔
*(ابوداؤد شریف حدیث نمبر 4333)*
*(ترمذی شریف حدیث نمبر 2218)*

قادیانیوں کے اس باطل استدلال کے بہت سے جوابات ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ۔


*جواب نمبر 1*
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"آنخضرتﷺ فرماتے ہیں کہ دنیا کے آخر تک قریب 30 کے دجال پیدا ہوں گے۔"
*(روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 197)*
یہاں مرزاقادیانی نے خود تسلیم کیا ہے کہ دنیا کے آخر تک ایسے جھوٹے دجال آیئں گے ۔ یعنی زمانے کی قید نہیں ہے کہ اس زمانے تک ایسے دجال آیئں گے اور اس زمانے کے بعد ایسے دجال نہیں آسکتے۔
مرزاقادیانی کی اس تحریر سے پتہ چلا کہ دجالوں کی تعداد پوری نہیں ہوئ بلکہ ابھی مزید ایسے جھوٹے دجالوں نے آنا ہے جو نبوت کا دعوی کریں گے۔

*جواب نمبر 2*
اس حدیث میں جن دجالوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ بڑے بڑے دجال ہیں جو نبوت کا دعوی کریں گے ۔ اور ان کا فتنہ کچھ دیر باقی رہے گا۔
جن کا فتنہ باقی نہیں رہا اور ان کا فتنہ تھوڑی دیر چلا ۔ ان کا ذکر نہیں ہے۔
اور نواب صدیق حسن صاحب نے لکھا ہے کہ
"آنخضرتﷺ نے جو اس امت میں تیس دجالوں کی آمد کی خبر دی تھی ۔ وہ پوری ہوکر 27 کی تعداد مکمل ہوچکی ہے۔"
*(حجج الکرامتہ)*
اب مرزاقادیانی کو بھی ان دجالوں میں شامل کر کے ایسے جھوٹے دجالوں کی تعداد 28 ہوچکی ہے۔

*"خلاصہ کلام"*
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس روایت سے نبوت کا جاری رہنا ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضورﷺ کے بعد بھی بہت سے لوگ جو جھوٹے ہوں گے وہ نبوت کا دعوی کریں گے ۔ حالانکہ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالٰی نے مجھ پر رسالت اور نبوت کو منقطع کر دیا ہے اب میرے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی رسول آئے گا۔
 
Top