قادیانی عموماً مرزا قادیانی کے جھوٹوں سے جان چھڑوانے کے لیے ایک حدیث نقل کرتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں کہ اس حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ سے جھوٹ منسوب ہیں اور اسکی صحت صحیح ہے۔ پس مرزا صاحب نے بھی کوئی جھوٹ نہیں بولا، اگر مرزا صاحب کو جھوٹا کہو گے تو انبیاء کو بھی جھوٹا کہنا پڑھے گا جو کہ ممکن نہیں۔یہ حدیث مسلم شریف اور بخاری شریف میں تفصیل سے بھی موجود ہے یہاں مختصر والی نقل کر رہا ہوں
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لم يكذب إبراهيم إلا في ثلاث كذبات : ثنتين منهن في ذات الله قوله ( إني سقيم ) وقوله ( بل فعله كبيرهم هذا ) وقال : بينا هو ذات يوم وسارة إذ أتى على جبار من الجبابرة فقيل له : إن ههنا رجلا معه امرأة من أحسن الناس فأرسل إليه فسأله عنها : من هذه ؟ قال : أختي فأتى سارة فقال لها : إن هذا الجبار إن يعلم أنك امرأتي يغلبني عليك فإن سألك فأخبريه أنك أختي فإنك أختي في الإسلام ليس على وجه الأرض مؤمن غيري وغيرك فأرسل إليها فأتي بها قام إبراهيم يصلي فلما دخلت عليه ذهب يتناولها بيده . فأخذ - ويروى فغط - حتى ركض برجله فقال : ادعي الله لي ولا أضرك فدعت الله فأطلق ثم تناولها الثانية فأخذ مثلها أو أشد فقال : ادعي الله لي ولا أضرك فدعت الله فأطلق فدعا بعض حجبته فقال : إنك لم تأتني بإنسان إنما أتيتني بشيطان فأخدمها هاجر فأتته وهو قائم يصلي فأومأ بيده مهيم ؟ قالت : رد الله كيد الكافر في نحره وأخدم هاجر " قال أبو هريرة : تلك أمكم يا بني ماء السماء
(حدیث نمبر 75 باب نمبر 42 کتاب النکاح بخاری)
پوسٹ مارٹم
جو جھوٹ ہم مرزا قادیانی کے پیش کرتے ہیں وہ واقعتاً جھوٹ ہوتے ہیں جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کلام تو توریہ اور تعریض کے طور پر ہے وہ حقیقت میں جھوٹ ہے ہی نہیں سمجھنے والوں کی غلطی ہے ورنہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کلام کیا ہے وہ مبنی پر حقیقت ہے۔ مرزا قادیانی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نسبت اس راویت کی رو سے جھوٹ کا الزام لگانے والوں کو خبیث شیطان پلید مادہ والاکہا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ حضرت ابراہیم کی نسبت یہ تحریر شائع کرے کہ مجھے جس قدر ان پر بد گمانی ہے اس کی وجہ ان کی دروغ گوئی ہے تو ایسے خبیث کی نسبت اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کی فطرت ان پاک لوگوں کی فطرت سے مغائر پڑی ہوئی ہے اور شیطان کی فطرت کے موافق اس کا پلید مادہ اور خمیر ہے ۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۹۸روحانی خزائن ج۵ص۵۹۸)
اصل مغالطہ اس حدیث میںاستعمال کئے جانے والے لفظ’کذب‘ سے پیدا ہوا ہے۔ اس لفظ کی لغوی تحقیق پیش خدمت ہے۔
1)کذب کے معنی ترغیب دلانا بھی مستعمل ہے، کذبتہ نفسہ کے معنی ہیں:اس کے دل نے اسے ترغیب دلائی۔
2) کذب، وجوب کے معنی میں آتا ہے: قال الجوھری:کذب قد یکون بمعنی وجب وقال الفراء کذب علیک ای وجب علیک (نھایہ ابن اثیر: 12/4) .. [النھایۃ فی غریب الاثر لابن الاثیر 282/4ْْ]۔
جوہری اور فراء کہتے ہیں:کذب معنی وجب پر ہے۔
3) کذب، لزم کے معنی میں آتا ہے۔ کذب علیکم الحج و العمرۃ۔ تم پر حج اور عمرہ لازم ہو گیا ہے۔ [ النھایۃ فی غریب الاثر لابن الاثیر 282/4ْْ ]
4) غلطی یا خطا کے معنی میںبھی یہی لفظکذب استعمال ہوتا ہے۔ حدیثمیںہے:کذب ابو محمد [ابو داؤد: برقم 425] یعنی ابو محمد نے غلطی کی۔ ذو الرمہ شاعر نے کہا: ما فی سمعہ کذب۔ اس کے سماع میں غلطی نہیں.[النھایۃ: 282/4]
اسی طرح امام راغب نے مفردات القرآن 288/2 میں فرمایا، اور دیگر کتب لغات میں بھی اسی قسم کی تفصیل موجود ہے۔ مثلاً دیکھئے: لسان العرب : 708/1،الفائق للزمخشری: 250/3،القاموس المحیط: 166،تاج العروس: 897/1۔یہ لغوی تحقیق یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ جس ایک لفظ کی بنیاد پر انبیاء،احادیث، ائمہ حدیث اور راویان حدیث پر جو گند مچایا جا رہا ہے وہ انتہائی کمزور دلیل ہے۔
ایک بات زہئن میں رہے یہ واقعات قرآن میں موجود ہیں اور پھر اگر ہم حدیث کے الفاظ کی بحث میں دیکھیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جن واقعات پر لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا ہے، وہ توریہ اور تعریض کی شرط پر پورا اترتے ہیں نا کہ جھوٹ کی۔
تعریض اور توریہ کیا ہے؟
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے نہایت عمدہ وضاحت کی ہے کہ سچ اور جھوٹ کی تشخیص میں نفس الامر اور متکلم کے قصد اور ارادہ کو بھی دخل ہے۔ اس لحاظ سے اس کی تین صورتیں ہوں گی۔
1)متکلم صحیح اور واقعہ کے مطابق کہے اور مخاطب کو وہی سمجھانا چاہے جو فی الحقیقت ہے۔ یہ دونوں لحاظ (واقعہ اور ارادہ) سے سچ ہے۔
2)متکلم خلاف واقعہ کہے اور مخاطب کو اپنے مقصد سے آگاہ نہ کرنا چاہے بلکہ ایک تیسری صورت پیدا کر دے جو نہ صحیح ہو اور نہ ہی متکلم کا مطلب اور مراد ہو۔ یہ واقعہ اور ارادہ دونوں لحاظ سے جھوٹ ہوگا۔
3)لیکن اگر متکلم صحیح اور نفس الامر کے مطابق گفتگو کرے لیکن مخاطب کو اندھیرے میں رکھنا چاہے اور اپنے مقصد کو اس پر ظاہر نہ ہونے دے اسے تعریض اور توریہ کہا جاتا ہے۔ یہ ”متکلم کے لحاظ سے صدق ہے اور تفہیم کے لحاظ سے کذب ہے۔“صدق اور کذب میں جس طرح واقعے کو دخل ہے، اسی طرح ارادے کو بھی دخل ہے۔ صدق اور کذب کا معنی سمجھ لینے کے بعد ایک تیسری چیز بھی ذہن میں آ جانی چاہئے۔ جب متکلم خبر واقع اور مخبر عنہ کے مطابق دے، لیکن اس واقع اور حقیقت کو مخاطب سے مخفی رکھنا چاہے، تو اسے تعریض یا توریہ کہتے ہیں۔ یہ حقیقت میں سچ ہوتا ہے لیکن ایک لحاظ سے اسے جھوٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔امام راغب رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔"تعریض ایسی گفتگو ہوتی ہے، جس کے ہر دو پہلو ہوتے ہیں۔ من وجہ صدق اور من وجہ کذب۔ جیسے فیما عرضتم بہ من خطبۃ النساء سے واضح ہے۔"[مفردات القرآن : 85/2]
اور یہی تعریض یا توریہ بہت سی جگہوں پر ثابت ہے۔ مثلاً سفر ہجرت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے جب پوچھا جاتا کہ تمہارے ساتھ کون ہیں تو فرماتے: رجل یھدینی السبیل، کہ میرے رہبر ہیں۔ یہ مکمل صدق بھی نہیں کہ مخاطب اس سے دنیاوی رہبر سمجھتا تھا۔ اور مکمل جھوٹ بھی نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہرحال دینی لحاظ سے تو رہبر ہی ہیں۔قرآن سے بھی اس کی مثال پیش ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے منافقین کے تذکرہ میں فرمایا: إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (المنافقون۱) جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ الله کے رسول ہیں اور الله جانتا ہے کہ بے شک آپ اس کے رسول ہیں اور الله گواہی دیتا ہے کہ بے شک منافق جھوٹے ہیں. یہاں منافقین کی صحیح بات کی بھی تصدیق نہیں فرمائی ، اس لئے کہ یہ ان کے ضمیر کی آواز نہیں، بلکہ ضمیر کی آواز اس کے خلاف ہے۔ اگرچہ ان کی بات درحقیقت سچ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ لیکن ان کا ضمیر اس حقیقت کو قبول کرنے میں مانع ہے، لہٰذا فقط غلط ارادے کی بنیاد پر ان کی مکمل بات ہی کی تغلیط کر دی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ فقط حقیقت واقعہ کی اہمیت نہیں، بلکہ اس پر متکلم کا ارادہ بھی جھوٹ کا اطلاق کرنے کے لئے ازحد ضروری ہے۔
(ذہن نشین کر لیجئے کہ ان تین واقعات(جن کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہوا) میں سے دو تو خود قرآن ہی میں موجود ہیں اور ایک حدیث میں۔ اب یہاں بھی معترضین حدیث کا تضاد ، کج فکری اور تعصب کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ ایک ہی واقعہ اگر قرآن میں ہو تو اس کی تو ڈھیروں تاویلات کر کے اس کو "درست" بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور وہی واقعہ حدیث میں ہو تو اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔)
پہلا واقعہ: بت شکنی
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب قوم کو بت پوجتے دیکھا، تو فرمایا:ان بتوں کے ساتھ تم نے کیا تماشا بنا رکھا ہے،پھر پوری صراحت سے حلفی اعلان فرمایا: تمہاری غیر حاضری میں یقینا تمہارے ان بتوں کا تیا پانچہ کر کے رہوں گا۔غور فرمائیے، اس اعلان اور حلفی بیان کے بعد جھوٹ بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قوم اپنے مشاغل کے لئے چلی گئی، ان کی غیر موجودگی میں پورے اطمینان سے بڑے بت کے سوا باقی بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا، واپسی پر جب بت خانہ ویران پایا تو کہرام مچ گیا، بڑے حزن و ملال سے قوم کے چودھریوں نے کہا: کسی بڑے ظالم نے ہمارے بتوں کا یہ برا حال کیا ہے۔بات ڈھکی چھپی نہ تھی، حلفی اعلان ان کے کانوں میں تھا، فوراً حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ملزم قرار دیا گیا۔ ایک ابراہیم نامی نوجوان کو ہم نے سنا تھا وہ ان کو برا بھلا کہتا تھا۔اسی وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلانے کا فیصلہ ہوا کہ اسے کھلی عدالت میں پیش کر کے اس کے خلاف شہادت قائم کرو۔اس قدر کھلے اور پیش افتادہ واقعات میں نہ جھوٹ کی گنجائش ہے نہ انکار کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم کی بے وقوفی کو نمایاں کرنے کے لیے جواب میں تعریض کی صورت اختیار کی، کھلا اقرار نہیں کیا، اس لیے کہ واقعہ تو معلوم ہی تھا، فرمایا۔ اس بڑے بت نے ہی یہ کیا ہے۔اور انہوں نے سر نیچا کئے ندامت سے اقرار کیا، تم جانتے ہو یہ تو بول نہیں سکتے۔ اصل مقصد یہی تھا کہ ان کی زبان سے ان کے دین کی کمزوری ظاہر ہو جائے، ورنہ دونوں فریق جانتے تھے کہ جسے بولنے کی ہمت نہیں، اسے توڑنے کی قدرت کہاں سے ہوگی۔
یہ واقعہ سورہ الانبیاء آیت 52 سے لے کر 66 تک بیان ہوا۔یاد کرو وہ موقع جبکہ اُس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ "یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہو رہے ہو؟" انہوں نے جواب دیا "ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے" اس(حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے کہا "تم بھی گمراہ ہو اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے؟" انہوں نے کہا "کیا تو ہمارے سامنے اپنے اصلی خیالات پیش کر رہا ہے یا مذاق کرتا ہے؟" اس (حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے جواب دیا "نہیں، بلکہ فی الواقع تمہارا رب وہی ہے جو زمین اور آسمانوں کا رب اور اُن کا پیدا کرنے والا ہے اِس پر میں تمہارے سامنے گواہی دیتا ہوں، اور خدا کی قسم میں تمہاری غیر موجودگی میں ضرور تمہارے بتوں کی خبر لوں گا"چنانچہ اس(حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور صرف ان کے بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں۔(اُنہوں نے آ کر بتوں کا یہ حال دیکھا تو) کہنے لگے "ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کر دیا؟ بڑا ہی کوئی ظالم تھا وہ"(بعض لوگ) بولے "ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سُنا تھا جس کا نام ابراہیمؑ ہے"انہوں نے کہا "تو پکڑ لاؤ اُسے سب کے سامنے تاکہ لوگ دیکھ لیں (اُس کی کیسی خبر لی جاتی ہے)"(ابراہیم علیہ السلام کے آنے پر) اُنہوں نے پوچھا "کیوں ابراہیمؑ، تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟"اُس(حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے جواب دیا "بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے، اِن ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں"یہ سُن کر وہ لوگ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور (اپنے دلوں میں) کہنے لگے "واقعی تم خود ہی ظالم ہو" مگر پھر اُن کی مت پلٹ گئی اور بولے "تُو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں"ابراہیمؑ نے کہا "پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔(النساء 52-66)بہرحال، اس واقعے میں آیت نمبر 63 میں حضرت ابراہیم کا یہ جملہ کہ یہ کیا دھرا اس بڑے بت کا ہے، یہ وہ جملہ ہے کہ جس پر احادیث میں لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا ہے، جس کا درست مفہوم تعریض یا توریہ کے ساتھ ادا کیا جا سکتا ہے۔ اور ہر شخص یہاں دیکھ سکتا ہے کہ بظاہر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خلاف واقعہ بات ہی کہی ہے۔ بتوں کو توڑا تو خود ہی تھا، جیسا کہ آیت 58 سے ظاہر ہے، لیکن الزام بڑے بت پر لگا دیا، جیسا کہ آیت 63 سے ظاہر ہے، اگرچہ ان کی نیت فقط سمجھانے کی تھی۔ لہٰذا اسے خلاف واقعہ بات کہئے، تعریض کا نام دیجئے یا توریہ کہہ لیں۔ اگر آپ حدیث میں لفظ کذب سے جھوٹ مراد لیتے ہیں تو پھر یہ جھوٹ تو خود قرآن سے ثابت ہے۔ لہٰذا حدیث لکھ کر نعوذباللہ اور استغفراللہ کی گردان کرنے والوں کو آیت 21:63 لکھ کر بھی یہی گردان کرنی چاہئے۔ اور اگر آپ ہماری طرح یہاں توریہ یا تعریض مراد لیتے ہیں تو فبہا، کیونکہ اس طرح قرآن و حدیث دونوں کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام پر کوئی آنچ نہیں آتی۔
دوسرا واقعہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی علالت:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میں بیمار ہوں، زیر بحث حدیث میں یہ دوسرا واقعہ ہے جس پر کذب کا اطلاق کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ بھی خود قرآن ہی سے ثابت ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ لوگ کسی تہوار یا اجتماعی کام کے لیے جانا چاہتے تھے، ان کی خواہش تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے ہمراہ چلیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے اپنے حلفی بیان کے مطابق بتوں کو توڑنے کا پروگرام موجود تھا۔ ستاروں پر نگاہ ڈال کر فرمایا: فَقَالَ اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ (الصافات: 89)میں بیمار ہوں۔ قوم چھوڑ کر چلی گئی تو اسی بیمار ابراہیم نے پورے بت خانہ کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ اب یہاں سقیم کے اظہار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توریہ سے کام لیا۔ یہ ابہام اور تعریض تھی جو بالکل سچائی اور حقیقت پر مبنی تھی، مگر قوم نے اسے واقعی اہم بیماری سمجھا۔ انہیں حق ہے کہ اس من وجہ صداقت کو کذب سے تعبیر کریں۔ اس لئے تعریض اور توریہ کو من وجہ کذب کہا جا سکتا ہے۔اب خود سوچئے ایسا مریض جو قوم کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہی پورے بت خانہ کا صفایا کر سکتا ہے، سینکڑوں مصنوعی خداؤں کو چند گھڑیوں میں پیوند خاک کر سکتا ہے، اس کی بیماری کی کمیت اور کیفیت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ یہ تعریض ہی کے پیمانہ سے ناپی جا سکتی ہے، جس کا اندازہ دوست اور دشمن اپنے نقطہ نظر سے لگا سکیں۔ حدیث پر ہمہ وقت تنقید و تبرا کے لئے تیار، الزامات و اتہامات کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے والے، آخر خود قرآن کو اسی نظر سے کیوں نہیں دیکھتے؟ دیانت کا تقاضا تو یہ ہے کہ حدیث کے اقتباسات لے کر جس نہج پر تنقید کی جاتی ہے، قرآن سے وہی چیز ثابت ہو جائے تو قرآن کو بھی لپیٹ میں لے لیا جائے اور یا پھر اللہ سے ڈر جائیں اور حدیث پر غیر ضروری اور نامناسب شکوک و شبہات پید اکرنے سے باز آ جائیں۔
تیسرا واقعہ: بیوی یا بہن:
تیسرے توریہ کے متعلق حدیث اپنی وضاحت آپ کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ میں نے ظالم کے پاس تمہیںاپنی بہن کہا ہے، تم میری تکذیب نہ کرنا ، کیونکہ دین کے لحاظسے تم میری بہن ہو اور اس سرزمین میںتمہارے سوا کسی سے میرا یہ دینی رشتہ نہیں ہے۔س تعریض کی حقیقت، ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ سے خود ظاہر فرما دی کہ اس سے دینی اخوت مراد ہے ، گو کہ ظالم اس سے بظاہر نسبی اخوت سمجھے گا۔ اس تعریض سے یہی مغالطہ مقصود ہے۔ تاکہ عصمت بھی محفوظ رہے اور شر بھی نہ پہنچ سکے۔ایسے حالات میں تو اگر عصمت کی حفاظت اور حدود اللہ کے احترام کے لئے اگر واضح جھوٹ بھی بولا جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعریض کی راہ اختیار فرمائی، جو درحقیقت صحیح ہے اور اس کی سچائی معلوم۔علامہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:اس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ کے سامنے حقیقت کھول دی، ظالم کو مغالطہ میںرکھا ۔ تعریض کا یہی مطلب ہے۔
قادیانیوں کے معروف مفسر قرآن مرزائی صلاح الدین سورۃ النساء کی آیت کی تفسیر میں لکھتیں ہیں کہ: ایسے طرز کلام کو انگریزی میں (Irony) اور عربی میں تعریض کہتے ہیں اس میں معانی ظاہری الفاظ کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ بخاری و مسلم میں یہ حدیث درج ہے لم یکذب ابراھیم النبی قط الاثلاث کذبات کہ ابراہیم نے صرف تین دفعہ جھوٹ بولا ہے ان باتوں کو محض ظاہری شکل و صورت کی مشابہت کی وجہ سے کذب کیا گیا ہے ورنہ دراصل وہ معاریض کلام ہیں۔ اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور کا نفس اور حضور کی تعلیم اس قدر پاک تھی کہ حضور نے توریہ کو بھی کذب کا نام دیا ہے۔ (ترجمہ و تفسیر قرآن ص۱۵۵۱، ج۳ طبعہ اسلام آباد ۱۹۸۱ء مؤلفہ صلاح الدین قادیانی)
جس حدیث سے ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت اور ان کی سچائی نظر آتی ہے، اسی سے ہمارے ان بھائیوں کو توہین و تنقیص کا پہلو ملتا ہے۔اس حدیثسے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زندگی بھر کبھی توریہ یا تعریض تک نہیں کی ماسوائے ان تین مقامات کے کہ جہاں انہوں نے دعوت و تبلیغ کی خاطر یا عصمت کی حفاظت کی خاطر توریہ کیا۔ ڈیڑھ صد سال سے بھی زائد عرصہ کی زندگی میں فقط تین ناگزیر مقامات کے علاوہ کبھی بھی خلاف واقعہ بات کا نہ کہنا بجائے خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہت بڑی فضیلت اور ان کی سچائی کا ثبوت ہے۔اس حدیثمیںدراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جھوٹ بولنے کی نفی کی گئی ہے نا کہ اسے ثابت کیا گیا ہے۔ علماء کی اصطلاح میںاس طرز کلام کو تاکید المدح بما یشبہ الذم کہتے ہیں۔ یعنی مدح میںاس طرحتاکیدی حکم لگانا کہ بظاہر اس میںمذمت کا پہلو نکلتا ہو۔ س حدیث کا یہی مطلب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نہایت راست باز تھے۔پس ثابت ہوا کہ اگر وہ جھوٹے ہوتے تو ان تین مقامات پر بھی واضح جھوٹ بولتے، لیکن انہوں نے سنگین ترین مقامات پر بھی فقط توریہ سے کام لیا، لہٰذا ثابت ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔
اب آئیں مرزا قادیانی کے ایک جھوٹ پہ۔
یہ اسوقت کی بات ہے جب برصغیر میں طاعون کی وبا پھٹی ہوئی تھی....مرزا صاحب نے پہلے تو بہت پیشگوئیاں کی کہ انکا کوئی مرید اس سے متاثر نہیں ہو گا اور یہ طاعون ان کی اپنی دعا اور ایک نبی کی انکاری کی بنا پر آئی ہے.... مگر جب اس ڈھکوسلے سے مریدوں کا کام نہ بنا تو مرزا صاحب نے پہلے قادیان پھر اپنے گھر میں موجود لوگوں کو اس پیشگوئی کا مصداق ٹھہرایا۔ اور مرزا صاحب اپنے مریدوں کو ایک عام ہدایت کی غرض سے ایک اشتہار شائع کیا۔ اسمیں مرزا صاحب جن کا دعوی تھا کے وہ سلطان القلم ہے، وہ جب کوئی عبارت لکھتے ہیں تو انھیں اندر سے تربیت دی جاتی ہے، لکھتے ہے۔
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہو تو اس شہر کے لوگوں کو چاہیے بلا توقف اس شہر کو چھوڑ دیں ورنہ وہ خدا سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے"
(ریویو آف ریلیجینز ستمبر 1907 صفحہ365)
کیا کوئی قادیانی اس بات کو حدیث رسول ﷺ سے ثابت کر سکتا ہے؟
حدیث رسول ﷺ کا مفہوم ہے جس نے مجھ پرجھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ قادیانی حضرات اپنا محاسبہ خود کر لیں۔
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لم يكذب إبراهيم إلا في ثلاث كذبات : ثنتين منهن في ذات الله قوله ( إني سقيم ) وقوله ( بل فعله كبيرهم هذا ) وقال : بينا هو ذات يوم وسارة إذ أتى على جبار من الجبابرة فقيل له : إن ههنا رجلا معه امرأة من أحسن الناس فأرسل إليه فسأله عنها : من هذه ؟ قال : أختي فأتى سارة فقال لها : إن هذا الجبار إن يعلم أنك امرأتي يغلبني عليك فإن سألك فأخبريه أنك أختي فإنك أختي في الإسلام ليس على وجه الأرض مؤمن غيري وغيرك فأرسل إليها فأتي بها قام إبراهيم يصلي فلما دخلت عليه ذهب يتناولها بيده . فأخذ - ويروى فغط - حتى ركض برجله فقال : ادعي الله لي ولا أضرك فدعت الله فأطلق ثم تناولها الثانية فأخذ مثلها أو أشد فقال : ادعي الله لي ولا أضرك فدعت الله فأطلق فدعا بعض حجبته فقال : إنك لم تأتني بإنسان إنما أتيتني بشيطان فأخدمها هاجر فأتته وهو قائم يصلي فأومأ بيده مهيم ؟ قالت : رد الله كيد الكافر في نحره وأخدم هاجر " قال أبو هريرة : تلك أمكم يا بني ماء السماء
(حدیث نمبر 75 باب نمبر 42 کتاب النکاح بخاری)
پوسٹ مارٹم
جو جھوٹ ہم مرزا قادیانی کے پیش کرتے ہیں وہ واقعتاً جھوٹ ہوتے ہیں جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کلام تو توریہ اور تعریض کے طور پر ہے وہ حقیقت میں جھوٹ ہے ہی نہیں سمجھنے والوں کی غلطی ہے ورنہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کلام کیا ہے وہ مبنی پر حقیقت ہے۔ مرزا قادیانی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نسبت اس راویت کی رو سے جھوٹ کا الزام لگانے والوں کو خبیث شیطان پلید مادہ والاکہا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ حضرت ابراہیم کی نسبت یہ تحریر شائع کرے کہ مجھے جس قدر ان پر بد گمانی ہے اس کی وجہ ان کی دروغ گوئی ہے تو ایسے خبیث کی نسبت اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اس کی فطرت ان پاک لوگوں کی فطرت سے مغائر پڑی ہوئی ہے اور شیطان کی فطرت کے موافق اس کا پلید مادہ اور خمیر ہے ۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۹۸روحانی خزائن ج۵ص۵۹۸)
اصل مغالطہ اس حدیث میںاستعمال کئے جانے والے لفظ’کذب‘ سے پیدا ہوا ہے۔ اس لفظ کی لغوی تحقیق پیش خدمت ہے۔
1)کذب کے معنی ترغیب دلانا بھی مستعمل ہے، کذبتہ نفسہ کے معنی ہیں:اس کے دل نے اسے ترغیب دلائی۔
2) کذب، وجوب کے معنی میں آتا ہے: قال الجوھری:کذب قد یکون بمعنی وجب وقال الفراء کذب علیک ای وجب علیک (نھایہ ابن اثیر: 12/4) .. [النھایۃ فی غریب الاثر لابن الاثیر 282/4ْْ]۔
جوہری اور فراء کہتے ہیں:کذب معنی وجب پر ہے۔
3) کذب، لزم کے معنی میں آتا ہے۔ کذب علیکم الحج و العمرۃ۔ تم پر حج اور عمرہ لازم ہو گیا ہے۔ [ النھایۃ فی غریب الاثر لابن الاثیر 282/4ْْ ]
4) غلطی یا خطا کے معنی میںبھی یہی لفظکذب استعمال ہوتا ہے۔ حدیثمیںہے:کذب ابو محمد [ابو داؤد: برقم 425] یعنی ابو محمد نے غلطی کی۔ ذو الرمہ شاعر نے کہا: ما فی سمعہ کذب۔ اس کے سماع میں غلطی نہیں.[النھایۃ: 282/4]
اسی طرح امام راغب نے مفردات القرآن 288/2 میں فرمایا، اور دیگر کتب لغات میں بھی اسی قسم کی تفصیل موجود ہے۔ مثلاً دیکھئے: لسان العرب : 708/1،الفائق للزمخشری: 250/3،القاموس المحیط: 166،تاج العروس: 897/1۔یہ لغوی تحقیق یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ جس ایک لفظ کی بنیاد پر انبیاء،احادیث، ائمہ حدیث اور راویان حدیث پر جو گند مچایا جا رہا ہے وہ انتہائی کمزور دلیل ہے۔
ایک بات زہئن میں رہے یہ واقعات قرآن میں موجود ہیں اور پھر اگر ہم حدیث کے الفاظ کی بحث میں دیکھیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جن واقعات پر لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا ہے، وہ توریہ اور تعریض کی شرط پر پورا اترتے ہیں نا کہ جھوٹ کی۔
تعریض اور توریہ کیا ہے؟
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے نہایت عمدہ وضاحت کی ہے کہ سچ اور جھوٹ کی تشخیص میں نفس الامر اور متکلم کے قصد اور ارادہ کو بھی دخل ہے۔ اس لحاظ سے اس کی تین صورتیں ہوں گی۔
1)متکلم صحیح اور واقعہ کے مطابق کہے اور مخاطب کو وہی سمجھانا چاہے جو فی الحقیقت ہے۔ یہ دونوں لحاظ (واقعہ اور ارادہ) سے سچ ہے۔
2)متکلم خلاف واقعہ کہے اور مخاطب کو اپنے مقصد سے آگاہ نہ کرنا چاہے بلکہ ایک تیسری صورت پیدا کر دے جو نہ صحیح ہو اور نہ ہی متکلم کا مطلب اور مراد ہو۔ یہ واقعہ اور ارادہ دونوں لحاظ سے جھوٹ ہوگا۔
3)لیکن اگر متکلم صحیح اور نفس الامر کے مطابق گفتگو کرے لیکن مخاطب کو اندھیرے میں رکھنا چاہے اور اپنے مقصد کو اس پر ظاہر نہ ہونے دے اسے تعریض اور توریہ کہا جاتا ہے۔ یہ ”متکلم کے لحاظ سے صدق ہے اور تفہیم کے لحاظ سے کذب ہے۔“صدق اور کذب میں جس طرح واقعے کو دخل ہے، اسی طرح ارادے کو بھی دخل ہے۔ صدق اور کذب کا معنی سمجھ لینے کے بعد ایک تیسری چیز بھی ذہن میں آ جانی چاہئے۔ جب متکلم خبر واقع اور مخبر عنہ کے مطابق دے، لیکن اس واقع اور حقیقت کو مخاطب سے مخفی رکھنا چاہے، تو اسے تعریض یا توریہ کہتے ہیں۔ یہ حقیقت میں سچ ہوتا ہے لیکن ایک لحاظ سے اسے جھوٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔امام راغب رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔"تعریض ایسی گفتگو ہوتی ہے، جس کے ہر دو پہلو ہوتے ہیں۔ من وجہ صدق اور من وجہ کذب۔ جیسے فیما عرضتم بہ من خطبۃ النساء سے واضح ہے۔"[مفردات القرآن : 85/2]
اور یہی تعریض یا توریہ بہت سی جگہوں پر ثابت ہے۔ مثلاً سفر ہجرت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے جب پوچھا جاتا کہ تمہارے ساتھ کون ہیں تو فرماتے: رجل یھدینی السبیل، کہ میرے رہبر ہیں۔ یہ مکمل صدق بھی نہیں کہ مخاطب اس سے دنیاوی رہبر سمجھتا تھا۔ اور مکمل جھوٹ بھی نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہرحال دینی لحاظ سے تو رہبر ہی ہیں۔قرآن سے بھی اس کی مثال پیش ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے منافقین کے تذکرہ میں فرمایا: إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (المنافقون۱) جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ الله کے رسول ہیں اور الله جانتا ہے کہ بے شک آپ اس کے رسول ہیں اور الله گواہی دیتا ہے کہ بے شک منافق جھوٹے ہیں. یہاں منافقین کی صحیح بات کی بھی تصدیق نہیں فرمائی ، اس لئے کہ یہ ان کے ضمیر کی آواز نہیں، بلکہ ضمیر کی آواز اس کے خلاف ہے۔ اگرچہ ان کی بات درحقیقت سچ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ لیکن ان کا ضمیر اس حقیقت کو قبول کرنے میں مانع ہے، لہٰذا فقط غلط ارادے کی بنیاد پر ان کی مکمل بات ہی کی تغلیط کر دی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ فقط حقیقت واقعہ کی اہمیت نہیں، بلکہ اس پر متکلم کا ارادہ بھی جھوٹ کا اطلاق کرنے کے لئے ازحد ضروری ہے۔
(ذہن نشین کر لیجئے کہ ان تین واقعات(جن کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہوا) میں سے دو تو خود قرآن ہی میں موجود ہیں اور ایک حدیث میں۔ اب یہاں بھی معترضین حدیث کا تضاد ، کج فکری اور تعصب کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ ایک ہی واقعہ اگر قرآن میں ہو تو اس کی تو ڈھیروں تاویلات کر کے اس کو "درست" بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور وہی واقعہ حدیث میں ہو تو اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔)
پہلا واقعہ: بت شکنی
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب قوم کو بت پوجتے دیکھا، تو فرمایا:ان بتوں کے ساتھ تم نے کیا تماشا بنا رکھا ہے،پھر پوری صراحت سے حلفی اعلان فرمایا: تمہاری غیر حاضری میں یقینا تمہارے ان بتوں کا تیا پانچہ کر کے رہوں گا۔غور فرمائیے، اس اعلان اور حلفی بیان کے بعد جھوٹ بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قوم اپنے مشاغل کے لئے چلی گئی، ان کی غیر موجودگی میں پورے اطمینان سے بڑے بت کے سوا باقی بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا، واپسی پر جب بت خانہ ویران پایا تو کہرام مچ گیا، بڑے حزن و ملال سے قوم کے چودھریوں نے کہا: کسی بڑے ظالم نے ہمارے بتوں کا یہ برا حال کیا ہے۔بات ڈھکی چھپی نہ تھی، حلفی اعلان ان کے کانوں میں تھا، فوراً حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ملزم قرار دیا گیا۔ ایک ابراہیم نامی نوجوان کو ہم نے سنا تھا وہ ان کو برا بھلا کہتا تھا۔اسی وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلانے کا فیصلہ ہوا کہ اسے کھلی عدالت میں پیش کر کے اس کے خلاف شہادت قائم کرو۔اس قدر کھلے اور پیش افتادہ واقعات میں نہ جھوٹ کی گنجائش ہے نہ انکار کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قوم کی بے وقوفی کو نمایاں کرنے کے لیے جواب میں تعریض کی صورت اختیار کی، کھلا اقرار نہیں کیا، اس لیے کہ واقعہ تو معلوم ہی تھا، فرمایا۔ اس بڑے بت نے ہی یہ کیا ہے۔اور انہوں نے سر نیچا کئے ندامت سے اقرار کیا، تم جانتے ہو یہ تو بول نہیں سکتے۔ اصل مقصد یہی تھا کہ ان کی زبان سے ان کے دین کی کمزوری ظاہر ہو جائے، ورنہ دونوں فریق جانتے تھے کہ جسے بولنے کی ہمت نہیں، اسے توڑنے کی قدرت کہاں سے ہوگی۔
یہ واقعہ سورہ الانبیاء آیت 52 سے لے کر 66 تک بیان ہوا۔یاد کرو وہ موقع جبکہ اُس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ "یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہو رہے ہو؟" انہوں نے جواب دیا "ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے" اس(حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے کہا "تم بھی گمراہ ہو اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے؟" انہوں نے کہا "کیا تو ہمارے سامنے اپنے اصلی خیالات پیش کر رہا ہے یا مذاق کرتا ہے؟" اس (حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے جواب دیا "نہیں، بلکہ فی الواقع تمہارا رب وہی ہے جو زمین اور آسمانوں کا رب اور اُن کا پیدا کرنے والا ہے اِس پر میں تمہارے سامنے گواہی دیتا ہوں، اور خدا کی قسم میں تمہاری غیر موجودگی میں ضرور تمہارے بتوں کی خبر لوں گا"چنانچہ اس(حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور صرف ان کے بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں۔(اُنہوں نے آ کر بتوں کا یہ حال دیکھا تو) کہنے لگے "ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کر دیا؟ بڑا ہی کوئی ظالم تھا وہ"(بعض لوگ) بولے "ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سُنا تھا جس کا نام ابراہیمؑ ہے"انہوں نے کہا "تو پکڑ لاؤ اُسے سب کے سامنے تاکہ لوگ دیکھ لیں (اُس کی کیسی خبر لی جاتی ہے)"(ابراہیم علیہ السلام کے آنے پر) اُنہوں نے پوچھا "کیوں ابراہیمؑ، تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟"اُس(حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے جواب دیا "بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے، اِن ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں"یہ سُن کر وہ لوگ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور (اپنے دلوں میں) کہنے لگے "واقعی تم خود ہی ظالم ہو" مگر پھر اُن کی مت پلٹ گئی اور بولے "تُو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں"ابراہیمؑ نے کہا "پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن چیزوں کو پوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔(النساء 52-66)بہرحال، اس واقعے میں آیت نمبر 63 میں حضرت ابراہیم کا یہ جملہ کہ یہ کیا دھرا اس بڑے بت کا ہے، یہ وہ جملہ ہے کہ جس پر احادیث میں لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا ہے، جس کا درست مفہوم تعریض یا توریہ کے ساتھ ادا کیا جا سکتا ہے۔ اور ہر شخص یہاں دیکھ سکتا ہے کہ بظاہر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خلاف واقعہ بات ہی کہی ہے۔ بتوں کو توڑا تو خود ہی تھا، جیسا کہ آیت 58 سے ظاہر ہے، لیکن الزام بڑے بت پر لگا دیا، جیسا کہ آیت 63 سے ظاہر ہے، اگرچہ ان کی نیت فقط سمجھانے کی تھی۔ لہٰذا اسے خلاف واقعہ بات کہئے، تعریض کا نام دیجئے یا توریہ کہہ لیں۔ اگر آپ حدیث میں لفظ کذب سے جھوٹ مراد لیتے ہیں تو پھر یہ جھوٹ تو خود قرآن سے ثابت ہے۔ لہٰذا حدیث لکھ کر نعوذباللہ اور استغفراللہ کی گردان کرنے والوں کو آیت 21:63 لکھ کر بھی یہی گردان کرنی چاہئے۔ اور اگر آپ ہماری طرح یہاں توریہ یا تعریض مراد لیتے ہیں تو فبہا، کیونکہ اس طرح قرآن و حدیث دونوں کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام پر کوئی آنچ نہیں آتی۔
دوسرا واقعہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی علالت:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میں بیمار ہوں، زیر بحث حدیث میں یہ دوسرا واقعہ ہے جس پر کذب کا اطلاق کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ بھی خود قرآن ہی سے ثابت ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ لوگ کسی تہوار یا اجتماعی کام کے لیے جانا چاہتے تھے، ان کی خواہش تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے ہمراہ چلیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے اپنے حلفی بیان کے مطابق بتوں کو توڑنے کا پروگرام موجود تھا۔ ستاروں پر نگاہ ڈال کر فرمایا: فَقَالَ اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ (الصافات: 89)میں بیمار ہوں۔ قوم چھوڑ کر چلی گئی تو اسی بیمار ابراہیم نے پورے بت خانہ کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ اب یہاں سقیم کے اظہار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توریہ سے کام لیا۔ یہ ابہام اور تعریض تھی جو بالکل سچائی اور حقیقت پر مبنی تھی، مگر قوم نے اسے واقعی اہم بیماری سمجھا۔ انہیں حق ہے کہ اس من وجہ صداقت کو کذب سے تعبیر کریں۔ اس لئے تعریض اور توریہ کو من وجہ کذب کہا جا سکتا ہے۔اب خود سوچئے ایسا مریض جو قوم کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہی پورے بت خانہ کا صفایا کر سکتا ہے، سینکڑوں مصنوعی خداؤں کو چند گھڑیوں میں پیوند خاک کر سکتا ہے، اس کی بیماری کی کمیت اور کیفیت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ یہ تعریض ہی کے پیمانہ سے ناپی جا سکتی ہے، جس کا اندازہ دوست اور دشمن اپنے نقطہ نظر سے لگا سکیں۔ حدیث پر ہمہ وقت تنقید و تبرا کے لئے تیار، الزامات و اتہامات کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے والے، آخر خود قرآن کو اسی نظر سے کیوں نہیں دیکھتے؟ دیانت کا تقاضا تو یہ ہے کہ حدیث کے اقتباسات لے کر جس نہج پر تنقید کی جاتی ہے، قرآن سے وہی چیز ثابت ہو جائے تو قرآن کو بھی لپیٹ میں لے لیا جائے اور یا پھر اللہ سے ڈر جائیں اور حدیث پر غیر ضروری اور نامناسب شکوک و شبہات پید اکرنے سے باز آ جائیں۔
تیسرا واقعہ: بیوی یا بہن:
تیسرے توریہ کے متعلق حدیث اپنی وضاحت آپ کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ میں نے ظالم کے پاس تمہیںاپنی بہن کہا ہے، تم میری تکذیب نہ کرنا ، کیونکہ دین کے لحاظسے تم میری بہن ہو اور اس سرزمین میںتمہارے سوا کسی سے میرا یہ دینی رشتہ نہیں ہے۔س تعریض کی حقیقت، ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ سے خود ظاہر فرما دی کہ اس سے دینی اخوت مراد ہے ، گو کہ ظالم اس سے بظاہر نسبی اخوت سمجھے گا۔ اس تعریض سے یہی مغالطہ مقصود ہے۔ تاکہ عصمت بھی محفوظ رہے اور شر بھی نہ پہنچ سکے۔ایسے حالات میں تو اگر عصمت کی حفاظت اور حدود اللہ کے احترام کے لئے اگر واضح جھوٹ بھی بولا جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعریض کی راہ اختیار فرمائی، جو درحقیقت صحیح ہے اور اس کی سچائی معلوم۔علامہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:اس مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ کے سامنے حقیقت کھول دی، ظالم کو مغالطہ میںرکھا ۔ تعریض کا یہی مطلب ہے۔
قادیانیوں کے معروف مفسر قرآن مرزائی صلاح الدین سورۃ النساء کی آیت کی تفسیر میں لکھتیں ہیں کہ: ایسے طرز کلام کو انگریزی میں (Irony) اور عربی میں تعریض کہتے ہیں اس میں معانی ظاہری الفاظ کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ بخاری و مسلم میں یہ حدیث درج ہے لم یکذب ابراھیم النبی قط الاثلاث کذبات کہ ابراہیم نے صرف تین دفعہ جھوٹ بولا ہے ان باتوں کو محض ظاہری شکل و صورت کی مشابہت کی وجہ سے کذب کیا گیا ہے ورنہ دراصل وہ معاریض کلام ہیں۔ اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور کا نفس اور حضور کی تعلیم اس قدر پاک تھی کہ حضور نے توریہ کو بھی کذب کا نام دیا ہے۔ (ترجمہ و تفسیر قرآن ص۱۵۵۱، ج۳ طبعہ اسلام آباد ۱۹۸۱ء مؤلفہ صلاح الدین قادیانی)
جس حدیث سے ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فضیلت اور ان کی سچائی نظر آتی ہے، اسی سے ہمارے ان بھائیوں کو توہین و تنقیص کا پہلو ملتا ہے۔اس حدیثسے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زندگی بھر کبھی توریہ یا تعریض تک نہیں کی ماسوائے ان تین مقامات کے کہ جہاں انہوں نے دعوت و تبلیغ کی خاطر یا عصمت کی حفاظت کی خاطر توریہ کیا۔ ڈیڑھ صد سال سے بھی زائد عرصہ کی زندگی میں فقط تین ناگزیر مقامات کے علاوہ کبھی بھی خلاف واقعہ بات کا نہ کہنا بجائے خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہت بڑی فضیلت اور ان کی سچائی کا ثبوت ہے۔اس حدیثمیںدراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جھوٹ بولنے کی نفی کی گئی ہے نا کہ اسے ثابت کیا گیا ہے۔ علماء کی اصطلاح میںاس طرز کلام کو تاکید المدح بما یشبہ الذم کہتے ہیں۔ یعنی مدح میںاس طرحتاکیدی حکم لگانا کہ بظاہر اس میںمذمت کا پہلو نکلتا ہو۔ س حدیث کا یہی مطلب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نہایت راست باز تھے۔پس ثابت ہوا کہ اگر وہ جھوٹے ہوتے تو ان تین مقامات پر بھی واضح جھوٹ بولتے، لیکن انہوں نے سنگین ترین مقامات پر بھی فقط توریہ سے کام لیا، لہٰذا ثابت ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔
اب آئیں مرزا قادیانی کے ایک جھوٹ پہ۔
یہ اسوقت کی بات ہے جب برصغیر میں طاعون کی وبا پھٹی ہوئی تھی....مرزا صاحب نے پہلے تو بہت پیشگوئیاں کی کہ انکا کوئی مرید اس سے متاثر نہیں ہو گا اور یہ طاعون ان کی اپنی دعا اور ایک نبی کی انکاری کی بنا پر آئی ہے.... مگر جب اس ڈھکوسلے سے مریدوں کا کام نہ بنا تو مرزا صاحب نے پہلے قادیان پھر اپنے گھر میں موجود لوگوں کو اس پیشگوئی کا مصداق ٹھہرایا۔ اور مرزا صاحب اپنے مریدوں کو ایک عام ہدایت کی غرض سے ایک اشتہار شائع کیا۔ اسمیں مرزا صاحب جن کا دعوی تھا کے وہ سلطان القلم ہے، وہ جب کوئی عبارت لکھتے ہیں تو انھیں اندر سے تربیت دی جاتی ہے، لکھتے ہے۔
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہو تو اس شہر کے لوگوں کو چاہیے بلا توقف اس شہر کو چھوڑ دیں ورنہ وہ خدا سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے"
(ریویو آف ریلیجینز ستمبر 1907 صفحہ365)
کیا کوئی قادیانی اس بات کو حدیث رسول ﷺ سے ثابت کر سکتا ہے؟
حدیث رسول ﷺ کا مفہوم ہے جس نے مجھ پرجھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ قادیانی حضرات اپنا محاسبہ خود کر لیں۔