• Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے طریقہ کے لیے فورم کے استعمال کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں ۔ پھر بھی اگر آپ کو فورم کے استعمال کا طریقہ نہ آئیے تو آپ فورم منتظم اعلیٰ سے رابطہ کریں اور اگر آپ کے پاس سکائیپ کی سہولت میسر ہے تو سکائیپ کال کریں ہماری سکائیپ آئی ڈی یہ ہے urduinملاحظہ فرمائیں ۔ فیس بک پر ہمارے گروپ کو ضرور جوائن کریں قادیانی مناظرہ گروپ
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • Photo of Milford Sound in New Zealand
  • ختم نبوت فورم پر مہمان کو خوش آمدید ۔ فورم میں پوسٹنگ کے لیے آپ کو اردو کی بورڈ کی ضرورت ہوگی کیونکہ اپ گریڈنگ کے بعد بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر اردو پیڈ کر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آپ پاک اردو انسٹالر کو ڈاؤن لوڈ کر کے اپنے سسٹم پر انسٹال کر لیں پاک اردو انسٹالر

ایک عیسائی مصنف کا مرزا غلام احمد قادیانی کو جواب

محمود بھائی

رکن ختم نبوت فورم
پراجیکٹ ممبر

نور القرآن حصہ دوم مرزا غلام احمد قادیانی (اللہ اُن کی مغفرت کرے)کی ناپاک تصنیف ہے۔ اس کتاب میں مسیح اور مسیحیت کی سخت ہتک کرکے مسیحیوں کی شدید دل آزاری کی گئی ہے۔ ایک نمونہ ملاحظہ ہو۔ جس سے معلوم ہوجائے گا کہ یہ شخص کس قدر بد زبان جھوٹا اور بدباطن تھا وہو ہذا۔


" آپ کے یسوع صاحب کی نسبت کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کب تک اُن کے حال پر رویں۔ کیا یہ مناسب تھا کہ ایک زانیہ عورت کو یہ موقع دیتا کہ وہ عین جوانی اور حُسن کی حالت میں ننگے سر اُس سے مل کر بیٹھے اورنہایت ناز اور نخرے سے اُس کے پاؤں پر اپنے بال ملتی اورحرامکاری کے عطر سے اُس کے سر پر مالش کرتی اگر یسوع کا دل بدخیالات سے پاک ہوتا توکسی عورت کونزدیک آنے سے ضرور منع کرتا مگر ایسے لوگوں کو حرامکار عورتوں کوچھونے سے مزاآتا ہے۔ وہ ایسے نفسانی موقع پر کسی ناصح کی نصیحت بھی نہیں سنا کرتے ۔ دیکھو یسوع کوایک غیر تمند بزرگ نے نصیحت کے ارادہ سے روکنا چاہا کہ ایسی حرکت کرنا مناسب نہیں مگر یسوع نے اُس کے چہر کی ترش روئی سے سمجھ لیا کہ میری اس حرکت سے یہ شخص بیزار ہے توروندوں کی طرح یہ اعتراض کوباتوں میں ٹال دیا اور دعویٰ کیاکہ یہ کنجری بڑی اخلاص مند ہے۔ ایسا اخلاص توتجھ میں بھی نہیں پایا گیا۔سبحان اللہ !یہ کیا عمدہ جواب ہے۔ یسوع صاحب ایک زناکار عورت کی تعریف کررہے ہیں کہ بڑی نیک بخت ہے۔ دعویٰ خدائی کا اور کام ایسے۔ بھلا وہ شخص جوہروقت شراب سے سرمست رہتا ہے اور کنجریوں سے میل جول رکھتاہے اور کھانے پینے میں بھی ایسا اول نمبر کا جولوگوں میں یہ اُس کا نام ہی پڑگیا ہو ہے ک یہ کھاؤ پیو ہے۔ اس سے کس تقویٰ اورنیک بختی کی اُمید ہوسکتی ہے۔ کون عقلمند اورپرہیزگار ایسے شخص کوپاک باطن سمجھے گا جو جوان عورتوں کو چھونے سے پرہیز نہیں کرتا۔ ایک کنجری خوبصورت ایسی قریب بیٹھی ہے گویا بغل میں ہے کبھی ہاتھ لمبا کرکے سرپر عطر مل رہی ہے ۔کبھی پیروں کو پکڑتی ہے اورکبھی اپنے خوشنما اور سیا بالوں کوپیروں پر رکھ دیتی ہے اور گود میں میں تماشہ کررہی ہے ۔ یسوع صاحب اس حالتِ وجد میں بیٹھے ہیں اور کوئی اعتراض کرنے لگے تو اُس کو جھڑک دیتے ہیں اور طرفہ یہ کہ عمر جوان اور شراب پینے کی عادت اورپھر مجرد اورایک خوبصورت کسبی عورت سامنے بیٹھی ہے۔ جسم کے ساتھ جسم لگارہی ہے ۔ کیا یہ نیک آدمیوں کا کام ہے اور اس پر کیا دلیل ہے کہ اس کسبی کے چھونے سے یسوع کی شہوت نے جنبش نہیں کی تھی افسوس کہ یہ بھی میسر نہیں تھا کہ اس فاسقہ پر نظر ڈالنے کے بعد اپنی کسی بیوی سے صحبت کرلیتا ۔ کمبخت زانیہ کے چھونے سے اورنازودادا کرنے سے کیا کچھ نفسانی جذبات پیدا ہوئے ہوں گے اور شہوت کے جوش نے پورے طورپر کام کیا ہوگا۔اسی وجہ سے یسوع کے منہ سے یہ بھی نہ نکلا کہ اے حرامکار عورت مجھ سے دو ر رہ اور یہ بات انجیل سے ثابت ہوتی ہے کہ وہ عورت طوائف میں سے تھی اور زناکاری میں سارے شہر میں مشہور تھی"(نور القرآن حصہ دوم۔ سلسلہ تصنیفات جلد ہفتم صفحات (۴۸۔ ۴۹۔ ۴۳۳۶۔۴۳۳۷)۔


مرزا صاحب کہتے ہیں کہ یسوع کے بارے میں ہم کیا کہیں اورکیا بولیں ۔ مرزا صاحب یسوع کے بارے میں وہی کہیں اور بولیں جو بولنا اُن کا شیوہ ہے یسوع کے بارے میں نرا جھوٹ کہیں اور بولیں۔ جیساکہ اُنہوں نے اس اقتباس میں کہا اور بولا۔ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ کب تک اُن کے حال پر روویں۔میرے آقا ومولا سیدنا عیسیٰ کا حال یہ ہے کہ آپ بے گناہ تھے ۔اول درجہ کے نیک اور بھلائی کرنے والے تھے۔ ابن اللہ ہیں دنیا کے نجات دہندہ ہیں ۔جو لوگ آپ کے اس حال پر ایمان نہیں لاتے اُنہیں اس حال پر ابد تک رونا پڑے گا کیونکہ وہ دوزخ میں رورو کر کہیں گے کہ اگرہم اس حال پر ایمان لاتے توہمیں ابدی رونا نہ پڑتا۔ اُس عورت کا مل کر بیٹھنا انجیل میں نہیں لکھا ۔ یہ مرزا صاحب کا محض حضرتِ اقدس پن ہے کہ انجیل میں نخرے سے پاؤں ملنا بھی انجیل میں مذکور نہیں ۔ یہ بھی محض بکواس ہے۔ عطر کا حرامکاری کی کمائی ہونا بھی مذکور نہیں ۔ یہ جھوٹ ہے۔ انجیل میں اُس کو طوائف میں سے زناکاری میں سارے شہر میں مشہور اورراکیہ بھی نہیں کہا گیا ہے۔ یونانی انجیل لوقا رکوع ۷آیت ۳۷اُسے اُس شہر کی گنہگار عورت کہا گیا ہے۔ یونانی لفظ کامطلب بدچلن نہیں ہے۔ یونانی لفظ کا ترجمہ بدچلن تفسیری ترجمہ ہو توہو لیکن لفظی اور لغوی ترجمہ نہیں ہے۔ اس باب کی ۲۹ آیت میں جنابِ مسیح نے سخت سے سخت قسم کے گنہگاروں کا ذکر کیا کہ اُنہوں نے خدا کو راستباز مان لیا ۔ اس سے اس گنہگار عورت کو بھی توبہ کرکے خدا کو راستباز مان لینے کی جرات ہوگئی اورجہاں یسوع تھا وہاں اُس کی تعظیم کرنے اوراُس سے محبت کرنے اوراپنے گناہوں سے توبہ کرنے کے لئے چلی گئی۔ تیل تعظیماً بزرگوں کے سرپر ڈالا جاتا تھا ۔یہ کوئی انوکھی اور نادربات نہیں تھی۔ وہ تعظیم میں اس سے بھی آگے بڑھ گئی اوراس قدر تعظیم کی کہ تیل بجائے اُس کے سر پر ڈالنے کے اُس کے پاؤں پر ڈالا اوراُس کے پاؤں کو اپنے سر کے بالوں سے پونچھا کیونکہ اُس کے پاس کوئی رومال نہیں تھا۔مرزا صاحب کہتے ہیں کہ اگر یسوع کا دل بد خیالات سے پاک ہوتا تووہ کسبی عورت کو اپنے پاس نہ آنے دیتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عورتیں اُس کے پاس بلاخدشہ جاتی تھیں۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اُس کا دل خیالات بد سے ہمیشہ خالی رہتاہے۔ وہ بے دھڑک اُس کے پاس جاتی تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ یہ مرزا صاحب نہیں ہے جوہمارے بارے میں اپنی آسمانی منکوحیں ہونے کے اعلان شروع کردے گا۔ اگراُس کے پاس توبہ کرنے والے گنہگار نہ آتے توکون آتے؟ بیماروں ہی کو طبیب درکارہوتاہے ۔ پاجی نبیوں کوگنہگاروں پر رحم اورترس نہیں آتا۔وہ اُنہیں دھتکار کر دُور رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ وہ عورت یسوع کے پیچھے کھڑی تھی۔ آگے نہیں کھڑی تھی ۔ جب شمعون نے بھی مرزا صاحب کا سا خیال کیا کہ یسوع کو چاہیے تھا کہ وہ اُس گنہگار عورت کواپنے پاس نہ پھٹکنے دیتا۔ تب یسوع نے پھر کر اُس عورت کی طرف دیکھااور وہ بھی اُس کا مقابلہ شمعون سے کرنے کے لئے ۔ یسوع نے اُس عورت کی طرف دیکھا بھی نہیں تھا۔ وہ کھا نا کھا رہا تھا ۔ یہودی لوگ کھانا کھاتے وقت بائیں ہاتھ پر جھکے ہوئے ہوتے تھے اور پاؤں پیچھے کو کئے ہوئے ہوتے تھے۔ اسی لئے تائبہ کو اُس کی پچھلی طرف کھڑے ہوکر اُس کے پاؤں پر تیل ڈالنے کا موقع مل گیا۔


یسوع پھر مجلس میں کھانا کھا رہا تھا نہ اُس سے نازونخرے کروارہا تھا اورنہ اُسے گود میں ڈالا ہوا تھا نہ اُسے پاس بٹھایا ہوا تھا۔ نہ فریسی ترش رُو ہوا تھا نہ یسوع نے رندوں کی طرح اعتراض کوٹالا تھا۔ اعتراض نہایت نامعقول اور معرفت سے دور تھا اوراُس کا جواب سیدنا مسیح نے نہایت پُر معرفت دیا۔ سیدنا مسیح کے جواب کو رندوں کا ساجواب کوئی رند ہی کہہ سکتاہے۔ وہ عورت گنہگار تو تھی لیکن اُس کا کنجری ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا نہ مرزا صاحب ثابت کرسکے اورنہ کوئی مرزائی اُسے کنجری ثابت کرسکتاہے۔اُسے کنجری کوئی بدباطن ہی کہہ سکتاہے۔ شمعون فریسی تیل ملنے کے بارے میں معترض نہیں تھا۔ وہ تو فریسیانہ تقدس کا پاس کرکے فریسیانہ روح سے کہتا تھا کہ اُس نے گنہگار عورت کواپن پاس کیوں آنے دیا۔ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ یسوع صاحب ایک زناکار عورت کی تعریف کررہے ہیں۔ یسوع زناکار عورت کی تعریف نہیں کرتے۔ وہ ایک تائبہ کی تعریف کرتے ہیں جس نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور خدا کے فرستادہ کی عزت کی اور اُس سے محبت کی۔ وہ تائب عورت مرزا صاحب جیسے جھوٹ بولنے اور فریب دینے والے شخص سے لاکھوں درجہ بہتر تھی۔ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو حرامکار عورتوں کو چھونے سے مزا آتا ہے ۔ اورہم اس بکواسی شخص سے پوچھتے ہیں کہ یسوع نے تائبہ کوکب چھوا تھا۔ کیا مرزا صاحب کو محمدی بیگم اپنی آسمانی منکوحہ مگر زمینی چٹے جواب کی یاد میں رالیں ٹپکانے اور آنسو بہانے کا مزا نہیں آتا تھا؟ مرزا صاحب نے یسوع کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ہر وقت شراب سے سرمست رہتا تھا۔ یہ بات بھی بالکل جھوٹی ہے۔ مرزا صاحب اُس کو کنجری کہتے ہیں۔ اُسے اُس کے پاس بیٹھنے والی کہتے ہیں ۔ حالانکہ وہ نہ کنجری تھی اور نہ اُس کے آس پاس بیٹھی تھی۔ وہ دور کھڑی تھی اور سامنے نہیں بلکہ اُس کے پیچھے کھڑی تھی۔ مرزا صاحب اُسے اس کے اس قدر پاس بیٹھی ہوئی بتاتے ہیں کہ گویا اُس کی بغل میں تھی۔ ایسا شریف ایسا نیک اور ایسا سچا تو مرزائیوں کا حضرت اقدس ہے۔ اگرایسے حضرات اقدس دوچار اورپیدا ہوجائیں تو سورج سچ مچ مغرب سے نکل آئے ۔ مرزا صاحب کہتےہیں کہ ایسے نفسانی موقع پر کسی ناصح کی نصیحت بھی نہیں سنا کرتے۔ یہ بات بھی مرزا صاحب ہی پر صادق آتی ہے۔ کیونکہ محمدی بیگم کا رشتہ مرزا صاحب کودینے کی بابت محمدی بیگم کے رشتہ دار انکار پر انکار کرتے تھے مگرمرزا صاحب اُس نفسانی موقع پر کسی رشتہ دار کے انکار کونہیں مانتے تھے اوراپنی نفسانی اور شہوت کے طوفان میں پیشینگوئی پر پیشینگوئی جڑتے چلے جاتے تھےجوخیر سے اپنے وقت پرسب کی سب جھوٹی نکلیں۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ وہ عورت اُس کے پاؤں کوپکڑتی اوراپنے خوش نما اور سیاہ بال اُس کے پاؤں پر رکھتی رہی۔ یہ بھی جھوٹی باتیں ہیں۔مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ وہ عورت اُس کے پاؤں کو پکڑتی اوراپنے خوش نما اور سیاہ بال اُس کے پاؤں پر رکھتی رہی۔ یہ بھی جھوٹی باتیں ہیں۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ وہ گود میں تماشہ کررہی تھی۔ مرزائیو! دیکھ لو۔ تمہارا آقائے نامدار کیسا جھوٹا تھا اور یسوع کی جھوٹ گھڑ گھڑ کر کس قدر ہتک کرتا رہا۔ کیا حکومت ایسی نابکار کتاب کو ضبط نہیں کرے گی؟ مرزا صاحب لوگوں کے جھوٹے الزام کی تصدیق اور تائید کرکے اُسے کھاؤ پیو۔ کہتے ہیں حالانکہ اُس نے چالیس دن کا ایک روزہ رکھا تھا اورنہایت سادہ خوراک اعتدال سے کھاتا تھا ۔ شراب ہرگز نہیں پیتا تھا۔ انگور کا بے نشہ رس عام لوگوں کی طرح پیتا تھا۔سب لوگ انگور کا بے نشہ رس پیتے تھے اور وہ بھی استعمال کرتا تھا۔ مرزا صاحب اُس عورت کی بابت لکھتے ہیں کہ گود میں تماشا کررہی ہے۔ یسوع صاحب اسی حالت میں وجد میں بیٹھے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جبکہ وہ عورت یسوع کے پیچھے کھڑی تھی تووہ وجد میں نہیں بیٹھا تھا بلکہ کھانا کھانے میں مصروف تھا وہ فریسی کی درخواست پر کھانا کھانے بیٹھا وجد میں نہیں بیٹھا تھا۔ محمدی بیگم کی یاد میں وجد میں مرزا صاحب بیٹھا کرتے تھے ۔ جُوں جُوں اُس کے رشتہ داروں کی زیادہ منتیں کرتے تھے توں توں اس اُمید پر کہ اب لاتعداد منتوں کی بنا پر رشتہ مل کرر ہے گا۔وجد میں آکر بیٹھے رہتے تھے۔ اورجب ان کی آسمانی منکوحہ کوایک اور شخص بیا ہ کرلے گیا۔ تب کہیں وجد ٹوٹا اوریہ ہوش میں آئےاوراپنی جھوٹی پیشین گوئی کے بارے میں تاویلیں گھڑنے بیٹھ گئے۔ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ کوئی اعتراض کرنے لگے توجھڑک دیتے ہیں۔ مسیح کے چال چلن پر کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا اورنہ مسیح نے اُس موقع پر کسی کوجھڑکا تھا۔یہ بھی ویسی ہی جھوٹی بات ہے جیسی دُوسری باتیں مسیح کے بارے میں جھوٹی لکھی ہیں۔ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ شراب پینے کی عادت اورایک خوبصورت ہی عورت سامنے پڑی ہے۔اس کے جواب میں ہم صرف اتنا کہتےہیں کہ قرآن مجید میں ایسوں کیلئے کیا خوب فرمایاہے کہ جھوٹوں پر خدا کی لعنت۔ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ ایک خوبصورت کسبی عورت سامنے پڑی ہے۔ جسم سے جسم لگارہی ہے۔ مرزا صاحب کی اُس بات کومرزائی کبھی بھی سچی ثابت نہیں کرسکتے۔ لہذا جس کتاب میں ایسے جھوٹے کلمات کے ذریعے سے مسیح کی ایسی سخت ہتک کی گئی ہے۔ اُس کتاب کوبالضرور اورجلد از جلد ضبط فرمانا چاہیے۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ اس پر کیا دلیل ہے کہ اس کسبی کے چھونے سے یسوع کی شہوت نے جنبش نہیں کی تھی۔ جواباً عرض ہے کہ اُس تائب عورت نے یسوع کونہیں چھوا تھا۔ اُس نے اپنے بالوں سے اُس کے پاؤں پونچھے تھے۔ اس پر کیا دلیل ہے کہ اُس کسبی کے اپنے بالوں سے یسوع کے پاؤں پونچھنے سے یسوع کی شہوت نے جنبش کی تھی۔ چونکہ مرزا صاحب نے اس پر کوئی دلیل نہیں دی اور کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ اس لئے ہم اسے مسیح کی ہتک کرنا کہتے ہیں۔ بالوں سے پاؤں پونچھناشہوت کے جنبش میں آنے کی نہ کوئی دلیل ہے اورنہ ثبوت لیکن محمدی بیگم کے بارے میں پیشین گوئی پر پیشین گوئی جڑنا اور منت پر منت کرنا اس بات کی پختہ دلیل ہے کہ مرزا صاحب محمدی بیگم کی چاہت اوریاد میں شہوت میں ڈوبے رہتے تھے لیکن بیچارے نے منہ کی کھائی اوراپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ کیونکہ آسمانی نکاح آسمان ہی پر دھرے کا دھرا رہ گیا اوراُسے زمین پر کسی نہ پوچھا اور مرزا صاحب ساری عمر حسرت سے ہاتھ ملتے رہے۔ تائبہ کےپاؤں پونچھنے سے مسیح کی شہوت کا جنبش میں آنا ناممکن تھا کیونکہ وہ مسیح تھا۔ مرزا غلام احمد قادیانی پنجابی پیغمبر (اللہ اُن کی مغفرت کرے)نہیں تھا۔ مرزاصاحب لکھتے ہیں کہ یسوع کو یہ بھی میسر نہیں تھا کہ اُس فاسقہ پر نظر ڈالنے کے بعد اپنی کسی بیوی سے صحبت کرلیتا۔ جواباً یہ کہ تائبہ پر نظر ڈالنے سے مسیح کو ایسی کوئی ہرگز ضرورت نہیں تھی۔ ایسی حاجت مرزا صاحب ہی کو ساری عمر دامنگیر رہی کیونکہ وہ محمدی بیگم کی یاد میں رالیں ٹپکا ٹپکا کر زمین ترکرتے رہتے تھے اورپھر اُس سے صحبت کرنی نصیب نہیں ہوتی تھی کیونکہ وہ تو صرف آسمانی منکوحہ تھی اور حسرت بھرےدل کے ساتھ کسی اور زمینی منکوحہ کی طرف رُخ پھیرنا پڑا کرتا تھا ۔ یسوع توگنہگاروں کونجات دینے والا تھا اُس کے منہ سے یہ نہیں نکل سکتا تھا کہ اے حرامکارعورت مجھ سے دور رہ ۔ اُس کے منہ سے تویہی نکل سکتا تھا کہ" تیرے گناہ معاف ہوئے ۔ سلامت چلی جا"۔

علامہ پال ارنسٹ

 
Top