(انگلستان آزادی دینے کے لئے تیار نہ تھا)
جناب یحییٰ بختیار: انگلستان تو کبھی بھی تیار نہیں تھا، جہاں تک میرا خیال ہے، جنگ ختم ہوگئی، اس کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: جب عقل مندوں نے یہ سونگھا کہ کوشش کی جائے تو ہم آزاد ہوسکتے ہیں۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، جنگ ختم ہوگئی، اس کے بعد کی بات ہے، یہ اس وقت کے زمانے میں تو کوئی سوال ہی نہیں تھا۔
مرزا ناصر احمد: سائمن کمیشن یہ وہ ۔۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: نہیں، نہیں، وہ تو ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یعنی آزادی کی طرف قدم اُٹھ رہا تھا۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، وہ تو مراعات کہہ لیں ۔۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: بہرحال میں تو اپنا عندیہ بتا رہا ہوں۔
جناب یحییٰ بختیار: Concession کہہ لیں آپ۔
مرزا ناصر احمد: ایک زمانہ ایسا آیا ۔۔۔کوئی زمانہ لے لیں آپ۔۔۔ جب تمام مسلمانانِ ہند کے حقوق کی حفاظت کا سوال تھا، اس وقت مسلمانانِ ہند دو گروہوں میں بٹ گئے، ایک کا خیال یہ تھا کہ سارے ہندوستان کے مسلمان اکٹھے رہیں تو ان کے حقوق کی حفاظت زیادہ اچھی ہوسکتی ہے ۔۔۔میں صرف Out-line لے رہا ہوں۔۔۔ اور ایک کا خیال بعد میں یہ ہوا۔ ہاں! اس زمانے میں ہمارے قائداعظم محمد علی صاحب جناح کا بھی یہی خیال تھا کہ سارے مسلمان اگر اکٹھے رہیں تو ان کے حقوق کی حفاظت زیادہ اچھی طرح ہوسکتی ہے۔ چنانچہ یہ رئیس احمد جعفری نے لکھا ہے، ان کی کتاب میں سے لیا ہے، ۲۰۰ اور ۲۰۱ صفحے سے، قائداعظم کے متعلق انہوں نے لکھا ہے کہ:1256 ’’میں حیران ہوں کہ میری ملّی خودداری اور وقار کو کیا ہوگیا تھا، میں کانگریس سے صلح ومفاہمت کی بھیک مانگا کرتا تھا، میں نے اس مسئلے کے حل کے لئے اتنی مسلسل اور غیرمنقطع مساعی کیں کہ ایک انگریز اخبار نے لکھا: ’’مسٹر جناح ہندومسلم اِتحاد کے مسئلے سے کبھی نہیں تھکتے۔‘‘
لیکن گول میز کانفرنس (جس کا ابھی میں نے اُوپر ذِکر کیا) گول میز کانفرنس کے زمانے میں مجھے اپنی زندگی میں سب سے بڑا صدمہ پہنچا۔ (وہی لے لیں وقت)۔ جیسے ہی خطرے کے آثار نمایاں ہوئے، ہندوئیت دِل ودِماغ کے اِعتبار سے اس طرح نمایاں ہوئی کہ اِتحاد کا اِمکان ہی ختم ہوگیا۔ اب میں مایوس ہوچکا تھا۔ مسلمان بے سہارا اور ڈانواںڈول ہو رہے تھے۔ کبھی حکومت کے یارانِ وفادار کی رہنمائی کے لئے میدان میں آموجود ہوتے تھے، کبھی کانگریس کی نیازمندانہ (خصوصی ان کی) قیادت کا فرض ادا کرنے لگتے تھے۔ مجھے اب ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ہندوستان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا اور نہ ہندو ذہنیت میں کوئی خوشگوار تبدیلی کرسکتا ہوں اور نہ مسلمانوں کی آنکھیں کھول سکتا ہوں۔ آخر میں نے لندن ہی میں بودوباش کا فیصلہ کرلیا۔ پھر بھی ہندوستان سے میں نے تعلق قائم رکھا، اور چار سال کے قیام کے بعد میں نے دیکھا کہ مسلمان خطرے میں گھرے ہوئے ہیں، آخر میں نے رختِ سفر باندھا اور ہندوستان پہنچ گیا اور یہاں آنے کے بعد ۱۹۳۵ء میں، میں نے صوبائی اِنتخاب کے سلسلے میں صدر کانگریس سے مفاہمت ومصالحت کے لئے گفت وشنید کی اور ایک فارمولا ہم دونوں نے مرتب کیا، لیکن ہندوؤں نے اسے منظور نہیں کیا اور معاملہ ختم ہوگیا۔‘‘
تو اس وقت انہوں نے آپ ہی لکھا ہے کہ مفاہمت ومصالحت کی کوشش یہ کر رہے تھے۔ اس لئے کر رہے تھے کہ ان کے دِماغ میں ۔۔۔درد تھا مسلمان کا، ان کے دلوں میں، ان بزرگوں 1257کے، اور ان کی کوشش، ان کا خیال یہ تھا کہ سارے مسلمان، دس کروڑ جو اس وقت تھے۔۔۔ اب بڑھ گئے۔۔۔ اگر یہ اکٹھے رہیں ہندوستان میں، اور اپنے حقوق، دستوری طور پر Constitutionally (آئینی طور پر) منواسکیں تو بہتر ہے۔ لیکن ہندوانہ ذہنیت نے اس چیز کو قبول نہیں کیا اور انہوں نے ایسا اِظہار کیا گویا وہ مسلمانوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں، انہیں اپنی غلامی میں رکھنا چاہتے تھے، اس وقت دو حصوں میں ہوگئے مسلمان، ایک کے لئے پاکستان میں آنا ممکن ہی نہیں تھا، عملاً وہ رہ رہے ہیں وہاں، اس وقت کئی کروڑ مسلمان وہاں ہندوستان میں بس رہے ہیں، اور ایک کے لئے ممکن ہوگیا۔ بعد کے حالات ایسے ہوئے۔ یہ جو کوشش تھی، جس کی طرف جناح صاحب نے اِشارہ کیا، یہ جماعت احمدیہ کی تھی ایک وقت میں۔ اگر سارے مسلمانانِ ہند اکٹھے رہیں تو وہ اپنے حقوق کی اچھی طرح حفاظت کرسکتے ہیں۔ جب پاکستان کے بننے کے آثار پیدا ہوئے تو وہ لوگ جو دُوسرا نظریہ جو تھا، وہ رکھتے تھے کہ سارے اکٹھے رہیں، یا وہ لوگ جن کو حکومت کانگریس نے خریدا ہوگا، کہا کچھ نہیں جاسکتا، میری طبیعت طبعاً حسنِ ظن کی طرف پھرتی ہے۔ بہرحال، انہوں نے اپنے لئے طاقت کا ایک چھوٹا سا سہارا ۔۔۔جماعت تو بہت چھوٹی سی ہے، کمزور یہ کیا کہ۔۔۔ یہ پروپیگنڈا شروع کردیا، جماعت میں کہ ’’تم پاکستان کیوں جانا چاہتے ہو؟ تمہارے ساتھ تو یہ ہمیشہ سختی کرتے ہیں، افغانستان میں کیا ہوا؟ فلاں جگہ کیا ہوا؟‘‘ اس وقت خلیفہ ثانی نے علی الاعلان یہ کہا کہ اس وقت سوال یہ نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ کے مفاد کس جا ہیں؟ اس وقت سوال یہ ہے کہ مسلمانانِ ہند جو ہیں، وہ عزت کی زندگی کس طرح گزار سکتے ہیں؟ ان کے حقوق کی کس طرح حفاظت کی جاسکتی ہے؟ اگر بفرضِ محال جماعت احمدیہ کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے، پاکستان بننے کے بعد، جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو، تب بھی میں یہ کہوں گا کہ پاکستان بننا چاہئے اور ہم ان کے ساتھ جائیں گے۔ کہیں انہوں نے یہ پروپیگنڈا کیا ۔۔۔۔۔۔۔ میں خود شاہد ہوں، میں نے وہ ۱۹۴۷ء کی وہ جو جدوجہد تھی، مسلم لیگ کے ساتھ بیٹھ کے، ان کی جو پارٹی تھی، شملہ میں بھی وہ جو ہورہا تھا، ہاں، یہی جو اپنے بیٹھا ہوا تھا، کمیشن Partition کا، تو 1258شملہ میں بھی میں ساتھ رہا، ساتھ بیٹھے، ہم نے ساتھ کوششیں کیں، اس وقت نظر آرہا تھا کہ یہ شرارت کر رہے ہیں، ہندو اس وقت بھی۔ ’’ہم سے‘‘ میری مراد ہے وہ ساری پارٹی، جو وہاں تھا۔ ہم نے ۔۔۔ تو یہ پہلے وقت میں پتا لگ گیا تھا، اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔۔۔ یا ان کے بداِرادے ہیں، وعدہ یہ کر رہے تھے، ریڈکلف صاحب، جنہوں نے باقاعدہ اِشارۃً یہ وعدہ کیا تھا کہ سارا گورداسپور اور فیروزپور کے اکثر حصے جو ہیں، وہ پاکستان میں جائیں گے، لیکن وہاں ہمیں پتا لگا کہ یہ دھوکابازی کر رہے ہیں اور وہاں جاکے اِطلاع دی ۔۔۔ تو بالکل یک جان ہوکر اس مجاہدے میں، اس Fight (مقابلے) میں، جو جنگ ہو رہی تھی، اس کے اندر شامل ہوئی جماعت اور اَب جب میں سوچتا ہوں، جن لوگوں نے ہماری جیسی قربانیاں دیں، قیامِ پاکستان کے لئے، پاکستان میں جو آنے والے ہیں خاندان، انہوں نے ۔۔۔ اور میں بیچ میں رہا ہوں جنگ کے۔۔۔ میرے اندازے کے مطابق پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک ہماری عصمت قربان ہوئی ہے پاکستان کے لئے اور جو قتل ہوئے ہیں ان کا تو شمار ہی نہیں۔ مسلمان بچوں کو سکھوں نے اپنے نیزوں کے اُوپر چھیدا ہے، اُچھال کے، میں گواہ ہوں ان کا۔ میں سب سے آخر میں یہاں آیا ہوں، اور بڑی قربانی دی ہے، لیکن جو پیچھے رہ گئے، انہوں نے بھی کم قربانی نہیں دی۔ آج تک وہ قربانی دے رہے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم یہ سوچیں، سر جوڑ کر، کہ جو ہندوستان میں مسلمان رہ گیا، ان کے حقوق کے لئے باہر سے ہم جو کرسکتے ہیں، ہمارے حالات بدل گئے ہیں، ان کے حقوق کے لئے کوئی پروگرام بنائیں، ان کے حوصلے بڑھانے کے لئے کوئی کام کریں۔ بہت سے اور طریقے ہیں، صرف حکومت کے اندر رہ کے ہی نہیں، باہر سے بھی ہم بہت ساری خدمت ان کی کرسکتے ہیں۔ جنہوں نے ہماری جیسی، ہم سے بڑھ کے نہیں، ہماری جیسی قربانیاں دی ہیں، قیامِ پاکستان میں، اور وہ پاکستان نہیں آسکے، وہ وہاں پھنس گئے، اس کی بجائے یہ اب نظر آگیا ہمیں کہ ہمارا مشرقی پاکستان بھی علیحدہ ہوگیا۔ تو میرے نزدیک تو کوئی اِعتراض نہیں ہے، اس پس منظر میں، اس واسطے جو حوالے ہیں، وہ میں اچھی طرح وہ کردیتا ہوں۔