انگریزوں کے آلہ کار
عیار انگریز اس بات سے آگاہ تھے کہ برصغیر کے مسلمان مذہب کے بارے میں بے حد حساس ہیں اور یہ صرف اسلام ہی تھا جس نے انہیں متحد کر کے ایک عظیم طاقت بنادیا تھا۔ اس لئے انگریزوں نے سوچا کہ اگر کسی طرح مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کر کے ان کا شیرازہ بکھیر دیا جائے تو انہیں غلام بنانا زیادہ آسان ہو جائے گا۔ انگریزوں کو مرزا غلام احمد میں وہ تمام خصوصیات مل گئیں جو مسلمانوں میں انتشار وافتراق پیدا کرنے کے لئے ضروری تھیں۔ مرزاغلام احمد نے انگریزوں کی حمایت میں مسلمانوں کے درمیان پھوٹ اور بے اعتمادی کی فضا پیدا کرنی شروع کر دی۔ یہ بات ثبوت کی محتاج نہیں کہ مرزاغلام احمد مسلمانوں میں انتشار وافتراق پیدا کرنے کے لئے انگریزوں کے آلہ کار تھے۔ مسٹر جسٹس منیر احمد مسٹر جسٹس کیانی نے بھی ۱۹۵۳ء میں پنجاب کے فسادات کے متعلق اپنی رپورٹ میں جو عام طور پر منیر رپورٹ کہلاتی ہے۔ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
2315اپنی کتاب (تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱) میں مرزاغلام احمد کہتے ہیں: ’’میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عمر تک پہنچا ہوں اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے، غلط خیالی جہاد وغیرہ دور کروں۔‘‘
(شہادت القرآن ص۳، خزائن ج۶ ص۳۸۰، اشتہار گورنمنٹ کی توجہ کے لائق) میں وہ کہتے ہیں: ’’سو میرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کریں۔ دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی ہو۔‘‘
ایک اور مقام پر وہ کہتے ہیں: ’’میں ایسی کتابیں فارسی، عربی اور اردو اور انگریزی میں شائع کر رہا ہوں۔ جن میں باربار یہ لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں پر یہ فرض ہے جس کے ترک سے وہ خدا تعالیٰ کے گنہگار ہوں گے کہ اس گورنمنٹ کے سچے خیرخواہ اور دلی جانثار ہو جائیں… کیونکہ یہ گورنمنٹ ہمارے مال اور خون اور عزت کی محافظ ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۴۰)
ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں:’’میں یہ بات زور دے کر کہتا ہوں کہ مسلمانوں میں صرف میرا فرقہ ایسا تھا جو برطانوی حکومت کا انتہائی وفادار اور اطاعت شعار رہا اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہئے جس سے برطانوی حکومت کو اپنا کام چلانے میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا ہو۔‘‘
۱۹؍اکتوبر ۱۹۱۵ء کے الفضل میں انہوں نے لکھا ہے: ’’برطانوی حکومت احمدیوں کے لئے ایک نعمت اور ڈھال ہے اور صرف اسی کے سائے میں وہ پھل پھول سکتے ہیں… ہمارے مفادات اس حکومت کے تحت بالکل محفوظ ہیں… جہاں جہاں برطانوی حکومت کے قدم پہنچتے ہیں ہمارے لئے اپنے عقائد کی تبلیغ کا موقع نکل آتا ہے۔‘‘
2316(تبلیغ رسالت ج۶، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۷۰) میں وہ کہتے ہیں: ’’میں اپنے اس کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتا ہوں نہ مدینہ میں، نہ روم میں، نہ شام میں نہ ایران میں نہ کابل میں۔ مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لئے دعا کرتا ہوں۔‘‘
اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مرزاغلام احمد نے محض اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں میں انتشار وافتراق پھیلانے کا کھلا لائسنس حاصل کر لیا تھا۔ اپنی تحریروں میں انہوں نے خود اس بات کی شکایت کی ہے کہ انہیں برطانوی سامراج کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔
ان حالات سے بحث کہ جن کے تحت یہ (احمدی) تحریک پروان چڑھی۔ معلوم کرنا ضروری ہے کہ مسلمان ہونے کی ضروری شرائط کیا ہیں۔ امیر علی اپنی کتاب محمڈن لاء میں لکھتے ہیں: ’’کوئی شخص جو اسلام لانے کا اعلان کرتا یا دوسرے لفظوں میں خدا کی وحدت اور محمد ﷺ کے پیغمبر ہونے کا اقرار کرتا ہے وہ مسلمان ہے اور مسلم لاء کے تابع ہے۔‘‘
ہر وہ شخص جو خدا کی وحدت اور رسول عربی ﷺ کی پیغمبری پر ایمان رکھتا ہے دائرہ اسلام میں آجاتا ہے۔
سر عبدالرحیم اپنی کتاب ’’محمڈن جورسپرؤڈنس‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اسلامی عقیدہ خدائے واحد کی حاکمیت اور محمد ﷺ کے نبی کی حیثیت سے مشن کی صداقت پر مشتمل ہے۔ انہی آراء کا اظہار متعدد دوسری کتابوں میں کیاگیا ہے۔ قرآن حکیم میں مسلمان ہونے کی شرائط سورۃ النساء میں درج کی گئی ہیں۔
اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں: اے ایمان والو! تم اعتقاد رکھو اﷲ پر اس کے رسول پر جو اس نے اپنے رسولؐ پر نازل فرمائی اور ان کتابوں کے ساتھ جو کہ پہلے نازل ہوچکی ہیں اور جو شخص اﷲتعالیٰ کا انکار کرے اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے رسول کا اور روز قیامت کا تو وہ شخص گمراہی میں بڑی دور جا پڑا۔
(النسائ:۱۳۶)
2317قرآن مجید کی متذکرہ بالا آیت میں واضح طور پر سابق پیغمبروں، آسمانی صحیفوں اور رسول پاک اور ان کی کتاب کا تذکرہ کیاگیا ہے۔ لیکن اس میں کہیں بھی مستقبل کے پیغمبروں اور ان کی کتب کا حوالہ موجود نہیں۔ اس سے اس کے سوا کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیاجاسکتا کہ آنحضرت ﷺ آخری نبی ہیں اور ان پر جوکتاب نازل ہوئی وہ آخری کتاب ہے۔ یہی بات سورہ احزاب میں زیادہ زور دے کر کہی گئی ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں: ’’محمد ﷺ تم میں سے کسی کے باپ نہیں۔ لیکن وہ اﷲ کے پیغمبر اور خاتم النّبیین ہیں اور اﷲ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔‘‘ (۳۳،۴۰)
خود رسول پاک ﷺ نے بھی کئی حدیثوں میں صورتحال کی وضاحت فرمائی ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں:
الف… جب بنی اسرائیل میں کسی نبی کا انتقال ہوا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آگیا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (بخاری)
ب… رسالت ونبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ میرے بعد کوئی رسول ﷺ یا نبی نہیں آئے گا۔
(ترمذی)
ج… میں آخری نبی ﷺ ہوں اور تم آخری امت ہو۔ (ابن ماجہ)
قرآن پاک اور رسول اکرم ﷺ کے مندرجہ بالا ارشادات کے بعد یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ مدعا علیہ نے خود کو (نعوذ باﷲ) پیغمبروں کی صف میں کھڑا کر دیا ہے اور اس کے ممدوح مرزاغلام احمد نے بھی اپنے پیغمبر نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ میں مدعا علیہ کے عقائد کا پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں جو اس کے بیان اور خطوط میں درج ہیں۔ احمدیوں اور مسلمان کے واضح اختلافات پر روشنی ڈالنے کے لئے مرزاغلام احمد کے نام نہاد انکشافات میں سے بعض کا حوالہ دینا ضروری ہے۔
(تحفہ گولڑویہ ص۹۶، خزائن ج۱۷ ص۲۵۴) میں وہ کہتے ہیں: 2318’’مبشراً برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد‘‘ میں، میں آنحضرت ﷺ کا شریک ہوں۔
ایک اور جگہ انہوں نے کہا ہے: ’’میں مسیح موعود ہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۳۹، خزائن ج۳ ص۱۲۲)
(معیار الاخیار ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۸) پر وہ کہتے ہیں: ’’میں مہدی ہوں اور کئی پیغمبروں سے برتر ہوں۔‘‘
سیالکوٹ کی تقریر میں (ص۳۳، خزائن ج۲۰ ص۲۲۸) پر وہ دعویٰ کرتے ہیں: ’’میں مسلمانوں کے لئے مسیح اور مہدی ہوں اور ہندوؤں کے لئے کرشن۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶) پر وہ لکھتے ہیں: ’’نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا ہوں۔‘‘
اسی کتاب میں (ص۹۹، خزائن ج۲۲ ص۱۰۲) پر وہ کہتے ہیں: ’’خدا نے مجھ سے کہا ہے کہ لولاک لما خلقت الافلاک (اگر تم پیدا نہ ہوتے تو میں آسمان اور زمین تخلیق نہ کرتا)‘‘
وہ پھر (حقیقت الوحی ص۸۲، خزائن ج۲۲ ص۸۵) پر کہتے ہیں: ’’خدا نے مجھ سے کہا ہے کہ وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین (خدا نے تمہیں زمین پر رحمت بناکر بھیجا ہے)‘‘
اسی کتاب کے (ص۱۰۷، خزائن ج۲۲ ص۱۱۰) پر وہ مزید کہتے ہیں: ’’خدا نے مجھ سے کہا انک لمن المرسلین(یقینا تم رسول ہو)‘‘
2319اسی طرح (تذکرہ ص۳۵۲ طبع۳) پر وہ مزید کہتے ہیں: ’’مجھے الہام ہوا ہے جس میں کہاگیا ہے یاایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً (اے لوگو! دیکھو میں تم سب کے لئے رسول ہوں)‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۷۹، خزائن ج۲۲ ص۱۸۵) پر انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ہے: ’’کفر کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اسلام پر ہی یقین نہ رکھے اور رسول پاک حضرت محمدؐ کو خداکا پیغمبر تصور نہ کرے۔ کفر کی ایک دوسری شکل یہ ہے کہ کوئی شخص مسیح موعود پر ایمان نہ لائے اور اس کی صداقت کا قطعی ثبوت مل جانے کے باوجود اسے جعل ساز قرار دے۔ حالانکہ خدا اور اس کا رسول اس کی حقانیت کی گواہی دے چکے ہیں اور جس کے متعلق سابق پیغمبروں کے مقدس صحیفوں میں بھی تذکرہ موجود ہے۔ چنانچہ جو خدا اور اس کے پیغمبر کا فرمان مسترد کرتا ہے وہ کافر ہے۔ غور کیا جائے تو دونوں قسم کے کفر ایک ہی زمرے میں آتے ہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۶۳، خزائن ج۲۲ ص۱۶۷) پر وہ کہتے ہیں: ’’جو شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں۔‘‘
مرزاغلام احمد مزید کہتے ہیں: ’’میرے ذریعے خدا نے اپنا چہرہ لوگوں کو دکھایا ہے۔ چنانچہ اے لوگوں جو رہنمائی کے طالب ہو اپنے تئیں میرے دروازے پر پہنچاؤ۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۲۸، خزائن ج۲۲ ص۱۳۱ ملخص)
مرزا نے (اشتہار معیار الاخیار، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۵) پر لکھا: ’’جو شخص پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا ورسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔‘‘
’’خدا نے مجھ سے کلام کیا ہے اس دور میں خدا کے خلاف حسد پچھلے سارے زمانوں سے زیادہ پھیل گیا ہے۔ کیونکہ متذکرہ رسول کی اہمیت اب بہت کم ہوگئی ہے۔ 2320اس لئے خدا نے مسیح موعود کے طور پر مجھے بھیجا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۶۳، خزائن ج۲۲ ص۱۶۷) پر وہ کہتے ہیں: ’’جو شخص مجھ پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں۔‘‘
انہوں نے (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۹۷) میں اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا ہے: ’’ہمارے سید وآقا کی پیش گوئی پوری ہے کہ آنے والا مسیح امتی بھی ہوگا اور نبی بھی ہوگا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۹۷) پر لکھا ہے کہ: ’’میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر اس سے انکار کر سکتا ہوں۔ میں اس پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گذر جاؤں۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین ص۴۳، خزائن ج۲۰ ص۴۵) پر لکھا ہے کہ: ’’خدا نے مجھ پر انکشاف کیا ہے کہ اے احمد ہم نے تمہیں نبی بنایا ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳) پر لکھا ہے کہ: ’’میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھوں میں میری زندگی ہے کہ اس نے خود مجھے بھیجا ہے اور اس نے خود مجھے نبی بنایا ہے۔‘‘
(تذکرہ ص۶۰۷، طبع سوم) پر لکھا ہے کہ: ’’خدا نے مجھ پر انکشاف کیاہے کہ ہر وہ شخص جس تک میرا پیغام پہنچے اور وہ مجھے قبول نہ کرے تو وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘
’’اب یہ خدا کی مرضی ہے کہ مسلمانوں میں سے جو مجھ سے دور رہیں انہیں تباہ کر دیا جائے گا۔ خواہ وہ بادشاہ ہوں یا رعایا۔ میں یہ بات اپنی طرف سے نہیں کہہ رہاہوں۔ بلکہ یہ وہ انکشاف ہے جو خدا نے مجھ سے کیا ہے۔‘‘
(فتاویٰ احمدیہ ج۱ ص۱۸) میں مرزاغلام احمد کہتے ہیں: ’’ان لوگوں کے پیچھے نماز مت پڑھو جو مجھ پر ایمان نہیں رکھتے۔‘‘
اس کی دوسری جلد کے ص۷ پر وہ لکھتے ہیں: ’’اپنی بیٹیاں ان لوگوں کے نکاح میں نہ دو جو مجھ پر ایمان نہیں رکھتے۔‘‘
2321(انوار خلافت ص۹۳) پر وہ لکھتے ہیں: ’’غیراحمدی تو حضرت مسیح موعود کے منکر ہوئے۔ اس لئے ان کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱) میں وہ کہتے ہیں: ’’تین نانیاں اور تین دادیاں آپ کی (مسیح علیہ السلام) زنا کار اور کسبی تھیں۔‘‘
(تذکرہ شہادتیں ص۶۴،۶۵، خزائن ج۲۰ ص۶۶،۶۷) پر مرزاغلام احمد کہتے ہیں: ’’وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خود اس مذہب اور سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا… اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا، ایک ہی پیشوا، میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں۔ سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۵۶، خزائن ج۱۷ ص۱۸۲) میں مرزاغلام احمد کہتے ہیں: ’’وقت آنے والا ہے۔ بلکہ آپہنچا ہے۔ جب یہ تحریک عالمگیر بن جائے گی اور اسلام اور احمدیت ایک دوسرے کے مترادف بن جائیں گے۔ یہ خدا کی طرف سے انکشاف ہے۔ جس کے لئے کوئی بھی چیز ناممکن نہیں۔‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۱۶، خزائن ج۱۷ ص۶۱) پر ہے: ’’صحیح بخاری، صحیح مسلم، بائبل، دانیال اور دوسرے پیغمبروں کی کتابوںمیں جہاں میرا ذکر کیا گیا ہے وہاں لفظ ’’پیغمبر‘‘ کا اطلاق مجھ پر ہوتا ہے۔‘‘
(دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳) پر وہ کہتے ہیں: ’’آج تم میں ایک ہے کہ اس حسینؓ سے بڑھ کر ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات ص۵۶۴، خزائن ج۵ ص ایضاً) میں وہ کہتے ہیں: ’’میں نے اپنے تئیں خدا کے طور پر دیکھا ہے اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں وہی ہوں اور میں نے آسمان کو تخلیق کیا ہے۔‘‘
(کلمتہ الفصل ص۱۱۰) میں ایک مقام پر وہ کہتے ہیں: 2322’’جو شخص موسیٰ علیہ السلام کو تو مانتا ہو۔ مگر عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتا یا عیسیٰ علیہ السلام کو مانتا ہو مگر محمد ﷺ کو نہیں مانتا اور یا جو محمد ﷺ کو مانتا ہے پر مسیح موعود کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔‘‘
مدعا علیہ اور مرزاغلام احمد دونوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ایک بالکل مختلف تصور پیش کیا ہے جو مسلمانوں کے مسلمہ عقائد کے یکسر منافی ہے اورقرآن پاک کی تعلیمات سے متصادم ہے۔ مرزاغلام احمد کہتے ہیں کہ یسوع مسیح کو صلیب پر چڑھایا گیا تھا۔ ان کی موت واقع نہیں ہوئی۔ وہ صلیب سے زندہ آئے اور کشمیر چلے گئے۔ جہاں ان کی طبعی موت واقع ہوگئی۔ مرزاغلام احمد کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوسرے مشن کی تکمیل یوں نہیں ہوگی کہ وہ شخصی طور پر دنیا میں آئیں گے۔ بلکہ ان کی روح ایک دوسرے شخص کے جسم میں حلول کر جائے گی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ دوسرا روپ مرزاغلام احمد خود ہیں۔ لیکن قرآن مجید میں اس بارے میں بالکل مختلف بات کہی گئی ہے۔
سورۂ الزخرف میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’اور جب مریم علیہا السلام کے بیٹے کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو لوگ ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا یہ ہمارے خداؤں سے بہتر ہے؟ وہ اعتراض کسی دلیل یا بحث کے لئے نہیں کرتے۔ بلکہ صرف شرارت سے ایسا کرتے ہیں۔ بلکہ وہ جھگڑالو ہیں۔ اس کی حیثیت ایک بندے سے زیادہ کچھ نہیں جس پر ہم نے اپنی رحمت نازل کی اور کھڑا کیا۔ بنی اسرائیل کے واسطے (نمونہ) اگر ہم چاہیں تو نکالیں۔ تم سے فرشتے جو زمین پر تمہاری جگہ بستے اور وہ نشان ہے اس گھڑی (قیامت) کا۔ سو اس میں شک نہ کرو اور میرا کہا مانو۔ یہ ایک سیدھی راہ ہے۔‘‘ (۴۳، ۵۷تا۶۱)
آل عمران میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’اے عیسیٰ علیہ السلام میں تیری عمر کو پورا کروں گا اور اٹھالوں گا اپنی طرف اور پاک کروں گا کافروں سے اور رکھوں گا اور تیرے تابعوں کو اوپر منکروں سے قیامت کے دن 2323تک پھر میری طرف تم کو پھر آنا ہے۔ پھر فیصلہ کروں گا تم میں اس بات میں تم جھگڑتے تھے۔‘‘
(۳،۵۵)
النساء میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’اور اس کے کہنے پر کہ ہم نے مارا مسیح عیسیٰ علیہ السلام مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اﷲ کا، اور نہ اس کو مارا ہے اور سولی پر چڑھایا۔ لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے، اور جو لوگ اس میں کئی باتیں نکالتے وہ اس جگہ شبہ میں پڑے ہیں۔ کچھ نہیں ان کو اس کی خبر، مگر اٹکل پر چلتے ہیں اور اس کو مارا نہیں یقین سے۔ بلکہ اس کو اٹھالیا اﷲ نے اپنی طرف، اور ہے اﷲ زبردست حکمت والا۔‘‘ (۴،۱۵۷،۱۵۸)
متذکرہ بالا سے یہ بات واضح ہے کہ احمدیوں اور مسلمانوں میں محض فلسفیانہ اختلافات ہی نہیں۔ اے۔آئی۔آر ۱۹۲۳ء مدراس ۱۷۱ بھی میرے سامنے فریقین کے فاضل وکلاء نے پیش کی ہے۔ جس میں احمدیوں اور غیراحمدیوں کے اختلافات سے بحث کی گئی ہے۔ لیگل اتھارٹی کے پورے احترام کے ساتھ میں یہ کہنے کی جرأت کرتا ہوں کہ احمدیوں اور غیراحمدیوں میں نہ صرف یہ کہ بنیادی، نظریاتی اختلافات موجود ہیں۔ بلکہ ان میں عقیدے اور اعلان نبوت کے بارے میں بھی اختلافات موجود ہیں۔ نیز اﷲتعالیٰ کی طرف سے وحی کا نزول، قرآن پاک کی آیات کو مسخ کرنامیری رائے میں کسی شخص کو بھی مرتد قرار دینے کے لئے کافی ہیں۔
مدعا علیہ اور غلام احمد کے عقائد کا جائزہ لینے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر دوسروں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس مقصد کے لئے ایک طرف دشنام طرازی کا سہارا لیا ہے تو دوسری طرف بڑی فنکاری سے ناخواندہ اور کم علم لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ ہزلارڈ شپ مسٹر جسٹس دلال نے کالی چرن شرما بنام شہنشاہ کے مقدمہ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے: ’’اس مقدمہ میں میں معاملات کو ایک ہائیکورٹ کے ایک فاضل جج کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے ایک قصبے کے ایک عام شہری کی حیثیت سے بھی 2324دیکھتا ہوں۔ میں خود کو ایک مسلمان کی جگہ رکھتا ہوں جو اپنے پیغمبر کی عزت وآبرو کا احترام کرتا ہے اور پھر میں سوچتا ہوں کہ میرے جذبات اس ہندو کے بارے میں کیا ہوں گے جو اس پیغمبر کا مذاق اڑاتا ہے اور وہ یہ کام اس لئے نہیں کرتا کہ وہ سنکی ہوگیا ہے بلکہ وہ ایک ایسے پروپیگنڈے سے متأثر ہے جو ان لوگوں نے شروع کیا ہے جو مسلمان نہیں۔ ایسی صورت میں میں ایک عام آدمی کی حیثیت سے اسی نفرت کا مظاہرہ کروںگا جو مصنف کے طبقے سے مخصوص ہے۔ (اے۔آئی۔آر ۱۹۲۷ئ، اے۔ایل۔ایل ۶۵۴)‘‘
جیسا کہ میں نے پہلے وضاحت کی ہے۔ مدعا علیہ نے خود کو نعوذ باﷲ پیغمبران کرام کی صف میں کھڑا کر دیا ہے اور اس کے ممدوح مرزاغلام احمد بھی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ پیغمبر، نبی اور رسول ہیں۔ مزید برآں مرزاغلام احمد نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دادیوں اور نانیوں کے خلاف غیر شائستہ زبان استعمال کی ہے اور اسی پر بس نہیں بلکہ آنحضرت ﷺ اور ان کے صحابہؓ کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہے ہیں۔ اس سلسلے میں مرزاغلام احمد کے متذکرہ بالا نام نہاد انکشافات کے حوالے کے علاوہ ’’ملفوظات احمدیہ‘‘ میں ان کی تحریروں کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ رسول پاک کی اس سے زیادہ اور کوئی توہین نہیں ہوسکتی کہ مرزاغلام احمد جیسا شخص یا مدعا علیہ یا کوئی اور خود کو پیغمبران کرام کی صف میں کھڑا کرنے کی جسارت کرے، کوئی مسلمان کسی شخص کی طرف سے ایسا دعویٰ برداشت نہیں کر سکتا اور نہ قرآن وحدیث سے اس طرح کے دعویٰ کی تائید لائی جاسکتی ہے۔
مرزاغلام احمد نے دانستہ طور پر قرآن پاک کی آیات خود سے منسوب کی ہیں اور انہیں خود ساختہ معنی پہنائے تاکہ وہ دوسروں کو گمراہ کر سکیں اور یہ بے خبر اور جاہل لوگوں کو گمراہ کرنے کی ایسی سنگین غلط بیانی ہے جو جان بوجھ کر روارکھی گئی اور جو اسلام کی نظر میں گناہ کبیرہ ہے۔
احمدیوں نے ۱۷؍جولائی ۱۹۲۲ء کے الفضل میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ: 2325’’کوئی شخص بھی کسی منصب جلیلہ تک پہنچ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نعوذ باﷲ محمد رسول اﷲ سے بھی آگے نکل سکتا ہے۔‘‘ ۱۲؍جون ۱۹۴۵ء کے الفضل میں احمدیوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے جس نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی اس کا مرتبہ وہی ہوگیا جو صحابہ رسول کا تھا۔‘‘
(ملفوظات احمدیہ ج۱ ص۴۰۰) میں ایک جگہ یہ کہاگیا ہے کہ: ’’تمہارے درمیان ایک زندہ علی موجود ہے اور تم اسے چھوڑ کر مردہ علی کو تلاش کررہے ہو۔‘‘ اس کے علاوہ مرزاغلام احمد نے اپنے پیروؤں کو یہ حکم دیا ہے کہ اپنی بیٹیوں کو غیراحمدیوں کے نکاح میں نہ دیں کیونکہ یہ لوگ کافر ہیں۔
شیخ الاسلام حضرت تقی الدین نے کہا ہے کہ: ’’جو خدا سے ڈرتا ہے وہ کلمہ پر ایمان رکھنے والے کسی شخص کو کافر قرار نہیں دے سکتا۔ ایسا شخص ہمیشہ کے لئے مردود ہوگیا اور اسے کسی مسلمان عورت سے شادی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘‘ (الطبقات الکبریٰ)
پیغمبران کرام کے بارے میں غیرشائستہ زبان کا استعمال ہی کسی کے ارتداد کے رجحان کی غمازی کرنے کے لئے کافی ہے۔ (۱۰۶ پی۔آر ۱۸۹۱ئ) مسلم لاء کی تشکیل کے ابتدائی دور میں ارتداد بہت بڑا گناہ تھا۔ جس کی سزاموت ہوتی تھی۔
(طحطاوی جلد دوم ص۸۴) پر ہے: ’’اگر میاں بیوی میں سے ایک بھی ارتداد کا مرتکب ہو تو ان کی شادی جو اسلامی شادی تھی، فوری طور پر فسخ ہو جائے گی اور انہیں لازمی طور پر ایک دوسرے سے الگ ہونا پڑے گا۔ مگر مرزاغلام احمد جیسا کہ میں قبل ازیں بتاچکا ہوں۔ اسلام کی تعلیمات کے علی الرغم اپنے پیروؤں کو یہ حکم دیتے ہیں کہ اپنی بیٹیاں غیراحمدیوں کے نکاح میں نہ دیں کیونکہ وہ کافر ہیں۔