امتی نبی کا تصور
مرزاغلام احمد یا مدعا علیہ کی نام نہاد نبوت پر ایمان حضرت محمد ﷺ کی نبوت کی کھلی تنقیص ہے۔ جس کی وضاحت خداوند تعالیٰ نے قرآن پاک میں اور رسول پاک ﷺ نے احادیث میں کر دی ہے۔ مدعا علیہ اور مرزاغلام احمد نے امتی نبی یا رسول یا ظلی اور بروزی نبی کا جو تصور پیش کیا ہے وہ قرآن اور حدیث سے نہیں ملتا اور نہ مدعا علیہ اور مرزاغلام احمد کے تصور کی تائید کسی اور ذریعہ سے ہوتی ہے۔ امتی نبی کا تصور غیراسلامی ہے اور یہ مرزاغلام احمد اور مدعا علیہ کی من گھڑت تصنیف ہے۔ قرآن یا حدیث میں کہیں بھی ایسی کوئی بات نہیں ملتی۔ جس میں سے یہ بات ظاہر ہو کہ اسلام امتی نبی پر یقین رکھتا ہے۔ رسول پاک ﷺ نے یہ باب ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے اور 2327حدیث رسول کی موجودگی میں اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی طرح کا کوئی نبی نہیں آئے گا۔
اسلام کا یہ عقیدہ ضرور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک بار پھر دنیا میں تشریف لائیں گے۔ لیکن وہ حضرت محمد ﷺ کے امتی کی حیثیت سے ظاہر ہوں گے۔ یسوع مسیح کوئی نئی امت تخلیق نہیں کریں گے۔ بلکہ وہ محمد ﷺ کی شریعت کی پیروی کریں گے۔ میرے سامنے آنحضرت ﷺ کی حدیث کا حوالہ دیاگیا ہے۔ جس میں رسول پاک ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تووہ عمرؓ بن خطاب ہوتے۔ رسول پاک ﷺ کی یہ حدیث اور دوسری احادیث واضح طور پر یہ بات ظاہر کرتی ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس لئے مدعا علیہ اور مرزاغلام احمد نے امتی نبی یا ظلی اور بروزی نبی کا جو تصور پیش کیا ہے وہ سراسر غیراسلامی اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کے منافی ہے۔ نیز مسلمانوں کے اجماع سے بھی متصادم ہے۔ مرزاغلام احمد نے بروزی نبی ہونے کا جو دعویٰ کیا ہے علامہ اقبال نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے اور اسے مجوسیوں کا عقیدہ قرار دیا ہے۔ علامہ کی تحریر سے ہمیں بروزی نبی کے تصور کی حقیقت سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اس لئے میں اس بحث کے متعلقہ حصے فیصلے میں شامل کرنا پسند کروں گا۔