• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

چاند اور سورج گرہن کا مشہورِ زمانہ مرزائی دھوکہ

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اس نشان کے پورا ہونے سے پہلے تو عام مسلمان اور علماء جیسا کہ اٹیچ مینٹس میں حوالے دیے تھے اسے نبی کریمؐ کے امام مہدی سے متعلق بیان کردہ ایک نشان اور علامت قرار دیتے تھے
کسی ایک اٹیچ مینٹ میں بھی اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب نہیں کیا گیا ۔
بفرض محال ایسا ہوا بھی ہوتا تو جب اصل روایت ہمارے سامنے موجود ہے اور اسکی سند بھی موجود ہے کہ جس کے مطابق یہ محمد بن علی ؒ کا قول ہے تو کسی کے کہنے کی کیا حیثیت رہ جاتی ۔
لیکن جبکہ یہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ مسیح موعود و مہدی موعود کی ذات میں پورا ہوگیا تو پھر اس کو نبی کریمؐ کی بات ماننے سے ہی انکار کردیا؟
یہ بھی آپ نے خوب کہی روایت کے اندر چاند کو رمضان کی پہلی رات میں گرہن لگنے کا ذکر ہے اور سورج کو نصف رمضان میں
کیا مرزا غلام احمد قادیانی کے دور میں ایسا ہوا تھا ؟؟ ہرگز نہیں
 

غلام مصطفی

رکن ختم نبوت فورم
اس وقت کے مسلمانوں کو جو اسے نبی کریمؐ کی حدیث کہتے تھے انہیں تو اس بات کا علم نہیں ہوا کہ یہ محض محمد بن علی کا قول ہے نبی کریمؐ کا نہیں۔اور وہ ہؤیوہی غلط طور پر اسے نبی کریمؐ کی طرف منسوب کرتے چلے گئے اور گناہ کے مرتکب ہوتے گئے اور یوں ہی جو نبی کریمؐ نے مہدی کے ظہور کا وقت بتا یا تھا اس وقت میں مہدی کے ظہور اور اس کی اس علامت کے ظہور کا انتظار کرتے رہے؟
یہ سب فضول باتیں معلوم ہوتی ہیں شاید آپ کو لیکن مسلمان اس بات کو بہت اہمیت دیتے رہے ہیں۔اور جب حضرت مرزا صا حب نے امام مہدی ہونے کا دعوی کیا تو اس وقت کے آپ کے مخالفین آپ سے اس نشان کا مطالبہ کرتے رہے۔کیا یہ سب فرضی باتیں تھیں جن پر مسلمانوں نے اپنی عمارت کھڑی کر رکھی تھی؟
دوسری بات یہ کہ خدا تعالیٰ نے کائنات کے قوانین قدرت بنا رکھے ہیں۔قوانین قدرت میں یہ بات داخل ہے کہ چاند کو پہلی رات میں اور سورج کو نصف مہینے میں گرہن نہیں لگا کرتا۔احادیث کے الفاظ پر غور کرنے اور قوانین قدرت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے اور معنے نہیں کئے جاسکتے سوائے اس کے کہ چاند کو اس کی گرہن کی تواریخ میں سے پہلی تاریخ کو اور سورج کو اس کے گرہن کی تواریخ میں سے درمیانی تاریخ کو گرہن لگے گا۔
چنانچہ عین چودھویں صدی کے سر پر چاند گرہن کیلئے مقرر تاریخوں (۱۳‘۱۴‘۱۵) میں سے پہلی رات یعنی تیرہ رمضان ؁۱۳۱۱ھ بمطابق ۲۳ مارچ ؁۱۸۹۴ء کو اور سورج گرہن کیلئے مقرر تاریخوں (۲۷‘۲۸‘۲۹) میں سے درمیانی تاریخ یعنی ۲۸ رمضان بمطابق ۶۔اپریل ؁۱۸۹۴ء کو گرہن لگا۔
 

غلام مصطفی

رکن ختم نبوت فورم
اس وقت کے مسلمانوں کو جو اسے نبی کریمؐ کی حدیث کہتے تھے انہیں تو اس بات کا علم نہیں ہوا کہ یہ محض محمد بن علی کا قول ہے نبی کریمؐ کا نہیں۔اور وہ ہؤیوہی غلط طور پر اسے نبی کریمؐ کی طرف منسوب کرتے چلے گئے اور گناہ کے مرتکب ہوتے گئے اور یوں ہی جو نبی کریمؐ نے مہدی کے ظہور کا وقت بتا یا تھا اس وقت میں مہدی کے ظہور اور اس کی اس علامت کے ظہور کا انتظار کرتے رہے؟
یہ سب فضول باتیں معلوم ہوتی ہیں شاید آپ کو لیکن مسلمان اس بات کو بہت اہمیت دیتے رہے ہیں۔اور جب حضرت مرزا صا حب نے امام مہدی ہونے کا دعوی کیا تو اس وقت کے آپ کے مخالفین آپ سے اس نشان کا مطالبہ کرتے رہے۔کیا یہ سب فرضی باتیں تھیں جن پر مسلمانوں نے اپنی عمارت کھڑی کر رکھی تھی؟
دوسری بات یہ کہ خدا تعالیٰ نے کائنات کے قوانین قدرت بنا رکھے ہیں۔قوانین قدرت میں یہ بات داخل ہے کہ چاند کو پہلی رات میں اور سورج کو نصف مہینے میں گرہن نہیں لگا کرتا۔احادیث کے الفاظ پر غور کرنے اور قوانین قدرت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے اور معنے نہیں کئے جاسکتے سوائے اس کے کہ چاند کو اس کی گرہن کی تواریخ میں سے پہلی تاریخ کو اور سورج کو اس کے گرہن کی تواریخ میں سے درمیانی تاریخ کو گرہن لگے گا۔
چنانچہ عین چودھویں صدی کے سر پر چاند گرہن کیلئے مقرر تاریخوں (۱۳‘۱۴‘۱۵) میں سے پہلی رات یعنی تیرہ رمضان ؁۱۳۱۱ھ بمطابق ۲۳ مارچ ؁۱۸۹۴ء کو اور سورج گرہن کیلئے مقرر تاریخوں (۲۷‘۲۸‘۲۹) میں سے درمیانی تاریخ یعنی ۲۸ رمضان بمطابق ۶۔اپریل ؁۱۸۹۴ء کو گرہن لگا۔
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اس وقت کے مسلمانوں کو جو اسے نبی کریمؐ کی حدیث کہتے تھے انہیں تو اس بات کا علم نہیں ہوا کہ یہ محض محمد بن علی کا قول ہے نبی کریمؐ کا نہیں۔اور وہ ہؤیوہی غلط طور پر اسے نبی کریمؐ کی طرف منسوب کرتے چلے گئے اور گناہ کے مرتکب ہوتے گئے
جناب ذرا ہمیں بھی تو ان مسلمانوں کے نام بتائیں جو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول کہتے تھے ؟؟؟؟
دوسری بات یہ کہ خدا تعالیٰ نے کائنات کے قوانین قدرت بنا رکھے ہیں۔قوانین قدرت میں یہ بات داخل ہے کہ چاند کو پہلی رات میں اور سورج کو نصف مہینے میں گرہن نہیں لگا کرتا۔احادیث کے الفاظ پر غور کرنے اور قوانین قدرت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے اور معنے نہیں کئے جاسکتے سوائے اس کے کہ چاند کو اس کی گرہن کی تواریخ میں سے پہلی تاریخ کو اور سورج کو اس کے گرہن کی تواریخ میں سے درمیانی تاریخ کو گرہن لگے گا۔
بفرض محال آپ کی اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ جہاں یہ روایت سند کے اعتبار سےناقابل قبول ہےوہیں متن کے اعتبار سے بھی ناقابل اعتبار ہے کیوں کہ اس میں ایسی نشانیاں بیان کی گئی ہیں جو قوانین قدرت کے خلاف ہیں ۔
 

غلام مصطفی

رکن ختم نبوت فورم
جو لوگ اب جبکہ یہ پیش گوئی حضرت مرزا صا حب کی ذات میں جو مسیح موعود و مہدی موعودؑ تھے پوری ہونے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ یہ نبی کریمؐ کے الفاظ نہیں ان کے لئے اٹیچ مینٹ میں حوالہ پیش ہے۔
 

شفیق احمد

رکن ختم نبوت فورم
یہ اوپر غلام مصطفی صاحب کی طرف سے ایک Attachment پیش کی گئی ہے کہ جس میں ایک شیعہ عالم باقر مجلسی نے امام باقر سے منسوب ایک بیان Quote کیا ہے کہ جس میں امام باقر رح نے فرمایا کہ میں جو روایت بیان کروں اس کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔۔۔۔۔ شیعہ عالم مجلسی نے امام باقر رح سے منسوب یہ قول بے حوالہ بیان کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ شیعہ مذہب میں مسلمانوں کی طرح علم حدیث پر کوئی Research نہیں اور شیعہ مذہب میں روایات اور احادیث کی تخریج یعنی جانچ پڑتال کیلئے کوئی مربوط نظام وضع نہیں کہ جس کی بناء پر شیعہ قوم اپنے اماموں سے منسوب روایات اور اقوال کو پرکھ سکیں۔۔۔۔۔۔ان خامیوں کی بناء پر بعد میں آنے والے شیعوں نے اپنے اماموں سے وابستہ من گھڑت اقوال کو احادیث نبوی میں Convert کرنے کیلئے منصوبہ سازی کی جس کا بین ثبوت باقر مجلسی کا امام باقر رح سے منسوب مذکورہ باطل قول کو اپنی کتاب میں لکھنا ہے۔۔۔۔۔!!

دوسری بات یہ کہ شاید غلام مصطفی صاحب کو معلوم نہیں کہ جھوٹے مہدی مرزا قادیانی شیعہ مذہب کو باطل یقین کرتے تھے۔۔۔۔جھوٹے نبی مرزا قادیانی لکھتے ہیں:
'' شیعہ مذھب اسلام کا مخالف ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔الخ " ( ملفوظات جلد 1 صفحات 96،97 )
مرزا قادیانی کے اس صریح فیصلے سے ثابت ہوا کہ مرزائی اگر شیعہ مذہب سے کچھ Quote کریں یا شیعہ مذہب کی کسی کتاب کا کوئی صفحہ منسلک کریں تو مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ مرزا قادیانی کے شیعہ مذہب کے بارے میں مذکورہ قول سے مرزائیوں کی خوب خبر لیں۔۔۔۔۔!!!

تیسری بات یہ کہ غلام مصطفی صاحب نے اوپر سلمان احمد صاحب سے بحث میں یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ سنہ 1894 کے کسوف و خسوف سے پہلے مسلمان علمائے اکرام اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ امام باقر سے منسوب کسوف و خسوف والی یہ روایت حدیث نبوی ہے اور جب جھوٹے مسیح مرزا قادیانی نے اس روایت کو خود پر لاگو کیا تو یہ علمائے اکرام مکر گئے۔۔۔۔۔جواب میں جب سلمان صاحب نے ان علماء کے نام پوچھے تو غلام مصطفی صاحب نے اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کیلئے ان علماء کے نام بتانے کی بجائے یہ Attachment پیش کر دی۔۔۔۔ایسے کھلے دھوکے اور فریب مرزائیوں کی نس نس میں سمائے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔اگرغلام مصطفی صاحب کا یہ خیال ہے کہ جھوٹے نبی مرزا قادیانی کے دور میں علمائے اکرام شیعوں کی اس کتاب سے حوالہ دیکھ کر اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ یہ قول امام باقر صریحا حدیث نبوی ہے تو یہ غلام مصطفی صاحب کی عقل کا فتور ہے کیونکہ کسی بھی دستاویز سے ثابت نہیں کہ کسی سنی یا اہلحدیث عالم نے شیعوں کی طرف سے اقوال کو احادیث میں Convert کرنے کے مذکورہ بالا باطل فارمولے کی As per attachment تصدیق کی ہو۔۔۔۔۔۔!!
 

غلام مصطفی

رکن ختم نبوت فورم
چاند اور سورج گرہن مہدی موعود کے ظہور کی علامات میں سے ہے کے ضمن میں چند ایک حوالہ جات پیش ہیں۔
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
اوپر بتایا جا چکا ہے کہ شیعہ عالم مجلسی نے امام باقر رح سے منسوب یہ قول بے حوالہ بیان کیا ہے۔ دوسرا جب یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ امام باقرؒ سے روایت کرنے والے راوی ہی کذاب ہیں تو امام باقرؒ سے یہ روایت ثابت ہی نہیں ہوتی ۔
لہذا باقر مجلسی کا بیان کردہ قول امام باقرؒ اگر صحیح بھی ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔
مولانا رفیع الدینؒ نے صرف رمضان میں چاند گرہن اور سورج گرہن کا ذکر کیا ہے یہ نہیں کہا کہ یہ قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
باقی رہا اشعار والا سکین تو ان کو یقنی طور پر غلطی لگی ہے وہ کوئی معصوم عن الخطا، نہیں تھے ۔۔۔ بہرحال آپ صرف ایک حوالہ پیش کر سکے وہ بھی کوئی مستند نہیں اور ہے بھی مرزا قادیانی کے دور کے قریب کا ۔
 

غلام مصطفی

رکن ختم نبوت فورم
علما ء نے کسی پیش گوئی کی سچائی کو جو نبی کریم ؐ کی طرف منسوب ہوتی ہے اس چیز کو قرار دیا ہے کہ وہ پیش گوئی ہو بہو پوری ہوجائے۔پیش گوئی پوری ہوگئی تو پھر کسی عالم یا مفسر یا شارع کا یہ کہنا کہ یہ ضعیف ہے کوئی وقعت نہیں رکھتا۔اس کے بر عکس ان تمام علما اور لوگوں کی اس سے تائید ہوتی ہے جو اسے نبی کریمؐ کی طرف سے بیان فرمودہ مہدی کی ایک علامت کے طور پر مانتے چلے آئے تھے۔
نشان کو دیکھ کر انکار کب تک پیش جائے گا ارے اک اور جھوٹوں پر قیامت آنے والی ہے
 

غلام مصطفی

رکن ختم نبوت فورم
علم مومن کی میراث ہے جہاں کہیں سے وہ اسے پاتا ہے اسے لے لیتا ہے۔(حدیث) خواہ وہ کسی شیعہ عالم نے پیش کی ہو یا کسی اورعالم نے اگر وہ اپنے اند سچائی اور نور کے موتی رکھتی ہو اور اسلام ہی کی کوئی سچائی بیان کرتی ہو اس سے آنکھیں پھیر لینا صرف اور صرف تعصب ہے اور کچھ نہیں۔
 
Top