اکھنڈ بھارت
ہندو اور قادیانی دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت کا احساس
سیاسیات کے تعلق سے قادیانیوں اور انگریزوں میں تو چولی دامن کا ساتھ تھا ہی، لیکن جب جدوجہد آزادی کے نتیجہ میں اور بین الاقوامی سیاسیات کی مدوجزر سے ہندوستان پر برطانوی استعمار کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تو مرزامحمود نے جو اس وقت مرزاغلام احمد کے خلیفہ ثانی بن چکے تھے۔ کروٹ بدلی اور کانگرس کے ہمنوا بن گئے۔ ادھر ہندوسیاست اور ذہنیت بھی قادیانی تحریک کو سیاسی 2070اعتبار سے مفید مطلب پاکر اور مسلمانوں کے اندر اس کی ففتھ کالمسٹ حیثیت کو سمجھ کر اس کی حمایت اور وکالت پر اتر آئی۔ پنڈت جواہرلال نہرو نے جو اپنے آپ کو برملا سوشلسٹ اور دہریہ کہتے تھے۔ ایک ایسی جماعت کی تائید کا بیڑا اٹھایا جو اپنے کو خالص مسلمان مذہبی جماعت کہنے پر مصر تھی۔ نہرو جیسے زیرک انسان سے قادیانیوں کے درپردہ یہ سیاسی عزائم مخفی نہ رہ سکے اور انہوں نے اپنی دہریت آبی کے باوجود ماڈرن ریویو کلکتہ میں مسلمان اور احمد ازم کے عنوان سے لگاتار تین مضمون لکھے اور ڈاکٹر اقبال مرحوم سے بحث تک نوبت آئی۔ یہ بحثیں رسالوں اور اخباروں میں شائع ہوچکی ہیں۔ یہاں ان کے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ہندو اور قادیانی دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت کا احساس
الغرض اقبال نے انہیں سمجھایا کہ یہ لوگ اپنے برطانوی استعماری عزائم اور منصوبوں کی بناء پر نہ مسلمانوں کے مفید مطلب ہوسکتے ہیں نہ آپ کے۔ تو تب انہوں نے خاموشی اختیار کی اور جب نہرو پہلی مرتبہ انڈین نیشنل کانگریس کے لیڈر کی حیثیت سے لندن گئے تو واپسی پر انہوں نے یہ تأثر ظاہر کیا کہ جب تک اس ملک میں قادیانی فعال ہیں۔ انگریز کے خلاف جنگ آزادی کا کامیاب ہونا مشکل ہے۔ بہرحال جب تک قادیانیت کا یہ استعماری پہلو پنڈت جواہر لال کی سمجھ میں نہیں آیا۔ مسلمانوں میں مستقل پھوٹ ڈالنے کے لئے مطلوبہ صلاحیت پر پورے اترنے کے لئے ہندوؤں کی نگاہ انتخاب مسلمانوں میں سے مرزائیوں ہی پر رہی اور آج بھی قادیان کے رشتے اور اکھنڈ بھارت کے عقیدہ سے وہ انہیں جاسوس اور تخریبی سرگرمیوں کے لئے آلہ کار بنائے ہوئے ہیں۔ بہرحال جب قادیانی اور ہندوؤں دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ہوا اور آقائے برطانیہ کا بسترہ گول ہوتا ہوا محسوس ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے قادیان ہندو سرگرمیوں کا مرکز بن گیا اور بقول قادیانی امت کے لاہوری ترجمان پیغام صلح ۳؍جون ۱۹۳۹ء جب ۲۹؍مئی ۱۹۳۶ء کو پنڈت جواہر لال نہرو لاہور آئے تو قادیانی امت نے اپنے خلیفہ مرزابشیرالدین محمود کے زیرہدایت اور چوہدری ظفر اﷲ کے بھائی چوہدری اسد اﷲ خان ممبر پنجاب 2071کونسل کے زیرقیادت ان کا پرجوش استقبال کیا اور اس کے بعد کانگریس قادیانی گٹھ جوڑ نے مستقل حیثیت اختیار کر لی۔
قادیان کو ارض حرم اور مکہ معظمہ کی چھاتیوں کے دودھ کو خشک بنا کر اور مسلمانوں کو تکفیر کے چھرے سے ذبح کرنے کی خوشی ہندوؤں سے بڑھ کر اور کسے ہوسکتی تھی اور جس طرح یہود نے بیت المقدس سے منہ موڑ کر سماویہ کو قبلہ بنایا۔ اسی طرح قادیانیوں نے مکہ اور مدینہ سے مسلمانوں کا رخ قادیان کی طرف موڑنا چاہا تو اس مسجد ضرار پر ہندو لیڈروں نے جی بھر کر انہیں داد دی۔ چنانچہ ڈاکٹر شنکر داس مشہور ہندو لیڈر کا بیان اس کے لئے کافی ہے۔ انہوں نے بندے ماترم میں لکھا: ’’ہندوستانی قوم پرستوں کو اگر کوئی امید کی شعاع دکھائی دیتی ہے تو وہ احمدیت کی تحریک ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان جس قدر احمدیت کی طرف راغب ہوں گے۔ اسی طرح قادیان کو مکہ تصور کرنے لگیں گے۔ مسلمانوں میں اگر عربی تہذیب اور پان اسلامزم کا خاتمہ کر سکتی ہے تو وہ یہی احمدی تحریک ہے جس طرح ایک ہندو کے مسلمان بن جانے پر اس کی شردھا (عقیدت) رام کرشن گیتا اور رامائن سے اٹھ کر حضرت محمدﷺ قرآن مجید اور عرب کی بھومی (ارض حرم) پر منتقل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی مسلمان احمدی بن جاتا ہے تو اس کا زاویہ نگاہ بھی بدل جاتا ہے۔ حضرت محمدﷺ میں اس کی عقیدت کم ہوتی چلی جاتی ہے اور جہاں پہلے اس کی خلافت عرب میں تھی اب وہ قادیان میں آجاتی ہے۔ ایک احمدی خواہ وہ دنیا کے کسی گوشہ میں بھی ہو روحانی شکتی حاصل کرنے کے لئے وہ اپنا منہ قادیان کی طرف کرتا ہے۔ پس کانگریس اور ہندو مسلمانوں سے کم ازکم جو کچھ چاہتی ہے کہ اس ملک کا مسلمان اگر ہر دوار نہیں تو قادیان کی جاترا کرے۔‘‘
(گاندھی جی کا اخبار بندے ماترم ۲۲؍اپریل ۱۹۳۲ء بحوالہ قادیانی مذہب)
2072اخبار پیغام صلح لاہور ج۲ ص۶۹، مورخہ ۲۱؍اپریل ۱۹۴۵ء کے ان الفاظ سے مزید وضاحت ہوسکتی ہے کہ: ’’ہندو اخبارات اور پولیٹیکل لیڈروں کے یہ خیالات ہندوستان کے مسلمانوں کو وضاحت سے بتارہے ہیں کہ گذشتہ دنوں قادیانی ہٹلر (مرزابشیرالدین محمود) اور کانگریس کے جواہر (جواہر لال نہرو) میں جو چھینا چھٹوں (سرگوشیاں) ہو رہی تھیں وہ اس سمجھوتہ کے بناء پر تھی کہ محمود (خلیفہ قادیان) ،مسلمانوں کی اس قوت کو توڑنے کے لئے کیا کرے گا اور کانگریس اس کے معاوضے میں کیا دے گی۔‘‘