• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

(اسمبلی کے اختیارات کو چیلنج)

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
(اسمبلی کے اختیارات کو چیلنج)
اس کے بعد گواہ اسمبلی کے اختیارات کو چیلنج کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اسمبلی کو کسی کو کافر قرار دینے کا اختیار نہیں ہے۔ میں اس کے بیان سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ اس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس اسمبلی کو یہ تعین کرنے کا حق حاصل ہے کہ یہ اسمبلی جس نے اس ملک کا سرکاری مذہب اسلام قرار دیا ہے کسی فرقے کے متعلق یہ بھی فیصلہ دے سکتی ہے اور قانون اور دستور میں یہ ترمیم کر سکتی ہے کہ کون صحیح عقیدے کا مسلمان ہے اور کون نہیں ہے۔ اس نے اسمبلی کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی جرح میں کہا ہے کہ مذہبی آزادی ہر شخص کو ہونی چاہئے۔ میرا کہنا ہے کہ کوئی بے وقوف ہی اس کی تردید کرے گا۔ میں نے دستور کی دفعہ آٹھ اور بیس کے تحت اسمبلی کے اختیار کو چیلنج کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اسمبلی جو کہ سپریم باڈی ہے ان دفعات کی ترمیم کر سکتی ہے۔ میں نے اپنے تحریری بیان یعنی محضرنامے میں یہ بات کہی ہے کہ صرف مسٹر بھٹو، مفتی محمود اور مولانا مودودی کو ہی نہیں بلکہ دستور ہر پاکستانی کو مذہبی آزادی دیتا ہے۔ جب 2860کوئی اپنے مذہب کا اعلان یا اقرار کرے تو کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس میں اعتراض یا مخالفت کرے۔ اگر کوئی دنیاوی فائدے اور لالچ کے لئے مذہب کا اعلان کرے تو قرآن پاک کہتا ہے کہ اس میں مداخلت نہ کی جائے۔ البتہ اگر کوئی دھوکہ دہی کے لئے مذہب کی آڑ لے تو میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ یہ درست ہے کہ جو مسلمان نہیں، اسے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس لئے ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ چونکہ یہ غیرمسلم ہیں اس لئے ان کو مسلمانی کا دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ جب ان سے یہ سوال کیاگیا کہ جب آپ ایک غیراحمدی کو کافر کہتے ہیں، اگر اسمبلی یہ قرارداد پاس کر دے کہ آپ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ اس کا وہ جواب دیتے ہیں کہ پھر جملہ غیر احمدی فرقوں کو غیرمسلم قرار دے دیا جائے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اس اسمبلی کو یہ تو اختیار ہے کہ جملہ غیراحمدی فرقوں کو غیرمسلم قرار دے دے، مگر اس اسمبلی کو یہ اختیار نہیں کہ ایک احمدی فرقے کو غیرمسلم قرار دے سکے۔ آگے چل کر پھر اس سوال کے جواب میں کہ مسلمان کون ہیں۔ اس نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے جسے مسلمان کہا ہے وہ مسلمان ہے اور اس میں وہ چار حدیثوں کا حوالہ دیتا ہے جو اس نے اپنے محضرنامے میں بیان کی ہیں۔ اس پر مفتی محمود صاحب کافی روشنی ڈال چکے ہیں۔
اب ان کو اقلیت قرار دئیے جانے یا نہ دئیے جانے کے موضوع پر اس کے بیانات کا آپ کے سامنے جائزہ لیتا ہوں۔ گواہ مرزاناصر احمد نے کہا ہے کہ اپنے فرقے کو اقلیت قرار دینے سے ہم مرزاصاحب کو روحانی پیشوا تصور کرنے میں اس طور پر پابندی محسوس کریں گے کہ اس سے ان لوگوں کی عزت نفس پر ہاتھ ڈالا جائے گا جو ہماری جماعت میں شامل ہوں گے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ اقلیت قرار دینے سے مداخلت نہیں بلکہ ہمارا تحفظ ہوگا تو ہمیں ایسے تحفظ کی ضرورت نہیں ہے۔
2861جناب ڈپٹی چیئرمین! ان کے خیالات ملاحظہ فرمائیں۔ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی فرد ان کو غیرمسلم کہے تو ان کے حقوق میں مداخلت نہیں ہوتی۔ البتہ اگر حکومت ان کو غیرمسلم کہے تو مداخلت ہوتی ہے۔ گواہ کا مؤقف یہ ہے کہ ان تین احادیث کی رو سے جو محضرنامے میں درج ہیں کسی حکومت کو حق نہیں کہ کسی کو غیرمسلم قرار دے۔ اس نے کہا یہ درست ہے کہ جب میں یہ کہوں کہ مفتی محمود کو کوئی حق نہیں کہ ہمیں غیرمسلم کہے تو ہمیں بھی حق نہیں کہ ہم کہیں کہ مفتی محمود مسلمان نہیں ہیں۔
جناب ڈپٹی چیئرمین! امتی نبی کے متعلق مختصر سا جائزہ لیتے ہوئے اس گواہ کے خیالات اور بیانات کے میں آپ کے سامنے مختصر حوالے پیش کرتا ہوں۔ اپنے اس اعتقاد پر کہ مرزاصاحب امتی نبی ہیں۔ ان کی ربوہ والی جماعت کا اور نہ لاہوری جماعت کا موقف غیرمتزلزل نہیں ہے۔ ان کے قدم ڈگمگاتے ہیں۔ کبھی ایک پوزیشن اختیار کرتے ہیں کبھی دوسری اور کبھی تیسری پوزیشن اختیار کرتے ہیں۔ بیانات اور جرح کے دوران ان کا سارا استدلال یہ رہا کہ وہ مرزاغلام احمد کو نبی مانتے ہیں۔ اگر آپ اس پر اعتراض کرتے ہیں، چلئے ہم ان کو مسیح موعود مان لیتے ہیں۔ اگر آپ مسیح موعود بھی نہیں مانتے تو ہم ان کو مہدی موعود مان لیتے ہیں اور اگر آپ ان کو مہدی موعود بھی نہیں تسلیم کرتے تو چلئے ان کو آنحضرت ﷺ کا ظل، ان کا سایہ کہہ لیں اور اس طرح وہ امتی نبی ہیں، بروزی نبی ہیں۔ ان کا یہ مؤقف بھی ان کے اپنے بیان سے منتشر ہوجاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امتی نبی وہ ہے جو نبی اکرم ﷺ کے عشق اور محبت میں اپنی زندگی گزارے اور تسلیم کیا کہ یہ درست ہے کہ دوسرے فرقوں کے لوگ مرزاصاحب کوامتی نبی نہیں سمجھتے۔ ایک جگہ جاکر وہ یہ بھی تسلیم کر گئے ہیں، درست ہے کہ ان کی کتاب ’’حقیقت النبوۃ‘‘ (ص۱۸۳) میں درج ہے کہ مرزاصاحب امتی نبی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں۔
جناب ڈپٹی چیئرمین! آپ دیکھئے اگر وہ شخص آنحضرت ﷺ 2862کے بعد حقیقی نبی ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے خلیفہ اس بات کا پرچار کریں تو یہ یقینا اسلام کو نہ صرف مسخ کرنے والی بات ہے بلکہ وہ لوگ اس ملک کے اندر ایک نیا اسلام، ایک نیا نبی اور ایک نئی امت قائم کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔
جناب ڈپٹی چیئرمین! سب سے بڑا پوائنٹ جو اس ہاؤس میں زیربحث آیا۔ جس پراٹارنی جنرل صاحب نے ان پر بہت زیادہ سوالات کئے۔ یہی ہے کہ کیا مرزاصاحب کو نبی نہ ماننے والا کافر ہے اور کیا غیراحمدی مسلمان ہے یا نہیں؟ اپنے بیانات میں مرزاناصر احمد گواہ نے جو باتیں کہی ہیں وہ یہ ہیں: ’’کفر کے لغوی معنی انکارکرنے والے کے ہیں۔ جو لوگ بانی سلسلہ احمدیہ کے منکر ہیں وہ کافر ہیں۔ لغوی معنوں میں اور اصلی معنوں میں کیا فرق ہے، وہ آپ یہاں دیکھیں کہ انہوں نے کیا حیرت انگیز فرق ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ منکر خداتعالیٰ کے سامنے قابل مواخذہ ہے۔ کفر کے دو معنی ہیں۔ ایک اﷲتعالیٰ کے نزدیک قابل مواخذہ ہے۔ دوسرے سیاسی کافر ہیں۔ ویسے یہ کہتے ہیں کہ ہماری جماعت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ دیوبندی، اہل حدیث، بریلوی یہ سب کے سب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ مسلمان نہیں، بلکہ سیاسی مسلمان ہیں۔ پھر ان سے سوال کیاگیا کافر کے معنی تمام لوگوں میں…‘‘
Madam Acting Chairman: May I request the honourable members to keep their tone low please. Thank you.
(قائمقام چیئرمین صاحبہ: میں معزز اراکین سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اپنی آواز کو مدہم رکھیں۔ شکریہ!)
 
Top