• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

افریقی ممالک میں استعماری اور صیہونی سرگرمیاں

محمدابوبکرصدیق

ناظم
پراجیکٹ ممبر
افریقی ممالک میں استعماری اور صیہونی سرگرمیاں
افریقہ دنیا کا واحد براعظم ہے۔ جہاں سے برٹش ایمپائر نے اپنا پنجہ استبداد سب سے آخر میں اٹھایا اور آج تک کچھ علاقے برطانوی سامراجی اثرات کے تابع ہیں۔ مغربی افریقہ میں قادیانیوں نے ابتداء ہی سے برطانوی سامراج کے لئے اڈے قائم کئے اور ان کے لئے جاسوسی کی۔ ’’دی کیمبرج ہسٹری آف اسلام‘‘ مطبوعہ ۱۹۷۰ء میں مذکور ہے۔
"The Ahmadiyya first appeared on the west African coast during the first world war, when several young men in lagus and free town joined by mail. In 1921 the first Indian Missionarry arrived. Too unorthodou to gain a footing in the Muslim interior, the Ahmadiyya remain confined principally to southern Nigeria, southern Gold coast sierraleone. It Strengthened the Ranks of those Muslims actively loyal to the British, and it contributed to the modernization of Islamic Organization in the area." (The Cambridge History of Islam vol-11 edited by Holt, Lambton, and lewis, Cambridge University press, 1970, p-400)
ترجمہ: ’’پہلی جنگ عظیم کے دوران احمدی فرقہ کے لوگ مغربی افریقہ کے ساحل تک پہنچے۔ جہاں لاگوس اور فری ٹاؤن کے چند نوجوان ان تک پہنچے۔ ۱۹۲۱ء میں پہلی ہندوستانی مشنری وہاں آئی۔ اگرچہ یہ لوگ کسی عقیدہ کا پرچار نہیں کر سکے لیکن ان کا ارادہ مسلم آبادی کے اندرونی علاقوں 2061میں قدم جمانا تھا۔ یہ لوگ زیادہ تر جنوبی نائیجیریا، جنوبی گولڈ کوسٹ اور سیرالیون میں سرگرم عمل رہے۔ ان لوگوں نے ان مسلمان دستوں کو مضبوط کیا جو کہ مملکت برطانیہ کے حد درجہ وفادار تھے اور ان علاقوں میں اسلام کو جدید تقاضوں سے ہمکنار کرتے رہے۔‘‘
اس اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ قادیانی ۱۹۲۱ء کے بعد زیادہ تر جنوبی گولڈ کوسٹ اور سیرالیون میں سمٹے رہے اور غلام ہندوستان کی طرح یہاں کے مسلمانوں کو برطانوی اطاعت اور عقیدہ جہاد کی ممانعت کی تبلیغ کر کے برطانیہ سے وفاداریوں کو مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی۔ حال ہی میں قادیانیوں نے ’’افریقہ سپیکسں‘‘ کے نام سے مرزاناصر احمد کے دورۂ افریقہ کی جو روئیداد چھاپی ہے وہ افریقہ میں قادیانی ریشہ دوانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس میں یہ عبارت خاص طور پر قابل غور ہے۔
"One of the Main points of Ghulam Ahmad's has been rejection of "Holy Wars" and forcible conversion." (Africa Speaks page-93, published by Majlis Nusrat Jahan Tahrik-i-Jadid Rabwah.)
یعنی غلام احمد کے اہم معتقدات میں سے ایک مقدس جنگ (جہاد) کا انکار ہے۔ آخر ماریشس ایک افریقی جزیرہ ہے۔ ۱۹۶۷ء میں یہاںسے ’’دی مسلم ان ماریشس‘‘ یعنی ماریشس میں مسلمان کے نام سے جناب ممتاز عمریت کی ایک کتاب شائع ہوئی۔ جس کا دیباچہ ماریشس کے وزیراعظم نے لکھا۔ کتاب میں فاضل مصنف نے بڑی محنت سے قادیانیوں کی ایسی تخریبی سرگرمیوں کا ذکر کیا جو مسلمانوں کے لئے تکالیف کا باعث بن رہی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلہ میں مسلمانوں کی طرف سے دائر کردہ ایک مقدمہ کا ذکر کیا ہے۔ مسجد روزہل کا یہ مقدمہ بقول مصنف کے تاریخ ماریشس کا سب سے بڑا مقدمہ کہا جاتا ہے۔ جس میں دو سال تک سپریم کورٹ نے بیانات لئے، شہادتیں سنیں اور ۱۹؍نومبر ۱۹۲۰ء کو چیف جج سرائے ہرچیزوڈر نے فیصلہ دیا کہ 2062’’مسلمان الگ امت ہیں اور قادیانی الگ۔‘‘
کتاب کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں بھی ان کی آمد برطانوی فوج کی شکل میں ان کے استعماری مقاصد ہی کے لئے ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ قادیانی مذہب سے تعلق رکھنے والے دو فوجی ماریشس پہنچے۔ ان میں سے ایک کا نام دین محمد اور دوسرے کا نام بابو اسماعیل خان تھا۔ وہ سترہویں رائل انفنٹری سے تعلق رکھتے تھے۔ ۱۹۱۵ء تک یہ فوجی اپنی تبلیغی کاروائیاں (فوجی ہوکر تبلیغی کارروائیاں؟ قابل غور) کرتے رہے۔

(تفصیل کے لئے دیکھئے المنیر لائل پور ج۹ ش۲۲ ص۷،۸)
’’دوسال قبل افریقہ میں تبلیغ کے نام پر جو دو سکیمیں نصرت جہاں ریزرو فنڈ اور آگے بڑھو سکیم کی جاری کی گئیں۔ اس کی داغ بیل لندن ہی میں رکھی گئی اور مرزاناصر احمد نے اکاؤنٹ کھلوایا۔‘‘
(الفضل ربوہ ۲۹؍جولائی ۱۹۷۲ئ)
افریقہ میں اپنی کارکردگیوں کے بارہ میں قادیانی مبلغ برطانیہ میں مقیم ان ممالک کے ہائی کمشنروں سے رابطہ قائم کرتے رہتے ہیں اور انہیں معلومات بہم پہنچاتے ہیں۔ برطانوی وزارت خارجہ قادیانیوں کی ان تمام مشنوں کی حفاظت کرتی ہے۔
اور جب کچھ لوگ برطانوی وزارت خارجہ سے اس تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ براعظم افریقہ میں قادیانیوں کے اکثر مشن برطانوی مقبوضات ہی میں کیوں ہیں اور برطانیہ ان کی حفاظت کرتی ہے اور وہ دیگر مشنریوں سے زیادہ قادیانیوں پر مہربان ہے تو وزارت خارجہ نے جواب دیا کہ سلطنت کے مقاصد تبلیغ کے مقاصد سے مختلف ہیں۔ جواب واضح تھا کہ سامراجی طاقتیں اپنی نوآبادیات میں اپنے سیاسی مفادات اور مقاصد کو تبلیغی مقاصد پر ترجیح دیتی ہیں اور وہ کام عیسائی مبلغین سے نہیں، مرزائی مشنوں ہی سے ہوسکتا ہے۔
 
Top