• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

کذبات مرزا

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جھوٹ (۱۶۵)
”اکثر صوفی جو ہزار سے بھی کچھ زیادہ ہیں اپنے مکاشفات کے ذریعہ سے اس بات کی طرف گئے ہیں کہ مسیح موعود تیرھویں صدی میں یعنی ہزار ششم کے آخر میں پیدا ہو گا“(روحانی خزائن جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 286)

نور: مرزائیو! وہ اکثر صوفیاء کرام جن کی تعداد حسب شمار مرزا صاحب ہزار سے کچھ زیادہ ہیں ان کے اسماء گرامی کی تفصیل اور مکاشفات جن جن کتابوں میں درج ہیں ان کو منظر عام پر لاؤ اور ”کچھ زیادہ ہیں“ کا ابہام دور کرو۔
نہیں تو مرزا صاحب کے اس فرمان کو یاد رکھو کہ:

”خدا کے جھوٹوں پر نہ ایک دم کے لئے لعنت ہے بلکہ قیامت تک لعنت ہے“ (روحانی خزائن جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 48)

جھوٹ (۱۶۶)
”اسلام کی تکذیب اور ردّ میں اس تیرھویں صدی میں بیس کروڑ کے قریب کتاب اور رسالے تالیف ہو چکے ہیں“(روحانی خزائن جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 266)

نور: مرزا صاحب کا یہ قول بھی مبالغہ آمیزی و لاف زنی کی وجہ سے کذب و دروغ ہے ورنہ مرزائیوں کو چاہئے کہ واقعات کی روشنی میں اس کو سچ کر دکھائیں؟۔ اس سلسلہ میں مرزا صاحب کے چند ”پیغمبرانہ لطائف“ بھی سن لیجئے۔

۱)”اور جو کتابیں اسلام کے ردّ میں لکھی گئیں اگر وہ ایک جگہ اکٹھی کی جائیں تو کئی پہاڑوں کے موافق اُن کی ضخامت ہوتی ہے“(روحانی خزائن جلد ۲۳- چشمہ مَعرفت: صفحہ 327)

۲)”انصافاً بتلاؤ کہ....کیا اب تک اسلام کی ردّ میں دس کروڑ کے قریب کتاب نہیں لکھی گئی“(روحانی خزائن جلد ۱۴- اَیَّامُ الصُّلح: صفحہ 325)

۳)”اور وہ بیجا حملے جن کتابوں اور رسالوں اور اخباروں میں کئے گئے تھے ان کی تعداد کی سات کروڑ تک نوبت پہنچ گئی تھی“(روحانی خزائن جلد ۱۴- اَیَّامُ الصُّلح: صفحہ 255)

۴)”خیال کرنے کا مقام ہے کہ جس قوم نے چھ کروڑ کتاب وساوس اور شبہات کے پھیلانے کے لئے اب تک تقسیم کر دی“(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 496تا497)

مرزائیو! مرزا صاحب کو اس فرمان کی روشنی میں دیکھو کہ:

”جھوٹا آدمی ایک گیند کی طرح گردش میں ہوتا ہے“(ترجمہ روحانی خزائن جلد ۸- نورالحقّ: صفحہ 137)

جھوٹ (۱۶۷)

”عیسائیوں کی طرف سے جہاں پچاس ہزار رسالے اور مذہبی پرچے نکلتے ہیں ہماری طرف سے بالالتزام ایک ہزار بھی ماہ بماہ نکل نہیں سکتا“(روحانی خزائن جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 83)

نور: عیسائیوں کے ان پچاس ہزار رسالوں اور مذہبی پرچوں کا ثبوت پیش کرو کہ کب اور کن جگہوں سے ماہانہ نکلتے ہیں؟۔

جھوٹ (۱۶۸)

”خدا نے مجھے وعدہ دیا کہ میں تمام خبیث مرضوں سے بھی تجھے بچاؤں گا“(روحانی خزائن جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 44)

نور: واقعہ یہ ہے کہ مرزا صاحب نے باقرار خود دوران سر، مراق، خلل دماغ، ذیابیطس، سلس البول جیسے خبیث امراض میں مبتلا ہو کر خداوند تعالیٰ پر افتراء کیا اور جھوٹ بولے۔ قادیانیو! بتاؤ تمہارے ”نبی برحق“ اپنے اس ارشاد کی رو سے کون ہوئے کہ:

”ایسا آدمی جو ہر روز خدا پر جھوٹ بولتا ہے اور آپ ہی ایک بات تراشتا ہے.......ایسا بدذات انسان تو کُتّوں اور سؤروں اور بندروں سے بدتر ہوتا ہے“(روحانی خزائن جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 292)

اور اگر قادیانیت ان امراض کی خباثت سے انکار کرے، تو یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے ان بیماریوں کی پاکی و طہارت دلائل و حقائق کی روشنی سے ثابت کریں ورنہ بغیر اس کے مرزا صاحب کا دامن کذب و افتراء سے پاک نہیں ہو سکتا۔ ان امراض کے سلسلہ میں ملاحظہ فرمائیے: (روحانی خزائن جلد ۱۷- اربعین: صفحہ 471)، (اخبار بدر قادیان 7جون1906ء)، (منظور الٰہی صفحہ 348)۔

جھوٹ (۱۶۹)

”یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ کا دوبارہ دنیا میں آنا اجماعی عقیدہ ہے یہ سراسر افترا ہے“(روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 32)

نور: مرزا صاحب کا نزول مسیح کے ”اجماعی عقیدہ“ کو سراسر افتراء کہنا در حقیقت یہ شرمناک کذب و افتراء ہے۔ اس لیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع و نزول پر نہ صرف امت مسلمہ کا اجماع ہی ہے بلکہ اس بارہ میں احادیث نبویہ متواترہ ہیں۔

تفسیر بحر المحیط میں ہے:
وأجمعت الأمة على ما تضمنه الحديث المتواتر من أن عيسى عليه السلام في السماء حي، وأنه ينزل في آخر الزمان...الخ(تفسیر بحر المحیط جلد 2 صفحہ 473)

یعنی تمام امت کا اس پر اجماع ہو چکا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان میں زندہ موجود ہیں اور قیامت کے قریب نازل ہوں گے جیسا کہ حدیث متواتر سے معلوم ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ (تلخیض الحبیر صفحہ 319، فتح البیان جلد 2 صفحہ 344، الیواقیت والجواہر صفحہ 130، کتاب الابانہ عن اصول الدیانہ صفحہ 46، کتاب الاذاعہ صفحہ 77) میں جزوی الفاظ کے اختلاف کے ساتھ اجماع امت احادیث متواترہ کا ذکر ہے۔

جھوٹ (۱۷۰)

۱)”جیسے بت پوجنا شرک ہے ویسے جھوٹ بولنا شرک ہے“(الحکم 17؍اپریل 1905ء صفحہ 13)

۲)”تم جھوٹ نہ بولو کہ جھوٹ بھی ایک حصہ شرک ہے“(روحانی خزائن جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 28)

نور: جھوٹ کو شرک قرار دینا نہ صرف اسلامی و غیر اسلامی دنیا کے نزدیک ایک جھوٹ ہے بلکہ خود مرزا صاحب بھی اس کی تکذیب کرتے ہیں کیونکہ شرک کی تعریف میں فرماتے ہیں:

”خدا تعالیٰ کی ذات یا صفات یا اقوال و افعال یا اس کے استحقاق معبودیت میں کسی دوسرے کو شریکانہ دخل دینا گو مساوی طور پر یا کچھ کم درجہ پر ہو یہی شرک ہے“(روحانی خزائن جلد ۵- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 44)

ناظرین کرام! شرک کی اس تعریف کو پیش نظر رکھ کر فرمائیے قول مذکورہ گندہ جھوٹ ہے یا نہیں۔ مرزائیو! چونکہ تمہارے ”پیغمبر صاحب“ کذب و دروغ اور افتراء و اتہام کے ڈھالنے میں ہر وقت منہمک و مستغرق رہتے تھے اس لیے ”جھوٹ“ کی بھی جھوٹی تعریف کر گئے۔
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جھوٹ (۱۷۱)

”میں نے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا کہ میں مسیح بن مریم ہوں جو شخص یہ الزام میرے پر لگاوے وہ سراسر مفتری اور کذاّب ہے“(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 192)

نور: بیشک یہ تو صحیح ہے کہ آپ کو مسیح ابن مریم علیہ السلام کہنے والا سراسر مفتری اور کذاب ہے لیکن یہ بالکل جھوٹ ہے کہ آپ نے مسیح ابن مریم ہونے کا دعوی نہیں کیا۔ اس لیے کہ اسی کتاب (روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 122) میں تحریر ہے کہ ”وہ مسیح موعود میں ہی ہوں“۔

اور (روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 409) میں آپ کو یہ الہام ہوا ” جعلناک المسیح ابن مریم “ اور اس کی تشریح اس طرح سے کی ہے کہ:

”اس سلسلہ کا خاتم باعتبار نسبت تامہ(مرزا قادیانی) وہ مسیح عیسیٰ بن مریم ہے جو اس اُمّت کے لوگوں میں سے بحکم ربی مسیحی صفات سے رنگین ہو گیا ہے اور فرمان جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ نے اُس(مرزا قادیانی) کو درحقیقت وہی بنا دیا ہے “(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 463)

اسی کو حمامۃ البشری صفحہ 8 میں لکھ کر فرماتے ہیں

فہذا ہو الدعوی الذی یجادلنی قومی فیہ(روحانی خزائن جلد ۷- حَمامَۃُ البُشریٰ: صفحہ 184)

ترجمہ از جماعتِ قادیانیہ: ”پس یہ وہ دعویٰ ہے جس میں میری قوم مجھ سے جھگڑ رہی ہے“(حمامۃ البشری مع اردو ترجمہ صفحہ 36)

اور (روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 394) میں ابن مریم ہونے کا دعوی موجود ہے۔ بہر حال مرزا صاحب کا مسیح ابن مریم ہونے کا دعوی موجود ہے اس لیے آپ بقول خود بھی مفتری و کاذب ہوئے۔ فھو المراد

جھوٹ (۱۷۲)

”اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا اسی بات پر اجماع ہو گیا تھا کہ ابن صیّاد ہی دجّال معہود ہے“(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 211)

نور: مرزائیو! ابن صیاد کے دجال معہود ہونے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع معتبر و مستند اسلامی کتب سے ثابت کرو؟
ورنہ یاد رکھو کہ (بقول مرزا قادیانی) جھوٹ بولنا شرک ہے۔ اور :

”مشرک سرچشمہءِ نجات سے بے نصیب ہے“(روحانی خزائن جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 28)

جھوٹ (۱۷۳)

”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اعتقاد یہی تھا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو چکے ہیں“(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 225)

نور: مرزا جی کا یہ قول نہ صرف دروغ ہی ہے بلکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی پر ایک ناپاک اتہام و افتراء ہے۔ اس لیے کہ آپ صحیح و پختہ عقیدہ یہی تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود ہیں۔ جیسا کہ ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ [جو مرزا صاحب کے نزدیک بھی ”نہایت معتبر اور اَئمہ حدیث میں سے ہے“(روحانی خزائن جلد ۲۳- چشمہ مَعرفت: صفحہ 261)] بسند صحیح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مذہب، حیات مسیح کا نقل کرکے اس کی توثیق و تصدیق کی ہے۔ دیکھو(فتح الباری جلد 2 صفحہ؍315)، (ابن جریر جلد 3 صفحہ؍14)، (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ؍233)، (مرقات جلد 5 صفحہ؍221)، (عمدۃ القاری جلد 7 صفحہ؍452) اور (روح المعانی جلد 6 صفحہ؍56)۔

اور جس روایت سے مرزا صاحب نے آنکھ بند کر کے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ اعتقاد نکالا ہے وہ روایت ضعیف و منقطع ہے اس لیے حجت نہیں ہو سکتی۔ افسوس کہ مرزا صاحب کی خود غرضیوں نے ان کی علمیت کے پردہ کو بھی چاک کر دیا۔


جھوٹ (۱۷۴)

”فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پیارے خدا کی جناب میں وہ لوگ ہیں جو غریب ہیں۔ پوچھا گیا کہ غریب کے کیا معنی ہیں کہا وہ لوگ ہیں جو عیسیٰ مسیح کی طرح دین لے کر اپنے ملک سے بھاگتے ہیں(روحانی خزائن جلد ۱۵- مسیح ہندوستان میں: صفحہ 56)

نور: خط کشیدہ عبارت(یعنی کہا وہ لوگ ہیں جو عیسیٰ مسیح کی طرح دین لے کر اپنے ملک سے بھاگتے ہیں) دروغ آمیز فریب ہے یا فریب دہ دروغ۔ اس لیے کہ مرزا صاحب نے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے حدیث کے ان الفاظ(جن کو مرزا صاحب نے تحریر کیا ہے) غلط و من گھڑت ترجمہ کیا ہے۔

مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ ”عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے جس کے یہ لفظ ہیں۔ قال احب شیء الی اللّٰہ الغرباء قیل ای شیء الغرباء، قال الذین یفرّون بدینھم و یجتمعون الٰی عیسی ابن مریم (کنز العمال جلد 6 صفحہ 51)(روحانی خزائن جلد ۱۵- مسیح ہندوستان میں: صفحہ 56)

اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے ”حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ غربا ہیں، (یعنی وہ لوگ جنہیں دنیا والے اجنبی آنکھوں سے دیکھیں گے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا غربا کیا چیز ہیں؟ تو فرمایا غربا وہ لوگو ہیں جو اپنے دین کو بچاتے پھریں گے یہاں تک کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام سے جا ملیں گے“ اور عیسی علیہ السلام کے نزول کے بعد ظاہر ہے کہ دین اسلام مکمل طور پر غالب ہو جائے گا اور پوری دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا پھر وہ کیفیت نہ رہے گی۔ گویا یہ حدیث عیسیٰ علیہ السلام کے نزول پر دلیل ہے۔ اس میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس کا ترجمہ ”عیسیٰ مسیح کی طرح“ یا ”اپنے ملک سے بھاگتے“ کا کیا جائے۔ یہ صرف مرزا صاحب کا من گھڑت اور تلبیسی ترجمہ ہے۔

جھوٹ (۱۷۵)

”ہر ایک نبی کے لئے ہجرت مسنون ہے“(روحانی خزائن جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 106)

نور: بالکل جھوٹ ہے۔ اس لیے کہ اس کا ثبوت نہ قرآن مجید میں ملتا ہے اور نہ کسی صحیح حدیث میں۔ مرزائیو! یہ بتاؤ کہ تمہارے ”نبی جی“ نے بھی ہجرت کی تھی یا نہیں؟۔ یا ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہی ہوتے ہیں۔

جھوٹ (۱۷۶)

”اور ہر یک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت جو ظہور مسیح موعود کا وقت ہے کسی نے بجز اس عاجز کے دعویٰ نہیں کیا کہ میں مسیح موعود ہوں بلکہ اس مدّت تیرہ سو برس میں کبھی کسی مسلمان کی طرف سے ایسا دعویٰ نہیں ہوا کہ میں مسیح موعود ہوں“(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 468تا289)

نور: اس کے سفید جھوٹ ہونے کی خود مرزا صاحب بہ نفس نفیس شہادت دیتے ہیں کہ:

”شیخ محمد طاہر....صاحب مجمع البحار کے زمانہ میں بعض ناپاک طبع لوگوں نے محض افترا کے طور پر مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا“(روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 353)

اور بہا اللہ ایرانی نے 1269ھ میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ دیکھو(اخبار الحکم 24؍اکتوبر 1904ء صفحہ؍4)

جھوٹ (۱۷۷)

”اور یہ خدا کی عجیب قدرت ہے کہ ہر ایک مذہب کے فاضل طبیب نے کیا عیسائی اور کیا یہودی اور کیا مجوسی اور کیا مسلمان سب نے اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور سب نے اس نسخہ کے بارے میں یہی بیان کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ان کے حواریوں نے طیار کیا تھا“(روحانی خزائن جلد ۱۵- مسیح ہندوستان میں: صفحہ 57)

نور: مرزا صاحب کی یہ بات بھی کذب و دروغ کی عفونت سے آلودہ ہے۔ کیوں کہ یہ کسی نے نہیں لکھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے ان کے حواریوں نے اس نسخہ ”مرہم عیسیٰ“ کو تیار کیا تھا۔ سچے ہو تو دلیل لاؤ؟ ورنہ یاد رہے:

”دروغگوئی کی زندگی جیسی کوئی لعنتی زندگی نہیں“(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 380)

جھوٹ (۱۷۸)

”اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے“(روحانی خزائن جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 594)

”اس مسیح کو ابن مریم سے ہر یک پہلو سے تشبیہ دی گئی ہے“(روحانی خزائن جلد ۱۹- کشتی نوح: صفحہ 53)

نور: مرزا جی کو حضرت مسیح علیہ السلام سے کسی پہلو سے مشابہت نہیں تھی۔ دیکھو رسالہ ”مسیح موعود کی پہچان“ مرزائیو! اگر کچھ ہمت ہے تو اٹھو اور اپنے ”حضرت صاحب“ اور حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام میں ہر ایک پہلو سے مشابہت تامہ دکھلا کر مرزا جی کو راستباز ثابت کرو۔ ورنہ ہماری طرف سے وہی پرانا تحفہ پیش خدمت ہے کہ:

”جیسے بت پوجنا شرک ہے ویسے جھوٹ بولنا شرک ہے“(الحکم 17؍اپریل 1905ء صفحہ 13)

جھوٹ (۱۷۹)

” پہلے پچاس حصے(براہین احمدیہ کے) لکھنے کا ارادہ٭ تھا مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیا گیا اور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے اس لئے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہو گیا“(روحانی خزائن جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 9)

نور: مرزا صاحب کا پچاس حصوں کے وعدہ کو صرف پانچ حصوں پر اکتفا کر کے پورا کرنا حقیقت اور واقعیت سے دور ہونے کے باعث ایک مبالغہ آمیز دروغ ہے۔ اس لیے یہ معزز ہدیہ کہ: ”خدائے غیور کی لعنت اس شخص پر ہے جو مبالغہ آمیز باتوں سے جھوٹ بولتا ہے“(روحانی خزائن جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 181) ”عطائے تو بلقائے تو“ کہہ کر پیش خدمت کیا جا رہا ہے، قبول فرمائیے۔

جھوٹ (۱۸۰)

”مسیح اور اس عاجز کا مقام ایسا ہے کہ اس کو استعارہ کے طور پر ابنیت کے لفظ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ ایسا ہی یہ وہ مقام عالی شان مقام ہے کہ گذشتہ نبیوں نے استعارہ کے طور پر صاحب مقام ہذا(مرزا قادیانی) کے ظہور کو خدائے تعالیٰ کا ظہور قرار دے دیا اور اس کا آنا خدائے تعالیٰ کا آنا ٹھہرایا ہے“(روحانی خزائن جلد ۳- توضیحِ مرام: صفحہ 64)

نور: جن گذشتہ نبیوں نے استعارہ کے طور پر مرزا صاحب کا یہ بلند مرتبہ بیان فرمایا اور ٹھہرایا ہے ان کے اسمائے گرامی کے ساتھ یہ بتاؤ کہ یہ بیان و تقریر کن کن مستند اسلامی کتابوں میں موجود ہے؟۔

..............................................................................................................................................................................................................................................................................................................................
٭براہین احمدیہ پچاس جلدوں میں لکھنے کا ارادہ نہیں، وعدہ تھا جیسا کے اس کے بعد کے جملے ”وعدہ پورا ہو گیا“ سے پتہ چلتا ہے۔ نیز اس وعدہ کی ہی بنیاد پر لوگوں سے پیشگی رقم مرزا جی نے وصول کی تھیں۔ لہٰذا اپنی اس ”پیغمبرانہ“ خیانت کو ”ارادہ“ سے تعبیر کرنا جرم کو ہلکا کرنے کی کوشش ہے اور جھوٹ کے ساتھ سنگین جرم بھی ہے۔ ش
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جھوٹ (۱۸۱)

”مسلمانوں کے قدیم فرقوں کو ایک ایسے مہدی کی انتظار ہے جو فاطمہ مادر حسین کی اولاد میں سے ہو گا اور نیز ایسے مسیح کی بھی انتظار ہے جو اس مہدی سے مل کر مخالفانِ اسلام سے لڑائیاں کرے گا۔ مگر میں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ سب خیالات لغو اور باطل اور جھوٹ ہیں“(روحانی خزائن جلد ۱۴- کَشفُ الغِطَاء: صفحہ 193)

نور: بلکہ مرزا جی کے یہ خیالات لغو اور باطل اور جھوٹ ہیں۔ کیوں کہ علاوہ اس امر کے کہ وہ اسلامی شریعت کا ایک واضح و متفق علیہ مسئلہ ہے، دیکھو (ترمذی جلد 2 صفحہ 48)، (بذل المجہود جلد 5 صفحہ 102) خود مرزا صاحب ہی اپنی دروغگوئی پر مہر لگا رہے ہیں کہ:

(الف)” وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں....تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا۔ جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دی تھی۔ وہ مَیں ہی ہوں“(روحانی خزائن جلد ۲۰- تذکرۃ الشہادتین: صفحہ 3تا4)

(ب)” میں خدا سے وحی پا کر کہتا ہوں کہ میں بنی فارس میں سے ہوں۔ اور بموجب اس حدیث جو کنزالعمال میں درج ہے۔ بنی فارس بھی بنی اسرائیل اور اہل بیت میں سے ہیں اور حضرت فاطمہ نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں“(ضمیمہ حقیقۃ النبوۃ حصہ اول صفحہ 264)٭

جھوٹ (۱۸۲)

”اور سچ یہ ہے کہ بنی فاطمہ سے کوئی مہدی آنے والا نہیں اور ایسی تمام حدیثیں موضوع اور بے اصل اور بناوٹی ہیں“(روحانی خزائن جلد ۱۴- کَشفُ الغِطَاء: صفحہ 193)

نور: مرزا جی کی یہ ”سچی بات“ ایسی جھوٹی و بناوٹی بات ہے جس کی نظیر گذشتہ کاذبوں و مفتریوں کے کلام میں بھی نہیں ملتی۔ اس کے لیے دیکھیں (ترمذی جلد 2 صفحہ 48)، (بذل المجہود جلد 5 صفحہ 102) میں بسند صحیح حدیث نبوی موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنے ولا امام مہدی اولاد فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا اور عترت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہو گا۔ چنانچہ (روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 408) پر مرزا صاحب نے اس کی خود تصدیق کی ہے۔

جھوٹ (۱۸۳)

”خدا تعالیٰ کی کتابوں میں بہت تصریح سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ضرور طاعون پڑے گی“(روحانی خزائن جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 396)

جھوٹ (۱۸۴)

”بلاشبہ یہ امر تواتر کے درجہ پر پہنچ چکا ہے کہ مسیح موعود کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے وقت میں اور اس کی توجہ اور دُعا سے ملک میں طاعون پھیلے گی آسمان اس کے لئے چاند اور سُورج کو رمضان میں تاریک کرے گا“(روحانی خزائن جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 397)

جھوٹ (۱۸۵)

”غرض عام موتوں کا پڑنا مسیح موعود کی علامات خاصہ میں سے ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام گواہی دیتے آئے ہیں“(روحانی خزائن جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 397)

نور: خدا کی کتابوں اور تمام انبیاء علیہم السلام کی شہادتوں کو مستند اسلامی کتب سے اس طرح صراحت سے بیان کرو کہ جو شک کے حدود سے نکل کر یقین و تواتر کا درجہ حاصل کرے؟۔ نہیں تو یاد رکھو

”دروغگوئی کی زندگی جیسی کوئی لعنتی زندگی نہیں“(روحانی خزائن جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 380)

جھوٹ (۱۸۶)

”غرض تمام نبیوں کے نزدیک زمانہ یاجوج و ماجوج زمان الرجعت کہلاتا ہے یعنی رَجعت برُوزی“(حاشیہ روحانی خزائن جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 383)

نور: اس امر کا قطعی ثبوت اصول اسلام سے پیش کرو۔ ورنہ ”جھوٹ جو ایک نہایت پلید اور ناپاک چیز ہے“(روحانی خزائن جلد ۱۸- نزول المَسِیح: صفحہ 392) اس سے تمہارے ”اولوالعزم پیغمبر“ کی زبان آلودہ ہو رہی ہے۔

جھوٹ (۱۸۷)

”سو بلاشبہ قرآنی شہادت سے اب یہ(ان لمہدینا آیتین) حدیث مرفوع متصلؔ ہے“(روحانی خزائن جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 136)

نور: مرزا صاحب کی یہ عادت شریفہ تھی کہ جب کسی آیت یا حدیث یا کسی امام اور بزرگ کے بے بنیاد قول میں اپنے مطلب برآری کا کروڑواں حصہ یا اس سے بھی کمتر کی گنجائش دیکھتے ہیں، یا بہ خیال خود سمجھ لیتے ہیں تو بس اس پر غلط استدلال کی ملمع کاریوں و ناجائز تاویل کی رنگ آمیزیوں میں ایسے سرشار ہو کر مصروف ہوتے ہے کہ بنا بنایا کھیل بگڑ جاتا تھا۔ اور اس میں اپنی کچھ ایسی مسیحائی دکھلاتے ہیں کہ اپنی نبوت کا پول کھول جاتا تھا۔ مثلاً اسی ان لمھدینا آیتین کو بشہادت قرآنی مرفوع متصل کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ اسی کتاب کے اسی صفحہ میں اس کو غیر مرفوع مان چکے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ:
”اگرچہ بباعث کثرت اور کمال شہرت کے اس حدیث کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک رفع نہیں کیا گیا اور نہ اس کی ضرورت سمجھی گئی“(روحانی خزائن جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 136)
اس سے معلوم ہوا کے محدثین کے نزدیک یہ کوئی مرفوع حدیث نہیں۔ رہی بات یہ کہ راویوں نے مرفوع کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی، تو یہ مرزائی علت، مرزا صاحب کے مراقی و بیمار دماغ کی کاوش ہے نہ کہ مرفوع نہ کیے جانے کی کوئی معقول وجہ ۔اور حقیقت یہ ہے کہ ضعیف و موضوع درجہ میں یہ امام باقر کا قول ہے، لہٰذا مرفوع کرنے کا یا نہ کرنے کی بات کرنا ہی بے سود ہے۔
علاوہ ازیں یہ روایت اصول حدیث کے مطابق یہ روایت بالکل موضوع و ضعیف ہے کیوں کہ اس میں ایک راوی عمر بن شمر ہے اور دوسرا جابر جعفی ہے۔ دونوں کے متعلق فن رجال کے علماء فرماتے ہیں کہ یہ جھوٹے، منکر الحدیث، جھوٹی حدیثیں بنانے والے، متروک الحدیث، تبرائی، رافضی اور بھولکڑ ہیں۔ دیکھو (میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ 262)، (تہذیب التہذیب جلد 2 صفحہ 46 تا 50) ایسی روایت کو مرفوع متصل کہنا سراسر کذب و افتراء نہیں ہے تو اور کیا ہے؟۔

جھوٹ (۱۸۸)

”پس خدا تعالیٰ کی صفات قدیمہ کے لحاظ سے مخلوق کا وجود نوعی طور پر قدیم ماننا پڑتا ہے نہ شخصی طور پر یعنی مخلوق کی نوع قدیم سے چلی آتی ہے ایک نوع کے بعد دوسری نوع خدا پیدا کرتا چلا آیا ہے۔ سو اسی طرح ہم ایمان رکھتے ہیں اور یہی قرآن شریف نے ہمیں سکھایا ہے“(روحانی خزائن جلد ۲۳- چشمہ مَعرفت: صفحہ 169)

نور: مرزا صاحب اور ان کی امت کا آریوں کی طرح یہ عقیدہ ہے کہ خداوند تعالیٰ کے ساتھ عالم بھی قدیم ہے۔ خیر جب وہ اسلام سے علیحدہ ہو گئے تو اب ان کو اختیار ہے کہ وہ آریوں کے ہمنوا ہو جائیں، یا عیسائیوں کے۔ لیکن یہ کہنا کہ قرآن شریف یہی سکھاتا ہے سراسر کذب و افتراء ہے جس کے ثبوت سے مرزائیت عاجز و لاچار ہے۔

جھوٹ (۱۸۹)

”خدا کا کلام انسانی نحو سے ہر ایک جگہ موافق نہیں ہوتا ایسے الفاظ اور فقرات اور ضمائر جو انسانی نحو سے مخالف ہیں قرآن شریف میں بھی پائے جاتے ہیں“(روحانی خزائن جلد ۲۳- چشمہ مَعرفت: صفحہ331)

نور: قرآن شریف میں کوئی جملہ اور کوئی ضمیر صرف و نحو بلاغت و فصاحت کے اصول کے خلاف نہیں ہے ورنہ اہل عرب ایک منٹ کے لیے چین نہ لینے دیتے۔ مگر باوجود اشتعال انگیز چیلنجوں کے ان کا خاموش رہنا بلکہ اسکی اعجازی کیفیت کا اعتراف کرنا کلام اللہ کا صرف و نحو کے موافق ہونے کی کھلی دلیل ہے اور مرزا صاحب کے مجرمانہ کذب و افتراء کا بین ثبوت۔

جھوٹ (۱۹۰)

”پھر اس کے بعد تیرہ سو برس تک کبھی کسی مجتہد اور مقبول امام پیشوائے انام نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ حضرت مسیح زندہ ہیں“(روحانی خزائن جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 92)

نور: جب کہ تمام امت محمدیہ کا حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات پر اجماع ہو چکا ہے پھر اس کے بعد مرزا صاحب کے اس قول کی کذب و دروغ کے برابر بھی وقعت نہیں رہتی۔

........................................................................................................................................................................................................................................................................................................................................
٭مرزا قادیانی نے ایک جگہ خود اپنے قلم سے لکھا ہے ملاحظہ ہو: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا“(روحانی خزائن جلد ۱۸- ایک غلطی کا ازالہ: صفحہ 213) نعوذ باللہ! یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی کھلی توہین ہے۔ ش
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جھوٹ (۱۹۱)

”امام مالک بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ضرور مر گئے اور امام اعظم اور امام احمد اور امام شافعی ان کے قول کو سُن کر اور خاموشی اختیار کرکے اِسی قول کی تصدیق کر رہے ہیں“(روحانی خزائن جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 124)

نور: مرزا صاحب نے اپنی مختلف تصانیف میں متعدد جگہ بار بار اس امر کا ذکر کیا ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ و ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ وفاتِ مسیح کے قائل تھے اور اسی رنگ میں مرزا آنجہانی اچھالتے رہے۔ اس کے بعد ان کی امت اب تک باوجود ادعائے علم و فصل اسی لکیر کو پیٹتی چلی آ رہی ہے۔ لیکن حقیقت واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں بزرگ بھی مثل جمہور علماء امتِ اسلامیہ کے حیاتِ مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں جیسا کی اُبی نے کتاب عتبہ میں امام مالک ہی سے آپ کا صحیح مذہب حیات مسیح نقل کیا ہے۔ اسی طرح ابن حزم نے بھی اپنی کتاب ”الملل“ میں اپنا مسلک حیات مسیح کا بیان کیا ہے۔(دیکھو عقیدۃ الاسلام صفحہ 11)

البتہ مرزا صاحب اور ان کی امت مجمع البحار کی اس عبارت ”قال مالک مات“ سے مبتلائے فریب ہو کر اور اسی کو سرمایۂ استدلال سمجھ کر سادہ لوح انسانوں کو فریب میں مبتلاء کرنے کی سعی بلیغ کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر اس قول کو صحیح تسلیم کیا جائے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ ” مالک“ اس امر کے قائل ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر رفع سے پہلے چند منٹ کے لیے عارضی طور پر موت طاری ہو گئی تھی نہ یہ کہ دائمی موت کے قائل ہیں۔

غرض یہ کہ لفظ ”مات“ سے ”موتِ مطلق“ مراد ہے نہ ”مطلق موت“۔ ورنہ اس امر کے اظہار میں کچھ باک نہیں ہے کہ صاحب مذہب کے بیان کے مقابل قول غیر قابل حجت و استدلال نہیں ہو سکتا۔ مگر مرزا صاحب نے اس بناء فاسد پر یہ قصر تعمیر کیا کہ ائمہ ثلاثہ امام اعظم، امام احمد، امام شافعی رحمہم اللہ نے بھی اپنی خاموش زبان سے ”وفات مسیح“ کی تائید کی ہے سو یہ بھی کذب و افتراء کی بدترین مثال ہے۔

جھوٹ (۱۹۲)

”حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک زندہ رسول ماننا ...... یہی وہ جھوٹا عقیدہ ہے جس کی شامت کی وجہ سے کئی لاکھ مسلمان اس زمانہ میں مرتد ہو چکے ہیں“(روحانی خزائن جلد ۱۷- تحفہ گولڑویَّہ: صفحہ 94)

نور: بلکہ ارتداد مسلم کی علت حیات مسیح کو بنانا یہ خیال باطل اور جھوٹا عقیدہ ہے ورنہ مرزائیت اپنے ”قائد اکبر“ کے دامن سے دروغگوئی کی نجاست کو دور کرنے کی فکر کرے۔

جھوٹ (۱۹۳)

” قرآن شریف اور اس کتاب میں جو اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اللّٰہِ ہے صاف گواہی دی گئی ہے کہ حضرت عیسٰی فوت ہو گئے اور اس شہادت میں صرف امام بخاری رضی اﷲ عنہ متفرد نہیں بلکہ امام ابن حزم اور امام مالک رضی اﷲ عنہما بھی موت عیسیٰ علیہ السلام کے قائل ہیں اور ان کا قائل ہونا گو یا اُمت کے تمام اکابر کا قائل ہونا ہے“(روحانی خزائن جلد ۱۴- اَیَّامُ الصُّلح: صفحہ 269)

نور: اول تو مرزا صاحب کا یہی ایک مجرمانہ اتہام ہے کہ امام بخاری، امام مالک، ابن حزم رحمہم اللہ تعالیٰ موت مسیح کے قائل تھے۔ دوسرے اگر بالفرض یہ صحیح بھی ہو تو اس سے تمام اکابر امت کا قائل ہونا کیونکر اور کیسے لازم آ گیا؟۔

مرزائیو! سچ تو یہ ہے کہ تمہارے ”پیغمبر صاحب“ مخلوق خدا کو صرف فریب و دھوکہ میں مبتلا کرنے آئے تھے۔

جھوٹ (۱۹۴)

وأما السلف الصالح فما تکلموا فی ہذہ المسألۃ تفصیلا، بل آمنوا مجملا بأن المسیح عیسی بن مریم قد تُوُفّی(روحانی خزائن جلد ۷- حَمامَۃُ البُشریٰ: صفحہ 198)

ترجمہ از جماعتِ قادیانیہ: ”اور سلف صالحین نے اس مسئلہ (حیات مسیح علیہ السلام) میں مفصل کچھ نہیں کہا بلکہ اجمالی رنگ میں ایمان لاتے تھے کہ مسیح مر گیا ہے“(حمامۃ البشری مع اردو ترجمہ صفحہ 73تا74)

نور: مرزائیت کے ”جنم داتا“ کا سلف صالحین پر یہ گندہ افتراء ہے اس لیے کہ سلف صالحین تفصیلی و اجمالی ہر طرح سے حیات مسیح پر ایمان رکھتے تھے۔ دیکھو رسالہ عقیدۃ الاسلام، شہادۃ القران وغیرہ اور رسالہ ہذا کا جھوٹ نمبر ۱۴۱

جھوٹ (۱۹۵)

”صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اُتریں گے تو اُن کا لباس زر درنگ کا ہو گا“(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 142)

نور: مرزا صاحب کو افتراء پردازی و دروغگوئی میں کچھ اس درجہ کمال حاصل تھا کہ بڑے سے بڑا مفتری و کذاب بھی ان باتوں کو دیک کر آپ کو اس فن کا استاد کامل ماننے پر مجبور ہو جائے گا۔ جیسا کہ وہ خود اپنے اس قول کی تکذیب کر کے اپنا کاذب و مفتری ہونا ثابت کر رہے ہیں کہ:

لن تجد فی حدیثٍ ذِکر نزولہ من السماء(روحانی خزائن جلد ۷- حَمامَۃُ البُشریٰ: صفحہ 202)

ترجمہ از جماعت قادیانیہ: ”کسی حدیث میں یہ نہ پاؤ گے کہ اس کا نزول آسمان سے ہو گا“(حمامۃ البشری مع اردو ترجمہ صفحہ 83)

مرزائیو! تم ایڑی چوٹی کا زور اس امر میں صرف کر دو کہ مرزا صاحب کا دامن کذب کی نجاست سے صاف ہو جائے تو یہ غیر ممکن ہے۔ اس لیے یہ سچ ہے کہ:

”جھوٹا آدمی ایک گیند کی طرح گردش میں ہوتا ہے“ (ترجمہ روحانی خزائن جلد ۸- نورالحقّ: صفحہ 137)

جھوٹ (۱۹۶)

”کچھ شک نہیں کہ استقراء بھی ادلّۂ یقینیہ میں سے ہے“(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 584)

قادیان کے مولوی فاضلو! ایمان سے بتاؤ کہ کیا اب بھی اس میں شک ہے کہ مرزا صاحب جیسے مراقی الطبع کے علم و عقل کا دیوالہ نہیں نکل چکا۔ اس لیے کہ استقراء کو یقینی دلیل کہنا انہیں لوگوں کا کام ہے جو علم و عقل سے محروم اور دماغی امراض سے مالا مال ہوں۔ حالانکہ مرزا صاحب آنجہانی کے چنیں و چناں کے ساتھ ”سلطان المتکلمین و سلطان العلوم“ کے القاب نادرہ سے بھی موصوف ہیں مگر باوجود اس کے یہ علمی و عقلی دروغگوئیاں و مضحکہ خیزیاں جو منظرِ عام پر آ رہی ہیں تاکہ دنیا سمجھ لے کہ:

”دروغ گو کا انجام ذلّت اور ؔ رسوائی ہے“(روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 253)

جھوٹ (۱۹۷)

”جس حالت میں دو دو آنہ کے لئے وہ(مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب) دربدر خراب ہوتے پھرتے ہیں اور خدا کا قہر نازل ہے اور مُردوں کے کفن یا وعظ کے پیسوں پر گزارہ ہے ایک لاکھ روپیہ حاصل ہو جانا اُن کے لئے ایک بہشت ہے“(روحانی خزائن جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 132)

نور: چونکہ مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری مرزا صاحب کے سخت حریف جان ہیں اس لیے مرزا جی جس قدر ان پر اتہام و افتراء باندھیں وہ کم ہے۔ مگر یہ کس قدر ذلیل و گندہ جھوٹ اور گھنونا افتراء ہے کہ ان کا ذریعہ معاش مردوں کے کفن یا وعظ کے پیسوں کو قرار دیا ہے۔

مرزائیو! اگر اپنے پیشوائے اعظم کو راستباز دیکھنا چاہتے ہو تو اُس کو واقعات کی روشنی میں سچ کر دکھاؤ مگر یاد رہے کہ مولانا ثناء اللہ صاحب ابھی ما شاء اللہ مرزائیت کے بخیہ ادھیڑنے کے لیے موجود ہیں۔٭لیکن چونکہ خود مرزا آنجہانی کا گزارہ مردوں و زندوں کے چندوں پر تھا اس لیے ایسا ہی وہ اپنے دشمنوں کو بھی سمجھتے تھے۔ کیوں کہ:

”نجاست خور انسان ہر یک انسان کو نجاست خور ہی سمجھتا ہے“(روحانی خزائن جلد ۵- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 302)

جھوٹ (۱۹۸)

”خدا کا کلام قرآن شریف گواہی دیتا ہے کہ وہ مر گیا اور اُس کی قبر سری نگر کشمیر میں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَآوَيْنَاهُمَا إِلَىٰ رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ یعنی ہم نے عیسیٰ اور اس کی ماں کو یہودیوں کے ہاتھ سے بچا کر ایک ایسے پہاڑ میں پہنچا دیا جو آرام اور خوشحالی کی جگہ تھی اور مصفّا پانی کے چشمے اُس میں جاری تھے سو وہی کشمیر ہے۔ اسی وجہ سے حضرت مریم کی قبر زمین شام میں کسی کو معلوم نہیں اور کہتے ہیں کہ وہ بھی حضرت عیسیٰ کی طرح مفقود ہے“(روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 104)

نور: مرزا صاحب کا آیت ” وَآوَيْنَاهُمَا إِلَىٰ رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ “ سے کشمیر مراد لینا اور قرآن شریف کی شہادت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مار کر سرینگر کشمیر میں قبر بنا دینا سراسر کذب و افتراء ہے۔ ورنہ امت مرزائی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے ”بانی سلسلہ“ کی اس تفسیر کا احادیث، آثار صحابہ، اقوال ائمہ و ابدال و اقطاب کی روشنی میں مدلل کرکے یہ بتائیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم یا سلف صالحین میں سے کسی نے اس آیت سے اس مضمون کا استنباط فرمایا ہے۔ نہیں تو ہماری طرف سے لعنت کے چند پھول ”مرزا مقدس“ پر چڑھا دیجئے۔

نیز اسی طرح یہ کہنا کہ ”حضرت مریم کی قبر زمین شام میں کسی کو معلوم نہیں“ باقرار مرزا صاحب جھوٹ ہے۔ اس لیے کہ آپ فرماتے ہیں:

وقبرہ فی بلدۃ القدس والی الان موجود وھنالک کنیسۃ وھی اکبر الکنائس من کنائس النصاری وداخلہا قبر عیسٰی علیہ السلام کما ھو مشہود وفی تلک الکنیسۃ ایضا قبر امہ مریم ولکن کل من القبرین علیحدۃ(روحانی خزائن جلد ۸- اتمَامُ الحجَّۃِ: صفحہ 297)

ترجمہ از مرزا قادیانی: ”اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر بلدہ قدس میں ہے اور اب تک موجود ہے اور اس پر ایک گرجا بنا ہوا ہے اور وہ گرجا تمام گرجاؤں سے بڑا ہے اور اس کے اندر حضرت عیسیٰ کی قبر ہے اور اسی گرجا میں حضرت مریم صدیقہ کی قبر ہے اور دونوں قبریں علیحدہ علیحدہ ہیں“(روحانی خزائن جلد ۸- اتمَامُ الحجَّۃِ: صفحہ 299)

واضح رہے کہ ”اتمام الحجۃ“ کو مرزا صاحب نے جون 1894ء میں لکھا اور ”حقیقۃ الوحی“ کو 1907ء میں۔ یعنی ملہم و مسیح ہونے کے بعد 1894ء تک جس چیز کو موجود اور مشہود یعنی آنکھوں سے دیکھی ہو چیز فرمانا، اس اقرار کے 14 سال بعد یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کی قبر مفقود ہے اور کوئی نہیں جانتا، مرزائی مسیحیت و نبوت کا معجزاتی جھوٹ نہیں تو پھر کیا ہے؟۔
علاوہ ازیں مرزا صاحب حضرت عیسیٰ السلام کی قبر سرینگر میں بنا چکے ہیں۔ سچ ہے:

”جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے“(روحانی خزائن جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 275)

جھوٹ (۱۹۹)

”اور یہ کہ مسیح مختلف ملکوں کا سیر کرتا ہوا آخر کشمیر چلا گیا اور تمام عمر وہاں بسر کر کے آخر سرینگر محلّہ خانیار میں بعد وفات مدفون ہوا۔ اس کا ثبوت اس طرح ملتا ہے کہ عیسائی اور مسلمان اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ یوذ اشف نام ایک نبی جس کا زمانہ وہی زمانہ ہے جو مسیح کا زمانہ تھا اور دراز سفر کرکے کشمیر میں پہنچا اور وہ نہ صرف نبی بلکہ شہزادہ بھی کہلاتا ہے اور جس ملک میں یسوع مسیح رہتا تھا اس ملک کا وہ باشندہ تھا“ (ریویو آف ریلیجنز ماہ ستمبر 1903ء صفحہ؍338)

نور: مرزا جی کا یہ بھی ایک مفتریانہ کذب ہے۔ اس لیے کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کا اس بات پر ہرگز اتفاق نہیں۔ مرزائیو! ”جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے “ یاد ہے؟۔ نہیں تو دیکھو (روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 215)

جھوٹ (۲۰۰)

”سُنّت جماعت کا یہ مذہب ہے کہ امام محمد مہدی فوت ہوگئے ہیں اور آخری زمانہ میں انہیں کے نام پر ایک اور امام پیدا ہو گا“(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 344)

نور: اہلسنت والجماعت کا یہ مذہب ہرگز نہیں ہے۔ یہ صرف مرزا صاحب کی جدت طبع کا ایک گندا افتراء ہے۔

مرزائیو!

”اے مفتری نابکار کیا اب بھی ہم نہ کہیں کہ جھوٹے پر خدا کی لعنت“ (روحانی خزائن جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 275)

.....................................................................................................................................................................................................................................................................................................................
٭حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال 15؍اپریل 1949ء میں پاکستان ہوا(مقدمہ تفسیر ثنائی)
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
جھوٹ (۲۰۱)

”امام محمد اسمٰعیل صاحب جو اپنی صحیح بخاری میں آنے والے مسیح کی نسبت صرف اس قدر حدیث بیان کرکے چُپ کر گئے کہ امامکم منکم اس سے صاف ثابت ہو تا ہے کہ دراصل حضرت اسمٰعیل بخاری صاحب کا یہی مذہب تھا کہ وہ ہرگز اس بات کے قائل نہ تھے کہ سچ مچ مسیح ابن مریم آسمان سے اُتر آئےؔ گا“(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 153)

نور: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر بانی مرزائیت کا ایک ناپاک اتہام و قابل شرم افتراء ہے بالخصوص یہ کہنا کہ ”امامکم منکم سے صاف ثابت ہوتا ہے“ بتلا رہا ہے کہ ”قادیانی پیغمبر“ علم و عقل سے بالکل برہنہ تھے۔ حتی کہ ان کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا صحیح نام لکھنے کی بھی تمیز نہ تھی کہ کہیں ”امام محمد اسمعیل صاحب“ اور کہیں ”حضرت اسمعیل بخاری صاحب“ تحریر کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کا نام محمد تھا نہ محمد اسمٰعیل اور نہ اسمٰعیل۔

جھوٹ (۲۰۲)

” ان میں سے مسیح کو اُترتے نہیں دیکھے گا۔ حالانکہ تیرھویں صدی کے اکثر علماء چودہویں صدی میں اُس کا ظہور معین کرگئے ہیں اور بعض تو چودھویں صدی والوں کو بطور وصیّت یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ اگر اُن کا زمانہ پاؤ تو ہمارا السلام علیکم اُنہیں کہو“(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ179)

نور: تیرہویں صدی کے جن اکثر علماء نے چودہویں صدی کو حضرت مسیح کے ظہور کا زمانہ معین فرمایا ہے ان کی اکثریت کو ثابت کرتے ہوئے ان کے اسماء گرامی سے روشناس کرائیے؟۔ بعد ازاں جن کتابوں میں ان کا یہ مضمون مندرج ہے ان کو بتائیے؟۔ نہیں تو:

”ایسا کھلا کھلا جھوٹ بنانا ایک بڑے بدذات اور لعنتی کاکا م ہے“(روحانی خزائن جلد ۲۳- چشمہ مَعرفت: صفحہ 408)

جھوٹ (۲۰۳)

”اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں صاف فرما دیا ہے کہ یہ دو ۲قسم(قہری نشانوں اور تلوار کا عذاب) کے عذاب ایک وقت میں جمع نہیں ہو سکتے“(روحانی خزائن جلد ۲۰- تجلّیات الٰہیۃ: صفحہ 400)

نور: قرآن شریف کی جس آیت میں صاف و صراحت سے بغیر تاویل و توجیہ کے یہ مضمون ذکر کیا گیا ہو اس کو بیان کر کے بتاؤ کہ اس کو صرف مرزا جی ہی نے سمجھا ہے؟ یا اکابر سلف میں سے کسی نے استنباط کیا ہے؟۔ ورنہ:

”خدا کی لعنت اُن لوگوں پر جو جھوٹ بولتے ہیں“(روحانی خزائن جلد ۱۹- اعجاز احمدِی: صفحہ 109)

جھوٹ (۲۰۴)

” میرے آنے کے دو مقصد ہیں۔ (۱)مُسلمانوں کے لیے یہ کہ اصل تقویٰ اور طہارت پر قائم ہو جائیں۔ وہ سچے مُسلمان ہوں جو مُسلمان کے مفہوم میں اللہ تعالی نے چاہا ہے۔ اور(۲) عیسائیوں کے لیے کسر صلیب ہو اور ان کا مصنوعی خدا نظر نہ آوے دنیا ان کو بھول جاوے۔ خدائے واحد کی عبادت ہو“(مجموعہ اشتہارات جلد 4 صفحہ 472 پانچ جلدوں والا ایڈیشن)

جھوٹ (۲۰۵)

”میرا کام جس کے لیے میں اس میدان میں کھڑا ہوا ہوں یہی ہے کہ عیسیٰ پرستی کے ستون کو توڑ دوں اور بجائے تثلیث کے توحید پھیلاؤں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جلالت اور عظمت اور شان دنیا پر ظاہر کر دوں پس اگر مجھ سے کروڑ نشان بھی ظاہر ہوں اور یہ علت غائی ظہور میں نہ آوے پس میں جھوٹا ہوں.......اور اگر کچھ نہ ہوا اور میں مر گیا تو پھر گواہ رہیں کہ میں جھوٹا ہوں“(بدر جلد 2 نمبر 29مورخہ 19؍ جولائی 1906ء)

نور: مرزا صاحب جن دو عظیم الشان مقاصد کو اپنے آغوش نبوت میں لے کر رونق افروز بزم قادیان ہوئے تھے افسوس و حسرت کے ساتھ اس مراد واقعی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ آپ اس مقصد عظیم میں بری طرح ناکام و نامراد ہوئے۔ اور بہت بے آبرو ہو کر اس کوچہ سے نکلے ہیں اور تمام مسلمانان عالم کو اپنے ”دروغ گو و جھوٹے“ ہونے پر شاہد عادل بنا کر چلتے بنے۔

کیوں کے مرزا جی کا پہلا مقصد تو یہی تھا کہ مسلمانوں کو تقویٰ و طہارت سے آراستہ کر کے ان کو صحیح و سچے معنوں میں مسلمان بنائیں مگر اس مقصد کی درد ناکامی اس سے ظاہر ہے کہ مسلمان دہریت و الحاد کے تباہ کن سیلاب میں بہے چلے جا رہے ہیں اور ان کی اخلاقی و عملی حالت اس درجہ تنزل پذیر ہے کہ معلوم ہوتا ہے اسلام سے ان کو کچھ تعلق نہیں۔

علاوہ ازیں خود مرزا صاحب نے مسلمان بنانے کے بجائے یہ گمراہ کن راستہ اختیار کیا کہ اپنی مٹھی بھر جماعت کے سوا دنیا کے ان تمام مسلمانوں و مؤمنوں کو جو ان کی دیسی نبوت و سو دیشی مسیحیت کے آستانہ پر جبیں سائی کرنے سے منکر ہیں یا متردد، کافر و مرتد بے ایمان بنا کر اسلام کے واحد اجارہ دار بن بیٹھے۔

دیکھیں: (روحانی خزائن جلد ۲۲- حقِیقۃُالوَحی: صفحہ 167) اور (روحانی خزائن جلد ۱۱- انجام آتھم: صفحہ 26)۔

خیال تھا کہ وہ لوگ جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سایۂ رحمت سے نکل کر مرزائیت کی آغوش میں خوش فعلیاں کر رہے ہیں اور بہشتی مقبرہ کے حرص میں ”قادیانی دیوتا“ کی پرستش، یقینی طور پر تقویٰ و طہارت کی چلتی پھرتی تصویریں، دیانت و امانت کے عملی پیکر ہوں گے۔ مگر خواب تھا جو کچھ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔ اس لیے خود ”بانی سلسلہ“ آنسو بہا بہا کر ان کی اخلاقی حالت و پرہیز گاری کا مرثیہ خوان ہے۔

”ہماری جماعت کے اکثر لوگوں نے اب تک کوئی خاص اہلیت اور تہذیب اور پاک دلی اور پرہیز گاری اور للہی محبت باہم پیدا نہیں کی سو میں(مرزا قادیانی) دیکھتا ہوں......کہ بعض حضرات جماعت میں داخل ہو کر اور اس عاجز سے بیعت کرکے اور عہد توبہ نصوح کرکے پھر بھی ویسے کج دل ہیں کہ اپنی جماعت کے غریبوں کو بھیڑیوں کی طرح دیکھتے ہیں وہ مارے تکبر کے سیدھے منہ سے السلام علیک نہیں کرسکتے چہ جائیکہ خوش خلقی اور ہمدردی سے پیش آویں اور انہیں سفلہ اور خود غرض اس قدر دیکھتا ہوں کہ وہ ادنیٰ ادنیٰ خود غرضی کی بناء پر لڑتے اور ایک دوسرے سے دست بد امن ہوتے ہیں اور ناکارہ باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے پر حملہ ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات گالیوں تک نوبت پہنچتی ہے اور دلوں میں کینے پیدا کر لیتے ہیں اور کھانے پینے کی قسموں پر نفسانی بحثیں ہوتی ہیں.....یہ حالات ہیں جو اس مجمع میں مشاہدہ کرتا ہوں تب دل کباب ہوتا اور جلتا ہے اور بے اختیار دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اگر میں درندوں میں رہوں تو ان بنی آدم سے اچھا ہے“(روحانی خزائن جلد ۶- شَھادَۃُ القُرآن: صفحہ 395تا396)

ناظرین کرام! مرزا صاحب اپنے عظمت مآب مقصد میں جس ”شاندار پسپائی“ سے پسپا و نامراد ہوئے ہیں اس کا جمالی خاکہ آپ کے سامنے ہے۔ اس کے بعد دوسرے ”عظیم مقصد“ کی المناک ناکامیوں و جگر خراش نامرادیوں کو ملاحظہ فرمائیے کہ کہنے و فریب دینے کے لیے تو ”قادیانی پیغمبر“ عیسیٰ پرستی کے ستون کو توڑنے اور صلیب کو ریزہ ریزہ کرنے آئے تھے مگر برعکس اسی ”عیسائیت“ کے سب سے بڑے تاجدار بادشاہ برطانیہ(جو بقول مرزا صاحب کے دجال اعظم و یاجوج ماجوج بھی ہے) کی حمایت و نصرت میں اسی صلیب شکن کے مقدس ہاتھوں سے اس قدر اشتہارات و کتابیں لکھی گئیں جو ”پچاس الماریوں کی بے پانہ وسعت و فراخی“ کو بھی تنگ کر رہی ہیں۔

علاوہ ازیں اس وقت اکناف عالم میں عیسائیت پرستی جیسی کچھ روز افزوں ترقی کر رہی ہے وہ تعلیم یافتہ طبقہ پر بالکل عیاں ہے تاہم اس” داستان لطف“ کو مرزائیت ہی کے ایک نامور غلام جس کو اپنے آقائے نامدار کی طرح ”کسر صلیب“ میں مبالغہ آمیز دعوی کے ساتھ بہت کچھ مہارت و کمال حاصل ہے اس کی زبان سے سنئے تاکہ ”قادیانی پیغمبر“ کی ”شاندار نامرادی“ پر دہان دوز شہادت بن جائے۔ لاہوری مرزائیوں کا ترجمان ”پیغام صلح“ لکھتا ہے کہ:

(۱)”آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے ہندوستان میں عیسائیوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ آج پچاس لاکھ کے قریب ہے“(پیغام صلح مورخہ 6؍مارچ 1928ء صفحہ؍5)

(۲)” 1927ء میں عیسائیوں نے 19لاکھ 8 ہزار نسخے ہندوستان کی مختلف زبانوں میں بائیبل کے شائع کئے ہیں“ (پیغام صلح مورخہ 13؍مارچ 1928ء)

(3)”1931ء کی مردم شماری بتا رہی ہے کہ ہندوستان کے مختلف صوبوں و ریاستوں میں عیسیٰ پرست عیسائیوں کی تعداد 2674888 ہے اور دس سال میں 32؍فیصدی کے حساب سے ان میں اضافہ ہوا اور روز بروز عیسائیت ترقی کرتی جا رہی ہے“

صلیب پرستی کی روز افزوں ترقی کا یہ حال صرف اس ہندوستان میں ہے جہاں کہ ایک ”گاؤں“ میں ”دہقانی پیغمبر“، ”قادیانی مسیح“ با دعائے کسر صلیب نزول اجلال فرما کر قبل از وقت اس واسطے تشریف لے گئے تاکہ دنیا ان کے دروغ گو، نامراد، مفتری ہونے میں شک و شبہ نہ کر سکے۔ اسی سے مغربی ممالک کے متعلق اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں عیسائیت کا کس قدر بے پناہ غلبہ وسعت پذیر ہو گا۔ تاہم اس کو بھی اسی عیسیٰ پرستی کے ستون توڑنے والے ”قادیانی مسیح“ کے وفادار غلام ”پیغام صلح“ کی زبان سے سنئے۔

”مسٹر ایف ڈیو اکر ایک انگریز مسیحی مشنری نے مسلم ورلڈ میں اپنی ذاتی تجربات کی بناء پر یہ اعلان کیا ہے کہ سیر الیون، مینڈیلنیڈ، گولڈ کوسٹ اور اشانٹی، نائیجیریا اور فرانسیسی نو آبادیوں اور ڈرہوی، ٹوگو اور آئیوری کوسٹ میں مجھ پر یہ پورے طور پر آشکارا ہو چکا ہے اسلام کی رفتار ترقی قطعاً رک چلی جا رہی ہے اور آج افریقی لوگوں کو نبی اسلام کا پیرو بنانے میں جس قدر کامیابی مسلمانوں کو حاصل ہوئی ہے اس سے بہت زیادہ تعداد کو ہم مسیحیت کا حلقہ بگوش بنانے میں کامیاب ہیں“(پیغام صلح صفحہ؍3کالم1 مورخہ 24؍مئی 1929ء)

عیسائیت کی یہ روز افزوں ترقی اور بے پناہ غلبہ اس ”قادیانی مسیح و دیسی نبی“ کے بعد ہو رہا ہے جو دعائے عیسیٰ پرستی کے ستون کو توڑنے اور عیسائیت کو فنا کرنے کے لیے آئے تھے مگر آہ! افسوس ”مرزائی مسیح“ آیا اور بہ حسرت و یاس نامراد و ذلیل ہو کر قبل از وقت دنیا سے رخصت ہو گیا اس لیے ہم تمام مسلمان ان کے

کاذب و مفتری ہونے کی شہادت دیتے ہیں اور ان کی ”تربت“ پر لعنتی بدبودار پھول چڑھانے کی عزت حاصل کرتے ہیں کیوں کہ:

”کیونکہ ہر یک چیز اپنی علّت غائی سے شناخت کی جاتی ہے“(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 398)

بالآخر وہ انسان جس کا دماغ علم و عقل کی روشنی سے منور ہے وہ یقینی طور پر اس امر کا اظہار کرے گا کہ مرزا صاحب قادیانی بڑے شان و شوکت و آب و تاب کے ساتھ ان دو عظیم الشان مقاصد میں ناکام و نامراد ہو کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ اور ان کی زندگی کا ہر ہر گوشہ دروغ گوئیوں، اختلاف بیانیوں، مبالغہ آمیزیوں، افتراء پردازیوں، اتہام سازیوں، خیانت کاریوں، سرقہ بازیوں، گستاخیوں، شیخیوں، بلند خیالیوں اور گالیوں میں اس طرح سے الجھا ہوا ہے کہ ”امت مرزائیہ“ کا ناخن تدبیر بھی سلجھانے سے عاجز ہے؎

مصیبت میں پڑا ہے سینے والا چاک داماں کا
جو یہ ٹانکا تو وہ ادھیڑا جو یہ ادھڑا تو وہ ٹانکا

اور مرزائیت کے ”بانی سلسلہ“ کی زندگی ان بے شمار سازیوں و بازیوں کا ایک معجون مرکب ہے جس میں سے ایک جز دروغگوئی و اتہام بازی کو مشتے نمونہ از خروارے اس رسالہ میں دو سو پانچ کی تعداد میں جمع کیا گیا ہے تاکہ مرزا صاحب کی خانہ ساز نبوت و خود ساختہ مسیحیت اور دیگر طویل و عریض ہنگامہ خیز دعاوی کی پر تزویر حقیقت پاش پاش ہو کر غبار روزگار بن جائے اور مرزائیت کے ”اولوالعزم قادیانی پیغمبر“ کی ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی میں کوئی دقیقہ باقی نہ رہ جائے۔

درحقیقت قدرت الہٰیہ کا یہ کرشمہ لطف ہے کہ اس نے مرزا صاحب قادیانی جیسے مدعی نبوت کی دوکان کو ویران و تباہ کرنے کے لیے دروغ گوئیوں و افتراء پردازیوں کا اتنا ذخیرہ جمع کر دیا ہے کہ مرزائیت کے ”مستحکم قلعہ“ کو بیخ و بن مسمار و منہدم کرنے کے لیے کسی اور آلہ حرب و ضرب کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔

چوں کہ دروغگوئی کا خصوصی شعار و امتیازی نشان ”حافظہ نباشد“ بھی ہے۔ اسی معیار پر مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ :

”حافظہ اچھا نہیں یاد نہیں رہا“(روحانی خزائن جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 439)

لہٰذا اس اعتراف کے بعد ہم کو دخل در معقولات کی کیا ضرورت ہے؎

الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

تاہم مندرجہ ذیل حوالجات کو بھی محفوظ رکھئے تاکہ داشتہ کار آمد ہو سکے۔

(۱)”نبی کے کلام میں جھوٹ جائز نہیں“(روحانی خزائن جلد ۱۵- مسیح ہندوستان میں: صفحہ 21)

(۲)”انبیاء کا حافظہ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے“(ریویو آف ریلیجنز ماہ جنوری 1929ء صفحہ؍ 8)

(۳)”ملہم کا دماغ نہایت اعلیٰ ہوتا ہے“(ریویو آف ریلیجنز ماہ جنوری 1930ء صفحہ؍26)

(۴)”ملہم کے دماغی قوی کا نہایت مضبوط اور اعلیٰ ہونا بھی ضروری ہے“(ریویو آف ریلیجنز ماہ ستمبر 1929ء صفحہ؍4)

(۵) کاذب کا خدا دشمن ہے وہ اس کو جہنم میں لے جائے گا“(البشری جلد 2 صفحہ؍120)



ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

حمزہ

رکن عملہ
رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
انتباہ


چونکہ مرزائیت کے بانی ”مرزا آنجہانی“ کے کذبات پیش کرکے ان کے دعاوی پر جائز نکتہ چینی کی گئی ہے اس لیے امت قادیانیہ نعل در آتش و آگ بگولہ ہو کر طرح طرح کی تاویلوں و رنگین توجیہوں سے اس کے پوشیدہ کرنے کی لا حاصل سعی کرے گئی۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کذبات کو تاویل و توجیہ کے شکنجے پر چڑھائے بغیر حقائق و واقعات کی روشنی میں ثابت کیا جاوے۔ ورنہ بغیر اس کے انگاروں سے کھیلنا اور اپنے علم و عقل کی نمائش کرنا ہے۔

اللہ تعالی اس رسالہ کو مرزائیوں کے لیے مشعل راہ ہدایت بنائے تاکہ وہ کاذب کا دامن چھوڑ حضرت صادق مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کے آغوش رحمت میں آ جائیں اور احقر کو اس ”فتنہ عمیاء“ کے قلع قمع کرنے کی بیش از بیش توفیق عطا فرمائے۔

و اخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین۔

والسلام
نور محمد
مبلغ و مناظر مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور
5؍ذی الحجہ 1352ھ-22؍مارچ 1934ء
 
Top