• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

آیۃ ختم نبوت کا اصل مفہوم حصہ سوئم

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقیدوں میں سے ایک عقیدہ ہے۔ اسلام میں‌کوئی ظلی یا بروزی نبوت کا تصور موجود نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث ختم نبوت کی زبردست دلیل ہیں مثلا فرمایا "لا نبی بعدی" میرے بعد کوئی نبی نہیں"۔

قرآن کریم کی سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں۔ ایک خاص گروہ کی جانب سے اس آیت کو امت کے متفقہ عقیدے کے برخلاف خود ساختہ تاویلات کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس دھاگے میں‌ ختم نبوت والی آیت پر تفصیلی بات ہو گی ان شاء اللہ۔

حصہ سوئم

اس سلسلے میں تین باتیں اور قابلِ غور ہیں:

کیا اللہ کو ہمارے ایمان سے کوئی دشمنی ہے؟

پہلی بات یہ ہے کہ نبوت کا معاملہ ایک بڑا ہی نازک معاملہ ہے۔ قرآن مجید کی رُو سے یہ اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہے جن کے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کفر و ایمان کا انحصار ہے۔ ایک شخص نبی ہو اور آدمی اس کو نہ مانے تو کافر ، اور وہ نبی نہ ہو اور آدمی اس کو مان لے تو کافر۔ ایسے ایک نازک معاملے میں تو اللہ تعالیٰ سے کسی بے احتیاطی کی بدرجۂاولیٰ توقع نہیں کی جاسکتی ۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا ہوتاتو اللہ تعالیٰ خود قرآن میں صاف صاف اس کی تصریح فرماتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اس کاس کُھلا کُھلا اعلان کراتا اور نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دنیا س کبھی تشریف نہ لے جاتے جب تک اپنی امت کو اچھی طرح خبردار نہ کردیتے کہ میرے بعد بھی انبیاء آئیں گے اور تمہیں ان کو ماننا ہوگا۔ آخر اللہ اور اس کے رسول کو ہمارے دین و ایمان سے کیا دشمنی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ تو کُھلا ہوتا اور کوئی نبی آنے والا بھی ہوتا جس پر ایمان لائے بغیر ہم مسلمان نہ ہوسکتے ، مگر ہم کو نہ صرف یہ کہ اس سے بے خبررکھا جاتا ، بلکہ اس کے برعکس اللہ اور اس کا رسول دونوں ایسی باتیں فرمادیتے جن سے تیرہ سو برس تک ساری امت یہی سمجھتی رہی اور آج بھی سمجھ رہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔

اب اگر بفرضِ محال نبوت کا دروازہ کھلا بھی ہو اور کوئی نبی آبھی جائے تو ہم بے خوف و خطر اس کا انکار کردیں گے۔ خطرہ ہو سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی باز پُرس ہی کا تو ہوسکتا ہے ۔ وہ قیامت کے روز ہم سے پوچھے گا تو ہم یہ سارا ریکارڈ برسر عدالت لا کر رکھ دیں گے جس سے ثابت ہوجائے گا کہ معاذاللہ اس کفر کے خطرے میں تو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہی نے ہی ہمیں ڈالا تھا ۔ ہمیں قطعًا کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ ریکارڈ کو دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ ہمیں کسی نئے نبی پر ایمان نہ لانے کی سزا دے ڈالے گا ۔ لیکن اگر نبوت کا دروازہ فی الواقع بند ہے اور کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، اور اس کے باوجود کوئی شخص کسی مدعی کی نبوت پر ایمان لاتا ہے تو اسے سوچ لینا چاہیے کہ اس کفر کی پاداش سے بچنے کے لیے وہ کون سا ریکارڈ اللہ کی عدالت میں پیش کرسکتا ہے جس سے وہ رہائی کی توقع رکھتاہو۔ عدالت میں پیشی ہونے سے پہلے اسے اپنی صفائی کے مواد کا یہیں جائزہ لے لین چاہیے، اور ہمارے پیش کردہ مواد سے مقابلہ کرکے خود ہی دیکھ لینا چاہیے کہ جس صفائی کے بھروسے پر وہ یہ کام کررہا ہے کیا ایک عقلمند آدمی اس پر اعتماد کرکے کفر کی سزا کا خطرہ مول لے سکتا ہے؟



اب نبی کی آخر ضرورت کیا ہے؟



دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ نبوت کوئی ایسی صفت نہیں ہے جو ہر اُس شخص میں پیدا ہو جایا کرے جس نے عبادت اور عملِ صالح میں ترقی کرکے اپنے آپ کو اس کا اہل بنالیا ہو۔ نہ یہ کوئی ایسا انعام ہے جو کچھ خدمات کے صلے میں عطا کیا جاتا ہو۔ بلکہ یہ ایک منصب ہے جس پر ایک خاص ضرورت کی خاطر اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مقرر کرتا ہے۔ وہ ضرورت جب داعی ہوتی ہے تو ایک نبی اس کے لیے مامور کیا جاتا ہے ، اور جب ضرورت نہیں رہتی تو خواہ مخواہ انبیاء پر انبیاء نہیں بھیجے جاتے۔

قرآن مجید سے جب ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کے تقرر کی ضرورت کن کن حالات میں پیش آئی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ صرف چار حالتیں ہیں جن میںانبیاء مبعوث ہوئے ہیں:

اوّل یہ کہ کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت اس لیے کہ کہ اس میں پہلے کبھی کوئی نبی نہ آیا تھا اور کسی دوسری قوم میں آئے ہوئے نبی کا پیغام بھی اس تک نہ پہنچ سکتا تھا۔

دوّم یہ کہ نبی بھیجنے کی ضرورت اس وجہ سے ہو کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کی تعلیم بھُلادی گئی ہو، یا اس میں تحریف ہوگئی ہو، اور اس کے نقش قدم کی پیروی کرنا ممکن نہ رہا ہو۔

سوم یہ کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کے ذریعہ مکمل تعلیم و ہدایت لوگوں کو نہ ملی ہو اور تکمیل دین کے لیے مزید انبیاء کی ضرورت ہو۔

چہارم یہ ایک نبی کے ساتھ اس کی مدد کے لیے ایک اور نبی کی حاجت ہو۔

اب یہ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی ضرورت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد باقی نہیں رہی ہے۔

قرآن خود کہہ رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو تمام دُنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا گیا ہے اور دنیا کی تمدّنی تاریخ بتا رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی دعوت سب قوموں کو پہنچ سکتی تھی اور ہر وقت پہنچ سکتی ہے ۔ اس کے بعد الگ الگ قوموں میں انبیاء آنے کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔

قرآن اس پر بھی گواہ ہے اور اس کے ساتھ حدیث و سیرت کا پورا ذخیرہ اس امر کی شہادت دے رہا کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم بالکل اپنی صحیح صورت میں محفوظ ہے۔ اس میں مسخ و تحریف کا کوئی عمل نہیں ہوا ہے۔ جو کتاب آپ لائے تھے اس میں ایک لفظ بھی کمی و بیشی آج تک نہیں ہوئی، نہ قیامت تک ہو سکتی ہے۔ جو ہدایت آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے دی اس کے تمام آثار آج بھی اس طرح ہمیں مل جاتے ہیں کہ گویا ہم آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے زمانے میں موجود ہیں۔ اس لیے دوسری ضرورت بھی ختم ہوگئی۔

پھر قرآن مجید میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ذریعہ سے دین کی تکمیل کردی گئی۔ لہٰذا تکمیل دین کے لیے بھی اب کوئی نبی درکار نہیں رہا۔

اب رہ جاتی ہے چوتھی ضرورت ، تو اگر اس کے لیے کوئی نبی درکار ہوتا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ مقرر کیا جاتا ۔ ظاہر ہے کہ جب وہ مقرر نہیں کیا گیا تو یہ بھی ساقط ہوگئی۔

اب ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ پانچویں وجہ کونسی ہے جس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد ایک نبی کی ضرورت ہو؟ اگر کوئی کہے کہ قوم بگڑ گئی ہے اس لیے اصلاح کی خاطر ایک نبی کی ضرورت ہے، تو ہم اس سے پوچھیں گے کہ محض اصلاح کے لیے نبی دنیا میں کب آیا ہے کہ آج صرف اس کام کے لیے وہ آئے ؟ نبی تو اس لیے مقرر ہوتا ہے کہ اس پر وحی کی جائے ، اور وحی کی ضرورت یا تو کوئی نیا پیغام دینے کے لیے ہوتی ہے، یا پچھلے پیغام کی تکمیل کرنے کے لیے ، یا اس کو تحریفات سے پاک کرنے کے لیے۔ قرآن اور سنتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے محفوظ ہو جانے اور دین کے مکمل ہوجانے کے بعد جب وحی کی سب ممکن ضرورتیں ختم ہوچکی ہیں ، تو اب اصلاح کے لیے صرف مصلحین کی حاجت باقی ہے نہ کہ انبیاء کی۔



نئی نبوّت اب اُمّت کے لیے رَحمت نہیں بلکہ لعنت ہے



تیسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ نبی جب بھی کسی قوم میں آئے گا فوراً اس میں کفر و ایمان کا سوال اُٹھ کھڑا ہوگا۔ جو اس کو مانیں گے وہ ایک امت قرار پائیں گے اور جو اس کو نہ مانیں گے وہ لامحالہ دوسری اُمّت ہوں گے۔ اِن دونوں امتوں کا اختلاف محض فروعی اختلاف نہ ہوگا بلکہ ایک نبی پر ایمان لانے اور نہ لانے کا ایسا بنیادی اختلاف ہوگا جو انہیں اس وقت تک جمع نہ ہونے دے گا جب تک ان میں سے کوئی اپنا عقیدہ نہ چھوڑدے ۔ پھر ان کے لیے عملاً بھی ہدایت اور قانون کے ماخذ الگ الگ ہوں گے، کیوں کہ ایک گروہ اپنے تسلیم کردہ نبی کی پیش کی ہوئی وحی اور اس کی سنت سے قانون لے گا اور دوسرا گروہ اس کے ماخذِقانون ہونے کا سرے سے منکر ہوگا۔ اس بنا پر ان کا ایک مشترک معاشرہ بن جانا کسی طرح بھی ممکن نہ ہوگا۔

ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھے تو اس پر یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ ختمِ نبوت اُمتِ مسلمہ کے لیے اللہ کی ایک بہت بڑی رحمت ہے جس کی بدولت ہی اس امت کا ایک دائمی اور عالمگیربرادری بننا ممکن ہواہے۔ اس چیز نے مسلمانوں کو ایسے ہر بنیادی اختلاف سے محفوظ کردیا ہے جو ان کے اندر مستقل تفریق کا موجب ہوسکتا ہو۔ اب جو شخص بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہادی و رہبر مانے اور ان کی دی ہوئی تعلیم کے سوا کسی اور ماخذِ ہدایت کی طرف رجوع کرنے کا قائل نہ ہو وہ اس برادری کا فرد ہے اورہر وقت ہو سکتا ہے۔ یہ وحدت اس امت کو کبھی نصیب نہ ہوسکتی تھی اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہوجاتا ۔ کیوں کہ ہر نبی کے آنے پر یہ پارہ پارہ ہوتی رہتی۔

آدمی سوچے تو اس کی عقل خودیہ کہہ دے گی کہ جب تمام دنیا کے لیے ایک نبی بھیج دیا جائے، اور جب اس نبی کے ذریعہ سے دین کی تکمیل بھی کردی جائے، اور جب اس نبی کی تعلیم کو پوری طرح محفوظ بھی کردیا جائے ، تو نبوت کا دروازہ بند ہوجانا چاہیے تاکہ اس آخری نبی کی پیروی پر جمع ہو کر تمام دنیا میں ہمیشہ کے لیے اہل ایمان کی ایک ہی امت بن سکے اور بلا ضرورت نئے نئے نبیوں کی آمد سے اس امت میں بار بار تفرقہ نہ برپا ہوتا رہے۔ نبی خواہ ’’ ظِلّی‘‘ ہو یا’’ بروزی‘‘، اُمتی ہو یا صاحبِ شریعت اور صاحبِ کتاب، بہر حال جو شخص نبی ہوگا اور اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ہوگا، اس کے آنے کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ اس کے ماننے والے ایک امّت بنیں اور نہ ماننے والے کافر قرار پائیں۔ یہ تفریق اس حالت میں تو ناگزیر ہے جب کہ نبی کے بھیجے جانے کی فی الواقع ضرورت ہو، مگر جب اس کے آنے کی کوئی ضرورت باقی نہ رہے تو اللہ کی حکمت اور اس کی رحمت سے یہ بات قطعی بعید ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنے بندوں کو کفر ایمان کی کشمکش میں مبتلا کرے اور انہیں کبھی ایک امت نہ بننے دے۔ لہٰذا جو کچھ قرآن سے ثابت ہے اور جو کچھ سنت اور اجماع سے ثابت ہے عقل بھی اسی کو صحیح تسلیم کرتی ہے اور اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اب نبوت کا دروازہ بند ہی رہنا چاہیے۔
 
Top