کلمۃ اللہ فی حیات روح اللہ المعروف حیات عیسیٰ علیہ السلام
مقدمہ دریبان امکان رفع جسمانی
مرزا صاحب اور ان کی جماعت کا دعویٰ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر نہیں اٹھائے گئے بلکہ وفات پا کر مدفون ہو چکے ہیں اور دلیل یہ کہ کسی کا جسم عنصری آسمان پر جانا محال ہے۔(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 126)جواب
یہ ہے کہ جس طرح نبی اکرم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر کے ساتھ لیلۃ المعراج میں جانا اور پھر وہاں سے واپس آنا حق ہے، اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کا بجسد العنصری آسمان پر اٹھایا جانا اور پھر قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نازل ہونا بھی بلاشبہ حق اور ثابت ہے۔ جس طرح آدم علیہ السلام کا آسمان سے زمین کی طرف ہبوط ممکن ہے، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے زمین کی طرف نزول بھی ممکن ہے۔ إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آَدَمَ ۔ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کا فرشتوں کے ساتھ آسمانوں میں اڑنا صحیح اور قوی حدیثوں سے ثابت ہے، اسی وجہ سے ان کو جعفر طیار کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
” وأخرج الطبراني بإسناد حسن عن عبد الله بن جعفر قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: هنيئا لك أبوك يطير مع الملائكة في السماء “۔(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد 3 صفحہ 352 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ۔ فتح الباری جلد7 صفحہ 76 الرقم:3709 مطبوعہ دارالمعرفة بیروت، مختصر تلخیض ذہبی جلد 2 صفحہ 1119 مطبوعہ دارالعاصمة ریاض، مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 237 الرقم: 15498 مطبوعہ مکتبہ القدسی قاہرہ، المعجم الکبیر للطبرانی جلد 14 صفحہ 147 الرقم:14773)
ترجمہ: ”امام طبرانی نے باسناد حسن عبداللہ کے بیٹے جعفر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سے ایک بار یہ ارشاد فرمایا کہ اے جعفر کے بیٹے عبد اللہ تجھ کو مبارک ہو، تیرا باپ فرشتوں کے ساتھ آسمانوں میں اڑتا پھرتا ہے“۔
اور ایک اور روایت میں یہ ہے کہ جعفرؓ جبرئیل و میکائل کے ساتھ اڑتا پھرتا ہے۔ ان ہاتھوں کے عوض میں جو غزوہ موتہ میں کٹ گئے تھے اللہ تعالی نے ان کو ملائکہ کی طرح دو بازو عطا فرما دیے ہیں اور اس روایت کی سند نہایت جید اور عمدہ ہے۔
اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کا اس بارے میں ایک شعر ہے:
وجعَفر الذي يضحي ويمسي
يطيرُ مع الملائكة ابن اُمّي
يطيرُ مع الملائكة ابن اُمّي
ترجمہ: وہ جعفر جو صبح و شام فرشتوں کے ساتھ اڑتا ہے وہ میری ہی ماں کا بیٹا ہے۔
اور علی ہذا عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غزوہ بیرمعونہ میں شہید ہونا اور پھر ان کا آسمان پر اٹھایا جانا روایات میں مذکور ہے۔ جیسا کہ حافظ امام ابن حجر عسقلانی نے الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد 3 صفحہ 482 الرقم:4433، جلد 1 صفحہ 559الرقم:1059 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت میں، حافظ ابن عبد البر نے الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب جلد 2 صفحہ 797 الرقم:1338 مطبوعہ دار الجیل بیروت میں اور علامہ زرقانی نے شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد 2 صفحہ 503 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ میں ذکر کیا ہے۔ جبار بن سلمیٰ جو عامر بن فہیرہ کے قاتل تھے وہ اسی واقعہ کو دیکھ کر ضحاک بن سفیان کلابی کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف باسلام ہوئے اور یہ کہا:
” وَدَعَانِي إِلَى الْإِسْلَامِ مَا رَأَيْتُ مِنْ مَقْتَلِ عَامِرِ بْنِ فُهَيْرَةَ، وَمِنْ رَفْعِهِ إِلَى السَّمَاءِ “۔(دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 3 صفحہ 353 دارالکتب العلمیہ بیروت، تاریخ دمشق جلد 4 صفحہ 344 الرقم:1102 مطبوعہ دارالفکر بیروت)
ترجمہ: عامر بن فہیرہ کا شہید ہونا اور آسمان پر اٹھایا جانا میرے اسلام لانے کا باعث بنا۔
ضحاک نے یہ تمام واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں لکھ کر بھیجا۔ اس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” فَإِنَّ الْمَلائِكَةَ وَارَتْ جُثَّتَهُ وَأُنْزِلَ عِلِّيِّينَ “۔(تاریخ دمشق جلد 4 صفحہ 344 الرقم:1102 مطبوعہ دارالفکر بیروت)
ترجمہ: فرشتوں نے اس کے حبثه کو چھپا لیا اور وہ علیین میں اتارے گئے۔
ضحاک ابن سفیان کے اس تمام واقعہ کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ(دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 3 صفحہ 353 دارالکتب العلمیہ بیروت) اور ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ(دلائل النبوۃ لأبی نعیم جلد 1 صفحہ 512 الرقم:440 مطبوعہ دار النفائس بیروت)دونوں نے اپنی اپنی دلائل النبوۃ میں بیان کیا۔
اور حافظ عسقلانی نے الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ میں جبار بن سلمی کے تذکرہ میں اس واقعہ کی طرف اجمالاً اشارہ فرمایا ہے۔
شیخ جلال الدین سیوطی شرح الصدور میں فرماتے ہیں کہ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے واقعہ کو ابن سعد اور حاکم اور موسی بن عقبہ نے بھی روایت کیا ہے۔(شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور صفحہ 251 مطبوعہ دار المعرفہ لبنان)غرض یہ کہ یہ واقعہ متعدد اسانید اور مختلف روایات سے ثابت اور محقق ہے۔
واقعہ رجیع میں جب قریش نے خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ کو سولی پر لٹکایا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کو خبیبؓ کی نعش اتار لانے کے لیے روانہ فرمایا۔ عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے اور خبیبؓ کی نعش کو اتارا۔ دفعتاً ایک دھماکہ سنائی دیا، پیچھے پھر کر دیکھا، اتنی دیر میں نعش غائب ہو گئی۔ عمرو بن امیہ رضی اللہ فرماتے ہیں گویا زمین نے ان کو نگل لیا۔ اب تک اس کا کوئی نشان نہیں ملا۔ اس روایت کو امام ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔
شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خبیب رضی اللہ عنہ کو زمین نے نگلا اسی وجہ سے ان کا لقب بلیع الارض ہو گیا۔ اور ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں صحیح یہ ہے کہ عامر بن فہیرہ کی طرح خبیب کو بھی فرشتے آسمان پر اٹھا لے گئے۔ ابو نعیم کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں عامر بن فہیرہ اور خبیب بن عدی اور علاء بن حضرمی کو آسمان پر اٹھایا۔ رضوان اللہ اجمعین۔
علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔ اولیاء کا الہام و کرامت انبیاء کرام کی وحی اور معجزات کی وراثت ہے۔
” وَمِمَّا يُقَوي قصَّة الرّفْع إِلَى السَّمَاء مَا أخرجه النَّسَائِيّ وَالْبَيْهَقِيّ وَالطَّبَرَانِيّ وَغَيرهم من حَدِيث جَابر أَن طَلْحَة أُصِيبَت أنامله يَوْم أحد فَقَالَ حس فَقَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم لَو قلت بِسم الله لَرَفَعَتْك الْمَلَائِكَة وَالنَّاس ينظرُونَ إِلَيْك حَتَّى تلج بك فِي جو السَّمَاء السَّمَاء “۔(شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور صفحہ 252 مطبوعہ دار المعرفہ لبنان)
شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”عامر بن فہیرہ اور خبیب رضی اللہ عنھما کے واقعہ رافع الی السماء کی وہ واقعہ بھی تائید کرتا ہے جس کو نسائی اور بیہقی اور طبرانی نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے روایت کیا ہے کہ غزوہ احد میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی انگلیاں زخمی ہو گئیں تو اس تکلیف کی حالت میں زبان مبارک سے”حس“ یہ لفظ نکلا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو بجائے ”حس“ کے ”بسم اللہ“ کہتا تو لوگ دیکھتے ہوئے ہوتے اور فرشتے تجھ کو اٹھا کر لے جاتے یہاں تک کے تجھ کو آسمان میں لے کر گھس جاتے“۔
” أخرجه إِبْنِ أبي الدُّنْيَا فِي ذكر الْمَوْت عَن زيد بن أسلم قَالَ كَانَ فِي بني إِسْرَائِيل رجل قد أعتزل النَّاس فِي كَهْف جبل وَكَانَ أهل زَمَانه إِذا قحطوا إستغاثوا بِهِ فَدَعَا الله فسقاهم فَمَاتَ فَأخذُوا فِي جهازه فَبَيْنَمَا هم كَذَلِك إِذا هم بسرير يرفرف فِي عنان السَّمَاء حَتَّى إنتهى إِلَيْهِ فَقَامَ رجل فَأَخذه فَوَضعه على السرير فارتفع السرير وَالنَّاس ينظرُونَ إِلَيْهِ فِي الْهَوَاء حَتَّى غَابَ عَنْهُم “۔(شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور صفحہ 251 مطبوعہ دار المعرفہ لبنان)
”ابن ابی الدنیا نے ذکر الموتى میں زید بن اسلم سے روایت کیا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا کہ جو پہاڑ میں رہتا تھا۔ جب قحط ہوتا لوگ اس سے بارش کی دعا کراتے، وہ دعا کرتا، اللہ تعالیٰ اس کی دعا کی برکت سے بارانِ رحمت نازل فرماتا۔ اس عابد کا انتقال ہو گیا، لوگ اس کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے اچانک ایک تخت آسمان سے اترتا ہوا نظر آیا یہاں تک کہ اس عابد کے قریب آ کر رکھا گیا۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر اس عابد کو اس تخت پر رکھ دیا۔ اس کے بعد وہ تخت اٹھتا گیا، لوگ دیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ غائب ہو گیا“۔
اور حضرت ہارون علیہ الصلوۃ والسلام کے جنازہ کا آسمان پر اٹھایا جانا اور پھر حضرت موسی علیہ السلام کی دعا سے آسمان سے زمین پر اتر آنا مستدرک حاکم میں مفصل مذکور ہے۔
مقصد ان واقعات کے نقل کرنے کا یہ ہے کہ منکرین اور ملحدین خوب سمجھ لیں کہ حق جلشانہ نے اپنے محبین اور مخلصین کی اس خاص طریقہ سے بارہا تائید فرمائی ہے کہ ان کو صحیح و سالم فرشتوں سے آسمانوں پر اٹھوا لیا اور دشمن دیکھتے ہی رہ گئے۔ تاکہ اس کی قدرت کاملہ کا ایک نشان اور کرشمہ ظاہر ہو اور اس کے نیک بندوں کی کرامت اور منکرین معجزات و کرامات کی رسوائی و ذلت آشکارا ہو۔ اور اس قسم کے خوارق کا ظہور مومنین اور مصدقین کے موجب طمانیت اور مکذبین کے لیے اتمام حجت کا کام دے۔
ان واقعات سے یہ امر بخوبی ثابت ہو گیا کہ کسی جسم عنصری کا آسمان اٹھایا جانا نہ قانون قدرت کے خلاف ہے نہ سنت اللہ کے متصادم٭۔ بلکہ ایسی حالت میں سنت اللہ یہی ہے کہ اپنے خاص بندوں کو آسمان پر اٹھا لیا جائے، تاکہ اس مالک مقتدر کی قدرت کا کرشمہ ظاہر ہو اور لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ حق تعالیٰ کی اپنے خاص الخاص بندوں کے ساتھ یہی سنت ہے کہ ایسے وقت میں ان کو آسمان پر اٹھا لیتا ہے۔ غرض یہ کہ جسم عنصری ک آسمان پر اٹھائے جانا قطعاً محال نہیں بلکہ ممکن اور واقع ہے اور اسی طرح کسی جسم عنصری کا بغیر کھائے اور پئے زندگی بسر کرنا بھی محال نہیں، اصحاب کہف کا تین سو سال تک بغیر کھائے، پئے زندہ رہنا قرآن کریم میں مذکور ہے: وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعًا (الکہف18:25)اس سے مرزا صاحب کا یہ وسوسہ بھی زائل ہو گیا کہ جو شخص اسی یا نوے سال کو پہنچ جاتا ہے وہ مخص نادان ہو جاتا ہے۔ کما قال تعالیٰ:وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا (الحج22:05)اس لیے کہ ”أرذل العمر“ کی تفسیر میں اسی یا نوے سال کی قید مرزا صاحب نے اپنی طرف سے لگائی ہے۔ قرآن و حدیث میں کہیں قید نہیں۔ اصحاب کہف تین سو سال تک کہیں نادان نہیں ہو گئے۔ اور علی ہذا حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام صدہا سال زندہ رہے اور ظاہر ہے کہ نبی کے علم اور عقل کا زائل ہونا ناممکن اور محال ہے۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب دجال ظاہر ہو گا تو شدید قحط ہو گا اور اہل ایمان کو کھانا میسر نہ آئے گا۔ اس پر صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اہل ایمان کا کیا حال ہو گا؟۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” يُجْزِيهِمْ مَا يُجْزِي أَهْلَ السَّمَاءِ مِنَ التَّسْبِيحِ وَالتَّقْدِيسِ “۔(مسند احمد بن حنبل جلد 45 صفحہ 561 الرقم:25579 من حدیث أسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا مطبوعہ مؤسسة الرسالة)یعنی اس وقت اہل ایمان کو فرشتوں کی طرح تسبیح و تقدیس ہی غذا کا کام دے گی۔
اور حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی دن کا صوم وصال رکھتے اور یہ فرماتے:
” أَيُّكُمْ مِثْلِي؟ إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي “۔(صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 774 الرقم:1103 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت) تم میں سے کون شخص میری مثل ہے؟(جو کہ صوم وصال میں میری براری کرے) میرا پروردگار مجھے غیب سے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے، یہ غیبی طعام میری غذا ہے۔ معلوم ہوا کہ طعام و شراب عام ہے، خواہ حسی ہو یا غیبی ہو۔ لہٰذا وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَّا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ (الانبیاء21:8) سے یہ استدلال کرنا کہ جسم عنصری کا بغیر طعام و شراب کے زندہ رہنا ناممکن ہے، غلط ہے۔ اس لیے کہ طعام و شراب عام ہے کہ خواہ حسی ہو یا معنوی۔ حضرت آدم علیہ السلام اکل شجرہ سے پہلے جنت میں ملائکہ کی طرح زندگی بسر فرماتے تھے، تسبیح و تہلیل ہی ان کا ذکر تھا۔ پس کیا حضرت مسیح جو کہ نفخ جبرئیل سے پیدا ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے کی وجہ سے جبرئیل امین کی طرح تسبیح و تہلیل سے زندگی بسر نہیں فرما سکتے؟۔ کما قال تعالیٰ: ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل آدم۔ کیا اصحاب کہف کا تین سو نو سال تک بغیر کھائے اور پئے زندہ رہنا اور حضرت یونس علیہ السلام کا شکم ماہی(مچھلی) میں بغیر کھائے پئے زندہ رہنا قرآن کریم میں صراحتاً مذکور نہیں؟۔ اور یونس علیہ السلام کے بارے میں حق تعالیٰ کا ارشاد: فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَoلَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ (الصافات37:143،144)اس پر صاف دلالت کرتا ہے کہ یونس علیہ السلام اگر مسبحين میں نہ ہوتے تو اسی طرح قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ٹھہرے رہتے اور بغیر کھائے اور پئے زندہ رہتے۔
رہا ملحدین کا یہ سوال کہ زمین سے لے کر آسمان تک کی طویل مسافت کا چند لمحوں میں طے کر لینا کیسے ممکن ہے؟۔
سو اس کا جواب یہ ہے کہ حکمائے جدید لکھتے ہیں کہ نور ایک منٹ میں ایک کروڑ بیس لاکھ میل کی مسافت طے کرتا ہے(روشنی ایک منٹ میں4996540.97m/s2 فاصلہ طے کرتی ہے)۔ بجلی ایک منٹ میں پانچ سو مرتبہ زمین کے گرد گھوم سکتی ہے۔ اور بعض ستارے ایک ساعت میں آٹھ لاکھ اسی ہزار میل حرکت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں انسان جس وقت نظر اٹھا کر دیکھتا ہے تو حرکت شعاعی اس قدر سریع ہوتی ہے کہ ایک ہی آن میں آسمان تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر یہ آسمان نہ حائل ہوتا تو اور دور تک وصول ممکن تھا۔ نیز جس وقت آفتاب طلوع کرتا ہے تو نور شمس ایک ہی آن میں تمام کرۂ ارضی پر پھیل جاتا ہے۔ حالانکہ سطح ارضی 20363636 فرسخ ہے جیسا کہ سبع شداد صفحہ 40 پر مذکور ہے۔ اور ایک فرسخ تین میل کا ہوتا ہے۔ لہٰذا مجموعہ 61090908 کروڑ میل ہوا(سورج سے زمین کا فاصلہ 92955807 میل ہے۔سورس: www.space.com )۔ حکمائے قدیم کہتے ہیں کہ جتنی دیر میں جرم شمس بتمام طلوع کرتا ہے اتنی دیر میں فلک اعظم کی حرکت 519600لاکھ فرسخ ہوتی ہے۔ اور ہر فرسخ چونکہ تین میل کا ہوتا ہے لہٰذا مجموعہ مسافت 1558800لاکھ میل ہوئی۔ نیز شیاطین اور جنات کا شرق سے لے کر غرب تک آن واحد میں اس قدر طویل مسافت کا طے کر لینا ممکن ہے تو کیا خداوند عالم اور قادر مطلق کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی خاص بندے کو چند لمحوں میں اس قدر طویل مسافت طے کروا دے؟۔ آصف بن برخیا کا مہینوں کی مسافت سے بلقیس کا تخت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پلک جھپکنے سے پہلے پہلے حاضر کر دینا قرآن کریم میں مصرع ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ: قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّی (نمل27:40)۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کا مسخر ہونا بھی قرآن کریم میں مذکور ہے کہ وہ ہوا سلیمان علیہ السلام کے تخت کو جہاں چاہے اڑا کر لے جاتی اور مہینوں کی مسافت گھنٹوں میں طے کرتی۔ کما قال اللہ تعالیٰ: فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ (ص38:36)۔
آج کل ملحدین فی گھنٹہ تین سو میل٭٭ کی مسافت طے کرنے والے ہوائی جہاز پر تو ایمان لے آئے ہیں مگر نہ معلوم سلیمان علیہ السلام کے تخت پر بھی ایما لاتے ہیں یا نہیں۔ ہوائی جہاز بندہ کی بنائی ہوئی مشین سے اڑتا ہے اور سلیمان علیہ السلام کے تخت کو ہوا بحکم خداوندی اڑا کے لے جاتی تھی۔ کسی بندہ کے عمل اور صنعت کو اس میں دخل نہ تھا۔ اس لیے وہ معجزہ تھا اور ہوائی جہاز معجزہ نہیں۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں:
”نیا اور پُرانا فلسفہ بالاتفاق اس بات کو محال ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان اپنے اس خاکی جسم کے ساتھ کُرَّۂ زَمْہَرِیْر تک بھی پہنچ سکے بلکہ علم طبعی کی نئی تحقیقاتیں اس بات کو ثابت کر چکی ہیں کہ بعض بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ کر اس طبقہ کی ہوا ایسی مُضرِّ صحت معلوم ہوئی ہے کہ جس میں زندہ رہنا ممکن نہیں۔ پس اس جسم کا کُرَّۂ ماہتابیا کُرَّۂ آفتاب تک پہنچنا کس قدر لغو خیال ہے“٭٭٭۔(روحانی خزائن جلد ۳- اِزالہ اوھام: صفحہ 126)
جواب یہ ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ وا تسلیم کا لیلۃ المعراج میں اور ملائکۃ اللہ کا لیل و نہار نازیہ اور کرۂ زمہریری سے مرور عبور ممکن ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی عبور و مرور ممکن ہے اور جس راہ سے حضرت آدم علیہ السلام کا ہبوط اور نزول ہوا ہے اسی راہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہبوط و نزول بھی ممکن ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آسمان سے مائدہ کا نازل ہونا قرآن کریم میں صراحتاً مذکور ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ: إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ...الی قولہ... قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَoقَالَ اللَّهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ (4المائدہ112تا115) مرزا صاحب کے زعم فاسد اور خیال باطل کی بناء پر اگر وہ نازل ہوا ہو گا تو طبقہ ناریہ کی حرارت اور گرمی سے جل کر خاکستر ہو گیا ہو گا۔ نعوذباﷲ من ہذہ الخرافات! یہ سب شیاطین الانس کے وسوسے ہیں اور انبیاء و مرسلین کی آیات نبوت اور کرامات رسالت پر ایمان نہ لانے کے بہانے ہیں۔ کیا خداوند ذوالجلال عیسیٰ علیہ السلام کے لئے طبقہ ناریہ کو ابراہیم الصلوۃ و السلام کی طرح برد اور سلام نہیں بنا سکتا؟۔ جب کہ اس کی شان یہ ہے:
انما امرہ اذ اراد شیا ان یقول لہ کن فیکون، فسبحان ذی المک الملکوت و العزۃ الجبروت۔ امنت باللہ و کفرت بالظاغوت۔
..................................................................................................................................................................................................................................................
٭یہاں مرزا قادیانی کے ان الفاظ کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے:
” بعض لوگ انگد کے جنم ساکھی کے اس بیان پر تعجب کریں گے کہ یہ چولہ آسمان سے نازل ہوا ہے اور خدا نے اس کو اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ کی بے انتہا قدرتوں پر نظر کر کے کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ اس کی قدرتوں کی کسی نے حد بست نہیں کی کون انسان کہہ سکتا ہے کہ خدا کی قدرتیں صرف اتنی ہی ہیں اس سے آگے نہیں۔ ایسے کمزور اور تاریک ایمان تو ان لوگوں کے ہیں جو آج کل نیچری یا برہمو کے نام سے موسوم ہیں“۔(ست بچن صفحہ 37،روحانی خزائن جلد ۱۰- ست بچن: صفحہ 157)
مرزا قادیانی نے (ست بچن صفحہ52 روحانی خزائن جلد ۱۰- ست بچن: صفحہ 172)پر بابا گورو نانک کے چولہ کی تصویر بھی بنائی ہے۔ ناشر
٭٭دنیا کا تیز ترین راکٹ امریکہ کا (X-15) ہے جو 7274کلومیٹر پر گھنٹہ کی رفتار تک جا سکتا ہے۔ سورس: www.livescience.com
٭٭٭حوالہ کو خوبخو الفاظ مرزا میں لکھ کر بین القوسین کر دیا گیا ہے۔ ناشر