انگریزوں کی پالیسی
’’ایسے اختلافات انگریز کو بہت راس آتے تھے وہ یہی چاہتے تھے کہ جس قوم پر وہ حکومت کر رہے ہیں اسے مذہبی اختلافات میں الجھائے رکھیں۔ جب تک کہ یہ جھگڑے امن عامہ میں خلل ڈالنے کا باعث نہیں اگر لوگ جنت میں جانے کے استحقاق یا جہنم میں جانے کے اسباب پر جھگڑا کریں تو جب تک وہ ایک دوسرے کے سر نہیں توڑتے اور اپنے لئے دنیاوی مال ومتاع کا مطالبہ نہیں کرتے اس وقت تک انگریز ان جھگڑوں کو انتہائی بے نیازی بلکہ اطمینان کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ لیکن جونہی سرٹوٹنے کا وقت آیا، انگریز نہایت سخت ہو جاتا اور اس پر کسی مصلحت کے لئے تیار نہ تھا۔ مرزاصاحب برطانوی راج کی اس برکت سے پوری طرح واقف تھے جو صرف ان اختلافات کی اجازت ہی نہیں دیتا تھا۔ بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا تھا۔ چنانچہ احمدی تحریک کے بانی اور رہنماؤں کے خلاف غیراحمدیوں کی ایک بہت بڑی شکایت یہ بھی تھی کہ وہ انگریزوں کے ذلیل خوشامدی ہیں۔‘‘
(تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ ص۲۰۸)
قادیانی فرقہ کے بانی کو علم تھا کہ اسلام کے ظہور کے بعد سے مسیلمہ کذاب اور جس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا اس کے ساتھ کیا سلوک کیاگیا۔ یہی وجہ تھی کہ اپنی نبوت جمانے کے لئے 2285اس فرقہ کو انگریزی حکومت کی حفاظت کی سخت ضرورت تھی۔ اس سلسلہ میں مرزاغلام احمد کی حسب ذیل تحریروں کا حوالہ بھی دیاگیا ہے۔