اتمام حجت
مرزاناصر احمد صاحب نے ملت اسلامیہ سے خارج ہونے کے لئے جرح میں بارہا اس شرط کا ذکر کیا ہے کہ اتمام حجت ہونے کے بعد جو انکار کرے وہ ملت اسلامی سے بھی خارج ہے۔ لیکن آپ مرزاناصر احمد صاحب کو داد دیں گے جنہوں نے مقصد کے لئے ’’اتمام حجت‘‘ کا معنی ہی بدل ڈالا۔ یہ کہتے ہیں اتمام حجت کا معنی یہ ہے کہ دلائل سن کر دل مان جائے۔ مگر حق سمجھنے کے 2382بعد پھر بھی انکار کرے۔ یہ شخص ایسا کافر ہے جو ملت اسلامیہ سے بھی خارج ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے کئی بار یہ آیت کریمہ دہرائی۔ ’’
وجحدوا بہا واستیقنتہا انفسہم
(نمل:۱۴)‘‘ {اور ان کافروں، فرعونیوں اور اس کی جماعت نے انکار کر دیا۔ حالانکہ ان کے دلوں نے یقین کر لیا تھا۔} مرزاجی ہم آپ کو آپ کے مطلب کی ایک اور آیت بھی پڑھ کر سنا دیتے ہیں۔ ’’
یعرفونہ، کما یعرفون ابنائہم
(بقرہ:۱۴۶)‘‘ {وہ اس قرآن یا نبی کو اس طرح جانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو۔}
مگر آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ پہلی آیت میں فرعونیوں کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) کا۔ اس میں کیا شک ہے کہ بہت سے کافر اسلام کو صحیح سمجھ کر بھی ازراہ ضد وعناد انکار کرتے تھے۔ وہ تو تھے ہی کافر، مرزاناصر احمد صاحب نے اتمام حجت کے دو اجزاء یعنی اتمام اور حجت کے معنوں میں بحث کر کے وقت ضائع کیا ہے۔
حجت کا معنی دلیل اور اتمام کا معنی پورا کر دینا۔ اس میں لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی شخص کے سامنے دعویٰ ثابت کرنے کے لئے پوری وضاحت ہو جائے۔ دعویٰ کے دلائل بیان کر دئیے جائیں۔ اب اگر وہ نہ مانے تو کہیں گے اس پر اتمام حجت ہوگئی۔ اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ دل سے آپ کے دعوے کو صحیح سمجھ کر بھی ماننے سے انکار کر دے۔ یہ نئے معنی مرزاجی ناصر احمد صاحب کی اپنی لیاقت ہے۔ قرآن پاک سنیں۔ ’’ لئلا یکون للناس علی اﷲ حجۃ بعد الرسل (النسائ:۱۶۵)‘‘ {ہم نے مندرجہ بالا پیغمبر مبشر اور منذر بناکر بھیجے، تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کے پاس اﷲتعالیٰ (کے خلاف) پر کوئی دلیل باقی نہ رہے۔}
جب اﷲتعالیٰ نے رسول بھیج دئیے۔ انہوں نے ایمان والوں کو جنت کی خوشخبری سنادی اور کافروںکو دوزخ کا ڈر سنا دیا۔ توحید کی طرف دعوت دی اپنے کو دلیل کے ساتھ خداتعالیٰ کا رسول بتایا تو اب کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا۔ 2383’’ ماجائنا من نذیر (مائدہ:۱۹)‘‘ {کہ ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔}
حجت پوری ہوگئی اب مانیں یا نہ مانیں۔ اگر مرزاناصر احمد صاحب کامطلب یہ ہے کہ ستر کروڑ مسلمانوں نے مرزاغلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت وحی وغیرہ کو دل سے صحیح سمجھنے کے بعد انکار نہیں کیا۔ بلکہ وہ مرزاجی کے دعوؤں کو ہی غلط سمجھتے رہے۔ اس لئے یہ کافر تو ہیں مگر چھوٹے کافر ہیں۔ بڑے کافر نہیں۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ جب مرزاقادیانی اپنے کومسیح موعود نہ کہنے والوں کو خدا اور رسول کے منکر کی طرح کافر کہتے ہیں تو پھر خدا اور رسول کا منکر کس طرح کسی درجہ میں بھی مسلمان رہ سکتا ہے؟
پھر اگر مرزاناصر احمد صاحب کی منطق درست مان لی جائے تو دنیا کے اکثر کافر جنہوں نے کسی پیغمبر کو دل سے سمجھا ہی نہیں۔ نہ ان کو اطمینان ہوا کہ یہ سچا نبی ہے۔ ان پر اتمام حجت نہ ہوا۔ پھر ان کے لئے خلود فی النار اور دائمی جہنم کیسے جو کافروں کے لئے مخصوص ہے۔ اپنے دادا کی پیروی میں۔ یہاں تو مرزاناصر احمد صاحب نے کھلم کھلا کہہ دیا کہ کافر بھی بالآخر جہنم سے نکال دئیے جائیں گے۔ جو قرآن پاک کی مندرجہ ذیل آیات کے خلاف ہے۔
’’ الاطریق جہنم خالدین فیہا ابداً (نسائ:۱۶۹)‘‘ {مگر جہنم کا راستہ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔}
’’ ان اﷲ لعن الکافرین واعدّلہم سعیراً خالدین فیہا ابدا (احزاب:۶۴،۶۵)‘‘ {یقینا اﷲ نے کافروں پر لعنت کی اور ان کے لئے آگ تیار کر رکھی ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔}
’’ ومن یعص اﷲ ورسولہ فان لہ نار جہنم خالدین فیہا ابدا (الجن:۲۳)‘‘ {اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں ہمیشہ رہیں گے۔}