(انوارخلافت کا حوالہ کہ غیراحمدی کا جنازہ پڑھنا)
1637جناب یحییٰ بختیار: صاحبزادہ صاحب! یہ ایک میں پھر گستاخی کرتا ہوں اور بشیرالدین محمود احمد صاحب کا جو ہے ناں ’’انوارِخلافت‘‘ اِس سے اِسی مسئلے پر جو میں آپ کو کہہ رہا تھا کہ مرزا صاحب کے بیٹے کی وفات ہوئی اور انہوں نے جنازہ نہیں پڑھا، وہ جس طرح یہ Describe (ذِکر) کرتے ہیں، اُس سے جو بھی آپ سمجھتے ہیں کہ جہاں غلط ہے، آپ پوائنٹ آؤٹ کردیں کہ یہ حصہ مانتے ہیں، یہ نہیں مانتے۔ تو یہ میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں۔ ’’انوار خلافت‘‘ صفحہ:۹۱ پہ ہے، ninety-one:
’’غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا:
پھر ایک سوال غیراحمدی کا جنازہ پڑھنے کے متعلق کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک یہ مشکل پیش آتی ہے کہ حضرت مسیحِ موعود نے بعض صورتوں میں جنازہ پڑھنے کی اجازت دے دی (جیسے آپ نے فرمایا یہ مشکل تھی) اس میں شک نہیں کہ بعض حوالے ایسے ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اور ایک خط بھی ملا ہے جس پر غور کیا جائے گا۔ لیکن حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کا عمل اس کے برخلاف ہے۔ چنانچہ آپ کا ایک بیٹا فوت ہوگیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق بھی کرتا تھا۔ جب وہ مرا تو مجھے یہ یاد ہے کہ آپ ٹہلتے جاتے اور فرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار ہی رہا ہے۔ ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوا اور شدّتِ مرض سے مجھے غش آگیا۔ جب مجھے ہوش آیا تب میں نے دیکھا وہ میرے پاس کھڑا نہایت درد سے رو رہا تھا۔ آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ میری بڑی عزت کرتا تھا۔ لیکن آپ نے اُس کا جنازہ نہیں پڑھا۔ ورنہ وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی اتنے نہ ہوں گے۔ محمدی بیگم کے متعلق جب جھگڑا ہوا تو اُس کی بیوی 1638کے رشتہ دار بھی اُس کے ساتھ شامل ہوگئے۔ حضرت صاحب نے اس کو فرمایا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ اُس نے طلاق لکھ کر حضرت صاحب کو بھیج دی کہ آپ جس طرح مرضی ہے اس طرح کریں۔ لیکن باوجود اس کے جب وہ مرا تو آپ نے اُس کا جنازہ نہ پڑھا۔‘‘
ایک تو وہ لفظ یہ اِستعمال کرتے ہیں: ’’مرا‘‘، ’’وفات‘‘ کا نہیں کہتے۔ ’’مرحوم‘‘ نہیں کہتے۔ یہ خیر، ان کا point of view (نقطئہ نظر) ہے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ Fact جو ہے ناں، میں اس کی وجہ آپ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا وجہ تھی؟ آپ نے کہا کہ آپ بتائیں گے۔ ایک طرف سے وہ فرمانبردار ہے، اور پھر کہتے ہیں کہ سوشل تعلقات ایسے تھے کہ جس کی بنا پر ایک اتنے مرتبے کا آدمی، آپ جس کو محدث سمجھتے ہیں، وہ اپنے بیٹے کا جنازہ نہ پڑھے!
جناب عبدالمنان عمر: میری گزارش اس سلسلے میں یہ ہے کہ میں پھر عرض کروں گا کہ مرزا محمود احمد صاحب اس معاملے میں ہمارے فریق مقدمہ ہیں۔ اس بات میں ہمارا اور اُن کا اِختلاف ہے۔ وہ کچھ تاریخی باتیں جمع کرنا چاہتے ہیں، کچھ حوالے جمع کرنا چاہتے ہیں، کچھ اِدھراُدھر کی باتیں اکٹھی کرکے یہ تأثر دینا چاہتے ہیں کہ جو اُن کے معتقدات ہیں، جو اُن کا رویہ ہے، وہ دُرست ہے اور ہم یہ موقف رکھتے ہیں کہ اُن کا رویہ غلط ہے، اُن کے معتقدات غلط ہیں۔ ہم اِس وجہ سے اُن سے اِختلاف کرتے ہیں۔ میں بڑے ادب سے گزارش کروں گا کہ جناب! اُس فریقِ مقدمہ کو آپ بطورِ گواہ میرے سامنے لاتے ہیں۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، گواہ نہیں، میں تو حقائق پیش کر رہا ہوں۔
جناب عبدالمنان عمر: جی، میں عرض کرتا ہوں کہ یہ بالکل کتاب ایسی ہے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، میں کتاب کی بات نہیں کر رہا، میں نے کہا کہ لفظ ’’مرا‘‘ اِستعمال کیا، آپ ضرور وہ اِستعمال نہیں کریں گے۔ اِن چیزوں کو چھوڑ دیجئے کہ یہ حقیقت 1639ہے کہ نہیں کہ مرزا صاحب کے بیٹے تھے، وفات کرگئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ فرمانبردار تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مرزا صاحب نے جنازہ نہیں پڑھا۔ تو اُس کے بعد آپ نے کہا کہ ایک اور وجہ آپ بتاسکیں گے۔
جناب عبدالمنان عمر: میں عرض کرتا ہوں۔ میں عرض یہ کر رہا ہوں جی کہ اِس شخص کے واقعات کو آپ مُسلّمہ مان لیتے ہیں پہلے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، اس کو نہیں، میں ۔۔۔۔۔۔۔ اِس کو چھوڑ یں۔ ابھی میں نے اس واسطے کہا تاکہ آپ کو۔۔۔۔۔۔
جناب عبدالمنان عمر: جی ہاں، اِس کو ہمارے سامنے پیش نہیں ہونا چاہئے، یہ حجت نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: دیکھیں ناںجی، مجبوراً ہمیں پیش کرنے پڑتے ہیں، چونکہ انہی کی کتابوں سے تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ کیا Attitude (رویہ) رہا ہے۔ آپ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ’’ہم اِس کو َردّ کرتے ہیں‘‘ کس حد تک رَدّ کرتے ہیں۔ بعض آدمی، جس کو آپ سمجھتے ہیں کہ بالکل جھوٹا بھی ہے، غلطی سے بھی کبھی سچ کہہ دیتا ہے۔ بعض سچا آدمی غلطی سے جھوٹ کہہ دیتا ہے۔ تو یہ چیزیں ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کی اپنی تعلیمات، تجربے اور اپنے علم کے مطابق کون سی بات صحیح ہے، کون سی نہیں ہے۔
اب یہ بات آپ نے تسلیم کی کہ مرزا صاحب کے بیٹے فضل احمد تھے۔ یہ بات آپ نے تسلیم کرلی کہ وہ احمدی نہیں ہوئے۔ یہ بات آپ نے تسلیم کرلی کہ اُن کی وفات مرزا صاحب کی زندگی میں ہوئی۔ یہ آپ نے تسلیم کرلیا کہ اُس نے اُن کا جنازہ نہیں پڑھا۔ اب اس کے بعد باقی جو وجوہات ہیں، وہ کہتے ہیں کیونکہ وہ غیراحمدی تھے، اِس وجہ سے جنازہ نہیں پڑھا، آپ کہتے ہیں کہ نہیں، اور وجہ ہے۔ تو اُس پر آپ بتادیجئے۔
1640جناب عبدالمنان عمر: میں نے عرض یہ کیا تھا کہ پہلا میرا اِستدلال یہ ہے کہ کسی جگہ سارے لٹریچر میں سے، مرزا محمود احمد صاحب کی اِن ساری کتابوں کے باوجود، وہ کبھی بھی ایسا کوئی حوالہ نہیں پیش کرسکے کہ مرزا صاحب نے اُن کا جنازہ اِس وجہ سے نہیں پڑھا کہ وہ غیراحمدی تھے۔ کوئی ایک حوالہ نہیں، کوئی ایک مثال نہیں، کوئی ایک واقعہ نہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: آپ، میں نے عرض کیا کہ آپ بتائیں کہ وجہ کیا تھی؟
جناب عبدالمنان عمر: ہاںجی، میں گزارش یہ کرتا ہوں، اس چیز کو میں عرض کر رہا ہوں۔
دُوسری میں نے گزارش یہ کی تھی کہ یہ جہاں سے آپ نے یہ واقعات لئے ہیں، یہ عجیب بات ہے کہ یہ ۱۹۱۵ء کی کتاب چھپی ہوئی ہے۔ اُس کے بعد آج تک اتنے Controversial Point (متنازعہ مسئلے) پر اس کتاب کو اُس شخص نے دوبارہ نہیں چھاپا۔ نصف صدی سے زیادہ اُس کا وقت گزرا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر کمزور پوزیشن انہوں نے اس میں اِختیار کی۔
تیسری بات میں اس سلسلے یہ عرض کرتا ہوں کہ مرزا فضل احمد کے متعلق یہ جو کہا کہ ’’وہ فرمانبرار بھی تھا‘‘ اگر آپ… اور جب وہ فوت ہوئے، اگر آپ ان دونوں کے زمانوں کو مدنظر رکھ لیں تو شاید یہ مسئلہ فوراً حل ہوجائے۔ جب کہا کہ: ’’وہ فرمانبردار تھا اور وہ اچھا تھا۔‘‘ وہ ۱۸۹۲ء کے قریب کی بات ہے۔ تو اُس کے کئی سال کے بعد کا یہ واقعہ ہے جب وہ شخص فوت ہوا۔ تو آپ سمجھتے ہیں کہ انسان میں تغیر نہیں آتا؟ اُس کے اخلاق کسی وقت Deteriorate (پست) نہیں کرجاتے؟ تو وہ اور زمانے کی شہادت ہے، یہ دُوسرے زمانے کی شہادت ہے۔ اِس لئے اُس کو پیش نہیں کیا جاسکتا۔