ایک مسئلہ
باقی رہا یہ مسئلہ کہ کسی لفظ کا استعمال زیادہ تر اس کے اصل معنی کی بجائے شرعی معنی یا عرفی معنی میں ہونے لگے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اب اصلی معنی میں یہ لفظ کبھی استعمال نہ ہوگا۔ یہ قطعاً غلط ہے۔
پہلی مثال
مثلاً صلوٰۃ کے معنی دعا کے ہیں۔ مگر شرعی اصطلاح میں صلوٰۃ ایک خاص عبادت ہے جس میں رکوع اور سجدے وغیرہ ہوتے ہیں اور قرآن پاک میں اس اصطلاحی معنی میں سینکڑوں جگہ صلوٰۃ کا استعمال ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً قرآن پاک میں ہے۔
’’ وصلّ علیم ان صلوتک سکن لہم (التوبہ:۱۰۳)‘‘ {اور آپ ان کے لئے دعا کریں ۔اس لئے کہ آپ کی دعا ان کے لئے باعث سکون ہے۔}
دوسری مثال
اسی طرح زکوٰۃ کا لفظ ایک خاص معنی میں زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی مالی عبادت کا ایک مخصوص طریقہ۔ مگر اصلی معنی میں بھی بلاروک ٹوک استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً: ’’ وحناناً من لدناوز کوٰۃ وکان تقیاً (مریم:۱۳)‘‘ {اور یحییٰ علیہ السلام کو ہم نے اپنی طرف سے شوق دیا اور ستھرائی اور تھاپرہیزگار۔}
یہاں زکوٰۃ اپنے اصلی معنی پاکی میں مستعمل ہوا۔ یعنی ستھرائی اور پاکیزگی۔ اسی 2524طرح توفی کا لفظ ہے۔ زیادہ تر اس کا استعمال روح کو قبض کرنے میں ہوتا ہے۔ چاہے نیند کی صورت میں ہویا موت کی صورت میں۔ لیکن کبھی اس کا استعمال روح اور جسم دونوں کے قبض کرنے میں بھی ہوتا ہے اور یہی اس کے اصل معنی ہیں۔ یعنی: ’’ اخذ الشیٔ وافیا ‘‘ {کسی چیز کو پوری طرح تو قابو کر لینا۔} جیسے کہ اہل لغت اور مجددین نے کہا ہے۔