2096آخری دردمندانہ گزارش
معزز اراکین اسمبلی!
ہر چند اختصار کو مدنظر رکھنے کے باوجود مرزائیت کے بارے میں ہماری گزارشات کچھ طویل ہوگئیں۔ لیکن امت اسلامیہ پر مرزائیت کی ستم رانیوں کی داستان اس قدر طویل ہے کہ دو سو صفحات سیاہ کرنے کے باوجود ہمیں باربار یہ احساس ہوتا ہے کہ اس موضوع سے متعلق جتنی اہم باتیں معزز اراکین کے سامنے پیش کرنی ضروری تھیں۔ ان کا بہت بڑا حصہ ابھی باقی ہے۔ ملت اسلامیہ تقریباً نوے سال سے مرزائیت کے ستم سہہ رہی ہے۔ اس مذہب کی طرف سے اسلام کے نام پر اسلام کی جڑیں کاٹنے کی جو طویل مہم جاری ہے اس کی ایک معمولی سی جھلک پچھلے صفحات میں آپ کے سامنے آچکی ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد کی دھجیاں بکھیری گئی ہیں۔ قرآنی آیات کے ساتھ کھلم کھلا مذاق کیاگیا ہے۔ احادیث نبویؐ کو کھلونا بنایا گیا ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہؓ کے مقدس گروہ اہل بیت عظامؓ اور اسلام کی جلیل القدر شخصیتوں پر علانیہ کیچڑ اچھالا گیا ہے۔ اسلامی شعائر کی برملا توہین کی گئی ہے۔ انتہاء یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی جیسے کردار کو اس رحمتہ للعالمینﷺ کے ’’پہلو بہ پہلو‘‘ کھڑا کرنے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جسﷺ کے مقام عظمت ورفعت کے آگے فرشتوں کا سرنیاز بھی خم ہے۔ جسﷺ کے نام نامی سے انسانیت کا بھرم قائم ہے اور جسﷺ کے دامن رحمت کی فیاضیوں کے آگے مشرق ومغرب کی حدود بے معنی ہیں۔معزز اراکین اسمبلی!
مرزائیت اسی رحمتہ للعالمین(ﷺ) کے شیدائیوں کے خلاف نوے سال سے سازشوں میں مصروف ہے۔ اس نے ہمیشہ اسلام کا روپ دھار کر امت مسلمہ کی پشت میں خنجر بھونکنے اور دشمنان اسلام کے عزائم کو اندرونی اڈے فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے عالم اسلام کے مختلف حصوں میں فرزندان توحید کے قتل عام اور مسلم خواتین کی بے حرمتی پر گھی کے چراغ 2097جلائے ہیں اور اس نے اپنے آپ کو امت مسلمہ کا ایک حصہ ظاہر کر کے اسلام دشمنوں کی وہ خدمات انجام دی ہیں جو اس کے کھلم کھلا دشمن انجام نہیں دے سکتے تھے۔
ملت مسلمہ نوے سال سے مرزائیت کے یہ مظالم جھیل رہی ہے۔ انہی مظالم کی بناء پر تمام مسلمانوں اور مصور پاکستان علامہ اقبال مرحوم نے اپنے زمانے کی انگریز حکومت سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ مرزائی مذہب کے متبعین کو غیرمسلم اقلیت قرار دے کر انہیں مسلمانوں کے جسد ملی سے علیحدہ کر دیا جائے۔ لیکن وہ ایک ایسی حکومت کے دور میں پیدا ہوئے تھے جس نے مرزائیت کا پودا خود کاشت کیا تھا اور جس نے ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطر مرزائیت کی پیٹھ تھپکنے کی پالیسی اختیار کی ہوئی تھی۔ لہٰذا پوری ملت اسلامیہ اور خاص طور سے علامہ اقبال کی درد میں ڈوبی ہوئی فریادیں ہمیشہ حکومت کے ایوانوں سے ٹکرا کر رہ گئیں۔ مسلمان بے دست وپا تھے۔ اس لئے وہ مرزائیت کے مظالم سہنے کے سوا کچھ نہیں کر سکے۔ آج اسی مصور پاکستان کے خوابوں کی تعبیر پاکستان کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ یہاں ہم کسی بیرونی حکومت کے ماتحت نہیں تھے۔ لیکن افسوس ہے کہ ستائیس سال گزرنے کے بعد بھی ہم ملت اسلامیہ کی اس ناگزیر ضرورت اس کے دیرینہ مطالبے اور حق وانصاف کے اس تقاضے کو پورا نہیں کر سکے اور اس عرصہ میں مرزائیت کے ہاتھوں سینکڑوں مزید زخم کھا چکے ہیں۔
معزز اراکین اسمبلی! اب ایک طویل انتظار کے بعد یہ اہم مسئلہ آپ حضرات کے سپرد ہوا ہے اور صرف پاکستان ہی نہیں، بلکہ پورے عالم اسلام کی نگاہیں آپ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ پوری مسلم دنیا آپ کی طرف دیکھ رہی ہے اور ان خلد آشیاں مسلمانوں کی روحیں آپ کے فیصلے کی منتظر ہیں۔ جنہوں نے غلامی کی تاریک رات میں مرزائیت کے بچھائے ہوئے کانٹوں پر جان دے دی تھی۔ جو حق وانصاف کے لئے پکارتے رہے۔ مگر ان کی شنوائی نہ ہو سکی اور جو ستائیس سال سے اس مسلم ریاست کی طرف دیکھ رہے ہیں جو آزادی کے خوابوں کی تعبیر ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی ہے اور جو دو سوسالہ غلامی کے بعد مسلمانوں کی پناہ گاہ کے طور پر حاصل کی گئی ہے۔
2098معزز اراکین! مسلمان کسی پر ظلم کرنا نہیں چاہتے۔ مسلمانوں کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ اس مرزائی ملت کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ جس نے اسلام سے کھلم کھلا خود علیحدگی اختیار کی ہے جس نے اسلام کے مسلمہ عقائد کو جھٹلایا ہے۔ جس نے ستر کروڑ مسلمانوں کو برملا کافر کہا ہے اور جس نے خود عملاً اپنے آپ کو ملت اسلامیہ سے کاٹ لیا ہے۔ ان کی عبادت گاہیں مسلمانوں سے الگ ہیں۔ ان کے اور مسلمانوں کے درمیان شادی بیاہ کے رشتے دونوں طرف سے ناجائز سمجھے جاتے ہیں اور عدالتیں ایسے رشتوں کو غیرقانونی قرار دے چکی ہیں۔ مسلمان مرزائیوں کے اور مرزائی مسلمانوں کے جنازوںمیں شرکت جائز نہیں سمجھتے اور ان کے آپس میں ہم مذہبوں کے سے تمام رشتے کٹ چکے ہیں۔ لہٰذا اسمبلی کی طرف سے مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا اقدام کوئی اچنبھایا مصنوعی اقدام نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ ایک ظاہر وباہر حقیقت کا سرکاری سطح پر اعتراف ہوگا جو پہلے ہی عالم اسلام میں اپنے آپ کو منوا چکی ہے۔ پچھلے صفحات میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ مرزائیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کی تجویز کوئی ایسی تجویز نہیں ہے جو کسی شخصی عداوت یا سیاسی لڑائی نے وقتی طور پر کھڑی کر دی ہو۔ بلکہ یہ قرآن کریم کی بیسیوں آیات کا، خاتم الانبیائﷺ کے سینکڑوں ارشادات کا، امت کے تمام صحابہؓ وتابعین اور فقہاء ومحدثینؒ کا، تاریخ اسلام کی تمام عدالتوں اور حکومتوں کا، مذاہب عالم کی پوری تاریخ کا، دنیا کے موجود ستر کروڑ مسلمانوں کا، پاکستان کے ابتدائی مصوروں کا، خود مرزائی پیشواؤں کے اقراری بیانات کا اور ان کے نوے سالہ طرز عمل کا فیصلہ ہے اور اس کا انکار عین دوپہر کے وقت سورج کے وجود کا انکار ہے۔
چونکہ مرزائی جماعتیں اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے امت مسلمہ کے مفادات کے خلاف کارروائیوں میں مصروف رہتی ہیں۔ اس لئے ان کے اور مسلمانوں کے درمیان اس وقت منافرت وعداوت کی ایسی فضا قائم ہے جو دوسرے اہل مذاہب کے ساتھ نہیں ہے۔ اس صورتحال کا اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے کہ مرزائیوں کو سرکاری سطح پر غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا جائے۔ اس کے 2099بعد دوسری اقلیتوں کی طرح مرزائیوں کے جان ومال کی حفاظت بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہو گی۔ مسلمانوں نے اپنے ملک کے غیرمسلم باشندوں کے ساتھ ہمیشہ انتہائی فیاضی اور رواداری کا سلوک کیا ہے۔ لہٰذا مرزائیوں کو سرکاری سطح پر غیرمسلم اقلیت قرار دینے کے بعد ملک میں ان کی جان ومال کا تحفظ زیادہ ہوگا اور منافرت کی وہ آگ جو وقفے وقفے سے بھڑک اٹھتی ہے ملک کی سالمیت کے لئے کبھی خطرہ نہیں بن سکے گی۔ لہٰذا ہم آپ سے اﷲ کے نام پر، شافع محشرﷺ کی ناموس کے نام پر، قرآن وسنت اور امت اسلامیہ کے اجماع کے نام پر، حق وانصاف اور دیانت وصداقت کے نام پر دنیا کے ستر کروڑ مسلمانوں کے نام پر، یہ اپیل کرتے ہیں کہ ملت اسلامیہ کے اس مطالبے کو پورا کرنے میں کسی قسم کے دباؤ سے متاثر نہ ہوں اور اﷲ اور اس کے رسولa کی خوشنودی حاصل کرنے کی فکر کریں۔ جن کی شفاعت میدان حشر میں ہمارا آخری سہارا ہے۔ اگر ہم نے اپنی اس ذمہ داری کو پورا نہ کیا تو ملت اسلامیہ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اقتدار واختیار ڈھل جاتا ہے۔ لیکن غلط فیصلوں کا داغ موت کے بعد تک نہیں ہٹتا۔ اﷲتعالیٰ آپ کو صحیح فیصلہ کی توفیق دے۔ (محرکین قرارداد)
----------