(الفضل جماعت احمدیہ کا اخبار ہے؟)
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، ’’آپ ‘‘ سے مطلب ’’جماعت احمدیہ کا اخبار‘‘ہے ان کا۔
مرزا ناصر احمد: جماعت احمدیہ کا بھی اخبار نہیں، جماعت احمدیہ کی ایک تنظیم کا اخبار ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ان کی آواز ہے یہ…
مرزا ناصر احمد: جی…
جناب یحییٰ بختیار: ان کی رائے دیتا ہے، ان کی طرف سے…
مرزا ناصر احمد: ان کی آواز بالکل نہیں ہے، یہ تو بالکل، بالکل نہیں ہے، جماعت کی آواز نہیں ہے ’’الفضل‘‘
جناب یحییٰ بختیار: یہ بڑا اچھا ہے! آپ اگر یہ کہہ دیں تو بڑی اچھی بات ہے! ہم تو سارے جھگڑے ’’الفضل‘‘ سے کررہے ہیں یہاں۔
مرزا ناصر احمد: بالکل نہیں جماعت کا۱؎۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے۔
887مرزا ناصر احمد: یہ تو پھر سارے جھگڑے ختم ہوگئے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: کس جماعت کا ہے یہ ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ الفضل اخبار قادیانی جماعت کا اخبار نہیں، اتنا بڑا سچ قادیانی جماعت کو خلیفہ قادیانی مرزا ناصر کی طرف سے مبارک ہو؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مرزا ناصر احمد: ہیں؟
جناب یحییٰ بختیار: کس جماعت کا ہے یہ؟
مرزا ناصر احمد: کسی جماعت کا نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں، مرزا صاحب…
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں۱؎…
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔
مرزا ناصر احمد: ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: ’’ڈان‘‘۱خبار تھا، ۱۹۴۱ء میں شروع ہوا دہلی میں ، ساری دنیا کہتی تھی کہ مسلم لیگ کی آواز ہے۔ وہ بھی آفیشل آرگن تو نہیں تھا کوئی مسلم لیگ کا۔ آج ’’مساوات‘‘ ہے۔ سب کہتے ہیں جی کہ پیپلز پارٹی کا ہے۔ پیپلز پارٹی کا آفیشل اخبار تو نہیں ہے۔
مرزا ناصر احمد: اور سارے کہتے ہیں کہ ’’ٹرسٹ‘‘ کے اخبار آج کی گورنمنٹ کے ہیں…
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
مرزا ناصر احمد: اور ان پر اعتراض کرتے ہیں۔ آپ کے نزدیک حکومت پر وہ اعتراض درست ہے؟
جناب یحییٰ بختیار: میں، میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ Officially (سرکاری ترجمان) جو ہے ناں ’’ٹرسٹ‘‘ اور بات ہے--- ’’مساوات‘‘ اخبار کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے، پیپلزپارٹی کا ہے۔ ’’جسارت‘‘ کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کا ہے، حالانکہ جماعت اسلامی کا کوئی نہیں ہے، ان سے ہمدردی رکھنے والوں کا ہوگا،ا ن کی آواز بلند کرتا ہوگا۔
888’’الفضل‘‘ جو ہے، اس کو آپ، فاننس آپ کرتے ہیں، آپ کی جماعت کرتی ہے۔ اس کو نکالتے ہی آپ ہیں۔ آپ کی رائے اور آپ کے خطبے سب اس میں آتے ہیں، سب اس میں آئے ہیں، اور آپ کہتے ہیں کہ ’’نہیں ہے، آپ کا اخبار بالکل نہیں‘‘تو بالکل ٹھیک بات ہے!
مرزا ناصر احمد: میرا نہیں ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: خلیفہ کا ذاتی میں نہیں کہہ رہا۔
مرزا ناصر احمد: نہ جماعت احمدیہ کا ہے۲؎۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ دنیاوالو! دیکھو قادیانی سربراہ کیسے کیسے جھوٹ بول رہا ہے؟
۲؎ جھوٹ پہ جھوٹ، نبی جھوٹا، خلیفہ جھوٹا، خود جھوٹا، باپ جھوٹا، دادا جھوٹا، پہلے تین تھیں، اب چوتھی نسل جھوٹ پر چل ہی نہیں رہی، جھوٹ پر پل بھی رہی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جناب یحییٰ بختیار: آپ کی آواز ہے، وہ آپ کی جماعت کی آواز۔
مرزا ناصر احمد: نہ میری آواز ہے، میری آواز کے کچھ کو اس کا نقل کردینا… وہ اخبار میری آواز نہیں بنتا۔
جناب یحییٰ بختیار: ٹھیک ہے، آپ کے حصے ہی نقل کررہا ہے وہ۔
مرزا ناصر احمد: میری آواز کے کچھ حصوں کو وہ نقل کرتا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں۔
مرزا ناصر احمد: اور سارا کچھ جو وہ کہتا ہے، وہ میری طرف منسوب نہیں ہوسکتا۔
جناب یحییٰ بختیار: موڑ توڑ کر تو نہیں نقل کرتاوہ ، موڑتوڑ تو اخبار کرتا ہے۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں،اتنی غلطیاں کاتب صاحب کرجاتے ہیں کہ آپ حیران ہوجائیں، اگر آپ کو دکھاؤں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں،کاتب کی اور بات ہوتی ہے، موڑ توڑ کرنا اور بات ہوتی ہے۔
مرزا ناصر احمد: وہ موڑ توڑ معنوی موڑ توڑ بن جاتا ہے اس کے بعد۔
جناب یحییٰ بختیار: اچھا جی اب اور کوئی حوالہ ہے؟
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، سب حوالے ہیں۔ (Pause)
889یہ میں نے یہاں ریکارڈ کروایا کہ قاضی اکمل صاحب کا یہ کہنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو سنا اور ’’جزاک اللہ‘‘ کہا، ۳۸ سال کے بعد، ہماری تاریخ میں یہ واقعہ کہیں ریکارڈ نہیں۔ اس طرح میں اس کو بالکل غلط سمجھتا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: جھوٹ کہا انہوں نے؟
مرزا ناصر احمد: جھوٹ کہا، جو آپ مرضی کہہ لیں۔
جناب یحییٰ بختیار: اکمل نے جھوٹ کہا، ’’الفضل‘‘ نے جھوٹ رپورٹ کیا، بس ٹھیک ہے۔
مرزا ناصر احمد: قاضی اکمل صاحب نے جھوٹ کہا، جھوٹ اس معنی میں کہ ہماری تاریخ نے اس واقعہ کو ریکارڈ ہی نہیں کیا کہیں بھی اور ۳۸ سال کے بعد ایک شخص ایک چیز۳۸ سال پہلے کی کہہ رہا ہے، اور حافظے کا یہ حال ہے کہ اپنے اس شعر کو ، جو آخری نہیں، اور لکھ رہا ہے کہ یہ آخری شعر ہے میرا۔ اپنی عمر کے اس حصے میں پہنچ کر جب اپنے ہی شعر یاد نہیں، ان کے ، جو انہوں نے کسی اور کے متعلق بات کی ہو، وہ کیسے قابل قبول ہوجائے گی؟
جناب یحییٰ بختیار: بس جی، ٹھیک ہے۔ مرزا صاحب! ایک شعر ایک آدمی کو یاد نہیں رہتا۔ اتنا بڑا واقعہ کہ مرزا صاحب وہاں موجود ہوں، وہ ان کی تعریف کرے، کوئی احمدی بھولتا نہیں۔
مرزا ناصر احمد: کسی احمدی نے کسی جگہ کسی تحریر میں، کسی لیکچر میں، کسی کتاب میں، کسی مضمون میں اس واقعہ کی طرف کبھی اشارہ نہیں کیا، میں تو یہ کہہ رہا ہوں۔ (Pause)
اور یہ اس کے برعکس یہ روایت ہے ہماری ریکارڈ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے اپنے شعر شُور سناتا رہتا تھا اور آپ کہتے تھے کہ ’’میں اپنے کام میں مشغول تھا، سوچ میں لگا ہوا تھا، میں نے کوئی نہیں سنا۔‘‘ یہ روایت ریکارڈ ہے اور وہ روایت کہ ’’سنا اور یہ کیا‘‘ یہ ۳۸ سال تک کسی شخص نے اس کی طرف اشارہ ہی نہیں کیا۔ اس کو میں کیسے ownکرلوں؟