• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

توفی کا قادیانی قاعدہ " جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول بہٖ ہو بجز مارنے کے اور کچھ نہیں" کا قرآنی جواب

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
توفی کا قادیانی قاعدہ " جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول بہٖ ہو بجز مارنے کے اور کچھ نہیں" کا قرآنی جواب

مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ:

جیسا کہ لغت میں توفّی کے معنے جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول بہٖ ہو بجز مارنے کے اور کچھ نہیں۔ ایسا ہی قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک توفّی کا لفظ صرف مارنے اور قبض روح پر ہی استعمال ہوا ہے۔ بجز اس کے سارے قرآن میں اور کوئی معنے نہیں۔
(روحانی خزائن جلد17،صفحہ374)

علم نحو میں صریح یہ قاعدہ مانا گیا ہے کہ توفّی کے لفظ میں جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول بہٖ ہو ہمیشہ اُس جگہ توفّی کے معنے مارنے اور رُوح قبض کرنے کے آتے ہیں۔
(روحانی خزائن جلد17،صفحہ162)

علم لغت میں یہ مُسلّم اور مقبول اور متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول بہٖ ہے وہاں بجز مارنے کے اور کوئی معنے توفّی کے نہیں آتے۔
(روحانی خزائن جلد17،صفحہ90)

جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر

دعوت حفظ ایمان


بسم اﷲ الرحمن الرحیم

انجاز الوفی فی لفظ التوفے

’’ ہمارا دعوی ہے کہ اہل لغت نے ’’توفاہ اﷲ‘‘ کا محاورہ خاص طور پر الگ لکھا ہے۔ تاج العروس اور لسان العرب‘ صحاح میں۔ ’’ قبص نفسہ وروحہ‘‘ لکھے ہیں۔ اس محاورہ کو لغت دانوں نے مادہ کے دیگر مشتقات سے الگ کیا ہے …… تمام علماء دیو بند وغیرہ زور لگائو۔ یہی ثابت ہو گا کہ جہاں فاعل اللہ اور مفعول ذی روح اور فعل توفی ہو وہاں بجز قبض روح اور: ’’ کوئی معنی ہر گز ہرگز نہیں۔‘‘
اس قاعدہ کے سب سے اول موجد مرزا غلام احمد قادیانی ہیں اور اس کے بعد ان کے معتقدین نے اس پر بہت کچھ شور شغب مچایا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آج اس کی پوری حقیقت ناظرین کرام کے رو برو پیش کر دوں تاکہ ایک قدیم دعویٰ کی حقیقت سے پردہ اٹھ جائے اور اس قاعدہ کی اصلی تصویر جناب ملاحظہ فرما سکیں۔ میں مرزائی صاحبان سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی اس مضمون کو اول سے آخر تک تعصب سے برطرف ہو کر نہایت انصاف اور بلارو ورعایت ملاحظہ فرمائیں۔ عجب نہیں کہ ان کی ہدایت اور میری بخشش کا یہی ایک بہانہ ہو جائے۔
ملاحظہ ہو ضمیمہ براہین احمد یہ حصہ پنجم ص۲۰۶ تا ۲۰۸‘خزائن ص ۳۷۸ تا ۳۸۰ ج ۲۱:
’’ اس بات پر تمام ائمہ لغت عرب اتفاق رکھتے ہیں کہ جب ایک علم پر یعنی کسی شخص کا نام لیکر توفی کا لفظ اس پر استعمال کیا جائے۔ مثلاً کہا جائے کہ:’’ توفی اللہ زیدا‘‘ تو اس کے یہی معنی ہوں گے کہ خدا نے زید کو مار دیا…… اور میں نے جہاں تک ممکن تھا صحاح ستہ اور دوسری احادیث نبوی پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ کے کلام اور صحابہ کے کلام اور تابعین اور تبع تابعین کے کلام میں ایک نظیر بھی ایسی نہیں پائی جاتی جس سے یہ ثابت ہو کہ کسی علم پر توفی کا لفظ آیا ہو۔ یعنی کسی شخص کا نام لے کر توفی کا لفظ اس کی نسبت استعمال کیا گیا ہو اور خدا فاعل اور وہ شخص مفعول بہ ٹھہرایا گیا ہو اور ایسی صورت میں اس فقرہ کے معنی بجزوفات دینے کے کوئی اور کئے گئے ہوں۔ بلکہ ہر ایک مقام پرجب نام لے کر کسی شخص کی نسبت توفی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور اس جگہ خدا فاعل اور وہ شخص مفعول بہ ہے جس کا نام لیا گیا تو اس سے یہی معنی مراد لئے گئے ہیں کہ وہ فوت ہو گیا ہے۔ چنانچہ ایسی نظیریں مجھے تین سو سے بھی زیادہ احادیث میں سے ملیں جن سے ثابت ہوا کہ جہاں کہیں توفی کے لفظ کا خدا فاعل ہو اور وہ شخص مفعول بہ ہو جس کا نام لیا گیا ہے تو اس جگہ صرف مار دینے کے معنی ہیں نہ اور کچھ۔ مگر باوجود تمام تر تلاش کے ایک بھی حدیث مجھے نہ ملی جس میں توفی کے فعل کا خدا فاعل ہوا اور مفعل بہ علم ہو۔ یعنی نام لے کر کسی شخص کو مفعو ل بہ ٹھہرایا گیا ہو اور اس جگہ بجزمارنے کے کوئی اور معنی ہوں۔ اس طرح جب قرآن شریف پر اول سے آخر تک نظر ڈالی گئی تو اس سے بھی یہی ثابت ہوا …… اور پھر میں نے عرب کے دیوانوں کی صرف اسی غرض سے سیر کی اور جاہلیت اور اسلامی زمانہ کے اشعار بڑے غور سے دیکھے اور بہت سا وقت ان کے دیکھنے میں خرچ ہوا مگر میں نے
ان میں بھی ایک نظیر ایسی نہ پائی کہ جب خدا توفی کے لفظ کا فاعل ہو اور ایک علم مفعول بہ ہو۔ یعنی کوئی شخص اس کا نام لے کر مفعول بہ ٹھہرایا گیا ہو تو ایسی صورت میں بجزمار دینے کے کوئی اور معنی ہوں۔ بعد اس کے میں نے اکثر عرب کے اہل علم اور اہل فضل و کمال سے دریافت کیا تو ان کی زبانی بھی یہی معلوم ہوا کہ آج کے دنوں تک تمام عرب کی سر زمین میں یہی محاورہ جاری و ساری ہے کہ جب ایک شخص دوسرے شخص کی نسبت بیان کرتا ہے کہ تو فی اللہ فلاناً تو اس کے معنی قطعی اور یقینی طور پر یہی سمجھے جاتے ہیں کہ فلاں شخص کو خدا تعالیٰ نے مار دیا اور جب ایک عرب کو دوسرے عرب کی طرف سے ایک خط آتا ہے اور اس میں مثلاً یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ:’’ تو فی اﷲ زیدا۰‘‘ تو اس کا یہی مطلب سمجھا جاتا ہے کہ خدا نے زید کو مار دیا۔ بس اس قدر تحقیق کے بعد جو حق الیقین تک پہنچ گئی ہے یہ امر فیصلہ ہو گیا ہے اور امور مشہودہ محسوسہ کے درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ ایک شخص جس کی نسبت اس طور سے لفظ توفی استعمال کیا جائے تو اس کے یہی معنی ہوں گے کہ وہ شخص وفات پا گیا۔ نہ اور کچھ۔‘‘
اس ایک مسلسل مضمون میں مرزا قادیانی نے نو مرتبہ اس قاعد ہ کو مکرر کیا ہے۔ اسی طرح مرزا قادیانی کی دیگر کتب میں بھی یہ قاعدہ بکثرت موجود ہے مگر میرے خیال میں یہ ایک حوالہ نوحوالجات کے قائمقام ہے۔ لہذا میں اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے جو اب کی طرف تعرض کرتا ہوں۔
تنقیح دعویٰ
چونکہ کسی لفظ کے معنی معلوم کرنے کے لئے اس کے مادہ اشتقاق کو دیکھنا ضروری ہے۔ اس لئے لفظ:’’توفی‘‘ کے معنی متعین کرنے سے پہلے ہم کو اس کے مادہ کی تفتیش کی حاجت ہو گی۔ لغت میں بیشتر توفی کو وفی کے تحت میں لکھتے ہیں۔’’وفی‘‘ کے معنی پورا کرنا یا پورا لینے کے ہیں۔ اس مادہ سے عموماً چار باب ملتے ہیں:
۱…’’وفی الشی ای(تم)‘‘۲…’’واوفی فلان حقہ۰اذا اعطاہ وافیا‘‘۳…’’ واستو فاہ اذالم یدع منہ شیئا‘‘۴…’’ وتوفاہ اللہ‘‘
پیغام صلح کی تخصیص بالذکر کا بین طور سے یہی مفہوم ہے کہ اول کے تین ابواب میں ان کو ہم سے کوئی اختلا ف نہیں بلکہ ہم دونوں فریق ان ابواب کو اپنے مادہ کے ماتحت ہی تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح چوتھے باب میں بھی اگر اس کا فاعل اللہ یا مفعول ذی روح نہ ہو فریقین کا کوئی اختلاف ظاہر نہیں ہوتا۔ کیونکہ جس صورت میں دعویٰ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں دو قیدیں ملحوظ ہیں۔
(۱)…… باب تفعل ہو (۲)…… فاعل اللہ اور مفعول ذی روح ہو۔
میں جہاں تک سمجھتا ہوں اگر یہ دونوں قیدیں منتفی ہو جائیں یا احد ہما‘ تو پھر شاید قادیانی جماعت یا لاہوری پارٹی اس کے متعلق ایسے موٹے لفظوں میں دعوے نہ کرے گی۔ پس اگر ان دونوں قیدوں کا کوئی مفہوم معتبر ہے تو ان کی انتفاء سے مندرجہ ذیل صورتیں پیدا ہوں گی۔ اول شرط کے انتفاء کی تین صورتیں ہیں۔ باب ضرب ہو یا افعال ہو یا استفعال۔دوسری شرط کے منتفی ہونے کی بہت سی شکلیں ہیں۔
(۱)… فاعل اللہ ہو مگر مفعول ذی روح نہ ہو۔(۲)… مفعول ذی روح ہو مگر فاعل اللہ نہ ہو۔(۳)… نہ اللہ فاعل ہو اور نہ مفعول ذی روح ہو۔ یہ تیسری صورت بے شمار صورتوں پر مشتمل
ان میں بھی ایک نظیر ایسی نہ پائی کہ جب خدا توفی کے لفظ کا فاعل ہو اور ایک علم مفعول بہ ہو۔ یعنی کوئی شخص اس کا نام لے کر مفعول بہ ٹھہرایا گیا ہو تو ایسی صورت میں بجزمار دینے کے کوئی اور معنی ہوں۔ بعد اس کے میں نے اکثر عرب کے اہل علم اور اہل فضل و کمال سے دریافت کیا تو ان کی زبانی بھی یہی معلوم ہوا کہ آج کے دنوں تک تمام عرب کی سر زمین میں یہی محاورہ جاری و ساری ہے کہ جب ایک شخص دوسرے شخص کی نسبت بیان کرتا ہے کہ تو فی اللہ فلاناً تو اس کے معنی قطعی اور یقینی طور پر یہی سمجھے جاتے ہیں کہ فلاں شخص کو خدا تعالیٰ نے مار دیا اور جب ایک عرب کو دوسرے عرب کی طرف سے ایک خط آتا ہے اور اس میں مثلاً یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ:’’ تو فی اﷲ زیدا۰‘‘ تو اس کا یہی مطلب سمجھا جاتا ہے کہ خدا نے زید کو مار دیا۔ بس اس قدر تحقیق کے بعد جو حق الیقین تک پہنچ گئی ہے یہ امر فیصلہ ہو گیا ہے اور امور مشہودہ محسوسہ کے درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ ایک شخص جس کی نسبت اس طور سے لفظ توفی استعمال کیا جائے تو اس کے یہی معنی ہوں گے کہ وہ شخص وفات پا گیا۔ نہ اور کچھ۔‘‘
اس ایک مسلسل مضمون میں مرزا قادیانی نے نو مرتبہ اس قاعد ہ کو مکرر کیا ہے۔ اسی طرح مرزا قادیانی کی دیگر کتب میں بھی یہ قاعدہ بکثرت موجود ہے مگر میرے خیال میں یہ ایک حوالہ نوحوالجات کے قائمقام ہے۔ لہذا میں اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے جو اب کی طرف تعرض کرتا ہوں۔
تنقیح دعویٰ
چونکہ کسی لفظ کے معنی معلوم کرنے کے لئے اس کے مادہ اشتقاق کو دیکھنا ضروری ہے۔ اس لئے لفظ:’’توفی‘‘ کے معنی متعین کرنے سے پہلے ہم کو اس کے مادہ کی تفتیش کی حاجت ہو گی۔ لغت میں بیشتر توفی کو وفی کے تحت میں لکھتے ہیں۔’’وفی‘‘ کے معنی پورا کرنا یا پورا لینے کے ہیں۔ اس مادہ سے عموماً چار باب ملتے ہیں:
۱…’’وفی الشی ای(تم)‘‘۲…’’واوفی فلان حقہ۰اذا اعطاہ وافیا‘‘۳…’’ واستو فاہ اذالم یدع منہ شیئا‘‘۴…’’ وتوفاہ اللہ‘‘
پیغام صلح کی تخصیص بالذکر کا بین طور سے یہی مفہوم ہے کہ اول کے تین ابواب میں ان کو ہم سے کوئی اختلا ف نہیں بلکہ ہم دونوں فریق ان ابواب کو اپنے مادہ کے ماتحت ہی تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح چوتھے باب میں بھی اگر اس کا فاعل اللہ یا مفعول ذی روح نہ ہو فریقین کا کوئی اختلاف ظاہر نہیں ہوتا۔ کیونکہ جس صورت میں دعویٰ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں دو قیدیں ملحوظ ہیں۔
(۱)…… باب تفعل ہو (۲)…… فاعل اللہ اور مفعول ذی روح ہو۔
میں جہاں تک سمجھتا ہوں اگر یہ دونوں قیدیں منتفی ہو جائیں یا احد ہما‘ تو پھر شاید قادیانی جماعت یا لاہوری پارٹی اس کے متعلق ایسے موٹے لفظوں میں دعوے نہ کرے گی۔ پس اگر ان دونوں قیدوں کا کوئی مفہوم معتبر ہے تو ان کی انتفاء سے مندرجہ ذیل صورتیں پیدا ہوں گی۔ اول شرط کے انتفاء کی تین صورتیں ہیں۔ باب ضرب ہو یا افعال ہو یا استفعال۔دوسری شرط کے منتفی ہونے کی بہت سی شکلیں ہیں۔
(۱)… فاعل اللہ ہو مگر مفعول ذی روح نہ ہو۔(۲)… مفعول ذی روح ہو مگر فاعل اللہ نہ ہو۔(۳)… نہ اللہ فاعل ہو اور نہ مفعول ذی روح ہو۔ یہ تیسری صورت بے شمار صورتوں پر مشتمل ہے۔ کیونکہ غیر اللہ کے افراد اس قدر ہیں ان جملہ صورتوں میں ہمارا اور مرزائیوں کا کوئی نزاع نہیں۔ اب مابہ النزاع باب تفعل میں یہی فقط وہ صورت ہے۔ جبکہ فاعل اللہ اور مفعول ذی روح ہو اس کا بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ توفی کے وہ معنی جو مرزائی صاحبان بیان کرتے ہیں اختلاف باب کا ثمرہ نہیں ہو سکتے اور نہ اس سبب سے اس لفظ کو اپنے مادہ سے جدا مانا گیا ہے۔ کیونکہ اگر اس باب سے فعل توفی بدون شرائط بالا کے مستعمل ہو تو پھر مرزائی جماعت اس کے متعلق یہ دعویٰ نہیں رکھتی جیسا کہ اوپر کی تشریح سے واضح ہو چکا اور جیسا کہ پیغام صلح کی صریح عبارت کا مفہوم ہے۔ لہذا اب مرزائیوں کا دعویٰ ان الفاظ میں منقح ہونا چاہئے کہ وفی کے جمیع ابواب میں سے فقط ایک باب تفعل اور پھر باب تفعل کی بے شمار صورتوں میں سے فقط ایک صورت جس میں فاعل علے التعین اللہ ہو اور مفعول ذی روح ہو ایسی ہے جس میں اس کے مادہ کا کچھ پتہ نہیں بلکہ وہ اپنے مادہ سے بالکل علیحدہ ہے۔ برخلاف اس کے وفی کے جمیع ابواب کے جمیع استعمالات اپنی اصل اور مادہ ہی کے ماتحت ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ جس طرح تم بقیہ ساری صورتوں میں اس لفظ کو اپنے مادہ کے ماتحت ہی تسلیم کرتے ہو اس طرح ہم صورت بالا کو بھی اپنے مادہ کے ماتحت ہی سمجھتے ہیں۔ اب منصف انصاف کرے کہ ایک لفظ کے جمیع مشتقات کو اپنے مادہ کے ماتحت رکھنے والاحق پر ہو سکتا ہے یا وہ جس نے بلا وجہ فقط ایک صورت کو مستثنیٰ کیا ہو۔ حالانکہ بقیہ اور ساری صورتوں میں وہ بھی ہماری موافقت کرتا ہو۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
اب تفتیش طلب امر یہ ہے کہ آخر فقط ایک صورت میں اس لفظ کو اپنے بقیہ مشتقات سے کیوں جدا کیا گیا؟۔ اختلاف باب کی وجہ سے تو نہیں جیسا کہ ابھی معلوم ہو چکا۔ ہاں!شاید اللہ فاعل اور مفعول ذی روح ہونے کی وجہ سے مگر یہ بھی باطل ہے۔ کیونکہ کسی ایک لغوی نے بھی یہ قاعدہ نہیں لکھا کہ اللہ کے فاعل اور مفعول ذی روح ہونے سے لفظ اپنے مادہ سے اس قدر دور جا پڑتا ہے۔ گویا کہ پھرا سے اپنی اصل سے کوئی علاقہ ہی باقی نہیں رہتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ (مات زید) کے معنی بھی موت کے ہیں اور (اماتہ اللہ) میں بھی وہی معنی بحال ہیں۔ لہذا یہ وجہ بھی اس مخترع استثناء کی قرار نہیں پاسکتی۔ اب ہمیں نہیں معلوم کہ اس لفظ نے مرزائیوں کا کیا قصور کیا ہے جو وہ اس کے معنی سارے استعمالات کے برخلاف بیان کرتے ہیں۔ مجھے بعض اوقات تحیر ہوتا ہے کہ اس جماعت نے خود تو اس قدر بعید از عقل اور نقل دعویٰ کیا ہے۔ اس پراہل اسلام سے مطالبات کا ارادہ ہے۔ اگر ہم اس کے جواب میں فقط اسی پر اکتفا کریں کہ ہم اس مقام پر بھی وہی معنی مراد لیتے ہیں جو اس کے دیگر بے شمار استعمالات میں تمہارے نزدیک بھی مراد ہیں تو بالکل بجا اور کافی ہو گا۔ خصوصاً جبکہ مرزا قادیانی کا ہمارے سر پر الزام یہ ہو۔
’’ یہ دعویٰ بھی عجیب دعویٰ ہے گویا تمام دنیا کے لئے تو توفی کے لفظ کے یہ معنی ہیں کہ ’’ قبض روح کرنا ‘‘نہ قبض جسم‘ مگر حضرت عیسیٰ کے لئے خاص طور پر یہ معنی ہیں کہ مع جسم آسمان پر اٹھا لینا۔ ‘‘ (حقیت الوحی ص ۳۲‘خزائن ص ۳۴ج ۲۲)
میں کہتا ہوں کہ اگر یہ دعویٰ تعجب خیز ہے تویہ دعویٰ بھی تعجب خیز ہے کہ لفظ توفی کے جمیع استعمالات میں تو اس کے مادہ کا اثر ظاہر ہو اور جب اللہ فاعل اور مفعول ذی روح ہو۔ جب اس کے معنی اپنے مادہ سے بالکل علیحدہ جا پڑیں اور سوائے موت کے ہرگز ہرگز کوئی اور معنی نہ ہو سکیں۔ گویا کہ سارے استعمالات میں سے ایک صورت کو جدید معنی کے لئے مخصوص کر لینا تو کوئی تعجب خیز دعویٰ نہ ہو‘ اور مرزا قادیانی کا اختراعی الزام تعجب خیز ٹھہرے اور اگر بالفرض فاعل یا مفعول کی تبدیلی سے معنی میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ کے فاعل اور غیر اللہ کے فاعل ہونے سے مرزائی خیال کے موافق لفظ تو فی کے معنی میںفرق پڑتا ہے تو پھر اس میں کیوں
استعباد ہے کہ اگر مفعول عیسیٰ علیہ السلام ہوں تو معنی رفع جسمانی کے ہوں اور جب کوئی دوسرا مفعول ہو تو تغیر مفعول کی وجہ سے موت کے معنی مراد ہو جائیں۔
مرزا قادیانی کا الزام بالکل غلط ہے
علاوہ ازیں حقیقت الوحی میں مرزا قادیانی کا تعجب اور ہمارے سر پر الزام ہمارا دعویٰ نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ لہذا میں مکرر دعویٰ کا اعلان کرتا ہوں اگر مرزا قادیانی زندہ ہوں:’’لاَیَمُوْتُ فِیْھَا وَلاَ یَحْیٰی۰‘‘ تو وہ سن لیں ورنہ ان کے معتقدیں گوش ہوش کھول کر سن لیں۔ ہم توفی کے معنی بحق حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی وہی لیتے ہیں جو ساری دنیا کے لئے لیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک توفی کے معنی پورا لے لینے کے ہیں (جس کو حضرت شاہ عبدالقادر صاحب نے بلفظ ’’بھر لینا‘‘ ادا کیا ہے) اور اسی معنی کے لحاظ سے ساری دنیا کی توفی ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک نہ فقط قرآن شریف میں بلکہ سارے لغت عرب میں اس لفظ کا مدلول اور معنی یہی ہیں۔ مگر ہاں کہیں تھوڑا سا فرق بھی ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ تغیر لفظ کی وجہ سے ہونا قرین قیاس ہے مگر نہ اتنا کہ وہ لفظ اپنے مادہ ہی سے جدا جا پڑے۔ وعلیٰ ھذا! حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نے لیا ہی ہے۔ مگر اس طور سے کہ روح مع الجسد اور سارے عالم کو بھی خدا لیتا ہی ہے مگر اس طور سے کہ فقط روح اب ان دونوں مقام پر لفظ لے لینا موجود ہے جو کہ توفی کا مدلول ہے۔ البتہ کہیں رفع جسمی کے ساتھ مجامع ہے اور کہیں موت کے ساتھ‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی مجامع مع الرفع ہے اور دیگر بنیآدم کی قبض روح کے ساتھ فقط‘ جس کا بالآخر حاصل موت ہی ہے۔
یہ امر ابھی میں قرآن سے ثابت کروں گا کہ موت میں بھی لے لینا ہے مثال کے طور سے دیکھئے ’’ید‘‘ اور ’’وجہ ‘‘کا لفظ خدا وند عالم اور عباد دونوں میں مستعمل ہے ۔ مگر ’’ید‘‘ کا مصداق عباد میں شکل مخصوص ہے اور خدا وند عالم میں جو اس کی شان کے مناسب ہے۔ اسی طرح ’’عین‘‘ اور ’’اصابع‘‘ اور ’’رجل‘‘ اور ’’ساق‘‘ اور ’’ازار‘‘ اور ’’ردائ‘‘ان سب کا استعمال جناب باری عزاسمہ میں بھی احادیث صحیحہ اور قرآن عزیز میں موجودہے۔ باایں ہمہ مصداق کا فرق بھی ضرور ہے۔
اب کیا کوئی احمق جاہل کہہ سکتا ہے کہ عجیب بات ہے کہ ’’ید‘‘ کا لفظ جب ساری دنیا کے لئے مستعمل ہو جب تو اس سے ایسا ’’ید‘‘ مراد ہو جس میں ’’اصابع‘‘ اور اعصاب لحم و شحم ہیں اور جب خدا کی جناب میں مستعمل ہو تو اس کو ایک بے کیف اور مجہول الحال شی قرار دے دیا جائے الحاصل توفی بمعنے موت کبھی مرتبہ مدلول میں مستعمل نہیں ہوا۔ یعنی اس طور سے کہ موت لفظ توفی کا موضوع لہ ہو ہاں کبھی لے لینا اور پورا کرنا موت کی طرف منتہی ضرور ہو جاتا ہے۔ یعنی خدا کسی کی عمر پوری کرے گا تو اس کی عمر کی انتہا موت ہی سے تو ہو گی یا بدوں موت …… کے بھی عمر منتہی ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک موت نہیں آتی‘ کہا جاتا ہے کہ ابھی اس شخص کی عمر پوری نہیں ہوئی اور جب موت آ جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اب اس کی عمر پوری ہو گئی۔ پس عمر کے پورے ہونے کی انتہا چونکہ موت پر ہی ہے۔
کتب لغت میں توفی بمعنے موت ہونے کا راز
اسی لئے لغویین نے توفاہ اللہ کے معنے مات کے بھی لکھ دیئے ہیں۔ نہ اس لئے کہ ان کے نزدیک توفی بمعنی موت حقیقی ہے۔ دیکھو لسان العرب ج۱۵ص۳۵۹ :’’ توفی المیت استیفاء مدتہ التی وفیت لہ وعدد ایامہ وشہورہ و اعوامہ فی الدنیا انتہی۰‘‘
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
اس معنی کو خود مرزا قادیانی نے بھی تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ ضمیمہ براہین احمدیہ ص۲۰۵ حاشیہ خزائن ۳۷۷ ج ۲۱ پر تحریر فرماتے ہیں:’’ معلوم رہے کہ زبان عرب میں لفظ توفی صرف موت دینے کو نہیں کہتے بلکہ طبعی موت دینے کو کہتے ہیں …… اسی بناء پر لسان العرب اور تاج العروس میں لکھا ہے:’’ توفی المیت استیفاء مدتہ التی وفیت لہ وعدد ایامہ و شہورہ واعوامہ فی الدنیائ۰‘‘ یعنی مرنے والے کی توفی سے مراد یہ ہے کہ اس کی طبعی زندگی کے تمام دن اور مہینے اور برس پورے کئے جائیں۔‘‘
اب معترض صاحب ملاحظہ کریں کہ خود مرزا قادیانی ہی اپنی آخری تصنیف میں کس قدر صراحت کے ساتھ توفی کو پورا کئے جانے کے معنی میں تسلیم کرتے ہیں :’’وماذا بعد الحق الا الضلال۰‘‘ الغرض چونکہ عمر کا پورا کرنا اور موت دینا مصداق میں مجامع ہیں۔ اس لئے توفی کے معنی موت کے ہی لکھ دیئے جاتے ہیں اردو میں مثال ملاحظہ فرمایئے۔ جب کبھی کسی بڑے شخص کاانتقال ہوتا ہے تو یہ کوئی نہیں کہتا کہ فلاں بزرگ مر گیا۔ بلکہ یوں کہا جاتاہے کہ ان کا وصال ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ وصال اور وصل کے لغوی معنی ملنے کے ہیں۔ اس طرح انتقال نقل سے مشتق ہے‘ جس کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف حرکت کرنے کے ہیں مگر جب کسی بزرگ کی نسبت وصال یا انتقال کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے موت ہی کے معنی سمجھے جاتے ہیں اور اب کیا کوئی جاہل کہے گا کہ چونکہ دنیا کے سارے بزرگوں کے حق میں وصال بمعنی موت استعمال ہوا ہے۔ لہذا وصال کا موضوع لہ موت ہے اور اس بناء پر شاعرکے قول مثلاً:’’ وصال یارمشکل ہے‘‘ میں شاعر کی تمنا یار کی موت کی ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ یہی کہا جائے گا کہ وصال کے لغوی معنی ملنے کے ہیں مگر چونکہ بزرگوں کی نگاہ میں فقط ایک خدا سے ملنا ہوتا ہے جو بدوں موت متصور نہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ فلاں بزرگ کو بار گاہ ایزدی میں وصول میسر ہوا۔ بالآخر اس کے مرادف ہو جاتا ہے کہ وہ مر گئے۔ اس لئے وصال بمراد موت بولنے لگے ہیں۔ اس طرح لفظ انتقال ہے چونکہ بزرگان دین کی نسبت موت کا لفظ معمولی سمجھا گیا ہے۔ لہذا ان کی موت کو ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف منتقل ہونے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہی حال لفظ توفی کا ہے کہ اس میں بھی فی الجملتہ تشریف ہے خصوصاً جبکہ اللہ فاعل ہو۔ پس اگر کہیں یہ لفظ موت کی مراد میں نظر آتا ہو تو یہ نظراً الیٰ التشریف ہے۔ لالکونہ موضوعاً لہ‘ جیسا کہ بیت اللہ اور روح اللہ اور انا اجزی بہ میں تقریر کی گئی ہے۔
الحاصل جس طرح عرفاً فلاں حضرت کا وصال ہو گیا یا فلاں صاحب کا انتقال ہو گیا سے سوائے موت کے اور کچھ نہیں سمجھا جاتا۔ باوجود یہ کہ پھر بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ موت ان الفاظ کے معنی حقیقی ہیں نہ یہ بے ہودہ تاویل کی جا سکتی ہے کہ یہ الفاظ اپنے دیگر استعمالات مثلاً وصول اور ایصال سے بدون کسی قاعدہ کے بالکل جدا ہیں۔ اس طرح لفظ توفی کو بھی سمجھئے۔ چونکہ عام طور پر عمر کا پورا ہونا موت ہی پر ظاہر ہوتا ہے۔ اس لئے توفی کے معنی موت کے بھی لکھ دیئے گئے ہیں مگر اس سے لفظ کا اپنے موضوع لہ سے نہ خروج لازم آتا ہے اور نہ اس معنی کا حقیقی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ بلکہ حقیقی معنی کا تحقق چونکہ عموماً موت کے مجامع ہو رہا ہے۔ لہذا عوام جو کہ مجامع للموت یا بمعنے موت ہونے میں کوئی تفریق نہیں کر سکتے تو فی مجامع للموت کو بمعنی موت ہی قرار دے دیتے ہیں۔ لہذا توفی بمعنی موت اس سرسری اور عامیانہ استعمال کے لحاظ سے ہے۔ رہے خواص اور اہل علم سو وہ چونکہ تنقیحات علمیہ سے بخوبی مرتاض ہوتے ہیں۔ لہذا ان کے نزدیک توفی مجامع للموت ہونے سے بمعنی موت نہیں بن جاتا بلکہ وہ موت کو مرتبہ مصداق یا جزء اخیری کے مرتبہ میں رکھ کر لفظ کو اپنے مدلول سے خارج نہیں کرتے۔ چنانچہ اس مضمون کی
شہادت کلیات ابو البقاء سے بخوبی ہو جاتی ہے:’’(التوفی) الاماتہ و قبض الروح وعلیہ استعمال العامتہ اوالا ستیفاء واخذ الحق وعلیہ استعمال البلغائ۰‘‘
اگر کسی کو عبارت فہمی کا سلیقہ ہو تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس عبارت کی مرادیہ نہیں ہے کہ بلغاء کے یہاں توفی کسی ایک مقام پر بھی موت کے مجامع نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ بلغاء کے نزدیک اس لفظ کے معنی استیفاء اور اخذ حق کے ہی ہوتے ہیں۔ اگرچہ مراد اس سے موت ہی کیوں نہ ہو۔ پس حق لفظ اور اشتقاق بھی ہے کہ اس میں اخذ اور استیفاء کے معنی ہرحال مرعی رہیں گو بظاہر کہیں سطحی نظریں بمعنی موت سمجھیں۔ وعلیٰ ھذا! اس عبارت میں توفی کے محل موت میں مستعمل ہونے سے انکار نہیں مگر وجہ تخریج میں نظروں کا تفاوت ضرور ہے‘ عام آدمی سمجھتا ہے کہ توفی مصداق میں موت کے ساتھ جمع ہوا تو اس کے معنی ہی موت کے کرنے لگتاہے۔ مگر بلیغ موت کو انحاء استیفاء میں سمجھ کر استیفاء مرتبہ مدلول میں اور موت کو مرتبہ مصداق میں رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ لغو یین کافتہً اس امر میں متفق ہیں کہ موت توفی کے معنے حقیقی نہیں مگر پھر وجہ تخریج میں مختلف ہیں بعض کہتے ہیں کہ توفی المیت بمعنی استیفاء ہے۔ یعنی عمر پورا کرنا اور پورا لینا اور …… بعض فرماتے ہیں کہ بمعنی اخذ ہے۔ یعنی کون فیھم کا مقابل جیسا کہ اردو میں کہا جاتاہے کہ فلاں نے اپنا حق وصول کر لیا۔ اس لئے کلیات کی عبارت میں دو لفظ آئے ہیں اوالا ستیفاء واخذ الحق۔ پس یہ دونوںشیٔ واحد نہیں ہیں مگر موت کے مرادف بھی نہیں ہیں یہ بھی یاد رہے کہ استیفاء کی دلالت اس معنی پر اولیٰ ہے اور جز اخیری پر ثانوی اور توفی کی دلالت علی العکس ہے۔ یعنی استیفاء میں حرکت مبدء سے مقطع کی طرف ہے اور توفی میں مقطع سے مبدء کی طرف۔لہذا جب توفی سند الی الرب العزت ہوتا ہے تو اس مقام پر مراد جز ثانی ہوتا ہے۔ بلحاظ جزاول اور جب مسندالی العبد یعنی الی المفعول ہوتا ہے تو مراد جزء اول ہوتاہے بلحاظ جزء ثانی۔
اس تحقیق سے ثابت ہو گیا کہ لفظ توفی کسی ایک مقام پر بھی بمعنی موت حقیقتاً مستعمل نہیں۔ ہاں مجامع ضرور ہے۔ لہذا:’’ اِنِّیْ مُتَوَفّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ۰آل عمران آیت۵۵‘‘ میں یہ وعدہ کہ اے عیسیٰ میں تیری عمر پوری کروں گا۔ الیٰ حین الوفاۃ مستنبط ہے اور جب تک کہ ان کی زندگی کے لمحات پورے ہوتے رہیں گے۔ کہا جائے گا کہ ان کی عمر پوری کی جا رہی ہے۔ وعلی ہذا توفی مقدم ہی ہونا چاہئے تھی کیونکہ یہ بمنزلہ مزید علیہ کے ہے اور مجامع ہے رفع کے ساتھ۔ نہ یہ کہ رفع بعد التوفی ہے۔ یعنی انقطاع توفی کے بعد رفع نہیں ہے بلکہ توفی جو ایک امر ممتد اور مستمر ہے اس مستمر زمانہ میں رفع بھی ہوا ہے۔ لہذا وہ امر مستمراس رفع کے ساتھ مجامع ہو گیا؟۔ پس رفع کے زمانہ میں یہی توفی چل رہی ہے۔ یہاں تک کہ جب عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے اور جو اجل خدا کے علم میں مقدر ہے اسے ختم فرما چکیں گے اور وفات پائیں گے تو کہا جائے گا کہ عمر پوری ہو چکی۔ اسی مقام سے تفسیر ابن عباس ؓ کی مراد بھی حل ہو گئی کیونکہ ’’انی ممیتک‘‘ کے یہ معنی تو کوئی بھی نہیں کر سکتا کہ میں تیری موت سے پہلے تجھے موت دیدوں گا …… بلکہ توفی ایک انتہائی وعدہ ہے جس کی ابتداء تعلیم ہے کیونکہ اگر توفی کو ذکر ہی نہ کیا جاتا تو کلام منتظر باقی رہ جاتا اور یہ نہ معلوم ہوتا کہ:’’ جاعل الذین‘‘ کے بعد کیا ہو گا اور اگر بعد میں ذکر فرماتے تو چنداں لطیف نہ رہتا کیونکہ معلوم ہے کہ انسان کے لئے بالآخر فنا ہی ہے۔ لہذا انتہائے ارادہ کی اولاً تعلیم فرما کر بقیہ مواعید کو ذکر فرمایا۔یہ یاد رہے کہ اس تفسیر کو ترتیب کے خلاف سمجھنا سخت نادانی ہے کیونکہ ترتیب فقط واقع کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ ترتیب جیسا کہ بحسب الوقوع ہوتی ہے۔ اس طرح بحسب الذکر اور بحسب العرف بھی ہوتی ہے۔ پس کسی کلام کے مطابق ترتیب ہونے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ ساری ترتیبیں اس میں مجتمع ہو جائیں کیونکہ بعض اوقات بعض ترتیب بعض ترتیب کے مناقض ہوتی ہیں۔ لہذا مطابقت ترتیب اسی لحاظ سے لی جائے گی جس اعتبار سے متکلم نے اپنے کلام میں ارادہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر متکلم کو چند امور کی فقط تعدید مطلوب ہو تو اس مقام پر وہ واقع کا لحاظ نہیں کرے گا۔ کیونکہ یہ اس کے مقصود سے خارج ہے۔ جیسا کہ علماء معانی نے جاء زیدو عمر اور جاء زید فعمر میں لکھا ہے۔ بنائً علیہ میں کہتا ہوں کہ اس آیت میں بھی ان مواعید کی ترتیب بتلانا مدنظر نہیں اگر ترتیب بتلانی مدنظر ہوتی تو بجائے واو کے ف یا ثم حرف عطف لائے جاتے۔ حالانکہ ان حروف میں سے کوئی بھی اس مقام پر موجود نہیں ہیں۔ پس مقصود آیت میں صرف ان مواعید کا افادہ ہے۔ بدون التعرض الی الترتیب الوقوعی۔ لہذاآیت بیان ترتیب سے ساکت ہے اور ترتیب و قوعی خارج کے سپرد ہے۔ ہاں اس قسم کے مقامات پر جو عرفی ترتیب ہے وہ آیت میںموجود ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اگر متوفیک کو مؤخر کر دیا جاتا توخلاف ترتیب عرفی ہو جاتا اگرچہ ترتیب وقوعی کی مطابقت حاصل ہو جاتی مگر وہ غیر مقصود تھی جیسا کہ معلوم ہوا۔ لہذا توفی بمعنی موت لے کر اور یہ مان کر کہ عیسیٰ علیہ السلام بعد النزول من السماء وفات فرمائیں گے۔ پھر بھی ترتیب یہی تھی جو آیت میں موجود ہے فافہم۔ اوریہ بھی عقلاً معلوم ہے کہ موت سب مرحلوں کے بعد میں ہوا کرتی ہے۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
(۲)…… مغالطہ سے بچانے کے لئے یہ امر بھی ظاہر کر دینا ضروری ہے کہ ہمارا نزاع اس میں نہیں ہے کہ بعض لغت کی کتب میں تو فاہ اللہ کے معنی مات یا ادرکتہ الوفاۃ کے لکھے ہیں بلکہ میری طرف سے اس کا اقرار بھی گزر چکا ہے۔ اور نہ فقط اتنی بات ہمارے مخالف ہے۔ مابہ النزاع یہ ہے کہ آیا معنی مذکور حقیقی ہیں یا مجازی۔
مرزائی مدعی ہیں کہ موت معنی حقیقی ہیںاور ہماری طرف سے یہ اصرار ہے کہ یہ معنی ہرگز ہرگز حقیقی نہیں چونکہ یہ دعویٰ لغت کے متعلق ہے۔ لہذا کوئی مرزائی کسی ایک معتبر لغت کی کتاب سے دکھلا دے جس نے صاف طور پر لکھ دیا ہو کہ توفاہ اللہ بمعنی مات حقیقی ہے اور جب تک یہ تصریح پیش نہ کی جائے اس وقت تک لغویین کی کتابیں کھول کھول کر فقط مات کا لفظ دکھا دینا ہمارے لئے کوئی مضر نہیں ہے کیونکہ ہم بھی اس معنی کو ایک سرسری اور عامیانہ استعمال تسلیم کرتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ جب تک کوئی نقل اس کے خلاف نہ پیش کی جائے اس وقت تک لغویین کی تحریر سے متبادر یہی ہے کہ مات معنی حقیقی ہیں تو میں نہایت فراخ دلی سے ایسی نقل پیش کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ملاحظہ ہو اساس البلاغۃ ص ۳۹۴ ج ۱۰ مصنفہ علامہ زمخشری جو مرزا قادیانی کے نزدیک بھی بہت بڑے شخص ہیں۔ جیسا کہ براہین احمد یہ حصہ پنجم ص ۲۰۸‘ خزائن ص ۳۸۰ ج ۲۱ میں ہے:
’’ اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ زبان عرب کا ایک بے مثل امام جس کے مقابل پر کسی کو چوںو چرا کی گنجائش نہیںیعنی علامہ زمخشری ۔ ‘‘
اس عبارت میں مرزا قادیانی نے فتویٰ دے دیا ہے کہ علامہ زمخشری کے بالمقابل کسی کو چوں و چرا کی گنجائش ہی نہیں ہو سکتی۔ لہذا میں دیکھوں گا کہ مرزائی صاحبان کہاں تک مرزا قادیانی کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔
اساس البلاغۃ ص ۳۰۴ج ۲’’ ومن المجاز توفی وتو فاہ اﷲ ادرکتہ الوفاۃ ‘‘ یعنی توفاہ اللہ کے معنی ادرکتہ الوفات کے مجازی ہیں۔ ہماری خوش قسمتی اور مرزائیوں کی بدقسمتی سے حسب الاتفاق علامہ کی اس عبارت میں فاعل اللہ اور مفعول ذی روح اور فعل توفی بھی ہے مگر پھر تصریح فرما رہے ہیں کہ توفاہ اللہ کے معنی موت کے مجازی ہیں۔ مرزائیو! خدارا اپنے نبی کے قول کی تو لاج رکھو اوراب توشائع کر دو کہ توفاہ اللہ کے معنی مات کے مجازی ہیں تاکہ کسی کے تومقتدی کہلائو۔
ایک مشہور مرزائی مصنف کی قابل ذکر ایمان داری
اس مقام پر مجھے بہت تائسف کے ساتھ میاں خدا بخش مرزائی مصنف عسل مصفے کی ا یمانداری کا حال بھی تحریر کرنا پڑتا ہے۔ ان حضرت نے جب اپنی کتاب میں اس عبارت کو درج کیا ہے تو شاید انہیں مرزا قادیانی کا فتویٰ بھی یاد آگیا ہے۔ لہذا اگر پوری عبارت نقل کر دیتے تو توفی کا بمعنے موت مجازی ہونا ثابت ہو جاتا جس کے مقابل پر حسب فتویٰ مذکور کچھ چوں و چرا کی گنجائش نہ رہتی تو اب سہل صورت یہ ایجاد کی کہ علامہ کی اس عبارت کو کاٹ تراش کر ومن المجاز کا لفظ ہی حذف کر دیا اور مابعد کی عبارت نقل کر دی جس میں یہ تھا کہ توفی بمعنے موت ہے اور جس جملہ میں اس معنی کا مجازی ہونا مصرح تھا اسے شاید غایت دیانت کے باعث نقل نہیں کیا۔ شاباش مرداں چنیں کنند۔ مرزائیو! اپنے دیانت داروں کا حال دیکھو اور اب بھی راہ راست پر آ جائو اور خوب سمجھو کہ اگر تم میں حق پر پردہ ڈالنے والے زندہ ہیں تو اسلام میں اس پردے کو ہٹا کر مرزائی ایمان کی ننگی تصویر بھی پیش کر دینے والے موجود ہیں اگر کوئی قادیانی یا لاہوری اس مشہور مرزائی مصنف کی اس بد دیانتی کو غلط ثابت کر دے تو اسے ایک سو روپے انعام ملے گا:’’ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّار۰‘‘
الحاصل جبکہ ہم نے توفی بمعنی موت ہونے پر علامہ زمخشری جیسے شخص سے مجاز ہونے کی تصریح پیش کر دی ہے۔ اس لئے اس کے مقابلہ میں تاوقتیکہ کسی ایسے ہی شخص کی عبارت پیش نہ کی جائے جس نے ان معنوں کا حقیقی ہونا تسلیم کیا ہو اثبات مدعی خواب و خیال سمجھنا چاہئے۔
(۳)…… یہ بات مسلم ہے کہ اضداد کا تمایز تقابل سے بہت نمایاں طور پر ظاہر ہو جاتاہے۔ مثلاً خوبصورتی کو بدصورتی کے مقابلہ میں رکھو تو کماحقہ امتیاز ہو جائے گا کہ یہ شے اور ہے اور یہ اور۔ اس طرح ظلمتہ اور نور الم و سرور انس و نفور خاکساری و غرور کے معانی کا تمایزعند التقابل علیٰ وجہ الکمال ظاہر ہوجاتا ہے۔ اسی بناء پر متنبی کہتا ہے:’’ بضدھا تتبین الاشیائ۰‘‘ وعلیٰ ہذا اگر توفی بمعنی موت حقیقت ہے تو ہمیں قرآن کی تتبع سے معلوم کرنا چاہئے کہ کیا قرآن نے کہیں حیات اور توفی کو مقابل ٹھہرایا ہے۔ پس اگر عرف قرآن سے ثابت ہوجائے کہ اکثر مقامات حیات کے مقابلہ میں توفی کو رکھا گیا ہے تو پھر توفی کا بمعنی موت ہونا بے شک قابل غور ہوگا۔ کیونکہ حیات کا مقابل نام موت ہی ہے اور اگر توفی کو بیشتر مقامات پر حیات کا مقابل نہ ٹھہرایا گیا ہو بلکہ بجائے توفی کے موت کو حیات کے بالمقابل رکھا گیا ہو تو یہ امر بداہتہ واضح ہو جائے گا کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے۔ اب میں ذیل میں ان آیات کو نقل کرتا ہوں جس میں توفی اور موت کے متقابلات کو ذکر کیا گیا ہے۔
(۱)…:’’یُحْیِ الْاَ رْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا ۰ الحدید آیت۱۷‘‘
(۲)…:’’ ھُوَالَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ۰ المومن آیت ۶۸‘‘
(۳)…:’’ کِفَاتًا ۰اَحْیَآئً وَّاَمْوَاتًا۰ المرسلات آیت۲۶‘‘
(۴)…:’’ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ۰ الجادثیہ آیت ۲۶‘‘
(۵)…:’’ ھُوَاَمَاتَ وَاَحْیَا۰ النجم آیت ۴۴‘‘
(۶)…:’’ لاَیَمُوْتُ فِیْھَا وَلاَ یَحْیٰی۰ الاعلی آیت ۱۳‘‘
(۷)…’’ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ۰ الروم آیت ۱۹‘‘
(۸)…:’’ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ۰ الروم آیت ۱۹‘‘
(۹)…:’’وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اَمْوَاتُ ٗ بَلْ اَحْیَآئُ ٗ۰ البقرہ آیت ۱۵۴‘‘
(۱۰)……:’’اَمْوَاتُ ٗ غَیْرُ اَحْیَآئٍ۰النحل آیت۲۱‘‘ وغیرہ
اب دیکھئے کہ ان جمیع آیات میں جن کو میں نے صرف بغرض تمثیل نقل کیا ہے۔ حیات کا مقابل موت اور موت کا مقابل حیات کو ٹھہرایا گیا ہے جس سے معلوم ہو گیا کہ حیات کوئی ایسی شے ہے جو موت نہیں ہے اور موت کوئی ایسا امر ہے جو حیات نہیں۔اس کے بعد اب توفی کے متقابلات پر نظر فرمایئے۔
(۱)…:’’ وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّادُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ ۰مائدہ آیت۱۱۷‘‘(۲)…:’’ اَﷲُ یَتَوَفَّی الْاَ نْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا۰ زمر آیت۴۲‘‘(۳)…:’’ وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّاِلٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ۰حج آیت۵‘‘ (۴)…:’’وَھُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَاجَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ۰انعام آیت۶۰‘‘ (۵)…:’’ فَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْنَتَوَ فَّیَنَّکَ …… الخ۰ مومن آیت۷۷ ‘ یونس آیت۴۶‘رعد آیت ۴۰‘‘ (۶)… :’’ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اﷲُ لَھُنَّ سَبِیْلاً ۰نسائ۱۵‘‘
اب ملاحظہ فرمایئے کہ سورۃ مائدہ میں توفی کو کو نہ فیہم کے بالمقابل وزمر میں موت و حیات کے مجامع اور حج میں ردالی ارذل عمر کے مقابل اور انعام میں جرح کے مقابل اور مومن ‘یونس ورعد میں اراۃٔ کے مقابل اور نساء میں جعل سبیل کے مقابل قرار دیا گیا۔ ان جمیع مقامات میں کسی ایک مقام پر بھی تو فے کو حیات کا مقابل قرار نہیں دیا گیا۔ اب ذرا قرآن عزیز کی اس بلیغ تقسیم پرغور فرمایئے کہ ادھر تو حیات کے مقابل موت کو رکھا گیا اور توفی کو مقابل نہ بنایا اور ادھر توفی کا مقابل حیات نہ رکھا بلکہ ان اشیاء کو‘ اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ عرف قرآن میں نہ توفی حیات کا پورا مقابل ہے اور نہ حیات توفی کا‘ بلکہ حیات اور موت متقابل ہیں توفی اور کونہ فہیم وغیرہ مقابل ہیں۔ اب اگر کہا جائے کہ قرآن شریف میں توفے کا مقابل امور عدیدۃ کو کیوں قرار دیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مفہوم مقابل للتوفی فی نفسہ اس قدر عام ہے کہ جس کے افراد کثیرہ ہیں۔ مثلاً انسان کی نقیض لاانسان ہے۔ اب حجر بھی لاانسان ہے اور شجر بھی لاانسان ہے الی غیرذالک اور یہ سب انسان کے مقابل ہی ہیں اس طرح توفی کے معنی جبکہ پورا لئے جانے یا حق وصول کرنے کے تھے۔ لہذا اب اگر کسی شی کو پورا نہ لیا گیا ہو تو اس کی متعدد صورہیں جیسا کہ مائدہ میں توفی کا مقابل مادمت فہیم قرار دیا گیا ہے کیونکہ دوامہ فہیم کے زمانہ میں عیسیٰ علیہ السلام اس معنی کے لحاظ سے غیر متوفی تھے اور زمر میں تو صراحتہً توفی کو موت اور حیات یعنی عدم موت دونوں کے مجامع قرار دے دیا گیا ہے۔ جس نے فیصلہ ہی کر دیا کہ توفی نہ موت کا پورا مقابل ہے نہ حیات کا۔ لہذا توفی اموات اور احیاء دونوں کی بن سکی کما سیجییٔ تفصیلہ عنقریب اس طرح حج میں ’’ردالیٰ ارذل العمر‘‘ کا مقابل بنایا گیا ہے کیونکہ ’’من یردالیٰ ارذل العمر‘‘ ظاہر ہے کہ اس معنی سے غیر متوفی ہے۔ ایسا ہی انعام میں جرح غیر توفی ہے کیونکہ حالت جرح میں بھی انسان پورا نہیں لیا جاتا جیسا کہ ظاہر ہے۔ اس طرح سورہ مومن و یونس ورعد میں بھی اراۃ کو توفی کا مقابل اسی لحاظ سے قرار دیا گیا ہے کیونکہ بحالت توفی اراۃ بعض الذی وعد غیر متصور ہے۔ ایسا ہی نساء میں جعل سبیل بحالت توفی نہیں ہے بلکہ جعل سبیل عدم توفی کی صورت میں ہی ہے۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
الحاصل تعدد متقابلات توفی
مفہوم مقابل کی فی نفسہ کلیتہ کی جہت سے ہے نہ کسی اور جہت سے۔ اس بیان سے ایک حق کے طالب کے لئے یہ امر بداہت کی حد تک پہنچ چکا ہے کہ عرف قرآن میں ہر گز توفی بمعنے موت نہیں خصوصاً جبکہ ان آیات مندرجہ بالا میں فعل توفی اور اللہ فاعل اور مفعول ذی روح بھی ہے۔ لہذا اب اس بہانہ کی بھی گنجائش نہیں رہتی کہ ان جمیع آیات میں توفی شرائط بالا کے برخلاف واقع ہے۔
(۴)…… یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قرآن عزیز میں اماتتہ کی اسناد علی سبیل الحقیقت سوائے خدا وند عالم کے اور کسی غیر کی طرف نہیں کی گئی بلکہ احیاء اور اماتتہ کو بطور حصر اپنی صفت قرار دیا ہے:’’ کما قال ھویحی ویمیت‘‘ اس وجہ سے محیی اور ممیت خدا وند عالم کے اسماء مختصہ میں سے قرار دیئے گئے ہیں۔ برخلاف اس کے توفی کا فاعل غیر اللہ کو بھی قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ آیات مندرجہ ذیل ملاحظہ ہوں:
(۱)…:’’ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ۰ نساء آیت۱۵‘‘(۲)…:’’قُلْ یَتَوَفّٰکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکّلَ بِکُمْ ۰سجدہ آیت۱۱‘‘(۳)…:’’ اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَلآئِکَۃُ ظَالِمِیْ اَنْفُسِھِمْ۰النساء آیت۹۷ ‘‘(۴)…:’’تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلآئِکَۃُ ظَالِمِیْ اَنْفُسِھِمْ۰نحل آیت۲۸‘‘ (۵)…:’’تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلآئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ ۰نحل آیت۳۲‘‘ (۶)…:’’تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا۰انعام آیت۶۱‘‘ (۷)…: ’’رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَھُمْ ۰اعراف آیت۳۷‘‘ (۸)…:’’فَکَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلآئِکَۃُ ۰ محمد آیت۲۷‘‘
ان جمیع آیات میں توفی کا فاعل موت اور ملک الموت اور ملائکہ کو قرار دیا ہے۔ پس موت کا فاعل سوائے اپنی ذات کے کسی غیر کو قرار نہ دینا اور توفی کا فاعل غیر اللہ کو بھی بنا دینا ضرور اپنے اندر کو ئی مخفی راز رکھتا ہے۔ مرزائی معنے کے مطابق یہ تقسیم اس معجز کلام میں محض اتفاقی اور بے سود ہے اور ہمارے بیان کی رو سے اس میں یہی قرآن شریف کی ایک معجز نما صداقت کا جلوہ نظر آتا ہے۔ کیونکہ توفی کے معنے ہمارے نزدیک لے لینے کے ہیں اور موت فقط توفی کا نام نہیں بلکہ بعد التوفی امساک خداوندی کا نام ہے۔ پس توفی کی جس قدر مراد ہے اس کا فاعل ملک(فرشتہ) بھی حقیقتاً بن سکتا ہے کیونکہ توفی کے معنی لے لینا ہے اور فرشتہ روح کو حقیقتاً لے سکتا ہے مگر اس کے بعد امساک یہ فعل مختص بالباری تعالیٰ ہے اور اس میں فرشتہ کو حقیقتاً کوئی دخل نہیں اور موت چونکہ اسی جزء اخیر کا نام ہے۔ لہذا موت سوائے خدا کے کسی غیر کی طرف حقیقتاً سند نہیں ہو سکتی بخلاف التوفی۔ الحاصل قرآن شریف میں لفظ توفی اور موت میں یہ دوسرا امتیاز ہے۔ اول امتیاز توتعین متقابلات سے واضح ہو چکا اور دوسراامتیاز تقسیم فاعل سے بین ہو گیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ توفی اور موت شے واحد نہیں ورنہ قرآن شریف کے یہ بلیغ فروق محض لغو ہوئے جاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ!
مرزاقادیانی کے کلام سے ثبوت کہ توفی بمعنی
موت حقیقت نہیں
(۵)…… الاستفتاء ص۴۳ خزائن ۶۶۵ ج ۲۲ پر مرزا قادیانی حقیقی اور مجازی معنے کیلئے ایک معیار نقل فرماتے ہیں:
’’ ثم اعلموان حق اللفظ الموضوع لمعنی ان یوجد المعنی الموضوع لہ فی جمیع افرادہ من غیر تخصیص و تعیین ‘‘
{ پھر تم جانو کہ جو لفظ کسی معنے کے لئے موضوع ہو۔ اس کا حق یہ ہے کہ وہ معنی موضوع لہ اس لفظ کے جمیع افراد میں بدون کسی تخصیص اور تعیین کے پائے جائیں۔}
اس عبارت میں مرزا قادیانی نے کسی معنی کے موضوع لہ ہونے کے دو حق بیان فرمائے ہیں اول تو یہ کہ وہ معنی موضوع لہ اس لفظ کے جمیع افراد میں پائے جائیں دوم یہ کہ وہ معنے بدون تخصیص اور تعیین کے مفہوم ہوں۔ آپ اسی معیار کے لحاظ سے لفظ توفی کو بھی دیکھئے ہم دیکھتے ہیں کہ مرزائی ’’ موت‘‘ توفی کے معنی موضوع لہ قرار دیتے ہیں حالانکہ یہاں دونوں شرط منتفی ہیں کیونکہ توفی کے جمیع افراد میں موت کے معنی نہیں پائے جاتے۔ مثلاً اگر توفی کا فاعل غیر اللہ ہو تو مرزائیوں کے نزدیک توفی کے معنی موت کے نہ ہوں گے۔ اس طرح دوسری شرط بھی منتفی ہے کیونکہ مرزا قادیانی نے اس معنے کا بدون تخصیص و تعیین مفہوم ہونا لازم کر دیا ہے۔ حالانکہ اس مقام پر نہ ایک تخصیص بلکہ دو تخصیصیں ہیں۔ ادھر تو فاعل کی جانب اور ادھر مفعول کی جانب۔ اب بتلایئے کہ جو معنے لفظ کے جمیع افراد میں نہ پائے جاتے ہوں اور بدون تخصیص و تعین کے مفہوم بھی نہ ہوں۔ وہ کیونکر معنی موضوع لہ ہو سکتے ہیں۔ برخلاف اس کے ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ ہمارے نزدیک بدون کسی تخصیص و تعیین کے توفی کے جمیع افراد میں ایک ہی معنے ہیں جو کہ لے لینا ہیں۔ لہذا اس معیار کے لحاظ سے بھی موت حقیقی معنے نہیں بنتے اور لے لینا ہی حقیقی معنے قرار پاتے ہیں: ’’لَوْکَانُوْا یَفْقَھُوْنَ۰‘‘
مرزا قادیانی کے کلام سے ثبوت کہ توفی بمعنے لے لینا ہے
(۶)…… اب ہم صراحتہً مرزا قادیانی کی کتاب سے ہی ثابت کئے دیتے ہیں کہ جس جگہ فعل توفی اور فاعل اللہ اور مفعول ذی روح بھی ہے وہاں بھی مرزا قادیانی نے موت کے معنے نہیں کئے …… شاید معترض حق کی طرف رجوع کرے۔
ملاحظہ ہو براہین احمدیہ ص ۵۱۹‘خزائن ص ۶۲۰ ج ۱:
’’انی متوفیک و رافعک الی۰……الخ‘‘ { میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھائوں گا……الخ۔}
اب ناظرین انصاف کریں کہ کیا بعد از صریح عبارت کے بھی توفی کے حقیقی اور موضوع معنی میں کوئی شک باقی رہ گیا ہے۔ حالانکہ اس مقام پر خدا فاعل بھی ہے اور مفعول ذی روح بھی اگر کہا جائے کہ مرزا قادیانی نے بھی غلطی کی ہے تو ہمیں ایسے نبی کی دعوت سے معذور سمجھا جائے جسے عربی کے ایک موٹے لفظ کے معنی سمجھنے کی لیاقت تک نہ ہو اور اس میں بھی وہ چالیس برس سے زیادہ مدت تک گمراہ رہے اور نہ قرآن کی تیس آیتوں کی طرف غور کرے اور نہ مرزائیوں کے موہوم اجماع کی طرف نظر ڈالے حالانکہ بارہ برس تک دعویٰ وحی بھی کرتا ہو اور خدا اس کی غلطی پر اسے متنبہ بھی کرتا ہے مگر وہ فقط (بزعم خود) گمراہ عوام کے اتباع میں وحی خداوندی کی بھی تاویل کرے احادیث اور محاورہ قرآن کو بھی پس پشت ڈال دے۔ اجماع کی بھی کوئی پرواہ نہ کرے اور ان سارے دلائل قاطعہ کے روبرو گمراہ عوام کے اتباع میں بہبودی تصور کرے بلکہ اسی کو طریق انبیاء قرار دے۔
ونعوذ باللہ من خرافات ھذا الدجال و متبعیہ فانھم فی کل
وادیھیمون ویقولون مالا یفعلون واللہ اعلم!
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
قرآن شریف سے توفی کا موت سے مغائیر ہونے
کا ثبوت اور مرزائی چیلنج کا جواب
’’قال اللہ تعالی! اَﷲُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰی اِلٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی……الخ۰ الزمر آیت نمبر ۴۲‘‘
اے میرے بھٹکے ہوئے دوستو! اور اے سراب خادع کو ماء مصفے خیال کرنے والو!آئو اور قرآنی آیت:’’فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَالرَّسُوْلِ۰ النساء آیت ۵۹‘‘کے تحت قرآن سے ہی فیصلہ کر لو۔ میں نے تم کو تحقیق لغت اور تنقیح محاورات و تصرفات قرآن اور بالآخر خو دمرزا قادیانی کی تصانیف تک سے سمجھا دیا کہ توفی بمعنی موت ہر گز نہیں اور جس شخص نے ایسا کہا اس نے غور کلام کو چھوڑ کر اطراف میں اپنا وقت عزیز ضائع کیا۔ مگر تمہارے نزدیک اگر زمخشری کی تصریح اور ابو البقاء کی تفصیل بھی قابل اعتبار نہیں توآئو قرآن ہی کو اپنے سامنے رکھو اور اپنی قسمت کا آخری فیصلہ کر لو پھر یا مؤمن صادق بن جائویا کا فرمجا ہر رہو۔ لیکن خدارا قرآن کو اپنے تخیل اور اباطیل پر حمل نہ کرو بلکہ اپنے اباطیل کی قرآن سے اصلاح کرو۔ کیونکہ بہت مرتبہ انسان کو باطل کی محبت نصوص کی تحریف اور صرائح کی تاویل پر مجبور کر دیتی ہے۔ پر نیک وہ ہے جس نے قرآن کو اپنے عقائد سے نہیں بلکہ اپنے عقائد کو قرآن سے سیکھا اور سنوارا۔ وبہ نستعین!
یہ امر تو واضح ہے کہ اس آیت شریفہ میں توفی کی دو نوعیں ذکر کی گئی ہیں۔ ایک ان لوگوں کی توفی جو علیٰ شرف الرحیل ہیں اور دوم:’’ والتی لم تمت‘‘ یعنی احیاء کی توفی جس سے کم از کم یہ تو معلوم ہوگیا کہ توفی کوئی ایسا امر نہیں جو مخصوص باالاموات ہو جیسا کہ اموات کے متعلق ہوتی ہے۔ اس طرح احیاء کے بھی متعلق ہوتی ہے۔ لہذا مرزا قادیانی کا یہ سمجھ لینا کہ سارے قرآن میں توفی موت ہی کے معنی میں منحصر ہے محض غلطی اور فاحش غلطی ہے۔ کیونکہ اس آیت میں صاف طور سے:’’ والتی لم تمت‘‘ کی بھی توفی موجود ہے۔
نیز آیت سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ نوم اور موت میں کیا فرق ہے یعنی……دونوں حالتوں میں جسم انسانی سے کچھ لے لیا جاتا ہے پھر یا وہ مر جاتاہے یا اپنی خواہش ظاہرہ سے تھوڑے عرصہ کیلئے معطل ہو جاتا ہے۔ انہیں دو حالتوں کا آئندہ ذکر فرماتے ہیں:’’ فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰی اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی……الخ الزمرآیت ۴۲‘‘یعنی جو بدن انسانی سے کچھ لے لیتے ہیں اگر اسے لیکر نہ چھوڑا تو موت ہے اور اگر اجل مسمی تک پھر چھوڑ دیا تو نوم ہے۔
الغرض صدر آیت میں احیاء و اموات ہر دو کو خدائی توفی کے ماتحت رکھ کر ذیل میں ان کا فرق ذکر کیا گیا ہے تو لاچار ماننا پڑتا ہے کہ بے شک توفی مرتبہ لا بشرط شیٔ میں حیات اور موت دونوں سے مغائیر بھی ہے اور مجامع بھی ورنہ آیت میں توفی کو منقسم الی التوفی مع الامساک اور مع الارسال بناناکسی طرح درست نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اگر توفی کو ہر دو اقسام کے مغائر اور مجامع نہ لیا جائے بلکہ موت کا عین کر لیا جائے جیسا کہ مرزائی مدعی ہیں تو پھر تقسیم الشیٔ الی نفسہ و الی غیرہ کا استحالہ لازم آئے گا اوریہ مستلزم ہوگا کہ:’’ قسم الشیٔ قسیما لہ‘‘ اور:’’ قسیم الشیٔ قسما منہ‘‘ کو ’’کما لایخفی‘‘ پس ضرور ہوا کہ مقام تقسیم میں توفی کو عام ہی لیا جائے تاکہ اس کا مقسم بننا درست ہو سکے۔ نیز اگر توفی کو بمعنی موت لیا جائے تو علاوہ استحالات عدیدۃ کے فی نفسہ آیت کا حسن محو ہوا جاتا ہے۔ کیونکہ اس تقدیر پر آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ مارتا ہے۔ روحوں کو ان کی موت کے وقت اور اللہ مارتا ہے جو روحیں ابھی نہیں مریں اور نوم کے وقت …… اب اس مضمون کی رکت اور سخافت ملاحظہ فرمایئے کہ اولاً تو موت کے وقت مارے گا کیا مطلب ہے کیا کفار نے یہ دعویٰ
کیا تھا کہ خدا موت سے پہلے ہی مار دیتا ہے۔؟ جس کے جواب میں خدا کہتا ہے کہ خدا مارتا ہے موت کے وقت…… ناظرین انصاف کریں کہ :’’حین موتھا ‘‘کو موت کا ظرف قرار دینا کس قدر لغو ہے۔ دوم صدر آیت میں موت مراد لے کر پھر امساک اور ارسال بالکل غیر مربوط ہوا جاتا ہے کیونکہ امساک دار سال ماقبل میں ذکر اخذ کو متقاضی ہیں اور اس تقدیر پر اخذ کا کہیں تذکرہ نہیں …… سوم لفظ موت جو مرنے والے ہیں اور جو زندہ رہنے والے ہیں دونوں پر اطلاق نہیں کیا جا سکتا حالانکہ لفظ:’’ توفی حین موتھا‘‘ اور:’’ والتی لم تمت‘‘ دونوں پر اطلاق کیا گیا ہے۔ چہارم موت کی تقسیم الی الامساک والارسال باطل ہے۔ کیونکہ موت توفی مع الامساک کے مساوی ہے جو کہ توفی مع الارسال کا قسیم ہے۔ لہذا مقسم نہیں بن سکتی۔ پنجم موت چونکہ توفی مع الامساک کا نام ہے۔ لہذا موت کے بعد نہ امساک تصور ہے نہ ارسال حالانکہ فیمسک میں اسی غرض سے لائی گئی ہے تاکہ امساک اور ارسال کی بعدیۃ اور ترتیب بالنسبۃ الی التوفی ظاہر ہو جائے۔ ششم اگر بعد الموت بھی امساک یا ارسال متصور ہو تو لازم آتا ہے کہ ہر ایک شخص پر موت کے بعد ایک اور موت طاری ہو یا موت کے بعد پھر حیات اسی عالم میں نصیب ہو۔ ہفتم اس تقدیر پر لازم آتا ہے کہ موت ارواح پر طاری ہوتی ہو کیونکہ آیت میں توفی انفس کا ذکر ہے۔ پس اگر توفی بمعنی موت ہے تو لامحالہ انفس کی موت تسلیم کرنا پڑے گی۔ حالانکہ مرزا قادیانی کے نزدیک بھی ارواح پر الی یوم الحشر فناء نہیں برخلاف اس کے اگر توفی بمعنی اخذ ہو تو پھر کوئی استحالہ نہیں۔ کیونکہ اخذ انفس سے ان کی موت ثابت نہیں ہوتی بلکہ موت بعد الامساک ہوتی ہے۔ رہا یہ کہ پھر موتہا میں موت کی اضافت انفس کی طرف کیونکر صحیح ہے۔ تو جواباً گزارش ہے کہ اس کی جواب دہی ہم دونوں فریق پر مساوی ہے کیونکہ مرزا قادیانی کے نزدیک بھی موت کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ روح انسانی بھی معدوم ہو جائے مگر بطور تبرع وامید نفع خلائق ذکر کرتا ہوں۔ لیکن اس سے قبل ایک مقدمہ عرض کر دینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ انفس کا اجساد کے ساتھ اور اجساد کا جوانفس کے ساتھ جو حال ومحل کا علاقہ ہے وہ سب کو مسلم ہے۔ پھریہ بھی معلوم ہے کہ جس طرح انفس صعود و ارتقاء میں محتاج الی الاجساد ہیں اس طرح اجساد نقل و حرکت میں محتاج الی الانفس ہیں۔
الغرض جو نفس اور بدن کے علائق ہیں وہ سب پر روشن ہیں اگر مقام میں گنجائش ہوتی تو میں کچھ زیادہ تفصیل سے عرض کرتا مگر سرد ست اس کو اہل عقل و فہم کے حوالہ کرکے عرض کرتا ہوں کہ یہ باہمی ارتباط و احتیاج اس نوبت کو پہنچ چکا ہے کہ افعال جو ارح کا اثر روح پر اور افعال روح کا اثر جوارح پر بیّن طور سے ظاہر ہوتا ہے۔ لہذا جسم کے افعال پر روح کو سزا اور روح کے افعال سے جسم پر مواخذہ ہے۔
پس جبکہ افعال جسم مسندالی الروح اور افعال روح مسندالی الجسم بن سکے تو موت کے جو بحقیقت جسم کے لواحق اور متعلقات میں سے ہے۔ مضاف الی الروح ہونے میں کیا نقص ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ اضافہ موتہا میں بادنیٰ ملابست ہے اوریہ تاویل نہیں بلکہ امر حق ہے۔
اگر کوئی اعتراض کرے کہ توفی انفس کے بھی معنے کر لینے چاہئیں تویہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ صدرآیت میں احوال ارواح کا ذکر مقصود بالذات ہے۔ نہ فقط جسم کا اور نہ جسم مع الروح کا۔ اور دلیل اس کی یہ ہے کہ ذیل آیت میں امساک اور ارسال کاذکر بھی موجود ہے اور یہ علی الاطلاق روح کے ہی حال بن سکتے ہیں نہ فقط جسم کے اور نہ جسم مع الروح کے۔ الحاصل ان سات وجوہ …… سے ظاہر ہو گیا کہ آیت میں توفی سے مراد اخذ ہے نہ موت اس کی تائید میں ایک حدیث بھی تحریر کرتا ہوں جس سے معلوم ہو گا کہ آیت میں کسی طرح توفی سے موت مراد نہیں بلکہ اخذ اور قبض ہی مراد ہے۔
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
صحیح بخاری ج۱ ص ۸۳ باب الاذان بعد ذہاب الوقت:
’’ عن عبداللہ بن ابی قتادۃ عن ابیہ قال سرنا مع النبی ﷺ لیلۃ فقال بعض القوم لوعرست بنأیا رسول اللہ قال اخاف ان تناموا عن الصلوۃ قال بلال انا اوقظکم فاضطجعوا واسند بلال ظھرہ الی راحلتہ فغلبتہ عیناہ فنام فاستیقظا النبی ﷺ وقد طلع حاجب الشمس فقال یا بلال این ما قلت قال ماالقیت علی نومۃ مثلھا قط قال ان اللہ قبض ارواحکم حین شاء وردھا علیکم حین شائ۰الحدیث‘‘
اب ملاحظہ فرمایئے کہ ان اللہ قبض ارواحکم میں وہی امر بیان کیا گیا ہے جو اللہ یتوفی الانفس میں مذکور ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خود آنحضرت نے بھی آیت اللہ یتوفی الانفس میں توفی النفس کو قبض روح سمجھا ہے نہ موت کماقالوا۔
الحاصل جبکہ یہ امر بخوبی منقح ہو چکا کہ توفی سے مراد موت نہیں ہے تو پیغام صلح کے چیلنج کا بھی شافی جواب ہو گیا۔ کیونکہ اس مقام پر فعل توفی ہے اور اللہ فاعل بھی ہے اور مفعول ذی روح ہے باوجود اجتماع ان جمیع شرائط کے پھر معنی موت منتفی ہیں۔
(فائدہ جلیلہ) شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے عوارف میں نفس کے متعلق کچھ کلام کیا ہے جس سے موتہا کی اضافت میں ایک لطیف توجیہ نکل آئی ۔اور ادنیٰ ملابستہ کہنے کی بھی حاجت نہ رہی۔ وہ فرماتے ہیں کہ موت سے جیسا کہ جسم متاثر ہوتا ہے اسی طرح نفس بھی متالمٔ ہوتا ہے۔ وعلیٰ ہذا اضافۃ علیٰ ظاہر ہا ہے۔
آیت دوم:’’وَھُوَالَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَاجَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ۰ انعام آیت ۶۰‘‘
یہ اقسام توفی میں سے قسم ثانی ہے جس کو اس مقام پر جرح کے مقابل رکھا گیا ہے۔ یہاںبھی موت مراد نہیں۔ باوجود یکہ جمیع شرائط پائے جاتے ہیں کیونکہ اس مقام پر تو فی مع الارسال مراد ہے اور یہ توفی مع الامساک کا مقابل اور قسیم ہے :’’کمامر فناھیک آیتین من آیات اﷲ‘‘
اس کے بعد میں اس جواب کو نقل کرتا ہوں جو خود مرزا قادیانی کے قلم کا نوشتہ ہے۔ مرزائیوں کو لازم ہے کہ کسی اور جواب کے نقل کرنے سے پیشتر مرزا قادیانی کے اس جواب کو صحیح بنائیں پھر کوئی نیا جواب اپنی طرف سے تراشیں‘ کیونکہ اپنے نبی سے زیادہ نہ ان کا علم ہے نہ فہم۔ لہذا اگر کوئی بہترین جواب ممکن ہو گا تو یہی ممکن ہو گا جو مرزا قادیانی نے پیش کیا ہے۔
’’ دو موخر الذکر آیتیں اگرچہ بظاہر نیند سے متعلق ہیں مگر درحقیقت ان دونوں آیتوں میں بھی نیند نہیں مراد لی گئی بلکہ اس جگہ بھی اصل مقصد اور مدعا موت ہے اور یہ ظاہر کرنا منظور ہے کہ نیند بھی ایک قسم کی موت ہی ہے … سوان دونوں مقامات میں نیند پر توفی کے لفظ کا اطلاق کرنا ایک استعارہ ہے۔ جوبہ نصب قرینہ نوم استعمال کیا گیا ہے یعنی صاف لفظوں میں نیند کا ذکر کیا گیا ہے تاہر ایک شخص سمجھ لے کہ اس جگہ توفی سے مراد حقیقی موت نہیں ہے بلکہ مجازی موت مراد ہے جو نیند ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص ۳۳۲ ‘خزائن ص۲۶۹ ج ۳)
اس عبارت میں مرزا غلام احمد قادیانی نے تسلیم کر لیا ہے کہ ان ہر دو مذکورہ بالا آیتوں میں ظاہراًتوفی سے موت مراد نہیں بلکہ نیند مراد ہے۔ ہاں قاعدہ کے مطرد اور منعکس بنانے کے لئے بالآخر نیند کو بھی موت ہی کی طرف راجع کر دیا گیا ہے تاکہ یہ قاعدہ کلیہ کہ: ’’ جہاں فعل توفی اور اللہ فاعل اور مفعول ذی روح ہے وہاں بجز موت کے اور کوئی معنے نہیں۔ ‘‘ صحیح بن جائے۔
مگر ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے جو ہم ظاہر معنی کو چھوڑکر فقط قاعدہ کے ٹھکانے لگانے کے واسطے موت مراد لیں ہر چند کہ ہمارے نزدیک جو آیت کے صحیح معنی تھے وہ گزر چکے مگر اس مقام پر بحیثیت منکر ہونے کے میرے لئے گنجائش ہے کہ آیت کے تاویلی معنے تسلیم نہ کروں اور بطور احتمال تھوڑی دیر کے لئے جس کو مرزا قادیانی نے ظاہری معنے ٹھہرایا ہے تسلیم کر لوں۔ دوم اس عبارت میں ایک اور معمہ بھی قابل حل ہے اوروہ یہ کہ ابتداء کلام میں تو نیند مراد ہونے کی نفی کی گئی ہے پھر چار ہی سطر پر فرماتے ہیں:
’’ اس جگہ توفی سے مراد حقیقی موت نہیں ہے۔ بلکہ مجازی موت مراد ہے۔ جو نیند ہے۔‘‘
کس قدر تعجب ہے کہ ابھی چند سطروں کا ہی فصل ہونے پایا تھا۔ جو خود اپنے کلام سے رجوع کر لیا گیا۔ میں نے مانا کہ نیند کو مجازی موت مان کر مراد لیا گیا مگر جب نیند اور مجازی موت شیٔ واحد ہی ہیں تو پھر مجازی موت مراد ہوتے ہوئے نیند کی نفی کیونکر صحیح ہے۔ سوم اس تقدیر پر توفی بمعنی موت ہو اور موت بمعنی نوم لیا گیا تو اب سوچنا چاہئے کہ کیا آیات قرآنیہ ایسی تاویلات کی متحمل ہیں۔ چہارم اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ توفی آیت مذکور میں بطور استعارہ نوم میں مستعمل ہے تو یہ معنی آیت کے جزء ثانی میں بن سکیں گے نہ جزء اول میں۔ کیونکہ حین موتہا کے ساتھ توفی بمعنی نوم کسی طرح درست نہیں۔ کیونکہ اس تقدیر پر جزء اول میں موت حقیقی کا بیان ہے اور جزء ثانی میں موت مجازی کا۔ پس اگر توفی کو بمعنی نوم لیا جائے تو لازم آتا ہے کہ حقیقی موت کے وقت بھی آدمی سویا کرتا ہو۔ پنجم جس قدر اعتراضات کہ توفی بمعنی موت لے کر وارد کئے گئے ہیں۔ ان میں سے اکثر توفی بمعنے نوم لے کر بھی وارد ہیں۔ کیونکہ اگر توفی بمعنے موت لے کر توفی مع الامساک کی مساوی بن جاتا ہے تو بمعنی نام لے کر توفی مع الارسال کی مساوی ہو جاتا ہے۔ لہذا اس تقدیر پر بھی بقیہ اکثر استحالات لازم ہوں گے۔
ایک وہم کا ازالہ
شاید کوئی کہے کہ پیغام صلح میں توفی کے معنے قبض روح کے لئے گئے ہیں نہ موت کے اور قبض روح موت اور نوم دونوں سے عام ہے تو جواباً گزارش ہے کہ یہ محض ایک وہم ہے۔ ظاہر ہے کہ مرزائی جماعت اپنے نبی کا خلاف نہیں کر سکتی۔ اور میں پہلے مرزا قادیانی کی نو عبارتیں نقل کر چکا ہوں جس میں انہوں نے تصریح کی ہے کہ توفی سوائے موت کے اور کسی معنے میں مستعمل نہیں۔ اس مقام پر ایک حوالہ اور درج کرتا ہوں۔
’’ بلا شبہ قطعی اور یقینی طور پر اول سے آخر تک قرآنی محاورہ یہی ثابت ہے کہ ہر جگہ درحقیقت توفی کے لفظ سے موت ہی مراد ہے۔‘‘ ( ازالہ اوہام ص۳۳۵‘ خزائن ص ۲۷۰ج۳)
بے شک مرزاجی کے کلام میں قبض روح کا لفظ بھی آیا ہے مگر اس سے مراد موت ہی ہے۔ کیونکہ اگر ان کے نزدیک قبض روح کے وہ عام معنے مراد ہوتے تو پھر ہر دو مذکورہ بالا آیتوں میں صاف صورت یہ تھی کہ توفی سے قبض روح مراد لے لیتے۔ اگرچہ یہ بھی صحیح نہ تھا مگر تاہم ان رکیک تاویلات سے بسا غنیمت ہوتا۔ جو مرزا قادیانی نے جواب میں کیں ہیں۔ علاوہ ازیں مرزا قادیانی کے کلام میں خود تصریح بھی موجود ہے کہ موت اور قبض روح ایک ہی معنی ہیں۔
’’ جب عرب کے قدیم و جدید اشعار و قصائد نظم و نثر کا جہاں تک ممکن تھا تتبع کیا گیا اور عمیق تحقیقات سے دیکھا گیا تویہ ثابت ہوا کہ جہاں جہاں توفی کے لفظ کا ذی روح سے یعنی انسانوں
سے علاقہ ہے اور فاعل اللہ جل شانہ کو ٹھہرایا گیا ہے۔ ان تمام مقامات میں توفی کے معنی موت اور قبض روح کئے گئے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۸۸۶‘خزائن ص۵۸۳ج ۳)
اس عبارت میں مرزا قادیانی نے موت اور قبض روح کو مرادف مانا ہے۔ کیونکہ اگر قبض روح سے مراد عام معنے ہوتے تو ذکر موت محض لغو ہے۔ کیونکہ اس تقدیر پر موت بھی قبض روح کے افراد میں سے ہے جیسا کہ نوم۔ دوم عبارت یوں ہونی چاہئے تھی کہ: ’’بعض مقامات میں توفی کے معنے موت کے کئے گئے ہیں اور بعض مقامات میں قبض روح کے۔ ‘‘ مگر عبارت میں تو یہ ہے کہ: ’’ ان تمام مقامات میںتوفی کے معنی موت اور قبض روح کے کئے گئے ہیں۔‘‘
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
اب ظاہر ہے کہ قبض روح سے موت کے علاوہ کسی اور معنی کا ارادہ کیا گیا ہوتا تو تمام مقامات میں موت اور قبض روح مراد ہونا محض باطل ہے کیونکہ جہاں موت ہے وہاں پھردوسرے معنی جو موت کے مغائر ہوں مراد نہیں ہوسکتے۔
نیز ملاحظہ ہو ازالہ ص ۸۸ اس عاجز نے حدیثوں کی طرف رجوع کیا تا معلوم ہو ……… آیا یہ لفظ اس وقت ان کے روز مرہ محاورات میں کئی معنوں پر مستعمل ہوتا تھا یا صرف ایک ہی معنے قبض روح اور موت کے لئے مستعمل تھا۔ اب انصاف کیجئے کہ اس عبارت میں کس قدر صاف اورصریح طریق سے مرزا قادیانی نے قبض روح اور موت کو ایک ہی معنی تسلیم کیا ہے جیسا کہ ’’ کئی معنوں کا ‘‘ مقابلہ بتلا رہا ہے۔ اس لئے میں نے بھی پیغام صلح میں قبض روح سے موت مراد لے کر جواب کی بنا رکھی ہے۔
تامریدین اور مرشد کے کلام میں اختلاف نہ پیدا ہو۔ اس کے بعدیہ امر بھی قابل غور ہے کہ اگر قبض روح اپنے عام معنوں کے لحاظ سے لیا جائے تو پھر اس کی نسبت موت اور نوم کی طرف مساوی ہو گی۔ کیونکہ موت اور نوم دونوں میں قبض روح موجود ہے پھر یہ کہنا محض غلط ہو گا کہ موت توفی کے معنی حقیقی ہیں اور نوم غیر حقیقی۔ حالانکہ مرزائی موت کو بمعنی حقیقی اور نوم کو معنی مجازی قرار دیتے ہیں اور اس تقدیر پر یہ کس طرح درست نہیں کیونکہ قبض روح کی نسبت ……جیسا کہ موت کی طرف ہے ۔اسی طرح نوم کی طرف ہے یعنی اگر موت میں قبض الروح مع الامساک ہے تو نوم میں مع الارسال ۔ بہرحال نفس قبض روح دونوں کے ساتھ مقید نہیں پھر کیونکر نوم اور موت میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ لہذا ان مذکورہ بالا وجوہات سے یہ امر محقق ہو گیا کہ مرزا قادیانی کی نیت میں قبض روح اور موت میں سوائے اجمال اور تفصیل کے کوئی فرق نہیں اور نہ مرزا قادیانی کے کلام میں قبض روح کو موت سے عام لیا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے میں نے بھی پیغام صلح کی عبارت میں قبض روح سے موت مراد لے کر جواب دہی شروع کر دی ہے۔
میرا خیال ہے کہ شاید مرزائی جماعت بھی میرے اس خیال کی تردید نہ کرے گی۔ ورنہ اگر اس نے اس طرف اس خیال کی تغلیط کی تو دوسری طرف اس پر واجب ہو گا کہ مرزاجی کی ان جمیع تحریرات کو پہلے ٹھکرادے جن میں انہوں نے بمعنی موت کی تصریح کی ہے اور اسی معنے کے لحاظ سے اپنے قاعدہ کی کلیتہ کو بحال رکھا ہے۔ اگر کہا جائے کہ گو مرزا قادیانی کی عبارات میں موت ہی مراد ہے مگر ہم نے جن الفاظ میں دعویٰ پیش کیا ہے کہ اس پر تو اعتراض وارد نہیں ہوتا تو میں عرض کروں گا کہ ایسے مہمل اور ضال و مضل کو پہلے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے نبی یا مجدد کے سر سے تو اعتراضوں کا انبار اٹھائے۔ اس کے بعد اپنے اختراعی قواعد پیش کر لئے ورنہ اس میں کیا کمال ہے کہ اپنے نبی کو تو مجرم وملزم ٹھہرایا جائے اور اپنی برأت ثابت کی جائے۔
علاوہ ازیں میں سوال کرتا ہوں کہ جن الفاظ میں براہین احمد یہ حصہ پنجم سے دعویٰ نقل کیا گیا ہے وہ تمہارے نزدیک بھی صحیح ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو تم نے آپ ہی اپنے نبی کی تغلیطکر دی ۔ اور اگر صحیح ہے تو پھر اعتراضات کی ذمہ داری آپ پر جس حیثیت سے بھی عائد ہو جاتی ہے۔ اگرچہ محض اتباع میں بھی قاعدہ مذکورہ …… سے بحیثیت ایک امتی ہونے کے بھی آپ پر مدافعت ضروری تھی۔ لہذا قبل اس کے آپ اپنے نبی کو اصلاح دیں۔ ان کے اس قاعدہ کی اصلاح کی صورت نکالیئے۔ اس کے بعد آخر میں نفس معنے قبض روح پر بھی تھوڑا سا کلام کرنا چاہتا ہوں۔
واضح رہے کہ جس شخص نے توفی بمعنے قبض روح لیا ہے۔ اسے اولاً ثابت کرنا پڑے گا کہ روح توفی کے معنے میں داخل ہے۔ آیت مذکورہ:’’ اﷲُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ… …الخ۰الزمرآیت ۴۲‘‘ میں چونکہ خودآگے انفس کا لفظ موجود ہے۔ لہذا اس سے کوئی احتجاج نہیں ہو سکتا۔ رہا تاج العروس وغیرہ میں توفی اللہ زیداً کے معنی قبض روحہ کے لکھ دینا۔ سو اس سے بھی استدلال کرنا غایت حماقت کی دلیل ہے۔ کیونکہ لغو یین کی مراد اس مقام پر قبض روح سے موت ہی ہے۔ نہ وہ قبض روح جو موت اور نوم دونوں سے عام ہے۔ کیا آپ کے نزدیک توفی اللہ زیداً بدون قیام قرینہ موت اور نوم دونوں سے ساکت ہے۔ پس لغویین نے روح کا لفظ اس لئے اضافہ نہیں کیا کہ یہ مفہوم لفظ کا جزء ہے بلکہ تبعیۃ مفعول میں ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ آگے چل کر خود ذکر کروں گا کہ عامۂ ناس کی توفی بصورت موت ہی ہوتی ہے۔ لہذا اسی توفی کو قبض روح سے تعبیر کر دیا گیا ہے۔ نیز اس میں بیان ماخذ معنے عام کا بھی مرعی ہے بخلاف موت کے یہی مراد ہے:’’فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْ مِنْ وَّمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ۰ الکہف آیت ۲۹‘‘سوم قبض روح اشتقاق لغوی کے لحاظ سے اگرچہ عام ہی ہے مگر عرفاًنائم کی روح کو مقبوض نہیں کہا جا سکتا۔ اور جب عام لوگ اپنے محاورہ میں بولتے ہیں کہ فلاں شخص کی روح قبض ہو گئی تو بیشتر اس سے مراد موت ہی ہوتی ہے۔ حقیقتاً یاتنزیلاً۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ توفی بمعنے قبض روح لے کر پھر آیت آل عمران سے وفات عیسیٰ علیہ السلام پر استدلال کرنا غایتہ ضعیف ہو جاتاہے۔ ہر چند کہ موت کے معنی لے کر بھی تحریف سے کم نہیں مگر میں مرزا قادیانی کی اس تقریر کے لحاظ سے عرض کرتا ہوں جو انہوں نے براہین احمدیہ میں کی ہے۔
’’سو یاد رہے کہ قرآن شریف صاف لفظوں میں بلند آواز سے فرما رہا ہے کہ عیسیٰ اپنی طبعی موت سے فوت ہو گیا ہے جیسا کہ ایک جگہ تو اللہ تعالیٰ بطور وعدہ فرماتا ہے:’’ یا عیسی انی متوفیک ورافعک الی (حاشیہ)‘‘ ’’معلوم رہے کہ زبان عرب میں لفظ توفی صرف موت دینے کو نہیں کہتے بلکہ طبعی موت دینے کو کہتے ہیں جو بذریعہ قتل وصلیب یا دیگر خارجی عوارض سے نہ ہو‘‘ (ملاحظہ ہو براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۲۰۵‘ خزائن ص ۳۷۷ ج۲۱)
’’اب ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ جبکہ آیت:’’وَمَاقَتَلُوْہُ یَقِیْنًا ‘‘اور:’’وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ ‘‘صرف توفی کے لفظ کی توضیح کے لئے بیان فرمائی گئی ہے کوئی نیا مضمون نہیں ہے۔ بلکہ صرف یہ تشریح مطلوب ہے کہ جیسا لفظ متوفیک میں یہ وعدہ تھا کہ عیسیٰ کو اس کی طبعی موت سے مارا جائے گا۔ ایسا ہی وہ طبعی موت سے مر گیا نہ کسی نے قتل کیا اور نہ کسی نے صلیب دیا۔‘‘
حاشیہ:’’ چونکہ یہودیوں کے عقیدہ کے موافق کسی نبی کا رفع روحانی طبعی موت پر موقوف ہے اور قتل اور صلیب رفع روحانی کا مانع ہے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے اول یہود کے رد کے لئے یہ ذکر فرمایا کہ عیسیٰ کے لئے طبعی موت ہوگی۔ پھر چونکہ رفع روحانی طبعی موت کا ایک نتیجہ ہے۔ اس لئے لفظ متوفیک کے بعد ورافعک الی لکھ دیا۔ ‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ پنجم ص۲۰۹‘خزائن ص۳۸۲ج۲۱)
 

مبشر شاہ

رکن عملہ
منتظم اعلی
پراجیکٹ ممبر
ان عبارات مذکورہ بالا سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ آیت نساء اور آل عمران سے آپ لوگوں کی تلبیس جب ہی چل سکتی ہے جبکہ توفی کو طبعی موت کے معنے میں لیں تاکہ آل عمران میں وعدہ توفی یہودیوں کے بالمقابل بن سکے۔ پس اگر آپ کے نزدیک توفی کے معنی قبض روح ہیں عام اس سے کہ بصورت نوم ہو یا بصورت موت تو پھر انی متوفیک میں موت کہاں سے متعین ہے جائز ہے کہ نوم مراد ہو جیسا کہ مفسرین نے ایک قول یہ بھی لکھاہے۔ دوم قبض روح میں یہودیوں کا کوئی رد نہیں نکلتا کیونکہ قتل اور صلیب میں بھی قبض روح موجود ہے۔ وعلیٰ ہذا آیت النساء اس کی تشریح بھی نہیں بن سکتی۔ سوم جبکہ مرزا قادیانی نے تصریح کر دی ہے کہ زبان عرب میں توفی طبعی موت کو کہتے ہیں۔
ملاحظہ ہو حاشیہ براہین احمدیہ پنجم ص ۲۰۵ تو پھر قبض روح کے معنی مراد لینا مرزا قادیانی کی صریح مخالفت کرتا ہے۔ چہارم مرزا قادیانی نے جو بڑی سعی وکوشش کے بعد توفی بمعنی موت ہونے کا تبادر پیدا کیا تھا وہ سب کھویا جاتا ہے۔ کیونکہ قبض روح …… موت سے عام ہے۔ پس توفی کو بمعنی قبض روح لے کر تو آپ کی اصل بنیاد یعنی وفات عیسیٰ علیہ السلام ہی کو سخت مضرت پہنچتی ہے۔ الحاصل توفی بمعنی قبض روح اولاً تو مرزاجی کے برخلاف دعویٰ ہے۔ دوم اس تقدیر پر علاوہ ان گزشتہ استحالات کے اور چند استحالات ایسے لازم آتے ہیں جن سے ضروری طور پر مرزا قادیانی اور وفات مسیح علیہ لسلام کی تکذیب کرنی پڑتی ہے۔ لہذا میں اس معنی کو وہم سے تعبیر کرتا ہوں اور نہیں خیال کرتا کہ کوئی مرزائی ایسے معنی سے اتفاق کر سکے۔
لیجئے آخر میں ہم آپ کو یہ بھی قرآن شریف سے بتلا دیتے ہیں کہ توفی بمعنے قبض روح کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا۔
توفی بمعنے قبض روح نہ ہونے کا قرآن شریف سے ثبوت
(۱)……’’قال تعالی! وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا ……الخ۰ البقرہ آیت ۲۳۴‘‘ اس آیت میں ایک قراۃ حضرت علی ؓ کی یتوفون معروفاً بھی ہے۔ اگر توفی بمعنے قبض روح ہو تو پھر آیت کا ترجمہ یوں ہو گا: ’’ اور وہ لوگ جو تم میں سے قبض روح کرتے ہیں۔‘‘ حالانکہ یہ ببداہت باطل ہے کیونکہ معلوم ہے کہ دنیا میں خد انے ہم کو قابض ارواح نہیں بنایا۔ برخلاف اس کے اگر ہمارے بیان کردہ معنے مراد لئے جائیں تو آیت کا مطلب بالکل صاف ہے۔ کیونکہ اس تقدیر پر ترجمہ یہ ہو گا:’’ اور وہ لوگ جو تم میں سے ہیں۔ چنانچہ اپنی عمر پوری کرتے ہیں… ………الخ۔‘‘
چنانچہ تفسیر کبیرجز۶ ص۱۳۴ میں اسی آیت کی شرح میں ہے :
’’ المسئلۃ اولیٰ ’’یتوفون معناہ یموتون ویقبضون قال اللہ تعالیٰ (اﷲ یتوفی الانفس حین موتھا) واصل التوفی اخذ الشیٔ وافیًا کاملا‘ ویقال: توفی فلان‘ اذا مات فمن قال توفی کان معناہ قبض واخذ ومن قال توفی کان معناہ توفی اجلہ استوفی اکلہ وعمرہ وعلیہ قراء ۃ علی علیہ السلام یتوفون بفتح الیائ‘‘
دیکھئے امام نے کس قدر صاف اور صریح طور سے حضرت علی ؓ کی قراۃ نقل فرما کر اس کے معنے استیفاء عمرو اکل کے لئے ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں ۔ بھلا کوئی مرزائی قبض روح کے معنے لے کر حضرت علی ؓ کی قراء ۃ کا مطلب بیان تو کر دے؟ اور اگر نہ بیان کر سکے اور سمجھ لے کہ بے شک توفی بمعنے قبض روح لے کر آیت کا مطلب خبط ہوا جاتا ہے تو وہ جان لے کہ حضرت علی ؓ بڑے فصحاء و بلغاء میں سے ہیں۔ باایں ہمہ ان کی قرأت
معروفاًہی ہے۔ پھر کیا اس سے صاف نتیجہ نہیں نکلتا کہ قرآن عزیز میں توفی بمعنے قبض روح کا کلیتہً دعویٰ کرنا سرتاپا غلط ہے۔
’’قال تعالی! حَتّٰی اِذَا جَآئَ تْھُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَھُمْ۰‘‘ تفسیر خازن ص ۱۰۲ ج ۲ میں ہے:’’ وقیل ان ھذا یکون فی الآخرۃ‘‘ والمعنی ’’ حَتّٰی اِذَا جَآئَ تْھُمْ رُسُلُنَا‘‘ بعنے:’’ ملائکۃ العذاب یتوفو نھم‘‘ یعنی:’’ یستوفون عددھم عند حشرھم الی النار‘‘ تاج العروس شرح قاموس میں ہے کہ اسکا قائل زجاج ہے۔ اب آپ ذرا انصاف فرمایئے کہ زجاج جیسا امام لغت اس آیت کو محشر میں تسلیم کرتا ہے۔ اگر توفی بمعنی قبض روح ہے تو پھر کیا محشر میں دوبارہ روحیں قبض کی جائیں گی اور کیا زجاج جیسا لغت دان ایسی فاحش غلطی کرسکتا ہے۔ اس طرح تفسیر کبیر میں اس قول کو سلف میں سے حسن کی طرف منسوب کیا ہے۔ الحاصل یہ امر قرآن شریف سے بھی ثابت ہو گیا کہ توفی بمعنے قبض روح محض غلط ہے ورنہ حضرت علی ؓ اور حسن اور زجاج جیسے حضرات پر لغت عرب سے ناواقفیت کا سخت دھبہ لگتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ بلکہ معنی حقیقی مطلقاً قبض واحد میں ہے۔
اب اس کے بعد میں مرزائی قاعدہ کا اصل راز بتلانا چاہتا ہوں تاکہ بیچارہ سادہ مسلمان سمجھ لے کہ اس قاعدہ میں نہ کوئی نور ہے نہ صداقت کی کوئی جھلک۔ فقط عوام پر تلبیس ہے اور کچھ نہیں۔
مرزائی قاعدہ کا راز طشت از بام ہو گیا
اس پر تو قدرے کافی بحث ہو چکی ہے کہ توفی کے لغوی معنی کیا ہیں اور قرآنی کیا۔ لہذا اب میں چاہتا ہوں کہ عیسیٰ علیہ السلام کی توفی کیوں مجامع مع الرفع ہے اور عوام کی کیوں مجامع مع الموت تاکہ مرزائی قاعدہ کا راز طشت از بام اور اس کی چھپی ہوئی حقیقت منکشف ہو جائے۔ اور بشرط انصاف آپ کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ بے شک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توفی عامۃ الناس کی توفی سے مغائر ہی ہونا چاہئے۔جس سے صاف طور پر آپ پر منکشف ہو جائے گا کہ مرزائیوں کا ایک امر مسلم پر نظیر طلب کرنا اورانعامی اشتہار دینا محض خداع اور ضلالت ہے۔ واللہ الموافق!!!
واضح ہو کہ آیت:’’ اَﷲُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ‘‘ میں ان دو توفیوں کا ذکر ہے جو بطور عادت ہر بشر سے متعلق ہیں۔ یعنی اخذ مع الارسال اور اخذمع الامساک اور اس وجہ سے ان دونوں کو ایک ہی آیت میں جمع فرما کر نفس دون نفس کے ساتھ مخصوص نہیں فرمایا۔ بلکہ لفظ انفس مفعول بنا کر تعمیم کی طرف اشارہ فرمایا ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ ہر انسان کو ان دوتوفیو ں کے ماتحت آنا ہے بالفعل یا بالقوۃ‘ برخلاف اس کے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مخصوص توفی کا تذکرہ فرمایا تو پھر خطاب بھی مخصوص کر دیا گیا اور اس تیسری مخصوص توفی کو اپنے اخوین سے منفصل قرار دیا ہے:’’ کما قال! یٰعِیْسٰیٓ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ ۰‘‘ پس اولاً مصدر بالعلم فرما کر آگے خطاب غیر مشترک ہی رکھا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وعدہ خداوند عالم کا محض عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا ہے۔ نہ کسی اور کے ساتھ۔ پس جبکہ یہ وعدہ عیسیٰ علیہ السلام ہی کے ساتھ مخصوص طور سے ہے تو اب اس کے لئے کسی نظیر کی تلاش کس قدر لغو ہے۔ کیا اگر زید نے صرف عمر سے ہی کوئی وعدہ کیا ہو تو بکر کواس امرمو عود کے طلب کاحق پہنچ سکتا ہے؟۔ ہر گز نہیں ظاہر ہے کہ جس کے ساتھ وعدہ ہے اس کے ساتھ ایفاء ہونا چاہئے یہ کیا مہمل بات ہے کہ وعدہ تو فقط عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہو اور اس کا ایفاء عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے اور نبیوں کے ساتھ ڈھونڈا جائے جن سے اس امر موعود کا وعدہ بھی نہیں کیا گیا نہ ان سے اس کا کا کوئی تعلق ہے۔
 
Top