(ایک پمفلٹ جس میں مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے کہ…)
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! یہ آپ کی ایک پمفلٹ ہے جو کہ ’’ہماری تعلیم‘‘ کے نام سے ہے، اور یہ مرزا بشیر احمد صاحب نے Edit کیا ہے، اور لکھا ہے اس کے صفحہ:۳۰ پر: ’’اے علمائے اسلام۔۔۔۔۔۔‘‘ میں ابھی آپ کو دے دیتا ہوں یہ پمفلٹ۔
مرزا ناصر احمد: شاید، ہاں۔
جناب یحییٰ بختیار: تو اس میں وہ اسی بات پر کہ لڑائیوں کے بارے میں اسلام کون سی اجازت دیتا ہے، کہتے ہیں کہ: ’’نمبر ایک کہ جب آنحضرتa کے وقت لڑائیاں کی گئی تھیں وہ لڑائیاں جبراً دِین کو شائع کرنے کے لئے نہیں تھیں۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ تو ہم سب کا اِتفاق ہے اس پر۔ اس کے بعد: ’’۔۔۔۔۔۔ بلکہ یا تو بطور سزا تھیں، یعنی ان لوگوں کو سزا دینا منظور تھا جنہوں نے ایک گروہِ کثیر مسلمانوں کو قتل کردیا۔۔۔۔۔۔‘‘
1324اس پر پھر Detail (تفصیل) میں جاتے ہیں۔ پھر:’’نمبر۲ وہ لڑائیاں ہیں جو بطور مدافعت تھیں، یعنی جو لوگ اسلام کو نابود کرنے کے لئے پیش قدمی کرتے تھے۔‘‘
یہ دُوسری پھر Detail (تفصیل) میں وجہ جاتی ہے۔ ’’تیسرے ملک کی آزادی پیدا کرنے کے لئے لڑائی کی جاتی تھی۔‘‘ یہ انگریزوں کے زمانے کی ہے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: یہ میں اس کا مطلب بتادوں؟ یہ میں دیکھ سکتا ہوں؟
جناب یحییٰ بختیار: یہ پندرہواں ایڈیشن جو ہے ۱۹۶۵ء کا، Pages 30-31 (صفحات)
مرزا ناصر احمد: ہاں، ہاں، میں۔۔۔۔۔۔
Mr. Yahya Bakhtiar: Pages 30-31.
(جناب یحییٰ بختیار: ۳۰-۳۱ صفحات) (Pause)
مرزا ناصر احمد: جی، یہاں پر وہ جو عبارت ہے، وہ میں ذرا دوچار آگے پیچھے سے فقرے…
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، وہ بے شک آپ کرسکتے ہیں۔
مرزا ناصر احمد: آپ نے لکھا کہ: ’’قرآن شریف میں کہاں لکھا ہے کہ مذہب کے لئے جبر دُرست ہے؟‘‘
جناب یحییٰ بختیار: مرزا صاحب! وہ تو ڈسکس ہوچکا ہے۔۔۔۔۔۔
مرزا ناصر احمد: نہیں، نہیں، وہ میں آگے۔۔۔۔۔۔
جناب یحییٰ بختیار: ۔۔۔۔۔۔ سب Agree (اتفاق) کرتے ہیں اس سے۔ آپ میں ہم میں کوئی اِختلاف ہی نہیں۔
1325مرزا ناصر احمد: اوہ! اس میں اس کا جواب آجاتا ہے۔
جناب یحییٰ بختیار: ہاں، ہاں، فرمائیے آپ۔
مرزا ناصر احمد: ’’قرآن شریف میں کہاں لکھا ہے کہ مذہب کے لئے جبر دُرست ہے؟ بلکہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ یعنی دِین میں جبر نہیں۔ پھر مسیح ابن مریم کو جبر کا اِختیار کیونکر دیا جائے گا؟ سارا قرآن باربار کہہ رہا ہے کہ دِین میں جبر نہیں ہے اور صاف طور پر ظاہر کر رہا ہے کہ جن لوگوں سے آنحضرتa کے وقت لڑائیاں کی گئی تھیں وہ لڑائیاں دِین کو جبراً شائع کرنے کے لئے نہیں تھیں بلکہ یا بطور سزا تھیں، یعنی ان لوگوں کو سزا دینا منظور تھا جنہوں نے ایک گروہ کثیر مسلمانوں کو قتل کردیا اور بعض کو وطن سے نکال دیا تھا اور نہایت سخت ظلم کیا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اُذن للذین یقٰتلون بأنھم ظلموا وان اﷲ علٰی نصرھم لقدیر‘‘ یعنی ان مسلمانوں کو، جن سے کفار جنگ کر رہے ہیں، بسبب مظلوم ہونے کے، مقابلہ کرنے کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے کہ جو ان کی مدد کرے۔
نمبر۲ وہ لڑائیاں ہیں جو بطورِ مدافعت ہیں۔ یعنی وہ پہلا ہے Within the Country (اندرون ملک) یعنی کفارِ مکہ جو تھے، وہ اپنے عرب کے علاقے میں انہوں نے مسلمانوں پر ظلم کیا، قتل کیا، خود مکہ کے اندر بڑے ظلم کئے۔ دُوسرا باہر سے حملہ آور ہوئی ہے فوج:
’’۔۔۔۔۔۔ وہ لڑائیاں ہیں جو بطور مدافعت ہوئیں۔ یعنی جو لوگ اسلام کو نابود کرنے کے لئے پیش قدمی کرتے تھے یا اپنے ملک میں اسلام کے شائع ہونے سے جبراً روکتے تھے، ان سے بطور حفاظت خوداختیاری لڑائی کی جاتی تھی۔‘‘ 1326یہ دو ہوگئے: ’’تیسرے ملک میں آزادی پیدا کرنے کے لئے لڑائی کی جاتی تھی۔‘‘
یہاں جو چیز میں سمجھتا ہوں، پہلے بھی، یعنی ہمارے۔ یہ تو اَب میں نے دیکھا ہے، یہاں بھی وہی، اور جگہ بھی مضمون ہوا ہے یہ ادا۔ یہ ہے کہ اگر ملک میں کوئی حکومت، اپنی ہو یا غیر، کسی کو مذہبی آزادی نہ دے۔ یہاں دِین کی لڑائی ہے اور مذہبی آزادی ہے ’’آزادی‘‘ سے مراد دِین کی لڑائی میں مذہبی آزادی ہوتی ہے۔ جب مذہبی آزادی نہ دے اور نماز پڑھنے سے مثلاً روکے مسلمان کو، روزہ رکھنے سے روکے، یا جس طرح سکھوں نے کیا تھا کہ اَذان دینے سے بھی روکتے تھے، تو جب اندرون ملک مذہبی آزادی نہ ہو اور کوئی راستہ ان کے لئے نہ ہو اپنے حقوق کے حصول کا، تو اس وقت ان کو لڑنے کی اِجازت ہے۔