• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ایک اللہ کے ولی کی کرامات

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کو اپنی کرامات پر بڑا ناز ہے ۔ انہوں نے اپنی کتاب حقیقت الوحی میں اپنے تین سو کے قریب نشان بیان کئے ہیں ۔ اب مرزا صاحب کو تو نبوت سمیت کئی دعوے تھے لیکن ہم یہاں ایک اللہ کے ولی سوہنا سائیں ؒ کی چند کرامات ذکر کرتے ہیں ۔ اس اللہ کے ولی کی کرامات دیکھیں اور پھر مرزا صاحب کی کرامات بھی دیکھ لیجئے گا خود ہی فرق معلوم ہو جائے گا ۔
کرامت کی حقیقت
کرامات دو قسم کی ہیں۔ (۱) حسی۔ (۲) معنوی۔

عوام الناس تو صرف حسی کرامت کو ہی کرامت سمجھتے ہیں، مثلاً کسی کے دل کی بات بتا دینا، پانی پر چلنا، فوراً دعا کا قبول ہو جانا وغیرہ۔ لیکن کرامت معنوی جو خواص اہل اللہ کے یہاں معتبر ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو شریعت مطہرہ کی پابندی نصیب کرے، نیک اخلاق کی توفیق بخشے، فرائض، واجبات اور سنتوں پر عمل کرے، برے اخلاق مثلاً دھوکہ دہی، حسد، کینہ اور ہر بری خصلت سے اس کا دل پاک و صاف رکھے۔ (الیواقیت والجواہر صفحہ ۱۰۵ جلد دوم مطبوعہ مصر تلخیصا) خارق عادت و کرامت کے متعلق یہ تھی حضرت امام شعرانی قدس سرہ کی تحقیق۔ اسی موضوع پر سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے قائد و روح رواں قدوۃ السالکین حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: خوارق (خلاف عادت کسی بات کا ظاہر ہونا) نہ تو ولایت کے لئے شرط ہے، نہ رکن، تاہم اولیاء اللہ سے کرامات کا ظاہر ہونا مشہور و معروف ہے، لیکن بکثرت کرامت کا ظاہر ہونا کسی کی افضلیت پر دلالت نہیں کرتا، افضلیت کا مدار اللہ تعالیٰ کے حضور قرب درجات پر ہے۔ (مکتوبات حضرت امام ربانی قدس سرہ مکتوب نمبر۱۰۷ دفتر اول) گو حضور سوہنا سائیں قدس سرہ حسی اور معنوی دونوں قسم کی کرامات کے حسین امتزاج تھے، لیکن چونکہ آپ رسمی پیری مریدی سے ہٹ کر قرآن و سنت اور ماسلف اولیاء اللہ علیہم الرحمۃ کے نقش قدم پر چل کر زندگی بسر کرنے کو ہی ضروری سمجھتے تھے، اس لئے آپ کے نزدیک کشف وکرامت برحق ہوتے ہوئے بھی کوئی اہم اور ضروری نہیں تھے۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ہمیشہ مخدوم کا اثر خادموں میں بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ کے مریدین و متعلقین بھی کبھی کشف و کرامات کے درپے نہ ہوئے اور نہ ہی کرامات جمع کرنے کا کوئی اہتمام کیا۔ حالانکہ یکے بعد دیگرے اتنی کثرت سے آپ کی کرامات ظاہر ہوتی رہیں کہ اگر ان کا دسواں حصہ بھی جمع کیا جاتا تو ایک بہت بڑی ضخیم کتاب بن سکتی تھی۔ احقر مرتب کو بھی کسی خاص تلاش و تفتیش کے بغیر جو کرامات ملی ہیں، ان سے آپ کی عنداللہ، عندالرسول صلّی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت عظام و صحابہ کرام اور ماسلف مشائخ کے یہاں مقبولیت نمایاں نظر آتی ہے۔ اللّھم زد فزد۔

صحت کی بشارت: محترم حاجی محمد حسین شیخ صاحب (لاڑکانہ) نے بتایا کہ جب درگاہ فقیر پور شریف نئی نئی بن رہی تھی، ان دنوں میں اس قدر بیمار ہوگیا تھا کہ تمام عزیز و اقارب میری زندگی سے تقریباً نا امید ہو چکے تھے۔ چنانچہ قبلہ والد صاحب قریب آکر بیٹھ گئے، مجھ سے وصیت کے طور پر کافی باتیں پوچھتے رہے۔ میں نے ان کو عرض کی کہ دعا فرمائیں کہ ایمان پر خاتمہ ہو، اتنے میں غیر متوقعہ طور پر نیند کا غلبہ ہوگیا، اور اپنے آپ کو درگاہ فقیر پور شریف کی مسجد میں دیکھا (جو اس وقت ایک چھاپرے کی صورت میں بنی ہوئی تھی) جہاں حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ بھی تشریف فرما نظر آئے۔ ابھی میں نے آپ سے مصافحہ بھی نہیں کیا تھا، کہ آپ نے مجھے فرمایا، ہم نے آپ کی درازی عمر کے لئے بارگاہ رب العزت میں دعا کی ہے جو قبول ہوچکی ہے۔ اتنے میں بیدار ہوگیا، اور بالکل صحت مند تھا۔ کسی قسم کی تکلیف نہیں تھی۔ حالانکہ کئی دن پہلے سے سخت بیماری کی تکلیف میں مبتلا تھا۔ اور ابھی تک تمام عزیز و اقارب غیر معمولی طور پر پریشان تھے کہ مجھے صحت مند دیکھ کر از حد خوش اور حیران بھی ہوگئے۔ جب میں نے ان کو اپنے خواب کا واقعہ سنایا تو حضور سے ان کی محبت و عقیدت میں اور اضافہ ہوگیا۔

کرامت: محترم مولانا حاجی محمد آدم صاحب (کراچی) نے بتایا کہ شروع میں میرے بھائی محترم عنایت اللہ صاحب کے گھر یکے بعد دیگرے تین نابینا لڑکے پیدا ہوئے جب کہ اس کے درمیان جتنی لڑکیاں پیدا ہوئیں وہ بینا تھیں۔ لیکن جب سے حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ سے دعا کرائی اور تعویذ لیا۔ اس کے بعد بفضلہ تعالیٰ تمام لڑکے بینا اور صحت مند پیدا ہوئے۔

کرامت: ان ہی حاجی صاحب موصوف نے بتایا کہ ہماری بستی حاکو خان بروہی نزد گڈاپ (کراچی) میں جتنے بھی کنوئیں کھودے گئے تھے سب کے سب کڑوے پانی کے نکلے، وقفہ وقفہ سے مختلف مقامات پر کنوئیں کھودتے رہے، مگر کہیں میٹھا پانی نہ نکلا۔ جب حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ ہماری دعوت پر تشریف لائے اس وقت بھی ایک کنواں کھودا جا رہا تھا۔ ہم نے حضور سے پانی نہ ہونے کی تکلیف بیان کرکے دعا کے لئے عرض کی، آپ نے دعا فرمائی اور پانی پر دم کرکے بھی دیا۔ الحمد للہ اس کنویں کا پانی میٹھا نکلا۔

کرامت: محترم مولانا بخش علی صاحب نے بتایا کہ میرے بڑے بھائی فقیر بہاول رحمۃ اللہ علیہ کو عرصہ تک اولاد نہیں ہوئی تھی، چنانچہ جب حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ ہماری بستی میں تشریف فرما ہوئے تو فقیر صاحب کا سسر دعا کرانے کے لئے حاضر ہوا مگر ادب کی وجہ سے کچھ عرض کرنے کی ہمت نہ کرسکا۔ تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد حضور نے اس کے آنے کی وجہ دریافت فرمائی۔ میں نے صورت حال عرض کی تو فرمایا انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ ان کو نرینہ اولاد سے نوازے گا، الحمدللہ اس کے بعد یکے بعد دیگرے فقیر صاحب کے گھر فرزند ہی تولد ہوتے رہے۔

کرامت: محترم مولانا عبدالغفور نے بتایا کہ کھائی ضلع سانگھر میں حضور کے ایک مرید فقیر کا صرف چھ ماہ کا معصوم بچہ روتے وقت صاف طرح سے اللہ اللہ کرتا تھا۔

کرامت: عزیز القدر محترم امام علی صاحب نے بتایا کہ جب حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ تبلیغی سلسلہ میں بڈھانی جاگیر ضلع لاڑکانہ تشریف لے گئے۔ فقراء میں اس قدر جذبہ تھا کہ شاید ہی کوئی وجد سے خالی رہا ہو، جذبہ کی حالت میں ایک فقیر جلسہ گاہ سے قریب واقع پانی کے ایک تالاب میں گر گیا۔ کپڑے بھیگ گئے، مگر کافی دیر بعد جب جذبہ ختم ہوا تو دیکھا کہ جیب میں رکھے ہوئے چار پانچ سو روپے بالکل خشک تھے۔

چوری کی اطلاع: مورو سے محترم مولانا محمد رحیم صاحب لکھتے ہیں کہ حضور شمس العارفین حضور سوہنا سائیں رحمۃ االلہ تعالیٰ علیہ کی حیات مبارکہ کے آخری سالانہ جلسہ سے چند دن پہلے میں دربار عالیہ پر حاضر ہوا تھا کہ لنگر کے انتظامات کے سلسلہ میں حتی المقدر خدمت کرسکوں، سالانہ جلسہ سے صرف ایک دن پہلے اطلاع ملی کہ میرے گھر سے چوری ہوگئی ہے، میں پریشان سا ہوگیا میں نے سوچا کہ اگر گھر نہ جاؤں گا تو چوری واپس نہیں ہوگی۔ اگر گھر چلا گیا تو چوری کے سلسلہ میں بھاگ دوڑ کرتے سالانہ جلسہ کا پرمسرت موقعہ ہاتھوں سے چلا جائے گا، حضرت قبلہ صاحبزادہ سجن سائیں مدظلہ العالی کی خدمت میں صورت حال پیش کی اور گزارش کی کہ حضرت سیدی سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ سے صورت حال بیان کریں اور دعا کے لئے عرض کریں، مزید جو فرمائیں اسی کے مطابق عمل کروں گا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب مدظلہ نے واپس آکر بتایا کہ حضور (رحمۃ اللہ علیہ) نے دعا مانگی اور فرمایا کہ مولوی صاحب سے کہہ دیں کہ گھر چلے جائیں انشاء اللہ تعالیٰ مہربانی ہوجائے گی، اگر سالانہ جلسہ میں شامل نہ ہو سکے تو بھی ان کو اجازت ہے۔ الغرض میں رات ۱۲ بجے گھر پہنچا۔ بیوی نے بتایا کہ میں سو رہی تھی کہ حضور سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کی خواب میں زیارت ہوئی، فرمایا مائی صاحبہ جلدی اٹھو چور چوری کر رہے ہیں، چند مرتبہ اسی طرح ارشاد فرمایا، میں بیدار ہوئی دیکھا کہ کمرہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے، میں نے زور زور سے چور چور اور ڈاکہ لگ رہا ہے وغیرہ کہہ کر پکارنا شروع کیا۔ چور بھاگ گئے، دیکھنے پر پتہ چلا کہ صرف ایک چائے کا تھرماس، ایک ٹائم پیس اور ایک استری غائب ہیں۔ اگر حضور کی یہ مہربانی نہ ہوتی تو پورا گھر خالی کر جاتے اور ہمیں کوئی پتہ نہ چلتا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ چوری کی ہوئی مذکورہ تینوں چیزیں بھی تھانیدار کے پاس پہنچی ہیں، پھر جب تھانیدار صاحب سے ملے اس نے مذکورہ تینوں چیزیں لا کر دے دیں اور بتایا کہ چور دوسرے گاؤں سے بھینس چرا کر لے جا رہے تھے کہ پکڑے گئے۔ جب یہ چیزیں میں نے دیکھ لیں تو از خود میرے دل نے یہ گواہی دی کہ یہ چیزیں کسی اور شریف آدمی کی معلوم ہوتی ہیں، اب تو ماشاء اللہ آپ کو دیکھ کر یقین ہوگیا کہ آپ کی معمولی چیزوں کے صدقے ہی چور پکڑے گئے اور بھینس بھی مالکان کو مل گئی۔ آخر میں اسی دن واپس دربار عالیہ اللہ آباد شریف حاضر ہوا اور حضرت قبلہ صاحبزادہ صاحب مدظلہ العالی سے پورا ماجرا بیان کیا اور آپ نے حضرت قبلہ سوہنا سائیں قدس سرہ کو بتایا جس سے بہت خوش ہوئے۔ دوسرے دن ختم شریف کے بعد حضور کی موجودگی میں محترم مولانا محمد رمضان صاحب نے مذکورہ واقعہ بیان کیا تھا۔

حجر شجر سے اللہ، اللہ کی آواز سنائی دی
محترم مولانا مولوی مختار احمد صاحب ٹاٹڑی (حال مقیم کراچی) نے بتایا کہ میری ابتدائی تعلیم کے استاد حضور کے مخالف تھے، اس کی وجہ سے میں بھی سوچے سمجھے بغیر مخالفت کرتا تھا، جب کہ میرے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضور کے پکے غلام تھے، جب مجھے حضور کے یہاں چلنے کے لئے کہا، میں نے انکار کر دیا۔ مگر جب مجبور کرکے مجھے درگاہ فقیر پور شریف لے جانے لگے، اور کوٹ قبولہ بستی کے پاس پہنچے اچانک مجھے اپنے دل سے اللہ اللہ کی آواز سنائی دی اس کے بعد تو قریب کھڑے درخت، اور دادو کنال (جس کے کنار ے سے جا رہے تھے) کے پانی اور سائیکل جس پر سوار تھے اس سے بھی اللہ اللہ کی آواز سنائی دینے لگی، بس حضور کی یہ کرامت ہی میری ہدایت کا ذریعہ بنی اور تعلیم بھی حضور کے دربار پر حاصل کی۔

پاگل عقلمند بن گیا: دنبالو نزد میرپور خاص سے مولانا محمد ایوب صاحب لکھتے ہیں کہ حاجی محمد ایوب مشاخ کا ایک نوجوان رشتہ دار ڈیڑھ سال سے بالکل پاگل تھا، رات دن زنجیروں میں جکڑا رہتا تھا، اسے کھانا بھی دور سے پھینک کر دیا جاتا تھا، اگر اتفاقاً کوئی قریب آجاتا تو گالیاں بکتا اور لڑنے کی کوشش کرتا تھا۔ جب حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ ہمارے یہاں دنبالو تشریف لائے تو حاجی صاحب مذکور نے مجھ سے مشورہ کیا اور دیوانے کو لے آیا۔ اس کی قابل رحم حالت دیکھ کر ہمیں بھی ترس آرہا تھا، جیسے ہی اسے حضور کے قریب لے آئے، حضور چارپائی سے نیچے اترے، تھوڑی دیر گردن جھکا کر توجہ فرما کر اس کے لئے دعا فرمائی۔ وہ کانپنے لگا، اسے کھولا گیا پھر بھی خاموش تھا حالانکہ اس سے یہ توقع ہی نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ خاموش رہ سکے گا۔ بہرحال حضور کی دعا کے طفیل وہ اسی وقت پوری طرح تندرست ہوگیا۔ باہر لے آنے پر لوگ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ زنجیروں میں جکڑا ہوا دیوانہ جس سے ہم ڈر رہے تھے کہ کسی کو مار نہ ڈالے، اس قدر جلدی تندرست ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ابھی تک وہ جوان بالکل تندرست ہے، اپنے کاروبار کو بھی ٹھیک چلا رہا ہے، کوئی یہ تک محسوس نہیں کرسکتا کہ کبھی یہ اس قدر دیوانہ بھی ہوا ہوگا۔

کرامت: فقیر میاں گل محمد اللہ آبادی نے بتایا کہ حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ جب بلوچستان کے تبلیغی سفر پر جا رہے تھے، میرے پاس ایک روپیہ بھی نہیں تھا، باوجود شوق کے میرا جانے کا پروگرام نہ تھا، اچانک جانے سے ایک دن پہلے حضور نے بلا کر فرمایا آپ بلوچستان کے آدمی ہیں، آپ کو بلوچستان کے سفر میں چلنا ہوگا، میں دل میں سوچ رہا تھا کہ کس طرح حضور کے فرمان کی تعمیل کر سکوں گا۔ اسی خیال میں باہر گھوم رہا تھا کہ قریب کے ایک غیر جماعتی زمیندار نے بلایا اور کہا کہ گندم کے ڈیرہ میں کافی دانا رہ گیا ہے، جمع کرو آدھا تمہارا اور آدھا میرا ہوگا۔ اس طرح ایک من گندم پہلے ہی دن مل گئی جو گھر دیئے جانے کے لئے کافی تھی۔ دوسرے دن ایک فقیر نے آکر کہا اگر آپ بلوچستان چلیں تو آپ کا کرایہ میں ادا کروں گا۔ میں بڑا خوش ہوا بلوچستان کے پورے سفر میں حضور کے ساتھ رہا۔ واپسی پر جب گھر پہنچا، بیوی نے کپڑے کا ایک تھان اور کچھ نقدی لا کر سامنے رکھ دی کہ کوئی ایک آدمی تیرے نام سے خیرات دے گیا ہے اور اپنا نام تک نہیں بتایا۔
واضح رہے کہ فقیر گل محمد صاحب کی پارسا بیوی بھی ولیہ عارفہ تھیں، آخر عمر تک لنگر کا کام تہجد و مراقبہ کی نگرانی بھی اسی کے ذمہ تھی، بعد از وفات بھی دل کی حرکت بدستور قائم تھی، یہاں تک کہ غسل دینے والی خاتون کو اس کے مرنے کا یقین نہیں ہو رہا تھا، آخر دوسروں کے بتانے سمجھانے پر (کہ یہ قلبی ذکر مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے) اعتماد کیا۔

بدکاری سے بچالیا: بھٹ شاہ ضلع حیدرآباد سے محترم ماسٹر محمد رفیع صاحب نے حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی درج ذیل غیر معمولی کرامت تحریر کرکے ارسال کی جو ان ہی کے الفاظ میں پیش کی جاتی ہے۔

قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں مذکور ہے کہ عین اسی وقت جب حضرت یوسف علیہ السلام کو سیدہ بی بی زلیخا رضی اللہ تعالیٰ عنہا مقفل کوٹھی میں لے گئیں تو اللہ تعالیٰ نے اسے برہان (گناہ سے بچانے والی) دکھائی۔ مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ برہان خداوندی حضرت یعقوب علیہ السلام کی شبیہہ مبارکہ تھی۔ اسی طرح کا ایک واقعہ ہمارے شہر بھٹ شاہ کے ایک نئے وارد نوجوان کو پیش آیا اور حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ نے اسے اپنی کرامت کے زور سے گناہ سے بچا لیا۔ ہوا یہ کہ ایک نوجوان (جس کا نام لکھنا مناسب معلوم نہیں ہوتا) حضور کے ایک مرید فقیر کے ساتھ دربار عالیہ طاہر آباد شریف حاضر ہوا، حضور سے بیعت ہوا، اور قلبی ذکر کا وظیفہ سیکھا، دوسرے دن بھٹ شاہ واپس پہنچا۔ چونکہ اس کی صحبت و سنگت گندی ذہنیت کے لڑکوں سے تھی، اور معاشرہ کی اکثر غلط کاریوں میں مبتلا تھا، ایک دن اسی قسم کے ایک پرانے دوست کے ساتھ فحاشی کے اڈے پر گیا۔ بقول اسی کے گو اس وقت مجھ پر بہیمیت کا غلبہ تھا، برے ارادے سے جا رہا تھا، مگر آج راستے میں کئی بار پریشانی اور جسم پر کپکپی طاری ہوگئی، تاہم باز نہ آیا، یہاں تک کہ پروگرام کے تحت اس مکان میں داخل ہوا جہاں ایک خوبصورت عورت پہلے سے منتظر تھی، وہاں پہنچ کر لرزہ اور بھی بڑھ گیا، مگر نفسانی خواہش کا غلبہ حاوی تھا، دونوں برہنہ بھی ہوگئے۔ عین اسی وقت حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی شبیہہ مبارک نظر آگئی، شرم کے مارے میری گردن جھک گئی، شہوانی قوت بالکل ختم ہوگئی، اسی وقت کپڑے پہن کر باہر نکلا اور حضور کی نظر عنایت کے طفیل گناہ سے بچ گیا۔ الحمدللہ اس کے بعد کبھی کسی غیر محرم عورت کے لئے دل میں برا خیال بھی پیدا نہ ہوا۔ سچ فرمایا نبی خاتم الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام نے کہ ”علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل“ کہ میری امت کے علماء ربانی (تبلیغ اصلاح اور ہدایت کے میدان میں) بنی اسرائیل کے نبیوں جیسے ہوں گے۔ (فقیر ماسٹر محمد رفیع بھٹ شاہ)

اسی طرح ایک مولوی صاحب نے جو فی الوقت کراچی میں ملازم ہیں احقر کو تحریری طور پر حضور کی یہ کرامت لکھ کر دے دی، کہ جب میں مدرسہ میں زیر تعلیم تھا، شہری گندے ماحول سے متاثر ہوکر ایک بار کبیرہ گناہ پر آمادہ ہوگیا۔ بس اسی وقت حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ، تشریف فرما نظر آئے اور مجھے فرمایا تو غفاری کہلاتے ہوئے شیطانی کام کرنا چاہتا ہے، تجھے شرم نہیں آتی، بس آپ کی اس تنبیہہ سے میں فوراً اپنے غلط ارادے سے باز آگیا، یاد رہے کہ اس وقت حضور درگاہ اللہ آباد شریف قیام فرما تھے اور مذکورہ طالب علم کوئی دو سو کلومیٹر کے فاصلہ پر تھے۔

قید سے رہائی کا عجیب واقعہ
حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے پیارے خلیفہ محترم حاجی محمد علی مری صاحب اور ان کے چند رشتہ دار کافی عرصہ سے مکہ مکرمہ شریف میں قیام پذیر ہیں۔ اتفاقًا خلیفہ صاحب موصوف کے بھتیجے فقیر میر محمد کی غلطی سے تین آدمی بیک وقت اس کی کار کی زد میں آکر فوت ہوگئے، حاجی میر محمد پکڑا گیا۔ قصور ثابت ہونے پر بطور دو یا تین لاکھ ساٹھ ہزار ریال جرمانہ عائد کیا گیا، دوسری صورت میں عمر قید کا فیصلہ سنایا گیا، جبکہ یہ مزدور آدمی کسی طرح اتنا جرمانہ ادا کرنے سے قاصر تھے۔ آخر جب شاہ فہد مکہ مکرمہ سے سرکاری دورے پر آئے، حاجی میر محمد کے والد صاحب کسی سے درخواست لکھوا کر شاہ فہد کے آفس پہنچے، مگر بہت اصرار اور منت و سماجت کے باوجود پولیس اہل کاروں نے اسے شاہ کے پاس جانے نہ دیا۔ فقیر صاحب پر گریہ کی سخت حالت طاری ہوگئی، اتنے میں حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ قریب سے یہ فرماتے ہوئے نظر آئے کہ فقیر صاحب ہمت بلند رکھو، ہم آپ کے ساتھ ہیں آج انشاء اللہ تعالیٰ آپ کامیاب ہوکر لوٹیں گے۔ غنودگی کے عالم میں حضور کی زیارت اور ہمت افزائی سے فقیر صاحب کے عزائم بلند ہوگئے اور پولیس عملہ سے اجازت لئے بغیر آفس میں اندر جانے کی کوشش کی مگر سپاہیوں نے دھکے دے کر اس کو پیچھے ہٹایا، آخر ایک رحمدل سپاہی نے اندر جا کر شاہ کے سیکریٹری کو فقیر صاحب کا واقعہ سنایا، جس نے فوراً اس کو اپنے پاس بلایا، تسلی دی، چائے منگوا کر پلائی، اپنے کلرک سے دوسری درخواست ٹائپ کرواکر فقیر صاحب کو لے کر شاہ کے پاس جا رہا تھا کہ متعلقہ وزیر راستے میں ملا جس نے سیکرٹری سے مذکورہ روئیداد سن کر اسی وقت جیل سپرینڈنٹ کو ٹیلیفون پر حکم کیا کہ ملزم فقیر میر محمد کو رہا کیا جائے اور اس کا جرمانہ میں ادا کروں گا۔ آخر سیکرٹری صاحب فقیر کو اپنی کار میں لے کر جیل پہنچے اور فقیر میر محمد کو رہا کروا دیا۔ ان ہی دنوں محترم حاجی محمد علی صاحب نے تفصیل سے یہ کرامت لکھ کر حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں ارسال کی تھی، حاجی محمد آدم صاحب نے مذکورہ واقعہ فقیر میر محمد کے والد صاحب سے روبرو سن کر مذکورہ تفصیل سے احقر کو لکھ دیا۔ اور مارچ ۱۹۸۶ء میں پاکستان آنے پر فقیر میر محمد نے خود مذکورہ واقعہ احقر مولف کو سنایا تھا۔

سگریٹ سے محبت پھر نفرت: محترم فقیر عبدالغفار صاحب شر نے بتایا کہ غالباً ۱۹۷۰ء میں جب ماہانہ جلسہ میں شرکت کے لئے حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ حاجی محمد یوسف چنہ رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں محراب پور تشریف لائے، اپنے ایک رشتہ دار کے کہنے پر میں بھی حاضر ہوا، فقیروں نے مجھے ذکر لینے کے لئے کہا، مگر میں نے صاف انکار کردیا، آکر حضور کی زیارت اور نورانی خطاب سے متاثر ہوکر میں نے از خود آگے بڑھ کر ذکر سیکھا۔ ان دنوں میں سگریٹ بیڑی کا بڑا عادی تھا، مگر جیسے ہی اختتام جلسہ پر شہر میں گیا قریب کھڑا ایک آدمی سگریٹ پی رہا تھا، مجھے اس سے بدبو محسوس ہونے لگی، جس کی وجہ سے اپنی جیب میں پڑے ہوئے سگریٹ اسی وقت نکال کر پھینک دیئے اور پابندی سے نماز بھی پڑھنے لگا، اور تہہ دل سے چوری سے بھی توبہ کی، اور دوسری بار پھر مذکورہ جلسے میں حاضر ہوا تو اس بار تہجد کی پابندی بھی نصیب ہوئی، الحمدللہ۔

کرامت: محترم مولانا محمد عثمان صاحب جلبانی نے بتایا کہ ایک بار میں اور محترم حاجی محمد علی صاحب ٹنڈو اللہ یار سے طاہر آباد شریف آرہے تھے۔ جیسے ہی سوزوکی اسٹاپ پر رکی میں اتر رہا تھا کہ ڈرائیور نے سوزوکی چلا دی، میرے پاؤں جنگلے میں پھنسے ہوئے تھے کہ جھٹکا لگنے سے سر کے بل گرا، حاجی صاحب موصوف زور زور سے اللہ اللہ کرنے لگے اور میری زبان پر بے ساختہ حق سوہنا سائیں حق سوہنا سائیں جاری ہوگیا۔ بظاہر سلامت رہنے کی مطلق امید نہ تھی، مگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور حضور کی نظر کرم شامل حال رہی۔ مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کس طرح سوزوکی سے گرا اور بالکل سلامت، یہاں تک کہ مدرسہ کے لئے سبزی کی بوری لائے تھے وہ بھی میں ہی اٹھا کر دربار شریف پر پہنچا۔

گناہ سے توبہ کی: محترم مولانا مقصود الٰہی صاحب نے بتایا کہ ناظم آباد کراچی کا ایک آوارہ گرد لڑکا جب میرے ساتھ حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں اللہ آباد شریف حاضر ہوا، ذکر سیکھ کر اسی شام واپس چلا آیا۔ دوسرے دن میں کالج میں پہلے پیریڈ سے فارغ ہوا تھا کہ وہ آکر ملا اور گلے سے لگ کر بے انتہا رونے لگا، کافی دیر سمجھانے کے بعد خاموش ہوا، اور بتایا کہ صبح سویرے جیسے ہی نہا دھو کر بدکاری کے ارادہ سے گھر سے نکل رہا تھا تو سامنے سے حضور سوہنا سائیں اور ان کے ساتھ آپ بھی نظر آئے، حضور نے آپ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا مقصود الٰہی کل یہ لڑکا ہمارے پاس گناہوں سے توبہ کرکے آیا اور آج پھر برے ارادے سے جا رہا ہے اسے شرم نہیں آتی، حضور کی ناراضگی اور تنبیہہ سنتے ہی میں بے ہوش ہوکر گر گیا۔ جب ہوش آیا، سیدھا آپ کے پاس چلا آیا۔ خدا کے واسطے میری مغفرت کے لئے دعا مانگیں میں آئندہ کے لئے سچے دل سے توبہ کرتا ہوں۔ اس کی پریشانی و پشیمانی عیاں تھی اور عملی طور پر بھی اس کی اصلاح ہو گئی۔ اب پابندی سے نماز پڑھتا ہے، داڑھی مبارک بھی رکھ لی ہے۔ حالانکہ پہلی مرتبہ جب میں نے دربار پر جانے کے لئے اسے کہا تو اس نے صاف انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ مجھے نہ نیک بننے کی ضرورت ہے نہ پیر پکڑنے کی حاجت، لیکن آپ کی دعوت رد کرتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہوں۔

گم شدہ لڑکا واپس آگیا: مورگاہ راولپنڈی سے محترم منیر الدین غفاری لکھتے ہیں کہ حضور سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ سے مجھے وہ کچھ ملا جس کے میں لائق نہیں تھا۔ جب حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ نے اس دنیا سے وصال فرمایا تھا تو میرا ہاتھ حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ میں دے کر فرمایا تھا کہ ان کا (میرا) خیال رکھنا، اس لئے ہر موڑ پر آپ میری رہنمائی فرماتے رہے۔ چنانچہ جب میرا لڑکا محمد ظفر خالد ساڑھے چار سال سے لاپتہ تھا، بہت تلاش کے بعد جب، حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ سے دعا کرائی تو لڑکا فوراً ۱۸ء اپریل ۱۹۷۹ء کو گھر پہنچ گیا۔ واضح رہے کہ جس دن حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ نے دعا کی تھی، اسی دن خالد کراچی سے چلا تھا اور دوسرے دن گھر پنڈی پہنچ گیا، گو اس کے بعد میں دربار عالیہ پر حاضری نہ دے سکا۔ مگر میری بگڑی قسمت حضور کے یہاں سے سنوری ہے، مجھ سے اور تو کچھ نہ ہو سکا، صرف چند چیزیں جو حضور سے سنیں، الحمد للہ آج تک ان پر عمل پیرا ہوں۔ (۱) سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (داڑھی) (۲) سگریٹ آج تک نہیں پی (۳) چائے آج تک نہیں پی۔ آپ بلا ضرورت چائے پینے سے منع فرماتے تھے، یہ حضور ہی کا صدقہ اور فیض ہے ورنہ مجھ میں اتنی قوت کہاں تھی کہ ان باتوں پر عمل کرتا۔

شوگر کا مریض صحت مند: محترم نور علی بوزدار صاحب (بستی خان محمد بوزدار) نے بتایا کہ میرا ایک دوست، نثار محمد خان پٹھان جو مہران شوگر ملز ٹنڈو اللہ یار میں لیبارٹری آفیسر تھا، عرصہ سے زیابیطس (شوگر) کا مریض تھا، بہت علاج معالجہ کرایا، مگر کہیں سے افاقہ نہ ہوا۔ آخر جب میں نے اسے حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کا تعارف کرایا، بڑی عقیدت سے میرے ساتھ حضور کی خدمت میں حاضر ہوا، حضور سے قلبی ذکر کا وظیفہ حاصل کیا، حضور نے اس کے لئے دعا فرمائی جس کے طفیل اسے مکمل شفاء حاصل ہوگئی، جب دوبارہ پیشاب ٹیسٹ کرایا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ شوگر کی کمی ہے چند روز میٹھا زیادہ کھائیں۔

پانی بہا کر لے گیا مگر: احقر کے والد ماجد قبلہ خلیفہ مولانا محمد بخش صاحب مدظلہ نے بتایا کہ ہمارے آبائی پہاڑی علاقہ ٹکو باران ضلع دادو، میں ایک رات پہاڑوں سے اس قدر زور دار سیلاب آیا کہ کئی غریبوں کی جھونپڑیاں بہا کر لے گیا۔ اتفاق سے بستی امام بخش خان گبول میں ایک ضعیف العمر خاتون اپنی بچی کے ساتھ چٹائی پر لیٹی ہوئی تھی۔ زوردار پانی اسے بہاکر لے گیا۔ رات بھر اس کا پتہ نہ چلا۔ صبح کی روشنی میں جیسے ہی تلاش کرنے نکلے اسے ایک ٹیلے پر اسی چٹائی پر صحیح سلامت دیکھ کر حیرانی کے عالم میں پوچھنے لگے تو کیسے سلامت رہی۔ کہنے لگی مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کیسے یہاں پہنچی ہوں۔ یاد رہے کہ حضور کی کرامت سے چٹائی اس نیک خاتون کے لئے سفینہ ثابت ہوئی کہ اس کے کپڑے تک نہیں بھیگے تھے۔

بارش برسی: بھٹ شاہ سے ماسٹر محمد رفیع صاحب لکھتے ہیں کہ حدیث شریف ”وبھم تمطرون و بھم ترزقون“ (اولیاء اللہ کے صدقے تمہارے لئے بارشیں نازل ہوتی ہیں اور تمہیں رزق دیا جاتا ہے) کا ہمیں عینی مشاہدہ اس وقت ہوا جب ہمارے بھٹ شاہ کے علاقے میں کپاس کی فصل کو پانی کی شدید ضرورت تھی، لوگوں کی زبانوں پر بارش، بارش تھی، مگر بارش نہ ہو رہی تھی۔ چنانچہ ۱۰ اگست ۱۹۸۲ء کو حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ جماعت اصلاح المسلمین کی دعوت پر بھٹ شاہ تشریف لائے۔ تیسرے دن ۱۲ اگست کو اڑھائی گھنٹے موسلادھار بارش ہوئی، ہر طرف جل تھل تھا، مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بارش صرف اور صرف بھٹ شاہ شہر اور گرد و نواح میں برسی جس سے چاروں طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آنے لگا۔

چوری سے توبہ: کندھ کوٹ ضلع جیکب آباد کے ماسٹر غلام محمد صاحب لکھتے ہیں، میں ابھی ۱۲ سالہ لڑکا ہی تھا کہ اپنے ہم سن چند لڑکوں سے مل کر پڑوس کے ایک زمیندار کے کھیت سے چوری کی۔ رات خواب میں ایک سرخ ریش، قدآور، نورانی چہرہ والے بزرگ کی زیارت ہوئی، جن کے ہاتھ میں عصا مبارک تھی، غصہ کے انداز میں مجھے فرمایا خدا کے نیک بندے اللہ تعالیٰ نے تمہیں چوری کرنے کے لئے تو پیدا نہیں فرمایا، اس کے ساتھ ہی چند بار عصا مبارک سے مار کر مجھے سزا بھی دی، جن مقامات پر مجھے انہوں نے عصا مبارک ماری تھی، وہاں صبح تک درد ہوتا رہا، صبح ہوتے ہی جو تھوڑا بہت چوری کیا ہوا سامان موجود تھا، ساتھی لڑکوں کو دیدیا اور سچے دل سے توبہ کی کہ آئندہ چوری نہیں کروں گا۔ ساتھ یہ فکر بھی دامن گیر ہوا کہ اس بزرگ کی زیارت کروں، جس نے مجھے رات کو تنبیہہ کی۔ لیکن چونکہ ابھی کم عمر تھا بزرگ کی تلاش سے قاصر رہا۔ چند سال بعد حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے خلیفہ مولانا امام علی صاحب اور سید حسین شاہ صاحب ہماری بستی میں تبلیغ کرنے کے لئے تشریف لائے۔ انہوں نے وعظ و نصیحت کے علاوہ سالانہ جلسہ کی بھی دعوت دی، جو درگاہ اللہ آباد شریف کنڈیارو میں ہونے والا تھا۔ بتائے ہوئے پروگرام کے تحت درگاہ شریف پہنچے، جیسے ہی حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے چہرۂ انور کی زیارت کی، بعینہ وہی صورت نظر آئی جو چند سال پہلے ضلع جیکب آباد میں میری ہدایت کا باعث بنی تھی۔ میں آپ سے بیعت ہوا، اور مسلسل آمد و رفت رہی، آپ کے فیض اثر سے متاثر ہوکر میں اپنے والد ماجد کو بھی آپ کی خدمت میں لے آیا تھا جو نہ معلوم کتنے عرصہ سے جوئے کے پکے عادی تھے، الحمد للہ حضور کی زیارت و بیعت ان کی بھی ہدایت کا ذریعہ بنی، سچے دل سے جوئے سے تائب ہوگئے۔ ہمارے کئی پڑوسی جو ابھی تک حضور کی جماعت میں داخل نہیں ہوئے وہ بھی برملا کہتے ہیں کہ حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ واقعی کامل شخصیت تھے جس نے ایسے عادی جواری کی اصلاح کی۔

چوری کرنے جاتے ہو؟ محترم مولانا محمد عظیم صاحب نے بتایا کہ میرے با اثر دوست اور مشہور طاقتور ڈاکو اللہ رکھیو چانڈیو جب حضور کے پیارے خلیفہ مولانا حاجی بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے توسط سے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے، ذکر سیکھا اور ذکر کرتا بھی رہا، تاہم کچھ عرصہ تک اپنی برسوں کی چوری کی عادت ترک نہ کر سکا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ چوری کے ارادہ سے کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں ایک غیبی ہاتھ نمودار ہوا اور اس نے پکڑ لیا، ساتھ ہی یہ غیبی آواز بھی سنائی دی کہ ”فقير چوري ڪرڻ ٿو وڃين، اسان کي لڄائين ٿو؟“ (فقیر ہوکر چوری کرنے جاتے ہو، ہمیں بھی شرمسار کرتے ہو) بس یہ سنتے ہی شرم کے مارے پیچھے مڑا اور اسی وقت جذبہ طاری ہوگیا، کافی دیر تک جذبہ و گریہ میں رہنے کے بعد ساتھیوں کو پورا واقعہ بتایا اور آئندہ کے لئے چوری نہ کرنے کا پکا وعدہ کرلیا۔ اور اسی پر کاربند رہا، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حضور کی نظر عنایت کے طفیل آج کل اس قدر نیک و پرہیزگار ہے کہ بے نمازی کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاتا، یہی نہیں بلکہ اگر خلاف تقوی کھانا سامنے لایا جائے تو از خود سمجھ جاتا ہے کہ تقوے کے خلاف پکا ہے۔

کرامت: نعت خواں محترم فقیر علی حسن ماچھی نے بتایا کہ ایک بار میں کسی مقدمہ میں میہڑ جیل میں مقید تھا، اتفاقاً کسی تبلیغی سفر سے واپسی پر حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ بھی تھوڑی دیر کے لئے میہڑ میں رک گئے، مقامی فقراء نے حضور سے میری گرفتاری اور بے قصور ہونے کا ذکر کیا اور دعا کے لئے عرض کی۔ آپ نے دعا کے بعد فرمایا: فقیر علی حسن جب تک رہا نہیں ہوگا ہم بھی میہڑ میں رہیں گے۔ حضور کی دعا کے صدقے اللہ تعالیٰ کی ایسی مہربانی شامل حال ہوگئی کہ نہ معلوم کیسے میری رہائی کے اسباب مہیا ہوگئے۔ اسی دن رہا ہوکر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے بعد آپ دربار شریف پر تشریف لے گئے۔
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مراقبہ میں انتقال: نیز فقیر علی حسن صاحب نے بتایا کہ میری پھوپھی صاحبہ جو شروع میں بغیر پردہ شادی بیاہ کے رسمی موقعوں پر لاڈے سہرے گانے چلی جاتی تھی، جب حضور کے طریقہ عالیہ میں داخل ہوئی، تمام خلاف شرع باتیں یکسر ترک کردیں۔ پردہ کا سختی سے اہتمام، نماز، تہجد اور مراقبہ کی اس قدر پابند رہی کہ اس کا انتقال بھی بعد از نماز تہجد مراقبہ کی حالت میں ہوا۔ (اناللہ وانا الیہ راجعون)

فقیر ذکر کرتے ہوئے فوت ہوگیا
محترم خلیفہ مولانا محمد داؤد صاحب نے بتایا کہ فقیر علی راز شر (بستی فضل آباد خیر پور میرس) بہت پرانا مخلص فقیر تھا، درگاہ اللہ آباد شریف بکثرت آیا کرتا تھا۔ مرض الموت میں اس کے پانچوں لطائف ذکر اللہ سے اس قدر جاری ہوگئے کہ دیکھنے والا حرکت محسوس کرتا تھا۔ قلبی ذکر کے علاوہ ان ایام میں جہری ذکر بھی بکثرت کرتا تھا۔ بلآخر ایک دن جذب کی حالت میں بستر سے اٹھ کھڑا ہوا اور کافی دیر تک بلند آواز سے اللہ، اللہ کرتے ہوئے جیسے ہی بستر پر لیٹا، اسی ذکر کی حالت میں جان، جان آفرین کے حضور جا پہنچی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اسی قسم کا ایک اور اہم واقعہ: خلیفہ صاحب موصوف نے بتایا کہ فقیر آمد خان شر (تحصیل میرواہ ضلع خیرپور میرس) کی زوجہ محترمہ نہایت پارسا ذاکرہ، عابدہ خاتون تھی۔ ایک دن نماز پڑھ کر بلند آواز سے اللہ تعالیٰ کے اسم ذات اللہ، اللہ کا ورد کرتی رہی اور نماز مغرب سے ذرا پہلے دارالفناء سے دارالبقا کو راہی ہوگئی۔

انا للہ وانا الیہ راجعون۔

بشارت: اسی رات حضور قبلہ سوہنا سائیں کے ایک اور مرید فقیر حاجی محمد عالم صاحب کو خواب میں حضور نبی اکرم شفیع محتشم صلّی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ (صلّی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا، میرے محبوب ولی کی ایک مخلص مریدنی فوت ہو چکی ہیں، کل صبح انکی بہت بڑی کرامت آنکھوں سے دیکھو گے اس پر ہماری خاص نظر ہے۔ آخر ایسا ہی ہوا کہ غسل دینے والی خاتون نے بتایا کہ اس کے دل کی حرکت ہم نے آنکھوں سے دیکھی۔ تدفین سے پہلے مائی صا حبہ کے ذکر اللہ سے قلب جاری ہونے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح قریب کی بستیوں تک جا پہنچی۔ چنانچہ ہمارے ہی خاندان کے ایک معزز محترم حاجی قادر داد خان شر (محترم مولانا مفتی عبدالرحیم شر صاحب کے دادا رحمۃ اللہ علیہ) جب اپنی زوجہ کو لے کر آئے تو ان کی زوجہ محترم نے کہا کہ میں بھی دیکھنا چاہتی ہوں کہ مرنے کے بعد کس طرح دل کی حرکت جاری رہتی ہے۔ چنانچہ مائی صاحبہ کو کہا گیا کہ کفن کے اوپر مقام قلب پر ہاتھ رکھو۔ جب اس نے مقام قلب پر ہاتھ رکھا تو دل کی حرکت کی شدت سے مائی صاحبہ کے ہاتھوں میں بھی حرکت آنے لگی، جسے وہاں کئی محرم مردوں نے بھی دیکھا، حالانکہ اس وقت نماز جنازہ بھی پڑھی جا چکی تھی صرف تدفین کا عمل باقی رہ گیا تھا۔
نوٹ: الحمد للہ حضور کے مریدین کا آخری دم ذکر اللہ کرنا، بحالت نماز فوت ہو جانا، تلاوت قرآن مجید کرتے فوت ہوجانا، تبلیغی سفر میں فوت ہو جانا حضور کی مشہور و معروف کرامات ہیں۔ اس قسم کے واقعات ایک دو نہیں ہزاروں کی تعداد میں اور ملک کے گوشہ گوشہ میں ظاہر ہوئیں۔ جن کا مکمل طور پر جمع کرنا تو میرے بس کی بات نہیں۔ تاہم اپنی معلومات کی حد تک نہایت ہی پختہ اور یقینی تصدیق سے معلوم شدہ واقعات تحریر کئے ہیں۔
دم کردہ پانی کی تاثیر: محترم حاجی محمد آدم صاحب (کراچی) نے بتایا کہ چنیر گوٹھ کراچی کے ایک کچھی قبیلہ کے فقیر کے گھر جب وضع حمل کی تکلیف ہوئی، فقیر نے اپنی بیوی کو جناح ہسپتال میں داخل کرادیا۔ معائنہ کے بعد ڈاکٹروں نے کہا کہ آپریشن کے بغیر بچہ پیدا نہیں ہو سکتا، اور آپریشن سے یہ فقیر کترا رہا تھا۔ اتنے میں اسے یاد آیا کہ حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کا دم کردہ پانی گھر میں موجود ہے۔ چند منٹ میں وہ پانی لے آیا اور مائی صاحبہ کو پلایا۔ فوراً بچہ پیدا ہوا، بظاہر صرف پانی اور اس قدر غیر معمولی تاثیر دیکھ کر ڈاکٹر صاحبان دم بخود ہوکر رہ گئے۔

گم شدہ پیسوں کی واپسی
راولپنڈی سے محترم عبدالغفور لودھی صاحب لکھتے ہیں، ۱۵ جنوری ۱۹۸۱ء جھاورا شریف راولپنڈی کے محترم حاجی اورنگزیب صاحب نے نماز عشاء کے وقت مجھے بتایا کہ میرے پندرہ سو روپے گم ہوگئے ہیں اور مجھے یہ تک خبر نہیں کہ کہاں اور کس دن گرے ہیں۔ بہرحال جب حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے پیارے خلیفہ سید محمد اسماعیل شاہ صاحب صدیقیہ مسجد جھاورا شریف تشریف لائے اور معمول کے مطابق ذکر کا حلقہ مراقبہ کرایا۔ مراقبہ کے بعد میں نے قبلہ شاہ صاحب کو عرض کی کہ حاجی صاحب کے پندرہ سو روپے گم ہوگئے ہیں، دعا فرمائیں کہ ان کے پیسے مل جائیں، یا کسی جن کے ذریعے معلوم کریں کہ ان کے پیسے کس کے پاس ہیں (واضح رہے کہ پشاور راولپنڈی اور گرد و نواح کے جن بڑی تعداد میں حضرت شاہ صاحب مدظلہ سے طریقہ عالیہ نقشبندیہ غفاریہ بخشیہ میں بیعت ہیں) شاہ صاحب نے سن کر فرمایا ہم سوہنا سائیں کے غلام ہیں، انشاء اللہ حاجی صاحب کے پیسے ضرور مل جائیں گے۔ شاہ صاحب نے تمام اہل مراقبہ کے ساتھ مل کر حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے وسیلہ جلیلہ سے دعا کی اور مجلس برخواست ہوئی، اسی رات کی صبح کو ایک عورت حاجی اورنگزیب صاحب کے گھر آئی اور مذکورہ پیسے واپس کر دیئے، اور بتایا کہ پانچ دن پہلے میری بچی کو یہ پیسے ملے تھے اور ہم نے رکھ لئے۔ چنانچہ آج رات میری بچی کو کوئی چیز کاٹتی رہی اور بار بار یہ کہتی رہی کہ حاجی اورنگزیب صاحب کے پیسے واپس کردو، ورنہ تجھے کھا جاؤں گی۔ جس سے بچی چلائی اور مجھے کہا پیسے واپس کردو۔ ورنہ کوئی چیز مجھے مار دے گی۔ حاجی اورنگزیب صاحب حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے بعد بھی دربار عالیہ پر حاضر ہوتے رہے۔ اس سال بھی ۵ اپریل ۱۹۸۶ء کے سالانہ جلسہ میں درگاہ اللہ آباد شریف حاضر ہوئے تھے۔

نماز میں فوت ہوگئے: محترم مولانا محمد داؤد صاحب نے بتایا کہ چک نمبر ۲ پٹھان کالونی سانگھڑ کے فوجی جمعدار فقیر شیر دین خان پٹھان جو حضور سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کے پکے مرید خادم تھے، جمعہ کے دن حسب معمول تیار ہوکر نماز جمعہ پرھنے آئے، فرض کے بعد سنت پڑھتے ہوئے جیسے ہی سجدہ میں سر رکھا، کافی دیر تک سجدہ میں رہے، یہاں تک کہ سنت کے بعد دعا مانگی گئی، یہ اسی حالت سجدہ میں تھا، دعا کے بعد لوگوں نے جمعدار صاحب کہہ کر اٹھانا چاہا، مگر یہ اسی سجدہ میں دنیا و مافیھا سے لاتعلق، آخر جب دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ اسی سجدہ کی حالت میں موصوف نے جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

کرامت: محترم مولانا قائم الدین صاحب (مدرس دارالعلوم نورانی حسن آباد شاہ نورانی روڈ بلوچستان) نے بتایا کہ عرصہ پہلے میں سخت بیمار پڑگیا۔ اور نوابشاہ میں زیر علاج تھا کہ ایک رات خواب میں حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ نظر آئے کہ آپ میرے دونوں ہاتھوں پر دم کر رہے ہیں (حالانکہ میرے ہاتھ اٹھائے نہیں جاتے تھے) صبح بیدار ہوا تو بالکل تندرست تھا، ذرہ بھر بھی تکلیف باقی نہ تھی، حالانکہ کافی علاج کے باوجود ابھی غیر معمولی تکلیف باقی تھی۔

بیماری ختم: محترم مولانا غلام قادر صاحب (ایچ۔ایس۔ٹی گورنمنٹ ہائی اسکول مورو) لکھتے ہیں کہ مجھے عرصہ سے ایک تکلیف دہ عارضہ لاحق تھا، چنانچہ ایک بار شدت تکلیف کے پیش نظر دعا کے لئے حضور کی خدمت عالیہ میں درگاہ فقیر پور شریف حاضر ہوا۔ آپ نے دعا فرمائی۔ رات کو سویا، خواب میں بیماری ختم ہونے کی بشارت ملی، صبح ہوئی تو اس قدیمی بیماری کا نام و نشاں تک نہ تھا۔ یہ پندرہ سولہ برس پہلے کی بات ہے، اس کے بعد آج تک کبھی وہ عارضہ لاحق نہ ہوا۔

اتباع سنت کرا ہی لی: حضور کے پیارے خلیفہ سید محمد اسماعیل شاہ صاحب جب جامع مسجد بکرا پڑی (راولپنڈی) میں تبلیغ کرنے گئے اور حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے فیوض و برکات اور اتباع سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وعظ فرمایا، وہاں جلسہ میں موجود حوالدار نیاز صاحب نے یہ سن کر کہ قبر میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوں گے تو آپ کی سنت سے منہ پھیرنے والے داڑھی مونڈوانے والوں کو بہت شرمساری اٹھانا پڑے گی عہد کرلیا کہ میں آئندہ داڑھی نہیں منڈواؤں گا۔ مگر بقول حوالدار صاحب دوسرے دن نفس و شیطان کے بہکانے سے پھر شیو کرنے کا اردہ کیا اور رخساروں پر صابن بھی لگایا، جب شیو کرنے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو ہاتھ میں سکت ہی نہ رہی، بہت کوشش کے باوجود رخساروں تک ہاتھ نہ پہنچ پایا، جس سے میں سمجھ گیا کہ یہ حضور کی کرامت ہے کہ میرے غلط ارادے کے باوجود مجبوراً مجھے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارک پر عمل کرایا جا رہا ہے۔ حالانکہ حضور کی غلامی میں آنے (طریقہ عالیہ میں بیعت) سے پہلے میرے لئے شیو کرنا کوئی بات نہ تھی۔ بعینہ اسی طرح کی دوسری کرامت حیدرآباد شہر میں بھی ظاہر ہوئی تھی کہ ایک نوجوان درگاہ طاہر آباد شریف میں حضور سے بیعت ہوکر گیا، جب صبح داڑھی مونڈنے کے لئے بیٹھا تو اس کے ہاتھ بالکل سن ہوگئے اور داڑھی مونڈھنے کے گناہ سے بچ گیا۔ حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا گیا تو بہت خوش ہوئے۔ اور چند بار مذکور نوجوان کا واقعہ اپنی زبان در افشاں سے جماعت میں بیان فرمایا۔

قید سے رہائی: محترم خلیفہ حاجی محمد حسین صاحب نے بتایا کہ غالباً ۱۹۷۶ء کا واقعہ ہے کہ میں تبلیغ کا دورہ کرتے کرتے گڑھی خدا بخش نامی بستی پہنچا، وعظ و نصیحت کی اور حضور کے تبلیغی، اصلاحی مشن کے بارے میں لوگوں کو بتایا۔ کافی آدمی متاثر ہوئے، یہاں تک کہ بعض افراد حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے تھے۔ دوسری بار پھر جب میں وہاں گیا اور وہاں کے حاجی پیر محمد صاحب تینو کے والد کو کہا کہ اپنے فرزند کو میرے ساتھ تبلیغ میں جانے کی اجازت دے دیں، جو کہ دربار عالیہ پر بھی حاضر ہو چکا تھا۔ بہرحال حاجی صاحب کے والد نے یہ کہا کہ اپنے فرزند کو میرے ساتھ تبلیغ میں جانے کی اجازت دے دیں۔ جو کہ دربار عالیہ پر بھی حاضر ہو چکا تھا۔ بہر حال حاجی صاحب کے والد نے یہ کہہ کر معذرت چاہی کہ میرے ایک فرزند بنام علی محمد مقدمہ قتل میں اقبالی مجرم ہیں، جن کے بیانات بھی ہو چکے ہیں، ابھی صرف اعلان باقی ہے۔ اب تمام کاروبار کا ذمہ پیر محمد کے سر پر ہے، اس لئے میں اجازت نہیں دے سکتا۔ اس پر میں نے کہا کہ اگر آپ کا فرزند رہا ہوکر آجائے تو پھر حاجی صاحب کو تبلیغ پر چلنے کی اجازت دو گے۔ کہنے لگا اب تو رہائی کی کوئی صورت نہیں رہی، گواہوں کے بیان کے بعد خود لڑکا اقرار بھی کر چکا ہے۔ بہر حال پھر میں نے کہا فکر مند نہ ہوں، میرے پیر و مرشد حضرت قبلہ سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ دور حاضر کے ولی کامل ہیں، آپ انکے وسیلہ سے بارگاہ الٰہی میں دعائیں مانگتے رہیں، آپ کا فرزند رہا ہوکر آجائے گا۔ الحمد للہ ایسے ہی ہوا، کہ فیصلے کے اعلان کے وقت تمام بیانات کے برعکس جج صاحب نے علی محمد کی رہائی کا اعلان کردیا۔ حضور کی یہ کھلی کرامت دیکھ کر مذکورہ بستی کے لوگ انگشت بدندان رہ گئے۔ آج بھی بہت سے گواہ بستی میں موجود ہیں۔

ٹی۔بی کا مریض صحت مند ہوگیا: محترم خلیفہ عبدالرحمٰن صاحب (لانگری فقیر پوری) نے بتایا کہ فقیر محمد صالح کلہوڑو طویل عرصہ سے ٹی بی کا مریض تھا۔ آخری مرحلہ پر ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر اسے لاعلاج قرار دے دیا کہ اس کے پھیپھڑے بالکل ختم ہو چکے ہیں۔ وہ بیچارا حضور کی خدمت میں دعا کے لئے حاضر ہوا۔ آپ نے دعا بھی فرمائی اور اسے تسلی بھی دی، اور میرے پاس دوائی اور تعویذ کے لئے بھیج دیا۔ میں نے تعویذ بھی دیئے اور فرمان کے تحت عرق شیر بھی دے دیا۔ جس کے بعد فقیر صاحب بالکل تندرست ہوگیا، اور کافی عرصہ زندہ رہنے کے بعد بقضائے الٰہی فوت ہوگیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ لانگری صاحب موصوف نے بتایا کہ الدعاء دواء من لا دواء لہ (دعا لاعلاج بیماری کے لئے دوا کی تاثیر رکھتی ہے) کے مطابق اسے فائدہ حضور کی دعا اور نظر کرم سے ہی ہوا، میری دی ہوئی دوائی کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں تھی، محض ایک بہانہ تھی اور بس۔

گمشدہ گھڑی ملی: حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے حین حیات میں یہ عاجز آپ کے حکم سے غالباً مدرسے کی کتابیں خریدنے رمضان المبارک میں کراچی گیا۔ اور الفتح مسجد (کھنڈو گوٹھ نارتھ ناظم آباد) کے قریب محترم محمد ایوب چنہ کے مکان میں ٹھہرا ہوا تھا۔ وہاں ایک فقیر نے بتایا کہ مذکورہ مسجد کے معتکف نیک مرد جب وضو کرکے مسجد شریف میں آکر بیٹھ گئے ان کی بیش قیمت راڈو گھڑی وضو خانہ میں رہ گئی۔ کافی دیر کے بعد یاد آنے پر جب دیکھا گیا تو گھڑی غائب تھی۔ پوچھ گچھ کے باوجود کوئی پتہ نہ چلا، غالباً تیسرے دن پڑوس کا ایک آدمی گھڑی لے کر آیا اور بتایا کہ میری بچی نے گھڑی اٹھالی اور گھر میں جاکر اپنی والدہ کو دے دی، اور انہوں نے گھڑی واپس نہ کرنے کا ارادہ کرلیا۔ چنانچہ رات سوتے میں حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ نظر آئے اور فرمایا کہ بلا تاخیر معتکف کی گھڑی پہنچاؤ، ورنہ تمہیں سخت مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حضور کی کرامت اور فیوض و برکات سے تو وہ واقف تھی ہی، صبح ہوتے ہی مجھے گھڑی لا کر دیدی۔ (واضح رہے کہ جامع مسجد الفتح کا سنگ بنیاد بھی حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ نے ۱۹۷۰ء میں اپنے دست مبارک سے رکھا تھا)۔

مستجاب الدعوات: بوزدار وڈا ضلع خیرپور سے محترم کاظم علی بوزدار لکھتے ہیں کہ بلاشبہ حضور مستجاب الدعوات ولی کامل تھے۔ ہر مشکل مرحلہ میں آپ کی بابرکت دعا کام آئی۔ چنانچہ جب ۱۹۸۱ء میں میں نے H.S.T. کے لئے محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر صاحب کے آفس میں درخواست دے کر حضور سے دعا کروا کر گیا، انٹرویو کے بعد کافی دیر تک آرڈر نہیں ملا تھا، میں قدرے پریشان ہوا، جب ستائیسویں شریف کے جلسہ پر درگاہ اللہ آباد شریف حاضر ہوا، حضور نے کچھ عرض کئے بغیر محض شفقت و ہمدردی کی بناء پر مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا آپ کو گھر بیٹھے ہی آرڈر مل جائے گا، فکر مند نہ ہوں۔ بہر حال دوسرے دن جب گھر پہنچا تو بذریعہ پوسٹ آفس آرڈر پہلے گھر پہنچ چکا تھا۔ آرڈر دیکھتے ہی میرے اوپر جذبہ کی حالت طاری ہوگئی کہ میں نے کسی طرح کی ظاہری سفارش یا کوشش تو کجا انٹرویو کے بعد حیدرآباد گیا بھی نہیں، پھر بھی حضور کی نگاہ کرم کے طفیل پانچ سو امیدواروں میں سے میرا انتخاب ہوگیا۔ شروع میں ضلع جیکب آباد میں نوکری ملی تھی، جب تبدیلی کا خیال ہوا اور حضور سے دعا کرائی، تو تبدیلی کا آرڈر بھی گھر بیٹھے مل گیا، فی الوقت کرونڈی ہائی اسکول میں سائنس ٹیچر ہوں، گھر سے دور ہونے کی وجہ سے تبدیلی کی کوشش کر رہا ہوں اور حضور کے نور نظر لخت جگر صاحبزادہ سجن سائیں مدظلہ العالی سے دعا بھی کروائی ہے، انشاء اللہ تعالیٰ ان کی دعا سے ضرور میری تبدیلی ہو جائے گی۔ (فقط فقیر کاظم علی بوز دار، ۸۴۔ ۹۔ ۲۶)

نوٹ: حضور سجن سائیں مدظلہ کی دعا کے بعد ماسٹر صاحب کی خواہش کے مطابق قریب کی بستی میں تبدیلی ہو چکی ہے۔ (مؤلف)

بیماری سے صحت: محترم مولانا جان محمد صاحب نے بتایا کہ درگاہ فقیر پور شریف کے قیام کے ابتدائی ایام تھے کہ دادو سے ایک آدمی درگاہ شریف پر آیا، اس کی ٹانگوں میں اس قدر شدید درد تھا کہ اس سے چلا نہیں جاتا تھا بڑی مشکل سے پاؤں گھسیٹ کر چل رہا تھا۔ اتفاقاً اس دن حضور بھی کہیں سفر پر گئے ہوئے تھے۔ عقیدت و محبت سے دربار عالیہ کے نل سے نہایا، جس سے اسے افاقہ ہوگیا۔ حضور کی آمد پر تیل دم کروا کر ٹانگوں پر مالش کی جس سے بالکل ٹھیک ہوگیا۔ اور بتایا کہ طویل عرصہ ریح کی تکلیف کی وجہ سے میری ٹانگیں تقریباً ناکارہ ہو چکی تھیں، خوش قسمتی سے ایک جن کی رہبری سے یہاں پہنچا اور صحت مند ہوکر واپس جا رہا ہوں۔ ہوا یوں کہ ہمارے یہاں ایک آدمی کو جن نے پکڑ رکھا تھا، جو آدمی اس سے کچھ پوچھتا جن جواب دیتا تھا، میں نے بھی اس سے پوچھا کہ میری صحت کی بھی کوئی صورت ہے تو اس نے بتایا کہ ہاں تو رادھن اسٹیشن پر چلا جا وہاں بستی فقیر پور شریف میں ایک بزرگ رہتے ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ تجھے وہاں سے فائدہ ہوگا۔ الحمدللہ حضور کی توجہ عالیہ اور دعا سے اللہ تعالیٰ نے مجھے مکمل صحت کے علاوہ ذکر اللہ اور نماز کی نعمت بھی عطا کی جس سے پہلے بھی محروم تھا۔

زنا سے توبہ: نیز مولانا موصوف نے بتایا کہ تحصیل میہڑ ضلع دادو کے ایک بااثر آدمی نے ایک عورت اغوا کی، جس کے نتیجے میں اسے سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، مگر اپنی غلطی پر ڈٹا رہا۔ نہ معلوم کتنی ملکیت صرف کی، بدنام ہوا مگر باز نہ آیا۔ اتفاقاً بیمار ہوگیا، دوائی لینے کے لئے حکیم مولوی محمد عظیم صاحب کے پاس درگاہ فقیر پور شریف آیا۔ خوش قسمتی سے عین اسی وقت خواجہ خواجگان قیوم الزمان سیدی و مرشدی حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ نماز کے لئے باہر تشریف لائے، حضور کو دیکھتے ہی اس کے دل میں اس قدر خوف پیدا ہوا کہ کانپنے لگا۔ حضور سے وعظ و نصیحت سنے بغیر ہی دل و جان سے تائب ہوا، اور مولوی محمد عظیم صاحب کو صرف یہ بتایا کہ نہ معلوم کیوں میری طبیعت پریشان اور بے اختیار ہوتی جا رہی ہے، مجھے جلدی دوائی دیں میں چلا جاؤں۔ بہر حال گھر پہنچتے ہی اس عورت سے کہا کہ اب میں تیرے لئے کسی کام کا نہیں رہا۔ آج ایک بزرگ کی زیارت کی اور تہہ دل سے تائب ہوا ہوں۔ وہ پوچھنے لگی آخر اتنی مصیبتیں بھی برداشت کیں، خود بدنام ہوا اور مجھے بھی بدنام کیا۔ اب مجھے ایسے ٹھکراتا ہے، آخر اس نے ایک نہ سنی اور عورت کو واپس پہنچا دیا۔ پابندی سے نماز شروع کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارک داڑھی بھی رکھ لی۔

نگاہ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اگر ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

آک کے میٹھے پھول: کون نہیں جانتا کہ آک کے پھول غیر معمولی کڑوے ہوتے ہیں، مگر میرے پیر و مرشد کی کرامت سے آک کے پھول بھی میٹھے ہوتے دیکھے گئے، چنانچہ میہڑ کے علاقہ کے ایک فقیر کو ایک مخالف آدمی نے کہا کہ تمہارے سابق مرشد (حضرت پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ) تو بڑے صاحب کرامت تھے۔ کیا تمہارے موجودہ مرشد حضرت سوہنا سائیں (قدس سرہ) کی بھی کرامت ظاہر ہوتی ہیں، اس پر فقیر نے جذب و مستی میں آکر قریب کھڑے آک کے پھول توڑ کر اس مخالف شخص کو دیئے اور کہا کہ کھا کر دیکھو اگر میٹھے ہوں تو میرے پیر کی کرامت ماننا ورنہ نہیں۔ چنانچہ اس مخالف شخص نے آک کے پھول بڑے شوق سے کھائے اور مان گیا کہ واقعی تمہارے مرشد سوہنا سائیں قدس سرہ صاحب کرامت بزرگ ہیں۔ (احقر مرتب نے بھی وہ فقیر دیکھا تھا)

ظاہری آنکھوں سے کعبۃ اللہ کی زیارت
اورنگ آباد ناظم آباد کوارٹر کراچی سے محترم محمد طفیل صاحب لکھتے ہیں کہ میرے دوست محترم نور الاسلام صاحب (قصبہ کالونی کراچی) جب حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ سے بیعت ہوکر کراچی آئے تو حضور کی توجہ اور ذکر اللہ کی برکت سے ان پر بہت سی مہربانیاں ہوئیں۔ خاص کر یہ کہ بعض اوقات جب نماز کے لئے کھڑے ہوکر نیت باندھتے تو کعبۃ اللہ شریف بالکل سامنے نظر آتا، درمیان کے تمام حجابات ہٹ جاتے، اور سر کی آنکھوں سے کعبۃ اللہ دیکھ کر کہتے ہیں منہ میرا خانہ کعبہ کی طرف ”اللہ اکبر“۔

مرنے کے بعد دل زندہ رہا: محترم محمد طفیل صاحب لکھتے ہیں جب محترم نور الاسلام صاحب کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو مرنے کے بعد بھی ان کا دل ذکر کر رہا تھا، اللہ، اللہ، اللہ جس سے تعزیت میں آئی ہوئی دوسری عورتیں حیران ہوگئیں، آخر کار جب ڈاکٹر سے معلوم کیا گیا، تو بتایا کہ بیشک یہ مرچکی ہیں، لیکن خدا تعالیٰ کی یاد سے ان کا دل زندہ و جاری ہے۔ واضح رہے کہ یہ خاتون بھی ان ہی خوش نصیب خواتین میں سے تھیں جن کو ذکر کی اجازت ملی تھی اور بتائے طریقے کے مطابق ذکر کی طرف توجہ دی۔

سگریٹ پینے پر تنبیہہ: کراچی سے منشی عبدالحسیب فاروقی (قصبہ کالونی) لکھتے ہیں کہ حضور سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہونے کے بعد میں پان، سگریٹ چھوڑ چکا تھا لیکن ایک مرتبہ کسی کے مجبور کرنے پر غلطی سے سگریٹ کا ایک دو کش لگایا ہی تھا کہ ایسا دھچکا لگا کہ گویا پہلی بار سگریٹ پی رہا ہوں، دھچکا اس قدر شدید تھا کہ میں بے ہوش ہوکر گر پڑا، وہاں موجود ساتھیوں نے مجھے چارپائی پر لٹا دیا، اسی بے ہوشی کے عالم میں حضرت صاحب نے زیارت کرائی اور ساتھ ہی میرے داہنے پیر اور ران پر چھڑی ماری، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے آگ کا انگارہ میری ران پر رکھ دیا ہو، اور فرمایا جہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو وہاں یہ چیز اچھی نہیں لگتی، کیا دوزخ کی آگ بھول گئے ہو؟ جس جگہ حضرت صاحب نے چھڑی لگائی تھی، وہاں جھلس گیا اور شلوار بھی جل گئی تھی۔ نیز انہوں نے تحریر کیا کہ۔۔۔۔

ابھی کمی باقی ہے: ایک بار میں ایک کاریگر پر گرم ہوگیا، اسی غصہ میں تھا کہ میری انگلی مشین میں آکر کٹ گئی، رات کو خواب میں حضرت صاحب کی زیارت ہوئی اور مجھے فرمایا: ابھی کمی باقی ہے، بہک جاتے ہو، ہمارے دوست وہ ہیں جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں اور کسی پر ظلم نہیں کرتے۔

ہمیانی ملی: محترم حاجی غلام رسول (نصیر آباد ضلع لاڑکانہ کے مجذوب مخلص فقیر ہیں) ایام حج میں نہانے کے بعد غسل خانہ میں پیسوں سے بھری ہوئی ہمیانی جس میں چند ہزار ریال تھے بھول کر چلے گئے، کافی دیر بعد یاد آنے پر پیر و مرشد حضور سوہنا سائیں قدس سرہ کے وسیلہ جلیلہ سے بارگاہ الٰہی میں دعا مانگی اور مذکورہ مقام پر پہنچا تو جوں کی توں پیسوں کی ہمیانی اسی جگہ پڑی ہوئی تھی۔ حالانکہ اس درمیان کئی آدمی اس غسل خانہ میں نہا چکے تھے، اگر کوئی لے لیتا تو بڑی بات نہ تھی۔

ایمان پر خاتمہ: کیمل پور صوبہ پنجاب کے فقیر صوبیدار خدا بخش صاحب اور اس کی اہلیہ محترمہ دونوں حضور قبلہ سائیں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مرید اور بہت نیک و صالح تھے، چنانچہ صوبیدار صاحب کی اہلیہ محترمہ نے مرض الموت میں اپنے فرزند اور صاحبزادی کو فرمایا، ادب کریں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف فرما ہوئے ہیں، یہ کہہ کر کلمہ طیبہ پڑھنا شروع کیا، کوئی ساٹھ یا ستر مرتبہ بلند آواز سے کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد سورہ یٰس شریف شروع کی، جب آیت مبارکہ ”سلام قولا من رب رحیم“ پر پہنچی، مائی صاحبہ کا انتقال ہوگیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

دوسرا واقعہ: نیز مولانا محمد داؤد نے بتایا کہ فقیر میاں غلام قادر لغاری (بستی باکھڑو تحصیل و ضلع سانگھڑ) حضور قبلہ سائیں رحمۃ اللہ علیہ کے مخلص مرید تھے۔ ایک مرتبہ معمول کے مطابق پرندوں کا شکار کرنے چلا گیا۔ عشاء نماز کے وقت بالکل صحت مند تھا، نماز کے بعد مراقبہ بھی کیا اور سو گیا، تہجد کے وقت اٹھ کر اپنی زوجہ کو بلا کر جگایا اور فرمایا کہ مجھے وضو کرائیں میں آخرت کی طرف جا رہا ہوں۔ یہ کہہ کر بلند آواز سے ذکر کرنا شروع کیا۔ مائی صاحبہ نے پڑوسیوں کو اطلاع کی (جن میں بعض حضور کے مخالفین بھی تھے) وہ جمع ہوگئے، فقیر بلند آواز سے اللہ اللہ کرتا رہا، یہاں تک کہ فقیر صاحب کی آواز دھیمی ہوگئی، آخری بار بھی لفظ اللہ کے ساتھ روح عالم بالا کو چلی گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

صحت کی بشارت: محترم مولانا جان محمد صاحب نے بتایا کہ ایک بار پنجاب کے تبلیغی سفر میں پنجاب کا ایک نمبردار فقیر بھی سفر میں ساتھ تھا، دوران سفر ایک آدمی اسے لینے آیا اور بتایا کہ تیرا لڑکا اس قدر بیمار ہے کہ اب بچنے کی بظاہر کوئی امید ہی نہیں رہی، یہ بیچارہ بڑا پریشان ہوگیا اور حضور سے دعا کرائی اور اجازت لے کر چلا گیا۔ اسی سفر کے دوران پھر آکر تبلیغی سفر میں شامل ہوا، اور بتایا کہ جب میں گھر پہنچا تو میرا لڑکا بالکل پہلے کی طرح تندرست تھا، جس پر میں نے کہا خواہ مخواہ کیوں مجھے حضور کی صحبت سے بلا لیا ہے۔ اس پر لڑکے نے بتایا کہ بلاوجہ ہم نے آپ کو نہیں بلایا۔ واقعۃ مجھے اس قدر تکلیف تھی کہ میرا بچنا مشکل تھا، اچانک بیہوشی کے عالم میں ایک سرخ ریش نورانی چہرے والے بزرگ نظر آئے اور مجھے تسلی دیتے ہوئے فرمایا فکر کرنے کی ضرورت نہیں، تجھے من جانب اللہ صحت مل چکی ہے۔ ہوش آنے پر سبھی حیران ہوگئے کہ اتنی جلدی میں کیسے تندرست ہوگیا۔ اس پر میں نے کہا، یہی علامات میرے پیر و مرشد حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی ہیں، جن کے ساتھ میں سفر میں گیا ہوا تھا۔

گھڑی ملی: محترم مولوی محمد رحیم صاحب (دلچنڈ مورو) لکھتے ہیں کہ میرے پڑوسی فقیر محمد ایوب کے بھانجے کی گھڑی واٹر کورس میں گری، کافی تلاش کے بعد جب تھک ہار کر بیٹھ گئے، فقیر محمد ایوب وہاں پہنچے تو موجود چند آدمیوں نے اسے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ ہمارا ”پیر کامل“ ہے، آج گھڑی تلاش کرکے دیں تو ہم مان لیں گے کہ واقعی تمہارا پیر کامل ہے۔ فقیر صاحب حق سوہنا سائیں کہہ کر واٹر کورس میں داخل ہوا، جیسے ہی پانی میں ہاتھ ڈالا گھڑی ملی، وہاں پر موجود افراد حیران رہ گئے کہ ہم نے اتنی تلاش کی گھڑی نہ ملی، اب بلا تکلف کیسے مل گئی، یہ ان کے پیر کی کرامت ہی ہے۔ بہرحال حضور کی یہ کرامت دیکھ کر ہماری بستی کے کئی آدمی دربار عالیہ پر حاضر ہوئے، ذکر سیکھا، نماز شروع کی، داڑھیاں بھی رکھ لیں۔ الحمد للہ علے ذلک۔
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
ایک اور خوشخبری
کراچی سے محترم مولانا عبدالغفور صاحب (خطیب عثمانیہ مسجد نارتھ ناظم آباد اسٹیشن) لکھتے ہیں کہ جب جامشورو ہسپتال میں میرے گردوں کا آپریشن ہوا تو ڈاکٹروں نے گلوکوز کی بوتل لگائی، بدقسمتی سے ری ایکشن ہوگیا، دفاعی طور پر ڈاکٹروں نے ایک ساتھ کئی انجکشن لگائے، جس سے میں نیم بیہوش ہوگیا۔ اتنے میں یہ آواز سنائی دی کہ کسی نے دوسرے سے کہا (ان میں سے کوئی نظر نہیں آرہا تھا) یہ آدمی مر جائے گا اور دوسرے نے کہا نہیں اس کا مرشد کامل ہے وہ اس کی امداد کرنے آرہا ہے۔ اتنے میں حضور سوہنا سائیں قدس سرہ (اس وقت بقید حیات تھے) نظر آئے۔ میں نے استقبال کے لئے اٹھنے کی کوشش کی مگر آپ نے اشارے سے اٹھنے سے منع کیا۔ اتنے میں پھر وہی غیبی آواز سنائی دی کہ یہ شخص مر جائے گا، دوسرے نے کہا نہیں اس کے مرشد کامل نے دعا مانگی ہے، خود رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم اس کے یہاں تشریف فرما ہونے والے ہیں۔ چنانچہ حضور پر نور صلے اللہ علیہ وسلم نظر آئے، آپریشن کے زخم پر دست شفقت پھیرا جس سے تکلیف دور ہوگئی اور حرارت کی بجائے سردی محسوس ہونے لگی، نیز میری طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرمایا ”ہم نے تیری صحت یابی کے لئے دعا کی ہے فکر نہ کریں، تیرے مرشد سوہنا سائیں کامل ولی ہیں، جس نے ان سے ذکر سیکھا بخش دیا گیا، اسی طرح جس نے ان کے کسی خلیفہ سے ذکر سیکھا وہ بھی بخش دیا گیا خواہ آپ ہی سے ذکر سیکھا ہو“۔

حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی کرم نوازی

نیز مولانا موصوف لکھتے ہیں حاجی علی خان بلوچ جب درگاہ فقیر پور شریف حاضر ہوا، مجھے بتایا کہ میں یہاں حضور کی ایک خاص کرامت دیکھ کر اور بھی بے حد متاثر ہوا ہوں، وہ یہ کہ میرے دل میں اہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بے حد محبت ہے، یہاں آکر سوچنے لگا کہ نہ معلوم ان بزرگوں کو اہل بیت سے کتنی محبت ہے؟ جب سویا تو خواب میں دیکھا کہ عارف شہید نامی قبرستان سے نورانی چہروں والے دو نوجوان سیدھے مسجد شریف میں آکر حضرت سوہنا سائیں قدس سرہ کے قریب رونق افروز ہوکر فرمانے لگے: ہم میں سے ایک (حضرت امام) حسن اور دوسرے (حضرت امام) حسین رضی اللہ عنہما ہے۔ پھر فرمایا یہ جماعت ہماری ہے، ہمیں ان سے محبت ہے، اسی لئے تو ہم یہاں آئے ہیں۔ اس خواب کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ حضرت سوہنا سائیں قدس سرہ اور آپ کی جماعت صحیح معنوں میں اہل بیت عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پیارے اور انکے نقش قد م پر چلنے والے ہیں۔

حضور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم اور دیگر بزرگوں کی زیارت:
نوابشاہ سے محترم مقصود الٰہی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ایک بار میرا چھوٹا بھائی جیسے ہی قرآن شریف کی تلاوت سے فارغ ہوکر گھر آیا تو اسے سخت بخار تھا، آتے ہی والدہ صاحبہ سے کہا، مجھے دودھ لاکر دو، سخت سردی لگ رہی ہے۔ پھر ایک دم اللہ کی ضرب مار کر کہنے لگا، جلدی جلدی عرق گلاب چھڑکو رسول اللہ تشریف فرما ہیں اور نفل ادا فرما رہے ہیں، اور ذرا ہٹ کر قریب ہی حضرت پیر عبدالقادر جیلانی محبوب سبحانی قدس سرہ جائے نماز بچھا کر نفل ادا فرما رہے ہیں۔

جن بھاگ گیا: نیز مولانا موصوف لکھتے ہیں کہ قصبہ کالونی کراچی میں ایک بچی کو جن نے پکڑ رکھا تھا، مجھے لے گئے، میرے جانے کے بعد بھی کافی دیر تک جن بضد رہا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے ذکر کی ضربوں سے بھاگ گیا۔ مریضہ تو ٹھیک ہوگئی، لیکن رات کو جیسے ہی مکان میں آکر سویا تو گھٹن محسوس کی، پھر دیکھا کہ سامنے ایک جن کھڑا ہے، کہنے لگا مجھ سے ٹکر لے کر تو نے اچھا نہیں کیا۔ پہلے تو میں ڈر گیا، مگر بعد میں ہمت کرکے حضور سوہنا سائیں قدس سرہ کو پکارا، فوراً دائیں طرف سے حضور آکر نمودار ہوئے، آپ کو دیکھتے ہی جن بھاگ گیا اور پھر کبھی مجھے تنگ نہ کیا۔

جن بھی فیض لینے آئے: کراچی سے ہی مولانا عبدالغفور صاحب لکھتے ہیں کہ بلوچ کالونی میں حضور کی جماعت کا جلسہ تھا، مولانا غلام نبی صاحب تقریر فرما رہے تھے، جماعت میں سخت گریہ و وجد کی حالت طاری تھی۔ دوران تقریر دو آدمی اٹھے اور دوڑتے ہوئے چلے گئے۔ اختتام جلسہ پر پتہ چلا کہ ان دونوں آدمیوں پر جنوں کا قبضہ تھا، بعد میں بتانے لگے کہ جلسے میں غیر معمولی تعداد میں جن حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کا فیض لینے آئے تھے، ہم ان کو دیکھ کر بھاگے تھے، مگر باہر دیکھا تو ان سے کہیں زیادہ تعداد میں جن بیٹھے تقریر سن رہے ہیں۔

اٹھو مکان گرنے والاہے: مورو کے محترم محمد مشتاق صاحب عرف جھنڈو فقیر نے بتایا کہ ایک رات تقریباً دو بجے میری شادی شدہ بیٹی کو خواب میں حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ نظر آئے، آپ نے فرمایا جلدی باہر نکلو (مکان کے اندر سوئے ہوئے تھے) مکان گرنے والا ہے، قرآن شریف بھی اپنے ساتھ باہر لے چلو، کہیں اس کی بے ادبی نہ ہو، مائی صاحبہ اٹھی، ہلا کر شوہر کو اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانا۔ قرآن شریف اٹھا کر ادب سے باہر رکھ دیئے، دوبارہ شوہر کو ہلایا پھر بھی وہ نہ اٹھا، آخر کار اس کی چارپائی الٹا دی اور وہ زمین پر گرا اور غصے کے عالم میں یہ کہتے ہوئے باہر نکلا کہ خواہ مخواہ تم نے میری نیند خراب کی ہے۔ اس کا مکان سے نکلنا ہی تھا کہ مکان گر گیا۔ ایک ساتھ چھت اور دیواریں گرنے کی آواز دور دور تک سنائی دی، پڑوسی دوڑتے ہوئے امداد کے لئے آ پہنچے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ تمام افراد خانہ سلامت صحن میں کھڑے ہیں اور ضروری سامان بھی باہر نکال رکھا ہے۔

بیماری سے صحت: فقیر صاحب نے بتایا کہ میری مذکورہ بیٹی جو کہ از حد پارسا حضور کی نیک مریدنی ہے۔ ایک مرتبہ اس قدر سخت بیمار ہوگئی کہ مسلسل ایک ماہ سول ہسپتال حیدرآباد میں زیر علاج رہی، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ دوسرے کئی بڑے بڑے ڈاکٹروں سے علاج کرایا، اور ایک ہفتہ برابر حضرت شہباز قلندر رحمۃ اللہ علیہ کے دربار پر سیہون شریف بھی رہے مگر بیماری ختم نہ ہوئی۔ آخر جب میں اسے درگاہ اللہ آباد شریف لے کر آیا، حضور سوہنا سائیں قدس سرہ سے دعا منگوائی، لنگر کا کھانا کھلایا، تو فوراً صحت یاب ہوگئی، حضور کی یہ ظاہر کرامت دیکھ کر اس کے سسرال جو پہلے حضور سے کوئی عقیدت نہیں رکھتے تھے وہ بھی حضور سے فیضیاب ہوئے۔

حج نصیب ہوا: فقیر حاجی اول دراز خان پٹھان (سینڈوز کمپنی جامشورو) نے احقر کو بتایا کہ عرصہ سے مجھے حرمین شریفین کی زیارت باسعادت کا شوق دامنگیر تھا، اسی شوق و محبت کی وجہ سے اپنی تنخواہ کا معقول حصہ بچاتا رہا اور قناعت سے گھریلو اخراجات کو پورا کرتا رہا۔ جب سفر حج کے قابل پیسے جمع ہوگئے حضور سے اجازت لینے طاہر آباد شریف حاضر ہوا۔ حضور نے خوشی سے اجازت دی۔ جب واپس جامشورو پہنچا تو گھر (صوبہ سرحد) سے بھائی کا خط آیا کہ تمہارا مکان گر گیا ہے۔ جلدی آکر اس کی تعمیرکرائیں۔ میں بڑا پریشان ہوا۔ پھر دوبارہ اپنے محسن مرشد و مربی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا، تمام صورتحال عرض کی، آپ نے فرمایا بہتر یہ ہے کہ آپ اپنا مکان بنوائیں انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو حج کی سعادت بھی حاصل ہو جائے گی۔ گو میں اپنی محدود تنخواہ کی بنا پر جلدی حج پر جانے کی امید نہیں کرسکتا تھا۔ مگر حضور کے ارشاد سے مطمئن ہوکر حج کا پروگرام ملتوی کردیا اور پیسے مکان کی تعمیر کے لئے بھیج دیئے، صرف ایک سال کے وقفہ سے سینڈوز کمپنی کی طرف سے فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے سینکڑوں ملازمین میں سے میرا نام نکل آیا اور ذاتی پیسہ خرچ کئے بغیر بڑی سہولت سے حج کر آیا اور وہاں اکثر اوقات حرم مکہ اور حرم مدینہ منورہ زادھما اللہ شرفا و تعظیما میں ہی رہا۔

خواب میں طمانچہ: موسیٰ گوٹھ کراچی سے مولانا عبدالغفور صاحب لکھتے ہیں کہ سپاہی سید غلام رسول شاہ صاحب نے جب حضور سے بیعت کی داڑھی مبارک رکھ لی، تو اس کے ساتھی سپاہیوں نے اسے بڑا تنگ کیا، چنانچہ ایک دن شاہ صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے ساتھیوں کے ہنسی مذاق سے تنگ آکر داڑھی منڈھوانے کا ارادہ کرلیا تھا۔ مگر رات کو خواب میں حضور سوہنا سائیں قدس سرہ (ابھی حیات تھے) نظر آئے، مجھے سخت تنبیہہ کرتے ہوئے ایک طمانچہ رسید کیا اور فرمایا، ذکر اللہ بھی کریں اور دین میں سستی بھی کریں، یہ مناسب نہیں۔ میں بڑا شرمسار ہوا کہا اب وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی داڑھی صاف نہیں کراؤں گا۔
کرامت: کراچی سے محترم محمد طفیل لکھتے ہیں کہ ایک دن تقریباً تین بجے دفتر سے واپس گھر پہنچا، گھر والی نے بتایا کہ آج اس نے اپنی بہن اور دولہا بھائی کی دعوت کا انتظام کیا ہے، آپ صرف گوشت کا انتظام کریں۔ یہ عاجز گھر سے نکلا ہی تھا کہ یاد آیا کہ پیسے تو ہیں نہیں، اس کے ساتھ ہی یاد آیا کہ حضور سوہنا سائیں قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ہر وقت دل کی طرف خیال رکھو کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔ بس میں نے ذکر کرنا شروع کیا ساتھ ہی اپنے پیر و مرشد کا تصور بھی کیا اور چکر لگانے لگا کہ پیسوں کے بغیر کیسے بازار جاؤں، اتنے میں محمد شاکر نامی دوست گوشت (قربانی کا گوشت تھا) کا بھرا ہوا کونڈا لے آیا اور کہا کہ جتنا گوشت چاہو لے لو، اسی وقت عاجز کی زبان سے بے ساختہ نکلا حق سوہنا سائیں، بلاشبہ اللہ والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نائب ہوتے ہیں۔

بیماری سے شفایابی: کراچی سے محترم مولانا مقصود الٰہی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک بار مسلسل برابر مہنیہ بیمار رہا۔ اس قدر کمزور ہوگیا کہ نماز بھی چارپائی کے سہارے بیٹھ کر پڑھتا تھا، نماز کی اس طرح ادائیگی کے بعد ایک مرتبہ مراقبہ کیا، مراقبہ میں حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی زیارت ہوئی، آپ نے فرمایا کیا ہوا ہے؟ جب میں نے بیماری کا بتایا تو سر کے پیچھے ہاتھ دے کر سہارا دیا، اور ایک مٹی کے پیالے سے صاف شفاف پانی عاجز کو پلایا، جب مراقبہ سے منہ اٹھایا بالکل تندرست و توانا تھا، فجر کی نماز چل کر باجماعت مسجد میں ادا کی۔

جنوں کی تابعداری: نیز مولانا صاحب لکھتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ جو شخص سچے دل سے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلّی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق اس کی غلامی پر فخر کرتی ہے۔ اس سلسلہ میں اپنے مشاہدہ کے دو واقعات عرض کرتا ہوں۔

۱۔ ناظم آباد کراچی کے ایک حلقہ میں ایک شخص کو جن نے پکڑا، جب اسے حاضر کیا گیا تو کہنے لگا کہ میں حضور سوہنا سائیں کا غلام ہوں، اگر یہ آدمی گندی حرکتوں سے باز آجائے تو میں ہمیشہ کے لئے چھوڑ دوں گا ورنہ نہیں۔

۲۔ اسی طرح ایک لڑکی کو ایک سرکش جن نے پکڑا ہوا تھا، تین تین گھنٹے تک مسلسل بے ہوشی رہتی تھی، جب مجھے چلنے کے لئے کہا گیا، تو میں نے کہا شریعت کے مطابق پردہ کرائیں تو چلوں گا، بہرحال جب میں ان کے گھر گیا تو پردہ میں نصیحت کی، ذکر کی تعلیم دی اور حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی کرامات بتا کر مراقبہ کرایا، تو مراقبہ میں جن کو جذبہ ہوگیا، اور صاف الفاظ میں بولا، آج میں مسلمان ہوتا ہوں اور ہمیشہ کے لئے پیر سوہنا سائیں کی غلامی قبول کرتا ہوں آئندہ کبھی اس لڑکی کو تنگ نہیں کروں گا۔

طواف کعبۃ اللہ شریف: کراچی سے مولانا عبدالغفور صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے حاجی قاسم علی قائم خانی (میر پور خاص) نے بتایا کہ ایام حج میں ایک بار حضور سوہنا سائیں قدس سرہ کو کعبۃ اللہ شریف کا طواف کرتے اور نماز پڑھتے دیکھا، مگر نماز کے فوراً بعد غائب ہوگئے۔ پاکستان واپسی پر جب درگاہ فقیر پور شریف آئے اور دریافت کرنے پر فقیروں نے اسے بتایا کہ حضور اس سال حج کرنے نہیں گئے تھے، اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ آخر کافی فقیروں کے بتانے پر اسے یقین آیا اور سمجھا کہ واقعی یہ حضور کی کرامت ہے کہ حرمین شریفین میں حاضر ہوتے ہیں۔

حرم شریف میں تقریر کرتے ہوئے دیکھا: میرپور خاص ہی کے فقیر محمد امین میمن صاحب جب درگاہ فقیر پور شریف آئے، حضور کے خطاب کے دوران اسے جذبہ ہوگیا، تین گھنٹے مسلسل وجد میں بے ہوش رہا، ہوش آنے پر اس نے بتایا کہ بے خودی کے عالم میں مجھے حضور سوہنا سائیں قدس سرہ حرم کعبۃ اللہ شریف میں تقریر فرماتے نظر آئے۔ میں نے قدم بوسی کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوسکا۔

بندوق بے اثر ثابت ہوئی: زمین کے تنازعہ پر محترم فقیر محمد حسن صاحب بوزدار کے مزارع فقیر محمد کمال کو مارنے کے لئے مخالفین بندوق لے گئے، اچانک راستہ میں اس پر حملہ کیا۔ فقیر صاحب تن تنہا مقابلہ تو نہیں کرسکتے تھے، بس اللہ اللہ، حق سوہنا سائیں، حق سوہنا سائیں کہتا رہا۔ مخالفین نے یکے بعد دیگرے کئی راؤنڈ چلائے اور ہر بار بندوق کی گولیاں فقیر سے ٹکڑا کر زمین پر گرتی رہیں اور یہ کھڑا ذکر کرتا رہا، یہ دیکھ کر مخالفین بھی پریشان ہوگئے، آخر کار پے در پے کلہاڑیوں کے وار کرکے، فقیر صاحب کو گرا کر بھاگ گئے۔ حضور کی یہ کرامت علاقہ بھر میں مشہور ہوگئی، مخالفین خود گواہ ہیں اور اب بھی فقیر محمد کمال اور ان کے مخالفین زندہ ہیں۔

نوٹ: گو فقیر محمد کمال عرصہ سے حضور کا بیعت تھا مگر اس وقت تک داڑھی نہیں رکھی تھی، اس کرامت کے بعد داڑھی قبضہ برابر رکھ لی ہے۔

اولیاء را ہست قدرت از الہٰ
تیر جسۃ باز گردانند ز راہ

گھر جائیں: محترم مولانا محمد وارث جبلہ صاحب (ضلع ملتان) نے احقر مرتب کو بتایا کہ حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے وصال شریف کے بعد ایک مرتبہ زیارت و ایصال ثواب کے لئے درگاہ اللہ آباد شریف حاضر ہوا، جب حضور کے مزار اقدس پر مراقب ہوا، آپ کی زیارت ہوئی۔ آپ نے فرمایا مولوی صاحب آپ گھر چلے جائیں۔ گو اس وقت مجھے آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی، پھر بھی میں درگاہ شریف پر رات رہے بغیر اسی وقت واپس ہوا۔ سفر کے اختتام پر جیسے ہی اپنی بستی کے قریب پہنچا تو اسپیکر پر یہ اعلان سنا کہ مولانا محمد وارث صاحب جہاں کہیں ہوں فوراً گھر واپس آجائیں، جانے پر معلوم ہوا میرے پھوپھا (غالباً یا کوئی اور قریبی رشتہ دار کا نام بتایا) انتقال کر چکے ہیں، اور جنازہ پڑھانے کے لئے میرے نام وصیت کر گئے ہیں کہ وہی میرا جنازہ پڑھائیں گے، تجہیز و تکفین کے بعد صرف اس وجہ سے جنازہ رکھا ہوا ہے۔ تو حضور کے ارشاد کی حکمت اس وقت سمجھ میں آئی۔

کرامت: محترم مولانا مفتی عبدالرحمٰن صاحب نے بتایا کہ ایک بار حضور محترم جناب عبدالکریم منگی صاحب رحمۃ اللہ علیہ (ریٹائرڈ مختار کار) کی دعوت پر لاڑکانہ تشریف لے گئے، وہاں منگی صاحب کے ایک دوست ڈاکٹر محمد پنھل اپنی کمسن بچی کو دم کرانے کے لئے لے آیا، حضور نے اسے دم کیا، دعا فرمائی، کچھ عرصہ بعد مذکور ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ میری بچی کو شکم مادر سے ایک موذی مرض لاحق تھا، جس کا علاج شروع سے تو میں نے خود کیا، فائدہ نہ ہونے پر کراچی کے بڑے بڑے ڈاکٹروں کے پاس لے گیا، مگر ذرہ برابر بھی فرق نہ ہوا۔ آخر جب اپنے محسن بزرگ منگی صاحب کے کہنے پر بچی کو حضور کے پاس دم کرانے لے گیا، حضور نے اس کے جسم پر بابرکت دست مبارک پھیر کر دعا فرمائی، اس کے بعد بتدریج فائدہ ہوتا رہا، یہاں تک کہ اب بالکل تندرست و توانا ہے، جبکہ اس درمیان کسی قسم کی دوائی نہیں دی۔

فاحشہ عورت پارسا بن گئی: محترم مولانا غلام قادر صاحب اور مورو کے دیگر کافی احباب نے بتایا کہ مورو شہر کے قحبہ خانہ کی ایک طوائف اتفاقاً حضور کے مخلص صالح مرید فقیر رسول بخش رحمۃ اللہ علیہ (ٹیلر ماسٹر شہر مورو) کے سامنے آئی، معلوم ہونے پر فقیر صاحب پر وجد کی حالت طاری ہوگئی اور کافی دیر تک اسے نصیحت کرتا رہا اور وہ خاموش سنتی رہی، جب اسے یہ کہا کہ خدا کی بندی خدانخواستہ اگر توبہ کئے بغیر تو اسی حالت میں مرگئی تو کل بروز قیامت خاتون جنت رضی اللہ تعالی عنہا کے سامنے کس منہ سے حاضر ہوگی۔ فقیر کی قلبی آہ کی تاثیر اسی وقت ظاہر ہوئی کہ وہ زار و قطار روتے روتے توبہ توبہ کرنے لگی، اور بعد میں عملی طور پر بھی اپنی توبہ کا ثبوت پیش کیا کہ وہ اڈہ ختم کر دیا، نماز شروع کی۔ حالانکہ یہ عورت اس قدر چالاک و ہوشیار تھی کہ کئی اچھے بھلے آدمیوں کی بھی پٹائی کرچکی تھی۔ مگر بعد میں مثالی اخلاق و کردار کا مظاہرہ کیا، اور اسی توبہ پر مستقل کاربند رہی، جس سے مورو شہر کے لوگ حضور کے اور بھی زیادہ عقیدت مند ہوگئے۔

کشتی کنارے پہنچی: جیکب آباد سے سید محمد جیئل شاہ صاحب جیلانی لکھتے ہیں (درج ذیل کرامت کے کئی اور گواہ بھی موجود ہیں) ویسے تو حضور سوہنا سائیں قدس سرہ کی سیرت و صورت ہی یک گونہ کرامت تھی۔ تاہم ظاہری طور پر بھی مجھے آپ کی کرامات بکثرت دیکھنی اور سننی نصیب ہوئی ہیں۔ ۱۹۸۰ء میں پنجاب کے تبلیغی سفر میں حسب معمول یہ عاجز حضور کے ساتھ گیا تھا، مورخہ ۲۵۔۵۔۸۰ کو دربار رحمت پور شریف نزد بچیکی میں جلسہ تھا، بے شمار افراد حضور کی زیارت اور وعظ سننے کے منتظر تھے۔ حضور کی آمد پر جب تمام لوگ زیارت مصافحہ اور دعا سے مستفیض ہوئے تو ایک اجنبی شخص جو پہلے کبھی ہم نے نہیں دیکھا تھا اجازت لے کر کھڑا ہوا، اور اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر درج ذیل کرامت بیان کی کہ کئی سال پہلے ایک بار میں اپنے ساتھیوں سمیت کشتی پر سوار تھا، ہماری کشتی ساحل سے کوسوں دور سمندر میں تھی کہ اچانک طوفان آگیا۔ طوفان کی وجہ سے اچانک کشتی سمندر کے تھپیٹروں کی زد میں ہمارے لئے پیغام اجل سنا رہی تھی اور سبھی زندگی سے ناامیدی کے عالم میں حیران و پریشان بارگاہ الٰہی میں فریاد کناں تھے کہ غیر متوقع طور پر میری آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتا ہوں سبحان اللہ، ایک دراز قد، مہندی سے سرخ ریش مبارک، نورانی چہرے والے ایک بزرگ نے آکر اپنے دست مبارک سے جیسے ہی زور دے کر کشتی کو اوپر اٹھایا ہے کشتی کنارے آن لگی ہے۔ اتنے میں آنکھ کھلی تو واقعی طور پر کشتی ساحل پر پہنچ چکی تھی۔ آن کی آن میں طوفان سے سلامت بچ کر کنارے پہنچنے کی حکمت میرے کسی رفیق کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی جبکہ میں اس سرخ ریش اللہ والے کی باذن اللہ امداد دیکھ کر اسی دن سے کئی مشہور بزرگوں کی خانقاہوں پر حاضر ہوکر اس سرخ ریش بزرگ کو تلاش کرتا رہا کہ کہیں مل جائیں تو ان سے بیعت کروں، فیض حاصل کروں۔ اتنا عرصہ (غالباً دس سال کہا) تو میری قسمت نے یاوری نہ کی تھی مگر الحمدللہ آخر میری مراد بر آئی اور میں بھری مجلس میں خدا کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں، یہی وہ بزرگ تھے جس نے ہماری کشتی کو سمندر کے طوفان سے نکال کر کنارے پہنچایا تھا۔ نیز شاہ صاحب قبلہ نے تحریر فرمایا کہ:

دوسری کرامت: میرے والد ماجد عرصہ سے بیمار تھے۔ ایکسرے اور ٹیسٹ وغیرہ کے بعد ڈاکٹروں نے ہمیں مایوس لوٹا دیا۔ گھر پہنچ کر مشورہ کیا اور الدعاء دواء من لا دواء لہ (جس مرض کے لیے دعا ہی دوا ہے) کے مطابق دعا کے لئے حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں درگاہ فقیر پور شریف حاضر ہوا۔ آپ نے دعا فرمائی۔ میں مطمئن ہوکر گھر پہنچا تو دیکھا حضرت قبلہ والد ماجد بالکل تندرست ہیں۔ حالانکہ طویل بیماری کے بعد کھانا پینا بالکل ترک کر چکے تھے اور ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے کر ہمیں واپس کر دیا تھا۔ الحمد للہ حضور کی مستجاب دعا کے بعد دو ڈھائی سال تک زندہ رہے، کھانا پینا معمول کے مطابق اور اٹھنے بیٹھنے میں بھی کسی کے محتاج آخر تک نہ ہوئے۔ صرف یہی ایک بار نہیں بلکہ خدا کی قسم جب کبھی بھی کسی مشکل کے وقت میں نے آپ سے دعا کرائی کبھی رد نہ ہوئی، ہمیشہ بامراد ہی لوٹا۔
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
آپریشن کیا: فقیر علی محمد صاحب (جو کہ حضرت قبلہ فقیر میر محمد صاحب قادری لوڑھائی مدظلہ کے مرید ہیں) نے بتایا کہ ایک مرتبہ ملازمت کے سلسلے میں کوئٹہ جانا تھا۔ اجازت کے لئے فقیر صاحب کے حضور گیا۔ اجازت لیتے وقت میں نے عرض کی حضور دور جا رہا ہوں، آٹھ، نو ماہ بعد ہی حاضر ہو سکوں گا، اپنی نظر عنایت اور دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔ فقیر صاحب نے فرمایا نماز اور ذکر میں سستی نہ کرنا اپنے دل اور نظر کی حفاطت کرنا، جب کبھی کوئی مشکل درپیش ہو اپنے مرشد کامل کے وسیلہ سے بارگاہ الٰہی میں دعا کرنا، انشاء اللہ تعالیٰ ان کے طفیل تیری مشکل آسان ہوگی۔ بہر حال کوئٹہ پہنچنے کے چند ماہ بعد ٹانگوں میں اس قدر شدید درد پیدا ہوگیا کہ چلنے پھرنے سے عاجز آگیا۔ ڈاکٹروں سے بہت علاج کرایا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، بالاخر ظاہری اسباب و وسائل سے نا امید ہوکر جب سوچا تو اپنے آپ کو پیر صاحب مدظلہ کے فرمودات کے خلاف پایا اور انتہائی ندامت سے ان کے وسیلہ سے بارگاہ الٰہی میں دعا کی اور سو گیا۔ خواب میں اپنے آپ کو درگاہ لوڑھو شریف کی جامع مسجد کے سامنے والے چبوترے پر پایا۔ جہاں فقیر صاحب مدظلہ کے ساتھ ایک سرخ ریش نورانی چہرہ والے ایک اور بزرگ نظر آئے جو پہلے کبھی میں نے نہیں دیکھے تھے۔ جب میں نے فقیر صاحب مدظلہ سے اپنی تکلیف کا بیان کرکے دعا کی درخواست کی تو آپ نے وہاں موجود دوسرے بزرگ سے عرض کی، حضور مریض کا علاج فرمادیں جس پر انہوں نے فرمایا، یہ آپ کا دربار ہے آپ ہی ان کا علاج کریں۔ اس پر فقیر صاحب مدظلہ نے کہا، حضرت آپ تو سرجن ڈاکٹر ہیں، آپ کے ہوتے ہوئے ہم کیا کر سکتے ہیں۔ جس پر مہمان بزرگ انکساری اور تواضع کے عالم میں بہت کترایا مگر فقیر صاحب کے زیادہ مجبور کرنے پر مجھے قریب بلایا اور میری دونوں ٹانگیں گھٹنوں سے اکھاڑ کر باہر رکھ دیں اور ان سے کچھ غلاظت نکالنے کے بعد میری ٹانگیں پہلے کی طرح درست کیں اور ٹانگوں پر اپنا لعاب دہن لگایا جس سے میں بالکل ٹھیک ہوگیا۔ صبح بیدار ہونے پر بالکل تندرست تھا۔ جب اٹھ کر چلنے لگا تو تمام اہل خانہ تعجب کرنے لگے۔ میں نے ان کو خواب کا تفصیلی واقعہ سنایا۔ اس کے بعد سیدھا ان ڈاکٹروں کے پاس چلا گیا، جن کے علاج سے مطلق فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر ڈاکٹر صاحبان بھی حیران ہوگئے کہ ایک رات میں کیسے صحت مند ہوگیا۔ جب ان کو بھی خواب کا واقعہ سنایا تو ماننے لگے کہ واقعی اہل اللہ کی نظر عنایت سے اس قدر فوری فائدہ ہو سکتا ہے جبکہ ہماری دواؤں سے اس قدر جلدی فائدہ کی مطلق امید نہ تھی۔ کچھ عرصہ بعد جب فقیر صاحب مدظلہ کی خدمت میں درگاہ لوڑھو شریف حاضر ہوا تو مجھے دیکھتے ہی پوچھے بغیر میری غلطی کی نشاندہی کی، میں شرم کے مارے پانی پانی ہوگیا اور معافی طلب کی اور سمجھا کہ واقعی اللہ والے باذن الٰہی دور سے بھی امداد کر سکتے ہیں۔ ابھی حیران تھا کہ وہ سرخ ریش بزرگ کون تھے جنہوں نے میری ٹانگوں کا آپریشن کیا۔ چنانچہ جب اتفاقاً ایک مرتبہ نماز جمعہ پڑھنے درگاہ اللہ آباد شریف گیا اور حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ نماز کے لئے تشریف لائے تو مجھے بعینہ وہی صورت نظر آئی جس نے کوئٹہ میں میری ٹانگوں کا آپریشن کیا تھا۔ نماز کے بعد جب دوسرے فقراء آپ سے مصافحہ کرنے لگے، میں نے بھی آگے بڑھ کر مصافحہ کرنا چاہا تو آپ نے توجہ سے میری طرف دیکھ کر فرمایا، ابھی تو ٹھیک ہے کسی قسم کی تکلیف تو نہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس وقت آپ کا سوالیہ انداز ایک جانے پہچانے شخص کی طرح تھا، جیسے کہ آپ میری بیماری سے پوری طرح باخبر ہوں۔ حالانکہ میں پہلی بار ہی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ بظاہر آپ مجھے نہیں جانتے تھے، وہیں دوسرے نئے فقیروں کے ساتھ میں نے بھی ذکر سیکھ لیا۔

پتھری کا اخراج: راولپنڈی سے محترم عبدالغفور صاحب لکھتے ہیں کہ میری بیوی کو پتھری کی شکایت تھی۔ ایک رات اس قدر شدید درد شروع ہوا کہ وہ زندگی سے مایوس ہوکر مجھے کہنے لگی کہ اب میرا آخری وقت آگیا ہے اگر کوئی گستاخی ہوئی تو معاف فرما دیں، وغیرہ۔ پوری رات اس شدید تکلیف میں گزاری۔ صبح میں حضور کے پیارے خلیفہ سید محمد اسماعیل شاہ صاحب کے یہاں گیا اور صورت حال عرض کی۔ آپ نے چند تعویذ دے دیئے اور فرمایا، فکر نہ کریں انشاء اللہ تعالیٰ حضور سوہنا سائیں کے صدقے شفاء کاملہ حاصل ہوجائے گی۔ شاہ صاحب قبلہ نے دس دن کے تعویذ دیئے تھے۔ مگر خدا کے فضل سے آٹھویں دن ہی پیشاب کے ذریعے یک لخت آواز کے ساتھ پتھری خارج ہوگئی اور بیوی نے سکون کا سانس لیا۔ الحمدللہ پھر کبھی پتھری کی شکایت نہیں ہوئی۔

چور نابینا ہوگئے: استاد محترم مولانا قاری عبدالرسول صاحب (وارہ ضلع لاڑکانہ) نے بتایا کہ جن ایام میں، میں درگاہ فقیر پور شریف میں تعلیمی خدمات انجام دیتا تھا، قریبی بستی کے چند ڈاکو چوری کرنے درگاہ فقیر پور شریف آرہے تھے۔ جب درگاہ شریف سے متصل ریلوے لائن پر پہنچے تمام کے تمام نابینا ہوگئے، اگر پیچھے مڑ کر دیکھتے تو راستہ صاف دکھائی دیتا تھا اور جب درگاہ کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتے تھے تو اندھیرا ہی اندھیرا معلوم ہوتا تھا۔ آخر مجبور ہوکر واپس لوٹے۔ دوسرے دن اپنے چور ساتھیوں سے یہ واقعہ بیان کیا اور زبانی زبانی یہ واقعہ علاقہ بھر میں مشہور ہوگیا۔

دعا کی تاثیر: واسط الکوت عراق سے انجینئر عبدالحمید منگی صاحب نے (جو کہ حضور کے پرانے خادم صالح آدمی تھے) حضور سوہنا سائیں قدس سرہ کے نام اپنے خط میں تحریر کیا کہ اے میرے آقا یتیموں کے یار غریبوں کے غم خوار معروض باد کہ بندہ نے سابق خط میں جس عمر رسیدہ خاتون کی صحت کے لئے دعا کی درخواست کی تھی۔ حضور کی نظر عنایت سے اب وہ بالکل تندرست ہو چکی ہے۔ ایک دن اس کی تکلیف و پریشان حالی دیکھ کر حضور کو پیش نظر تصور کرکے توکل علی اللہ میں نے اسے ایک تعویذ لکھ کر دے دیا اور کہا گلے میں باندھیں، مگر وہ نہ مانی اور گھٹنے پر بندھی ہوئی ایک پٹی میں باندھ لیا (گھٹنوں کی شدید تکلیف کی وجہ سے اس نے دونوں گھٹنے سخت پٹیوں سے جکڑ رکھے تھے) بہر حال بڑی مشکل سے عصا کے سہارے اٹھی اور معمول کے مطابق آہستہ آہستہ چلی گئی۔ بمشکل آدھ گھنٹہ گزرا ہوگا کہ کسی سہارے کے بغیر ایک تندرست آدمی کی طرح چلتی ہوئی آئی اور کہا اب بالکل تندرست ہوں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہے نہ ہی اب عصا کی ضرورت ہے۔ فرط مسرت سے کہنے لگی، جس بزرگ کے ایک مرید کی لکھی ہوئی تعویذ میں اس قدر تاثیر ہے نہ معلوم ان بزرگوں کی دعا اور تعویذ میں کیا تاثیر ہوگی۔

دوسرے دن جمعہ تھا۔ نماز جمعہ کے لئے بغداد شریف گیا جو کہ یہاں سے دو سو کلومیٹر دور تھا۔ نماز جمعہ حضرت محبوب سبحانی غوث صمدانی پیر پیران حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مسجد شریف میں ادا کی۔ فقط فقیر عبدالحمید، مورخہ ۸۳۔ ۳۔ ۱۶ واسط الکوت، عراق

کرامت: بستی حاجی رب نواز مہرانی ضلع خیر پور سے مولانا محمود صاحب جونیجو لکھتے ہیں کہ حاجی صاحب مذکور کے ایک رشتہ دار ایک ڈیڑھ ماہ سے بیمار تھے۔ رانی پور، خیر پور کے مشہور ڈاکٹروں سے علاج کراتے رہے مگر مرض برھتا ہی گیا، یہاں تک کہ مریض نے کھانا پینا ترک کردیا۔ اس وقت حاجی محمد انور صاحب میرے پاس آئے اور کہا اب علاج معالجہ سے تو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ ہمارے لئے آخری سہارا حضور کی دعا ہے آپ جائیں حضور سے دعا بھی کرائیں اور پانی بھی دم کروا کر لے آئیں۔ کنڈیارو پہنچنے پر معلوم ہوا کہ حضور درگاہ فقیر پور شریف چلے گئے ہیں۔ تاہم یہ عاجز درگاہ اللہ آباد شریف حاضر ہوا اور حضور کے عالم باعمل صاحبزادہ سائیں محمد طاہر صاحب مدظلہ سے پانی دم کروایا، آپ نے دعا بھی فرمائی۔ جب واپس پہنچا تو لوگوں نے بتایا کہ جس وقت آپ درگاہ اللہ آباد شریف پہنچے، اسی وقت مریض نے کھانا منگوا کر کھایا اور کافی افاقہ ہے۔ دم کردہ پانی پلایا جس کے بعد تو بفضلہ تعالیٰ اس کی بیماری جاتی رہی اور اب پہلے کی طرح بالکل تندرست ہے۔ مولوی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ حضور آپ کے صاحبزادہ صاحب واقعی صالح، عاشق صادق، خدا کے برگزیدہ، مستجاب الدعوات بندے ہیں۔ جن کی دعا میں اللہ تعالیٰ نے بہت تاثیر رکھی ہے۔

کرامت: ضلع ٹھٹھہ سے محترم خلیفہ مولانا محمد عالم صاحب نے حضور رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں تحریر کیا کہ حضور عبدالغفور نامی میرے بیٹے کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا۔ سیلاب کی وجہ سے راستے خراب تھے۔ اس لئے مقامی کمہاروں سے علاج کرایا مگر افاقہ نہ ہوا۔ مجبور ہوکر جب ہسپتال پہنچے ایکسرے دیکھ کر ڈاکٹروں نے بتایا کہ ہڈی ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہوچکی ہے۔ ان ہی دنوں کراچی سے اطلاع آئی کہ حضور کراچی تشریف فرما ہو رہے ہیں۔ میں لڑکا لے کر حاضر ہوا تھا۔ ٹوٹے ہوئے مقام پر آپ نے ہاتھ پھیر کر دم بھی فرمایا تھا جس سے لڑکے کو آرام آگیا۔ واپسی پر پھر مذکورہ ہسپتال لے گیا۔ ڈاکٹروں نے تشخیص کے بعد بتایا کہ اب بالکل ٹھیک ہے۔ ہڈی جڑ کر ایک ہوگئی ہے۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ۔

عجیب کرامت: مدینہ طیبہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما سے محترم محمد حسن مغیری بلوچ صاحب نے حضور سوہنا سائیں قدس سرہ کی خدمت میں درج ذیل خط تحریر کیا تھا جو کہ فی الوقت بھی احقر مرتب کے یہاں موجود ہے۔ چند بار محترم مولانا جان محمد صاحب نے عام جماعت میں یہ خط پڑھ کر بھی سنایا تھا۔ لکھتے ہیں:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ

بعد از صد آداب و قدم بوسی مودبانہ عرض ہے کہ حضور اس سے پہلے بھی دو عدد خط ارسال کر چکا ہوں۔ مجھے قوی امید ہے حضور نے میرے لئے دعا فرمائی ہوگی۔

حضور میں سندھ کے مشہور بزرگ ۔۔۔۔۔۔ کا مرید اور عرصہ سے مدینہ طیبہ میں مقیم ہوں۔ حجاز مقدس آکر میں نے اقامہ بھی حاصل کیا مگر بدقسمتی سے جلد ہی بیمار ہوگیا۔ میری مسلسل بیماری کی وجہ سے ساتھ رہنے والے دوست احباب تک بیزار ہوگئے۔ کفیل بھی بیزار ہوگیا۔ کوئی پرسان حال نہ رہا، میری پریشانی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ بالاخر یہ سوچ کر کہ حضور اکرم شفیع محتشم صلّی اللہ علیہ وسلم کے اس پاکیزہ شہر میں یقینا کئی صالح بندگان خدا بھی ہوں گے، جن کی دعا کی برکت سے میری مشکل کشائی ہو سکتی ہے۔ اہل اللہ کی تلاش شروع کی۔ چنانچہ ایک دن حرم شریف میں سفید ریش عمامہ باندھے ہوئے ذکر و فکر میں مشغول ایک بزرگ نظر آئے۔ روضہ اطہر بلکہ تمام حرم شریف کا ادب کرتے دیکھ کر میرے دل نے گواہی دی کہ یہ کوئی ولی اللہ شخص ہے۔ چنانچہ میں نے ان سے ملاقات کی تفصیلی روئداد سنا کر دعا کی التجا کی۔ وہ کہنے لگے میں بزرگ یا ولی تو نہیں، البتہ ایک ولی کامل کا ادنی غلام ضرور ہوں۔ سوہنا سائیں کے نام سے مشہور میرا مرشد کامل سندھ میں رہتا ہے، وغیرہ۔ اگر تیرا دل مانے تو میرے مرشد سوہنا سائیں کا نام لے کر ان کے وسیلہ سے بارگاہ الٰہی میں عاجزی سے ملتجی ہوجا۔ مجھے قوی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے ولی سے عقیدت و محبت کے طفیل تجھے بیماری سے شفا عطا فرمائے گا۔ الحمد للہ ان کی یہ معمولی تجویز میرے لئے اکسیر ثابت ہوئی، چند ہی دن میں بالکل صحت مند ہوگیا۔ یہی نہیں اس سے بڑھ کر میرے اوپر یہ مہربانی ہوئی کہ خواب میں رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کی زیارت حاصل ہوئی۔ آپ کے ساتھ سرخ ریش نورانی چہرہ والے ایک بزرگ بھی تھے۔ اس کے بعد رات دن مسلسل مجھے خوشبو کی مہک محسوس ہوتی تھی۔ جب چھٹی لے کر پاکستان آیا تو اپنے محسن فقیر محمد حسن صاحب کے بتائے ہوئے پتے کے مطابق آپ کے دربار پر حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ آپ ہی وہ بزرگ ہیں جن کی خواب میں رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم نے زیارت کرائی تھی۔ میں اعتقاد کامل سے آپ سے بیعت ہوکر آپ کی غلامی میں داخل ہوا۔ فرصت کم ہونے کی وجہ سے زیادہ عرصہ تو صحبت میں نہ رہ سکا۔ صرف ایک دن صحبت میں رہ کر چلا آیا اور جب تک ذکر کرتا رہا مجھ پر غیر معمولی باطنی مہربانیاں ہوتی رہیں مگر یہاں آکر دنیاوی مصروفیات میں پھنس کر جب ذکر سے قدرے غافل ہوگیا، اب سابقہ خوشبو کی مہک سلب ہو چکی ہے، میں بڑا شرمسار ہوں۔ دعا فرما دیں وہ نعمت بھی شامل حال رہے۔ آج کل فقیر محمد حسن صاحب کے مکان پر روزانہ خلیفہ محترم حاجی خیر محمد عباسی صاحب مراقبہ کراتے ہیں، میں بھی مراقبہ میں شامل ہوتا ہوں۔ فقط آپ کی دعاؤں کا طالب، فقیر محمد حسن مغیری بلوچ از مدینہ عالیہ۔

عقلمند اونٹ: فقیر محمد سہراب کوندر نے (جو کہ آج کل بڑے زمیندار ہیں، پاکستان بننے سے پہلے غریب تھے اور ہندوؤں کے یہاں مزارعت کرتے تھے) بتایا کہ شروع میں جب حضرت قبلہ سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ ہمارے پاس تبلیغ کرنے آتے تھے۔ اس وقت موجودہ قومی شاہراہ کی سہولت بھی نہیں تھی۔ حضور ٹرین سے محراب پور یا ہالانی تشریف لے آتے تھے۔ اگر پروگرام معلوم ہوتا تھا تو ہم آپ کے لئے اپنا اونٹ لے کر محراب پور یا ہالانی جاتے تھے۔ اسی طرح واپسی پر بھی آپ کو اونٹ پر چھوڑ آتے تھے۔ رہن سہن میں ہم ہندوؤں کے ساتھ ہوتے تھے۔ ہم ان کے یہان بلا تکلف کھانا بھی کھاتے تھے۔ چنانچہ معلوم ہونے پر حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ نے ہمیں منع کردیا کہ ہندوؤں کے گھر کا کھانا کسی صورت میں نہ کھائیں، اس سے دل میں کدورت پیدا ہوگی ذکر اللہ کا پورا فائدہ حاصل نہ کر سکو گے۔ حسب فرمان ہم نے ان کے ہاتھ کا کھانا ترک کر دیا تھا۔ اتفاقاً اگر ان کے گھر کی روٹی وغیرہ ہمارے گھر آجاتی تو گھر کے جانوروں کو کھلا دیتے تھے۔ دوسرے جانور تو حسب سابق کھاتے تھے مگر جس اونٹ پر حضور سوہنا سائیں قدس سرہ سوار ہوتے تھے، وہ نہیں کھاتا تھا۔ ایک دو نہیں کئی بار تجربہ کے بعد ہم نے ایک ساتھ اپنے گھر کی روٹی اور ہندو کے گھر کی روٹی اس کے سامنے رکھ دی، ہمارے گھر کی روٹی کھا لی لیکن ہندو کے گھر کی روٹی کو چکھا تک نہیں۔ چنانچہ ہم نے از راہ مزاح اس کا منہ کھول کر مجبوراً وہ روٹی اس کے منہ میں ڈال دی پھر بھی چبایا تک نہیں جب ہم نے اسے چھوڑ دیا تو وہ روٹی بھی جوں کی توں نکال باہر کی۔ (فقیر محمد سہراب، زمیندار تحصیل کنڈیارو ضلع نواب شاہ)

کرامت: کتاب سوانح حیات سوہنا سائیں (قدس سرہ) میں ہے کہ بستی ثواب پور تحصیل کنڈیارو کے پیر بخش نامی ایک فقیر صاحب جب انتقال کر گئے، ان کے رشتہ دار جو کہ حضور کے غلام تھے بلند آواز سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے لگے، بابرکت اسم اللہ کی ضرب سنتے ہی میت کے جسم میں حرکت پیدا ہوئی اور اللہ اللہ کہتے ہوئے فقیر صاحب اٹھ کھڑا ہوا اور بلند آواز سے کہا، اللہ والے مرتے نہیں۔ پھر سو گیا۔ اسی طرح فقراء کے ذکر کرنے پر تین بار اٹھا اور پھر ہمیشہ کے لئے آرام فرما ہوگیا۔ آج بھی اس کرامت کا مشاہدہ کرنے والے زندہ ہیں۔
کرامت: خانواہن شہر میں حضور سے بیعت ایک خاتون نے مرض الموت میں نرس سے کہا، نماز کا وقت ہے پہلے وضو بنا کر نماز پڑھو، نماز پڑھے بغیر میرے قریب نہ آؤ۔ گو خود اٹھنے بیٹھنے سے قاصر تھی، تاہم اشاروں سے نماز پڑھی اور وفات سے ذرا پہلے موجود رشتہ داروں کو کہا چونکہ میری موت کا وقت آن پہنچا ہے اور مکان کا دروازہ تنگ ہے اس لئے ابھی سے مجھے مکان سے باہر نکالو۔ چنانچہ اسے باہر نکالا گیا اور وہ ہمہ تن ذکر اللہ میں مشغول ہوگئی اور اللہ اللہ کرتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کی۔ بعد از وفات دیکھا گیا تو اس کے دل کی حرکت جاری تھی۔ (سوانح حیات)

ٹڈیوں سے حفاظت: مولانا محمد عمر صاحب نے بتایا کہ ایک بار ہمارے دریجی کے علاقہ میں ٹڈیاں اتنی کثرت سے حملہ آور ہوئیں کہ پکے پکائے جوار کے فصل کا بھی ستیاناس کر دیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم ان کے نقصان سے محفوظ رہے۔ ہوا یہ کہ جیسے ہی ٹڈیاں پہنچیں ہم نے فقیر رحمۃ اللہ صاحب کو یہ کہہ کر کھیت کی طرف بھیج دیا کہ اللہ تعالیٰ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم اور حضور سوہنا سائیں کا نام لیتے ہوئے کھیت کے چاروں طرف سے لکیر کھینچتا چلا جا۔ چنانچہ اس نے ایسا کیا۔ جس کی بدولت ہمارا کھیت بالکل سلامت رہا۔ جبکہ ہمارے کھیت سے متصل جتنے بھی کھیت تھے سب کا غیر معمولی نقصان ہوا۔

نیز مولانا موصوف نے بتایا کہ سامانو نامی ایک شخص جو صغر سنی سے ٹی بی کے موذی مرض میں مبتلا تھے، کافی علاج معالجے کے باوجود افاقہ نہ ہوا لیکن جب سے حضور سوہنا سائیں قدس سرہ سے بیعت ہوا فوراً صحت یاب ہوگیا۔ جسے دیکھ کر اس کی بیوی اور بہن (جو کہ دونوں ٹی بی کے مریض تھے) بھی طریقہ عالیہ میں بیعت ہوئیں اور بفضلہ تعالیٰ دونوں صحت یاب ہو چکی ہیں۔ اب ان میں سے کوئی بھی دوائی وغیرہ استعمال نہیں کرتا۔

کرامت: خالصہ بستی کے فقیر صاحبڈنہ رحمۃ اللہ علیہ نماز فجر پڑھتے وقت رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے راہی ملک بقا ہوگئے۔

خواب کی تعبیر: ایک مرتبہ حضور سوہنا سائیں قدس سرہ خلفاء کرام کے ہمراہ تبلیغ کے سلسلے میں بگ نامی بستی تشریف لے گئے، جہاں مذکورہ بستی کا معز الدین نامی ایک زمیندار بڑی عقیدت و محبت سے آکر حضور سے ملا۔ (صاحب دعوت محترم حاجی جان محمد صاحب نے حضور کے قیام کا انتظام بھی مذکور زمیندار کے اوطاق میں کیا تھا) اور عرض کی کہ چند دن پہلے میں اسی مکان میں سویا ہوا تھا۔ خواب میں مجھے آپ کی زیارت کرائی گئی۔ آپ کی آمد سے کمرہ روشن ہوگیا تھا۔ آپ نے میرے مقام قلب پر انگلی رکھ کر اللہ اللہ کرنے کا حکم فرمایا تھا جس سے میرا دل جاری ہوگیا اور گریہ کی حالت طاری ہوگئی، بیدار ہونے پر بھی دل ذکر اللہ میں محو تھا۔ چونکہ میں نے اس سے پہلے کبھی آپ کی زیارت نہیں کی تھی۔ اس لئے میں نے اپنے رشتہ دار حاجی جان محمد صاحب سے خواب کا واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ حلیہ میرے پیر و مرشد کا ہے اور آج بالمشافہ آپ کو دیکھ کر مجھے یقین آگیا کہ میرے خواب کی تعبیر آپ ہی ہیں۔ (سوانح حیات حصہ دوم)

نورانی شعاعیں: محترم مولانا مولوی محمد عظیم صاحب نے بتایا کہ حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ جب بلوچستان کے تبلیغی دورہ میں قلات سے چند میل کے فاصلے پر بستی ملگزار میں تشریف فرما ہوئے، مقامی لوگ بڑی عقیدت و محبت سے بیعت ہوئے۔ رات دن تبلیغ و ذکر اذکار کا سلسلہ جاری رہا۔ دوسرے دن صبح مقامی با اثر آدمی محترم امام بخش صاحب بھی حضور سے آکر بیعت ہوئے، جبکہ پہلے دن آئے تھے مگر بیعت نہیں ہوئے تھے۔ مجلس برخاست ہونے پر جب حضور قیام گاہ پر تشریف لے جارہے تھے، مذکور حاجی صاحب بھی روتے ہوئے حضور کے پیچھے پیچھے کمرے میں داخل ہونے لگا۔ میں نے اسے روکا۔ حضور نے میری آواز سن لی، فرمایا ان کو آنے دیں، کوئی خاص بات سنانے آرہے ہیں آپ بھی ان کے ساتھ آجائیں۔ بہرحال بڑی عقیدت و محبت سے عرض کی کہ یا حضرت یہ میری عادت ہے کہ جب کبھی یہاں کوئی مولوی عالم آتا ہے اس پر اعتراضات کرکے تنگ کرتا ہوں۔ کل بھی چند اعتراضات لے کر آیا تھا مگر آپ سے کچھ پوچھنے کی ہمت نہ کرسکا۔ رات کوئی بارہ بجے جاگا تو میرا سارا گھر روشن تھا، میں حیران ہوگیا کہ یہ روشنی کہاں سے آرہی ہے۔ پھر یہ سوچ کر کہ شاید یہ میرا وہم ہو تو تصدیق کے لئے گھر کے چند اور افراد کو بھی اٹھایا، انہوں نے بھی تصدیق کی۔ پھر کمرے سے باہر نکل کر دیکھا تو پوری بستی چودھویں کے چاند کی روشنی سے بڑھ کر روشن معلوم ہو رہی تھی۔ خاص کر اس مکان پر جس میں آپ قیام فرما ہیں، آسمان سے ایک سیدھی روشنی پہنچ رہی تھی اور اس کے پرتو سے ساری بستی جگمگا رہی تھی۔ یہ دیکھ کر میری بیوی کہنے لگی، معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی کامل بزرگ ہیں، آپ نے ان کو بھی عام مولویوں کی طرح سمجھا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے تیری اصلاح کے لئے ان کی یہ کرامت ظاہر فرما دی ہے۔ ان کی بات سن کر مجھے آپ کی ولایت و کمال کا یقین ہوگیا۔ اسی وقت مسجد شریف میں چلا آیا اور صبح آپ سے بیعت کی۔

نوٹ: احقر مرتب سے حضور کی یہ کرامت محترم مولانا مفتی عبدالرحمٰن صاحب، مولانا امام علی صاحب، اور بھی کئی احباب نے بیان کی جو مذکورہ تبلیغی سفر میں حضور کے ساتھ تھے اور حاجی امام بخش صاحب کی زبانی یہ کرامت سنی تھی۔

سچے خواب
حضور نبی اکرم شفیع محتشم صاحب لولاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من رانی فی المنام فلن یلخل النار و من زارنی بعد موتی و جبت لہ، شفاعتی ومن رانی فقدر انی حقا فان الشیطان لا یتمثل بی ورء یا المومن الصالح جزء من سبعین جزئا من النبوۃ و اذا اقترب الزمان لم یکدرء یا المومن یکذب و اصدقھم رونیاً اصدقھم حدیثاً۔ (کنز العمال۳۸۴ جزء ۱۵)
جس نے مجھے خواب کی حالت میں دیکھا وہ ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہوگا، جس نے مجھے ظاہری وفات کے بعد دیکھا میری شفاعت اس کے لئے ضروری ہوگئی (ضرور اس کی شفاعت کروں گا) جس نے مجھے خواب میں دیکھا تحقیق مجھے ہی دیکھا، اس لئے کہ شیطان میری صورت میں نہیں آتا، نیک مومن کا خواب نبوت کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے (اجزاء کی تفصیل کتب احادیث میں موجود ہے) اور جب قرب قیامت ہوگا تو (بھی) مومن کا خواب جھوٹا نہیں ہوگا، اور ان میں زیادہ سچا خواب اس کا ہوگا، جو عام بات چیت میں زیادہ سچا ہوگا۔

اس حدیث شریف سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں۔

۱۔ رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا بر حق ہے۔

۲۔ آپ کی اس زیارت باسعادت کے طفیل مومن آپ کی شفاعت کا مستحق بن جاتا ہے۔

۳۔ اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھے گا۔

۴۔ شیطان رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صورت میں نہیں آسکتا۔

۵۔ انبیاء کرام علیہم السلام پر کئے جانیوالے انعامات میں سے سچے خواب صالح مومنوں کو بھی دکھائی دیتے ہیں۔

۶۔ قرب قیامت کی وجہ سے مومنوں کے خواب جھوٹے نہیں بن جاتے بلکہ قرون اولیٰ کی طرح سچے ہی ثابت ہوتے ہیں۔

۷۔ جو دنیاوی معاملات میں صحیح ہوگا خواب بھی اسی کا زیادہ سچا ہوگا۔

الحمد للہ جن جن فقراء سے خواب سن کر یہاں درج کئے گئے ہیں، وہ متقی، پرہیز گار، متبع سنت رسول امین صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے محب اور مخلص مرید ہیں، جن کو خواب میں سردار دوجہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگر کئی بزرگان دین رضی اللہ عنہم کی زیارت اور خواب ہی میں مختلف ہدایات و نصائح اور بشارات ملی ہیں۔

خواب میں نماز کی تاکید: مورو کے محترم خلیفہ مولانا محمد رحیم صاحب نے بتایا کہ محمد ایوب نامی میرا ایک پڑوسی جو پہلے نماز نہیں پڑھتا تھا ایک مرتبہ سخت بخار کی حالت میں سو رہا تھا کہ خواب میں حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی زیارت ہوئی، بقول اس کے حضور کے ساتھ یہ عاجز فقیر محمد رحیم بھی نظر آیا۔ حضور کے ہاتھ مبارک میں عصا تھا، مجھے تنبیہہ کرتے ہوئے فرمایا اٹھو نماز پڑھو۔ میں نے اس کے باوجود بھی سستی کی، نہیں اٹھا، آپ نے غصہ کے عالم میں عصا مبارک اٹھائی اور مجھے مارنا چاہا، کہ میں بھاگ کھڑا ہوا۔ بس اسی وقت بیدار ہوا، وضو کرکے نماز پڑھی، بخار بالکل ختم ہو چکا تھا، اس کے بعد حضور سے بیعت ہوا، داڑھی مبارک رکھ لی، اور پابندی سے نماز پرھنے لگا۔ اسی طرح میرے ایک رشتہ دار محترم حاجی محمد حیات صاحب ایک بار نماز جمعہ کے بعد گھر جا کر سوگئے، خواب میں حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی زیارت ہوئی، آپ نے حاجی صاحب سے فرمایا ”فقیر صاحب جلدی اٹھ کر عصر کی نماز پڑھو پانچ بج چکے ہیں“۔ اسی وقت بیدار ہوکر وقت دیکھا، واقعی پانچ بجے کا وقت تھا، فوراً وضو کرکے نماز عصر ادا کی۔
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
مسجد کی شکایت: بوزدار وڈا ضلع خیر پور میرس سے فقیر محمد رحیم بوزدار رقم طراز ہیں کہ میں عرصۂ دراز سے محمدی مسجد کا خدمت گار رہا، فی سبیل اللہ امامت اور تعلیم قرآن کی خدمت کرتا رہا، لیکن ایک بار تین دن مسلسل مسجد شریف کی خدمت سے دور رہا، کوئی معقول عذر بھی نہیں تھا (بستی کے رئیسوں نے تنخواہ دے کر ان کو جامع مسجد بوزدار وڈا کا امام مقرر کیا تھا) اس لئے دل میں پریشانی سی رہتی تھی۔ چنانچہ اسی بے قراری کے عالم میں جاگتے جاگتے تھوڑی دیر کے لئے آنکھ لگ گئی، خواب میں دو بزرگ نظر آئے، جن میں سے ایک میرے آقا پیر و مرشد حضرت سوہنا سائیں اور دوسرے میرے والد بزرگوار نور اللہ مرقدہما تھے۔ آتے ہی تنبیہہ کے انداز میں فرمایا:

”بارگاہ الٰہی میں محمدی مسجد نے تیرے خلاف شکایت کی ہے کہ فقیر عبدالرحیم میری خدمت سے دور رہنے لگا ہے، اس لئے بارگاہ الٰہی سے ہمیں آپ کے پاس بھیجا گیا ہے کہ آئندہ کے لئے محمدی مسجد کو آباد رکھیں، لالچ اور طمع چھوڑ دیں، رزق کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہوا ہے، تو مسجد شریف کی خدمت کرتا رہ، اللہ تعالیٰ اس کا حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ہم دونوں تیرے مددگار ہیں، اور آ ئندہ بھی رہیں گے، بارگاہ خداوندی میں تیری گذشتہ تین دن کوئی عبادت قبول نہیں ہوئی۔ بس جیسے ہی بیدار ہوا تہہ دل سے توبہ کی اور یہ عہد کرلیا کہ عمر بھر محمدی مسجد کا خادم بن کر رہوں گا۔ (فقیر عبدالرحیم بوزدار بلوچ)

والدین پر مہربانی: فقیر حاجی محمد مرید صاحب نے ایک بار خواب میں اپنے مرحوم والد صاحب کو بڑے سکون و آرام کی حالت میں دیکھ کر مزید خیریت دریافت کی، جس پر انہوں نے فرمایا: بیٹا پہلے تو میرا جو حال تھا سو تھا (بتانا نہیں چاہتے تھے) لیکن جب سے آپ سوہنا سائیں سے بیعت ہوئے ہیں، مجھے بخش دیا گیا ہے۔ الحمدللہ اب میں بڑے سکون سے رہ رہا ہوں۔

(حاجی محمد آدم صاحب)

زیارت رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وسلم
محترم مولانا جان محمد صاحب نے حضور کے پرانے مخلص خادم فقیر غلام محمد بروہی (دربار عالیہ پر نماز کے جمعدار تھے) رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بتایا کہ حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے تبلیغی حرص اور فقراء کو کھڑا کرکے تقریر سننے اور تبلیغی احوال سے خوش ہونے کو دیکھ کر مجھے دل میں تبلیغ کا شوق پیدا ہوا، مگر اپنی بے علمی آڑے آئی کہ کچھ جانتا نہیں تبلیغ کیا کروں گا۔ چنانچہ اسی فکر میں سو گیا، رات کو رسول مقبول صلّی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ صلّی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے فرمایا: فقیر صاحب تیرے مرشد سوہنا سائیں (قدس سرہ) تبلیغ کے لئے حکم کریں اور تو خاموش بیٹھے یہ کب مناسب ہے؟ اس پر میں نے عرض کی حضور! میں ان پڑھ ہوں۔ آپ نے فرمایا تبلیغ کے لئے جائیں ضرور، زیادہ نہ سہی، کلمہ طیبہ پڑھ کر اس کا ترجمہ سنائیں۔ الحمد للہ فقیر غلام محمد صاحب نے ایسا ہی کیا، جب تک زندہ رہے حتی المقدور تھوڑی بہت تبلیغ کرنے رادھن وغیرہ جایا کرتے تھے۔

طواف کعبہ: مشہور نعت خواں اور حضور کے مرید فقیر محمد رفیق جامی نے بتایا کہ حضور کے وصال سے دو دن بعد یعنی ۸ ربیع الاول شریف کو خواب میں دیکھا کہ حضور کعبۃ اللہ شریف کا طواف کر رہے ہیں، میں بھی حضور کے ساتھ طواف کر رہا ہوں۔ جب حجر اسود کے قریب پہنچے، مجھے بلا کر فرمایا: رفیق آؤ حجر اسود شریف کا بوسہ لو، چونکہ میں قد میں چھوٹا ہوں حجر اسود تک نہیں پہنچ پا رہا تھا، آپ نے مجھے گردن سے پکڑ کر اٹھایا اور میں نے حجر اسود شریف کا بوسہ لے لیا، اس کے بعد ذرا پیچھے ہٹ کر فرمایا: اب یہ نعت شریف سناؤ۔

دو گھڑیاں رک جا تقدیرے، سانوں لگیاں توڑ نبھا لین دے

اس کے بعد فوراً حرم مدینہ منورہ نظر آیا، روضہ رسول مقبول صلّی اللہ علیہ والہ وسلم پر بڑے ادب و احترام سے کھڑے ہوگئے اور مجھے فرمایا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعریف میں یہ نعت شریف پڑھو۔

طٰہٰ ان کی جبیں نوری ان کے قدم

ساتھ ساتھ اس کی طرز بھی خواب ہی میں سمجھائی، میں نے کہا حضور مجھے تو صرف ایک مصرعہ یاد ہے، فرمایا آپ شروع کریں ساری نعت یاد آجائے گی، جیسے ہی میں نے نعت شروع کی، یکے بعد دیگرے تمام مصرعے ازبر یاد آتے رہے، بیدار ہونے کے بعد بھی تمام مصرعے یاد تھے، حالانکہ پہلے مجھے صرف ایک مصرعہ یاد تھا۔

تبلیغ میں سستی کیوں: عالم باعمل حضور کے پیارے خلیفہ سید محمد مٹھل شاہ صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ خواب میں حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ (اس وقت بقید حیات تھے) کی زیارت ہوئی، مجھے تنبیہہ کرتے ہوئے فرمایا: شاہ صاحب آپ تبلیغ میں سستی کرتے ہیں، یہ غفلت و مستی کا وقت ہے کیا؟ یہ کہہ کر مجھے چند تھپڑ دے مارے۔ میں نے عرض کی حضور واقعی میرا قصور ہے، میں سزا کا مستحق ہوں۔ الحمد للہ حضور کی یہ تنبیہہ میری لئے کارگر ثابت ہوئی، اس وقت سے اب تک محنت سے تبلیغ کر رہا ہوں۔

زیارت رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم
نمبر ۱: محترم مولانا محمد شریف صاحب (ضلع ٹھٹھہ سندھ) نے بتایا کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ ہم چند فقیر درگاہ اللہ آباد شریف جا رہے ہیں۔ اچانک ساتھیوں نے بلند آواز سے اللہ اللہ کہنا شروع کردیا، اور بتایا کہ دیکھو سرور کونین حضور رحمۃ للعالمین صلّی اللہ علیہ والہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لا رہے ہیں، میں نے جو دیکھا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر کچھ سامان ہے، میں نے آگے بڑھ کر آپ سے وہ سامان لے لیا۔ اس کے تھوڑے ہی دن بعد حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ نے بلا کر تبلیغ کی اجازت (خلافت) عنایت فرمائی۔

نمبر ۲: محترم مولانا انوار المصطفیٰ صاحب لاہور سے لکھتے ہیں کہ میرے بھائی بنام فقیر محمد شعیب جو حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کا پکا سچا غلام ہے، ایک بار بیماری کی حالت میں ایک دم اٹھ کر بیٹھ گیا، ساتھ بیٹھنے والے حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ مگر بعد میں محمد شعیب صاحب نے بتایا کہ حضور پر نور صلّی اللہ علیہ والہ وسلم، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت پیر مٹھا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ہمارے پیر و مرشد قبلہ حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ علیہ نیز کچھ اور بزرگ بھی تھے جو میرے پاس تشریف فرما ہوئے، پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ہے۔ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ والہ وسلم اور مذکورہ بزرگان دین کی زیارت اور دعا کے طفیل فقیر محمد شعیب بالکل شفایاب ہوگیا۔ واضح رہے کہ محترم محمد شعیب کوئی عمر رسیدہ بزرگ نہیں، بلکہ اسکول کا انگریزی خوان طالب علم ہے، مگر ازحد صالح اور حضور کا پکا سچا خادم نوجوان ہے، جسے تین بار اسی طرح خواب میں رسول خدا صاحب لولاک صلّی اللہ علیہ والہ وسلم اور مذکورہ حضرات کی زیارت ہوئی۔ اسی موضوع پر حضرت سوہنا سائیں قدس سرہ کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔

غفاري فيض جي سُڻ ادا هي بشارت
نبي پاڪ جلدي ڪرائي زيارت

مرڻ مهل ٻڌندو بهشتي بشارت
جنت جاءِ ڏسندو قصر عمارت

قبر تا قيامت رهي قلب جاري
منهنجو پير ڪامل آهي غفاري

نمبر ۳: بوزدار وڈا ضلع خیرپور میرس سے محترم کاظم علی بوزدار لکھتے ہیں کہ فقیر منظور حسین ڈہر کو جو کہ حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے مرید اور روحانی طلبہ جماعت کی برانچ بوزدار وڈا کے صدر بھی ہیں خواب میں سرکار مدینہ تاجدار بطحا صلّی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت حاصل ہوئی، اور اس محفل میں اور بھی بہت سی بزرگ ہستیاں موجود تھیں۔ حضور پرنور صلّی اللہ علیہ والہ وسلم نے (فقیر منظور حسین کو) فرمایا کہ تو صدیقی نقشبندی غفاری فقیر ہے، یہ طریقہ میرے خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طریقہ ہے، اس لئے تو صدیقی جماعت میں شامل ہوجا۔
 

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر
خواب میں وسعت: مزید لکھتے ہیں کہ حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ سے بیعت ہونے کے بعد میں اپنے والد فقیر عبدالرحیم صاحب کو حضور کی خدمت میں لے آیا، تو بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ بیعت ہوئے اور واپسی پر مجھے بتایا کہ اس سے پہلے خواب میں مجھے حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی زیارت اور بیعت کا شرف حاصل ہو چکا ہے۔ مگر جسمانی زیارت اور بیعت سے آج ہی مشرف ہوا ہوں۔

فقیر پور شریف سے شیطان بھاگتا ہوا نظر آیا
فقیر گل محمد فقیر پوری نے بتایا کہ محمد داؤد جانوری جو فقیر پور شریف کے قریب ہی ایک بستی میں رہتا ہے، ایک بار اس نے خواب دیکھا کہ حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ (ابھی حال حیات تھے) فقیر پور شریف تشریف لائے ہیں اور میں نماز فجر کے لئے درگاہ شریف جا رہا ہوں۔ جب مسجد شریف کے مشرقی نل کے پاس پہنچا تو ایک شخص کو دیکھا (جو بظاہر کوئی عالم معلوم ہوتا ہے) خون سے شرابور فقیر پور شریف سے بھاگتے ہوئے جا رہا ہے۔ میں نے پوچھا تو کون ہے؟ کس نے تجھے مارا ہے؟ شروع میں تو وہ کترانے لگا، لیکن جب میں نے زیادہ اصرار کیا تو کہا کہ میں شیطان ہوں، ان فقیروں نے مجھے اس قدر پیٹا ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ محترم مولانا بخش علی صاحب (خطیب میمن مسجد میمن محلہ حیدرآباد) نے سنایا کہ ایک مرتبہ حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ ’حسن جو گوٹھ‘ نامی بستی میں تشریف فرما تھے، میں بھی وہاں گیا۔ صبح کے وقت مراقبہ میں دیکھا کہ بستی کے گرد کھائی کھودی ہوئی ہے، دوسرے کنارے ایک بندر منتظر بیٹھا ہے (شاید اس لئے کہ کوئی فقیر ذکر اللہ سے غافل ہو تو میں اس کے پاس چلا جاؤں) بہرحال میں نے یہ سمجھ کر یہ شیطان ہے، بلند آوز سے اللہ (اسم جلالت) کی ضرب لگائی، تو وہ بھاگنے لگا، مگر بھاگ نہ سکا، اور زمین میں دھنستا چلا گیا اور زور زور سے چیخیں مارنے لگا، میرے خاموش ہونے پر پھر نکل بھاگا، اس پر میں نے دوسری، تیسری بار بھی ذکر کرنا شروع کیا۔ ہر بار یہ زمین میں دھنستا گیا اور چیخیں مارتا رہا۔

لڑکے کی بشارت: بوزدار وڈا سے محترم کاظم علی بوزدار صاحب رقمطراز ہیں کہ میرا بڑا بھائی بنام روشن علی عرصہ سے نرینہ اولاد سے محروم رہا۔ چنانچہ حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے وصال کے بعد ایک بار حضرت خواجہ قلندر لعل شہباز رحمۃ اللہ علیہ کے دربار پر سیہون شریف حاضر ہوا، رات کو خواب میں حضرت قلندر شہباز اور حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدھما دونوں کی ایک ساتھ زیارت ہوئی، جنہوں نے میرے بھائی کو نرینہ اولاد کی خوشخبری سنادی، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جب امید ٹھہری تو میرے والد صاحب کو حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی زیارت ہوئی، تو آپ نے والد صاحب کو فرمایا کہ فقیر صاحب تجھے پوتے کی بشارت دینے آیا ہوں۔ الحمد للہ ایسے ہی ہوا کہ بھائی صاحب کے گھر فرزند تولد ہوا۔

جنتیوں کی فہرست: محترم عبدالغفور لودھی صاحب (راولپنڈی) نے بتایا کہ جب میں حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کی غلامی میں آیا تو اسی رات خواب میں ایک بہت بڑی دربار نظر آئی، جس میں حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ اور آپ کے پیارے خلیفہ سید محمد اسماعیل شاہ صاحب (جو راولپنڈی کے علاقہ میں تبلیغ فرماتے ہیں)، سبز پگڑی والے ایک بزرگ نیز اور بھی کافی لوگ بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ وہاں ایک بزرگ کے ہاتھ میں کچھ فہرستیں تھیں، میں نے اس سے پوچھا یہ کس قسم کی فہرستیں ہیں؟ تو اس بزرگ نے فرمایا، یہ ان جنتیوں کی فہرستیں ہیں جو سوہنا سائیں کی غلامی میں آئے ہیں۔ اس پر میں نے پوچھا، کیا میرا نام بھی درج ہے؟ تو انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ میں فوراً حضور سوہنا سائیں قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور عرض کی کہ میرا نام کیوں درج نہیں، میں بھی تو آپ کا ادنیٰ مرید ہوں۔ اس پر مسکرا کر فرمایا لو میں اپنے ہاتھ سے تیرا نام لکھ دیتا ہوں، اور میرا نام درج کردیا۔ جس پر میری پریشانی خوشی میں تبدیل ہوگئی۔

آپ کی غلطی یا ہماری: محترم مولوی نذیر احمد صاحب نے بتایا کہ جب حضور کے فرمان سے میں بطور خطیب و امام تھانہ بولا خان گیا تو وہاں کے چند آدمیوں نے مجھے بلاوجہ تنگ کرنا شروع کیا۔ کچھ دن تو میں صبر کرتا رہا، مگر آخر میں تنگ آمد بجنگ آمد کے مطابق میں نے جمعہ کی تقریر میں کھل کر ان کے خلاف بولنے کا ارادہ کرلیا (فی الحقیقت یہ میری جلد بازی اور غلطی تھی) چنانچہ نماز جمعہ سے قبل تقریر کی تیاری کر رہا تھا کہ اذان کی آواز آئی، ابھی کتاب میرے ہاتھ میں تھی کہ آنکھ لگ گئی۔ خواب میں حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ اور محترم حاجی محمد صدیق صاحب (جو کہ میرے ہم قوم اور حضور کے مخلص خلیفہ ہیں) نظر آئے۔ آپ نے حاجی صاحب کو فرمایا ”حاجی صاحب یہ آپ کی غلطی ہے یا ہماری کہ مولوی نذیر احمد کو تھانہ بولا خان بھیجا ہے“۔ اتنے میں ایک آدمی نے آکر اٹھایا کہ چلو جماعت انتظار میں ہے۔ چونکہ اسی وقت حضور کی ناراضگی کا منظر دیکھ چکا تھا، اس لئے پیار و محبت سے اصلاحی تقریر کی۔ گو ظاہری طور پر باہمی اصلاح کرنے والا کوئی آدمی نہیں تھا۔ مگر حضور کی کرم نوازی ایسی ہوئی کہ شام کو وہی مخالفین ازخود میرے پاس آئے اور معافی چاہی، اس کے بعد طرفین ایک دوسرے سے شیر و شکر بن کر رہے۔

جس نے آپ کو دیکھا مجھے دیکھا: محترم مولانا مولوی جان محمد صاحب (آفیسر محکمہ زراعت حیدرآباد ڈویژن) نے محترم حاجی ڈاکٹر عبدالطیف رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب رحمۃ اللہ علیہ (جو کہ نہایت ہی مخلص، سادہ مزاج، صالح فرد تھے) نے مجھے بتایا کہ رات خواب میں اپنے آپ کو درگاہ مسکین پور شریف میں حضرت پیر فضل علی قریشی قدس سرہ العزیز کے مزار پر حاضر پایا، ساتھ ہی حضرت سوہنا سائیں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی مزار شریف پر حاضر نظر آئے۔ اچانک دیکھا کہ حضرت قریشی رحمۃ اللہ علیہ کی مزار پر انوار کھلی اور آپ باہر تشریف لائے۔ حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ نے اپنے مرشد کامل کی خدمت میں با ادب عرض کی یا حضرت جس نے آپ کو دیکھا اس نے حق کو دیکھا، یعنی اسے اللہ تعالیٰ کی محبت و معرفت کی برحق راہ مل گئی، اس پر حضرت قریشی قدس سرہ نے فرمایا: جی ہاں یہ درست ہے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ جس نے آپ کو دیکھا گویا مجھے دیکھا، سبحان اللہ والحمدللہ۔

خواب میں ذکر کی تلقین: نیز محترم مولانا مولوی جان محمد صاحب نے بتایا کہ حضور کے ساتھ پنجاب کے تبلیغی سفر میں نمبردار جمال خان نامی ایک شخص سے ملاقات ہوئی۔ (سکنہ نزد اسٹیشن سرور شہید ضلع فیصل آباد) اس نے بتایا کہ عرصہ سے میں شراب، جوا، اور دیگر کئی کبیرہ گناہوں میں ملوث تھا۔ چنانچہ ایک رات خواب میں مجھے ایک سرخ ریش نورانی چہرے مہرے والے ایک بزرگ کی زیارت ہوئی، آپ نے مجھے نصیحت فرمائی، ساتھ ہی میرے قلب کی جگہ پر انگلی رکھ کر ذکر اللہ کی تلقین فرمائی، خواب سے بیدار ہونے پر بھی دل میں ذکر جاری تھا، اور گناہوں سے ازخود دل میں نفرت پیدا ہوگئی۔ نماز شروع کی مگر ظاہری طور پر مذکور بزرگ کی زیارت سے محروم ہونے کی وجہ سے دل میں اداسی کی کیفیت رہی اور بزرگ کی تلاش میں رہا۔ چنانچہ ایک دن باتوں باتوں میں ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ اگر آپ کسی کامل زندہ بزرگ کو دیکھنا چاہتے ہیں تو فقیر پور شریف نزد اسٹیشن رادھن ضلع دادو سندھ چلے جائیں۔ مذکورہ پتہ پر جب فقیر پور پہنچا تو بعینہ وہی بزرگ نظر آئے جن کی کچھ عرصہ پہلے خواب میں زیارت کر چکا تھا۔ یہ میرے پیر و مرشد حضرت سوہنا سائیں قدس سرہ تھے، جنہوں نے ازراہ کرم بذریعہ خواب میری اصلاح فرمائی، جوئے کے اڈوں اور شراب خانوں سے جان چھڑا کر اپنے خالق و مالک کی طرف متوجہ کیا۔ الحمدللہ اب نماز بھی پڑھتا ہوں، تلاوت کرتا ہوں، حضور کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ذکر کرتا ہوں۔

مراقبہ میں زیارت اور تسلی: لاہور سے محترم خلیفہ مولانا انوار المصطفیٰ صاحب لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں پتوکی تبلیغ کے لئے گیا تھا۔ رات کو تہجد کی نماز کے بعد مراقبہ کیا، مراقبہ میں حضور سوہنا سائیں قدس سرہ تشریف فرما نظر آئے، مرکز روح الاسلام لاہور کے متعلق مجھے تسلی دیتے ہوئے فرمایا: فکر نہ کریں، مرکز کی طرف لوگ ازخود متوجہ ہو جائیں گے۔ زمانہ کے قطب کی توجہ ہی سے یہ کام ہوگا۔ پھر فرمایا ادب سے بیٹھیں تاکہ کامیابی کی دعا کی جائے۔ اس کے بعد آپ نے چوکور قسم کی لائنیں لگوائیں، ساتھ ہی قرآنی آیات اپنی نورانیت کے ساتھ اس کے گرد گھومتی نظر آئیں۔ جس سے میں یہی سمجھا کہ یہ قرآن مجید کا فیض ہی ہے جو حضور قبلہ سوہنا سائیں قدس سرہ کے ذریعہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے اور پھیلے گا۔ آخر میں فرمایا آپ فقراء حتی المقدور حیلہ و وسیلہ سے کام کو آگے بڑھاتے رہیں کامیابی ضرور ہوگی، انشاء اللہ تعالیٰ۔ الحمد للہ حضور کی توجہات عالیہ اور دعاؤں کے صدقے مرکز روح الاسلام کا کام ہماری حیثیتوں سے بدرجہا بڑھ کر ہوا، اور ہو رہا ہے۔

فیض کی تقسیم: محترم جناب حاجی احمد حسن صاحب لاشاری (وارہ ضلع لاڑکانہ) لکھتے ہیں کہ مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما قیام کے دوران ایک بار خواب میں دربار عالیہ کے عظیم الشان جلسوں کی طرح لوگوں کا ایک بڑا مجمع نظر آیا، تمام فقراء اللہ اللہ کی پیاری ضربوں سے فضا کو معمور کر رہے تھے، اتنے میں لنگر تقسیم کئے جانے کا اعلان ہوا، مگر لنگر دیگوں کی بجائے ایک بہت بڑی مشین سے تیزی کے ساتھ نکلتے نظر آیا۔ جہاں صرف حضور سوہنا سائیں قدس سرہ تن تنہا کھڑے بڑی تیزی سے لنگر کے پاٹ بھر کر جماعت کو دیتے جا رہے تھے۔ اس حال میں کہ آپ کی شلوار کے پانچے ٹخنوں سے کافی اوپر اور قمیض کے بازو بھی اوپر کئے ہوئے تھے۔ جس طرح کوئی ہوشیار مزدور چستی سے کام کرتا ہے۔ بیدار ہونے پر سوچ کر یہی تعبیر سمجھ میں آئی کہ یہ حضور کا فیض ہی ہے، جو اتنی فیاضی سے تمام جماعت میں تقسیم کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حضور کے فیض سے مستفیض فرمائے آمین۔

نوٹ: دیگوں کی بجائے مشین سے لنگر نکلنے سے شاید تبلیغ کے لئے میسر ہونے والی جدید سہولتوں کی طرف اشارہ ہے، جن کی بدولت اندرون ملک خواہ بیرون ملک بڑی تیزی سے تبلیغ کا کام ہو رہا ہے۔

چودھری صاحب کو تبلیغ کریں: ظفر وال فیصل آباد سے محترم حافظ حبیب اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضور سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ کے نام خط میں تحریر کیا تھا کہ میں اور قاری محمد ارشد صاحب تبلیغ کرنے راہوالی گئے، جہاں عوام الناس کے علاوہ بہت سے علماء کرام بھی شریک جلسہ رہے اور ذکر بھی سیکھا، رات کو خواب میں قاری صاحب کو حضور کی زیارت ہوئی، حضور نے انہیں فرمایا کہ اس بستی میں انگلینڈ سے آئے ہوئے آدمی کو تبلیغ کرنا۔ (بیرونی دنیا میں غفلت اور اسلام سے دوری کی بنیاد پر حضور کو بیرونی ممالک میں تبلیغ کا حرص رہتا تھا) آخر صبح کو اس سے ملاقات کی، شریعت و طریقت کے موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوئی، حضور کا تعارف کرایا جس سے وہ ازحد متاثر ہوا۔ اور ذکر بھی سیکھا اور کہا کہ اگر سالانہ جلسہ تک واپس انگلینڈ نہ گیا تو ضرور جلسہ میں جا کر حضور کی زیارت کروں گا۔

کل آؤں گا: محترم مستری عبدالحمید صاحب (کھنڈو گوٹھ کراچی) مستری صاحب حضور کے پرانے مخلص خادم، اصل راولپنڈی کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پنڈی میں ہمارے محلّہ کی جامع مسجد میں حضرت قبلہ پیر مہر علی صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ جناب ثانی صاحب رہتے تھے۔ گو وہ سلسلہ چشتیہ کے بزرگ تھے، تاہم ان کو طریقہ عالیہ نقشبندیہ سے والہانہ محبت تھی۔ ان کے پاس حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دست مبارک سے تحریر ایک قلمی کتاب بھی تھی، وہ فرمایا کرتے تھے کہ مستقبل میں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ زیادہ پھیلے گا، اسی وقت سے میرے دل میں نقشبندیہ سلسلہ سے محبت پیدا ہوئی۔ جب منتقل ہوکر کراچی آیا، ایک مرتبہ تہجد کے وقت نیند میں ایک سرخ ریش بزرگ کی زیارت ہوئی، انہوں نے مجھے پیار سے تھپکی دے کر فرمایا، فکر نہ کریں سب کام ٹھیک ہو جائیں گے، اس وقت میں مہاجر کیمپ جا رہا ہوں، کل جمعہ کی نماز تمہارے محلّہ کی مسجد میں آکر پڑھوں گا، وہیں ملنا۔ بیدار ہونے پر اشتیاق اور بڑھا، جیسے ہی صبح نماز فجر سے فارغ ہوئے، امام صاحب نے اعلان کیا کہ ہمارے پیر و مرشد جو کہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے کامل بزرگ ہیں، مہاجر کیمپ تشریف فرما ہو چکے ہیں، جمعہ کی نماز یہاں آکر پڑھیں گے۔ مہاجر کیمپ سے جب آپ تشریف فرما ہوئے تو بعینہ وہی صورت نظر آئی جو خواب میں دیکھ چکا تھا۔ یہ بزرگ میرے پیر و مرشد حضرت سوہنا سائیں نور اللہ مرقدہ تھے، جن سے بیعت ہوکر میں نے داڑھی رکھ لی، اور دوسرے نیک کاموں سے مزید دلچسپی بھی پیدا ہوئی، اس کے علاوہ دنیاوی طور پر بھی رزق میں زیادہ وسعت ہوئی۔
بشکریہ: اصلاح المسلمین
 
Top