• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(احمدی حضرات کا مؤقف)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(احمدی حضرات کا مؤقف)
فریق ثانی کی طرف سے مرزاصاحب کی کتابوں سے ان کے چند عقائد بیان کئے جاکر یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ قرآن مجید اور احادیث وفقہ کی رو سے جن باتوں کو ایک شخص کے مؤمن اور مسلمان ہونے کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے وہ سب مرزاصاحب میں ان کی جماعت میں پائی جاتی ہیں اور وہ ان سب پر خلوص دل اور صمیم قلب سے یقین اور اعتقاد رکھتے ہیں اور جن 2185اعمال صالحہ کے بجالانے کا حکم دیاگیا ہے۔ وہ سب بجا لاتے ہیں اور ان کا دین وہی ہے جو آنحضرتa خدا کی طرف سے لائے اور وہ ایمان رکھتے ہیں کہ دین اسلام کے سوا اگر کوئی شخص کوئی اور دین اختیار کرے تو وہ عند اﷲ ہر گز مقبول نہیں ۔ گواہان مدعیہ نے انہیں کافر، مرتد، ضال اور خارج از اسلام قرار دیا ہے اور ضروریات دین کا منکر ٹھہرایا ہے۔ لیکن جن امور کی بناء پر انہوں نے کافر اور مرتد کہاہے۔ ان کا ضروریات دین سے ہونا قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے اپنے فتویٰ تکفیر کی بناء بعض علماء کے اقوال پر رکھی ہے اور اس ضمن میں ان علماء کے طرز افتاء پر اعتراض کرتے ہوئے چند کتب فقہ کے حوالوں سے یہ دکھلایا گیا ہے کہ اگر ان امور کو جو ان حوالہ جات میں درج ہیں مدنظر رکھا جاوے تو اس سے بڑے بڑے بزرگ اور تمام شیعہ اور وہ نئے تعلیم یافتہ نوجوان جو یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ اگر جنت میں ان موجودہ مولویوں نے بھی جانا ہے تو ہمیں ایسی جنت نہیں چاہئے اور وہ تمام مسلمان جو سرکاری دفتر میں ملازم ہیں اور اپنے ہندو یا عیسائی افسران کو تحائف دیتے ہیں کافر ہیں اور ان عورتوں کے لئے جو اپنے خاوندوں کی بدسلوکی سے تنگ ہیں اور ان کے عقد نکاح سے نکلنا چاہتی ہیں یہ اچھی ترکیب بتلائی گئی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی عورت یہ کہہ دے کہ میں کافر ہوئی ہوں تو معاً وہ کافر ہو جائے گی اور اس کا نکاح فسخ ہو جائے گا اور وہ تمام مسلمان جو گاندھی ٹوپی یا ہیٹ لگاتے ہیں کافر ہیں اور اس طرح وہ مسلمان بھی جو ہندو اور انگریز افسروں کو سلام کرتے ہیں اور اس طرح سکول اور کالجوں کے وہ مسلمان طلباء جو اپنے ہندو یا عیسائی استادوں کو تعظیماً سلام کرتے ہیں اور اس طرح ہزارہا وہ تعلیم یافتہ اشخاص جو مولویوں کی دقیا نوسی باتوں پر جنہیں یہ لوگ علم اور دین خیال کرتے ہیں ہنستے ہیں کافر ہیں اور اس طرح وہ مسلمان جو کسی غیرمسلم کو اس کے سوال کرنے پر کہ مجھ پر اسلام کی صداقت بیان کر، کسی مولوی کے پاس برائے جواب لے جاتے ہیں کافر ہیں۔ وغیرہ وغیرہ!
2186پس اگر ان علماء اور مولویوں کے کہنے پر کسی کو کافر بنایا جاسکتا ہے تو مذکورہ بالا امور کے تحت تمام ایسے مسلمان جو اوپر بیان کئے گئے ہیں کافر ہیں اور ان کا نکاح فسخ ہونا چاہئے۔ لیکن اصول مذکورہ بالا پر علماء کا موجودہ زمانہ میں عمل نہیں ہے اور ان امور کو جو ان حوالہ جات میں درج ہیں۔ ضروریات دین میں سے سمجھا گیا ہے اور ان کے منکر کو کافر اور مرتد کہا گیا ہے۔ اس کے بعد یہ بیان کیاگیا ہے کہ گواہان مدعیہ نے اپنے بیانات کی تائید میں چند مفسرین کے اقوال نقل کئے ہیں۔ لیکن یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ مفسرین کے اقوال کو بلا سوچے سمجھے من وعن تسلیم کر لیا جاوے اور جو کچھ وہ اپنے خیال وعقیدہ کے مطا بق لکھ گئے اسے حرف بحرف مان لیا جاوے۔ اس لئے ہمیں حسب تعلیم قرآن مجید ضروری ہوا کہ ہم خود بھی قرآن مجید کی آیات میں غور وتدبر کریں اور تحقیق کے بعد جو اقرب الی الصواب ہو اس کو اختیار کریں۔ پس مفسرین کے اقوال پر عقائد کی بنیاد رکھنا صحیح نہیں ہے۔ علماء اور ائمہ کی اندھی تقلید نہایت مذموم ہے۔ پس یہ ضروری نہیں کہ پہلے علماء جو کچھ تفسیروں میں لکھ گئے ہم آنکھ بند کر کے ان پر ایمان لے آویں۔ بلکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان فتوؤں اور اقوال کو کتاب اﷲ، سنت رسول اﷲﷺ اور عقل سلیم کی کسوٹی پر پرکھیں اور جو قرآن اور سنت سے صحیح ثابت ہو، اسے اختیار کریں اور مخالف کو چھوڑ دیں اور امت کے ان علماء کے متعلق ہمارا مذہب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی نیک نیتی سے جو باتیں موافق اور مخالف پائیں یا جو وہ سمجھ سکے وہ ہم تک پہنچادیں۔ جس کے لئے وہ تمام ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔
اس کے آگے پھر وجوہات تکفیر کا جواب شروع ہو جاتا ہے۔ اس لئے تحت میں اس بحث کا جواب درج کیا جاتا ہے۔
مرزاصاحب کے عقائد کے متعلق سید انور شاہ صاحب گواہ مدعیہ نے نہایت عمدہ جواب دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ مرزاصاحب چونکہ مادر زاد کافر نہ تھے اور ابتداًء ان کی تمام اسلامی عقائد پر نشوونما ہوئی۔ اس لئے انہی کے وہ پابند تھے اور وہی کہے پھر تدریجاً ان سے الگ ہونا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ آخری اقوال میں بہت سی ضروریات دین کے قطعاً مخالف ہوگئے۔ دوسرا یہ کہ 2187انہوں نے باطل اور جھوٹ دعوؤں کو رواج دینے کے لئے یہ تدبیر اختیار کی کہ اسلامی عقائد کے الفاظ وہی قائم رکھے جو قرآن اور حدیث میں مذکور ہیں اور عام وخاص مسلمانوں کی زبانوں پر جاری ہیں۔ لیکن ان کے حقائق کو ایسا بدل دیاجس سے بالکل ان عقائد کا انکار ہوگیا۔ اس لئے مرزاصاحب کی کتابوں سے ایسے اقوال پیش کرنا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بعض عقائد میں اہل سنت والجماعت کے ساتھ شریک ہیں۔ ان کے اقوال وافعال کفریہ کا کفارہ نہیں بن سکتے۔ جب تک اس کی تصریح نہ ہو کہ ان عقائد کی مراد بھی وہی ہے جو جمہور امت نے سمجھی اور پھر اس کی تصریح نہ ہو کہ جو عقائد کفریہ انہوں نے اختیار کئے تھے۔ ان سے توبہ کر چکے ہیں اور جب تک توبہ کی تصریح نہ ہو چندعقائد اسلام کے الفاظ کتابوں میں لکھ کر کفر سے نہیں بچ سکتے۔ کیونکہ زندیق اس کو کہا جاتا ہے کہ جو عقائد اسلام ظاہر کرے اور قرآن وحدیث کے اتباع کا دعویٰ کرے۔ لیکن اس کی ایسی تاویل اور تحریف کر دے، جن سے اس کے حقائق بدل جائیں۔ اس لئے جب تک اس کی تصریح نہ دکھلائی جاوے کہ مرزاصاحب ختم نبوت اور انقطاع وحی کے ان معنی کے لحاظ سے قائل ہیں جس معنی سے کہ صحابہ، تابعین اور تمام امت محمدیہ قائل ہے۔ اس وقت تک ان کی کسی ایسی عبارت کا مقابلہ میں پیش کرنا مفید نہیں ہوسکتا۔ جس میں خاتم النّبیین کے الفاظ کا اقرار کیا۔ اسی طرح نزول مسیح وغیرہ عقائد کے الفاظ کا کسی جگہ اقرار کر لینا یا لکھ دینا بغیر تصریح مذکور کے ہر گز مفید نہیں ہے۔ خواہ وہ عبارت تصنیف میں مقدم ہو یا مؤخر۔
یہ بات ثابت ہوچکی کہ مرزاصاحب اپنی اخیر عمر تک دعویٰ نبوت پر قائم رہے اور اپنے کفریہ عقائد سے کوئی توبہ نہیں کی۔ علاوہ ازیں اگر یہ ثابت بھی نہ ہو تو کلمات کفریہ اور عقائد کفریہ کہنے اور لکھنے کے بعد اس وقت تک ان کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ جب تک ان کی طرف سے ان عقائد سے توبہ کرنے کا اعلان نہ پایا جاوے اور یہ اعلان ان کی کسی کتاب یا تحریر سے ثابت نہیں پایا گیا۔
عدالت ہذا کی رائے میں مرزاصاحب کے عقائد کی بابت یہ جواب بہت جامع اور مدلل ہے اور گو کہ مختار مدعیہ نے اپنی بحث میں ان کے ہر عقیدہ پر تفصیلی بحث بھی کی ہے۔ لیکن اس کی 2188موجودگی میں ان عقائد پر مزید کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی۔ مختار مدعیہ نے بحث کی ہے کہ مرزاصاحب کا خود کلمہ طیبہ پر بھی پورا ایمان نہ تھا۔ کیونکہ اس کلمہ پر اس صورت میں ہی مکمل ایمان تصور ہوسکتا ہے۔ جب کہ خداوند تعالیٰ کی صفات اور رسول اﷲﷺکی خصوصیات پر پورا ایمان ہو۔ مرزاصاحب کے بعض اقوال سے یہ پایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے اندر الوہیت کو موجزن پایا اور اپنے آپ میں خدائی طاقتیں اور صفتیں موجود دیکھیں اور اپنے آپ کو رسول اﷲﷺ کی خصوصیات اور مدارج میں شریک بتلاتے ہیں اور انہیں خاتم النّبیین بمعنی آخری نبی تسلیم نہیں کرتے۔ اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کلمہ طیبہ پر انہیں لوازم کے تحت ایمان رکھتے ہیں۔ جیسا کہ دیگر مسلمان۔ اس لئے بھی انہیں مسلمان تصور نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن عدالت ہذا کی رائے میں ایسی تفصیلی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مرزاصاحب کی تکفیر کا سوال مقدمہ ہذا میں اصل سوال مابہ النزاع نہیں بلکہ ایک ضمنی سوال ہے۔ اصل سوال مدعا علیہ کے ارتداد اور تکفیر کا ہے۔ اس لئے مرزاصاحب کے اعتقادات کے متعلق صرف اس حد تک بحث کی ضرورت ہے جس حد تک کہ مدعا علیہ کے خلاف امور مذکورہ بالا کے تصفیہ کے لئے روشنی پڑ سکتی ہے۔
علاوہ ازیں اگر اس بحث کو بفرض محال صحیح بھی تسلیم کر لیا جاوے تو پھر یہ دکھلانا پڑے گا کہ مدعا علیہ کا کلمہ طیبہ پر بھی ویسا ہی ایمان ہے۔ جیسا کہ مرزاصاحب کا، اور اس کا حل مشکلات سے خالی نہیں ہوگا۔ کیونکہ مدعا علیہ کی نیت کا اندازہ پورے طور نہیں لگایا جاسکتا۔
مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ جن امور کی بناء پر مرزاصاحب اور ان کی جماعت کو ضروریات دین کا منکر قرار دیا جاکر کافر اور مرتد کہاگیا ہے ان کا ضروریات دین سے ہونا قرآن مجید یا احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں کیاگیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مدعا علیہ کی طرف سے یاتو مدعیہ کی پیش کردہ شہادت اور بحث کو بغور ذہن نشین نہیں رکھاگیا یا دیدہ دانستہ مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ گواہان مدعیہ نے بہت تکرار اور شدومد کے ساتھ اور خود مرزاصاحب کے 2189اپنے حوالوں سے یہ دکھلایا ہے کہ رسول اﷲa کے خاتم النّبیین ہونے کا عقیدہ بایں معنی کہ آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا۔ نص قرآن سے اور احادیث متواترہ سے اور اجماع امت سے ضروریات دین سے ہے اور اس کا انکار کفر ہے اور اس کی تائید میں انہوں نے بہت سی آیات قرآن اور احادیث پیش کی ہیں کہ جن میں سے بعض کی صحت کے متعلق جیسا کہ آگے دکھلایا جائے گا۔ خود مدعا علیہ کو بھی انکار نہیں۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ کیونکر یہ کہاگیا ہے کہ انہوں نے قرآن یا حدیث سے اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ البتہ اگر یہ کہا جاتا کہ وہ ثبوت قوی نہیں۔ توکچھ بات بھی تھی۔ لیکن یہ کہنا بالکل خلاف واقع ہے کہ ان کی طرف سے قرآن اور احادیث سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیاگیا۔ مدعیہ کی طرف سے بیان کردہ وجو ہات تکفیر اوپر درج کی جاچکی ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض کے متعلق (گو کہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ آگے دکھلایا جائے گا) یہ کہا جاسکے کہ وہ ضروریات دین میں سے نہیں ہیں۔ مگر مسئلہ ختم نبوت کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ضروریات دین سے نہیں۔ ضروریات دین کی اگرچہ ایک وسیع اصطلاح ہے اور ممکن ہے کہ بعض علماء نے اس کے تحت میں اپنی دانست کے مطابق بہت سے ایسے امور بھی داخل کر دئیے ہوں کہ جو بحث طلب ہوں۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ختم نبوت کا مسئلہ اسلام کے اہم اور بنیادی مسائل سے ہے۔ ضروریات دین کا مفہوم گواہان مدعیہ نے اپنے بیانات میں ظاہر کر دیا ہے۔ جو اوپر گزر چکا ہے۔ اگر اس اصطلاح کے لفظی معنی بھی مراد لئے جاویں تو ان الفاظ کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ وہ امور جو کسی دین میں داخل رہنے کے لئے ضروری ہوں اور جن کے نہ ماننے سے وہ شخص اس دین کا پیرو نہ سمجھا جاسکے۔ ضروریات دین سے ہوتے ہیں رسول اﷲﷺ کا خاتم النّبیین ماننا بایں معنی کہ آپ آخری نبی ہیں۔ مذہب اسلام میں داخل رہنے کے لئے ضروری اور لابدی ہے۔ کیونکہ آپ کے بعد اگر کوئی اور نبی مانا جائے تو مدعیہ اور اس کے گواہان کے نزدیک نہ یہ صرف نص قرآن اور احادیث متواترہ کا انکار ہوگا بلکہ معمول بہ اس نئے نبی کی وحی ہو جائے گی نہ کہ قرآن اور اس سے وہ شخص مذہب اسلام سے خارج ہو جائے 2190گا اور یہ بات کہ رسول اﷲﷺ کا آخری نبی ماننا نہ صرف مسلمانوں کے نزدیک ان کے مذہب کے بنیادی مسائل میں سے ہے۔ بلکہ اس کی نظیر دیگر مذاہب میں بھی ملتی ہے۔ مثلاً یہود اور نصاریٰ جن کے مذاہب کی تفریق محض اس بناء پر ہے کہ وہ اپنے اپنے پیشواؤں کے بعد اور کسی نبی کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس طرح مسلمانوں کا یہ عقیدہ چلا آیا ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد اور کوئی نبی نہیں اب اگر کوئی مسلمان کسی اور کو نبی مانے تو وہ مذہب اسلام کا پیرو نہیں سمجھا جائے گا۔ اس لئے ختم نبوت سے بڑھ کر اور کون سا مسئلہ ضروریات دین میں سے ہوسکتا ہے۔ یہ آگے دکھلایا جائے گا کہ اس بارہ میں جو اسناد پیش کی گئی ہیں وہ کس فریق کی معتبر اور زیادہ وزن دار ہیں۔
یہاں میں یہ درج کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ موجودہ زمانہ میں بہت سے مسلمان نبی کی حقیقت سے بھی ناآشنا ہیں۔ اس لئے بھی ان کے دلوں میں یہ مسئلہ گھر نہیں کر سکتا کہ مرزا صاحب کو نبی ماننے میں کیا قباحت ہوتی ہے کہ جس پر اس قدر چیخ وپکار کی جارہی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کی کچھ تھوڑی سی حقیقت بیان کر دی جاوے۔
مدعیہ کی طرف سے نبی کی کوئی تعریف بیان نہیں کی گئی۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ نبوت ایک عہدہ ہے۔ اﷲتعالیٰ کی طرف سے اس کے برگزیدہ بندوں کو عطا کیا جاتا رہا ہے اور نبی اور رسول میں فرق بیان کیاگیا ہے کہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور نبی کے لئے لازمی نہیں کہ وہ رسول بھی ہو۔ فریق ثانی نے بحوالہ نبر اس ص۸۹۔ بیان کیا ہے کہ رسول ایک انسان ہے جسے اﷲتعالیٰ احکام شریعت کی تبلیغ کے لئے بھیجتا ہے۔ بخلاف نبی کے کہ وہ عام ہے۔ کتاب لائے یا نہ لائے۔ رسول کے لئے کتاب لانا شرط ہے۔ اس طرح رسول کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ رسول وہ ہوتا ہے کہ جو صاحب کتاب ہو۔ یا شریعت سابقہ کے بعض احکام کو منسوخ کرے۔
یہ تعریفیں چونکہ اس حقیقت کے اظہار کے لئے کافی نہ تھیں۔ اس لئے میں اس جستجو میں رہا کہ نبی یا رسول کی کوئی ایسی تعریف مل جائے جو تصریحات قرآن کی رو سے تمام لوازم نبوت پر حاوی ہو۔ اس سلسلہ میں مجھے مولا نا محمود علی صاحب پروفیسر راندھیر کالج کی کتاب ’’دین وآئین‘‘ 2191دیکھنے کا موقعہ ملا۔ انہوں نے معترضین کے خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے نبوت کی حقیقت یہ بیان کی کہ جس شخص کے دل میں کوئی نیک تجویز بغیر ظاہری وسائل اور غور کے پیدا ہو۔ ایسا شخص پیغمبر کہلاتا ہے اور اس کے خیالات کو وحی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ تعریف بھی مجھے دلچسپ معلوم نہ ہوئی۔ آخر کار ایک رسالہ میں ایک مضمون بعنوان میکائیکی اسلام از جناب چوہدری غلام احمد صاحب پرویز میری نظر سے گزرا۔ اس میں انہوں نے مذہب اسلام کے متعلق آج کل کے روشن ضمیر طبقہ کے خیالات کی ترجمانی کی ہے اور پھر خود ہی اس کے حقائق بیان کئے ہیں۔ اس سلسلہ میں نبوت کی جو حقیقت انہوں نے بیان کی ہے۔ میری رائے میں اس سے بہتر اور کوئی بیان نہیں کی جاسکتی اور میرے خیال میں فریقین میں سے کسی کو اس پر انکار بھی نہیں ہوسکتا۔ اس لئے میں ان کے الفاظ میں ہی اس حقیقت کو بیان کرتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں کہ آج کل کے معقولیت پسندوں کی جماعت کے نزدیک رسول کا تصور یہ ہے کہ وہ ایک سیاسی لیڈر اور ایک مصلح قوم ہوتا ہے۔ جو اپنی قوم کی نکبت اور زبوں حالی سے متاثر ہوکر انہیں فلاح وبہبود کی طرف بلاتا ہے اور تھوڑے ہی دنوں میں ان کے اندر انضباط وایثار کی روح پھونک کر زمین کے بہترین خطوں کا ان کو مالک بنادیتا ہے۔ اس کی حقیقت قوم کے ایک امیر کے قسم کی ہوتی ہے۔ جن کے ہر حکم کا اتباع اسلئے لازمی ہوتا ہے کہ انحراف سے قوم کی اجتماعی قوت میں انتشار پیدا ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور وہ دنیاوی نعمتیں جو اس کے حسن تدبیر سے حاصل ہوئی تھیں۔ ان کے چھن جانے کا احتمال ہوتا ہے۔
اس کا حسن تدبر، عقل حکمت ذہنی انسان کے ارتفاع کی بہترین کڑی ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے ماحول کا بہترین مفکر شمار کیا جاتا ہے۔ کثرت ریاضت سے برائی کی قوتیں اس سے سلب ہو جاتی ہیں اور نیکی کی قوتیں نمایاں طور پر ابھرآتی ہیں۔ انہی قوتوں کا نام ان کے نزدیک ابلیس اور ملائکہ ہے۔ اس کا جواب پھر انہوں نے بحوالہ آیات قرآنی یہ دیا ہے۔
2192کہ رسول بلاشبہ مصلح اور مدبر ملت ہوتا ہے۔ لیکن اس کی حقیقت دنیاوی مصلحین اور مدبرین سے بالکل جداگانہ ہوتی ہے۔ دنیاوی مفکرین ومدبرین اپنے ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں اور ان کا فلسفہ اصلاح وبہبود ان کی اپنی پرواز فکر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جو کبھی صحیح اور کبھی غلط ہوتا ہے۔ برعکس اس کے انبیاء کرام علیہم السلام مامور من اﷲ ہوتے ہیں اور ان کا سلسلہ اس دنیا میں خاص مشیت باری تعالیٰ کے ماتحت چلتا ہے۔ وہ نہ اپنے ماحول سے متاثر اور نہ احوال وظروف کی پیداوار ہوتے ہیں۔ بلکہ ان کا انتخاب مملکت ایزدی سے ہوتا ہے اور ان کا سرچشمہ علوم وہدایت علم باری تعالیٰ سے ہوتا ہے۔ جس میں کسی ہود خطا کی گنجائش نہیں۔ ان کا سینہ علم لدنی سے معمور اور ان کا قلب تجلیات نور ازلی سے منور ہوتا ہے۔
دنیاوی سیاست وتفکر صفت ہے جو اکتساباً حاصل ہوتی ہے اور مشق ومہارت سے یہ ملکہ بڑھتا ہے۔ لیکن نبوت ایک موہبت ربانی اور عطائے یزدانی ہے۔ جس میں کسب ومشق کو کچھ دخل نہیں۔ قوم وامت کی ترقی ان کے بھی پیش نظر ہوتی ہے۔ لیکن سب سے مقدم اخلاق انسانی کی اصلاح مقصود ہوتی ہے۔ اس کا پیغام زمان ومکان کی قیود سے بالا ہوتا ہے اور وہ تمام انسانوں کو راستہ دکھلانے والا اور ان کا مطاع ہوتا ہے۔ اس کی اطاعت میں خدا کی اطاعت اور اس کی معصیت خدا کی معصیت ہے اور جو لائحہ حیات اس کی وساطت سے دنیا کو ملتا ہے اس میں کوئی دنیاوی طاقت ردوبدل نہیں کر سکتی۔ بلکہ دنیا بھر کی عقول میں جہاں کہیں اختلاف ہو اس کا فیصلہ بھی اس کی مشعل ہدایت سے ہوسکتا ہے۔ ان کو خدائی پیغام ملائکہ کی وساطت سے ملتے ہیں جو اگرچہ عالم امر سے متعلق ہونے کی وجہ سے سرحد ادراک انسانی سے بالا تر ہیں۔ لیکن ان کا وجود محض انسان کی ملکوتی قوتیں نہیں ہیں۔
اس حقیقت کو ذہن نشین رکھنے کے بعد یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد کسی دوسرے نبی کو تسلیم کرنے سے کیا قباحت لازم آئے گی۔ تصریحات قرآنی کی رو سے نیا نبی مطاع ہو جائے گا۔ اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکے گا۔ اس کی ہر بات 2193کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا۔ وہ جو حکم دے گا اس کی تعمیل لازمی ہوگی۔ ورنہ اعمال کے خبط ہونے کا اندیشہ ہوگا۔ اس کی شان میں ذرا بھر گستاخی نہیں کی جاسکے گی۔ بلکہ اس کے سامنے اونچا بولنا بھی گناہ ہوگا۔ اس کی اطاعت عین خدا کی اطاعت ہوگی اور اس سے روگردانی ایمان سے خارج ہونے کا باعث اور موجب عذاب الٰہی ہوگی۔
اس لئے مدعیہ کی طرف سے بحوالہ آیات قرآنی واحادیث یہ کہاگیا ہے کہ رسول اﷲa کے بعد اور کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا اور کوئی مسلمان کسی اور شخص کو نبی مانے تو دائرہ اسلام میں داخل نہیں رہ سکتا۔ مدعا علیہ کی طرف سے کتب فقہ سے جن عبارات کا حوالہ دیا جاکر علماء کے طرز افتاء پر اعتراض کیاگیا ہے۔ ان کے متعلق ایک تو خود مدعا علیہ کے اپنے گواہان کا بیان ہے کہ فی زمانہ ان پر علماء کا عمل نہیں۔ دوسرا مدعیہ کی طرف سے ان حوالہ جات کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کلمات کفر ہیں۔ نہ کہ فتاویٰ تکفیر، کلمہ کفر اور چیز ہے اور فتویٰ کفر اور چیز۔ کسی شخص پر ان کلمات کی بناء پر محض ان الفاظ کے استعمال سے ہی فتویٰ نہیں لگا دیا جائے گا۔ بلکہ فتویٰ ان اصولوں کے تحت لگایا جائے گا جو اس غرض کے لئے مجوز ہیں۔
عدالت ہذا کی رائے میں مدعیہ کا یہ جواب وزن رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں علماء کے اقوال سند کے لحاظ سے وہ حیثیت نہیں رکھتے جو متواترات کی بیان کی گئی ہے۔ کلمات زیربحث کو ریکارڈ پر لانے اور اپنے خیال کے مطابق ان کی تشریح کرنے سے گواہان مدعا علیہ کا منشاء سوائے اس کے اور کوئی معلوم نہیں ہوتا کہ مسئلہ زیربحث کی نوعیت اور اہمیت کو خفیف کر کے دکھلایا جاوے۔ حالانکہ مسئلہ ختم نبوت کا ان مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ جن پر اعتراض کیاگیا ہے۔
اور غالباً وہ یہ چاہتے ہیں کہ عام لوگوں کے دلوں میں علماء کے متعلق ایک حقارت پیدا کی جا کر ان کے طرز افتاء کی مذمت ظاہر کی جاوے اور ہر فرقہ اور ہر طبقہ کے لوگوں کے جذبات ان کے خلاف ابھارے جاویں اور موجودہ زمانہ کے روشن خیال طبقہ کی جو اپنے آپ کو ہر اصلاح کا علمبردار سمجھتا ہے۔ ہمدردی حاصل کی جاوے۔
2194مذہب کے متعلق فی زمانہ جو بے اعتنائی برتی جارہی ہے۔ وہ محتاج بیان نہیں۔ قرآن مجید کے نزول کے زمانہ میں جو لوگ اس پر ایمان نہیں لائے تھے وہ اسے اضغاث احلام اور اساطیر الاولین کہا کرتے تھے۔ موجودہ زمانہ میں جو لوگ کہ مذہب کا جوا، اپنی گردن سے نہیں نکال پھینکنا چاہتے۔ وہ گو ان الفاظ کو اپنے منہ سے نکالنے کی تو جرأت نہیں کرتے۔ لیکن حقائق ومعارف قرآنی پر اپنے دل میں پورا یقین نہیں رکھتے اور بقول مولانا محمود علی صاحب یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ اسلام میں زمانہ کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں ہے اور انقلاب حالات سے جو جدید ضرورتیں پیدا ہوتی ہیں اور جن کی وجہ سے اقوام عالم کو اپنی طرز وروش میں تغیر وتبدل کرنا پڑتاہے۔ اسلام ایسے انقلابوں کے اندر اپنی روش کو بدل کر دوسری روش پر چلنے کی قابلیت نہیں رکھتا اور اس کے ماننے والے اپنے حالات کے اندر کوئی اصلاح یا ترمیم نہیں کر سکتے اور کسی تہذیب جدید کا ساتھ نہیں دے سکتے۔
ان کے اسی اعتراض کا جواب تو مولانا صاحب موصوف نے اپنی کتاب ’’دین وآئین‘‘ میں دے دیا ہے۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ یہاں صرف یہ دکھلانا مقصود تھا کہ اس قسم کے خیالات آج کل عام ہیں اور چونکہ فریق مدعا علیہ کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق اس طبقہ کے خیالات کی رو سے اسلام میں اصلاح کرنے کی کافی وسعت ہے۔ اس لئے مدعا علیہ کی طرف سے علماء کے خلاف بدظنی پیدا کی جا کر اس طبقہ کے دل میں ان کے خلاف حقارت اور نفرت پیدا کرنے کی سعی کی گئی ہے اور یہ کوشش کی گئی ہے کہ اس مقدمہ میں مدعیہ کی طرف سے جو علماء پیش ہوئے ہیں انہیں دقیانوسی خیالات کا پیرو اور مرض تکفیر میں مبتلا دکھلایا جاکر ان کی بیان کردہ وجوہات تکفیر کو تمسخر میں اڑا دیا جاوے اور یہ دکھلایا جاوے کہ ان کی بیان کردہ وجوہات تکفیر کوئی حقیقت نہیں رکھتیں اور انہوں نے محض اس وجہ سے کہ جماعت احمدیہ کے اصول چونکہ صلاحیت مذہبی کی طرف رجوع دلاتے ہیں۔ اپنی پرانی عادت سے مجبور ہوکر براہ بغض اور کینہ انہیں کافر کہا ہے۔ ورنہ دراصل ان کا کوئی عقیدہ یا عمل کفر کی حد تک نہیں پہنچتا۔ حالانکہ مسئلہ زیربحث ایسا نہیں 2195کہ اسے اس طرح مذاق میں اڑا دیاجاوے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ علماء غلطی نہیں کرتے یا یہ کہ وہ انسانی کمزوریوں سے پاک ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی کسی رائے کو وقعت کی نگاہ سے نہ دیکھا جاوے اور ان کی کسی بات پر کان نہ دھرا جاوے۔ بلکہ چاہئے کہ ان کے اقوال پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جاوے اور یہ دیکھا جاوے کہ کہاں تک راستی پر ہیں۔ مسئلہ ختم نبوت کے بارہ میں انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ صداقت سے خالی نہیں۔
مدعا علیہ کی طرف سے کتب تفاسیر کے حوالوں پر جو اعتراض کیاگیا ہے۔ اس کے متعلق صرف یہ لکھ دینا کافی ہے کہ ان حوالوں کو نہ یہاں درج کیاگیا ہے اور نہ ہی اس فیصلہ کا انحصار ان حوالوں پر رکھا گیا ہے اور سند کے اعتبار سے صرف قرآن مجید اور احادیث کو ہی معیار تصفیہ قرار دیا گیا ہے اور یہ عمل اس لئے اختیار کرنا پڑا ہے کہ فریقین کی طرف سے اپنے اپنے ادعا کی تائید میں بے شمار کتابیں جن کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی ہے۔ پیش کی گئیں ہیں۔ مدعا علیہ نے مدعیہ کی پیش کردہ کتب میں سے کسی کو بھی اپنے اوپر حجت تسلیم نہیں کیا۔ سوائے مرزاصاحب اور ان کے خلفاء کی کتابوں کے اور اسے اپنے اعتقاد کے مطابق ایسا ہی کرنا چاہئے تھا۔ کیونکہ جب وہ مرزاصاحب کونبی مانتا ہے تو اس کے لئے معمول بہ مرزاصاحب کی وحی کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے اس کا دوسری کتابوں کو بطور حجت تسلیم نہ کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں۔ باقی قرآن اور احادیث کے متعلق اس نے یہ رویہ اختیار کئے رکھا ہے کہ آیات قرانی کا جو مفہوم مدعیہ کی طرف سے بیان کیاگیا ہے۔ اس کے متعلق اس نے یا تو یہ بیان کیا ہے کہ وہ درست نہیں ہے یا اس کی کوئی اور تاویل کر دی ہے اور احادیث کے بارہ میں بھی جو حدیث اس کے مفید مطلب تھی وہ تو لے لی اور جو اس کے خلاف تھی اس کی صحت کے متعلق یا تو اس نے انکار کر دیا ہے یا اس کی بھی کوئی تاویل کر دی اور اس کا یہ عمل بھی مرزاصاحب کی تعلیم کے خلاف نہیں۔ کیونکہ مرزاصاحب فرماتے ہیں کہ جو حدیث میری وحی کے معارض ہے وہ ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل ہے۔ اس کے علاوہ مدعا علیہ نے جن دیگر مصنّفین کی کتابوں کے حوالے پیش 2196کئے ہیں۔ ان کے متعلق بھی اس کا یہ ادعا ہے کہ وہ چونکہ مدعیہ کے ہم مذہب اشخاص کی تصنیف شدہ ہیں۔ اس لئے اس نے انہیں مدعیہ کے خلاف بھی بطور حجت پیش کیا ہے۔ اس کے لئے وہ کوئی حجت نہیں۔ اس لئے ان حوالوں پر بحث کرنی نہ صرف غیرضروری خیال کی گئی ہے۔ بلکہ اسے مشکلات سے بھی خالی نہیں پایا گیا۔ کیونکہ فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف خیانت کے بھی الزام لگائے ہیں اور یہ بھی اعتراض کئے ہیں کہ بعض مصنّفین کی کتابیں انہیں مسلم نہیں ہیں۔ اس لئے یہ طے کرنے کے لئے کہ کہاں تک خیانت ہوئی اور کس کس مصنف کی کتاب فریقین کے عقائد کے مطابق ہے اور آیا وہ فریقین کے مسلمات میں سے بھی ہیں یا نہ اور کہ ان سے جو نتائج اخذ کئے گئے ہیں وہ درست ہیں یا نہ اور کہ فریقین کو ان کی رائے کا پابند قرار دیا جاسکتا ہے یا نہ۔ بہت وقت وسیع مطالعہ اور کافی محنت کی ضرورت ہے اور پھر اس سے نتیجہ کے بھی پورے طور واضح اور عام فہم ہونے کی توقع نہیں۔ اس لئے ایک طرف قرآن مجید اور احادیث پر اور دوسری طرف مرزاصاحب اور ان کے خلفاء کی کتابوں پر حصر رکھا جا کر دیگر تمام حوالہ جات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ گواہان مدعیہ کا یہ کہنا کہ ادعا وحی کفر ہے اور اگر کوئی شخص مطلق وحی کا دعویٰ کرے خواہ نبوت کا مدعی نہ بھی ہو، تب بھی وہ کافر ہے اور کہ بنی آدم میں وحی پیغمبروں کے ساتھ مختص ہے اور غیر کیلئے کشف، الہام یا وحی معنوی ہوسکتی ہے۔ درست نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید کی آیت ’’وما کان لبشر… الخ!‘‘ میں اﷲتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ صرف پیغمبروں کے ساتھ ہی ان تین طرق مندرجہ آیت مذکور سے کلام کرتا ہے اور غیرپیغمبروں سے نہیں کرتا۔ بلکہ اس آیت میں بشر کا لفظ رکھا ہے۔ جس میں نبی اور غیر نبی دونوں داخل ہیں۔

(جاری ہے)
 

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(احمدی حضرات کا مؤقف ) بقیہ حصہ
سورہ قصص رکوع نمبر۱، آیت ’’ واوحینا الیٰ ام موسیٰ… الخ! ‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر وحی صرف پیغمبروں کے ساتھ مخصوص ہوتی تو ام موسیٰ پر خدا کی طرف سے یہ وحی نازل نہ ہوتی۔
اس طرح سورہ مریم کی آیت ’’ فارسلنا الیہا روحنا… الخ! ‘‘ اور آیت ’’ واذ قالت الملائکۃ… مع الراکعین۰ واذ قالت الملائکۃ2197… مقربین‘ ‘ اور سورۂ کہف رکوع نمبر۱۱ کی آیت ’’ قلنا یا ذوالقرنین… حسنا ‘‘ کے حوالہ جات پیش کئے جاکر یہ دکھلایا گیا ہے کہ:
۱… وحی انبیاء سے مخصوص نہیں، بلکہ غیر انبیاء پر بھی وحی ہوسکتی ہے۔ بلکہ ہوتی ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔
۲… جن طریقوں سے اﷲتعالیٰ انبیاء علیہم السلام سے کلام کرتا ہے، انہی طریقوں سے غیرانبیاء یعنی اولیاء وغیرہ کے ساتھ بھی ہم کلام ہوتا ہے جیسا کہ آیت نمبر۱ سے ظاہر ہوتا ہے۔
۳… فرشتوں کا نزول انبیاء علیہم السلام سے خاص نہیں، بعض اوقات غیرانبیاء پر بھی ایسی وحی نازل ہو جاتی ہے جس میں امر ونہی ہوتے ہیں اور کہ غیر انبیاء کی وحی بھی غیب کی خبروں پر مشتمل ہوتی ہے۔
اس کے آگے مدعا علیہ کے گواہ کا یہ بیان ہے کہ مدعیہ کے گواہان نے جو یہ کہا کہ آنحضرتﷺ کے بعد کسی پر وحی نہیں ہوسکتی جو اس کا دعویٰ کرے وہ کافر اس کی انہوں نے قرآن مجید یا احادیث سے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ ہاںصرف ایک گواہ نے بحوالہ آیت ’’ والذین یؤمنون… من قبلک ‘‘ پیش کر کے کہا ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد بھی کوئی وحی نازل ہونی ہوتی تو اس آیت میں ضرور اس کا ذکر کر دیا جاتا۔ چونکہ ذکر نہیں کیاگیا۔ اس لئے معلوم ہوا کہ آپ کے بعد وحی نہیں ہوسکتی۔ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اس آیت میں تشریعی وحی کا ذکر ہے اور چونکہ آنحضرتﷺ کے بعد ایسی وحی جو آپﷺ کی شریعت کی ناسخ ہو، منقطع تھی۔ اس لئے اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کی تائید میں پھر چند علماء کے اقوال نقل کئے جاکر یہ کہاگیا ہے کہ علماء کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی ایسی خبر نہیں آئی جس سے معلوم ہو کہ آنحضرتﷺ کے بعد وحی تشریعی ہوگی۔ بلکہ وحی الہام ہوگی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اکابر علماء لکھ چکے ہیں کہ مسیح موعود پر وحی ہوگی اور حدیث میں آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ مسیح موعود پر خدا کی طرف سے وحی ہوگی۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ جو قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہے اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ مسیح موعود آئے گا تو ان پر وحی ہوگی تو اسے 2198خدا کی طرف سے یقین کرے گا۔ پس اس لحاظ سے یہ آیت تشریعی وحی کے انقطاع پر دلالت کرتی ہے۔ غیرتشریعی وحی کے انقطاع پر دلالت نہیں کرتی۔ اس امر کی دلیل میں کہ آنحضرتﷺ کے بعد غیرشریعت والی وحی ہوسکتی ہے اور آنحضرتﷺ کے کامل متبعین پر اس کا دروازہ بند نہیں ہے۔ آیات ذیل ’’الم یرو انہ… سبیلا‘‘ پارہ۹، رکوع۸ اور ’’افلا یرون… قولا‘‘ پارہ۱۶، رکوع۱۳، کے حوالے دیا جاکر یہ کہاگیا ہے کہ ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بندوں سے خدا کا کلام کرنا ضروری ہے۔ پس کیونکر مان لیا جاوے کہ حرم کعبہ کا رب اور قرآن کے اتارنے والا خدا جو بچھڑے کی عبودیت اور الوہیت کا ابطال اس کے عدم تکلم کی وجہ سے کرتا ہے۔ خود اپنے پیارے بندوں سے ویسا سلوک کرے نیز آیت ’’ ومن اضل ممن… غافلون ‘‘ سورۂ احقاف رکوع نمبر۱، سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ خداوند تعالیٰ اپنے بندوں کی پکار سنتا اور ان کو جواب دیتاہے اور آیت ’’ قل ان کنتم تحبون اﷲ… الخ! ‘‘ آل عمران رکوع نمبر۴ سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ خدا اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے اور یہ بدیہی بات ہے کہ محب اپنے محبوب سے ہم کلام ہو اور اس کی باتیں سنے اور اپنی کہے ورنہ عدم کلام نقص محبت پر دلیل ہوگا۔ کیونکہ محبوب کا کلام نہ کرنا دلیل ناراضگی ہے اور خدا جو اپنے بندوں پر ماں باپ سے بڑھ کر مہربان ہے۔ ضرور اپنے پیارے بندوں سے کلام کرتا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ جب وہ اپنے پیاروں سے کلام کرتا تھا تو اب نہ کرے۔ اﷲتعالیٰ کی ایک صفت جو اس کی خدائی پر ایک اعلیٰ دلیل ہے وہ اس کا متکلم ہونا ہے۔ پس یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اب قیامت تک اس صفت کا تعطل مان لیا جاوے اور کہا جاوے کہ اس کی صفت تکلم زائل ہوچکی۔ یعنی کہ وہ اب کسی سے کلام نہ کرے گا تو اس کا سمیع ہونا کیونکر معلوم ہوگا۔ کہنے والے پھر بھی کہہ دیں گے کہ وہ پہلے سمیع تھا اور اب نہیں۔ اس کی تائید میں پھر یہ ایک دنیاوی مثال دی گئی ہے۔ اگر کوئی عاشق اپنے کسی محبوب کے دروازہ پر آہ وبکا اور گریہ زاری کرتے ہوئے بیقراری کی حالت میں جائے۔ مگر محبوب نہ دروازہ کھولے اور نہ اندر سے کوئی آواز آوے تو یقینا وہ عاشق نا امید ہوکر لوٹے گا اور خیال کرے گا کہ یا تو میرا محبوب مر چکا یا مجھے دھوکا 2199دیا گیا۔ پس اس طرح اﷲتعالیٰ جس کا دیدار بوجہ اس کے وراء الورا اور لطیف ہونے کے ہم نہیں کر سکتے۔ اگر وہ گفتار سے بھی اپنے عشاق کو تسلی نہیں دے سکتا تو آخر وہ ایک دن ناامید ہوکر اسے چھوڑ دیں گے۔ تعشق اور محبت کا مادہ انسان کی فطرت میں ودیعت کیاگیا ہے اور وہ ایسے محبوب کو جس کے دیدار اور گفتار سے اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے محروم سمجھے اسے کبھی اپنے عشق کا محل نہیں ٹھہراتا حقیقی عاشق اپنے محبوب سے ہم کلام ہونے کے لئے اپنے دل میں ازحد تڑپ رکھتا ہے اور اس کے کلام کو اپنے لئے تریاق اور آب حیات سمجھتا ہے۔ پس وہ علیم خبیر ہستی جو انسانوں کے اندر احساسات وجذبات کا پیدا کرنے والا ہے کس طرح اپنے عشاق کو اپنی ہم کلامی سے محروم رکھ سکتا ہے اور ا س کی تائید میں آیات ذیل ’’واذا سألک عبادی عنی فانی قریب… الخ!‘‘ اور ’’ ان الذین قالوا… تتنزل الملائکۃ ‘‘ حم سجدہ رکوع نمبر۴ پیش کی گئی ہیں۔ اس کے بعد پھر آیات ’’ رفیع الدرجات ذوالعرش… یوم التلاق ‘‘ سورہ مؤمن رکوع نمبر۲ اور ’’ تنزل الملائکۃ بالروح من امرہ علی من یشائ… فاتقون ‘‘ سے یہ استدلال کیاگیا ہے کہ جس طرح اﷲتعالیٰ اپنے بندوں کو از منۂ سابقہ میں اپنے وحی سے مشرف کرتا رہا ہے۔ آئندہ بھی کرے گا۔ کیونکہ آیت میں نزول وحی کا موجب اﷲتعالیٰ کا رفیع الدرجات وذوالعرش ہونا ہے اور ضرورت انداز قرار دیا گیا ہے۔ پس جب کہ اﷲتعالیٰ اب بھی رفیع الدرجات اور ذوالعرش ہے۔ اس میں تغیر نہیں آیا اور لوگ بھی بلحاظ روحانیت مردہ ہوگئے تو پھر وحی کا انقطاع کیونکر مان لیا جاوے۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس… الخ! ‘‘ یعنی امت محمدیہ تمام امتوں سے بہتر ہے اور نعمت بھی اس پر پوری ہوچکی اور دعا بھی خدا نے ہمیں یہ سکھلائی کہ ’’ صراط الذین انعمت علیہم ‘‘ کہ اے خدا تو ہمیں اپنے پیارے اور مقرب بارگاہ بندوں یعنی انبیاء صدیقین اور شہدائے اور صالحین کے راستہ پر چلا تو عقل سلیم کیونکر تسلیم کر سکتی ہے کہ امت محمدیہ جو سب امتوں سے بہتر ہو لیکن انعامات الٰہیہ سے محروم ہو پہلی امتوں کے مردوں کے علاوہ اﷲ تعالیٰ نے عورتوں کو بھی اپنے کلام سے مشرف کیا اور ان پر فرشتے نازل ہوئے۔ لیکن امت محمدیہ 2200کے بڑے سے بڑے درجہ کے مرد کو بھی یہ انعام نہ ملے۔ پس یہ کہنا کہ امت مرحومہ پر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہے اور خدا اس سے کلام نہیں کرتا تو پھر یہ خیر الامم کیسے ہوئی؟ اور یہ کہنا غلطی ہے کہ خداتعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے بعد جو تمام عالم کے لئے رحمت ہوکر آئے تھے اس انعام کو لوگوں سے چھین لیا ہے اور امت میں سے کسی ایک فرد کو بھی اپنے ہم کلام ہونے کے مبارک شرف سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیا ہے۔ اﷲتعالیٰ اور اس کا پاک رسول اور اولیاء امت یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ فیضان الٰہی اس امت پر بند نہیں ہیں اور آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ تم میں سے پہلے قوم بنی اسرائیل میں ایسے لوگ ہوئے ہیں کہ باوجود یہ کہ وہ نبی نہ تھے۔ لیکن اﷲتعالیٰ ان سے کلام کرتا تھا۔ میری امت میں ایسے لوگوں میں اگر کوئی ہے تو عمرؓ ہے۔ دوسری روایت میں محدث کالفظ آیا ہے۔ صحابہؓ نے حضورﷺ سے دریافت فرمایا کہ یا رسول اﷲ محدث سے کیا مراد ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ فرشتے اس کی زبان پر کلام کرتے ہیں۔
 
Top