ان تعریفوں کا اختلاف
اب دیکھیں کہ حدیث نمبر۱… جبرائیل علیہ السلام کی روایت میں ایمان واسلام جداجدا بیان کئے گئے۔ نمبر۲… نجد والے سادہ شخص کے سامنے آپ نے اسلام کی تعریف میں حج کا بیان ہی نہیں کیا اور حدیث جبرائیل علیہ السلام کے مطابق ایمان کے ارکان کا ذکر ہی نہیں ہے۔ جن کو مانے بغیر کوئی مسلمان مسلمان نہیں ہوسکتا۔ نمبر۳… روایت میں تو ہماری طرح نماز پڑھنے، قبلہ رو ہونے اور ہمارے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے کا ذکر ہے۔ باقی ان باتوں کا جو پہلی کی دو حدیثوں میں بیان ہوئیں کوئی ذکر ہی نہیں۔ حدیث نمبر۵… میں حکم ہے کہ سلام کہنے والے کو ہم غیرمسلم نہ کہیں۔ گویا سلام کرنا ہی اسلام اور ایمان کے لئے کافی ہے۔ نمبر۶… روایت میں آپ نے بار بار حضرت اسامہؓ سے فرمایا کہ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ 2371کہنے کے بعد تم نے اس کو قتل کر دیا۔ کیا تم نے اس کا دل چیر کے دیکھا تھا؟ اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ صرف ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کہنے سے مسلمان ہوگیا تھا۔ ابھی تک اس نے اور کوئی عمل نہیں کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ مسلمان ہونے کے لئے یہی کلمہ کافی ہے۔ روایت نمبر۷… میں صرف ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کہنے ہی کو سبب دخول جنت فرمایا گیا ہے۔
----------
[At this stage Dr. Mrs Ashraf Khatoon Abbasi vacated the Chair which was occupied by Mr. Chairman (Sahibzada Farooq Ali).]
(اس موقع پر ڈاکٹر مسز اشرف خاتون عباسی نے کرسی صدارت چھوڑ دی جسے جناب چیئرمین (صاحبزادہ فاروق علی) نے سنبھال لیا)
مولانا عبدالحکیم: بمطابق روایت نمبر۹ اور نمبر۱۰ میں حضرت صدیقؓ نے مدعیان نبوت سے لڑائی کی اور منکرین زکوٰۃ سے بھی۔ جس کا معنی یہ ہے کہ ان دو جرموں کی وجہ سے وہ مسلمان نہ رہے تھے۔
مسیلمہ کذاب اور دوسرے مدعیان نبوت کی بات تو صاف ہے لیکن جب حضرت صدیقؓ نے منکرین زکوٰۃ سے جہاد کا اظہار فرمایا۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ وہ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کہتے ہیں۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ ’’امرت ان قاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اﷲ‘‘ (کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں، جب تک وہ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ نہ کہہ لیں) مطلب یہ ہے کہ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کہنے سے انہوں نے اپنے اموال اور جانیں بچا لیں۔ حضرت صدیقؓ نے حضرت عمرؓ سے نہ مناظرہ کیا، نہ دلیل بازی، بلکہ فرمایا جو ایک تسمہ بھی زکوٰۃ کا حضور ﷺ کو دیتا تھا اور مجھے نہ دے۔ میں اس سے لڑوں گا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ جو بھی زکوٰۃ وصلوٰۃ میں فرق کرے گا میں اس سے لڑوں گا۔ (اﷲ اکبر) کیا باطن تھا۔ کیا صفائے قلب تھی؟ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے ابوبکرؓ کا دل حق کے لئے کھول دیا ہے۔ پھر بالاتفاق جہاد شروع ہوا۔