محمد اورنگ زیب رضوی
رکن ختم نبوت فورم
*کیا وبا و عذاب میں اذان دینے والی تمام احادیث ضعیف وناقابلِ عمل ہیں؟*
الحمدللہ گزشتہ رات ہر طرف اذانیں گونجی تو عجیب سا پُرکیف سماں ہو گیا۔ عجیب سے تسکین دل کو پہنچنے لگی۔
لیکن ساتھ ہی کچھ لوگوں نے فتوے جڑنے شروع کر دیئے اور اعتراض کرنا شروع کیا کہ:
وبا کیلئے اذن دینا بدعت و جہالت ہے اور وباء میں اذان کی جتنی بھی احادیث پیش کیں وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔
*الجواب::* چاہئے تو یہ تھا کہ مسلمانوں کے اس فعل کو سراہتے اور اللہ سے دعا کرتے کہ اے اللہ مسلمانوں سے اس وبا کو دور فرما لیکن شیطان کو کہاں منظور تھا کہ اللہ کے بندے اللہ کا کلمہ بلند کریں۔ الٹا بدعت و جہالت کے فتوے جڑنا شروع کر دیئے۔ آئیے اب معترض کے اعتراض کی طرف آتے ہیں۔
معترض نے کہا کہ وبا میں اذان دینا بدعت ہے کیونکہ اس بارے میں جو احادیث پیش کی گئیں وہ ضعیف ہیں۔
*اقول:* جب مختلف احادیث ایک ہی معنیٰ کی ہوں تو سب ملکر قوی درجہ کو پہنچ جاتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر چلو بالفرض تمہارے بقول اگر ان احادیث کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی وھابی محدث کے اصول کے مطابق ان پر عمل کرنا جائز ہے اور بدعت کہنا تشدد فی الدین ہے۔
وھابیہ کے مناظرِ اعظم ، مولوی ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ:
” بعد نمازِ فرض ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنے کا ذکر دو روایتوں میں آیا ہے جن کو حضرت میاں (نذیر حسین) صاحب دھلوی نے اپنے فتوے میں نقل کیا- گو وہ ضعیف ہیں مگر ضعیف حدیث کے ساتھ بھی جو فعل ثابت ہو وہ بدعت نہیں ہوتاـ ایسا تشدد کرنا اچھا نہیں“
[فتاویٰ ثنائیہ، جلد اول، صفحہ 508، مطبوعہ ملکتبہ اصحاب الحدیث لاھور]
تو وھابیہ کے امام نے مانا کہ جو فعل ضعیف حدیث سے ثابت ہو وہ بدعت نہیں ہوتا اسکو بدعت کہنا تشدد ہے۔
اور خود وھابیہ کے شیخ الکل مولوی نذیر حسین دھلوی بھی انہی ضعیف حدیث پر عمل کرتے تھے۔
اب اگر آپکی بات مان بھی لی جائے کہ وبا وعذاب میں اذان والی حدیث ضعیف ہے۔
تو بھی آپکے شیخ الاسلام کے اصول کے مطابق اس پر عمل جائز اور اسکو بدعت کہنے والا متشدد فی الدین ہے۔
اور اگر پھر بھی بدعت کہو گے تو مولوی ثناء اللہ امرتسری سمیت مولوی نذیر حسین دھلوی بھی بدعتی اور جہمنی ٹہریں گے۔ کیونکہ آپکا مشہور ورد : کل ضلالة فی النار
مولوی ثناء الله امرتسری نے اسی فتاویٰ کی دوسری جلد میں لکھا کہ:
” (ضعیف) حدیث کے معنے ہیں جس میں صحیح کی شرائط نہ پائی جائیں۔ وہ کئ قسم کی ہوتی ہیں۔ اگر اس کے مقابل میں صحیح حدیث نہیں تو اس پر عمل کرنا جائز ہےـ جیسےنماز کے شروع میں "سبحانك اللھم" پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے مگر اس پر ساری امت عمل کرتی ہے۔“
[ فتاویٰ ثنائیہ، جلد اول,، صفحہ76، مطبوعہ مکتبہ اصحاب الحدیث لاھور ]
اب اگر اسی اصول کے تحت ایسی صحیح حدیث پیش کر دیں کہ جس میں ہو کہ وباء کے وقت اذان دینا جائز نہیں۔
تب تو عمل ترک کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ضعیف حدیث کے مقابل صحیح حدیث موجود نہیں تو آپکے نزدیک پھر عمل کرنا جائز ہے۔
یا تو واضح حدیث پیش کرو کہ وبا و بلا میں اذان دینا جائز نہیں بدعت ہے۔ یا پھر تسلیم کر لو کہ کہ اذان دینا جائز ہے۔
نجدیہ کے دو محقق (۱)حافظ حامدالخضری (٢)مولوی عبداللہ ناصر رحمانی لکھتے ہیں:
” تکبیرِ تحریمہ کے بعد قراءت سے پہلے "سبحانك اللھم" پڑھنا سنت ہے (خیال رہے ثناءالله نے اس روایت کو ضعیف لکھا ہے) “
[نمازِمصطفیٰ، صفحہ 272، مطبوعہ انصار السنة پبلیکیشنز لاھور ]
اس روایت کو مولوی صادق سیالکوٹی نے بھی منسون لکھا....
[ صلٰوة الرسول، صفحہ193، مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاھور ]
اب اگر وبا و بلا میں اذان کہنا اس لئے بدعت ہے کہ یہ ضعیف حدیث سے ثابت ہے۔
پھر تو ہر وھابی بدعتی ہو جائے گا کیونکہ آپکے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری نے لکھا کہ نماز میں ثناء یعنی "سبحانك اللھم" پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے۔
اور سارے وھابیوں کا اس پر عمل ہے۔ نہ صرف عمل بلکہ اسی ضعیف حدیث سے ثابت شدہ عمل کو سنت بھی لکھا۔
ہم کریں تو ضعیف اور بدعتی ، تم کرو تو ضعیف و سنت۔
؎جو چاہے تیرا حُسن کرشمہ ساز کرے
نجدیہ کے ایک اور محقق مولوی عبدالغفور اثری نے کچھ ضعیف روایتیں اپنی کتاب میں نقل کرنے کے بعد لکھا کہ:
”محدثین کےطریقہ کے مطابق ضعیف روایات فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب میں قابلِ عمل ہوتی ہیں(آگے امام سیوطی کے استاد علامہ سخاوی کی عبارت نقل کی مزید لکھا) شیخ الاسلام ابوزکریا یحییٰ شرف الدین نووی اور دیگر علماء، محدثین، فقھاءکرام وغیرہ ھم نے فرمایاکہ: جائز اور مستحب ہےکہ فضائلِ اعمال اور ترغیب وترہیب میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے مگرشرط یہ ہے کہ وہ موضوع اور جعلی نہ ہو.... “
[ احسن الکلام، صفحہ43,44، مطبوعہ محلہ احمد پورہ سیالکوٹ ]
اگر آپکے بقول وبا و بلا و آفت میں اذان پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے۔ تو بھی آپکے محقق عبد الغفور اثری نے مانا کہ ضعیف حدیث پر عمل مستحب ہے۔ تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ اذان مستحب ہے۔
نجدیہ کے مجتہد عبد اللہ روپڑی نے لکھا کہ:
”فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل درست ہے“
[فتاویٰ اھلحدیث، جلد1، صفحہ 218، مطبوعہ ادارہ احیاء السنۃ ڈی بلاک سرگودھا]
(اختصار کے پیشِ نظر ان حوالوں کا یہیں پر اختتام کرتے ہیں۔ ورنہ اس موضوع (یعنی ضعیف حدیث ترغیب و ترہیب میں قابلِ عمل ہے) پر انکی کتب سے اتنے حوالے ہیں کہ پورا کتابچہ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ اگر ان احادیث کو ضعیف آپکے بقول ضعیف بھی مانا جائے تو بھی ان پر عمل کرنا جائز و مستحب ہے۔ اور اسکو بدعت کہنا جہالت ہے۔
اور انہی جیسی احادیث کو نقل کر کے وھابی محدث نے حجت پکڑی اور مشکلات میں اذان دینے کی تعلیم دی۔ جسکا ذکر پچھلی تحریر میں گزر چکا ہے۔ بھوپالی کے تعامل سے ہی وھابیہ کو ان احادیث کو درجہ صحت پر مان لینا چاہئے۔ کیونکہ مشکلات میں یہ اذان کا عمل ہمارا ہی نہیں بلکہ یہ طریقہ محدث وھابیہ نے بھی اپنی کتاب ”کتاب الدعا“ میں نقل کر کے مجرّب لکھا ہے۔
اللہ کریم ﷻ سے دعا ہے کہ اپنے اس بلند ہونے والے ذکر یعنی اذان کی برکت سے کورونا وائرس کی آفت کو ٹال دے اور ہمیں سکون و عافیت نصیب فرما آمین بجاہ النبی الکریم الامین ﷺ
الحمدللہ گزشتہ رات ہر طرف اذانیں گونجی تو عجیب سا پُرکیف سماں ہو گیا۔ عجیب سے تسکین دل کو پہنچنے لگی۔
لیکن ساتھ ہی کچھ لوگوں نے فتوے جڑنے شروع کر دیئے اور اعتراض کرنا شروع کیا کہ:
وبا کیلئے اذن دینا بدعت و جہالت ہے اور وباء میں اذان کی جتنی بھی احادیث پیش کیں وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔
*الجواب::* چاہئے تو یہ تھا کہ مسلمانوں کے اس فعل کو سراہتے اور اللہ سے دعا کرتے کہ اے اللہ مسلمانوں سے اس وبا کو دور فرما لیکن شیطان کو کہاں منظور تھا کہ اللہ کے بندے اللہ کا کلمہ بلند کریں۔ الٹا بدعت و جہالت کے فتوے جڑنا شروع کر دیئے۔ آئیے اب معترض کے اعتراض کی طرف آتے ہیں۔
معترض نے کہا کہ وبا میں اذان دینا بدعت ہے کیونکہ اس بارے میں جو احادیث پیش کی گئیں وہ ضعیف ہیں۔
*اقول:* جب مختلف احادیث ایک ہی معنیٰ کی ہوں تو سب ملکر قوی درجہ کو پہنچ جاتی ہیں۔ دوسرے نمبر پر چلو بالفرض تمہارے بقول اگر ان احادیث کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی وھابی محدث کے اصول کے مطابق ان پر عمل کرنا جائز ہے اور بدعت کہنا تشدد فی الدین ہے۔
وھابیہ کے مناظرِ اعظم ، مولوی ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ:
” بعد نمازِ فرض ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنے کا ذکر دو روایتوں میں آیا ہے جن کو حضرت میاں (نذیر حسین) صاحب دھلوی نے اپنے فتوے میں نقل کیا- گو وہ ضعیف ہیں مگر ضعیف حدیث کے ساتھ بھی جو فعل ثابت ہو وہ بدعت نہیں ہوتاـ ایسا تشدد کرنا اچھا نہیں“
[فتاویٰ ثنائیہ، جلد اول، صفحہ 508، مطبوعہ ملکتبہ اصحاب الحدیث لاھور]
تو وھابیہ کے امام نے مانا کہ جو فعل ضعیف حدیث سے ثابت ہو وہ بدعت نہیں ہوتا اسکو بدعت کہنا تشدد ہے۔
اور خود وھابیہ کے شیخ الکل مولوی نذیر حسین دھلوی بھی انہی ضعیف حدیث پر عمل کرتے تھے۔
اب اگر آپکی بات مان بھی لی جائے کہ وبا وعذاب میں اذان والی حدیث ضعیف ہے۔
تو بھی آپکے شیخ الاسلام کے اصول کے مطابق اس پر عمل جائز اور اسکو بدعت کہنے والا متشدد فی الدین ہے۔
اور اگر پھر بھی بدعت کہو گے تو مولوی ثناء اللہ امرتسری سمیت مولوی نذیر حسین دھلوی بھی بدعتی اور جہمنی ٹہریں گے۔ کیونکہ آپکا مشہور ورد : کل ضلالة فی النار
مولوی ثناء الله امرتسری نے اسی فتاویٰ کی دوسری جلد میں لکھا کہ:
” (ضعیف) حدیث کے معنے ہیں جس میں صحیح کی شرائط نہ پائی جائیں۔ وہ کئ قسم کی ہوتی ہیں۔ اگر اس کے مقابل میں صحیح حدیث نہیں تو اس پر عمل کرنا جائز ہےـ جیسےنماز کے شروع میں "سبحانك اللھم" پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے مگر اس پر ساری امت عمل کرتی ہے۔“
[ فتاویٰ ثنائیہ، جلد اول,، صفحہ76، مطبوعہ مکتبہ اصحاب الحدیث لاھور ]
اب اگر اسی اصول کے تحت ایسی صحیح حدیث پیش کر دیں کہ جس میں ہو کہ وباء کے وقت اذان دینا جائز نہیں۔
تب تو عمل ترک کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ضعیف حدیث کے مقابل صحیح حدیث موجود نہیں تو آپکے نزدیک پھر عمل کرنا جائز ہے۔
یا تو واضح حدیث پیش کرو کہ وبا و بلا میں اذان دینا جائز نہیں بدعت ہے۔ یا پھر تسلیم کر لو کہ کہ اذان دینا جائز ہے۔
نجدیہ کے دو محقق (۱)حافظ حامدالخضری (٢)مولوی عبداللہ ناصر رحمانی لکھتے ہیں:
” تکبیرِ تحریمہ کے بعد قراءت سے پہلے "سبحانك اللھم" پڑھنا سنت ہے (خیال رہے ثناءالله نے اس روایت کو ضعیف لکھا ہے) “
[نمازِمصطفیٰ، صفحہ 272، مطبوعہ انصار السنة پبلیکیشنز لاھور ]
اس روایت کو مولوی صادق سیالکوٹی نے بھی منسون لکھا....
[ صلٰوة الرسول، صفحہ193، مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاھور ]
اب اگر وبا و بلا میں اذان کہنا اس لئے بدعت ہے کہ یہ ضعیف حدیث سے ثابت ہے۔
پھر تو ہر وھابی بدعتی ہو جائے گا کیونکہ آپکے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری نے لکھا کہ نماز میں ثناء یعنی "سبحانك اللھم" پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے۔
اور سارے وھابیوں کا اس پر عمل ہے۔ نہ صرف عمل بلکہ اسی ضعیف حدیث سے ثابت شدہ عمل کو سنت بھی لکھا۔
ہم کریں تو ضعیف اور بدعتی ، تم کرو تو ضعیف و سنت۔
؎جو چاہے تیرا حُسن کرشمہ ساز کرے
نجدیہ کے ایک اور محقق مولوی عبدالغفور اثری نے کچھ ضعیف روایتیں اپنی کتاب میں نقل کرنے کے بعد لکھا کہ:
”محدثین کےطریقہ کے مطابق ضعیف روایات فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب میں قابلِ عمل ہوتی ہیں(آگے امام سیوطی کے استاد علامہ سخاوی کی عبارت نقل کی مزید لکھا) شیخ الاسلام ابوزکریا یحییٰ شرف الدین نووی اور دیگر علماء، محدثین، فقھاءکرام وغیرہ ھم نے فرمایاکہ: جائز اور مستحب ہےکہ فضائلِ اعمال اور ترغیب وترہیب میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے مگرشرط یہ ہے کہ وہ موضوع اور جعلی نہ ہو.... “
[ احسن الکلام، صفحہ43,44، مطبوعہ محلہ احمد پورہ سیالکوٹ ]
اگر آپکے بقول وبا و بلا و آفت میں اذان پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے۔ تو بھی آپکے محقق عبد الغفور اثری نے مانا کہ ضعیف حدیث پر عمل مستحب ہے۔ تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ اذان مستحب ہے۔
نجدیہ کے مجتہد عبد اللہ روپڑی نے لکھا کہ:
”فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل درست ہے“
[فتاویٰ اھلحدیث، جلد1، صفحہ 218، مطبوعہ ادارہ احیاء السنۃ ڈی بلاک سرگودھا]
(اختصار کے پیشِ نظر ان حوالوں کا یہیں پر اختتام کرتے ہیں۔ ورنہ اس موضوع (یعنی ضعیف حدیث ترغیب و ترہیب میں قابلِ عمل ہے) پر انکی کتب سے اتنے حوالے ہیں کہ پورا کتابچہ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ اگر ان احادیث کو ضعیف آپکے بقول ضعیف بھی مانا جائے تو بھی ان پر عمل کرنا جائز و مستحب ہے۔ اور اسکو بدعت کہنا جہالت ہے۔
اور انہی جیسی احادیث کو نقل کر کے وھابی محدث نے حجت پکڑی اور مشکلات میں اذان دینے کی تعلیم دی۔ جسکا ذکر پچھلی تحریر میں گزر چکا ہے۔ بھوپالی کے تعامل سے ہی وھابیہ کو ان احادیث کو درجہ صحت پر مان لینا چاہئے۔ کیونکہ مشکلات میں یہ اذان کا عمل ہمارا ہی نہیں بلکہ یہ طریقہ محدث وھابیہ نے بھی اپنی کتاب ”کتاب الدعا“ میں نقل کر کے مجرّب لکھا ہے۔
اللہ کریم ﷻ سے دعا ہے کہ اپنے اس بلند ہونے والے ذکر یعنی اذان کی برکت سے کورونا وائرس کی آفت کو ٹال دے اور ہمیں سکون و عافیت نصیب فرما آمین بجاہ النبی الکریم الامین ﷺ