احمدیت کے بارے میں علامہ اقبال کا نظریہ
’’ختم نبوت کے تصور کی تہذیبی قدروقیمت کی توضیح میں نے کسی اور جگہ کر دی ہے۔ اس کی معنی بالکل سلیس ہیں۔ محمد ﷺ کے بعد جنہوں نے اپنے پیروؤں کو ایسا قانون عطاء کر کے جو ضمیر انسانی کی گہرائیوں سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ آزادی کا راستہ دکھایا ہے۔ کسی اور انسانی ہستی کے آگے روحانی حیثیت سے سرنیاز خم نہ کیا جائے۔ دینیاتی نقطۂ نظر سے اس نظریہ کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ وہ اجتماعی اور سیاسی تنظیم جسے اسلام کہتے ہیں مکمل اور ابدی ہے۔ محمد ﷺ کے بعد کسی ایسے الہام کا امکان ہی نہیں ہے۔ جس سے انکار کفر کو مستلزم ہو جو شخص ایسے الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ اسلام سے غداری کرتا ہے۔ قادیانیوں کا اعتقاد ہے کہ تحریک احمدیت کا بانی ایسے الہام کا حامل تھا۔ لہٰذا 2328وہ تمام عالم اسلام کو کافر قرار دیتے ہیں۔ خود بانی احمدیت کا استدلال جو قرون وسطیٰ کے متکلمین کے لئے زیبا ہوسکتا ہے یہ ہے کہ اگر کوئی دوسرا نبی پیدا نہ ہو سکے تو پیغمبر اسلام کی روحانیت نامکمل رہ جائے گی۔ وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں کہ پیغمبر اسلام کی روحانیت میں پیغمبر خیز قوت تھی خود اپنی نبوت پیش کرتا ہے۔ لیکن آپ اس سے پھر دریافت کریں کہ محمد ﷺ کی روحانیت ایک سے زیادہ نبی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہ خیال اس بات کے برابر ہے کہ محمد ﷺ آخری نبی نہیں، میں آخری نبی ہوں۔ اس امر کے سمجھنے کی بجائے کہ ختم نبوت کا اسلامی تصور نوع انسانی تاریخ میں بالعموم اور ایشیاء کی تاریخ میں بالخصوص کیا تہذیبی قدر رکھتا ہے۔ بانی احمدیت کا خیال ہے کہ ختم نبوت کا تصور ان معنوں میں کہ محمد ﷺ کا کوئی پیرو نبوت کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا۔ خود محمد ﷺ کی نبوت کو نامکمل پیش کرتا ہے۔ جب میں بانی احمدیت کی نفسیات کا مطالعہ ان کے دعویٔ نبوت کی روشنی میں کرتا ہوں تومعلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے دعویٔ نبوت میں پیغمبر اسلام کی تخلیقی قوت کو صرف ایک نبی یعنی تحریک احمدیت کے بانی پیدائش تک محدود کر کے پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے سے انکار کر دیتا ہے۔ اس طرح یہ نیا پیغمبر چپکے سے اپنے روحانی مورث کی ختم نبوت پر متصرف ہو جاتا ہے۔‘‘
’’اس کا دعویٰ ہے کہ میں پیغمبر اسلام کا بروز ہوں۔‘‘ اس سے وہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ پیغمبر اسلام کا بروز ہونے کی حیثیت سے اس کا خاتم النّبیین ہونا، دراصل محمد ﷺ کا خاتم النّبیین ہونا ہے۔ پس یہ نقطہ پیغمبر اسلام کی ختم نبوت کو مسترد نہیں کرتا۔ اپنی ختم نبوت کو پیغمبر اسلام کی ختم نبوت کے مماثل قرار دے کر بانی احمدیت نے ختم نبوت کے روحانی مفہوم کو نظر انداز کر دیا ہے۔
بہرحال یہ ایک بدیہی بات ہے کہ بروز کا لفظ مکمل مشابہت کے مفہوم میں بھی اس کی مدد نہیں کرتا۔ کیونکہ بروز ہمیشہ اس شے سے الگ ہوتا ہے جس کا یہ بروز ہوتا ہے۔ صرف اوتار کے معنوں میں بروز اور اس کی شے میں عینیت پائی جاتی ہے۔ پس اگر ہم بروز سے ’’روحانی صفات کی مشابہت‘‘ مراد لیں تو یہ دلیل بے اثر رہتی ہے۔ اگر اس کے برعکس اس لفظ کے عبرانی مفہوم 2329میں اصل شے کا اوتار مراد لیں تو یہ دلیل بظاہر قابل قبول ہوتی ہے۔ لیکن اس خیال کا موجد مجوسی بھیس میں نظر آتا ہے۔‘‘ (حرف اقبال مؤلفہ لطیف احمد شیروانی ص۴تا۱۳، ۱۳۷تا۱۴۰)
متذکرہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہے کہ اسلام میں امتی نبی یا ظلی اور بروزی نبی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ مرزاغلام احمد نے اپنے پیروؤں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنی بیٹیاں غیراحمدیوں کے نکاح میں نہ دیں اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں۔ اس طرح مرزاغلام احمد نے شریعت محمدی ﷺ سے انحراف کر کے اپنے ماننے والوں کے لئے ایک نئی شریعت وضع کی ہے۔ مسیح موعود کے بارے میں بھی ان کا تصور اسلامی نہیں ہے۔ مسیح کے صحیح اسلامی تصور کے مطابق وہ آسمان سے نازل ہوں گے۔ حدیث رسول ﷺ کے مطابق مسیح جب دوبارہ ظہور فرمائیں گے تو وہ دوسرا جنم نہیں لیں گے۔ اس طرح اس بارے میں مرزاغلام احمد کا دعویٰ بھی باطل قرار پاتا ہے۔
جہاد کے بارے میں بھی ان کا نظریہ مسلمانوں کے عقیدے سے بالکل مختلف ہے۔ مرزاغلام احمد کے مطابق اب جہاد کا حکم منسوخ ہوچکا ہے اور یہ کہ مہدی علیہ الرضوان اور مسیح علیہ السلام کی حیثیت سے انہیں تسلیم کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ جہاد کی نفی ہوگئی۔ ان کا یہ نظریہ قرآن پاک کی ۲۲ویں سورۃ، آیت ۳۹،۴۰ اور دوسری سورۃ کی آیت ۱۹۲،۱۹۴ ساٹھویں سورۃ کی آیت۸، چوتھی سورۃ کی آیت ۷۴،۷۵ نویں سورۃ کی آیت ۵ اور سورۃ ۲۵ کی آیت ۵۲ کے برعکس اور منافی ہے۔ مندرجہ بالا امور کے پیش نظر میں یہ قرار دینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا کہ مدعا علیہ اور ان کے ممدوح مرزا غلام احمد نبوت کے جھوٹے مدعی ہیں۔ اﷲتعالیٰ کی طرف سے الہامات وصول کرنے کے متعلق ان کے دعوے بھی باطل اور مسلمانوں کے اس متفقہ عقیدے کے منافی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اﷲتعالیٰ کی طرف سے نزول وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔
مسلمانوں میں اس بارے میں بھی اجماع ہے کہ حضرت محمد ﷺ آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا اور اگر کوئی اس کے برعکس یقین رکھتا ہے تو وہ صریحاً کافر اور مرتد ہے۔
2330مرزاغلام احمد نے قرآن پاک کی آیات مقدسہ کو بھی توڑ مروڑ کر اور غلط رنگ میں پیش کیا ہے اور اس طرح انہوں نے ناواقف اور جاہل لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے اور شریعت محمدی میں تحریف کی ہے۔ اس لئے مدعا علیہ کو جس نے خود اپنی نبوت کا اعلان کیا ہے۔ نیز مرزاغلام احمد اور ان کی نبوت پر اپنے ایمان کا اعلان کیا ہے۔ بلا کسی تردد کے غیرمسلم اور مرتد قرار دیا جاسکتا ہے۔
فریقین کے عقائد کے بارے میں گفتگو کے بعد میں شادی کے تصور کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گا جو زیر بحث مسئلے میں دوسرا اہم نکتہ ہے اس کے بعد میں مدعا علیہ کے عقائد کے بارے میں اپنے نتائج کی روشنی میں شادی کے جواز میں بحث کروں گا۔ اسلام کوئی مسلک نہیں بلکہ حال میں زندگی بسر کرنے کا نام ہے اور اسلام میں نکاح ایک اخلاقی رشتہ ہے۔ امیر علی نے شادی کی جو تعریف کی ہے اس کے مطابق یہ ایک ایسا ادارہ ہے جومعاشرے کے تحفظ کے لئے وضع کیاگیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسان گمراہی اور بے عصمتی سے محفوظ رہے۔ شادی زندگی بھر کا عہد ہوتا ہے۔ جس کی سب سے اہم خصوصیات جنسی اختلاط کی قانونی یا جائز اجازت نہیں بلکہ اشتراک کار ہے۔ جس میں دو انسان دکھ سکھ خوشی اور غم میں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو تسکین اور حوصلہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ اتحاد تغیر حالات کے ذریعہ فریقین کے لئے باعث رحمت ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنسی اختلاط کا تصور بھی اس اشتراک یا اتحاد میں دخیل ہے جو فریقین کے جسمانی قرب کی اہمیت واضح کرتا ہے لیکن اس سلسلے میں باہمی موانست، یگانگت اور رفاقت بھی کچھ کم اہم نہیں ہوتے۔
شیکسپئر نے ہملٹ میں کہا ہے کہ میاں بیوی ایک جان دو قالب ہوتے ہیں۔ اسی طرح ارسطو نے ایک جگہ کہا ہے کہ بیوی کو زدوکوب کرنا اس بات کی نفی ہے کہ وہ تمہاری بیوی ہے۔ ان تمام باتوں کا ایک ہی مطلب ہے اور یہ کہ میاں بیوی کا رشتہ نیکی میں اشتراک کا رشتہ ہے۔ قرآن پاک میں شادی کا ذکر مؤدت رحمت اور سکون کی اصطلاحات کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بائبل میں 2331ایک جگہ آیا ہے کہ وہ میری ہی ہڈی کا ایک حصہ اور میرے ہی گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ غرضیکہ ہر جگہ یگانگت پر ہی زور دیاگیا ہے۔ جو لیس سیر زمین لارڈ بروٹس کے ساتھ پورشیا کا مکالمہ ایک بیوی اور داشتہ کے فرق کو بڑی خوبصورتی سے واضح کرتا ہے اور پھر انگلستان کے ایک ولی عہد کا یہ جملہ بھی تاریخی اہمیت رکھتا ہے کہ جب اسے ایک رومن کیتھولک شہزادی سے شادی کے لئے کہا گیا… تو اس نے کہا کہ دو مذہب ایک بستر میں اکٹھے نہیں ہوسکتے۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے: ’’اپنے تخم کے لئے (کردار کے اعتبار سے) موزوں عورت کا انتخاب کرو اور اپنے برابر والوں سے شادی کرو اور اپنی بیٹیاں ان کے نکاح میں دو۔‘‘ (ابن ماجہ ص۴۶) اس کا مطلب یہ ہے کہ شادی میں اکفا بہت اہم کردار اداکرتا ہے۔ نظریات کا اختلاف یا عقائد کی وسیع خلیج یا فریقین کے قول وفعل کی عدم یکسانیت ان کے مستقبل کو تاریک کر سکتی ہے۔ میاں بیوی کے درمیان موانست کا رشتہ ٹوٹ جانے کے بعد ان کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا شادی کے بنیادی تصور کی نفی ہے اور یہ بندھن کیف ومسرت کا پیغامبر بننے کی بجائے جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے اور جب فریقین ایک دوسرے سے مسلسل جھگڑتے رہیں اور ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں تو پھر سب کچھ جھوٹ اور فریب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ صورتحال نہ صرف یہ کہ انفرادی طور پر ناقابل برداشت ہے بلکہ سماجی اعتبار سے تباہ کن ہے۔ جنس کے اسرار اسی وقت پوری طرح تسکین پاتے ہیں جب جسمانی رشتے کے ساتھ فریقین میں روحانی اہم آہنگی بھی موجود ہو۔ اگر مذہب کافر یقین کی زندگیوں پر واقعی کوئی اثر ہوتا ہے تو پھر اس بارے میں کوئی اختلاف ان کی زندگی پر پیدائش، نسل زبان یا دنیاوی مرتبے غرضیکہ کسی اورچیز سے زیادہ اثر انداز ہوگا۔
سورۃ البقرہ میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’اور نکاح مت کرو کافر عورتوں کے ساتھ جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں اور مسلمان عورت (چاہے) لونڈی کیوں نہ ہو وہ بدرجہا بہتر ہے کافر عورت سے، گو وہ تم کو اچھی ہی 2332لگے اور عورتوں کو کافر مردوں کے نکاح میں مت دو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہو جائیں اور مسلمان مرد غلام بہتر ہے کافر مرد سے۔ گووہ تم کو اچھا ہی لگے۔‘‘ (البقرہ:۲۲)
مندرجہ بالا بحث سے یہ بات ظاہر ہوگئی ہے کہ زیرنظر مقدمے میں فریقین کے درمیان شادی اسلام میں قطعی پسندیدہ نہیں اور قرآن پاک اور حدیث کی تعلیمات کے یکسر منافی ہے۔ کیونکہ فریقین نہ صرف مختلف نظریات کے حامل ہیں۔ بلکہ انکے عقائد بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور یہ بات اس رشتے کے لئے سمّ قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے واضح کر چکا ہوں۔ اسلام میں کسی مسلمان کے لئے جنس مخالف کے ساتھ شادی کے سلسلے میں متعدد پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور کسی بھی صورت میں کوئی مسلمان عورت کسی غیرمسلم مرد سے جائز شادی نہیں کر سکتی۔ جن میں عیسائی، یہودی یا بت پرست شامل ہیں اور ایک مسلمان عورت اور غیرمسلم مرد کا نکاح اسلام کی نظر میں غیرمؤثر ہے۔ اندریں حالات میں قرار دیتا ہوں کہ اس مقدمے کے فریقین کے درمیان شادی اسلامی شادی نہیں بلکہ یہ سترہ سال کی ایک مسلمان لڑکی کی ساٹھ سال کے ایک غیرمسلم (مرتد) کے ساتھ شادی ہے۔
لہٰذا یہ شادی غیرقانونی اور غیرمؤثر ہے۔
مندرجہ بالا امورکے پیش نظر مسئلہ نمبر۳،۴،۶،۷ اور ۸ ساقط ہو جاتے ہیں۔ ان پر غور کی ضرورت نہیں۔
مندرجہ بالا بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدعیہ جو ایک مسلمان عورت ہے، کی شادی مدعا علیہ کے ساتھ، جس نے شادی کے وقت خود اپنا قادیانی ہونا تسلیم کیا ہے اور اس طرح جو غیرمسلم قرار پایا ہے غیرمؤثر ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ مدعیہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مدعا علیہ کی بیوی نہیں۔
تنسیخ نکاح کے بارے میں مدعیہ کی درخوست کا فیصلہ اس کے حق میں کیا جاتا ہے اور مدعا علیہ کو ممانعت کی جاتی ہے کہ وہ مدعیہ کو اپنی بیوی قرار نہ دے۔ مدعیہ اس مقدمے کے اخراجات بھی وصول کرنے کی حقدار ہے۔
2333فیصلے کے اختتام سے پہلے میں مدعیہ کے فاضل وکیل کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے متعدد کتابوں کے ذریعہ میری بے حد مدد کی۔ ان میں سے چند کتابیں مندرجہ ذیل ہیں۔
(۱)حقیقت الوحی، (۲)ازالہ اوہام، (۳)ملفوظات احمدیہ، (۴)معیار الاخیار، (۵)آئینہ کمالات، (۶)تذکرہ شہادتیں، (۷)مسئلہ ختم نبوت از مولانا محمد اسحق، (۸)مسئلہ نبوت از مولانا مودودی، (۹)قادیانی مسئلہ از مولانا مودودی، (۱۰)ختم نبوت از مولانا ثناء اﷲ، (۱۱)خاتم النّبیین از حکیم عبداللطیف، (۱۲)صحیفہ تقدیر از مولانا شبیراحمد عثمانی، (۱۳)مرزائیت عدالت کے کٹہرے میں مؤلفہ جانباز مرزا، (۱۴)فسخ نکاح مرزائیاں، (۱۵)فیصلہ صادر کردہ مسٹر محمد اکبر ڈسٹرکٹ جج بہاول نگر، (۱۶)فیصلہ صادر کردہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کیمبل پور، (۱۷)ترجمہ قرآن مجید از مسٹر پکتھال، (۱۸)مرزاغلام احمد کی تصانیف کے تراجم از عبداﷲ الہ دین۔
یہ فیصلہ ۱۳؍جولائی (۱۹۷۰ئ) کو شیخ محمد رفیق گوریجہ کے جانشین جناب قیصر احمد حمیدی نے جوان کی جگہ جیمس آباد کے سول اور فیملی کورٹ جج مقرر ہوئے ہیں۔ کھلی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔
تعجب ہے کہ ایک ریزہ چین خواں نصاریٰ کا
گدائی کرتے کرتے مہدی موعود ہو جائے
ظفر علی خاں