(اختلاف کس بات پر؟)
جناب عبدالمنان عمر: اور کس بات پر ہوئے۔ اس کے متعلق گزارش یہ ہے کہ یہ اِختلافات ۱۹۱۴ء میں شروع ہوئے جبکہ اس جماعت کے مرزا صاحب کی وفات کے بعد پہلے سربراہ مولانا نورالدین کی وفات ہوئی۔ گو ذہنوں میں بعض لوگوں کے ممکن ہے کچھ خیالات ایسے ہوں، لیکن باقاعدگی کے ساتھ اس جماعت کے ساتھ اِختلاف کی بنیاد جو ہے وہ یہ تھی کہ یہ لوگ جو احمدیہ انجمن اِشاعتِ اسلام لاہور کے نام سے اس وقت روشناس ہیں، یہ کلیۃً اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے، جیسا کہ آپ نے ابھی مولانا صاحب سے سنا کہ انہوں نے جو مرزا صاحب کی بیعت کی تھی، وہ اس بات پر کی تھی کہ ہم اپنی زندگیوں کو اِسلام کے مطابق، قرآن مجید کے مطابق اور نبیوں کے سردار پاک محمد مصطفیﷺ کی ہدایات کے مطابق اور آپ کے اُسوہ کے مطابق بسر کریں گے۔ ہم نے اُن کو کبھی بھی نبی نہیں مانا، ہم نے کبھی بھی اُن کے دعوے کو نہ ماننے والوں کو کافر نہیں کہا، کبھی اُن کو دائرۂ اسلام سے خارج نہیں سمجھا اور کبھی بھی یہ پوزیشن اِختیار نہیں کی کہ کوئی نیا دِین ہے جو دُنیا میں Introduce کیا جارہا ہے۔ کبھی بھی یہ نقطئہ نگاہ نہ اپنے ذہنوں میں لیا، نہ دُنیا میں کبھی پیش کیا کہ ہم مرزا صاحب کو کوئی ایسا وجود تسلیم کرتے ہیں جس سے اسلام کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا، نبیوں کے سردارﷺ کی اُمت سے وہ باہر ہوجاتے ہیں، اور یہ کہ اُنہوں نے جو کچھ بھی پیش کیا ہے وہ محمد رسول اللہﷺ کی غلامی میں پیش کیا ہے اور ایک مستقل حیثیت سے جس سے ان کا دائرۂ کار اِسلام سے باہر ہوجائے، اس چیز کو نہ کبھی انہوں نے سمجھا، نہ اِختیار کیا، نہ اپنی جماعت کو یہ تلقین کی، نہ ان کے ماننے والوں میں 1520سے کسی شخص نے کبھی بھی ایسا خیال کیا۔
بنیادی طور پر یہ اِختلاف تین چیزوں پر مبنی تھا۔ ایک اِختلاف یہ تھا کہ نبیوں کے سردار پاک محمد مصطفیa، مرزا صاحب اور آپ کے ماننے والوں کے نزدیک ہر معنوں میں خاتم النّبیین تھے۔ کسی قسم کی نبوّت، اس کا کچھ نام رکھ لو، لیکن وہ ایک محمد مصطفیﷺ کی غلامی سے باہر چیز نہیں ہے، آپ کی تعلیمات سے باہر چیز نہیں ہے، قرآن مجید سے باہر وہ تعلیم نہیں ہے، اِسلام سے باہر وہ تعلیم نہیں ہے۔ ایک میں مرزا صاحب کا ایک شعر عرض کرتا ہوں جو اِن الفاظ میں ہے: ’’مسلماں را مسلماں باز کردن‘‘
یہ تھا ان کا مشن، یہ تھا ان کا کام اور یہ تھی ان کی تعلیم کہ مسلمانوں کو صحیح معنوں میں مسلمان بنادو اور ان کو قرآن مجید کے اُسوہ پر چلنے اور محمدﷺ کے اُسوہ پر چلنے کی تلقین کرو اور ایک ایسی خادمِ اِسلام جماعت پیدا کرو جو اپنے تن من دھن کو صرف اور صرف اسلام کی خدمت کے لئے لگادیں اور دُنیا میں محمد رسول اللہﷺ کے نام کی چمکار کو پھیلادیں۔ یہی مشن تھا۔
چنانچہ ۱۹۱۳ء میں سب سے پہلا اس جماعت نے مشن غیرممالک میں جو قائم کیا وہ ووکنگ میں تھا، جس کے سربراہ اس وقت خواجہ کمال الدین صاحب تھے۔ وہ شخص ایک Known Figure (معروف شخصیت) ہے دُنیا کی۔ اس شخص کے لیکچروں کی دُنیا میں دُھوم ہے۔ وہ کوئی گوشہ نشین شخص نہیں ہے، اس کے خیالات کچھ چھپے ہوئے خیالات نہیں ہیں۔ اس زمانے کے سارے اخبارات دیکھ لیجئے گا، اس زمانے کا سارا لٹریچر دیکھ لیجئے گا، اس زمانے کی اُن کی تقریروں کو دیکھ لیجئے گا، کسی جگہ بھی آپ کو یہ نقطئہ نگاہ نہیں ملے گا کہ یہ کوئی ایسا مشن ہے، یورپ میں، جو اِسلام سے الگ ہوکر کسی نئے دِین کو Preach کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہو۔ خواجہ صاحب جب وہاں گئے، میں نے عرض کیا یہ سن ۱۹۱۳ء کی بات ہے۔ اس وقت تک جماعت بالکل اسی نقطئہ نگاہ پر قائم تھی کہ مرزا صاحب نبی نہیں ہیں، مرزا صاحب کا اِنکار موجبِ کفر نہیں ہے، مرزا صاحب کو ماننے سے اسلام کے دائرے سے 1521انسان خارج نہیں ہوجاتا، اور یہ کہ جو شخص بھی مرزا صاحب سے اپنے دامن کو وابستہ کرتا ہے، اس کا کام یہ ہے کہ اس کی زندگی کا مشن یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن نے کہا ہے: (عربی)