آنحضرتﷺ سے بھی افضل
بلکہ اس عقیدے میں اس بات کی بھی پوری گنجائش موجود ہے کہ کوئی شخص مرزاصاحب کو معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ سرکار دوعالمﷺ سے بھی افضل قرار دیدے۔ کیونکہ جب مرزاصاحب آپﷺ ہی کا ظہور ثانی قرار پائے تو آپﷺ کا ظہور ثانی پہلے ظہور سے اعلیٰ بھی ہوسکتا ہے اور یہ محض ایک قیاس ہی نہیں ہے۔ بلکہ مرزائی رسالے ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کے سابق ایڈیٹر قاضی ظہور الدین اکمل کی ایک نظم ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء کے اخبار بدر میں شائع ہوئی تھی۔ جس کے دو شعر یہ ہیں:
امام اپنا عزیزو اس جہاں میں
غلام احمد ہوا دارالاماں میں
غلام احمد ہے عرش رب اکبر
مکان اس کا ہے گویا لامکاں میں
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے بڑھ کر اپنی شاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
(اخبار بدر ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ء ج۲ نمبر۴۳ ص۱۴)
یہ محض ’’مریداں می پرانند‘‘ والی شاعری نہیں ہے۔ بلکہ یہ اشعار شاعر نے خود مرزاغلام احمد صاحب کو سنائے اور انہیں لکھ کر پیش کئے اور مرزاصاحب نے ان پر جزاک اﷲ کہہ کر داد دی ہے۔ چنانچہ قاضی اکمل صاحب ۲۲؍اگست ۱۹۴۴ء کے ’’الفضل‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’وہ اس نظم کا ایک حصہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور میں پڑھی گئی اور خوش خط لکھے ہوئے قطعے کی صورت میں پیش کی گئی اور حضور اسے اپنے ساتھ اندر لے گئے۔ 1904اس وقت کسی نے اس شعر پر اعتراض نہ کیا۔ حالانکہ مولوی محمد علی صاحب (امیر جماعت لاہور) اور اعوانہم موجود تھے اور جہاں تک حافظہ مدد کرتا ہے بوثوق کہا جاسکتا ہے کہ سن رہے تھے اور اگر اس سے بوجہ مرور زمانہ انکار کریں تو یہ نظم ’’بدر‘‘ میں چھپی اور شائع ہوئی۔ اس وقت ’’بدر‘‘ کی پوزیشن وہی تھی بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر جو اس عہد میں ’’الفضل‘‘ کی ہے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر سے ان لوگوں کے محبانہ اور بے تکلّفانہ تعلقات تھے۔ وہ خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں۔ ان سے پوچھ لیں اور خود کہہ دیں کہ آیا آپ میں سے کسی نے بھی اس پر ناراضی یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شرف سماعت حاصل کرنے اور جزاک اﷲ تعالیٰ کا صلہ پانے اور اس قطعے کو اندر خود لے جانے کے بعد کسی کو حق ہی کیا پہنچتا تھا کہ اس پر اعتراض کر کے اپنی کمزوری ایمان اور قلت عرفان کا ثبوت دیتا۔‘‘
(الفضل ج۳۲ نمبر۱۹۶، مورخہ ۲۲؍اگست ۱۹۴۴ء ص۶ کالم۱)
آگے لکھتے ہیں: ’’یہ شعر خطبہ الہامیہ کو پڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں کہاگیا اور ان کو سنا بھی دیا گیا اور چھاپا بھی گیا۔‘‘
(ایضاً ص۶ کالم۲،۳)
اس سے واضح ہے کہ یہ محض شاعرانہ مبالغہ آرائی نہ تھی۔ بلکہ ایک مذہبی عقیدہ تھا اور ظلی بروزی نبوت کے اعتقاد کا وہ لازمی نتیجہ تھا جو مرزاصاحب کے خطبہ الہامیہ سے ماخوذ تھا اور مرزاصاحب نے بذات خود اس کی نہ صرف تصدیق بلکہ تحسین کی تھی۔ خطبہ الہامیہ کی جس عبارت سے شاعر نے یہ شعر اخذ کئے ہیں وہ یہ ہے، مرزاصاحب لکھتے ہیں:
’’جس نے اس بات سے انکار کیا کہ نبی علیہ السلام کی بعثت چھٹے ہزار سے تعلق رکھتی ہے۔ جیسا کہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی۔ پس اس نے حق کا اور نص قرآن کا انکار کیا بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں، یعنی ان دنوں میں بہ نسبت ان سالوں کے اقوی اور اکمل اور اشد ہے۔ بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے اور اس لئے ہم تلوار اور لڑنے والے گروہ کے محتاج نہیں اور اس لئے خداتعالیٰ نے مسیح موعود کی بعثت کے لئے صدیوں 1905کے شمار کو رسول کریمﷺ کی ہجرت کے بدر کی راتوں کے شمار کی مانند اختیار فرمایا تاکہ وہ شمار اس مرتبہ پر جو ترقیات کے تمام مرتبوں سے کمال تمام رکھتا ہے۔ دلالت کرے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۱۸۱، ۱۸۲، خزائن ج۱۶ ص۲۷۱تا۲۷۳)
اس سے معلوم ہوا کہ مرزاصاحب کا بروزی طور پر آنحضرتﷺ سے بڑھ جانا خود مرزاصاحب کا عقیدہ تھا جسے انہوں نے خطبہ الہامیہ کی مذکورہ بالا عبارت میں بیان کیا اسی کی تشریح کرتے ہوئے قاضی اکمل نے وہ اشعار کہے اور مرزاصاحب نے ان کی تصدیق وتحسین کی۔