ایمان وکفر کی نشانیاں
بات یہ ہے کہ جو کچھ دس روایات میں بیان کیاگیا ہے، یہ سب نشانیاں ہیں۔ چونکہ دل سے ماننا یا نہ ماننا یہ دل کی باتیں ہیں۔ اس لئے قضاء وشریعت میں اس کی جگہ نشانیوں پر حکم لگایا جائے گا۔ اس لئے اگر آپ کسی شخص میں ایمان کی علامت دیکھیں تو اس کو مسلمان کہیں گے اور 2375اگر کفر کی نشانی دیکھیں تو اس کو غیرمسلم تصور کریں گے۔
۱… ایک شخص نے اگر کہا السلام علیکم! آپ سمجھیں گے کہ ہمارے دین کو سچا جاننے اور ماننے والا ہے۔ آپ کو حق نہیں کہ اس کو کہیں تو مومن نہیں یا کافر ہے۔ مگر یہی شخص تھوڑی دیر کے بعد باتوں باتوں میں قیامت کا انکار کر دے تو اب اس میں کفر کی نشانی پائی گئی۔ اس لئے اب اس کو کافر کہیں گے۔
۲… اسی طرح ایک شخص قبلہ رخ ہوکر نماز پڑھ رہا ہے۔ یہ تصدیق دین کی نشانی ہے۔ اب اس کو مسلمان ہی سمجھیں گے۔ اگر وہی شخص تھوڑی دیر کے بعد کہے کہ زنا حلال ہے تو پھر ہم اس کو کفر اور جھٹلانے کی نشانی ظاہر ہونے کی وجہ سے کافر کہیں گے۔
۳… اگر ایک گاؤں سے صبح کی آذان کی آواز آئی، کون بے وقوف ہوگا جو ان کو مسلمان نہ سمجھے گا۔ کیونکہ ان میں تصدیق کی نشانی پائی گئی ہے۔ لیکن اگر وہ تھوڑی دیر کے بعد کہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کسی کو نبوت مل سکتی ہے۔ اب یہ تکذیب اور جھٹلانے کی نشانی ظاہر ہوگئی۔ اب ان کو کافر کہیں گے۔
۴… اہل عرب اﷲتعالیٰ کو خالق سمٰوات وارض مانتے تھے۔ مگر وہ اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے ’’ربٹیڑے‘‘ بھی مانتے تھے۔ یعنی چھوٹے چھوٹے خدا، اس لئے اس وقت ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ اس بات کی نشانی تھی کہ اس نے دین اسلام قبول کر لیا ہے۔ لیکن اگر ایسا شخص اس کے بعد سود، زنا کو حلال کہے اور نماز کو فرض نہ سمجھے تو اب اس کو کافر کہیں گے۔ کیونکہ اب اس میں تکذیب کی نشانی ثابت ہوگئی۔
۵… فرض کریں ایک شخص حدیث جبرائیل علیہ السلام کے مطابق سب باتوں کو دل سے ماننے کا اقرار کرتا ہے۔ مگر پھر وہ قرآن پاک کو (العیاذ باﷲ) گندے نالے میں سب کے سامنے پھینک دیتا ہے تو اب یہ انکار اور تکذیب کی نشانی ظاہر ہوگئی۔ اب اس کو باقی باتیں کفر سے نہیں بچا سکتیں۔
2376۶… مسیلمہ کذاب اور دوسرے مدعیان نبوت کی تکذیب میں تو کسی نے گفتگو ہی نہیں کی اور جہاد وقتال کے سوا ان کا کوئی علاج ہی نہیں سمجھا۔
۷… منکرین زکوٰۃ بظاہر ایک رکن اسلام پر عمل نہ کرنا چاہتے تھے تو حضرت عمرؓ کو ان سے جنگ کرنے میں تأمل ہوا۔ مگر حضرت صدیقؓ کا ارشاد ان کا ہادی ثابت ہوا کہ جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا میں اس سے لڑوں گا۔ مطلب یہ تھا کہ یہ صرف عملی کوتاہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس اسلامی حق کو معاف کرا کر اس کی فرضیت ہی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور یہ اسلامی احکام کی تکذیب ہے۔ سبحان اﷲ العظیم! کیا اﷲ والے تھے کہ بغیر بحث کے چند جملوں میں حضرت عمرؓ کو شرح صدر ہوگیا۔