(اتمام حجت کا مطلب)
جناب یحییٰ بختیار: آپ، ایک منٹ، مرزا صاحب! ’’اِتمامِ حجت کے بعد‘‘ اُس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سچی بات کر رہا ہے؟
جناب عبدالمنان عمر: ’’اِتمامِ حجت‘‘ کا مطلب ہے کہ جو اُس نے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔بیان کیا۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ بیان کیا اور اُس اگلے شخص کو اتنا مواد دے دیا کہ وہ اُس کی صداقت کو سمجھ جائے۔ ورنہ نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اُس کو یہ سارا Material دے دیا، اُس کو سارے Arguments (دلائل) دے دئیے۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: ۔۔۔۔۔۔ اور وہ اب یہ یقین کرلیا اُس نے کہ یہ سچا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب ایک وکیل ایک عدالت میں پوری بحث کرجاتا ہے، اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس نے سچ کہہ دیا؟
جناب عبدالمنان عمر: نہ ’’اِتمامِ حجت‘‘ کے یہ معنی نہیں ہیں جو آپ نے فرمایا۔ ’’اِتمامِ حجت‘‘ یہ ہے کہ اُس نے جو دلائل دئیے ہیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ وہ سب پورے دے دئیے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: نہیں جی، پورے دے نہیں دئیے، اگلے شخص کے لئے قابلِ قبول ہیں، وہ پھر اِنکار کرتا ہے۔ یہ ہے ’’اِتمامِ حجت۔‘‘ قابلِ قبول صرف نہیں ہیں، بلکہ یہ کہ وہ اُس کو قبول کرلینے چاہئیں، مگر سمجھ لینے کے باوجود کہ یہ سچی بات کہہ رہا ہے، پھر اِنکار کرتا ہے، چلا جاتا ہے، اس کو کہتے ہیں ’’اِتمامِ حجت۔‘‘ 1660تو میں عرض یہ کر رہا تھا کہ: ’’جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے۔‘‘
اپنے نہ ماننے انکار کی وجہ سے کافر نہیں قرار دیا اُس کو، اُس کو خدا اور رسول کے نہ ماننے کی وجہ سے کافر قرار دِیا: ’’اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں تحریر۔۔۔۔۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے، کافر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں، کیونکہ جو شخص ’’باوجود شناخت کرلینے کے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا۔۔۔۔۔۔‘‘
’’باوجود شناخت کرلینے کے‘‘ … اب دیکھئے، کتنا بڑا جرم ہے، شناخت بھی کرتا ہے، پھر وہ اِنکار کرتا ہے۔ تو یہ خدا اور رسول کا اِنکار ہوگیا۔ مرزا صاحب کے اِنکار کی وجہ سے کہیں نہیں اُنہوں نے کہا کہ وہ شخص کافر ہوجاتا ہے:
’’وہ بموجب نصوصِ صریحہ قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔ اس میں شک نہیں کہ جس پر خدا کے نزدیک اوّل قسم یا دُوسری قسم کفر کی نسبت اِتمامِ حجت ہوچکا ہے، وہ قیامت کے دن مؤاخذہ کے لائق ہوگا اور جس پر خدا کے نزدیک اِتمامِ حجت نہیں ہوا اور وہ مکذب اور منکر ہے، تو وہ شریعت نے اُس کا نام بھی کافر ہی رکھا ہے۔ مگر ہم بھی اُس کو بہ اِتباعِ شریعت کافر کے نام سے پکارتے ہیں۔ مگر پھر بھی وہ خدا کے نزدیک بموجب آیۃ: ’’ لا یکلف اﷲ نفسًا الا وسعھا ‘‘ قابلِ مؤاخذہ نہیں ہوگا۔
پروفیسر غفور احمد: جناب! میری گزارش یہ ہے کہ گواہان کو بتادیا جائے کہ ہمارے پاس Earphones بھی ہیں۔ اگر وہ نارمل آواز سے بولیں تو آواز ہمیں بخوبی آجائے 1661گی۔ یہ لاؤڈاسپیکر جو اُن کے سامنے رکھا ہے، ہمارے پاس Earphones ہیں، یہ ہم اِستعمال کرتے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: کون سی آواز؟
جناب یحییٰ بختیار: ذرا دُور رکھ لیجئے، آہستہ، آہستہ، کیونکہ وہ کانوں میں لگتے ہیں۔
جناب عبدالمنان عمر: جی، جی۔
اب مرزا صاحب بات یہ کہہ رہے ہیں کہ کفر خواہ کلمہ طیبہ کا ہو یا مسیحِ موعود کا، وہ خدا کے رسول کی وجہ سے کافر بنتا ہے نہ کہ مسیحِ موعود کے اِنکار کی وجہ سے۔ آپ نے اِن الفاظ پر غور نہیں فرمایا۔ اُس حوالے میں یہ امر غور طلب ہے کہ حضرت مرزا صاحب اپنے اِنکار کو کفر نہیں کہتے بلکہ محض گناہ قرار دے کر دادخواہ ہوتے ہیں، اور نہ ماننے والے کو کافر کی بجائے نافرمان کہتے ہیں۔ اُصولی طور پر آپ کے نہ ماننے والوں کے بارے میں آپ کا اِرشاد یہ ہے: ’’اِبتدا سے میرا یہی مذہب ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ مرزا صاحب کی عبارت میں سنا رہا ہوں، جناب: ’’ابتدا سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعوے کے اِنکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر یا دجال نہیں ہوسکتا۔‘‘
یہ ہے اُصولی مرزا صاحب کا موقف کہ آپ کے اِنکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر نہیں ہوتا۔ وہاں جو بات ہے وہ ’’قابلِ مؤاخذہ ہونی چاہئے۔