محب علی
رکن ختم نبوت فورم
السلام و علیکم ۔۔
ہمارے سامنے ایک بھائی نے یہ اعتراض رکھا کہ علماء حضرت مرزا صاحب کی اس بات پر تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے جہاد سے عوام الناس کو کیونکر منع کر دیا ۔۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ احادیث صحیحہ میں منقول ہے آقا دو جہاں نے فرمایا جب امام مہدی آ یں گے تو جہاد بلسیف کو ختم کر کے فقط قلمی جہاد پر زور دیا جائے گا
اس ضمن میں انہوں نے یہ حدیث اور مرزا صاحب کی کسی تحریر سے ماخوذ مضمون ہمیں دیا جو یہ ہے
اب انشا الله ہم اپنی تحریر میں اس مسلے کو سمیٹنے کی کوشش کرینگے
سب سے پہلے تو یہ دقت پیش آئ کہ صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں لفظ حرب کی بجائے جزیہ موجود ہے ۔۔ جیسے کہ یہ
ایسے ہی مکتبہ الشاملہ اور ابن حجر عسقلانی کی شرح بخاری "فتح الباری " میں بھی یہ ہی الفاظ تھے لیکن یہ مسلہ حل ہوا صحیح بخاری ہی کی ایک اور شرح توفیق الباری سے جس میں مصنف رقم طراز ہیں ۔۔
امام بخاری سے منسوب ایک نسخہ کشمہینی میں لفظ جزیہ موجود ہے جبکہ دوسرے نسخہ میں لفظ حرب ہے
اس کے یہ کوئی لفظی تحریف نہیں ایک ایسا فرق ہے جو کہ اصل نسخوں سے چلتا آ رہا ہے
اب ہم اصل حدیث کے متن پر نگاہ دوڑھائیں تو ہمیں اس میں مندرجہ ذیل امور کا آنے والے وقتوں میں ہونا بطور پیشین گوئی ملتا ہے ۔۔
اس ذات کی قسم ہے جس میں میری جان ہے (نبی کا قسم اٹھانا )
1۔قریب ہے کہ "ابن مریم " تم میں نازل ہوں گے
2۔عادل "حکم " ہو کر وہ سلیب کو توڑ دیں گے
3۔اور خنزیر کو مار ڈالیں گے
4۔ اور جنگ کو "موقوف " کر دیں گے
5۔مال و زر اس قدر زیادہ ہوگا کہ کوئی اسے قبول نہیں کرے گا
6۔ایک سجدہ دنیا و مافیا سے بہتر ہوگا
7۔اور ابو ھریرہ رض کا فرمانا کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جو اس واقعہ پر ایمان نہ لائے تاوقت یہ کہ اسے موت آن لے
اب آپ ہی بتائیے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک شخص جو نہ ابن مریم ہے ، نہ وہ عادل بادشاہ بنا ، نہ اس نے صلیب توڑی ۔۔۔ وہ شخص اٹھے اور اٹھ کر جہاد کو حرام قرار دے دے ؟
اس حدیث میں تو واضح اشارہ موجود ہے کہ انکے آنے پر کوئی ایک اہل کتاب بھی نہ ہوگا جو ان پر ایمان نہ لے آئے تو بتایا جائے کہ جب سب ایمان لے آئیں گے تو جہاد کس سے کیا جائے گا ، جزیہ کس سے لیا جائے گا ؟
اور مال اس قدر کثرت سے ہوگا جیسے توفیق الباری میں ابن ابطال اس بابت لکھتے ہیں ۔۔
نزول عیسی سے قبل اس کا جواز للھاجت اللمال ہے اس کے بعد چونکہ مال بکثرت ہوگا اس لئے عدم حاجت کے سبب اس کی ضرورت نہ رہے گی
ہمارے بھائی نے کہا کہ اس دور میں جہاد کی شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے جہا د کو حرام قرار دیا ۔۔ ہمیں بھی معلوم ہو کہ کسی دور میں جہاد کرنے یا نہ کرنے کی دلالت پر قران و حدیث کی کون کون سی شرائط عمل پیرا ہوتی ہیں ؟
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔ اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَـصْرِهِمْ لَـقَدِيْرُۙ ۔ ۨالَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ (الحج:٣٩)
یعنی وہ لوگ جن سے (بلاوجہ) جنگ کی جارہی ہے ان کو بھی (جنگ کرنے کی) اجازت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے (یہ وہ لوگ ہیں) جن کو ان کے گھروں سے صرف ان کے اتنا کہنے پر کہ اللہ ہمارا رب ہے بغیر کسی جائز وجہ کے نکالا گیا۔
ساتھ یہ حدیث صحیحہ
لہٰذا ہمارا موقف تو بلکل واضح ہے کہ جب تک مسیح الدجال کے ساتھ جنگ نہیں ہو جاتی جہاد منسوخ نہیں ہوگا
اب آپ ہمیں بتائیں کہ مرزا صاحب نے قرا ن و حدیث کے کس اصول کے تحت جہاد کو منسوخ قرار دیا تھا ۔۔ میں نے آ پکے سامنے قران و حدیث سے احتجاج کیا ہے آپ سے بھی امید ہے کہ آپ قران و حدیث سے ہی احتجاج کرتے ہوۓ شرائط جہاد پیش کریں گے نہ کہ کسی مولوی کا فتویٰ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب آپ کی دوسری دلیل کہ انہوں نے جہاد کو بلکل منسوخ نہیں کیا تھا بلکہ شرائط کی عدم موجودگی کے سبب موخر کر دیا تھا
لیکن یہ بات اس حدیث کے خلاف ہے اب جو آپ نے اوپر پیش کی اس کے مطابق وہ جہاد کو موقوف کر دیں گے اور
مزے کی بات کسی حدیث میں جہاد کو مؤخر کرنے کے الفاظ کہیں بھی نہیں ہیں .. بلکہ یہ ہے کہ "جنگ ختم کردیں گے" .. اور اسکی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی کافر رہے گا ہی نہیں تو جنگ کس سے ہوگی؟
حدیث میں عربی میں يضح الحرب ہے اگر جہاد مؤخر کرنے کا ذکر ہوتا تو یہ الفاظ ہوتے "يؤخر الجهاد" .
حدیث میں "يضح الحرب" کے الفاظ ہیں
لیکن يضح الحرب کے الفاظ ہیں اور اس سے پہلے عادل حکم ،صليب توڑنے اور خنزیر کو قتل کرنے کے الفاظ ہیں ...
عجب بات ہے کہ ان تینوں باتوں سے صرف نظر کرتے ہوۓ مرزا صاحب نے چوتھی بات کو جا پکڑا ہے ۔۔
امید ہے کہ آپ ہمارے سامنے جہاد کرنے کی شرائط اور مرزا کا ابن مریم ہونا ،عادل حکم ہونا ، صلیب توڑنا اور خنزیر کو قتل کرنا ثابت کر دیں گے اور آخر میں یہ معمہ بھی حل کر دیں گے کہ جہاد کو موخر کیا کہ منسوخ ؟
وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاغُ الْمُبِينُ اللهم صل وسلم وبارك وعظم وشرف على أبي الطيب والقاسم سيدنا أبا إبراهيم محمداً وعلى آل بيته الكرام عدد خلقك وزنة عرشك ومداد كلماتك ورضاء نفسك
ہمارے سامنے ایک بھائی نے یہ اعتراض رکھا کہ علماء حضرت مرزا صاحب کی اس بات پر تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے جہاد سے عوام الناس کو کیونکر منع کر دیا ۔۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ احادیث صحیحہ میں منقول ہے آقا دو جہاں نے فرمایا جب امام مہدی آ یں گے تو جہاد بلسیف کو ختم کر کے فقط قلمی جہاد پر زور دیا جائے گا
اس ضمن میں انہوں نے یہ حدیث اور مرزا صاحب کی کسی تحریر سے ماخوذ مضمون ہمیں دیا جو یہ ہے
اب انشا الله ہم اپنی تحریر میں اس مسلے کو سمیٹنے کی کوشش کرینگے
سب سے پہلے تو یہ دقت پیش آئ کہ صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں لفظ حرب کی بجائے جزیہ موجود ہے ۔۔ جیسے کہ یہ
ایسے ہی مکتبہ الشاملہ اور ابن حجر عسقلانی کی شرح بخاری "فتح الباری " میں بھی یہ ہی الفاظ تھے لیکن یہ مسلہ حل ہوا صحیح بخاری ہی کی ایک اور شرح توفیق الباری سے جس میں مصنف رقم طراز ہیں ۔۔
امام بخاری سے منسوب ایک نسخہ کشمہینی میں لفظ جزیہ موجود ہے جبکہ دوسرے نسخہ میں لفظ حرب ہے
اس کے یہ کوئی لفظی تحریف نہیں ایک ایسا فرق ہے جو کہ اصل نسخوں سے چلتا آ رہا ہے
اب ہم اصل حدیث کے متن پر نگاہ دوڑھائیں تو ہمیں اس میں مندرجہ ذیل امور کا آنے والے وقتوں میں ہونا بطور پیشین گوئی ملتا ہے ۔۔
اس ذات کی قسم ہے جس میں میری جان ہے (نبی کا قسم اٹھانا )
1۔قریب ہے کہ "ابن مریم " تم میں نازل ہوں گے
2۔عادل "حکم " ہو کر وہ سلیب کو توڑ دیں گے
3۔اور خنزیر کو مار ڈالیں گے
4۔ اور جنگ کو "موقوف " کر دیں گے
5۔مال و زر اس قدر زیادہ ہوگا کہ کوئی اسے قبول نہیں کرے گا
6۔ایک سجدہ دنیا و مافیا سے بہتر ہوگا
7۔اور ابو ھریرہ رض کا فرمانا کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جو اس واقعہ پر ایمان نہ لائے تاوقت یہ کہ اسے موت آن لے
اب آپ ہی بتائیے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک شخص جو نہ ابن مریم ہے ، نہ وہ عادل بادشاہ بنا ، نہ اس نے صلیب توڑی ۔۔۔ وہ شخص اٹھے اور اٹھ کر جہاد کو حرام قرار دے دے ؟
اس حدیث میں تو واضح اشارہ موجود ہے کہ انکے آنے پر کوئی ایک اہل کتاب بھی نہ ہوگا جو ان پر ایمان نہ لے آئے تو بتایا جائے کہ جب سب ایمان لے آئیں گے تو جہاد کس سے کیا جائے گا ، جزیہ کس سے لیا جائے گا ؟
اور مال اس قدر کثرت سے ہوگا جیسے توفیق الباری میں ابن ابطال اس بابت لکھتے ہیں ۔۔
نزول عیسی سے قبل اس کا جواز للھاجت اللمال ہے اس کے بعد چونکہ مال بکثرت ہوگا اس لئے عدم حاجت کے سبب اس کی ضرورت نہ رہے گی
ہمارے بھائی نے کہا کہ اس دور میں جہاد کی شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے جہا د کو حرام قرار دیا ۔۔ ہمیں بھی معلوم ہو کہ کسی دور میں جہاد کرنے یا نہ کرنے کی دلالت پر قران و حدیث کی کون کون سی شرائط عمل پیرا ہوتی ہیں ؟
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔ اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَـصْرِهِمْ لَـقَدِيْرُۙ ۔ ۨالَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ (الحج:٣٩)
یعنی وہ لوگ جن سے (بلاوجہ) جنگ کی جارہی ہے ان کو بھی (جنگ کرنے کی) اجازت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے (یہ وہ لوگ ہیں) جن کو ان کے گھروں سے صرف ان کے اتنا کہنے پر کہ اللہ ہمارا رب ہے بغیر کسی جائز وجہ کے نکالا گیا۔
ساتھ یہ حدیث صحیحہ
لہٰذا ہمارا موقف تو بلکل واضح ہے کہ جب تک مسیح الدجال کے ساتھ جنگ نہیں ہو جاتی جہاد منسوخ نہیں ہوگا
اب آپ ہمیں بتائیں کہ مرزا صاحب نے قرا ن و حدیث کے کس اصول کے تحت جہاد کو منسوخ قرار دیا تھا ۔۔ میں نے آ پکے سامنے قران و حدیث سے احتجاج کیا ہے آپ سے بھی امید ہے کہ آپ قران و حدیث سے ہی احتجاج کرتے ہوۓ شرائط جہاد پیش کریں گے نہ کہ کسی مولوی کا فتویٰ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب آپ کی دوسری دلیل کہ انہوں نے جہاد کو بلکل منسوخ نہیں کیا تھا بلکہ شرائط کی عدم موجودگی کے سبب موخر کر دیا تھا
لیکن یہ بات اس حدیث کے خلاف ہے اب جو آپ نے اوپر پیش کی اس کے مطابق وہ جہاد کو موقوف کر دیں گے اور
مزے کی بات کسی حدیث میں جہاد کو مؤخر کرنے کے الفاظ کہیں بھی نہیں ہیں .. بلکہ یہ ہے کہ "جنگ ختم کردیں گے" .. اور اسکی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی کافر رہے گا ہی نہیں تو جنگ کس سے ہوگی؟
حدیث میں عربی میں يضح الحرب ہے اگر جہاد مؤخر کرنے کا ذکر ہوتا تو یہ الفاظ ہوتے "يؤخر الجهاد" .
حدیث میں "يضح الحرب" کے الفاظ ہیں
لیکن يضح الحرب کے الفاظ ہیں اور اس سے پہلے عادل حکم ،صليب توڑنے اور خنزیر کو قتل کرنے کے الفاظ ہیں ...
عجب بات ہے کہ ان تینوں باتوں سے صرف نظر کرتے ہوۓ مرزا صاحب نے چوتھی بات کو جا پکڑا ہے ۔۔
امید ہے کہ آپ ہمارے سامنے جہاد کرنے کی شرائط اور مرزا کا ابن مریم ہونا ،عادل حکم ہونا ، صلیب توڑنا اور خنزیر کو قتل کرنا ثابت کر دیں گے اور آخر میں یہ معمہ بھی حل کر دیں گے کہ جہاد کو موخر کیا کہ منسوخ ؟
وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاغُ الْمُبِينُ اللهم صل وسلم وبارك وعظم وشرف على أبي الطيب والقاسم سيدنا أبا إبراهيم محمداً وعلى آل بيته الكرام عدد خلقك وزنة عرشك ومداد كلماتك ورضاء نفسك